بدھ، 9 اپریل، 2025

داتا صاحب کی ایک اصطلاح

داتا صاحب نے کشف المجوب میں  "جاہل عالم" کی آصطلاح استعمال کی ہے ۔ کیا عالم بھی جاہل ہو سکتا ہے کے بارے میں: 

"جاہل عالم" ایک ایسا شخص ہوتا ہے جو ظاہری طور پر علم رکھتا ہو، یعنی قرآن، حدیث، فقہ یا دوسرے دینی علوم کا مطالعہ یا تعلیم حاصل کر چکا ہو، لیکن اس کے علم میں تقویٰ، اخلاص، فہم، اور عمل کی روح نہ ہو۔ وہ علم کا دعویدار تو ہو، مگر اس علم پر عمل نہ کرتا ہو یا اسے غلط استعمال کرتا ہو۔

ایسا شخص دوسروں کو گمراہ کر سکتا ہے کیونکہ لوگ اس کے ظاہر کے دھوکے میں آ جاتے ہیں۔


🔹 قرآن و حدیث کی روشنی میں "جاہل عالم"

قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

"مثل الذین حملوا التوراة ثم لم يحملوها كمثل الحمار يحمل أسفارا"
(سورہ الجمعہ، آیت 5)
ترجمہ: "ان لوگوں کی مثال جنہیں تورات دی گئی مگر انہوں نے اس پر عمل نہ کیا، اس گدھے کی مانند ہے جو کتابیں اٹھائے ہوئے ہو۔"

یہ آیت ان لوگوں کے لیے ہے جن کے پاس علم تو ہے، مگر وہ اس پر عمل نہیں کرتے۔


🔹 حدیث کی روشنی میں

حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے منسوب قول ہے:

"دو طرح کے لوگ دین کو تباہ کرتے ہیں: جاہل عابد اور فاسق عالم۔"

یعنی:

  • جاہل عبادت گزار: جسے علم نہیں لیکن شدت سے عمل کرتا ہے، مگر غلطی پر ہوتا ہے۔

  • فاسق عالم: جس کے پاس علم ہے، مگر وہ گناہ کرتا ہے، غلط فتویٰ دیتا ہے، یا دنیا کے فائدے کے لیے دین بیچتا ہے۔


🔹 حقیقی مثال: بلعام بن باعوراء

بلعام بن باعوراء کا ذکر قرآن میں آتا ہے۔ وہ ایک عالم تھا، اللہ کا مقرب بندہ تھا، دعائیں قبول ہوتی تھیں۔ لیکن وہ دنیا کے مال و دولت کے پیچھے لگ گیا، اور اللہ کی نافرمانی کی۔

قرآن نے اس کے بارے میں فرمایا:

"فانسلخ منها فاتبعه الشيطان فكان من الغاوين"
(سورہ الأعراف، آیت 175)

ترجمہ: "پھر وہ اس (اللہ کی آیات) سے باہر نکل گیا، شیطان اس کے پیچھے لگ گیا، اور وہ گمراہوں میں شامل ہو گیا۔"

یہ جاہل عالم کی سب سے واضح اور تاریخی مثال ہے۔


🔹 آج کے دور میں جاہل عالم کی شکل:

  • وہ جو دینی علم کو دنیا کمانے کے لیے استعمال کرے۔

  • وہ جو سچ چھپا لے، یا فتوے بیچ دے۔

  • جو فرقہ پرستی کو ہوا دے، امت کو تقسیم کرے۔

  • جو شہرت یا پیسے کے لیے جھوٹ بولے یا دین کو آسان/سخت بنا کر پیش کرے، جیسے عوام چاہے۔


🔸 نتیجہ:

"جاہل عالم" ایک خطرناک شخصیت ہے جو لوگوں کو دین کے نام پر گمراہ کر سکتی ہے۔ اس لیے دین کے سچے عالم کی پہچان صرف علم سے نہیں، بلکہ اس کے کردار، تقویٰ، اخلاص، اور عاجزی سے ہوتی ہے۔

داتا صاحب پر شرک کے الزامات

 حضرت داتا گنج بخش علی ہجویریؒ پر شرک کے الزامات کچھ مخالفین کی جانب سے لگائے گئے تھے، تاہم یہ الزامات نہ صرف بے بنیاد تھے بلکہ حضرت کی روحانی عظمت اور اسلامی تعلیمات کے خلاف تھے۔ اس وقت کے بعض متعصب علماء اور مخالفین جو تصوف اور صوفیاء کے طریقے کو نہیں سمجھتے تھے، نے حضرت داتا گنج بخشؒ پر ایسی باتیں کہی تھیں۔ تاہم، یہ الزامات حضرت داتا گنج بخشؒ کے علمی و روحانی مقام اور کردار کو متاثر نہیں کر سکے۔

1. تصوف پر اعتراضات

کچھ علماء نے اس وقت تصوف کے بعض رسومات پر اعتراض کیا تھا، جیسے کہ قبر پر حاضری، اولیاء اللہ کی زیارت، اور ان سے برکت کی توقع رکھنا۔ ان علماء کا خیال تھا کہ یہ چیزیں شرک کی جانب لے جا سکتی ہیں، حالانکہ حضرت داتا گنج بخشؒ نے ہمیشہ ان الزامات کو رد کیا اور تصوف کو شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے پیش کیا۔ آپ کا ہمیشہ یہ موقف تھا کہ تصوف کا اصل مقصد اللہ کے قریب ہونا اور اس کے نور سے اپنے دل کو روشن کرنا ہے۔

2. حضرت کی کرامات

حضرت داتا گنج بخشؒ کی کرامات بھی مخالفین کے نشانے پر رہیں۔ ان کرامات کو بعض افراد نے مبالغہ یا شرک کا ذریعہ قرار دیا، حالانکہ ان کرامات کا مقصد لوگوں کو اللہ کی طرف راغب کرنا اور ان کی زندگیوں میں تبدیلی لانا تھا۔ حضرت داتا گنج بخشؒ نے ہمیشہ ان کرامات کو اللہ کی مدد اور توفیق کا نتیجہ قرار دیا، اور خود کو اللہ کا معترف اور اس کے سوا کسی کو نہیں مانا۔

3. عوام کا عقیدہ

آپ کی مقبولیت کے باوجود بعض مخالفین نے عوام کے درمیان حضرت کی شخصیت اور کرامات کی طرف بڑھتے ہوئے عقیدے پر بھی اعتراض کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ لوگ حضرت داتا گنج بخشؒ کو اللہ کے مقام پر سمجھنے لگے ہیں اور ان سے غیر ضروری عقیدت ظاہر کرتے ہیں۔ تاہم، حضرت داتا گنج بخشؒ نے اپنی تعلیمات میں ہمیشہ اللہ کی عبادت اور توحید کو نمایاں کیا، اور کبھی بھی اپنی ذات کو کسی قسم کی عبادت یا پرستش کا لائق نہیں سمجھا۔

4. مسجد و خانقاہ کی زیارت پر اعتراضات

حضرت داتا گنج بخشؒ کی خانقاہ اور دربار کی زیارت بھی کچھ لوگوں کے لیے شرک کا باعث سمجھی جاتی تھی۔ تاہم، حضرت داتا گنج بخشؒ نے اپنی زندگی میں یہ واضح کیا کہ لوگوں کو آپ کی زیارت اور دعا کی ضرورت اس لیے نہیں تھی کہ آپ کو اللہ کا شریک سمجھا جائے، بلکہ یہ اس لیے تھی کہ آپ کی دعا اور تعلق اللہ سے تھا، اور آپ کا مقصد صرف اللہ کی رضا حاصل کرنا تھا۔

5. دینی و فقہی جوابات

حضرت داتا گنج بخشؒ نے ان تمام الزامات کا فکری اور دینی جوابات دیے۔ آپ نے ہمیشہ اپنے پیروکاروں کو یہ سمجھایا کہ تصوف اور اولیاء اللہ کا احترام صرف اللہ کی رضا کے لیے کیا جانا چاہیے، اور ان کی زیارت اور ان سے برکت کا مقصد اللہ کی مدد کی طلب ہوتا ہے، نہ کہ کسی طور پر ان کے مقام کو اللہ کے برابر سمجھنا۔

نتیجہ

حضرت داتا گنج بخشؒ کی شخصیت، علم، اور کرامات نے ان الزامات کا بھرپور جواب دیا۔ آپ کا پورا پیغام اللہ کی وحدانیت اور اس کی رضا کے حصول کے لیے تھا، اور آپ کی زندگی میں کوئی بھی ایسا عمل نہیں تھا جو شرک کی طرف اشارہ کرتا ہو۔ آپ کی تصوف کی تعلیمات اور عمل اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ آپ کا مقصد صرف اور صرف اللہ کی عبادت اور اس کے قریب جانا تھا، اور آپ نے ہمیشہ اپنے پیروکاروں کو اس ہی راستے کی طرف رہنمائی کی۔داتا 

داتا صاحب کی تصنیبات

 حضرت داتا گنج بخش علی ہجویریؒ کی تصنیفات نے تصوف، علمِ حدیث، فقہ، اور روحانیت میں بے شمار لوگوں کی رہنمائی کی۔ آپ کی سب سے مشہور تصنیف "کشف المحجوب" ہے، جو تصوف کے حوالے سے ایک انتہائی اہم کتاب سمجھی جاتی ہے۔ تاہم آپ کی دیگر بھی کچھ تصنیفات ہیں جو اسلامی علوم اور تصوف کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہیں۔ آئیے، ان کی تصنیفات پر ایک نظر ڈالتے ہیں:

1. کشف المحجوب

"کشف المحجوب" حضرت داتا گنج بخشؒ کی سب سے معروف اور اہم تصنیف ہے۔ یہ کتاب تصوف کے بنیادی مسائل کو بیان کرتی ہے اور صوفیانہ علوم کی وضاحت کرتی ہے۔ اس کتاب میں آپ نے تصوف کی حقیقت، اس کے مختلف مراحل، اور صوفیاء کی زندگی کے اصولوں پر روشنی ڈالی ہے۔ آپ نے تصوف کو شریعت کے دائرے میں رکھتے ہوئے اس کی تعلیمات کو بیان کیا۔
کشف المحجوب آج بھی تصوف کے حوالے سے ایک اہم کتاب سمجھی جاتی ہے اور دنیا بھر میں پڑھی جاتی ہے۔

2. مقالات

حضرت داتا گنج بخشؒ کی "مقالات" بھی ایک اہم تصنیف ہے، جس میں آپ نے اپنے روحانی تجربات، تعلیمات، اور مکتبۂ فکر کو بیان کیا ہے۔ اس کتاب میں آپ کے اقوال و نصائح، اور مسلمانوں کے لیے عملی زندگی کے بارے میں راہنمائی ملتی ہے۔

3. فتوح الغیب

"فتوح الغیب" ایک دوسری اہم کتاب ہے جس میں آپ نے غیب کے علوم اور روحانی کمالات پر گفتگو کی ہے۔ یہ کتاب تصوف کے اندرونی اور غیبی پہلوؤں کو اجاگر کرتی ہے اور روحانیت کی گہری حقیقتوں کو بیان کرتی ہے۔

4. رسالہ فقر

حضرت داتا گنج بخشؒ کا "رسالہ فقر" بھی ایک اہم تصنیف ہے جس میں فقر (یعنی روحانی غربت) کی حقیقت اور اس کی اہمیت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس کتاب میں فقر کی روحانیت سے متعلق آپ کی تعلیمات بیان کی گئی ہیں۔

5. تفسیر القرآن

حضرت داتا گنج بخشؒ کی ایک اور تصنیف "تفسیر القرآن" بھی ہے، جس میں آپ نے قرآن کی بعض آیات کی تفسیر کی ہے۔ اس کتاب میں آپ نے قرآن کے روحانی، فلسفیانہ، اور اخلاقی پہلوؤں کو اجاگر کیا ہے اور مسلمانوں کو قرآن کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی ترغیب دی ہے۔


یہ تھیں حضرت داتا گنج بخشؒ کی کچھ اہم تصنیفات، جنہوں نے اسلامی تصوف، علمِ دین، اور روحانیت میں اہم مقام حاصل کیا۔ ان کی تعلیمات آج بھی روحانیت کے طالب علموں کے لیے رہنمائی کا باعث ہیں۔

داتا صاحب کامیابیاں

 حضرت داتا گنج بخش علی ہجویریؒ کی کامیابیاں محض ان کے دور کے لیے ہی نہیں تھیں بلکہ وہ آج تک روحانیت، علم، اور خدمتِ انسانیت کے ایک عظیم مینار کے طور پر قائم و دائم ہیں۔ ان کی کامیابیاں مختلف میدانوں میں نمایاں نظر آتی ہیں:


1. روحانیت و ولایت کا فروغ

حضرت داتا گنج بخشؒ نے برصغیر میں تصوف اور روحانیت کی بنیادوں کو مضبوط کیا۔ آپ نے دلوں کو اللہ کی طرف موڑا، نفس کی اصلاح، تزکیۂ قلب، اور عشقِ حقیقی کی تعلیم دی۔ آپ کی خانقاہ لوگوں کے لیے روحانی سکون کا مرکز بنی۔

2. علم و حکمت کی اشاعت

آپ نہ صرف ولی اللہ تھے بلکہ ایک عظیم عالم بھی تھے۔ آپ نے قرآن، حدیث، فقہ، عقیدہ، اور تصوف کو عام فہم انداز میں پیش کیا۔
آپ کی مشہور تصنیف "کشف المحجوب" تصوف کی اولین اور مستند ترین کتابوں میں شمار ہوتی ہے، جو آج بھی دنیا بھر میں پڑھی اور سمجھی جاتی ہے۔

3. لوگوں کی اصلاح

آپ نے عملی طور پر لوگوں کو اخلاق، سچائی، دیانتداری، اور محبت کا درس دیا۔ آپ کی تعلیمات نے شرک، بدعات، اور سماجی برائیوں کا خاتمہ کیا۔ بہت سے غیر مسلم بھی آپ کی تبلیغ اور کردار سے متاثر ہو کر اسلام قبول کر گئے۔

4. مسجد و خانقاہ کا قیام

حضرت نے لاہور میں ایک مسجد اور خانقاہ کی بنیاد رکھی، جو نہ صرف عبادت کا مرکز بنی بلکہ علم و عرفان، تعلیم و تربیت، اور خدمتِ خلق کا گہوارہ بن گئی۔
یہی مقام آج داتا دربار کہلاتا ہے، جو برصغیر کا سب سے بڑا روحانی مرکز تصور کیا جاتا ہے۔

5. تصوف کو شریعت سے جوڑنا

آپ نے واضح کیا کہ حقیقی تصوف وہی ہے جو شریعت کی روشنی میں ہو۔ کشف، کرامات، اور روحانی کمالات کو شریعت سے ہٹ کر نہیں مانا۔ اس نے تصوف کو اعتدال اور دین کے دائرے میں رکھا، جو آج بھی مستند سمجھا جاتا ہے۔

6. عوام و خواص دونوں میں مقبولیت

آپ کا فیض صرف عوام تک محدود نہیں تھا، بلکہ علماء، صوفیاء، اور حکمران طبقہ بھی آپ کی مجلس میں آ کر ہدایت لیتے تھے۔ آپ کی ذات ہر طبقے کے لیے رحمت ثابت ہوئی۔


اگر چاہیں تو میں داتا صاحبؒ کی ان کامیابیوں کو اقوال، واقعات، اور ان کے اثرات کے ساتھ مزید تفصیل سے بھی بیان کر سکتا ہوں۔

داتا صاحب ۔ جب لاہور آئے


علی ہجویری المعروف داتا گنج بخشؒ کے لاہور آنے سے پہلے کے حالات و واقعات جاننے کے لیے ہمیں اُس دور کے سیاسی، سماجی، مذہبی، اور ثقافتی پس منظر کا جائزہ لینا ہوگا۔ علی ہجویریؒ گیارہویں صدی عیسوی میں غزنی (موجودہ افغانستان) سے تعلق رکھتے تھے اور وہ حضرت جنید بغدادیؒ کے روحانی سلسلے سے وابستہ تھے۔

1. لاہور کی سیاسی صورت حال

داتا صاحبؒ کے لاہور آنے سے قبل یہ شہر غزنوی سلطنت کے زیر اثر تھا۔ محمود غزنوی نے کئی مرتبہ ہندوستان پر حملے کیے اور لاہور کو بھی فتح کیا۔ اس کے بعد لاہور غزنوی سلطنت کا ایک اہم شہر بن گیا، لیکن اندرونی طور پر یہ سیاسی طور پر کمزور اور غیر مستحکم تھا۔

2. سماجی و ثقافتی حالات

لاہور اُس وقت مختلف مذاہب اور ثقافتوں کا مرکز تھا۔ ہندو، بدھ، اور دوسرے مقامی مذاہب کے پیروکار یہاں رہتے تھے۔ اسلام اگرچہ آ چکا تھا، لیکن عام لوگوں میں اس کی تعلیمات رائج نہ تھیں۔ برہمن واد، ذات پات، اور روحانی گمراہی عام تھی۔

3. دینی و روحانی فضا

اسلامی تعلیمات محدود تھیں، اور صوفیاء کرام کا کردار اس وقت اہم ہونے لگا تھا تاکہ وہ دین کو دلوں تک پہنچائیں۔ لاہور میں اُس وقت اسلام ایک اجنبی مذہب تھا۔ نہ مدارس تھے نہ خانقاہیں۔ عوام الناس کی روحانی پیاس بجھانے کے لیے کوئی مؤثر نظام موجود نہیں تھا۔

4. داتا صاحبؒ کی آمد کا پس منظر

داتا گنج بخشؒ کو ان کے مرشد نے حکم دیا کہ وہ لاہور جائیں، کیونکہ وہاں کے لوگ روحانی طور پر بھٹک رہے تھے اور انہیں ایک سچے راہنما کی ضرورت تھی۔ لاہور اُس وقت روحانی و فکری خلا کا شکار تھا، جہاں توحید، اخلاقیات، اور روحانی پاکیزگی کی روشنی کمزور تھی۔


داتا صاحبؒ کی لاہور آمد صرف ایک شخص کا سفر نہیں تھا، بلکہ ایک روحانی انقلاب کی ابتدا تھی۔ ان کے آنے سے پہلے لاہور ایک مذہبی و روحانی تاریکی میں تھا، اور ان کی آمد نے اسے روحانیت کا مرکز بنا دیا، جس کا اثر آج تک محسوس کیا جاتا ہے۔