اتوار، 18 فروری، 2018

لیکچر



لیکچر کیسا تھا 
میں نے خاموشی توڑنے کی نیت سے گل محمد سے پوچھا
ْ ْ ْ میں تو خوفزدہ ہوں ْ 
کس بات سے 
ْ دین کے پاکستان سے امریکہ منتقل ہونے پرْ 
دراصل پروفیسر صاحب نے اپنے لیکچر میں مسلمانوں کو خبردار کیا تھا کہ اگر مسلمانوں نے ہوش کے ناخن نہ لئے تو دنیا کی امامت کے بعد دین کی امامت بھی مغرب کے پاس منتقل ہو جائے گی۔ انھوں نے قران پاک کی ایک آیت کا ترجمہ کر کے بتایا تھا کہ خدا قادر ہے کہ تمھاری جگہ دوسری قوم لے آئے۔
میں بھی فکر مند تھا ،مگر میری فکر مندی یہ تھی کہ میرے محلے سے بلدیہ والے کچرا نہیں اٹھاتے، کچرے کی بڑہتی مقدار نے گلی سے گذرنا دوبھر کیا ہوا تھا۔محلے کی مسجد سے ہر جمعے والے دن صفائی پر وعظ دیا جاتا تھا۔ محلہ کمیٹی کے ماہانہ اجلاس میں گلی میں کچرا پھینکنے والوں پر طعنے کسے جاتے تھے اور بات ذاتیات تک پہنچ کر جھگڑے بن جاتے تھے ایک بار معاملہ تھانے تک بھی گیا۔ مگر محلے سے کچرا کم نہ ہوا۔
ْ ایک بات بتائیں ْ 
پوچھو
ْ ہر اچھا آدمی غلطیوں کی نشان دہی کرتا ہے۔ ہم پر اثر کیوں نہیں ہوتا ْ 
اسلئے کہ ہماری زبا ن ۔۔۔ 
میں کہنا چاہتا تھا ْ نصیحت کرنا جانتی ہے مگر ہاتھ عمل کرنے سے عاری ہیں ْ مگر میں خاموش ہو گیا۔ میں نے وہیں ایک فیصلہ کیاتھا
گھر پہنچ کر ، ایک آٹے والی خالی بوری لی اور اپنے گھر کے سامنے سے کچرا چننے کی ابتداء کی ، بوری ابھی بھری نہ تھی کہ مولوی صاحب بڑا سا شاپنگ بیگ لے کر میرے ساتھ شامل ہوگئے۔ قریشی صاحب بھی آگئے۔دیکھتے دیکھتے نوجوان بھی شامل ہو گئے ، دیکھتے ہی دیکھتے محلہ صاف ستھرا ہو گیا۔ نعمان صاحب اپنی پک لے آئے ۔ 5 بوریاں، 8 کاٹن، 16 شاپرکو ہم نے پک اپ میں رکھ کر محلے سے کچرا نکالا۔اس سارے عمل میں گل محمد میرے ساتھ تھا
دوسرے دن دفتر میں اس نے مجھ سے کہا ۔ ْ کل مجھے ایک سبق ملا ہے ْ 
کیا
ْ ْ اگر سارے ملک کے محلے دار اپنے محلوں کو صاف کرنے کا ارادہ کر لیں تو ایک گھنٹے میں پورا ملک صاف ستھرا ہو سکتا ہے ْ 
اصل بات یہ ہے جب تک ہم اپنے محلے ، شہر ، اداروں ملک، نظریات ، اعتقادات کی ملکیت اپنے ہاتھ میں نہیں لیں گے پروفیسر، ماہرین، علماء ، لبرلز ، اور دوسرے ڈرانے والے ہمیں ڈراتے رہیں گے۔

خواہشات کے خریدار

                         

خواہشات کے خریدار
سوٹزرلینڈ میں ایک پراپرٹی ایجنٹ نے رہائشی ولا اپنے عرب شیخ گاہک کے لیے خریدا تو شیخ نے بغیر مکان دیکھے اس کی قیمت آٹھ ملن سوئس فرانک اس کو ادا کر دئے۔ ایجنٹ کو معلوم تھا کہ شیخ نے یہ سرمایہ کاری کی ہے اور جب بھی اس کو معقول منافع ملا وہ فروخت کر دے گا۔ کچھ عرصہ بعد ایجنٹ نے شیخ کو بتایا کہ اس کے مکان کا گاہک لگ گیا ہے جو
74.4 Million
میں اس کا مکان خریدنے پر راضی ہے ، وہ گاہک روسی ریاستوں میں سے ایک سابقہ صدر کی بیٹی تھی۔ ایجنٹ کا کہنا تھا کہ اس کے پاس جو خریدار آتے ہیں ان کو اصل قیمت کے آگے مزید ایک صفر لگانے سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتاکیونکہ وہ خواہشات کے خریدار ہوتے ہیں ۔
خواہشات کے خریدار پاکستان میں بہت ہیں ، اسلا�آباد کی ایک ہاوسنگ سوسائٹی میں ایک مکان برائے فروخت تھا۔ایک آدمی آیا ۔ مکان کو اندر باہر سے دیکھا ، قیمت دریافت کی ، چوکیدار نے بتایا کہ وہ تو ملازم ہے قیمت مالکان ہی بتا سکتے ہیں ۔ خریدار نے نوٹوں کا ایک بنڈل چوکیدار کے حوالے کرتے ہوئے کہا کہ جو بھی قیمت ہو یہ رقم بیعانہ ہے مکان کسی دوسرے کو فروخت نہ کرنا۔
ایسے خریدار سرمایہ کار کہلاتے ہیںیا پھر سرمایہ دار ، یہ سرمایہ محنت سے کمانا ممکن ہیں ہوتا ۔سرمایہ دار گئے وقتوں میں تجارت کیا کرتے تھے، صنعت لگاتے تھے مگر موجودہ دور محفوظ سرمایہ کاری کا دور ہے وہ اپنا سرمایہ صرف ایسے منصوبوں میں لگاتے ہیں جہاں نقصان کا اندیشہ بالکل بھی نہ ہو اور منافع اور اصل کسی قسم کے ٹیکس سے بھی محفوظ رہے۔ اور یہ خدمات بجا لانے کے لیے ہر جگہ ایسے ادارے موجود ہیں جو سرمایہ دار کے سرمائے کو محفوظ بنانے کے قانونی گر جانتے ہیں۔

ٹیکس ، وہ بنیادی رقم ہوتی ہے جواکٹھا کر کے مقامی حکومتیں عوام کی فلاح و بہبود کے منصوبے بناتی اور مکمل کرتی ہیں۔
پاکستان میں ٹیکس دھندگان کے اعداد و شمار سے مانوس لوگ اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ یہاں امیر ٹیکس تو ادا نہیں کرتا مگر غریبوں کے لیے بنائی گئی کسی بھی سکیم سے مستفید ہونے کے لیے پیش پیش ہوتا ہے۔ ریکارڈ پر ہے کہ حکومت نے یلو کیب کے نام سے غریبوں کے لیے جو سکیم شروع کی تھی اس سے استفادہ کرنے والوں میں کراچی کی ایک مشہور امیر شخصیت بھی تھیں ۔ اور اس سہولت سے فائدہ اٹھانا ان کے نزدیک ہر پاکستانی کا حق تھا۔
پاکستان میں ٹیکس وہی ادا کرتے ہیں جو ادا کرنے پر مجبور کر دئے جاتے ہیں مثال کے طور ملازمین جن کے ٹیکس ان کی تنخواہوں میں سے کٹ جاتے ہیں، یا وہ خریدار جو خریداری کے وقت مال کی قیمت کے طور پر ٹیکس ادا کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
ہمارا ٹیکس کاقانونی نظام ناقص ہے کہ اس نظام کو درست کرنے کے لیے جو سیاسی عزم درکار ہے وہ ناپید ہے اور اس کا سبب یہ ہے کہ حکمران یا تو خود اس طبقے کا حصہ ہے یا پھر اس کا ایجنٹ ہے۔روزمرہ کے واقعات اور سیاسی جماعتوں کے حالات ہمیں چیخ چیخ کر بتاتے ہیں کہ یہاں اکثر خواہشات کے خریدار ہیں

جمعرات، 15 فروری، 2018

مشینی ذہانت


ماں ہمدرد ہوتی ہے ، بغیر دلیل اور سبب کے، ہمدردی ہوتی ہی بے دلیل ہے ۔ دلیل سے جوحاصل ہوتا ہے اس کو قائل ہونا کہا جاتا ہے۔ قائل بھی صرف وہی ہوتے ہیں جو دلیل کی حقانیت کو قلب سلیم سے مان لیں۔ ایسے لوگوں کو پسند کیا جاتا ہے ، لوگ بھی ایسے ہی لوگوں کے سامنے دلیل رکھتے ہیں جن کے بارے ان کو پتہ ہو کہ وہ مانے یا نہ مانے کم ازکم سن تو لے گا۔ سفارت کاری میں دوستوں کے ساتھ ساتھ دشمنوں کو بھی سنا جاتا ہے بلکہ دشمنوں کو زیادہ توجہ سے سنا جاتاہے۔دلیل کا اپنا ایک حجم ہوتا ہے ، جیسے پتھر کا۔ اور انسانی دماغ ایسے مکان میں ہے جس کی کان، ناک کی طرح کئی کھڑکیاں ہیں۔کھڑکیوں میں شیشے کے در ہونا عام سی بات ہے۔دلیل کو مان لینے والوں کو عقلمند کہا جاتا ہے۔ کیا دلیل کو نہ ماننے والے احمق ہوتے ہیں۔ 
یہ سوال سب سے پہلے میں نے میرے سامنے بیٹھے پانچ سالہ پوتے سے پوچھا جو تین جماعتیں پاس کر کے پہلی جماعت میں پہنچا ہے۔ پہلے تو اس کو احمق کی سمجھ نہ آئی مگر جلد سمجھ گیا اور جواب بھی جلد دے دیا جو ْ نہ ْ میں تھا۔ مجھے حیرت تو ہوئی اور وجہ پوچھی تو اس کا کہنا تھا ، عقلمند وہ ہوتا ہے جو فیکٹ پر فیصلہ کرے ، یہ کس نے بتایا ہے ْ گوگل نے ْ ۔ 
یہ سوال میں نے اس کی ماں سے پوچھا۔ اس کا جواب ْ ہاں ْ میں تھا اسکا کہنا تھا وہ اپنے خاوند کو قائل کر چکی ہے کہ پرانی گاڑی بیچ کر نئی لینا کتنا فائدہ مند ہے مگر وہ دلیل کے باوجود نہیں مان رہا۔ میں نماز پڑھ کر فارغ ہوا تو یہ سوال مولوی صاحب کے سامنے رکھا ۔ ْ یہ سوال اتنا سادہ نہیں ہے کہ آپ کو ہاں یا نہ میں جواب دے دوں، کس موضوع میں دلیل دینا چاہتے ہیں ْ انھون نے استفسار کیا ۔ ْ عام اصول کی بات کر رہا ہوں ْ عام طور پر یہ بات ٹھیک ہے ۔یعنی ان کا جواب ہا ں میں تھا۔رات کھانے کے بعد میں نے یہ سوال اپنے بیٹے کے سامنے رکھا ۔ اس نے حیرت سے میرا منہ دیکھا ْ ابو پلاٹ والا مقدمہْ ۔۔۔ میں سمجھ گیا اس کا جواب نہیں میں ہے۔ صبح دفتر گیا، فاضلی صاحب میرا انتظار ہی کر رہے تھے انھیں میرے ساتھ جا کر ایک ادارے مکے ملازمین کے سامنے لیکچر دینا تھا ۔ راستے میں یہ سوال ان کے سامنے رکھا ۔ ان کا فوری جواب ہا ں میں تھا ۔ جب میں نے وجہ پوچھی انھوں نے بہت ساریے کتابی حوالے دیے اور کئی عقلمندوں کے قول دہرائے دوران گفتگو میں نے محسوس کیا ، وہ اپنی ہاں پر اب مصر نہیں ہیں تو میں نے انھیں اپنے پوتے کا کا جواب اور گوگل کے حوالہ انھیں بتایا ۔فاضلی صاحب نے مسکرا کر کہا ۔ دلیل کا اپنا مقام ہے جو ہمارے ذہنوں کو متاثر کرتا ہے مگر مشینی ذہانت انسان کی نسبت زیادہ حقیقت پسند ہے

بدھ، 14 فروری، 2018

حیدر فاروق مودودی


حیدر فاروق مودودی صاحب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مولانا مودودی کے چھ بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں۔
ہر بیٹے کے نام کا دوسرا حصہ " فاروق" ہے۔
محمد فاروق ، احمد فاروق ، ، عمر فاروق ، حسین فاروق ، حیدر فاروق اور خالد فاروق۔
مجھے حافظ وحید اللہ صاحب مرحوم ( سکھر ) نے بتایا کہ مولانا مودودی نے اپنی اولاد کی تربیت پر خصوصی توجہ دی اور وہ ان کے بارے میں بہت فکر مند تھے۔

حافظ وحید اللہ صاحب اتالیق مقرر کیے گئے۔ بد قسمتی سے ابتداء میں ان کی اہلیہ کی طرف سے بچوں کی بے جا تائید کی جاتی تھی ، جس کی وجہ سے تربیتی ڈسپلن پر اثر پڑتا تھا۔
(بہت بعد میں وہ جماعت کی رکن بنیں ، درس قرآن دینے لگیں۔ اللہ مغفرت فرمائے اور درجات بلند فرمائے۔)۔


مولانا کے بیٹوں میں " حیدر " صاحب ہمیشہ متنازعہ رہے ہیں ، بلکہ خود بھائیوں اور بہنوں میں بھی متنازعہ۔ سبھی بھائی بہن ان کے لبرل خیالات ، ان کے عقائد اور ان کی بدعات سے اختلاف کرتے رہے ہیں۔
وہ بھارتی چینل پر بھی الٹی سیدھی باتیں کرتے رہے ہیں۔

سب سے چھوٹے خالد فاروق صاحب کو ہم فجر و عشاء کی نماز میں خشوع و خضوع سے نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہیں۔

مولانا کے پانچ بیٹوں نے ( بجز حیدر صاحب ) نے آبائی مکان کو اکیڈمی SAMA کے لیے وقف کردیا ہے ، جہاں سے بہت سے طلبہ فیض اٹھا رہے ہیں۔
مولانا کی بیٹی نے مولانا کے مکان سے متصل اپنی زمین وقف کرکے " مسجد الاعلیٰ " کی تعمیر کی۔


حیدر فاروق صاحب ، عاصمہ جہانگیر صاحبہ کے ادارے میں عرصے تک بھاری معاوضے پر کام کرتے رہے ہیں۔
چنانچہ عاصمہ جہانگیر صاحبہ کی نماز جنازہ انہوں نے پڑھائی۔ ۔مرد و خواتین ایک ہی صف میں کھڑے تھے شانہ بہ شانہ۔ اس پر حیرت نہیں ہونی چاہیے۔
کند ہر جنس باجنس پرواز
کبوتر با کبوتر ، باز با باز
اللہ ہر اس شخص کی مغفرت فرمائے ، جس کی موت ایمان پر ہوئی ہو ، اور ہم سب کو موت سے پہلے سچی توبہ کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔


خلیل الرحمٰن چشتی
13 فروری 2018ء

منگل، 13 فروری، 2018

کاغز کا ٹکڑا


مرسلین نے یہ خط اپنے بیٹے کی شادی کے موقع پر مہمانوں کو پڑھ کر سنایا،  اس کی بیگم نے خط لکھنے 
والے کا قصیدہ پڑھامگر اصل بات یہ ہے کہ الفاظ قیمتی تب ہی بنتے ہیں جب ان پر عمل کیا جائے، عام سے الفاظ پر عمل کر کے انھین قیمتی بنایا جا سکتا ہے اور خاص الفاظ پر عمل نہ کر کے انھیں ارزان کر دینا مشکل کام نہیں ہے
   ***********************                             

پیارے مرسلیں

سلامت رہو۔ امید ہے میرا یہ خط ملنے تک تم رشتہ ازدواج میں بندھ چکے ہو گئے۔ تم اچھے معاشرے میں جا 
بسے ہو جہاں شادی کا ساتھی ڈہونڈنے میں تمھارے بڑے مدد گار رہتے ہیں بلکہ میرا تجربہ یہ ہے کہ شادی کے بعد بھی بڑے اس رشتے کی کامیابی میں معاونت کرتے ہیں۔ تمھاری فرمائش کو پورا کرتے ہوئے چند باتین لکھ رہا ہوں لیکن انسانی رویے لکیر نہیں ہوتے کہ ہر شخص اس پر چل کر کامیاب ہو البتہ میرے اس خط کے مندرجات میں سے تم کامیابی ڈہونڈ سکتے ہو۔ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ جب میں پاکستان میں تھا تو میں نے تمھیں امام غزالی کی ایک کتاب تحفہ دی تھی ، اگر پڑھ لی ہے تو ٹھیک ورنہ اس کتاب میں یہ جملہ ضرور ڈھونڈ کر پڑہنا جس میں انھوں نے لکھا ہے کہ نومولود بچہ اتنی عمر تک والدین کے لئے کھلونا ہے، پھر اتنی عمر تک والدین کا خادم ہے اور اتنی عمر کے بعد دشمن ہے۔ جب تم مطلوبہ عبارت ڈھونڈ کر پڑھ لو ۔ تو پھر سوچنا کہ انھوں نے اولاد کو ایک خاص عمر کے بعدوالدین کا دشمن اس لیے کہا ہے کہ اب وہ ایک شخصیت ہے۔ شخصیت کی اپنی ذات ، دماغ اور سوچ کا انداز ہوتا ہے ۔ تمھاری شادی کے بعد ایک شخصیت تمھاری ذات کا حصہ بن چکی ہے۔ جو اپنے دماغ سے سوچتی ہے ۔ اللہ کی دی ہوئی اس صفت کی مذمت نہ کرنا۔ انسان پسند کرتا ہے کہ اس کی بات سنی جائے۔ اچھا خاوند اچھا سامع بھی ہوتا ہے۔لازمی نہیں تم جو کچھ سنو وہ درست ہو اختلاف کرنا تمھارا حق ہے ، اپنے ساتھی کو بھی اس حق سے محروم نہ کرنا۔ شادی محبت کا کھیل ہے اور اس کھیل کے دوران محبت بھری زبان ہی مناسب ہے۔ جب انسان قبول کا کلمہ زبان سے ادا کر دیتا ہے تو اس کو زندگی کی خوبصورتیوں کے ساتھ کچھ بد صورتیوں کو بھی قبول کرنا ہوتا ہے، تمھیں یاد ہے ایک بار اسلام آباد میں ایک گلاب کا پھول توڑتے ہوئے تمھاری انگلی سے بہت خون بہا تھا اور میں نے اپنا رومال پھاڑ کر باندھا تھا۔ یہ واقعہ یاد کراکربتا رہاہوں کہ خوبصورت پھولوں کے ساتھ جو کانٹے ہوتے ہیں ان کے ساتھ نہیں الجھنا چاہئے ۔تم نے جو پھول چناہے اس کے ساتھ کانٹے بھی ہوں گے۔ خود کو خو ن آلود کرنا نہ اپنے ساتھی کو ۔ یہ ایک ذمہ داری ہے دوسری بہت سی ذمہ داریوں کی طرح۔یہ بھی یاد رکھنا تمھار ی زوج بیوی کسی کے جگر کا ٹکڑا ہے اور دوسروں کے جگر کے ٹکڑے کو ارزان نہ سمجھ لینا کہ انسان کی فطرت ہے کہ ساتھی کے حصول میں محنت ، وقت اور پیسہ نہ لگے اس کو ارزاں سمجھ لیتا ہے۔ اس لیے اپنے قول سے عمل سے اسے یہ احساس دلاتے رہنا کہ وہ ایک ایسی قیمتی ہستی ہے جس کو حاصل کرنے کے لیے تم نے ایک امیر ملک میں بہت سی آسائشوں کو ترک کرنے کی قربانی دی ہے۔ حالانکہ میں جانتا ہوں یہ قربانی دراصل تمھاری ماں کی ہے ۔ رشتے نبھانے کے لیے تمھاری ماں کا رویہ تمھارے لیے راہ کی روشنی ثابت ہو سکتاہے۔تمھارا باپ اکثر کہا کرتاتھا اچھے الفاط اور میٹھا لہجہ اللہ کی نعمت ہوتی ہے ۔ اپنے مرحوم باپ کے کہے پر عمل کرو گے تو رشتوں کی مٹھاس سے لطف اندوز ہو گئے ۔ محبت بھرے الفاظ مرد اور عورت دونوں کو فرحت دیتے ہیں۔ تم اپنے ساتھی کے لیے فرحت بنوگے تو بدلے میں وہ کچھ پا سکتے ہو جس کو الفاظ کا روپ دینا ممکن ہی نہیں ہے۔ دنیا میں قریب ترین رشتہ اور دوستیوں میں قابل یقین دوستی مرد اور عورت کے اسی رشتہ میں ہے۔ میں نے اللہ کا فرمان پڑھا ہے اللہ ان لوگوں کی مذمت فرماتا ہے جو بیوی خاوند کے رشتے میں رخنے ڈالتے ہیں۔ تم اس رشتے میں رخنہ ڈالنے سے بچ جانا۔اور اس کا طریقہ نرمی اختیار کرنا ہے۔نرمی کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ ایسا مطالبہ نہ کرنا جو پورا کرنا اس کے بس میں نہ ہواور دھمکی دینے سے بھی بچ کے رہنا اور یاد رکھنا عورت کو دہمکی دینا مرد کے وقار کے خلاف ہے۔ البتہ اختلاف کے بعد محبت کی مقدار میں اضافہ دھمکی سے کئی گنا کارگر ہوتا ہے۔زوج کا رشتہ سب دوستیوں اور اکثررشتوں سے بڑھ کر ہے ۔ اس لیے اپنی زوج کو تمام دوستیوں اور اکثر رشتوں پر ترجیح دینا۔ اپنا راز اس کو دینے میں خوف محسوس نہ کرنا اور اس کے رازوں کا امین بننا۔یاد رکھنا تمھاری زوج تمھارے تحفوں کی حقدار ہے۔ اگروہ تجھے کوئی تحفہ دے تو اس کو قیمتی بتانا اور اس کا اظہار کرنا۔جب اللہ اور اس کے رسول نے اس رشتے کو ایک دوسرے کا لباس کہہ دیا تو اس آزادی سے لطف اندوز ہونا دونوں کا حق ہے مگر اپنی راتوں کو اپنے درمیان محبت اور اعتماد کے بڑہانے کا ذریعہ بنانا۔ اور میٹھی نیند کے بعد صبح کا آغاز ایسے لفظوں اور لہجے سے کرنا جو سارا دن خود تجھے اور تیری زوج کو خوش رکھے۔تم دونوں کا ایک دوسرے کے جسم پر حق ہے اور اتنا اہم ہے کہ شادی کے بنیادی مقاصد میں شامل ہے۔تنہائی کے لمحات میں شرارت ازدواجی تعلقات میں گرم جوشی پیدا کرتا ہے۔ میرے دوست کے بیٹے تم اپنی زوج کے لیے اسانیاں پیدا کرنے والا بننا ۔ عورت کے رستے سے کانٹے چننے والے زوج پر عورت سب کچھ قربان کر سکتی ہے۔ اس لیے اس کی طرف اپنا دست تعاون دراز رکھنا ۔ اس کے رشتے داروں کو بہت عزت دینا۔ اس کی خوشی میں قہقہ لگا کر اس کا ساتھ دینا مگر جب اس کی آنکھوں میں آنسوں ہو تو اپنا کندھا پیش کرنا کہ وہ اس پر سر رکھ کر آنسو بہا سکے۔اور اپنی زوج سے محبت پر شرمندہ نہ ہونا ،اس پر اعتماد کرنا ۔ ہفتے بعد دونو ں بیٹھ کر اپنی غلطیوں کو یاد کرو اس پر ہنسو ایک دوسرے سے معذرت کرو۔ اور زندگی کو رنگین بناو۔ یاد رکھنا رنگوں سے لطف اندوز ہونے کے لئے سکون لازمی ہے ۔ مرد کو قوی بنایا گیا ہے ، اس کا مطلب ہے وہ برداشت کرنے اور ایثار کرنے میں اپنی اس صفت سے مدد لے۔تمھاری والدہ کا ٹکٹ بھجوا دیا ہے ۔ روانگی کی تاریخ سے بر وقت مطلع کر دیاتمھار پچھلا خط ساتویں دن موصول ہواہے ۔ حالانکہ ہوائی ڈاک کے ٹکٹ لگانے کا مطلب یہ بتایا جاتا ہے کہ خط تیسرے دن پہنچے گا ۔ یہ بھی اچھا ہے ورنہ ایک وقت تھا پاکستان سے چلا ہوا خط اکیسویں دن پہنچا کرتا تھا۔ اگر ہو سکے تو والدہ کی رونگی کا دن طے ہو جاے تو مجھے فون کر لینا تاکہ میں بر وقت انھیں ہوائی اڈے سے لے سکوں ۔ خط لمبا ہو گیا ہے ۔میں نے ابھی وجاہت صاحب کو بھی خط لکھا ہے ۔ سب ملنے والوں کو سلام کہنا ۔ تیرے لئے اور تیرے خاندان اور رشتے داروں کے لیے دعا گو ہوں اپنی والدہ کی خدمت میں دعاوں کی درخواست کرنا ۔
والسلام
دلپذیر 
16-2-1984