اتوار، 26 نومبر، 2017

بیانیہ


ہفتے کے دن کی صبح ہنگاموں، پتھراو، پولیس کی شیلنگ، جلاو گھیراو، روکو اور بند کرو کے نعروں کے ساتھ شروع ہوئی اور جب سورج غروب ہو ا تو شفق پردرجنوں انسانی لاشوں کے خون سے سرخ تھی،
2,000
افراد زخمی ہو کر ہسپتالوں میں پڑے تھے،
7,000
افراد گرفتار ہو کر جیلوں میں جا چکے تھے
 تمام نجی ٹی وی چینل بند ہو چکے تھے، سوشل میڈیا بند ہو چکا تھا، موبائل فون سروس بعض علاقوں میں سسکیاں لیتی رہی، اور انٹرنیٹ یا تو بند ہوئی یا اس قدر سست ہو گئی کہ پتہ نہیں چلتا تھا کہ سانس ہے کہ نہیں ہے۔








فیض آباد اور اس کے گرد و نواع سے 26 نومبر رات 8 بجے تک 8750
 ایسے خالی خول جمع کئے گئے ہیں جو پولیس نے لبیک یا رسول اللہ والوں کےخلاف انسو گیس پھینکنے کے دوران استعمال کیے 




  فیض آباد میں بیٹھے اہل دھرنا کے مطالبات 


کل کے خون ریز دن کے خاتمے پر اہل دھرنا جن کا نام ْ تحریک لبیک یا رسول اللہ ْ ہے اور جس کے روح رواں ْ علامہ خادم حسین رضوی ْ صاحب ہیں، اپنے 12 مطالبے لے کر لاہور سے اسلام آباد اور راولپنڈی کے سنگھم پر واقع فیض آباد فلائی اور کے اوپر آکر بیٹھ گئے تھے۔ ان کے مطالبات میں مرکزی مطالبہ یہ تھا کہ پاکستان کے وفاقی وزیر قانون کو بر طرف کیا جائے۔اب سب مطالبات سے دست بردار ہو گئی ہے اور اب اس کا صرف ایک ہی مطالبہ ہے کہ حکومت پاکستان کی مرکزی کابینہ میں شامل وزیر قانون زاہد حامد کو بر طرف کیا جائے ۔




تحریک لبیک یا رسول اللہ پر الزامات

وفاقی وزیر داخلہ جناب اقبال احسن صاحب نے کل شام کو تحریک لبیک یا رسول اللہ کو ایک سیاسی جماعت بتایا ہے اور کہا ہے کہ ان کا سیاسی ایجنڈاہے ، اور مذہب کا نام استعمال کر رہے ہیں۔ حکمران جماعت کے رہنماء دلیل پیش کرتے ہیں کہ تحریک لبیک بطور سیاسی جماعت الیکشن کمیشن کے پاس رجسٹرڈ ہے اور اس نے
NA 120
کے انتخابات میں حصہ لیا ہے ،یہ لوگ جناب علامہ خادم حسین رضوی کے اس انٹر ویو کو بھی اپنی دلیل 

بناتے ہیں ، جس میں انھوں نے ایک سوال کے جواب میں فرمایا تھا ْ تین جماعتوں کے مجموعی ووٹ کی تعدا 
2400
 ہے جبکہ ہم نے اکیلے
10,000
" ووت لئے ہیں ۔اب آپ ہی بتائیں وہ جیتے یا ہم ْ 

بقول نون لیگ سینہ زوری کا مظاہرہ ہے کہ سیاسی ایجنڈے کو مذہبی لفافے میں ڈالا ہوا ہے۔
علامہ خادم رضوی صاحب کی ذات پر یہ بھی الزام ہے کہ وہ سرکاری ملازم ہوتے ہوئے لاہور کی مکی مسجد میں ممتاز حسین قادری کی پھانسی کے خلاف حکومت پر تنقید کرتے تھے، جس کی پاداش میں حکومت نے انھیں برطرف کر دیا اور وہ واجبات جو سرکار کسی ملازم کی برطرفی پر ادا کرتی ہے ، علامہ صاحب کو ادا کرنے سے انکار کر دیا۔اس لیے علامہ صاحب کی حکومت مخالفت میں ذاتی عناد بھی شامل ہے۔ 


یہ بھی الزام ہے کہ اتنے دنوں سے دھرنے پر اٹھنے والے اخراجات کہاں سے آ رہے ہیں۔
ْْ ْ ۔ یہ لوگ ان قوتوں کے آلہ کار ہیں جو نون لیگ کی مخالف ہیں اور ہر صورت میں ن لیگ کی حکومت کر گرانا چاہتی ہیں۔

۔ یہ لوگ اس زنجیر کی کڑی ہیں جس کو حکومتی پارٹی نظریہ تصادم کہتی ہے۔

علامہ اور پیر کی یقین دہانی
فیض آباد کے دھرنے میں دو مرکزی شخصیات ہیں جو اول دن سے اپنے مقام پر جم کر بیٹھی ہوئی ہیں ، ایک تحریک کے سرپرست جناب پیر افضل قادری صاحب، دوسرے علامہ رضوی صاحب۔

اس دھرنے کی تین خصوصیات ایسی ہیں عوام اور خواص کو ان کی نیت پر شک کرنے سے روکتی ہیں۔ 
۔ دھرنے میں لگے درجنوں لاوڈ سیپیکروں کے مائیک کا کنٹرول ان ہی دو شخصیات کے پاس ہے، جو بات کی جاتی ہے مائیک میں کی جاتی ہے، حتیٰ کی عام فون کالز کا جو جواب دیا جاتا ہے اس کو سب لوگ سن رہے ہوتے ہیں۔ ساری ملاقاتیں عوام کے سامنے ہوتی ہیں ۔ کھانا پینا بھی عوام سے پوشیدہ نہیں ہے۔ان دو میں سے ایک شخصیت ہر وقت سٹیج پر موجود ہوتی ہے۔
۔ دونوں حضرات اپنی نیت کے خالص ہونے پر جو دلائل پیش کرتے ہیں وہ ہمارے معاشرے میں سچ اور حق پر ہونے کی دلیل مانے جاتے ہیں۔ اپنے تمام مطالبات سے دست بردار ہو کر خود کو حرمت الرسول کا پہرے دار بتانا بھی بڑی دلیل ثابت ہو رہا ہے۔
۔ علامہ صاحب اورکو عوام کی موجودگی میں لوگ چندہ بھی دیتے ہیں ، گھروں سے کھانا پکا کر بھی دھرنے میں موجود لوگوں کو کھلاتے ہیں۔ 
علامہ اور پیر صاحب کے بیانئے کے بارے میں حقیقت یہ ہے کہ لوگ ان کی بات سنتے ہیں اور ان کی نیت کو شک و شبہ سے بالا پاتے ہیں 



بیانیہ

حقیقت یہ ہے کہ تقسیم ہند کے وقت عوام کو بتایا گیا تھا کہ پاکستان نام کے ملک میں خدا کی حکمیت قائم کی جائے گی اور محمد ﷺ کا دین نافذ کیا جائے گا، آئین پاکستان میں ترمیم کر کے خدا کی حکمیت کو تو قائم کر دیا گیا ہے مگر محمد ﷺ کے دین کا نفاذ ہونا باقی ہے جس کے استعارے عمر بن خطاب اور عمر بن عبد العزیز ہیں اور علامہ خادم حسین رضوی کا یہ بیانیہ کہ
 ْ وقت آنے پر بلال کعبے کی چھت پر چڑھ جاتا ہے ْ                      
کچھ لوگوں کو سیاسی لگتا ہے مگر اس بیانئے کا کیا کریں کہ ْ اسلام میں
دین و سیاست جدا نہیں ہیں ْ یہی وہ بیانیہ ہے جو عوام کو لبیک یا رسول اللہ کے نعرے پر اکساتا ہے
  ْ گو ویل چہر پر بیٹھا ایک معذور مولوی ہی یہ نعرہ لگائے "                



ہفتہ، 25 نومبر، 2017

پاکستان میں جھڑپوں اور مظاہروں کا دن





وفاقی وزیر قانون جناب زاہد حامد کے گھر واقع سیالکوٹ پر مظاہرین نےحملہ کیا، حملہ کے واقت اہل خانہ میں سے کوئی بھی 
 .گھر پر موجود نہ تھا
گھر کی حفاظت پر معمور پولیس والوں کے افراد ذخمی ہو گئے 

شیخوپورہ سے نقاز لیگ کے ایم این اے جناپ جاوید لطیف کو مظاہرین نےاس وقت زخمی کر دیا
جب انھوں نے غصے سے بپھرے مظاہرین سے خطاب کرنے کی کوشش کی
جاوید لطیف کے ہمراہ  ایک سیکورٹی گارڈ اورایک مقامی کونسلر بھی زخمیہوا


کراچی میں مظاہریں نے ایک گاڑی کو نذر آتش کر دیا جبکہ پولیس کے ساتھ جھڑپوں میں 23 افراد زخمی ہو گئے

ادرون سندھ سکھر، عمر کوٹ ، مٹھی ، سنجوال اور دوسرے شہروں میں بھی
مظاہریں سڑکوں پر آ گئے ہیں

لاہور میں گوجرانوالہ اور فیصل آباد سمیت دوسرے شہروں کو جانی والی 
شاہراہوں کو بند کر دیا گیا ہے۔ اور اندروں لاہور میں گلی محلوں سے ڈنڈا بردار مظاہرین گھروں سے نکل کر مظاہرے کر رہے ہیں

پنجاب کے دوسرے شہروں گوجرانوالہ ، فیصل آباد، ننکانہ صاحب، میانوالی، چکوال،
گجرات، جہلم، ساہیوال، وہاڑی، ٹوبہ ٹیک سنگھ سمیت تقریبا ہر شہر میں مظاہرے ہو رہے ہیں

پشاور شہر کی بڑی سڑک رنگ روڈ کو مظاہریں نے بند کر دیا ہے۔ ہری پور
مانسہرہ، نوشہرہ، ڈیرہ اسماعییل خان میں بھی مظاہرے ہو رہے ہیں


کوئٹہ شہر میں مرکزی ہاکی چوک کو بھی مظاہرین نے بند کر دیا ہے

تحریک لبیک یا رسول اللہ کے مرکزی رہنماء مولانا خادم حسین رضوی
اسلام آباد میں دھرنہ دیے ہوئے ہیں ان کا مطالبہ ہے کہ وفاقی وزیر قانوں کو معطل کیا جائے
200آج صبح حکومت نے بزور طاقت ان کو آٹھانے کی کوشش کی جس کے بعد صرف اسلام آباد میں
افراد ذخمی ہو گئے اور ایک پولیس آفیسر کی موت واقع ہو گئِ۔ اور پولیس نے 150 افراد کو گرفتار کر لیا




پاکستان کے وفاقی وزیر داخلہ جناب احسن اقبال نے اج شام پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے
تحریک لبیک یا رسول اللہ کے قائدیں پر الزام لگایا کہ ان کے بھارت کے ساتھ روبط ہیں
انھوں نے کہا اپٹک فائبر کا تاریں کاٹنا عام لوگوں کام نہیںہے اور یہ کہ مظاہریں کے پاس آنسو گیس کے شیل پھینکنے والی بندوقیں بھی ہیں
انھون نے مزید کہا کہ ان لوگوں کا اج بھارت میں رابطہ بھی ہوا ہے۔ انکے پاس ہمارے ملک کی اندرونی معلومات ہیں

فیض آباد دھرنے کی روداد



* سپریم کورٹ کے حکم پر رات بارہ بجے شروع ہونے والا "دھرنا ہٹاو" اپریشن ، بلند درگاہ گولڑہ شریف کی درخواست پرحکومت نے ملتوی تو کر دیا گیا ۔ مگر صبح سات بجے یہ اپریشن شروع کر دیا گیا، جس میں پولیس، رینجرز اور ایف سی نے حصہ لیا۔ مجموعی طور پر سیکورٹی کے 8500 جوانوں نے اس میں حصہ لیا۔


*فیض آباد ، راولپنڈی اور اسلا�آباد کو ملانے والا اہم اور مصروف ترین راستہ ہے۔ یہاں پانچ سڑکیں آپس میں ملتی ہیں۔ ایک روڈ جس کو آئی جے پی روڈ کہا جاتا ہے جی ٹی روڈ سے آتی ہے جس پر صوبہ کے پی کے سے آنی والی ٹریفک چلتی ہے ، پیر ودہائی اور دوسرے معروف شہروں کو جانی والی گاڑیوں کے اڈے بھی اس سڑک پر واقع ہیں۔
دوسری بڑی گذرہ گاہ مری روڈ ہے جس سے راولپندی کے رہائشی اسلا�آباد میں داخل ہوتے ہیں، تیسری وہ ہائی وے ہے جس پر لاہور کی جانب سے آنے والی ٹریفک چلتی ہے۔ چوتھی سڑک مری کی طرف سے آنے والی ٹریفک کی گذرگاہ ہے اور پانچویں شاہراہ اسلام آباد میں داخل ہونے کا بنیادی اور مصروف ترین رستہ ہے۔ یہاں ٹریفک کا بہاو اس قدر زیادہ ہوتا ہے کہ فیض آباد کے مقام پر ایک بڑا اوروسیع پل ( فلائی اور) بنایا گیا ہے ، دھرنا کے قائدین پل کے اوپر اس مقام پر تشریف فرما ہیں کہ پانچوں راستے ان کے قدموں کے نیچے ہیں اور نگاہوں کے سامنے ہیں۔


*پولیس نے اس ااپریشن کے لیے کافی تیاری کی ہوئی تھی۔ ان کی حکمت عملی کا اساسی نقطہ یہ تھا کہ کسی کو جانی نقصان پہنچائے بغیردھرنے والی جگہ کو واگذار کرایا جائے۔اس اپریشن کو عملی جذبے اور مربوط حکمت عملی سے شروع کیا گیا، تمام راستوں پر کنٹینر لگا کر اہل دھرنا کو پہلے ہی محصور کیا جا چکا تھا، پولیس نے پتھراو کر کے دھرنے کے کارکنوں کو اپنی جانب متوجہ کیا اور ان کو مرکزی مقام سے کنٹینرز کے عقب تک آنے پر مجبور کیا، جب مرکزی قام پر صرف قائدین اور سو ڈیڑھ سو کے درمیان کارکن رہ گئے تو آگ کے شعلے پھینک کر رہائشی خیموں کو نذر آتش کر دیا۔ اور پھر کثیر مقدار میں آنسو گیس پھینک کر ساری رات کے بیدار قائدین کو نڈھال کر دیا۔ پروگرام کے مطابق اس مرحلے پر پانی والی توپ سے ٹھنڈا پانی برسا کر قائدین کو جگہ چھوڑنے پر مجبور کر دینا شامل تھا، مگر اس مرحلے پر پولیس کی حکمت عملی پر ہی پانی پھر گیا۔ اور شاہدین نے پولیس کو عجلت میں دھرنے کی جگہ چھوڑ کر اسلام آباد کی طرف جاتے 
دیکھا۔



* اس دوران پولیس تقریبا دو سو افراد کو گرفتار کر کے اور ان کو قیدیوں کی گاڑیوں میں بند کر چکی تھی۔ اس دوران اسلام آباد کے پمز ہسپتال میں ۲۸ اور راولپنڈی کے ہولی فیملی ہسپتال میں ۱۲ زخمیوں کو لایا گیا 
جن میں پولیس کے جوان بھی شامل تھے۔ پولیس کے ایک جون کی ہلاکت کی البتہ تصدیق نہ ہو سکے۔


*نومبر ۲۰۱۷ کے اس اپریشن نے نومبر ۲۰۰۷ کے اس اپریشن کی یاد تازہ کرا دی جو جنرل مشرف کے دور میں ہوا تھا اور ناکام ہو گیا تھا۔ یہ اپریشن بھی ناکام ہوا۔ دھرنا قائدین کی کمک کے لیے راولپندی، اسلام آباد سے بڑی کمک میسر آ گئی۔ اور میدان اہل دھرنا کے نام رہا۔

*جب پولیس میدان چھوڑ کر اسلام آباد کی طرف جا رہی تھی ، اس وقت کسی ذمہ دار پولیس افسر کے پاس بات کرنے کا وقت تھا نہ ہی الفاظ۔ بد دلی اور یاسیت کے ملے ملے جذبات البتہ غالب تھے۔ صرف اتنا معلوم ہو سکا کہ اپریشن چھوڑ کر واپسی کا حکم آیا ہے۔


*بعد میں معلوم ہوا کہ پاک فوج کے سربراہ نے وزیر اعظم کو مشورہ دیا ہے کہ معاملات افہام و تفہیم سے طے کیے جائیں۔


*اس افراتفری میں بعض مقامی لوگوں نے جن کو معلوم تھا کہ سابقہ وزیر داخلہ کا گھر فیض آباد میں ہے ان کے گھر کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی مگر صرف بیرونی گیٹ ہی کو نقصان پہنچا سکے۔




*دھرنا قائدین نے جس جرات اور ثابت قدمی کا ثبوت دیا ، وہ اپنی مثال آپ ہے۔ جب ان کے کارکن ان سے دور جا چکے تھے، ان کے گرد گھیراو تنگ کیا جا چکا تھا، اس دوران بھی ان کے جذبے کا قائم رہنا اور اپنے اصولی موقف پر ڈٹے رہنا، ایسا عمل ہے جو ان کے اپنے کاز سے مخلص ہونے کا پتہ دیتا ہے۔


*اس دوران چند سیاسی لوگوں کے بیان آنا بھی ہوا کے رخ کا پتہ دیتا ہے، خاص طور پر جماعت اسلامی کے سربراہ اور

اے این پی کے رہنماء جناب افراسیاب خٹک کے بیان قابل ذکر ہیں۔

*یہ بھی دیکھا گیا کہ کہ کچھ لوگ جو دھرنے میں شامل ہی نہیں تھے اور اس پل پر کھڑے تھے جو قائدین دھرنا کے بالکل سامنے ہے، ان کے پاس ایسی بندوقیں تھیں جن سے پولیس والوں پر ٓنسو گیس کے شیل پھینکے گئے۔


*یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ دھرنا قائدین کو صوبہ کے پی کے سے بڑی تعداد میں علماء اور شیوخ نے ذاتی طور پر آ کر نصرت اور یک جہتی کا اعلان کیا ، مگر عملی طور پر صرف سندھ اور پنجاب ہی بند ہوا مگر پشاور میں کوئی دھرنا نہ ہوا ۔ جبکہ فیض آباد میں دھرنا قائدین کی امیدیں اس کے بر عکس تھیں۔

*اس دھرنے میں مذہبی عنصر نے بنیادی کردار ادا کیا۔ البتہ سیاسی کردار کی حقیقت چند دنوں میں واضح ہو جائے گی۔

*بعض مذہبی جماعتوں او ر تنظیمیوں کی طرف سے ملا جلا رد عمل بھی چند دنوں تک ، دھندلی تصویر کو واضح کر دے گا۔

جمعہ، 24 نومبر، 2017

مصر : مسجد پر حملہ

حملہ میں اب تک 235   لوگ ہلاک اور109 زخمی ہوئے ہیں


یہ ولاِیۃ سینائی نامی گروپ کا کام ہے جس کا تعلق دعش سے ہے




مصر کے صوبہ سینائی مین واقع مسجد العریش میں نما ز جمعہ کے نمازیوں پر وحشیانہ حملہ، دنیا بھر میں
 مسلمانوں کے دل خون کے آنسو رو رہے ہیں
      مصدقہ اطلاعات کے مطابق اب تک مرنے والوں کی تعداد 236 ہو چکی ہے،   پہلے مسجد میں بم پھینکا 
گیا اور ساتھ ہی نمازیوں کو گولیاں مار کر خون میں نہلا دیا گیا۔ 



صہیونی میدیا کی طرف سے شعلہ برساتا سوال
Again. Muslims killing Muslims for not being Muslim enough. Just imagine what they’d do to Non Muslims-given the chance.



دہشت گرد  4 گاڑیوں میں آئے ، پہلے بم پھینکا پھر نمازیوں پر گولیاں برسائیں
Over 235 people killed - Deadliest terrorist attack in Egyptian history - During prayers at mosque in North Sinai - Condemnations from Arab League, US, Gulf states and Jordan
تین دن پہلے ناہجیرا کی مسجد میں بھی ایسا ہی ظلم ڈہایا گیا تھا



یہ مسجد "صوفی مکتبہ فکر " والوں کی بتائی جاتی ہے

مصری حکومت نے دن کے سوگ کا اعلان کیا ہے

سات دہشت گردوں نے اہمبولنس پر بھی گولیان برسائیں


امریکی صدر کی مسجد پر حملہ کی مذمت

تقسیم کی لکیر



اسلام کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ایک جنجویانہ اور غیر مفاہمانہ رویے کا حامل مذہب ہے ، یہ خاکہ غیر ممالک میں ہی نہیں بلکہ اسلامی ممالک کے اندر بھی نئی نسل میں راسخ ہو چکا ہے
اسلام ، انسانی حقوق کا علمبردار ہونے کے باوجود ، مسلم اکثریت کے ممالک میں انسانی اقدار پر عمل نہ ہونے کے باعث مدافعتی رویے پر مجبور ہے۔ دین کے دکھائی دینے والے چہرے کو دوسروں کے لیے قابل قبول بنانا تعلیم یافتہ لوگوں کا کام ہوتا ہے۔
پاکستان سمیت اسلامی ممالک میں تعلیم یافتہ طبقہ دو گروہوں مین منقسم ہے۔ عصری علوم کا پروفیسر،دینی مفتی کے علم منظق و فلسفہ کوعصر حاضر کی اورنج ٹرین کا پچھڑا ہوا مسافر گردانتا ہے ، جب کہ دینی اداروں میں اب بھی جدید معاشرے کی بناوٹ پر بحث کو وقت کا ضیاع تصور کیا جاتا ہے۔
اسلامی ممالک میں معاشرتی بناوٹ کے باعث، مسجد کا مائیک دینی مدارس سے فارغ التحصیل طلباء اور اساتذہ کے ہاتھ میں ہونے کے سبب ان کی آواز بلند تر ہے جو مساجد کے قریبی گھروں ہی میں ہی نہیں بلکہ دور دراز تک لوگوں پر بصارتوں کے ذریعے اثر انداز ہوتی ہے
یہ کہنا غلط نہ ہوگاکہ عام آدمی کی بصارتوں تک صرف مذہبی طبقے کی آواز پہنچتی ہے اور جدید علوم کی آوازیں مخصوص تعلیمی اداروں اور چند بند مقامات میں کم لوگوں تک رسائی حا صل کر پاتی ہیں۔
عجیب بات ہے کہ فلسفہ دینی مدرسے میں پڑھا جائے تو دین کا حصہ اور کالج سے پڑھا جائے تو دین بیزار مضمون بن جاتا ہے۔اسلامیات میں اعلیٰ تعلیم کی سند سیال شریف سے ہو تو معاشرے کا رہنماء اوراسلامیات میں پی ایچ ڈی یونیورسٹی سے ہو تو مشکوک ۔
ہمارے تعلیم یافتہ طبقے کو افہام و تفہیم سے مل بیٹھنا چائیے، اور معاشرے کی رہنمائی کا فرض نبھانا چاہئے ، اختلافات اور معاشرتی تقسیم ، تعلیم یافتہ افراد کی پیدا کردہ ہے۔اوراس تقسیم کی لکیر کو مٹانا بھی تعلیم یافتہ لوگوں کا ہی کام ہے۔ 

بابا بھلے شاہ کی ایک نظم کا بند اہل علم کی نذر
عِلموں پئے قِضیّے ھور
اکھّاں والے انّھے کور
پھڑدے سادھ ، تے چھڈن چور
دو ھیں جہانِیں ، ھون خوار
عِلموں بس کریں او یار