جمعرات، 30 ستمبر، 2021
اناج کے پڑولے سے شلوار تک
بدھ، 29 ستمبر، 2021
جنون
تصوف کی دنیا میں شہاب الدین سہروردی کا نام ایک روشن ستارے کی طرح ہے۔ اس خاندان کا طرہ امتیاز علم تھا۔ پاکستان کے
1956 -1957
میں وزیر اعظم بننے والی بنگالی رہنما حسین شہید سہروردی کا تعلق اسی خاندان سے تھا۔ ان کی ماں پہلیسلم خاتون تھی جس نے کیمبرج کا امتحان پاس کیا تھا۔ سہروردی کے والد کلکتہ ہائی کورٹ کے جج تھے۔ تدبر، فراست، سیاست اس گھرانے کا اثاثہ تھا۔حسین سہروردی کو خود قائد اعظم نے مسلم لیگ میں شامل ہونے کی دعوت دی تھی تو ٓزادی کو وقت بنگال میں فسادات روکنے کے لیے گاندہی سہروردی سے مدد کا طلبگار ہوا تھا۔اس نے پاکستان کے لیے کیا کیا اور اس کے ساتھ کیا ہوا۔ اب تاریخ کا حصہ ہے مگر یہ تاریخ گم گشتہ نہیں ہے کہ 1963 میں جب وہ مرا یا بقول ذولفقار علی بھٹو اس مارا گیا تو لوگ تسلیم کر چکے تھے کہ وہ جنونی شخص تھا۔یہ ملک کا غدار، شرابی، ڈانس کا رسیابتایا گیا اور اس ساری داستان کا راوی مجید چپڑاسی ہے۔اس ملک میں دوسراجنونی خود بھٹو تھا۔ اس نے خود انڈیا کے بارڈر پر کھڑے ہو کر پاکستان فوج کے جوانوں کو بتایا تھا کہ اکہتر کی شکست فوجی نہیں بلکہ سیاسی تھی۔ اس نے عوام کو گھاس کھلائی، یہ بھی شرابی تھا، غیر ملکی عورت سے شادی کر رکھی تھی، اسلام کی بجائے سوشلزم کا نعرہ لگاتا تھا، یہ غدار ہی نہیں بلکہ ایک ہندو کا بیٹا بتایا گیا۔ اور یہ انکشاف کرنے والا سینئر صحافی آج بھی پاکستان کی خدمت کر رہا ہے۔ اس کا نام معلوم کرنا ہو تو نصرت جاوید سے رجوع کیا جائے۔ بہرحال ہم نے اس جنونی کو ایسا عبرت کا نشان بنایا کہ کلیجوں میں ٹھنڈ پر گئی۔تیسری جنونی قائد اعظم کی بہن تھی۔ فاطمہ نامی یہ عورت عبدلغفار خان کے ساتھ مل کر ملک سے غداری کی مرتکب ہونا چاہتی تھیں، اسلام کی تعلیمات کے خلاف ایک اسلامی ملک کی صدر بننا چاہتی تھیں اور شادی نہ کر کے مجرد زندگی گذار کر اپنی روایات اور اسلام دشمنی کی مرتکب ہورہی تھی۔ البتہ وہ اپنی موت آپ مر گئی۔بے نظیر کا نام بھی جنونیوں میں شامل تھا۔ اس کو اسی باغ میں گولی سے بھون دیا گیا جس باغ میں لیاقت علی خان کو مارا گیا تھا۔ دونوں کے قاتل نا معلوم ہی رہے۔یہ بھی بھارت کے لیے نرم گوشی رکھتی تھیں اور سکھوں کی فہرستیں برآمد کیا کرتی تھیں۔غدار ہی نہیں کرپٹ بھی تھی۔سیاستدانوں کا اس ملک میں وطیرہ رہا ہے۔ جھوٹ بولو، ان پڑھ اور جاہل عوام کو لوٹو اور دوسرے ملکوں میں محل بناو۔ سب سے بڑا لٹیرا سابقہ صدر آصف علی زرداری ثابت ہوا۔ عوام غریب جبکہ اس کے گھوڑے بادام اور جام کھایا کرتے تھے وہ بھی عوام کے ٹیکس کے پیسوں کا۔اس ملک کے سب سے بڑے چور کا نام نواز شریف ہے، اس کا والد لاہور کی گولمنڈی میں پانڈی کا کام کرتا تھا۔ اس کے بیٹوں نے لندن میں منی لانڈرگ کے پیسوں سے فلیٹ خریدا اور شاہانہ زندگی بسر کر رہے کہ جبکہ پاکستانی غربت اور محرومی کی چکی میں پس رہے ہیں۔سنا ہے ایک اور جنونی تیار ہو رہا ہے، اس نے کسی سے کہا ہے کہ بلی کو کمرے میں بند کر کے اس پر تشدد کیا جائے تو وہ تشدد کرنے والے کی آنکھوں پر پنجہ مارتی ہے۔کہا جاتا ہے اقتدار کا کھیل بے رحم ہوتا ہے۔ اس کھیل میں نکا یا اپنا کوئی نہیں ہوتا۔ اس ملک میں ڈٹ کر کھڑا ہونا صرف جرنیلوں ہی کا کام ہے۔ پاپا جونز کو جو بھی کہو ڈت کر کھڑا ہونے کا معترف ہونا ہی پڑے گا۔ نکا البتہ ڈٹ کر کھڑا نہیں ہو سکتا کہ بے وردی ہے۔ اس کے بارے میں لندن کے ایک بجومین2018 ہی میں پیشن گوئی کر دی تھی
جس کا پورا ہونا ابھی بقی ہے
جمعہ، 25 دسمبر، 2020
شمع و شعلہ
جمعہ، 20 نومبر، 2020
صالح اور طالح
صالح اور طالح
راولپنڈی کی تحصیل گوجر خان کے ایک پسماندہ علاقے چنگا بنگیال سے تعلق رکھنے والا ایک گیارہ سالہ لڑکا جب کرکٹ اکیڈمی چلانے والے آصف باجوہ کے پاس آیا تو آصف باجوہ نے اس بچے میں بڑا کرکٹر بننے کی صلاحیت کو تاڑ لیا تھا۔ اور پھر یہ بچہ راولپنڈی سے لاہور اور پھر لندن منتقل ہو گیا۔ لندن کے ایک اخبار نے اس پر سٹے بازی کا الزام لگایا تو آصف باجوہ نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا یہ محمد عامر کی صحبت کا اثر ہے۔
فارسی زبان کی ایک کہاوت ہے
صحبت صالح تیرا صالح کنند۔ صحبت طالح تیرا طالح کنند
جو لوگ بھیڑیں پالتے ہیں انھیں معلوم ہوتا ہے کہ جب بھیڑ بیمار ہوتی ہے تو اسے دوسری بھیڑوں سے علیحدہ کردینا چاہیے۔ورنہ وہ سارے ریوڑ ہی کو بیمار کر دیتی ہیں۔ صحرا کے بدو خارش زدہ اونٹ کو دوسرے اونٹوں سے دور ہی رکھتے ہیں۔ صحبت ہر جاندار پر اثر انداز ہوتی ہے اسی لیے کہا جاتا ہے خربوزہ خربوزے کو دیکھ کر رنگ پکڑتا ہے۔ انسان مگر سب سے زیادہ صحبت سے متاثر ہوتا ہے۔
جب ہم نماز میں کھڑے ہو کر دعا کرتے ہیں کہ ہمیں انعام یافتہ لوگوں کی راہ دکھا تو ہمیں اللہ تعالی کا یہ فرمان ذہن میں رکھنا چاہیے کہ اللہ سے ڈرتے رہو اور سچے لوگوں کی صحبت اختیار کرو۔ہمارے ارد گرد ایسے واقعات جنم لیتے ہیں جن میں تعلیم یافتہ نوجوان صحبت کے غلط چناو کے باعث اپنی ذات اور اپنے پیاروں کے لیے مشکلات پیدا کر لیتے ہیں۔ شیخ سعدی نے اپنی بوستان میں پرندوں کے ایک جوڑے کا ذکر کیا ہے کہ ایک آدمی کو دیکھ کرمادہ نے کہا کہ اس کا ارادہ شکار کرنے کا ہے نر نے کہا یہ لباس سے شکاری نہیں لگتا۔ جب وہ نزدیک آیا تو اس نے تیر نکالا اور نر پرندے کو شکار کر لیا۔ لاہور والے علی ہجویری (داتا صاحب) نے اپنی کتاب کشف المجوب میں تین قسم کے لوگوں کی صحبت سے بچنے کی تلقین کی ہے ایک ایسے جاہل جنھوں نے صوفی کا لبادہ اوڑہا ہوا ہو۔دوسرے ایسے مبلٖٖغین جو اپنے ہی کہے پر عمل نہ کرتے ہوں اور تیسرے وہ فقراء جو قرض کی دلدل میں اتر چکے ہوں۔ یہ تینوں کسی وقت میں اپنا تیر نکال کر شکار کر سکتے ہیں۔
گئے وقتوں میں صحبت سے مراد لوگوں میں المشافہ اٹھنا بیٹھنا اور دوستیاں ہوا کرتی تھیں۔ مگر سوشل میڈیا کے اس دور میں صحبت کے دائرے فیس بک، نوئٹر اور ٹک ٹاک وغیرہ تک ہی محدود رہ کر لا محدود ہو چکے ہیں۔ تخم تاثیر کی عدم واقفیت کے باعث بعض اوقات ناقابل یقین واقعات جنم پذیر ہوتے ہیں۔
محمد عامر کی کہانی میں نوٹ تو مجید نامی آدمی نے گنے تھے مگر بدنامی محمد عامر کے حصے میں آئی تھی۔ اس واقعے کے بعد وہ سنبھل گیا اور کردار پر ملی گئی کالک کو اپنے عمل سے دہو ڈالا مگر ہر انسان محمد عامر نہیں ہوتا۔ ٹخم تاثیر ہر جگہ حاوی نہیں ہوتا اکثر بری صحبتیں انسان کو تباہ کردیتی ہیں۔