جمعرات، 25 اکتوبر، 2018

پاکستان اکیلا نہیں ہے اس حمام میں


‪CBI moin akhtar‬‏ کیلئے تصویری نتیجہ                                   
پڑوسی ملک بھارت میں ان دنوں سی بی آئی اسکینڈل چل رہا ہے جس میں ہونے 
والی تحقیقات کے دوران سی بی آئی کے کئی ایک ڈائریکٹرز کو اپنے عہدوں سے ہاتھ دھونا پڑ گئے ہیں اور ان سب کے زوال کا سبب بنے والے شخص کا نام ہے معین اختر قریشی۔
ارب پتی معین اختر قریشی کا تعلق بھارت کے شہر کانپور سے ہے اور اُن کا شمار گوشت کے بڑے برآمد کنندگان میں ہوتا ہے۔انہیں سی بی آئی کے اعلیٰ عہدیداروں کے ساتھ ٹیکس چوری، منی لانڈرنگ اور کرپشن کے الزامات کا سامنا ہے۔
معین اختر قریشی کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ بہت سے سرکاری افسران کو خوش رکھنے کے لیے انہیں حوالہ کے ذریعے رقوم بھجوانے میں بھی ملوث رہے ہیں۔ان کی طرف سے نوازے جانے والوں میں سی بی آئی افسران اور بعض سیاستدان بھی شامل ہیں۔
معین قریشی کا نام 2014ء میں سامنے آیا جب ان کے بارے میں معلوم ہوا کہ انہوں نے سی بی آئی چیف رنجیت سنہا سے 15ماہ کے دوران 70بار ملاقات کی۔حیدرآباد دکن کے بزنس مین ستیش بابو کے مطابق انہوں نے اپنے ایک دوست کی ضمانت کے لیے معین اختر قریشی کو ایک کروڑ روپے دیے تھے۔
2014ء کے بعد بھی معین اختر قریشی کے سی بی آئی کے اعلیٰ افسران سے ملاقاتوں اور پیغامات کا تبادلہ جاری رہااور اب سی بی آئی کے نئے چیف الوک ورما بھی ان سے تعلقات رکھنے کے الزام میں اپنے سارے اختیارات سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
قریشی نے اپنے کاروبار کا آغاز 1993ء میں رامپور میں ایک چھوٹے سے مذبح خانے سے شروع کیا تھا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اُن کا شمار بھارت کے چند بڑے گوشت برآمدکنندگان میں ہونے لگا۔25سال کے دوران ان کی کمپنیوں کی تعداد 25ہوگئیہے اوروہ برآمدات کے علاوہ تعمیرات اور فیشن انڈسٹری میں اپنی ساکھ بنا چکے ہیں۔

پیر، 22 اکتوبر، 2018

آزمودہ نسخہ



یہ واقعہ مستند کتاب میں درج ہے۔ زبان دراز اور بے عمل ہجوم پر مشتمل ایک قوم ہوا کرتی تھی۔ تنظیم نام کی شے سے وہ واقف نہ تھے۔ دو وقت کی روٹی کے عوض اپنے مالکوں کے گھروں میں کام کیا کرتے تھے۔ پھر قدرت نے اپنے دن پھیرنے کے قانون کے تحت چاہا ان کے دن پھیر دے۔لیکن وہ نئے سفر پر روانگی کے لیے گھر کی دہلیز ہی چھوڑنے پر تیا ر نہ تھے۔ ان ہی میں سے اللہ نے ایک بندے کو نبی بنایا۔ جو ساری بھیڑکو ہانک کر ایک میدان میں لے گئے۔ میدانوں میں مقابلے ہوتے ہیں مگر ان کا اصرار تھا کہ مقابلہ ان کی بجائے ان کا نبی اور نبی کا خدا کرے۔خدا تو مقابلے میں ان کی فتح کا فیصلہ لکھ ہی چکا تھا مگر خدا نے حالات بھی ان بے عملوں کے موافق کر دیے۔ جب وہ فتح یاب ہو چکے تو ان کا قصہ اسی خدا نے ایک دوسری قوم کے سنانے کے لیے ایک دوسرے نبی کے دل پر القاء کیا ۔ اس نبی نے کتاب میں لکھوایا اور وہ کتاب پوری دنیا میں مستند مانی جاتی ہے ۔ اس دوسرے نبی کی قوم کو بھی نوازنے کا فیصلہ وہی خدا کر چکا تھا۔ نبی نے قوم کو میدان میں نکالنے کے لیے اکٹھا کیا۔ میدانوں میں مقابلے ہوتے ہیں۔ اس قوم نے اپنے نبی سے کہا ۔ خدا تو آسمانوں میں اپنی کرسی پر ہی بیٹھا رہے۔ اور اپنے نبی سے کہا ہم میدان میں مقابلہ کریں گے ۔ آپ بس ہمارے درمیان موجود رہ کر ہماری ڈھارس بڑہاتے رہیں ہم آپ کے دائیں اور بائیں ، آگے اور پیچھے رہیں گے، ہم میدان میں لڑیں گے، لڑتے ہوئے پہاڑوں پر چڑھ جائیں اور اگر ضرورت پڑی تو گہرے پانیوں میں بھی کود جائیں گے۔ اس قوم کے نبی نے اپنے لوگوں کے عمل کو دیکھا ، پرکھا، ان کے کر گذرنے کی داد اس طرح دی کہ ان کو بتا دیا تم شما ل اور جنوب ، مغرب اور مشرق کے مالک بنادیے جاو گے۔ جاہ و جلال چل کر تمھیں سجدہ کرنے آئیگا۔ دنیا کی فراوانی تمھاری دہلیز پر پہنچے گی۔لوگ تمھیں حکمران بنا کر عافیت پایا کریں گے۔یہ قوم میدان امتحان سے فراغت پاتی تو کام میں جت جاتی۔کام سے فرغ ہوتی تو علم کی کتاب کھول کر بیٹھ جاتی۔ یہ قوم کھانے مین سست اور کھانے کا حق ادا کرنے میں چست ہو گئی۔ اس قوم نے عملی طور پر معلوم کر لیا تھا امارت قناعت میں ہے۔ اقل طعام ان کے معدے کو سیر کرنے کا سبب بنا۔یہ کفائت شعار رات کو بے ضرورت دیا نہ جلاتے مگر بھوکی انسانیت کے لیے اپنی تجارت کے مال کا اصل بھی لٹا دیا کرتے تھے۔ان کے دبدبے کا یہ عالم ہوا کہ وہ تلوار نیام میں لیے جس شہر میں داخل ہوتے وہ شہر اپنے مکینوں سمیت ان کی جھولی میں آ گرتا۔ 
ہر طاقت کو آزمایا جاتا ہے۔ صناع اپنی صنعت کو صنعت سے آزماتا ہے، طاقت کو طاقت سے ، علم کو علم سے اور اخلاق کو اخلاق سے آزمایا جاتا ہے۔ کلاشنکوف نام کے شخص نے اپنی گن سے پہلی گولی خود چلا کر اسے جانچا تھا۔ جرنیل اپنی فوج کو آزمائشی جنگوں میںآزماتا رہتا ہے، ادیب اور شاعر وں کی محفلیں اپنے فن کی آزمائش ہوا کرتے ہیں۔ طالب علموں کو امتحان سے گذارا جاتا ہے ۔ خدا بھی اپنے نائبیں کا محاسبہ کرنے سے نہیں چوکتا۔ 
نبوت کا در بند ہو چکا ۔ قوموں کو نوازنے کا فیصلہ اب بھی وہی خدا کرتا ہے۔جس کو نوازنا چاہتا ہے ۔ اس کے لیے اسباب ارزان کر دیتا ہے۔ 
جب بات اسباب کی ارزانی کی ہو تو نبی آخرالزمان کی قوم کے لیے ارزانی صرف اس کے خون کی باقی رہ گئی ہے۔ اس کا سبب لوگوں کو زبانی ازبر ہے،بتایا جاتا ہے ہم میدان میں نکلنے کی بجائے گھر کی چوکھٹ ہی کو دنیا سمجھ بیٹھے ہیں۔ معدے کی ثقالت نے ہمیں کاہل کر دیا ہے۔ زبان درازی عمل سے بازی لے چکی ہے۔اخلاق روٹھ چکا ہے۔ برکت ناپیدہو گئی ہے۔ ذلت نازل ہو چکی، انصاف ناپیدہو گیا۔تعلیم بے ثمر ہو گئی۔ الفاظ محض لکیریں بن کر رہ گئے ۔ اولادیں نا فرمان ہوگئیں۔ ۔۔ وغیرہ 
کیا مرض لا علاج ہو چکا۔ کیا ہم آنکھیں بند کر کے اپنے مرمٹنے کا انتظار کریں؟
نہیں ۔ نہیں ۔ نہیں، دنیا نشیب و فراز کا نام ہے ہر نشیب کو فرازہے ۔ ہر پستی کو عروج ہے۔ ہر مجرم کے لئے کفارہ ہے۔کوئی قوم غلط نہیں ہوا کرتی مگر افراد۔ فرد ہی کو ملت کے مقدر کا ستارہ بتا یا گیا ہے۔فرد کو آج تک خود فرد ہی نے بدلا ہے۔ آج کا فرد اگر اپنی ذات ، اپنے خاندان، اپنے ملک اور اپنہ امت کو بدلنا چاہتا ہے کہ وہ حق کو اپنا لے۔ حق کے لیے ٓآسان ترین اور سادہ ترین لفظ ْ سچ ْ ہے۔ایسا ْ سچ ْ جو خود اپنی ذات سے شروع ہوتا ہے

اتوار، 21 اکتوبر، 2018

خواتین اساتذہ کی لباس کے چناو کی آزادی

                                         


بہادر لوگ اپنے تمغوں کو اور نفیس لوگ اپنے جوتوں کو چمکا کر رکھتے ہیں۔ تمغوں کے اظہار کے مواقع 
محدود ہوتے ہیں مگر جوتے تو روز مرہ استعمال کی چیز ہے۔ چمکتے جوتے بھی تب ہی جچتے ہیں جب سارا لباس ہی اجلا ہو۔ لباس کے بارے میں سیانے کہتے ہیں، موقع محل کے مطابق اور مناسب ہونا چاہیے۔ 
امریکہ کی ایک عدالت میں1969 میں ایک مقدمہ سنا گیا جس میں موقع محل کے مطابق مناسب لباس پر بحث کر کے عدالت سے فیصلہ مانگا گیا تھا۔ اس زمانے میں امریکہ ویتنام میں جنگ لڑ رہا تھا اور امریکہ کے اندر اس جنگ کی مخالفت کے اظہار کے طور پر طلباء نے اپنے لباس پر سیاہ رنگ کی پٹیاں باندہنی شروع کی تو انتظامیہ نے سیاہ پٹیاں باندہنے پر پابندی لگا دی۔ عدالت میں لباس پہننے کی آزادی کو لے کر مقدمہ لڑا گیا۔ البتہ  عدالت نے سکول کی انتظامیہ کا یہ حق تسلیم کیا کہ وہ طلباء کے لیے 
Dress Code
 نافذ کرنے کا حق رکھتی ہے ۔ اس کے بعد سکولوں نے اپنے ڈریس کوڈ کو بطور یونیفارم نافذ کر دیا۔ اور اس یونیفارم کے علاوہ کچھ بھی پہننا ڈریس کوڈ کی خلاف ورزی شمار ہونے لگا۔وقت کے ساتھ ضرورت کے مطابق اس ڈریس کوڈ میں ترامیم بھی ہوتی رہیں البتہ اس پر اس کا اتفاق ہے ایسا لباس نہ پہنا جائے :
ٌٌ جو کسی مخصوص طبقے، گروہ کا شعار ہو یا کسی تجارتی برانڈ یا لوگو کا پرچار کرتا ہوْ
 کسی نظریے ، فکر یا تحریک کو اجاگر کرتا ہو
 رنگ برنگے لباسوں کی بجائے یکساں رنگ کا لباس ہو
لباس کی کم از کم اور زیادہ سے زیادہ لمبائی کا بھی تعین کر دیا جائے
وقت کے ساتھ ساتھ اس میں جو ترامیم ہونیں اس کے بعد 
ایسا لباس جو جنسی اشعال کا سبب بنتا ہو یا منشیات کی ترغیب دیتا ہو
ایسا لباس جو انسان کے زیر جامہ اور پردے کے مقامات کے اظہار کا سبب بنتا ہو ا پر بھی پابندی عائد کر دی گئی۔ البتہ کچھ چیزوں کو استثناء بھی حاصل ہوا جن میں:
*لڑکیوں کا سر پر سکارف باندھنا
* لڑکوں کا پگڑی باندھنا
* کپہ ( مخصوص ٹوپی ) سر پر رکھنا
* صلیب والے نیکلس پہننا
البتہ لڑکوں کے سر کے بالوں 
* ادارے کے طے کردہ اصولوں کے مطابق ترشوانا 
بھی ڈریس کوڈ کا حصہ بنا دیا گیا۔
پاکستان مین نجی تعلیمی اداروں کے ڈریس کوڈ ان کے ماخذ ادارے 
Mother Institution 
کی بجائے ان اداروں کی مقامی انتظامیہ طے کرتی ہے ، جو مقامی موسم و مزاج کے مطابق ہوتے ہیں ۔مقصد یہ ہوتا ہے کہ طالب علم جب سکول مین داخل ہو اس کی تعلیم کے حصول سے توجہ نہ ہٹ پائے اس کے لیے سکول کا ماحول اور اس کا لباس اس کا معاون بنے۔
تبدیلی کے اس دور میں نجی اداروں کی استانیوں کے عباء پہننے اور سر پر سکارف لینے کی ممانعت کی مہم زور شور سے جاری ہے ۔ کہا یہ جا رہا ہے کہ اداروں کو استانیوں کے بارے میں ایسا ڈریس کوڈ تجویز کرنا چاہیے جو طلباء کو استانی کی طرف متوجہ رکھنے کا سبب بنے تاکہ دوران لیکچر طلباء کی توجہ بکھرنے سے محفوظ رہے۔
کچھ نجی سکولوں کی انتظامیہ نے اس دلیل سے متاثر ہو کر اپنی خواتین اساتذہ کو زبانی ہدایت کی ہے کہ وہ کالے رنگ کے سکارف کی بجائے شوخ رنگ کے پھول دار سکارف استعمال کریں۔کہا جاتا ہے کہ دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے۔ اس موضوع پر فکر مند لوگ دودھ ہی کے جلے ہوئے ہیں۔ جلن ، جلن ہی ہوتی ہے خواہ بلاواسطہ آگ کی ہو خواہ بلواسطہ۔
اس ملک میں کچھ نجی ادارے غیر مسلموں کے بھی ہیں۔ ان میں اسلامیات کی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔ خواتین اساتذہ کو عباء ہی نہیں کالے سکارف پہننے کی بھی آزادی ہے۔ ان اداروں میں طلباء کو توجہ مضمون پر دینے کی تلقین کی جاتی ہے ۔ کیا مسلمان اداروں کے لیے ہی لازمی ہے کہ وہ اپنے طلباء کو خواتین اساتذہ کی ذات میں دلچسپی لینے کی ترغیب دیں۔ 

ہفتہ، 20 اکتوبر، 2018

ذکر دو بہنوں کا


راولپنڈی کی ضلع کچہری میں ایک شخص نے عدلیہ کے کردار کا ماتم کرتے ہوے کہا تھا ْ اس ملک میں انصاف مر چکاہے بس اس کی دو بہنیں رشوت اور سفارش زندہ ہیں ْ اس سفید ریش کے ساتھ ہوا یہ تھا کہ اس نے اپنے نوجوان کالجیٹ بیٹے کو موٹر سائیکل دے کر مہمانوں کے لیے سموسے لانے کے لیے بھیجا ۔ مہمان چائے پی کر چلے بھی گئے مگر نوجوان واپس نہ آیا ۔ موبائل فون پر ْ آپ کامطلوبہ نمبر بند ہے ْ کی گردان نے اسے پہلے غصہ دلایا پھر تشویش میں مبتلا کر دیا۔ جب اندھیرا گہرا ہونا شروع ہوا تشویش بھی گہری ہو گی ۔ کسی ممکنہ حادثے کے خوف نے سر اٹھایا ۔ شہر کے سارے ہسپتال چھان کر بیٹھے تو والد کا فون بج اٹھا۔ کال کرنے والے نے بتایا کہ میں تھانے کی حوالات میں بند اپنے عزیز سے ملنے گیا تھا۔ آپ کے بیٹے نے یہ نمبر دیا اور اطلاع دینے کی درخواست کی تھی ْ 
باپ بیٹے کی کہانی یہ تھی کہ بیٹے کو پولیس والے نے روکا ، لائسنس اور موٹر سائیکل کے کاغذات موجود تھے ۔ پولیس والے نے ایک سول کپڑوں میں ملبوس شخص کو پیر ودہائی کے بس اسٹینڈ پر چھوڑ کر آنے کا کہا، بیٹے نے گھر جلدی پہنچے اور مہمانوں تک سموسے پہچانے کا عذر پیش کیا۔ اس بات پر تلخ کلامی ہوئی ۔ سموسوں سمیت موٹر سائیکل تھانے میں اور بیٹا حوالات میں بند ہو گئے ۔ باپ نے تھانے پہنچ کر اس رویے پر احتجاج کیا تو والد کو بھی بیٹے کے ساتھ حوالات میں بند کر دیا گیا۔محکمے کے بڑوں تک بات پہنچی تو باپ پر منشیات فروشی کا مقدمہ درج ہو چکا تھا۔ عدالت میں پیشی پر ڈیوٹی مجسٹریٹ نے باپ بیٹے کی بات سنے بغیر انھیں عدالتی ریمانڈ پر جیل بجھوا دیا ۔ اس بے انصافی پر باپ نے ہتھکڑیوں میں جکڑے دونوں ہاتھوں سے مکہ بنا کر مجسٹریٹ کو مارنے کی کوشش کی جو عدالت کے سٹینو گرافر نے ناکام بنا دی اور پولیس کو ایک اور مقدمہ درج کرنے کا حکم صادر ہو گیا۔
تفتیشی افسر کے مطابق ٹریفک پولیس کے اہلکار نے موٹر سائیکل کے کاغذات نہ ہونے پر لڑکے کا چالان کیا تو نوجوان نے اس سے ہاتھا پائی کی اور چالان بک ٹریفک اہلکار سے چھین کر پھاڑ دی۔ نوجوان کے باپ کے خلاف تفتیشی افسر کے پاس ایک شہری کی درخواست موجود تھی جس میں منشیات فروشی کا الزام لگایا گیا تھا ۔ پولیس نے چھاپہ مارا اور ملزم کو منشیات سمیت گرفتار کر لیا۔عدالت سے باپ بیٹے کی ضمانت منظور ہونے کے بعد وکیل کے چمبر میں بیٹھے تفتیشی افسر کے مطابق جذباتی بڈھے نے خود ہی اپنے کیس کو الجھا لیا تھا۔اس کا جذباتی بڈھے کے پاس جواب نہیں تھا مگر جب بڈھے نے کہا ْ اس ملک میں انصاف مر چکاہے بس اس کی دو بہنیں رشوت اور سفارش زندہ ہیں ْ تو اس کا جواب تفیشی افسر دے سکا نہ وکیل صاحب۔میں سوچتا ہوں اس کا جواب مجسٹریٹ کے پاس بھی نہیں ہو گا جس نے ذاتی انتقام میں ایک جذباتی بڈھے پر ایک نیا مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا تھا۔ 

عمران خان


چین اور پاکستان کے ایک دوسرے سے جڑے مفادات ہی ہیں جن کے باعث دونوں ممالک کی دوستی ہمالیہ کی بلندیوں کو چھو رہی ہے۔ گہرے پانی بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہیں اور زمین پر بھی پاک چین راہداری کی شکل میں موجود ہیں۔ 
جدید چین پاکستان سے بہت پیچھے تھا ۔ مگر اس نے تیز ترین ترقی کر کے خود کو ماڈل کے طور پر پیش کیا ہے ۔ عمران خان صاحب لوگوں کو بتاتے ہیں ْ پاکستان چائنا کی طرح اوپر جائے گا ْ وہ پاکستان کو چین کے رستے پر ڈالنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ پنجاب کے وسط میں ان کی یہ اواز ہنر مندوں اور چھوٹے تاجروں کو بہت بھلی لگتی ہے۔ وہ مڈل کلاس طبقہ بھی اس بیان کو پسند کرتا ہے جن کے چین کے ساتھ تاجرانہ روابط ہیں۔چین کے سخت اور بے رحم نظام انصاف کو وہ کرپشن ختم کرنے کا آسان حل بتاتے ہیں۔کرپشن کی بے رحم چکی میں پستا طبقہ ان کی آواز کو اپنے دکھوں کا مدادا سمجھتا ہے۔ پاکستان میں عمران خان صاحب کا یہ بیانیہ بہت سے لوگوں کو پسند آتا ہے۔
برٹش کونسل کے مطابق پاکستان میں انگریزی سیکھنے اور اس کے استعمال میں خاطر خواہ اضافہ ہو ہے، انگریزی میڈیا اور ادب پہلے سے زیادہ پڑھا جاتا ہے۔ یہ بات امریکی فلموں بارے بھی سچ ہے۔پاکستانی طالب علموں کو تعلیمی وظائف زیادہ ترمغرب سے ہی آتے ہیں ۔ پاکستانی معاشرہ کا علمی، معاشی اور مقتدر طبقوں کا سماجی قبلہ مغرب ہی ہے۔
اسد عمر صاحب نے ایک صحافی سے بات کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ْ خان صاحب پورے انگریز ہیں ْ وہ ۱۷ سال کی عمر میں لندن جا بسے تھے زندگی کا بڑا حصہ لندن اور مغرب میں گزارا، ان کا رہن سہن انگریزی ہے۔ انھوں نے اینگلو فرنچ خاندان کی جمائما خان سے شادی کی تھی۔ دو بار شہزادی ڈیانا کو لاہور لائے۔دو برطانوی بیٹوں کے باپ ہیں۔کتوں سے ان کی محبت کا عالم یہ ہے کہ ان کے دوست انھیں کتا بطور تحفہ دیتے ہیں۔وہ مغرب میں قانون کی حکمرانی سے اس قدر متاثر ہیں کہ اپنے جلسوں میں اس کی مثالیں دیتے ہیں۔ برطانوی پارلیمان کو جمہوریت کی ماں بتاتے ہیں۔پارلیمان کیسے کام کرتی ہے سب ان کو ازبر ہے ۔ جلسوں میں برطانوی جیوری سسٹم کی تعریف کرتے ہیں۔ان کے یہ الفاظ ملک کے متوسط طبقے کو ان کے عزائم دکھائی دیتے ہیں۔انھیں یقین ہے کہ خان صاحب برطانیہ اور سکینڈینیوین ممالک جیسا فلاحی معاشرہ پاکستان میں قائم کر کے پاکستان کو جمہوری اور فلاحی ریاست میں تبدیل کر دیں گے ۔
پاکستان میں ایک بڑے بڑی تعداد میں لوگوں کے عزیزو اقارب دوبئی اور ریاض میں ہیں یہ لوگ دبئی اور ریاض کی روشن اور بلند عمارات، سامان سے لبریز دوکانوں ، نئے ماڈل کی چمکتی شفاف شاہراہوں پر دوڑتی گاڑیوں اور وہاں پر درہم و ریال کی فراوانی سے مرعوب ہیں ۔ ان لوگوں کو یقین دلایا گیا ہے عمران خان پاکستان کو دوبئی کی طرح ایسا ملک بنائیں گے جہاں مغرب سے لوگ ملازمت کرنے پاکستان آیا کریں گے۔
امیر لوگ دوبئی اور سنگاپور سے متاثر ہیں۔ کھلی مارکیٹ کی بات ان کے ہاں توجہ پاتی ہے۔ سنگا پور کے سابقہ رہنماء 
Lee Kuan Yewکا ذکر خان صاحب اپنے دوستوں اور ملنے والوں میں اکثر کرتے ہیں ۔عمران خان صاحب اس طبقے کے لوگوں کو بتاتے ہیں کہ وہ پاکستان کو دوبئی اور سنگاپور بنانا چاہتے ہیں۔آزاد معیشت اور کھلی منڈی کے دلدادہ افراد کو خان صاحب کا یہ وژن اپنی طرف راغب کرتاہے۔
پاکستان میں جرنیل، جج ، اداروں کے سربراہاں اور خفیہ اداروں کے کرتا دھرتا کو ملا کر اسٹیبلشمنٹ کا نام دیا جاتا ہے۔ مرحوم حمیدگل صاحب سے مثاثر ہونے کا وہ خود اعتراف کرتے ہیں۔ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا تھا ْ فوج کے ساتھ کوئی ٹکراو نہیں ہے۔ وہ کرپٹ سیاستدانوں سے چھٹکارا چاہتی ہے اور ان سے دور ہونا چاہتی ہے ، کیا یہ غلط ہے کہ میں ان کی حمائت نہ کروں ْ اسٹیبلشمنٹ کے سابقہ اور حاضر افراد کے ساتھ ان کے روابط کو وہ چھپانے کی کوشش نہیں کرتے ۔ یہ سوچ اور عمل پاکستان کی مقتدر طاقتوں اور ان کے ہم نواوں کو خان صاحب کا گرویدہ بناتی ہے۔
خان صاحب پاکستان کو امریکہ کی غلامی سے نکالنے کے بہت بڑے حامی ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کو وہ امریکہ کی جنگ سمجھتے ہیں ۔ امریکی امداد اور غیر ملکی شرائظ بھرے قرضوں اور گرانٹوں کو وہ پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھتے ۔وہ ڈرون حملوں کے مخالف ہیں۔ان کا شمار طالبان کے ہمدردوں میں ہوتا ہے۔ ان کے نزدیک طالبان گمراہ لوگ ہیں ان کو پیار سے سمجھانے کی ضرورت ہے۔ وہ طالبان کو یہ بات سمجھانے مدرسہ حقانیہ جاتے ہیں۔ ان کی بات کے وزن کو محسوس کیا جاتا ہے۔طالبان کو ان کا بیانیہ پسند ہے
خان صاحب کا آئیڈیل مدینہ کی ریاست ہے، وہ نماز ادا کرتے ہیں، ان کی پارٹی میں علماء اور مفتیان کرام موجود ہیں، اپنی جوانی مغرب میں گذارنے اور آزادانہ معاشرے کے ثمرات سمیٹنے کے بعد اسلام سے اس قدر مثاثر ہیں کہ شرعی پردہ ان کے گھر کے اندر موجود ہے۔ وہ درگاہوں اور آاستانوں پر سر خم کرتے ہیں۔ کے پی کے میں انھوں نے مساجد کے پیش اماموں کی مالی مشکلات کو کم کرنے کی سعی کی۔ایک جلسے میں انھوں نے کہا تھا ْ محمد ﷺ ایک سیاستدان تھے ْ ان کا یہ طرز کلام و حیات پاکستان میں دینی طبقات کو ان کا مداح اور پیرو کار بناتا ہے۔
وہ ہر موضوع پر بولنے کا سلیقہ جانتے ہیں۔ ان کے پاس دلیلوں کے انبار ہیں۔ ان کی شخصیت میں سحر اور زبان میں جادو ہے ۔ان کے پاس متاثر کن الفاظ کا نہ ختم ہونے والا ذخیرہ ہے۔ وہ لوگوں کو نہیں ان کے جذبات کو مخاطب کرتے ہیں۔ وہ پاکستان کے عوام کی کمزوریوں، خواہشات، اور آگے بڑہنے کی شدید تڑپ سے آگاہ ہیں ۔ وہ اپنی کرشماتی شخصیت سے بھی آگاہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے وہ وقت کے مشہور ترین شخص ہیں۔ بی بی سی کو ایک انٹر ویومیں انھوں نے کہا تھا ان کے پاس سٹریٹ پاور ہے اور وہ ملک کو بند کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں
پاکستان کے عوام اور خود عمران خان کی پارٹی کے لوگوں میں خان صاحب کا سیاسی وژن، معاشی سمت اور تزویراتی راہ واضح نہیں ہے ۔اور اس کا سبب خود خان صاحب کا ذہن واضح نہ ہونا ہے
عمران خان صاحب کے بہت قریب اور باخبر وزیر نے ایک غیر ملکی کو انٹر ویو دیتے ہوئے اپنے لیڈر کے بارے میں کہا :
He is selling pakistanis, a dream but he is not a con man. Khan, to me, is not an ideoligist or a popupist ,but a genius at PR.
۔