جمعہ، 19 اپریل، 2019

عمران خان کو جنونی بنانے کا دھواں بتاتا ہے

ایک کالم نکار نے لکھا ہے تبدیلی کے اندر آنے والی اس تبدیلی کا مقصد وقت حاصل کرنا ہے ۔ اسد عمر کی صلاحیتوں کے ثمر آور ہونے کا اگر آٹھ ماہ صبر کیا گیا ہے ۔تو ظاہر ہے نئے آنے والے کو جانے والی کی صلاحیتوں کے سمجھنے اور بین الاقوامی اداروں کے ساتھ کیے گئے وعدوں کے مطالعہ اور اپنے ہیٹ سے ْ مطلوبہ نتائج ْ برآمد کرنے کے لیے وقت درکار ہو گا۔

دوسرے کالم نگار کا کہنا ہے اصل لڑائی تحریک انصاف کے اندر ہے۔ پارٹی دو دھڑوں میں تقسیم ہو چکی ہے۔ اسد عمر کا تعلق شاہ محمود قریشی کے دھڑے کے ساتھ تھا ۔ جہانگیر ترین نے ناہل ہو کر بھی خود کوکپتان کی ٹیم میں اہل ثابت کیا ہے۔ بحران خان کانوں کے کچے ہیں۔ان کے نزدیک اہل وہی ہے جو جہانگیر ترین کی راہ پر چلے، یہ اندرونی سیاسی کامیابی ہے مگر عملی طور پر حکومت کی نا اہلی ہے۔جو کچھ ہو گیا ہے اس کا مداوا ممکن ہے مگر کتنی مدت میں۔ کیا عوام اتنی لمبی مدت کا صبر کا روزہ رکھنے کے قابل رہے گی بھی یا نہیں۔کپتان دباو برداشت نہ کر سکے۔دو سو ماہرین کے دعوے والا غبارہ ٹھاہ کر کے پھٹ گیا ہے۔آئی سی یو سے نکال کر جنرل وارڈ میں لانے کا دعویٰ خود ہی اپنی موت مر گیا۔حکومت کے حوصلے پست ہونے کا اصل سبب وہ حقیقی بحران ہے جو اسد عمر پیدا کر گئے ہیں۔عمران خان کا دعویٰ کہ قیادت اچھی ہو تو سب ٹھیک ہوتا ہے غلط ثابت ہو گیا ہے۔

تیسرے کالم نگار کا کہنا ہے کہ سابق صدر کے قریبی ساتھی ، انٹیلی جنس بیورو کے سابق سربراہ اور فوج کے سابقہ افسر اعجاز شاہ کا بطور وزیر داخلہ تقرری ، تبدیلی کی داعی سیاسی جماعت کے پر کاٹنے کے مترادف ہے ۔ اس تقرری کے بعد عمران خان اپنے ویژن کے مطابق کیسے حکومت چلا پائیں گے۔ 

کہانی  پرانی ہے مگر بار بار دہرائی جاتی ہے۔ ہر بار بیانیہ کرپشن کی تلاش سے شروع ہو کر کرپٹ لوگوں پر ختم ہو جاتا ہے۔ داستان گو بھلے سمارٹ ہو عزت بچا کر دیار غیر میں وقت گزارنے یا پاکستان میں کسی کونے میں بیٹھ کرکتاب لکھنے کی بجائے اللہ اللہ کرنے ہی میں سکون پاتا ہے۔ان میں چند نام ایسے بھی ہیں جو جنونی ثابت ہوٗے ۔ ایسے ہی ایک جنونی کا نام سہروردی تھا ۔ اس کی لاش لبنان کے ایک ہوٹل سے برآمد ہوئی تھی۔ سہروردی کی غیر طبعی موت کی بات ذولفقار علی بھٹو نے کی تھی۔دوسرا جنونی خود بھٹو تھا۔ جیل اور قید تنہائی اس کے جنون کو ختم نہ کر سکی تو اس کے گلے میں پھندا ڈال دیا گیا۔اس مقدمے کی نظر ثانی کی اپیل پاکستان کے سپریم کورٹ میں موجود ہے ۔ تیسرا جنونی محمد خان جونیجو تھا۔ وہ ایک اللہ والے کا مرید تھا۔ اس نے اللہ اللہ کر کے عافیت پائی۔ بھٹو کی بیٹی وقت کی رفتار کے ساتھ چلنے کا سلیقہ جانتی تھی مگر اس کے خون میں جنون شامل تھا۔ اس جنون کو راولپنڈی کے اسی باغ میں گولی سے اڑایا گیا جس باغ میں لیاقت علی خان کو گولی ماری گئی تھی۔ حالانکہ لیاقت علی خان وقت کے سلیقے سے ہم آہنگ ہو چکے تھے۔ انھوں نے مادر ملت کو دہیمے پن کا مشورہ بھی دے دیا تھا اور مکہ بھی لہرا دیا تھا۔ موجودہ دور میں بھی ایک جنونی ہے جو بیٹی کو ساتھ لے کر لندن سے جیل کاٹنے چلا آیا تھا۔ ناہلیت، سیسلین مافیا کی عرفیت ، مودی کے یار کا طعنہ، چور اور ڈاکو کے بیانئے اس پر اثر انداز نہیں ہو رہے۔
خدشہ یہ ہے کہ جنونیوں کی تعداد میں اضافہ کہیں اضافہ نہ ہو جائے۔ایسا ہوا تو نیا جنونی خطرناک بھی ثابت ہو سکتا ہے۔کہا جاتا ہے کہ بلی کو بند کر کے اس پر تشدد کیا جائے تو وہ تشدد کرنے والوں کی آنکھیں نوچ لیتی ہے۔ اسد عمر امریکہ گئے تو پریس کانفرنس کر کے گئے تھے۔ ان کے لہجے میں اعتماد بتاتا تھا انھیں اعتماد حاصل ہے۔ بہتر گھنٹوں مین کیا آفت آئی کہ بقول عمران خان ْ پی ٹی آئی کے لائق ترین ْ شخص کو وزیر اعظم نے نکال باہر کیا۔کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ غلام سرور نے پارٹی چھوڑنے کی دہمکی دی تھی۔ کیا محمود الرشید اعلانیہ پارٹی پر چار حرف نہیں بھیج چکے۔ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ حکومتی فلور صرف چار ووٹوں پر کھڑا ہے۔ جس فلور پر دھمال ممکن ہی نہیں ہے۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ تجوریوں والوں نے تجوریوں کے دروازے بند کر لیے ہوئے ہیں۔ سرکاری افسران سے لے کر نجی اداروں کے مالکان تک تذبذب کا شکار ہیں۔یوٹیلٹی بلوں نے عوام کو حیرت زدہ کیا ہوا ہے۔بے روزگاروں کی فوج میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔جان بوجھ کر مایوس کن پیشن گوئیوں کو بڑہا چڑہا کر پیش کیا جاتا ہے۔ ہمسائیوں کے تعلقات بارے چھٹی پر گئے وزیر خارجہ کو پریس کانفرنس کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ ایف اے ٹی ایف تلوار سونت کر گردن کے قریب پہنچ چکا ہے۔محصولات میں پانچ سو ارب کی کمی کا ذمہ دار کیا واقعی اسد عمر ہے ۔
اسد عمر کو ہٹانے کا فیصلہ ٹھندے پیٹوں نہیں ہوا۔ایسے فیصلے پارلیمانی لیڈر مجبوری میں ہی کرتے ہیں۔یہ مجبوری کے بیچ نظر نہیں آتے مگر اندر ہی اندر پھوٹتے رہتے ہیں اور ایک دن جنون بن کر نکل آتے ہیں۔ ایک جنونی تو سنبھالا نہیں جا رہا ۔ دو جنونیوں کو کون سنبھالے گا۔ 
یہ یقین کہ فائل ہمارے ہاتھ میں ہے ۔ میزان میں بھاری ثابت ہو گئی۔ زندہ جنونی کے خلاف وہ دس والیوم جو ٹرالیوں پر رکھ کر میزان میں کے پلڑے میں رکھنے کے لیے لائے گئے تھے ۔ لندن کے میزان میں وہ ایک قانونی شق کو اوپر نہ اٹھا سکے۔ جس کے بعد قانون دان بھی آپ کی میزان کو دیکھ کر مسکرا دیتے ہیں۔ 
جنونی بنائے جانے پر کسی جاہل اور ان پڑھ کو اعتراض ہو ہی نہیں سکتا مگر زمینی حقیقت یہ ہے کہ نہ چاہتے ہوئے بھی جاہل اور ان پڑھ کے ایک آدمی ایک دوٹ کا حق تسلیم کرنا پڑا ۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا روشن پاکستان کی تاریخ کا تاریک باب ہے۔ 
بعض گمان ، گمان ہی رہتے ہیں ، حقیقت کا روپ نہیں دہار سکتے۔ جنونیوں کے بارے میں گمان غلط ہی ثابت ہوئے ہیں۔ عمران خان کو جنونی بنانے کا دھواں بتاتا ہے کہ کہیں نہ کہیں چنگاری سلگ رہی ہے۔ کہا جاتا ہے بھینس کا دودھ دہنے سے پہلے اس کر ْ ٹنگا ْ باندھ لینا چاہیے۔ 


جمعرات، 18 اپریل، 2019

کالی ٹوپی

                           
 
ملک بھر میں دہشت گردی کے سبب سناٹا تھا۔  ایک شادی کے ولیمے کی دعوت تھی ۔ اس خوشی کے موقع پر بھی شرکاء کے چہروں پر خوشی کی بجائے انجانا خوف صاف دکھائی دے رہا تھا ۔ شادی ہال میں میرے ساتھ بیٹھے دوستوں میں سے ایک نے چند ہفتےقبل ہونے والی سکول کی ایک تقریب کا ذکر چھیڑ دیا ۔یہ سکول راولپنڈی میں واقع ہے مگر تقریب اسلام آباد کے ْ محفوظْ مقام کنونشن سنٹر میں ہو رہی تھی۔ میں زندگی میں پہلی بار کسی ایسی تقریب میں شریک تھا جو ان بچوں کے لیے منعقد کی گئی تھی جو چند سال سکول میں گزار کر اس قابل ہو گئے تھے کہ پہلی جماعت میں داخلہ لے سکیں۔ اس تقریب کو سکول نے بچوں کی ْ
Graduation Ceremony
 کا نام دے رکھا تھا۔ بچوں نے باقاعدہ گاون پہنے ہوئے تھے اور سروں پر وہ ٹوپی سجا رکھی تھی۔ جس کے پہننے کی آرزو پوری کرنے کے لیے ہم نے سالوں کالج جانے والے رستے کو صبح و شام ناپا تھا۔اس دن مجھے احساس ہوا کہ یہ کالی ٹوپی صرف نوجوانوں ہی کا نہیں بلکہ پہلی جماعت تک پہنچ جانے والے بچوں کا سر بھی فخر سے بلند کر دیتی ہے۔تقریب کے بعد بچے بھی اپنی ٹوپیاں اچھال رہے تھے۔ ایک بچے نے خوشی کے اظہار میں ٹوپی اچھالی۔ قبل اس کہ وہ واپس بچے تک پہنچتی میں نے اسے ہوا میں ہی پکڑ کر بچے کے سر پر پہنا دیا۔ بچہ میری طرف متوجہ ہوا تو میں نے پوچھا
 ْ مسٹر گریجویٹ یہ کیا ہےْ
 اس نے کہا ْ انکل یہ میری گریجویشن کی ری ہرسل ہے ۔ْ
 اپ کیا بننا چاہتے ہوْ
 جواب بے ساختہ تھا ْ اچھا مسلمان اچھا پاکستانی اور اچھا آئی ٹی گریجویٹ ْ 
ایک پھول کی طرح مسرت و شادمانی سے سرشار خاتون نے مسکراتے ہو ئے کہا ْ مسٹر گریجویٹْ ذیشان میرا بیٹا ہے۔ میں نے کہا ْ ذیشان کے
concepts
 اس عمر ہی کافی
clear
 ہیں۔ یہ آپ کی تربیت کا چمتکار ہے یا سکول نے یہ کارنامہ انجام دیا ہے۔ میری تربیت کا اثر بھی ہو سکتا ہے مگر میں اس کا کریڈٹ ذیشان کے اسکول ہی کو دوں گی ۔ تقریب کے اختتام پر میری اسلام آباد سے راولپنڈی واپسی پرنسپل صاحبہ کے ساتھ بات چیت کا موضوع کلیر اور ان کلیر کونسیپٹ ہی رہا ۔ پرنسپل نے ایک واقعہ سنایا جس کا خلاصہ ہے کہ بچہ والدین اور اساتذہ دونوں کے لیے ایک امتحان ہوتا ہے ،بچہ کامیاب ہو کر اپنی کامیابی کا ہار والدین اور اساتذہ کے گلے میں ڈالتا ہے اور ناکام رہ جانے والا نوجوان اپنی ناکامیوں کا بار والدین اور اساتذہ پر ہی ڈالتا ہے۔ کالی ٹوپی کے بارے میں ان کا کہنا تھاہم بچوں کو گاون اور ٹوپی پہنا کر ان کے ذہن میں ایک تحریک پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ وہ اصلی گریجویشن کی اہمیت جان سکیں۔
ایک واقعہ میں آپ کو سناتا ہوں جس کا خلاصہ یہ ہے کہ والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کا بیٹا یا بیٹی ان سے زیادہ تعلیم حاصل کرے۔ ایک بی اے والد اور ایف اے والدہ کی بیٹی نے ایک دن راولپنڈی کی ایک یونیورسٹی میں ایم اے کی ڈگری پانے کی خوشی میں منعقدہ تقریب کے بعد یونیورسٹی کے لان میں ٹوپی اچھالی تو اس کی ماں نے لپک پر اسے ہوا ہی میں اچک لیا۔اور بیٹی کے سر پر پہنایا، لڑکی نے دوبارہ اس ٹوپی کو اچھالا تو میں نے ہوا میں اچھل کر اسے اچک لیااور اپنے دوست کے سر پر پہنانا چاہا تو اس نے ٹوپی بیٹی کے سر پر پہنا کر کہا۔ یہ ٹوپی میرے قد سے اونچی ہے۔ خوشی سے میرے دوست کا چہرہ گلاب کی طرح کھل رہا تھا۔
 ڈہائی سال کے بعد میں ایک باراسی خاندان کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا مگر اس بار چہرے اترے ہوئے تھے۔ بات ڈھکی چھپی بھی نہ تھی ۔ والدین اپنی بیٹی کی شادی اپنے خاندان میں اپنی پسند کے لڑکے سے کرنا چاہتے تھے ۔ جب کہ لڑکی نے اس شادی سے ماں کے سامنے انکار کر دیا تھا۔ لڑکی کے باپ نے لڑکی کی نانی کو بھلا بھیجا تھا۔ اس کا خیال تھا لڑکی کو نانی راضی کر لے گی۔ مگر نانی سے آتے ہی اپنی بیٹی کو مخاطب کیا۔زیب النساء میں نے تجھے کہا تھا لڑکی نے ایف اے کر لیا ہے اب اس کی شادی کردو۔ اس وقت اس کے باپ کو شوق چڑہا ہوا تھا ماسٹر کرانے کا ۔ میں نے کہا نہیں تھا جب لڑکی کا قد والد ین سے اونچا ہو جائے تو خود سر ہو جایا کرتی ہے ۔ اس کا باپ تو کہا کرتا تھا میں اپنی بیٹی کو خود اعتمادی دے رہا ہوں اب اس میں خود اعتمادی آ گئی ہے تو اس خود اعتمادی کا بوجھ اس سے سنبھالا نہیں جا رہا۔ اس سے پوچھو تو سہی کیااللہ اور اس کے رسول کا دیا ہوا حق اس لیے چھین لینا چاہتا ہے کہ اس کی اکلوتی بیٹی ہے۔ لوگ تو اولاد کو خوشیاں خرید کر دیتے ہیں۔ یہ اپنی ہی بیٹی کی زندگی اجیرن کرنا چاہتا ہے۔ بلاو لڑکی کو کہاں ہے۔ لڑکی کا چہرہ بھی اترا ہوا تھااور نظریں جھکی ہوئی تھیں۔ نانی بولتی ہی گئی بس کرو یہ ٹسوے اور باپ کا سر چومو جس نے تمھیں کالی ٹوپی پہناتے پہناتے گنجا کر لیا ہے ۔ کالی ٹوپی پہن کر بھی اتنی عقل نہیں آئی کہ والدین کو رولایا نہیں قائل کیا جاتا ہے۔
ٓجس شادی ہال میں ہم بیٹھے ہوئے ہیں وہاں قائد اعظم کی تصویر لگی ہوئی ہے جس میں انھوں نے سیاہ جناح کیپ پہن رکھی ہے۔ شادی کی اس تقریب میں دلہن میرے دوست کی بیٹی ہے، اس دلہن کی نانی کے الفاظ  میرے ذہن میں گویا چپک ہی گئے ہیں
 ْ کالی ٹوپی پہن کر بھی اتنی عقل نہیں آئی ۔۔۔رولایا نہیں قائل کیا جاتا ہےْ 

پاکستان استعفوں سے چلے گا


دھوکہ ہمارے ساتھ ہی کیوں ہوتا ہے ۔ دھوکہ باز شاطر ہیں یا ہمیں دھوکہ کھا کر سکون ملتا ہے ۔ جس شخص کو 8 سال تک لائق ترین ، معاشیات کا ماہر ، مانا پہچانا سی آی آو، بلکہ جس کے بارے میں خود عمران خان نے کہا کہ اس سے زیادہ لائق پوری پی ٹی آئی میں کوئی نہیں ہے ۔ سب کو پتہ تھا کہ اس نے وزیر خزانہ بننا ہے ۔ اس کے بارے میں جب ایک صحافی نے لکھا " کہہ دیا گیا ہے کہ یہ آدمی خزانے کا وزیر نہیں رہ سکتا " کہ خزانہ ہی نہیں رہا ۔ تو سب سے پہلے اسد عمر نے سوشل میڈیا پر ایک پیغام داغا ۔ نشانہ سابقہ وزیر خزانہ تھا مگر امرت عوام کے کانوں میں گھولا جا رہا تھا کہ یہ "لفافےلینے والوں " کا جھوٹا پروپیگنڈہ ہے .15 اپریل کو دبنگ فواد چوہدری نے ان خبروں کو " جھوٹ " بتایا .صرف دو دن بعد 17 اپریل کو کہہ دیا گیا " ملک ان سے نہیں چلے گا ان کے استعفوں سے چلے گا " . "ان" میں تو پانچ لوگ شامل ہیں باقی چار کب جائیں گے ۔ یا اپریشن رد و بدل کر کے "فیس سیونگ " کی جائے گی . کیا فیس سیونگ ممکن بھی ہے ۔ جو شخص کروڑ نوکریاں کے لالی پاپ ٹوکری میں لے کر ایا تھا۔ اس کی ٹوکری ہی کا پتہ نہیں ہے ۔ اسی قابل ترین نے کہا تھا میٹرو 8 ارب میں بنا سکتا ہوں ۔ اس وقت عمران خان کے اس قابل تریں کو ماہرین نے نظریں اتھا کر دیکھا تو خود عمران خان اس کے دفاع کے لیے آگے بڑہے ۔ BRT کے نام سے میٹرو پر اب بھی کام جاری ہے اور شائد جاری ہی رہے ۔ ریحام خان کے دل میں عمران خان بارے بغض کا الزام مان بھی لیا جائے تو کیا اس کا یہ کہنا غلط ہے کہ جب کاروبار تباہ ہوتا ہے توCEO اس کی ذمہ داری لیتا ہے ۔ یہ گمان کہ عمراں خان اچھا ہے ان کی کابینہ ، چیف منسٹر اور ارد پھیلے لوگ کرپٹ اور نا اہل ہیں ۔ غیر منطقی ہے ۔ ان نااہلوں کو لگانے والا کون ہے ۔ اسد عمر کی لوگوں کے گھروں باورچی خانے چولہے اور موٹر سائیکلوں کی پترول؛ والی ٹنکی تک پہنچائی گئی مہنگائی کا ذمہ دار تو سابقہ وزراء خزانہ بتائے جاتے رہے ہیں ۔ کیا نیا آنے والا اس معااشی تباہی کا ذمہ دار اسد عمر کو ٹھرائے گا ۔ اس کے جان نشیشوں کی فہرست میں شامل شوکت ترین نے تو معذرت کر لی ہے ۔ اب دو ڈاکٹروں میں سے کون آگے بڑھ کر مہنگائی کے اس منہ کھولے اژدہے کو واپس پٹاری میں بند کرے گا ۔ کیا یہ ممکن بھی ہے ؟ یا آنے والا بھی اپنی ساکھ اور قابلیت داو پر لگا کر چلتا بنے گا ۔
بیڑا غرق “ ہونے “ اور “ کرنے “ کا فرق اب سب کی سمجھ میں آ گیا ہے ۔ آگر مقصد “ کرنے “ ہی کا ہے تو پھر لگو رہو منا بھائی ۔ لیکن ایک بات یاد رہے اپ تبدیلی لائےیا نہیں مگر لوگوں کا ذہن تبدیل ہو رہا ہے ۔ کنٹینر پر کھڑے ہو کر بھاشن دینے والا عمران خان اور مہاتما بن کر “گھبرانا نہیں “ کی تلقین کرنے والے وزیر اعظم کے قول و فعل میں تضاد ہے ۔ ہر وہ کام جس کی کنٹینر پر کھڑے ہو کر مذمت کی جاتی تھی ۔ باری باری وہ سارے کام کیے گئے ۔ اب تو پچھلی حکومتوں کی مزمت کرتے کرتے بات یہاں تک آ پہنچی ہے کہ “ نہ سابقہ حکومت جعلی طور پر معیشت مضبوط رکھتی ، نہ مصنوعی طریقے سے ڈالر کو کنٹرول کرتی، نہ مہنگائی کنٹرول کرنے کا ڈرامہ کرتی نہ ہمیں یہ دن دیکھنے پڑتے “ ۔
ملک چلانے کی بجائے عدل ، احتساب اور ابلاغ کے ذرائع پر کنٹرول حاصل کرنے کی خواہش سب سے پہلے معیشت کو ڈبوتی ہے ۔ معاشی مسائل بھاشنوں سے نہیں عملی اقدامات سے ٹھیک ہوا کرتے ہیں ۔ ذاتی دشمنیوں کو گھر کے طاق میں چھوڑنا ہوتا ہے ۔ ایک یا پانچ وزیر ہٹانے سے مسائل حل ہونے والے نہیں ہیں ۔ معیشت نزع کے عالم میں ہے ، کاروبار ٹھپ پڑے ہیں ، لاکھوں لوگوں کی نوکریوں ختم ہونے کی خبریں گرم ہیں ۔ معاشی ماہرین آنے والے بجٹ سے ڈرا رہے ہیں ۔ وزراء جو بیان دیتے ہیں 48 گھنٹوں میں اس کی عملی تردید آ جاتی ہے۔ تازہ ترین کارنامہ یہ ہے کہ پنجاب میں ضلعی حکومتوں کو اجازت کے بغیر ترقیاتی کاموں سے روک دیا گیا ہے ۔ نیا پاکستان کیا بننا ہے حالت پرانے سے بھی بدتر کر دی گئی ہے ۔ خدا را قائد اعظم کے پاکستان کو اس راہ پر نہ چلائیں ۔ ہر سیاسی مخالف کو چور، حق گو کو لفافہ بردار اور عدلیہ کو لوہار کورٹ کے طعنے دینا وہ راہ ہے جس کے آخر میں کھائی آتی ہے ۔ وہ عوام جس کو میرٹ، انصاف، تعلیم ، عزت نفس اور برابری کا لولی پاپ دیا گیا تھا ۔ وہ تو کسی دوسرے لالی پاپ سے وقتی طور پر بہل جائے گی مگر اس ملک میں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو نہ قانوں کی مانتا ہے، نہ آئین کو مقدس رکھتا ہے ، نہ خدمات کا صلہ عطا کرتا ہے، نہ رحم دل ہے مگر اس قابل ہے کہ اپنی مرضی کے اخبار میں کسی دن یہ سرخٰی لگوا دے “ پاکستان استعفوں سے چلے گا “ 

اتوار، 14 اپریل، 2019

فساد اور تبدیلی


ملک میں تبدیلی آرہی تھی ۔ عام لوگ تبدیلی کے حق میں جبکہ ایک طبقہ تبدیلی کے بالکل ہی مخالف تھا۔ بازار میں تبدیلی کے اثرات مہنگائی کو صورت میں ظاہر ہونا شروع ہوئے۔چینی کی قیمت ایک دم ایک روپے سیر سے بڑھ کر سوا روپے سیر ہو جانے نے ملازم پیشہ افراد کے ذہن کے کئی طبق روشن کر دیے تھے۔ راولپنڈی میں بجلی ریپکو نام کی ایک نجی کمپنی پیدا ور تقسیم کرتی تھی۔اس لیے عوام کے اذہان کے کئی طبق روشن ہو جانے کے بعد بھی بجلی کی قیمتوں میں اضافہ نہ ہوا۔میرے بچپن کا دور تھا۔ اس دور میں بچے سنتے زیادہ اور بولتے کم تھے۔ میری دادی مرحومہ کے پاس محلے کے ایک دوسرے گھر کی دادی گپ شپ لگانے آیا کرتی تھیں۔ موضوع مہنگائی ہی تھا۔ دوسرے گھر کی دادی نے کہا ْ میں عرصہ سے چار ٹوپے گیہوں دے کر پورے ہفتے کا سودا لاتی ہوں۔ کل بھی چار ٹوپے ہی میں پورے ہفتے کا سودا لے کر آئی ہوںْ 
بات پچپن سال پرانی ہے۔ میری یاد میں خریدو فروخت بارٹر سسٹم کے تحت ہوا کرتی تھی۔ ہر جنس کی ایک ْ ویلیوْ مقرر تھی۔ کسان کو اندازہ ہوتا تھا کہ یہ سال اس کے لیے معاشی طور پر کیسا ہو گا۔ ملازم پیشہ کو یقین تھااس کی تنخواہ کہاں خرچ ہو گی۔ تاجر کا منافع معروف ہوا کرتا تھا۔اس پر کسی کو اعتراض نہیں ہوا کرتا تھا۔
چند دن قبل ایک اخبار میں ایک دوست نے لکھا تھا ْ فرعون کے دور میں مرغی دو درہم کی تھی، آج بھی مرغی کی اصل قیمت دو درہم ہی ہے ْ جب میں یہ کالم پڑھ رہا تھاا میرے ذہن میں چار ٹوپے والی دادی کی تصویر ابھر رہی تھی۔
غور کیا جائے تو انسان کی کچھ جبلی ضروریات ہیں۔ جن میں روٹی، کپڑا، مکان اور سواری شامل ہیں۔ زندگی میں امن بھی انسان کی بنیادی ضرورتوں میں شامل ہے۔ جس معاشرے میں انسان کی یہ ضرورتیں پوری نہ ہو رہی ہوں وہ معاشرہ فساد کا شکار ہو جاتا ہے۔
فساد یا فساد فی الارض ایسا گھناونا جرم ہے جس کی ہرعاقل انسان مذمت کرنے پر خود کو مجبور پاتا ہے۔ فساد کہتے کس کو ہیں؟کسی بھی چیز کو اس کے اصلی مقام سے ہٹا دینے کا نام فساد ہے۔مثال کے طور پر زمین سے پیدا ہونے والا آلو بیس روپے کا ایک کلو آتا ہے۔ ایک تاجر بیس روپے میں ایک ہزار گرام کی بجائے نو سو گرام آلو دے کربازار میں قیمتوں کا فساد پھیلا رہا ہے۔ یا ایک خاندان کا سربراہ اپنی میراث کو معروف قانون وراثت کی بجائے اپنی مرضی سے تقسیم کر کے بعض لواحقین کو بعض پر ترجیج دے کر نا انصافی کا مرتکب ہوتا ہے اور خاندان میں منافرت کے بیج بو کر ایسے اختلافات کا بیج بوتا ہے جو خاندان میں بغاوت اور سرکشی کا سبب بنتے ہیں ۔ خاندان کے اس سربراہ کے عمل کو فساد ہی کا نام دیا جائے گا۔ ایک حکمران اپنے عوام کو امن کی بجائے خوف اور دہشت پھیلا کر فساد کی بنیاد رکھتا ہے۔ 
ہم تیسری (غریب ) دنیا کے ممالک میں ماہرین معاشیات کے لیکچر سنتے ہیں۔ جس میں کاغذی کرنسی کو معاشیات میں فساد کی جڑ بتایا جاتا ہے ۔ ہم جمعے کے خطبے میں علماء دین کو ْ اعتدالْ سے گریز کو معاشرتی فساد کا سبب بتاتے سنتے ہیں۔ ہمارے سیاسی رہنماء ْ تبدیلیْ کو فساد کا منبع قرار دیتے ہیں۔ہمارے اسکالرزکا کہنا ہے کہ ہم لوگ علم کی بجائے ظن پر اعتقاد کرتے ہیں جو اصل فساد ہے۔ میڈیا کے بارے میں لوگ بتاتے ہیں کہ حق کو باطل اور باطل کو حق بتا کر معاشرے میں فساد پھیلایا جا رہا ہے۔
کیا معاشرے میں اصل اور نقل، حق و باطل ، سچ اور جھوٹ، روشنی اور اندہیرے ، ہیرو اور غدار ، اپنا اور پرایا ، محسن اور ڈاکو کی پہچان ختم ہو چکی ہے۔اگر ایسا ہی ہے تو ہمیں انفرادی طور پر تبدیلی کی ضرورت ہے۔ اور اگر ایسا نہیں ہے اور معاشرے میں اس ظن کے خاتمے کے لیے ہمیں انفرادی تبدیلی کی زیادہ ضرورت ہے۔
ایک ذاتی تجربہ کی روداد۔ میرا پوتا جس کی عمرپانچ سال ہے بازار سے ایک ایسا کھلونا لے کر آیا جو بیٹری پر چلتا ہے۔ بیٹری ختم ہو جائے تو اس کو ْ ری چارج ْ کرنے کی سہولت بھی اس کھلونے کے اندر ہی موجود ہے اور ری چارج کرنے کا طریقہ بھی ایک صفحہ کے چھپے ہوئے کاغذ کی شکل میں موجود ہے۔ میرے پوتے نے میرے سامنے میز پر ہدایات کا کاغذ پھیلایا ۔ ہدائت نمبر ایک کے مطابق چارجر کی پن کو کھلونے کے نیچے دیے گئے سوراخ نمبر ایک میں گھسایا۔ ہدایت نمبر دو کے مطابق چاجر کے شو کو بجلی والی ساکٹ میں گھسایا، ہدایت نمبر تین کے مطابق بجلی مہیا کرنے والے ساکٹ کے بٹن کو دبا کر آن کیا۔ ہدائت نمبر چار کے مطابق عمل کرتے ہوے اس چھوٹی سی بتی کو چیک کیا جو بٹن آن ہونے کے بعد جل اٹھی تھی۔جب بت جل اٹھی اور اس کے کھلونے کی بیٹری چارج ہونا شروع ہو گئی تو اس نے وقت دیکھا ۔ اس کو یقین تھا ۔ چھپے ہوئے کاکاغذ پر دی گئی ساری ہدایت درست ثابت ہوئی ہیں اس لیے تیس منٹ بعد اس کا کھلونا دوبارہ ری چارج ہونے کے بعد اس قابل ہو جائے گا کہ وہ اس سے مستفید ہو سکے۔
ہر انسان اشرف ہی نہیں زمین پر خالق کائنات کا خلیفہ یا نائب بھی ہے۔جب معاملات گڈ مڈ ہو جائیں ۔ ہمارے ذہن کی بیٹری ری چارجنگ مانگے تو ہمیں وہ ہدائت نامہ کھول کر سامنے رکھنا چاہیے جس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ ایمان والوں کے لیے ہدائت اور شفا ہے۔ میرے پوتے نے اپنے ْ عملْ کے بعد یقین پایا کہ ہدائت نامہ پر نمبر شمار کے مطابق عمل کرنے سے ری چارج والی بتی جل اٹھتی ہے۔ 
اصل فسا د خود فریبی ہے۔ اور سب سے بڑی خود فریبی بے عملی ہے۔ اور بے عملی سے بڑا فساد اس کام کی تبلیغ کرنا ہے جس کام پر خود عمل پیرا نہ ہوا جائے۔

منگل، 26 مارچ، 2019

جے سنڈا آرڈرن اوراکبر لون

                                   
رابرٹ حارس نے کہا تھا آپ پہاڑ کو دیکھیں آپ کو ایک منظر دکھائی دے گا، وقت کی تبدیلی ، روشینیوں کے زاویے کی تبدیلی یا دیکھنے کے مقام کی تبدیلی پر پورا منظر ہی تبدیل ہو جاتا ہے ۔ حالانکہ پہاڑ وہی ہوتا ہے۔ 
واقعات بھی پہاڑ کی طرح ہوتے ہیں۔ان کے دیکھنے کے مقام اور حالات واقعات کے منظر کو بدل کر رکھ دیتے ہیں۔ 
۱۵ جنوری ۲۰۱۹ کو نیوزی لینڈ میں دو مساجد میں پیش آنے والے واقعات نے واقعات کے اس پہاڑ کا منظر بدل کر رکھ دیا ہے ۔ جس پہاڑ کا نام ْ امن ْ ہے، حالیہ تاریخ میں اسلام کے پیروکاروں کی یہ خوبی با شعور لوگوں کو پہلی بار دکھائی دی ہے کہ وہ دوسرے انسان سے ملتے وقت اس پر ْ امن ْ کی دعا پڑہتے ہیں ۔ ایک ٹی وی چینل کی نمائندہ محترمہ کانوا للوڈیہ سن کر ششدر رہ گی ۔ جب ایک مسلمان خاتون ، اپنے خاوند اور ۲۲ سالہ جوان بیٹے کی میت پر قاتل کے لیے اپنے دل میں رحم کا جذبہ پاتی ہے۔اس کی یہ بات سننے والوں کو نئی لگی کہ اس کا دین ایسے لمحات میں اس کو سہارا دیتا ہے۔محترمہ امبریں نعیم نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ انھیں قاتل پر اس لیے رحم آرہا ہے کہ اس کے دل میں نفرت تھی۔ 
۱۹۷۹ میں جنم لینے والی جنگ کو مختلف اوقات اور مختلف ممالک میں مختلف نام دیے گئے۔پہلے یہ نظریات کی جنگ تھی، پھر اس کا عنوان تہذیبوں کی جنگ رکھا گیا، بعد میں یہ مذہبی جنگ کہلائی مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ نفرت اور محبت کی جنگ ہے۔ نام کی تبدیلی کے ساتھ ہی اس جنگ کے مقامات بھی تبدیل ہوتے رہے ہیں۔ جب یہ نظریات کی جنگ تھی اس وقت جرمنی اور روس میں لڑی گئی۔ مذہبی جنگ افغانستان سے لے کر مشرق وسطیٰ تک لڑی گئی۔ نیوزی لینڈ میں ہونے والے واقعات لبنان کے صابرہ اور شتیلا کے مقام پر ہونے والے واقعات کا تسلسل ہیں ۔اس وقت بھی بنیاد انسانوں سے نفرت تھی اس وقت بھی منشور انسانوں سے نفرت پر مبنی ہے۔
نیوزی لینڈمیں ہونے والے واقعات پر نیوزی لینڈ کے اندر سے جو رد عمل اٹھا ہے اسے دنیا کے مختلف مقامات سے مختلف نظر سے دیکھا گیا ہے۔امریکہ والے یہ دیکھ کرحیران ہوئے کہ ۳۸ سالہ کیوی وزیر اعظم نے اپنے شہریوں سے خودکار مہلک ہتھیار واپس لینے کے لیے اس واقعہ کو کس خوبصورتی سے استعمال کیا ہے۔ نیوزی لینڈ کے شہریوں نے اس حکمت عملی کی داد دی جس کے تحت ملک کے اندر نفرت پر مبنی ۷۲ صفحات کے منشورکے غبارے سے ہوا نکالی گئی۔ جو عشروں میں نہائت نفرت سے تیار کیا گیا تھا۔ مسلمان ممالک میں بسنے والے لوگوں نے پہاڑ کے نامانوس منظر کو مانوس بیانیے میں ڈہلتے منظر میں بدلتے دیکھا۔ دنیا کے حکمرانوں کو ْ کسی بھی وقت پھٹ جانے کو تیارْ بارود کا بتایا گیا پہاڑ، جس کی وادیوں میں مقیم سارے کے سارے لوگ دہشت گرد اور انتہا پسند بنا کر پیش کیے جاتے تھے۔ ان لوگوں کو دنیا نے دیکھا کہ ۵۰ لاشے اٹھا کر بھی یہ لوگ انسانیت کو امن کی دعا دے رہے ہیں۔
نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم نے واقعات کو دیکھنے کا نیا انداز دنیا کے سامنے رکھا ہے، امریکی صدر کے انداز کے برعکس، دنیا نے اس انداز کی تعریف ہی نہیں کی بلکہ اس انداز پر اطمینان کا سانس لیا ہے۔ دنیا کے بیشتر حصوں میں ان چشموں کی فروخت رک گئی ہے جن کو پہن کرکالا کوا سفید دکھائی دیتا تھا۔ البتہ کشمیر میں نفرت کے ان چشموں کی لوٹ سیل لگ چکی ہے۔اس کا سبب یہ نہیں ہے کہ جنت نظیر کشمیر کے پہاڑ خوبصورت نہیں ہیںیا ان پہاڑوں کے دامن میں بسنے والے انسان کسی ایسے نظریے کے پیروکار ہیں جو انسانیت کے لیے خظرناک ہیں بلکہ اس کا سبب یہ ہے کہ ان خوبصورت پہاڑوں اور ان کی وادیوں میں بسنے والے مظلوم لوگوں کی جو تصویر کشی کی جارہی ہے وہ حقیقی نہیں ہے ۔ پہاڑ کی منظر کشی کے لیے کیمرہ مین کو جس مقام پر کھڑا کیا جاتا ہے۔اس مقام سے خوبصورتی کا منظر دحندلاجاتا ہے۔ عکاس کیمروں کے عدسوں پر جو فلٹر لگایا جاتا ہے ناقص ہے۔یہ سارا عمل جھوٹ اور بد نیتی پر مبنی ہے ۔
یہ کیسے ممکن ہے کہ نیوزی لینڈ سے محترمہ جے سنڈا آرڈرن صاحبہ محبت اور رواداری کا پرچار کریں تو ان کی تعریف کی جائے ۔ مگر کشمیر میں کھڑے ہو کر جموں و کشمیر نیشنل کانفرنس پارٹی کے رکن جناب اکبر لون صاحب سرحد کے پار بسنے مسلمان ملک کو ہمیشہ آباد اور کامیاب ہونے کی دعا دیں تو ان کے اس عمل کی مذمت کی جائے۔ نیوزی لینڈ کے کریسنٹ چرچ اور جموں کے درمیاں ۱۳ ہزار کلومیٹر کا فاصلہ ہے۔ دونوں شہر دنیا کی دو انتہاوں پر واقع ہیں ۔ مواصلاتی رابطوں نے آج ذہنی فاصلوں کو مگرسمیٹ دیا ہے۔ نیوزی لینڈ میں بیٹھ کر قاتل کے لیے دل میں رحم محسوس کرنا محبت کا عنوان بنتا ہے تو ہمسائے ملک کو دعا دینا تو اس سے بڑھ کر کلمہ خیر اور امن آور ہے۔ جناب اکبر لون کا بیان قابل مذمت نہیں ہے ۔قابل مذمت وہ رویہ ہے جو نفرتوں کو جنم دیتا ہے ، انسان کو انسان کا دشمن بناتا ہے، مظلوموں کو ظالم اور ریاستی جبر کے شکار معصوم انسانوں کو دہشت گرد بنا کر پیش کرتا ہے۔
جنگ کا عنوان ہی نہیں مقام بھی بدل رہا ہے۔ ۱۹۷۹ میں شروع ہونے والی جنگ اب نفرت اور محبت میں بدل چکی ہے۔نفرت پھیلانے والے دہشت گرد اور انسانیت کے دشمن ہیں۔انسانیت کے دشمنوں کا نام اگر ایک انسان دوست شخصیت لینا پسند نہیں کرتی تو ہم اس عمل کیتقلید میں اپنے خطے کے انسان دشمنوں کے نام بھی نہیں لیتے ۔ انسانیت کے دوستوں کا نام البتہ کہیں جے سنڈا آرڈرن اورکہیں اکبر لون ہے۔