منگل، 20 فروری، 2018

علماء دین کے نام

علماء دین کے نام

پاکستان کے علماء کرام کی طرف سے ایک اخباری بیان جاری ہوا ہے جس میں لاہور میں پڑہے گئے ایک مخلوط جنازے پر تحفظات کا اظہار کیا گیا اورفرمایا گیا ہے ْ ہم نے شرعی مسٗلہ کی وضاعت کرنا اس لئے ضروری سمجھا کہ ایک واقعہ ہوا ہے تو کل کوئی اسے بطور نظیر پیش نہ کرے کہ علماء نے کوئی گرفت نہیں کی تھی ْ ۔ آپ کے اس وضاحتی بیان کو الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا نے تشہیر کے قابل ہی نہ سمجھا اور سوشل میڈیا پر آپ کی نمائندگی ہے بھی تو عالمانہ کی بجائے جذباتی۔ یہ وضاحتی بیان بھی پاپولر علمی سوچ کو روکنے میں بے بسی کا مظہر ہے۔ 
ہم مسجد کے ممبر پر بیٹھے واعظ سے سنتے ہیں کہ دین میں اختلافات کو دردمندی سے اجاگر کرنا منع نہیں ہے ۔ اگر یہ بیانیہ درست ہے تو :
آئیے آپ کو یاد دہانی کراتے ہیں۔ کہ امریکہ میں قائم ہونے والامسلمانوں کاایک ادارہ مسلمان عورتوں کے حقوق کے دفاع کیلئے سرگرم عمل ہے۔ اس کی اعتقادی بنیاد قران پاک ہے ، قرآنی دلائل سے لیس ہے، اس کو چلانے والے مسلمان ہیں جو فکری غذا محترمہ امینہ داود کی تصنیف سے حاصل کرتے ہیں۔امینہ داود، عیسائی والدین کے گھر پید ا ہونے کے باوجود یونیورسٹی کی تعلیم کے دوران
1972
میں مسلمان ہو گئیں تھی ۔انھوں نے اسلامی تعلیمات میں
1988
میں امریکہ سے ڈاکٹریٹ کی۔پھر قاہرہ میں امریکن یونیورسٹی سے عربی کی ڈگری حاصل کی اور جامعہ القاہرہ سے قرآنی تعلیمات اور تفسیر کی ڈگری لی اور جامعہ الازہر سے فلسفہ میں ڈگری حاص کی۔ان کی دو کتابیں شائع ہوئیں ، موجودہ دور میں وہ پہلی خاتون تھیں جنھوں نے
1994
میں افریقہ کے شہر کیپ ٹاون میں جمعہ کا خطبہ دیا اور جماعت کی امامت کرائی اور اپنے اس عمل کی دلیل قرآان سے لائی۔اس عمل کی با دلیل مخالفت کسی مسلمان عالم کی طرف سے سامنے نہ آئی تو عام مسلمان نے خاموشی کو رضامندی پر محمول کیا۔ بیج کو پودہ بننے کے لیے وقت ۔ موافق ماحول کے ساتھ ساتھ نگہداشت کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ مگر یہاں نہ تو اس عمل کی مذمت کی گئی نہ موافق حالات میں رخنہ ڈالا گیا، مالی کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ اپنے گلستان سے خود رو ضرر ساں بوٹیاں تلف کرے ۔ چوبیس سال بعد جنوری 
2018
میں بھارت کی ریاست کیرالہ میں ملامپور کی ایک جامع مسجد میں جمیتھا نامی خاتوں ، جو وندور کی قرآن سنت سوسائٹی کی سیکرٹری ہیں، نے جمعہ کا خطبہ دیا اور مرد وزن کی مخلوط جماعت کی امامت بھی کرائی۔ اور بھارت کے ایک مشہور بین الاقوامی اخبار کو انٹر ویو میں اپنے اس عمل کو قرآنی تعلیمات کے مطابق بتایا۔۔ڈنمارک کے شہر کوپن ہیگن میں مریم مسجد د ہے جہاں ابتدائی امام دو خواتین محترمہ شیریں خانقان اور صلیحہ مریم فتیح تھیں مگر کسی نے مخالفانہ آواز تک نہیں سنی۔اس دوران 
1998
میں جنوبی افریقہ میں خواتین کے حقوق کی شہرت یافتہ شمیمہ شیخ کا جنازہ ایک خاتون نے ہی پڑہایا تھا۔
2005
میں فرحانہ اسماعیل نامی خاتوں نے نکاح پڑہایا اور نکاح کا خطبہ بھی دیا۔حقائق سے لبریز پوٹلی میں سے یہ محض چند دانے ہیں۔ پلوں کے نیچے سے جو پانی بہہ گیا ہے اسکو واپس لانا ممکن نہیں ہے ۔مگر آنے والے سیلاب کے خطرے کی نشاندہی کرتے ہوئے قرآن مجید کی سورۃ محمدمیں اعلان ہے ْ اللہ تمھارے بدلے ایک دوسری قوم کھڑی کرے گا اور وہ لوگ تم جیسے نہ ہوں گے ْ کویت میں مقیم جہاندیدہ پاکستانی بزرگ،صاحب کرامت دینی مبلغ اور انسانیت کے عظیم مصلح جناب شیخ عبدالباسط صاحب اطول اللہ عمرہ ( آج کل علیل ہیں) اپنی نجی محفلوں میں فرمایا کرتے ہیں کہ علماء کو چاہیے کہ دین کو ذاتی ملکیت جان کر اس کے دفاع کے لیے کمر بستہ رہا کریں۔ راہگیر اسی مکان کی دیوار سے اینٹیں نکالنے کی جسارت کرتے ہیں جو کسی کی ذاتی ملکیت نہ ہو۔آپ کے جاری کردہ اخباری بیان میں ْ احساس ملکیت ْ کا فقدان نمایاں ہے ۔ امت کے ایک عرب پچھتر کروڑ مسلمان جو دینی رہنمائی کے لیے علوم نبوت کے وارثین کی طرف دیکھتے ہیں۔ آپ کے اعتراف برئت پر حیران نہیں پریشان ہیں

تحریر: دلپذیر احمد

ہمارے دشمن


پاکستان کے صوبہ پنجاب کی عدالتوں میں گذشتہ بتیس سال سے ایک مقدمہ زیر سماعت ہے۔ راولپنڈی کے گنجان آباد شہری علاقے میں موجود یہ متنازع پلاٹ جس کی مارکیٹ ویلیو کروڑوں میں ہے کبھی زمین کا ایک کم قیمت ٹکڑا تھا۔مقدمہ بازی کے دوران فریقین کے ہمدردوں نے کئی بار کوشش کی کہ اس تنازعہ کا فیصلہ بات چیت کے ذریعے عدالت سے باہر ہی کر لیا جائے مگر ایسی کوششیں ناکام ہوتی رہیں۔ کل رات آخری جرگہ بڑی امید کے ساتھ بیٹھا اور بد دل ہو کر اٹھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ زمین کے اس ٹکڑے کے ساتھ فریقین کا لگاو بڑہتا جا رہا ہے۔لوگوں کا کہنا تھا جرگے کے ناکام ہونے میں پلاٹ کا قیمتی ہونا بنیادی عنصر ہے۔کچھ کا خیال ہے قیمت پر ضد غالب ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں فریقین کا وقار بنیادی سبب ہے۔گل محمد پہلی بار جرگے میں موجود تھا۔ اس کا کہنا ہے کہ فریقین کی اس زمین کے ٹکڑے پر سرمایہ کاری کی مقدار اتنی زیادہ ہے ۔۔ ْ کیا سرمایہ کاری ہے میں نے قانونی دستاویز دیکھی تھی پلاٹ کی ادا شدہ قیمت صر ف پچیس ہزار ہے ْ میں نے گل محمد کو ٹوک دیا تو اس کا کہنا تھا ْ سرمایہ کاری میں قیمت کے علاوہ مقدمہ بازی پر اٹھنے والے اخراجات،دو نسلوں کی دوڑ دھوپ اور انا کی قیمت بھی شامل کر لیں ْ تبلیغی جماعت کے رضاکار گل محمد نے بات جاری رکھی ْ جس چیز پر جتنا زیادہ جان وقت اور مال خرچ ہو وہ اتنی ہی زیادہ قیمتی ہو جاتی ہے ْ گل محمدنے چھوٹے سے جملے میں کتنی بڑی حقیقت کو سمو دیا تھا۔ جان، وقت اور مال
آزادی وطن کے وقت جانوں کی قربانی میں بخل سے کام نہیں لیا گیا تھا، ستر سال کا وقت بھی کم نہیں ہے البتہ مال والا چلہ پورا ہونا باقی ہے۔ جب میں اپنے ارد گرد دیکھتا ہوں تو اکثر ناقدین وطن کو ٹیکس چور ہی پاتا ہوں ۔کیا یہی ہمارے حقیقی دشمن ہیں؟

اتوار، 18 فروری، 2018

لیکچر



لیکچر کیسا تھا 
میں نے خاموشی توڑنے کی نیت سے گل محمد سے پوچھا
ْ ْ ْ میں تو خوفزدہ ہوں ْ 
کس بات سے 
ْ دین کے پاکستان سے امریکہ منتقل ہونے پرْ 
دراصل پروفیسر صاحب نے اپنے لیکچر میں مسلمانوں کو خبردار کیا تھا کہ اگر مسلمانوں نے ہوش کے ناخن نہ لئے تو دنیا کی امامت کے بعد دین کی امامت بھی مغرب کے پاس منتقل ہو جائے گی۔ انھوں نے قران پاک کی ایک آیت کا ترجمہ کر کے بتایا تھا کہ خدا قادر ہے کہ تمھاری جگہ دوسری قوم لے آئے۔
میں بھی فکر مند تھا ،مگر میری فکر مندی یہ تھی کہ میرے محلے سے بلدیہ والے کچرا نہیں اٹھاتے، کچرے کی بڑہتی مقدار نے گلی سے گذرنا دوبھر کیا ہوا تھا۔محلے کی مسجد سے ہر جمعے والے دن صفائی پر وعظ دیا جاتا تھا۔ محلہ کمیٹی کے ماہانہ اجلاس میں گلی میں کچرا پھینکنے والوں پر طعنے کسے جاتے تھے اور بات ذاتیات تک پہنچ کر جھگڑے بن جاتے تھے ایک بار معاملہ تھانے تک بھی گیا۔ مگر محلے سے کچرا کم نہ ہوا۔
ْ ایک بات بتائیں ْ 
پوچھو
ْ ہر اچھا آدمی غلطیوں کی نشان دہی کرتا ہے۔ ہم پر اثر کیوں نہیں ہوتا ْ 
اسلئے کہ ہماری زبا ن ۔۔۔ 
میں کہنا چاہتا تھا ْ نصیحت کرنا جانتی ہے مگر ہاتھ عمل کرنے سے عاری ہیں ْ مگر میں خاموش ہو گیا۔ میں نے وہیں ایک فیصلہ کیاتھا
گھر پہنچ کر ، ایک آٹے والی خالی بوری لی اور اپنے گھر کے سامنے سے کچرا چننے کی ابتداء کی ، بوری ابھی بھری نہ تھی کہ مولوی صاحب بڑا سا شاپنگ بیگ لے کر میرے ساتھ شامل ہوگئے۔ قریشی صاحب بھی آگئے۔دیکھتے دیکھتے نوجوان بھی شامل ہو گئے ، دیکھتے ہی دیکھتے محلہ صاف ستھرا ہو گیا۔ نعمان صاحب اپنی پک لے آئے ۔ 5 بوریاں، 8 کاٹن، 16 شاپرکو ہم نے پک اپ میں رکھ کر محلے سے کچرا نکالا۔اس سارے عمل میں گل محمد میرے ساتھ تھا
دوسرے دن دفتر میں اس نے مجھ سے کہا ۔ ْ کل مجھے ایک سبق ملا ہے ْ 
کیا
ْ ْ اگر سارے ملک کے محلے دار اپنے محلوں کو صاف کرنے کا ارادہ کر لیں تو ایک گھنٹے میں پورا ملک صاف ستھرا ہو سکتا ہے ْ 
اصل بات یہ ہے جب تک ہم اپنے محلے ، شہر ، اداروں ملک، نظریات ، اعتقادات کی ملکیت اپنے ہاتھ میں نہیں لیں گے پروفیسر، ماہرین، علماء ، لبرلز ، اور دوسرے ڈرانے والے ہمیں ڈراتے رہیں گے۔

خواہشات کے خریدار

                         

خواہشات کے خریدار
سوٹزرلینڈ میں ایک پراپرٹی ایجنٹ نے رہائشی ولا اپنے عرب شیخ گاہک کے لیے خریدا تو شیخ نے بغیر مکان دیکھے اس کی قیمت آٹھ ملن سوئس فرانک اس کو ادا کر دئے۔ ایجنٹ کو معلوم تھا کہ شیخ نے یہ سرمایہ کاری کی ہے اور جب بھی اس کو معقول منافع ملا وہ فروخت کر دے گا۔ کچھ عرصہ بعد ایجنٹ نے شیخ کو بتایا کہ اس کے مکان کا گاہک لگ گیا ہے جو
74.4 Million
میں اس کا مکان خریدنے پر راضی ہے ، وہ گاہک روسی ریاستوں میں سے ایک سابقہ صدر کی بیٹی تھی۔ ایجنٹ کا کہنا تھا کہ اس کے پاس جو خریدار آتے ہیں ان کو اصل قیمت کے آگے مزید ایک صفر لگانے سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتاکیونکہ وہ خواہشات کے خریدار ہوتے ہیں ۔
خواہشات کے خریدار پاکستان میں بہت ہیں ، اسلا�آباد کی ایک ہاوسنگ سوسائٹی میں ایک مکان برائے فروخت تھا۔ایک آدمی آیا ۔ مکان کو اندر باہر سے دیکھا ، قیمت دریافت کی ، چوکیدار نے بتایا کہ وہ تو ملازم ہے قیمت مالکان ہی بتا سکتے ہیں ۔ خریدار نے نوٹوں کا ایک بنڈل چوکیدار کے حوالے کرتے ہوئے کہا کہ جو بھی قیمت ہو یہ رقم بیعانہ ہے مکان کسی دوسرے کو فروخت نہ کرنا۔
ایسے خریدار سرمایہ کار کہلاتے ہیںیا پھر سرمایہ دار ، یہ سرمایہ محنت سے کمانا ممکن ہیں ہوتا ۔سرمایہ دار گئے وقتوں میں تجارت کیا کرتے تھے، صنعت لگاتے تھے مگر موجودہ دور محفوظ سرمایہ کاری کا دور ہے وہ اپنا سرمایہ صرف ایسے منصوبوں میں لگاتے ہیں جہاں نقصان کا اندیشہ بالکل بھی نہ ہو اور منافع اور اصل کسی قسم کے ٹیکس سے بھی محفوظ رہے۔ اور یہ خدمات بجا لانے کے لیے ہر جگہ ایسے ادارے موجود ہیں جو سرمایہ دار کے سرمائے کو محفوظ بنانے کے قانونی گر جانتے ہیں۔

ٹیکس ، وہ بنیادی رقم ہوتی ہے جواکٹھا کر کے مقامی حکومتیں عوام کی فلاح و بہبود کے منصوبے بناتی اور مکمل کرتی ہیں۔
پاکستان میں ٹیکس دھندگان کے اعداد و شمار سے مانوس لوگ اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ یہاں امیر ٹیکس تو ادا نہیں کرتا مگر غریبوں کے لیے بنائی گئی کسی بھی سکیم سے مستفید ہونے کے لیے پیش پیش ہوتا ہے۔ ریکارڈ پر ہے کہ حکومت نے یلو کیب کے نام سے غریبوں کے لیے جو سکیم شروع کی تھی اس سے استفادہ کرنے والوں میں کراچی کی ایک مشہور امیر شخصیت بھی تھیں ۔ اور اس سہولت سے فائدہ اٹھانا ان کے نزدیک ہر پاکستانی کا حق تھا۔
پاکستان میں ٹیکس وہی ادا کرتے ہیں جو ادا کرنے پر مجبور کر دئے جاتے ہیں مثال کے طور ملازمین جن کے ٹیکس ان کی تنخواہوں میں سے کٹ جاتے ہیں، یا وہ خریدار جو خریداری کے وقت مال کی قیمت کے طور پر ٹیکس ادا کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
ہمارا ٹیکس کاقانونی نظام ناقص ہے کہ اس نظام کو درست کرنے کے لیے جو سیاسی عزم درکار ہے وہ ناپید ہے اور اس کا سبب یہ ہے کہ حکمران یا تو خود اس طبقے کا حصہ ہے یا پھر اس کا ایجنٹ ہے۔روزمرہ کے واقعات اور سیاسی جماعتوں کے حالات ہمیں چیخ چیخ کر بتاتے ہیں کہ یہاں اکثر خواہشات کے خریدار ہیں

جمعرات، 15 فروری، 2018

مشینی ذہانت


ماں ہمدرد ہوتی ہے ، بغیر دلیل اور سبب کے، ہمدردی ہوتی ہی بے دلیل ہے ۔ دلیل سے جوحاصل ہوتا ہے اس کو قائل ہونا کہا جاتا ہے۔ قائل بھی صرف وہی ہوتے ہیں جو دلیل کی حقانیت کو قلب سلیم سے مان لیں۔ ایسے لوگوں کو پسند کیا جاتا ہے ، لوگ بھی ایسے ہی لوگوں کے سامنے دلیل رکھتے ہیں جن کے بارے ان کو پتہ ہو کہ وہ مانے یا نہ مانے کم ازکم سن تو لے گا۔ سفارت کاری میں دوستوں کے ساتھ ساتھ دشمنوں کو بھی سنا جاتا ہے بلکہ دشمنوں کو زیادہ توجہ سے سنا جاتاہے۔دلیل کا اپنا ایک حجم ہوتا ہے ، جیسے پتھر کا۔ اور انسانی دماغ ایسے مکان میں ہے جس کی کان، ناک کی طرح کئی کھڑکیاں ہیں۔کھڑکیوں میں شیشے کے در ہونا عام سی بات ہے۔دلیل کو مان لینے والوں کو عقلمند کہا جاتا ہے۔ کیا دلیل کو نہ ماننے والے احمق ہوتے ہیں۔ 
یہ سوال سب سے پہلے میں نے میرے سامنے بیٹھے پانچ سالہ پوتے سے پوچھا جو تین جماعتیں پاس کر کے پہلی جماعت میں پہنچا ہے۔ پہلے تو اس کو احمق کی سمجھ نہ آئی مگر جلد سمجھ گیا اور جواب بھی جلد دے دیا جو ْ نہ ْ میں تھا۔ مجھے حیرت تو ہوئی اور وجہ پوچھی تو اس کا کہنا تھا ، عقلمند وہ ہوتا ہے جو فیکٹ پر فیصلہ کرے ، یہ کس نے بتایا ہے ْ گوگل نے ْ ۔ 
یہ سوال میں نے اس کی ماں سے پوچھا۔ اس کا جواب ْ ہاں ْ میں تھا اسکا کہنا تھا وہ اپنے خاوند کو قائل کر چکی ہے کہ پرانی گاڑی بیچ کر نئی لینا کتنا فائدہ مند ہے مگر وہ دلیل کے باوجود نہیں مان رہا۔ میں نماز پڑھ کر فارغ ہوا تو یہ سوال مولوی صاحب کے سامنے رکھا ۔ ْ یہ سوال اتنا سادہ نہیں ہے کہ آپ کو ہاں یا نہ میں جواب دے دوں، کس موضوع میں دلیل دینا چاہتے ہیں ْ انھون نے استفسار کیا ۔ ْ عام اصول کی بات کر رہا ہوں ْ عام طور پر یہ بات ٹھیک ہے ۔یعنی ان کا جواب ہا ں میں تھا۔رات کھانے کے بعد میں نے یہ سوال اپنے بیٹے کے سامنے رکھا ۔ اس نے حیرت سے میرا منہ دیکھا ْ ابو پلاٹ والا مقدمہْ ۔۔۔ میں سمجھ گیا اس کا جواب نہیں میں ہے۔ صبح دفتر گیا، فاضلی صاحب میرا انتظار ہی کر رہے تھے انھیں میرے ساتھ جا کر ایک ادارے مکے ملازمین کے سامنے لیکچر دینا تھا ۔ راستے میں یہ سوال ان کے سامنے رکھا ۔ ان کا فوری جواب ہا ں میں تھا ۔ جب میں نے وجہ پوچھی انھوں نے بہت ساریے کتابی حوالے دیے اور کئی عقلمندوں کے قول دہرائے دوران گفتگو میں نے محسوس کیا ، وہ اپنی ہاں پر اب مصر نہیں ہیں تو میں نے انھیں اپنے پوتے کا کا جواب اور گوگل کے حوالہ انھیں بتایا ۔فاضلی صاحب نے مسکرا کر کہا ۔ دلیل کا اپنا مقام ہے جو ہمارے ذہنوں کو متاثر کرتا ہے مگر مشینی ذہانت انسان کی نسبت زیادہ حقیقت پسند ہے