جمعہ، 19 اپریل، 2019

عمران خان کو جنونی بنانے کا دھواں بتاتا ہے

ایک کالم نکار نے لکھا ہے تبدیلی کے اندر آنے والی اس تبدیلی کا مقصد وقت حاصل کرنا ہے ۔ اسد عمر کی صلاحیتوں کے ثمر آور ہونے کا اگر آٹھ ماہ صبر کیا گیا ہے ۔تو ظاہر ہے نئے آنے والے کو جانے والی کی صلاحیتوں کے سمجھنے اور بین الاقوامی اداروں کے ساتھ کیے گئے وعدوں کے مطالعہ اور اپنے ہیٹ سے ْ مطلوبہ نتائج ْ برآمد کرنے کے لیے وقت درکار ہو گا۔

دوسرے کالم نگار کا کہنا ہے اصل لڑائی تحریک انصاف کے اندر ہے۔ پارٹی دو دھڑوں میں تقسیم ہو چکی ہے۔ اسد عمر کا تعلق شاہ محمود قریشی کے دھڑے کے ساتھ تھا ۔ جہانگیر ترین نے ناہل ہو کر بھی خود کوکپتان کی ٹیم میں اہل ثابت کیا ہے۔ بحران خان کانوں کے کچے ہیں۔ان کے نزدیک اہل وہی ہے جو جہانگیر ترین کی راہ پر چلے، یہ اندرونی سیاسی کامیابی ہے مگر عملی طور پر حکومت کی نا اہلی ہے۔جو کچھ ہو گیا ہے اس کا مداوا ممکن ہے مگر کتنی مدت میں۔ کیا عوام اتنی لمبی مدت کا صبر کا روزہ رکھنے کے قابل رہے گی بھی یا نہیں۔کپتان دباو برداشت نہ کر سکے۔دو سو ماہرین کے دعوے والا غبارہ ٹھاہ کر کے پھٹ گیا ہے۔آئی سی یو سے نکال کر جنرل وارڈ میں لانے کا دعویٰ خود ہی اپنی موت مر گیا۔حکومت کے حوصلے پست ہونے کا اصل سبب وہ حقیقی بحران ہے جو اسد عمر پیدا کر گئے ہیں۔عمران خان کا دعویٰ کہ قیادت اچھی ہو تو سب ٹھیک ہوتا ہے غلط ثابت ہو گیا ہے۔

تیسرے کالم نگار کا کہنا ہے کہ سابق صدر کے قریبی ساتھی ، انٹیلی جنس بیورو کے سابق سربراہ اور فوج کے سابقہ افسر اعجاز شاہ کا بطور وزیر داخلہ تقرری ، تبدیلی کی داعی سیاسی جماعت کے پر کاٹنے کے مترادف ہے ۔ اس تقرری کے بعد عمران خان اپنے ویژن کے مطابق کیسے حکومت چلا پائیں گے۔ 

کہانی  پرانی ہے مگر بار بار دہرائی جاتی ہے۔ ہر بار بیانیہ کرپشن کی تلاش سے شروع ہو کر کرپٹ لوگوں پر ختم ہو جاتا ہے۔ داستان گو بھلے سمارٹ ہو عزت بچا کر دیار غیر میں وقت گزارنے یا پاکستان میں کسی کونے میں بیٹھ کرکتاب لکھنے کی بجائے اللہ اللہ کرنے ہی میں سکون پاتا ہے۔ان میں چند نام ایسے بھی ہیں جو جنونی ثابت ہوٗے ۔ ایسے ہی ایک جنونی کا نام سہروردی تھا ۔ اس کی لاش لبنان کے ایک ہوٹل سے برآمد ہوئی تھی۔ سہروردی کی غیر طبعی موت کی بات ذولفقار علی بھٹو نے کی تھی۔دوسرا جنونی خود بھٹو تھا۔ جیل اور قید تنہائی اس کے جنون کو ختم نہ کر سکی تو اس کے گلے میں پھندا ڈال دیا گیا۔اس مقدمے کی نظر ثانی کی اپیل پاکستان کے سپریم کورٹ میں موجود ہے ۔ تیسرا جنونی محمد خان جونیجو تھا۔ وہ ایک اللہ والے کا مرید تھا۔ اس نے اللہ اللہ کر کے عافیت پائی۔ بھٹو کی بیٹی وقت کی رفتار کے ساتھ چلنے کا سلیقہ جانتی تھی مگر اس کے خون میں جنون شامل تھا۔ اس جنون کو راولپنڈی کے اسی باغ میں گولی سے اڑایا گیا جس باغ میں لیاقت علی خان کو گولی ماری گئی تھی۔ حالانکہ لیاقت علی خان وقت کے سلیقے سے ہم آہنگ ہو چکے تھے۔ انھوں نے مادر ملت کو دہیمے پن کا مشورہ بھی دے دیا تھا اور مکہ بھی لہرا دیا تھا۔ موجودہ دور میں بھی ایک جنونی ہے جو بیٹی کو ساتھ لے کر لندن سے جیل کاٹنے چلا آیا تھا۔ ناہلیت، سیسلین مافیا کی عرفیت ، مودی کے یار کا طعنہ، چور اور ڈاکو کے بیانئے اس پر اثر انداز نہیں ہو رہے۔
خدشہ یہ ہے کہ جنونیوں کی تعداد میں اضافہ کہیں اضافہ نہ ہو جائے۔ایسا ہوا تو نیا جنونی خطرناک بھی ثابت ہو سکتا ہے۔کہا جاتا ہے کہ بلی کو بند کر کے اس پر تشدد کیا جائے تو وہ تشدد کرنے والوں کی آنکھیں نوچ لیتی ہے۔ اسد عمر امریکہ گئے تو پریس کانفرنس کر کے گئے تھے۔ ان کے لہجے میں اعتماد بتاتا تھا انھیں اعتماد حاصل ہے۔ بہتر گھنٹوں مین کیا آفت آئی کہ بقول عمران خان ْ پی ٹی آئی کے لائق ترین ْ شخص کو وزیر اعظم نے نکال باہر کیا۔کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ غلام سرور نے پارٹی چھوڑنے کی دہمکی دی تھی۔ کیا محمود الرشید اعلانیہ پارٹی پر چار حرف نہیں بھیج چکے۔ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ حکومتی فلور صرف چار ووٹوں پر کھڑا ہے۔ جس فلور پر دھمال ممکن ہی نہیں ہے۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ تجوریوں والوں نے تجوریوں کے دروازے بند کر لیے ہوئے ہیں۔ سرکاری افسران سے لے کر نجی اداروں کے مالکان تک تذبذب کا شکار ہیں۔یوٹیلٹی بلوں نے عوام کو حیرت زدہ کیا ہوا ہے۔بے روزگاروں کی فوج میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔جان بوجھ کر مایوس کن پیشن گوئیوں کو بڑہا چڑہا کر پیش کیا جاتا ہے۔ ہمسائیوں کے تعلقات بارے چھٹی پر گئے وزیر خارجہ کو پریس کانفرنس کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ ایف اے ٹی ایف تلوار سونت کر گردن کے قریب پہنچ چکا ہے۔محصولات میں پانچ سو ارب کی کمی کا ذمہ دار کیا واقعی اسد عمر ہے ۔
اسد عمر کو ہٹانے کا فیصلہ ٹھندے پیٹوں نہیں ہوا۔ایسے فیصلے پارلیمانی لیڈر مجبوری میں ہی کرتے ہیں۔یہ مجبوری کے بیچ نظر نہیں آتے مگر اندر ہی اندر پھوٹتے رہتے ہیں اور ایک دن جنون بن کر نکل آتے ہیں۔ ایک جنونی تو سنبھالا نہیں جا رہا ۔ دو جنونیوں کو کون سنبھالے گا۔ 
یہ یقین کہ فائل ہمارے ہاتھ میں ہے ۔ میزان میں بھاری ثابت ہو گئی۔ زندہ جنونی کے خلاف وہ دس والیوم جو ٹرالیوں پر رکھ کر میزان میں کے پلڑے میں رکھنے کے لیے لائے گئے تھے ۔ لندن کے میزان میں وہ ایک قانونی شق کو اوپر نہ اٹھا سکے۔ جس کے بعد قانون دان بھی آپ کی میزان کو دیکھ کر مسکرا دیتے ہیں۔ 
جنونی بنائے جانے پر کسی جاہل اور ان پڑھ کو اعتراض ہو ہی نہیں سکتا مگر زمینی حقیقت یہ ہے کہ نہ چاہتے ہوئے بھی جاہل اور ان پڑھ کے ایک آدمی ایک دوٹ کا حق تسلیم کرنا پڑا ۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا روشن پاکستان کی تاریخ کا تاریک باب ہے۔ 
بعض گمان ، گمان ہی رہتے ہیں ، حقیقت کا روپ نہیں دہار سکتے۔ جنونیوں کے بارے میں گمان غلط ہی ثابت ہوئے ہیں۔ عمران خان کو جنونی بنانے کا دھواں بتاتا ہے کہ کہیں نہ کہیں چنگاری سلگ رہی ہے۔ کہا جاتا ہے بھینس کا دودھ دہنے سے پہلے اس کر ْ ٹنگا ْ باندھ لینا چاہیے۔ 


کوئی تبصرے نہیں: