ہفتہ، 24 فروری، 2018

اتھرا جن


تماشہ دیکھنے والوں میں بھی شامل تھا ۔ عامل نے ْ جن ْ کو حاضر کر لیاتھا، جن نے عامل کو دھمکیاں دینی شروع کی تو عامل کے چہرے پر مسکراہٹ ابھری، اس کا اعتماد بتاتا تھا کہ اس کا علم کامل ہے ، عامل نے تماشائیوں پر نظر ڈالی اور کہا ْ خونی رشتہ دارباہر جائیںْ اور اپنے عمل میں محو ہو گیا۔ پھر ہم نے کانپتے لہجے میں دھمکی سنی ْ اس کی جان لے لوں گا ْ میں نے دل ہی دل میں عامل کی فراست کی داد دی جس نے ماں کو باہر نکال دیا تھا ورنہ ْ جن ْ کی یہ دھمکی ماں کا کلیجہ ہی چیر دیتی۔آ

ماں کا رشتہ رحمت کا استعارہ ہے۔ پاکستان میں تحریک بحالی عدلیہ، جو عوام نے ، چیف جسٹس افتخار چوہدری کو بحال کرانے کے لیے شروع کر رکھی تھی۔ اس میں بیرسٹر اعتزاز احسن کی ْ ماں جیسی دھرتی ْ بہت مقبول ہوئی تھی۔ماں کا لفظ ہی ایسا ہے کہ اس پر جوان گرم انسانی خون قربان ہو جاتا ہے۔ اور گھر کی حفاظت کے جذبے کو جوان رکھنے کے لیے ْ دھرتی ماں ْ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔

۱۹۷۰ کے انتخابات میں ذولفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی نے روٹی ، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگایا تو اس پر کفر کے فتووں کے باوجود عوام نے ووٹ روٹی ، کپڑے اور مکان ہی کو دیا تھا کہ انسان کی فطری ضروریات ہیں،۔ لاہور والے واصف علی واصف سے کسی نے گلہ کیا تھا کہ لوگ خدا سے زیادہ بھوک سے ڈرتے ہیں تو جواب آیا تھا پہلے بھوک ہی ختم کر لو۔

جب بھٹو نے دوبارہ الیکشن جیت لیا تو پاکستان میں ْ مقتدرہ ْ کو ْ جنْ نے گھیر لیا کہ یہ تو مطلق العنانی کی طرف جا رہا ہے۔ عامل جو آیا کتاب اس کی بغل میں تھی۔سایہ اتارنے میں دس سال لگ گئے ۔ مگر معاشرہ ایسا تقسیم ہوا کہ ہر مرض نظر آتی بیماری کا علاج کلاشنکوف کی گولی سے ہونا معمول بن گیا۔فتوئے عام ہو گئے اور مسلمانوں میں ڈہونڈ ڈہونڈ کر کافروں کو علیحدہ کیا گیا۔اور عوام کے ذہن میں راسخ کیا گیا کہ کوڑے کا استعمال ہی اصل دین ہے ۔

اندازہ لگایا گیا کہ سایہ ختم ہو گیا ہے لہذبھٹو کی بیٹی کووزیر اعظم تو بنا دیا گیا مگر پتہ چلا انھوں نے خالصتان بنانے والے سکھو ں کی فہرستیں انڈیا کے حوالے کی ہیں۔ اس کی پاکستان سے وابستگی پر طنز کرنے والوں نے اسے اپنے باپ کی چنیدہ اس جگہ کا دورہ کرنے سے روک دیا جہاں ذولفقار علی بھٹو نے ایٹمی پاکستان کی پہلی اینٹ رکھی تھی ۔ البتہ اس کی شہادت کے بعد معلوم ہوا کہ پاکستان کے میزائلی دفاع کی مضبوطی میں اس کا کردارکتنا منفرد اور قابل تحسین تھا۔

بے نظیر اور نواز شریف کی جمہوری حکومتوں مضبوط ہوتا دیکھ کر پھر ْ مقتدرہ ْ کو ْ جنْ نے گھیر لیا۔ اس بار عامل ایسا لبرل تھا کہ کتے بغل میں دبا کر بلندیوں سے نازل ہوا۔مگر ہم نے دیکھا کہ پاکستان کے شہر راولپنڈی ، جہاں ہماری بہادر اور قابل فخر افواج کا ہیڈ کوارٹر ہے وہاں بھی ہمارے بیٹے فوجی وردی پہن کر باہر نہیں نکل سکتے تھے۔ شہریوں کو ڈالروں کے عوض بیچنا قابل فخر عمل ٹھہرا۔ ہر وہ کام جس کے عوض ڈالر مل سکتے تھے کیا گیااورمعترضوں کو افواج پاکستان کا دشمن بتایا گیا۔ اپنے محسنوں کو بے عزت کرنا ہمارا شیوہ بن گیا۔ جب ہم ڈاکٹر عبد القدیر خان جیسے شخص کو ٹی وی پر لا رہے تھے ۔ دراصل یہ ہمارے دلوں کی سختی کا اظہار تھا۔ ارادے مضبوط ہونے اور دل سخت ہونے کافرق کوئی لاپتہ افراد کے لواحقین سے بے شک نہ پوچھے عافیہ صدیقی کی بہن ہی سے پوچھ لے۔عاصمہ جہانگیر مرحومہ جب عافیہ کے بیٹے کے دفاع میں آمر کے سامنے کھڑی ہوئی تو ہمیں معلوم ہوا وہ عورت بے دین، فوج کی دشمن اور بھارت کی ایجنٹ تھی۔ ہمارے بیانئے ایسے ہی تراشے جاتے ہیں اور توقع کی جاتی ہے کہ ان پر دل کی گہرائیوں سے ایمان بھی لایا جائے۔اور ایمان لایا جاتا رہا ہے۔

جب عوام نے آصف زرداری کو اعتماد بخشا تو ان کے وزیر اعظم کو خط نہ لکھنے پر بے عزت کر کے گھر بھیج دیا۔ ۔البتہ دوسرے شریف اور کارکن راجہ پرویز کو راجہ رینٹل کا خطاب عطا کر دیا گیا۔ نواز شریف کو عوام نے اکثریت سے منتخب کیا۔ الیکشن سے چھ ماہ قبل تمام اعشاریے بتا رہے تھے کہ یہ دوبارہ مقبولیت حاصل کرے گا ۔ ایک بار ظالم ْ جن ْ پھر سایہ بن کر نازل ہوا۔ تین سوارب کی کرپشن تو عدالت میں ثابت نہ ہو سکی ۔ البتہ پتہ چلا پاکستان میں مودی کا یار وہی تو ہے، وطن کا غدار بھی ہے، اور پاکستان کی ۷۰ سال میں سے ۴۰ سال کی محرومیوں کا ذمہ دار وہی ہے۔ اور یہ کہ عوام نے اسے مسترد کر دیا ہے۔ عوام البتہ ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں یہ مسترد کنندگان کہا ں بستے ہیں۔ ۳۰۰ ۱ سو مبلغین کی وعظ پر یقین کرنے کرنے کے لیے جب عوم تیار ہی نہیں تو ان کو مومن کیسے بنایا جا سکتا ہے۔

کرپشن کا شور ذولفقار علی بھٹو کے وقت میں بھی اٹھایا گیا تھا۔ ریلوے کی وزارت کرپشن کا گڑھ بتائی گئی اور ایک کارکن خورشید حسن میر جو وزیر ریلوے تھا پر الزام لگایا گیا کہ اس نے پورا انجن غائب کر دیا ہے ۔مگر رات گٗی بات گئی۔ آصف زرداری نام کا شخص جس نے وزیر اعظم ہاوس میں ایسے گھوڑے پال رکھے تھے جو صبح جام کھا کر دن کی ابتداء کرتے تھے اور رات کو بادام کھا کر سوتے تھے۔ مگر سورج غروب ہو کر چڑہا تو یہ داستان بھی بھلا دی گئی۔نواز شریف پر تین سو ارب کی کرپشن عدالت میں ثابت نہ ہو سکی تو پنامہ اور اقامہ کو گڈ مڈ کر کے داد طلب کی جاتی ہے۔

عامل نے ْ جن ْ کو حاضر کر لیاتھا، جن نے عامل کو دھمکیاں دینی شروع کی تو عامل کے چہرے پر مسکراہٹ ابھری، اس کا اعتماد بتاتا تھا کہ اس کا علم کامل ہے ، مگر ہر بار لازم نہیں ، عامل جن کو قابو کر لے ۔ بعض اوقات جن عامل ہی کو قابو کر لینے کی کوشش شروع کر دیتے ہیں اور جو ْ جن ْ یہ کوشش شروع کر دے اس پر ماہرین بتاتے ہیں کوئی ْ عاملْ قابو نہیں پا سکتا۔


جمعہ، 23 فروری، 2018

اپنی زات کا محاسبہ


ہمارا مقصد چونکہ ذہن کے بند دریچے کھولنے کی کوشش ہے اس لیے ہم ذیل میں چند معاشرتی رویوں کو بیان کرتے ہیں تاکہ ہم اپنی ذات کا خود ہی جائزہ لے کے اپنے بارے کوئی فیصلہ کرنے کی ہمت کر لیں:

کیاآپ سنی سنائی باتوں سے خود متاثر ہوتے ہیں ، افوائیں شوق سے سنتے ہیں اور خوش دلی سے دوسروں تک پہنچاتے ہیں۔اور جب معلوم ہوتا ہے کہ یہ محض گپ تھی تو کوئی افسوس نہیں ہوتا اور یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہْ سب لوگ ہی ایسا کرتے ہیں

کیا آپ ہمیشہ سچ بولتے ہیں اسی لیے جھوٹے لوگوں سے نفرت ہے یا اپنا گناہ ہلکا مگر دوسروں کا بھاری نظرآتا ہے

کیا آپ اپنے گھر والوں، عزیز و اقار ب اور دوستوں پر اعتماد کرتے ہیں یا ان کے اقوال و اعمال کوشک کی نظر سے دیکھتے ہیں اور کیا دوسروں کا آپ کے اقوال و اعمال پر شک کرنا ان کا حق ہے یا یہ رویہ ہی غلط ہے

کیا اس بارے سوچتے ہیں کہ خود، خاندان ، محلہ اور گاوں کیوں پسماندہ ہے۔ کیا سوچنا ، غور کرنا آپ کا کام نہیں ہے اور اگر سوچتے ہیں تو کیا کوئی بھی ایسا عمل نامہ اعمال میں موجود ہے جس کو نکال کر دکھا سکیںیا آپ محض گفتار کے غازی ہیں

کیا اپنے والدین، معاشرے سے شاکی ہیں اور سمجھتے ہیں کہ گھر والوں اور معاشرے کو آپ کی سوچ کےمطابق تبدیل ہو جانا چاہیے، مگر آپ خود تبدیل ہونا پسند نہیں کرتے

کیا آپ بڑی شخصیات سے مرعوب ہیں مگر کبھی یہ نہیں سوچا کہ یہ لوگ کیسے اور کیوں بڑے ہو گئے ہیں، کہیں بھیڑ چال کا شکار تو نہیں ہیں۔ اور اگر واقعی ان میں کوئی بڑا پن ہے تو کیا آپ نے ان سے کچھ سیکھا ہے؟

کیا آپ کے خیالات اور اعتقادات کی بنیاد راسخ ہے ، آپ نے اپنا عقیدہ اور نظریہ سوچ سمجھ کر ، چھان پھٹک کر اپنایا ہے یا معاملہ اس کے برعکس ہے؟

آپ نے اپنی ذاتی اور خاندانی زندگی کی پلاننگ کی ہے یا خود کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑا ہوا ہے، جس راہ پر چل رہے ہیں اس کی منزل کا معلوم نہیں ہے بلکہ میں قافلے کا حصہ ہوں جہاں قافلہ اترے گا ، سب کے ساتھ وہی میری منزل ہے؟

جس معاشی غربت اور معاشرتی پسماندگی کا شکار ہیں کیا آپ نے اب تک اس کو کم کرنے کے لئے کوئی عملی قدم اٹھایا ہے اور اب تک اپنی اس کوشش میں کتنے فی صد کامیابی حاصل کر لی ہے ۔ یا اس معجزے کا انتظار کر رہے ہیں جس کے بعد آپ اور آپ کے خاندان کے معاشی اور معاشرتی حالات خود بخود بدل جائیں گے؟

آپ کے پاس حالات بدلنے کا زبردست پلان موجود ہے مگر اس معاشرے اور اس ملک میں اس پر عمل درآمد ممکن نہیں ہے اس لیے آپ پہلے انقلابیوں کے ساتھ مل کر انقلاب برپا کرنا چاہتے ہیں ۔آپ کا سیاسی رہنماء آپ کو یقین ہے آپ لیے اپنی جان کی بازی لگا دے گا اورآپ کا یہ یقین اس کی باتیں سن کر نہیں بلکہ اس کا ماضی کا عمل دیکھ کر پختہ ہوا ہے؟

آپ اس معاشرے کا حصہ ہیں جہاں رہنماء معاشرتی تبدیلی کے لیے آپ کی توانائیوں اور مالی مدد کا خواہاں ہے آپ اس کی تنظیم میں متحرک ہیں آپ کی بات سنی جاتی ہے ، آپ اپنی مالی مدد کا حساب دیکھ سکتے ہیں کہ وہ رہنماوں کی عیاشیوں پر خرچ نہیں ہو رہا ہے؟

آپ کے دینی رہنماء نے آپ کودین بہتر طور پر سمجھایا ہے، اس کا مطالعہ وسیع ہے وہ راست گو ہمدرد ہے ، اپنے مسلک کے علاوہ دوسرے مسالک اور دوسرے ادیان کے مطالعہ کی حوصلہ افزائی کرتا ہے، خود اس کا اپنا ذریعہ روزگار ہے اور اس نے فقر کو امارت پر ترجیح دے رکھی ہے۔ آپ جو بھی نذرانہ اس کو پیش کرتے ہیں وہ اس کی ذات اور خاندان پر خرچ نہیں ہو رہا ہے؟

آپ اپنے سیاسی یا مذہبی رہنماء کی مخالفت میں کچھ بھی سننے سے لئیے تیار نہیں ہیں کیونکہ آپ کو اپنی ذات سے زیادہ اپنے رہنماء کی ذات پر یقین ہے کہ وہ غلط ہو ہی نہیں سکتا�آ

*آپ خود ان سوالوں کے جواب اپنے پاس لکھ کر فیصلہ کریں کہ آ پ دماغ سے سوچتے ہیں یا دل سے ؟
اور یاد رکھیں جو لوگ دل سے سوچتے ہیں ان کی شخصیت کو عقل والے زینہ بنا کر مزید کامیابی کا ایک زینہ طے کر لیتے ہیں

جمعرات، 22 فروری، 2018

ملکیت



لیکچر کیسا تھا
میں نے خاموشی توڑنے کی نیت سے گل محمد سے پوچھا
ْ ْ ْ میں تو خوفزدہ ہوں ْ
کس بات سے
گل محمد کا جواب تھا ْ دین کے پاکستان سے امریکہ منتقل ہونے پرْ
دراصل پروفیسر صاحب نے اپنے لیکچر میں مسلمانوں کو خبردار کیا تھا کہ اگر مسلمانوں نے ہوش کے ناخن نہ لئے تو دنیا کی امامت کے بعد دین کی امامت بھی مغرب کے پاس منتقل ہو جائے گی۔ انھوں نے قران پاک کی ایک آیت کا ترجمہ کر کے بتایا تھا کہ خدا قادر ہے کہ تمھاری جگہ دوسری قوم لے آئے۔
میں بھی فکر مند تھا ،مگر میری فکر مندی یہ تھی کہ میرے محلے سے بلدیہ والے کچرا نہیں اٹھاتے، کچرے کی بڑہتی مقدار نے گلی سے گذرنا دوبھر کیا ہوا تھا۔محلے کی مسجد سے ہر جمعے والے دن صفائی پر وعظ دیا جاتا تھا۔ محلہ کمیٹی کے ماہانہ اجلاس میں گلی میں کچرا پھینکنے والوں پر طعنے کسے جاتے تھے اور بات ذاتیات تک پہنچ کر جھگڑے بن جاتے تھے ایک بار معاملہ تھانے تک بھی گیا۔ مگر محلے سے کچرا کم نہ ہوا۔
گل محمد بولا ْ ایک بات بتائیں ْ
پوچھو
ْ ہر اچھا آدمی غلطیوں کی نشان دہی کرتا ہے۔ ہم پر اثر کیوں نہیں ہوتا ْ
اسلئے کہ ہماری زبا ن ۔۔۔ میں کہنا چاہتا تھا ْ نصیحت کرنا جانتی ہے مگر ہاتھ عمل کرنے سے عاری ہیں ْ مگر میں خاموش ہو گیا۔ میں نے وہیں ایک فیصلہ کیاتھا
گھر پہنچ کر ، ایک آٹے والی خالی بوری لی اور اپنے گھر کے سامنے سے کچرا چننے کی ابتداء کی ، بوری ابھی بھری نہ تھی کہ مولوی صاحب بڑا سا شاپنگ بیگ لے کر میرے ساتھ شامل ہوگئے۔ قریشی صاحب بھی آگئے۔دیکھتے دیکھتے نوجوان بھی شامل ہو گئے ، دیکھتے ہی دیکھتے محلہ صاف ستھرا ہو گیا۔ نعمان صاحب اپنی پک لے آئے ۔ ۵ بوریاں، ۶ کاٹن، ۱۵ شاپرکو ہم نے پک اپ میں رکھ کر محلے سے کچرا نکالا۔اس سارے عمل میں گل محمد میرے ساتھ تھا
دوسرے دن دفتر میں اس نے مجھ سے کہا ۔ ْ کل مجھے ایک سبق ملا ہے ْ
کیا
ْ ْ اگر سارے ملک کے محلے دار اپنے محلوں کو صاف کرنے کا ارادہ کر لیں تو ایک گھنٹے میں پورا ملک صاف ستھرا ہو سکتا ہے ْ
اصل بات یہ ہے جب تک ہم اپنے محلے ، شہر ، اداروں ملک، نظریات ، اعتقادات کی ملکیت اپنے ہاتھ میں نہیں لیں گے پروفیسر، ماہرین، علماء ، لبرلز ، اور دوسرے ڈرانے والے ہمیں ڈراتے رہیں گے۔

منگل، 20 فروری، 2018

علماء دین کے نام

علماء دین کے نام

پاکستان کے علماء کرام کی طرف سے ایک اخباری بیان جاری ہوا ہے جس میں لاہور میں پڑہے گئے ایک مخلوط جنازے پر تحفظات کا اظہار کیا گیا اورفرمایا گیا ہے ْ ہم نے شرعی مسٗلہ کی وضاعت کرنا اس لئے ضروری سمجھا کہ ایک واقعہ ہوا ہے تو کل کوئی اسے بطور نظیر پیش نہ کرے کہ علماء نے کوئی گرفت نہیں کی تھی ْ ۔ آپ کے اس وضاحتی بیان کو الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا نے تشہیر کے قابل ہی نہ سمجھا اور سوشل میڈیا پر آپ کی نمائندگی ہے بھی تو عالمانہ کی بجائے جذباتی۔ یہ وضاحتی بیان بھی پاپولر علمی سوچ کو روکنے میں بے بسی کا مظہر ہے۔ 
ہم مسجد کے ممبر پر بیٹھے واعظ سے سنتے ہیں کہ دین میں اختلافات کو دردمندی سے اجاگر کرنا منع نہیں ہے ۔ اگر یہ بیانیہ درست ہے تو :
آئیے آپ کو یاد دہانی کراتے ہیں۔ کہ امریکہ میں قائم ہونے والامسلمانوں کاایک ادارہ مسلمان عورتوں کے حقوق کے دفاع کیلئے سرگرم عمل ہے۔ اس کی اعتقادی بنیاد قران پاک ہے ، قرآنی دلائل سے لیس ہے، اس کو چلانے والے مسلمان ہیں جو فکری غذا محترمہ امینہ داود کی تصنیف سے حاصل کرتے ہیں۔امینہ داود، عیسائی والدین کے گھر پید ا ہونے کے باوجود یونیورسٹی کی تعلیم کے دوران
1972
میں مسلمان ہو گئیں تھی ۔انھوں نے اسلامی تعلیمات میں
1988
میں امریکہ سے ڈاکٹریٹ کی۔پھر قاہرہ میں امریکن یونیورسٹی سے عربی کی ڈگری حاصل کی اور جامعہ القاہرہ سے قرآنی تعلیمات اور تفسیر کی ڈگری لی اور جامعہ الازہر سے فلسفہ میں ڈگری حاص کی۔ان کی دو کتابیں شائع ہوئیں ، موجودہ دور میں وہ پہلی خاتون تھیں جنھوں نے
1994
میں افریقہ کے شہر کیپ ٹاون میں جمعہ کا خطبہ دیا اور جماعت کی امامت کرائی اور اپنے اس عمل کی دلیل قرآان سے لائی۔اس عمل کی با دلیل مخالفت کسی مسلمان عالم کی طرف سے سامنے نہ آئی تو عام مسلمان نے خاموشی کو رضامندی پر محمول کیا۔ بیج کو پودہ بننے کے لیے وقت ۔ موافق ماحول کے ساتھ ساتھ نگہداشت کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ مگر یہاں نہ تو اس عمل کی مذمت کی گئی نہ موافق حالات میں رخنہ ڈالا گیا، مالی کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ اپنے گلستان سے خود رو ضرر ساں بوٹیاں تلف کرے ۔ چوبیس سال بعد جنوری 
2018
میں بھارت کی ریاست کیرالہ میں ملامپور کی ایک جامع مسجد میں جمیتھا نامی خاتوں ، جو وندور کی قرآن سنت سوسائٹی کی سیکرٹری ہیں، نے جمعہ کا خطبہ دیا اور مرد وزن کی مخلوط جماعت کی امامت بھی کرائی۔ اور بھارت کے ایک مشہور بین الاقوامی اخبار کو انٹر ویو میں اپنے اس عمل کو قرآنی تعلیمات کے مطابق بتایا۔۔ڈنمارک کے شہر کوپن ہیگن میں مریم مسجد د ہے جہاں ابتدائی امام دو خواتین محترمہ شیریں خانقان اور صلیحہ مریم فتیح تھیں مگر کسی نے مخالفانہ آواز تک نہیں سنی۔اس دوران 
1998
میں جنوبی افریقہ میں خواتین کے حقوق کی شہرت یافتہ شمیمہ شیخ کا جنازہ ایک خاتون نے ہی پڑہایا تھا۔
2005
میں فرحانہ اسماعیل نامی خاتوں نے نکاح پڑہایا اور نکاح کا خطبہ بھی دیا۔حقائق سے لبریز پوٹلی میں سے یہ محض چند دانے ہیں۔ پلوں کے نیچے سے جو پانی بہہ گیا ہے اسکو واپس لانا ممکن نہیں ہے ۔مگر آنے والے سیلاب کے خطرے کی نشاندہی کرتے ہوئے قرآن مجید کی سورۃ محمدمیں اعلان ہے ْ اللہ تمھارے بدلے ایک دوسری قوم کھڑی کرے گا اور وہ لوگ تم جیسے نہ ہوں گے ْ کویت میں مقیم جہاندیدہ پاکستانی بزرگ،صاحب کرامت دینی مبلغ اور انسانیت کے عظیم مصلح جناب شیخ عبدالباسط صاحب اطول اللہ عمرہ ( آج کل علیل ہیں) اپنی نجی محفلوں میں فرمایا کرتے ہیں کہ علماء کو چاہیے کہ دین کو ذاتی ملکیت جان کر اس کے دفاع کے لیے کمر بستہ رہا کریں۔ راہگیر اسی مکان کی دیوار سے اینٹیں نکالنے کی جسارت کرتے ہیں جو کسی کی ذاتی ملکیت نہ ہو۔آپ کے جاری کردہ اخباری بیان میں ْ احساس ملکیت ْ کا فقدان نمایاں ہے ۔ امت کے ایک عرب پچھتر کروڑ مسلمان جو دینی رہنمائی کے لیے علوم نبوت کے وارثین کی طرف دیکھتے ہیں۔ آپ کے اعتراف برئت پر حیران نہیں پریشان ہیں

تحریر: دلپذیر احمد

ہمارے دشمن


پاکستان کے صوبہ پنجاب کی عدالتوں میں گذشتہ بتیس سال سے ایک مقدمہ زیر سماعت ہے۔ راولپنڈی کے گنجان آباد شہری علاقے میں موجود یہ متنازع پلاٹ جس کی مارکیٹ ویلیو کروڑوں میں ہے کبھی زمین کا ایک کم قیمت ٹکڑا تھا۔مقدمہ بازی کے دوران فریقین کے ہمدردوں نے کئی بار کوشش کی کہ اس تنازعہ کا فیصلہ بات چیت کے ذریعے عدالت سے باہر ہی کر لیا جائے مگر ایسی کوششیں ناکام ہوتی رہیں۔ کل رات آخری جرگہ بڑی امید کے ساتھ بیٹھا اور بد دل ہو کر اٹھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ زمین کے اس ٹکڑے کے ساتھ فریقین کا لگاو بڑہتا جا رہا ہے۔لوگوں کا کہنا تھا جرگے کے ناکام ہونے میں پلاٹ کا قیمتی ہونا بنیادی عنصر ہے۔کچھ کا خیال ہے قیمت پر ضد غالب ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں فریقین کا وقار بنیادی سبب ہے۔گل محمد پہلی بار جرگے میں موجود تھا۔ اس کا کہنا ہے کہ فریقین کی اس زمین کے ٹکڑے پر سرمایہ کاری کی مقدار اتنی زیادہ ہے ۔۔ ْ کیا سرمایہ کاری ہے میں نے قانونی دستاویز دیکھی تھی پلاٹ کی ادا شدہ قیمت صر ف پچیس ہزار ہے ْ میں نے گل محمد کو ٹوک دیا تو اس کا کہنا تھا ْ سرمایہ کاری میں قیمت کے علاوہ مقدمہ بازی پر اٹھنے والے اخراجات،دو نسلوں کی دوڑ دھوپ اور انا کی قیمت بھی شامل کر لیں ْ تبلیغی جماعت کے رضاکار گل محمد نے بات جاری رکھی ْ جس چیز پر جتنا زیادہ جان وقت اور مال خرچ ہو وہ اتنی ہی زیادہ قیمتی ہو جاتی ہے ْ گل محمدنے چھوٹے سے جملے میں کتنی بڑی حقیقت کو سمو دیا تھا۔ جان، وقت اور مال
آزادی وطن کے وقت جانوں کی قربانی میں بخل سے کام نہیں لیا گیا تھا، ستر سال کا وقت بھی کم نہیں ہے البتہ مال والا چلہ پورا ہونا باقی ہے۔ جب میں اپنے ارد گرد دیکھتا ہوں تو اکثر ناقدین وطن کو ٹیکس چور ہی پاتا ہوں ۔کیا یہی ہمارے حقیقی دشمن ہیں؟