بدھ، 29 جنوری، 2020

نئی تقسیم



پیر، 9 ستمبر، 2019

اوئے شرم کرو

پاکستان کے فوجی جوان جو غازیوں کی زندگی جیتے ہیں اور جب وطن پر قربان ہو جاتے ہیں تو ان کے گاوں اور محلے والے ان کی تربت پر پاکستان کا سبز ہلالی پرچم لہراتے ہیں۔ ہماری بہترسالہ فوجی تاریخ قربانیوں اور معجزوں سے عبارت ہے۔ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ ایک تن تنہا پاکستانی مجاہداللہ اکبر کا نعرہ لگا کر دشمن کے دو سو فوجیوں کو گھیر لایا تھا۔ 

سولہ دسمبر ۱۹۷۱ کی شام کوئی پاکستانی اس بات پر یقین کرنے کے لیے تیار نہ تھا کہ ہمارے ۹۲،۰۰۰ فوجیوں نے ہتھیار ڈال دیے ہیں۔مگر ایسا ہوا اور ایسا کرنے والا اس وقت کا کمانڈر انچیف اور ایسٹرن کمانڈ کا جنرل تھا۔ جنرل امیر عبداللہ خان نیازی تو اپنا پستول دشمن جنرل کے حوالے کر کے قید ہو چکا تھا مگر راولپنڈی میں کمانڈر انچیف جنرل آغا محمدیحیی خان سے جب زبردستی استعفیٰ لیا گیا تو وہ شراب کے نشے میں دہت تھا۔ تاریخ گواہ ہے کہ یزید بن معاویہ شرابی تھااور شراب کے نشے میں چھڑی سے ایک متبر ک اور پاکیزہ کٹے ہوئے سر کو ٹھکورا تھا۔ یہ چھڑی بڑی ظالم شے ہے تاریخ ہی نہیں جغرافیہ بھی بدل کر رکھ دیتی ہے۔ ڈہاکہ کے پلٹن میدان میں نیازی سے پستول لینے سے بھی پہلے اس کی چھڑی لے لی گئی تھی۔جب مغربی پاکستان میں چھڑی کے خلاف بغاوت ابھری تو یہاں بھی چھڑی والے سے چھڑی لے لی گئی۔مگر پاکستان کے فوجی جوانوں کے دلوں میں لگی آگ کو ٹھنڈا کرنے کے لیے پاکستان کے سابقہ وزیر اعظم جناب ذولفقار علی بھٹو شہید نے مغربی پاکستان میں انڈیا کے بارڈر پر کھڑے ہو کر فوجی جوانوں سے کہا تھاکہ یہ شکست فوجی شکست نہیں ہے بلکہ سیاسی شکست ہے۔ یہ بھٹو کا نعرہ تھا کہ ہم گھاس کھائیں گے مگر اپنا ایٹم بم بنائیں گے۔فوج ہتھیاروں کے بل بوتے پر لٹرتی ہے اور اسے جذبہ اپنی قوم مہیا کرتی ہے۔ہتھیار اپنا ہونے کا فلسفہ ۱۹۴۷ ہی میں پاکستانیوں کو سمجھ آ گیا تھا جب حیدر آباد دکن پر بھارت نے حملہ کیا تو نظام نے جو نقد رقم دے کر بندوقیں خریدیں تھیں میدان عمل میں ناکارہ ثابت ہوئیں۔ اس وقت زمینی حالات یہ ہیں کہ ہماری فوج دنیا کی نمبر ا ہو یا نہ ہو مگر سبز ہلالی پرچم کے لیے چیر پھاڑنے کو بے تاب ہے۔ ۲۲ کروڑ لوگ ان کی پشت پر صرف زبانی نہیں کھڑے بلکہ نصف صدی تک تین نسلوں نے گھاس کھا کر اپنے فوجیوں کے لیے وہ بندوق تیار کر کے رکھی ہے۔جو چلے تو چاغی کے سب سے بڑے پہاڑ کو خاکستر کر کے رکھ دے اور دنیا بھر کے جنگی ماہرین اس بندوق کے موثر ہونے کی گواہی دیں۔ 

ہماری فوج وہ ہے جو تین دہائیوں سے دشمنوں سے نبردآزما ہے۔ ہماری دو نسلیں تو پیدا ہی دہماکوں کے دوران ہوئی ہیں اور بموں سے کھیل کر جوان ہوئی ہیں۔ ہمارے پاکستان کے بوڑہے اپنے جوان بیٹوں کے لاشوں کو دفنا کر اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ جوان خون وطن کی مٹی میں ہی جذب ہوا ہے۔
سابقہ ایک سال میں اس ملک خداداد پر کون سا کالا جادو کیا گیا ہے کہ فوجی جوان حیران ہیں کہ ان کا دشمن کون ہے؟

عوام یہ جان کر دانتوں میں انگلی دے لیتی ہے کہ ووٹ کے ذریعے دشمن کو شکست فاش دی جا چکی ہے۔ پاکستانی عوام جو اداروں سے مایوس ہو چکی ہے سوائے پاک فوج کے، حیران ہی نہیں پریشان بھی ہے۔ اور اس کی پریشانی کا سبب کوئی راز نہیں ہے۔ الیکشن کے بعد جو لوگ عوام پر مسلط کیے گیے ہیں۔ وہ حکمران چور اور ڈاکو بن گئے ہیں۔عوام نان جویں کر ترس رہی ہے۔ ۔ نوجوان اپنے مستقبل سے نا امید ہو چلا ہے۔ عام ٓدمی مہنگائی کی چکی میں پس کر رہ گیا ہے۔اداروں کے کرنے کے کام سوشل میڈیا فورس کے حوالے کر دیے گٗے ہیں۔ 

اس ملک کا سب سے بڑا ڈاکو آصف علی زرداری بتایا جاتا ہے مگر اس کے دور میں تو زندگی معمول پر تھی۔ ہمساٗے رشک بھری نظروں سے ہمیں دیکھا کرتے تھے۔ دشمن منہ کھولنے سے پہلے کئی بار سوچا کرتا تھا۔ سب سے بڑا چور نواز شریف بتایا جاتا ہے۔ عدالت نے تو اس کو اقامہ پر سات سال کے لیے جیل میں بھیجا ہوا ہے۔ اگر اس نے چوری کی ہے تو برآمد کیوں نہیں ہو رہی۔مگر اس کے دور میں بھی عوام کی امید کی ڈوری مضبوط ہی ہوئی تھی۔ کیا ملک کے میں موٹر ویز کا جال نہیں بچھایا گیا۔ میڑوبسوں کا چلنا اس خطے میں منفرد کام نہ تھا۔لاہور میں اورنج ٹرین پورے بر صغیر میں نئی چیز نہیں تھی۔ اسلام آباد کا ہوائی اڈہ کیا چوری کا شاخسانہ ہے۔

۔یہی مودی جو پاکستانی حکمرانوں کا فون اٹھانے کا روادار نہیں ہے خود چل کر لاہور آیا تھا۔ اس کے پیش رو نے مینار پاکستان کے سائے میں کھڑے ہو کر کچھ اعترافات بھی کیے تھے۔

ہمارے حقیقت پسند وزیر خارجہ کا بیان ہے کہ پاکستانی احمقوں کی جنت میں نہ رہیں۔ حالانکہ پاکستانی خود کو دوسروں سے بہتر جانتے ہیں۔ انھیں معلوم ہے احمقوں کی جنت میں وہ رہتے ہیں جو پاکستان کو مصر سمجھ بیٹھے ہیں۔ پاکستانیوں کو تو اس بیانئے پر یقین ہے کہ فوج اور پولیس میں ہمارے بیٹے اور بھتیجے ہیں۔ عوام اور فوجی جوانوں کا خون ایک ہے۔ وہ مادر وطن کے دفاع کے لیے بندوق لے کر نکلیں گے تو پورا پاکستان ان کی دفاعی لائن کو قائم رکھے گا۔ ہمارے سپہ سالار کا فرمانا ہے کہ اخلاقی قوت عسکری قوت سے زیادہ فیصلہ کن ہوتی ہے ۔ کیا موجودہ مسلط کردہ حکمران قوم کو اخلاقی طور پر متحد کر رہے ہیں یا عوام اور افواج پاکستان میں غلط قہمیوں کے بیج ہو رہے ہیں؟

پاکستان کے آئین میں لکھا ہوا ہے کہ اقتدار ایک مقدس امانت ہے جسے صرف منتخب نمائندے ہی استعمال کرنے کے مجاز ہیں۔یہاں تو اقتدار کو ایسے لوگ بھی استعمال کر رہے ہیں جن کو عدالتوں نے ناہل قرار دیا ہوا ہے۔ 

یہ بیانیہ البتہ قابل قبول نہیں ہے کہ جو موجودہ حکومت کے جھوٹ کو سچ نہ مانے وہ دین کا منکر اور پاکستان کا غدار ہے۔ جو انصاف کے معیار پر انگلی اٹھائے اسے عدلیہ کا دشمن گردانا جاتا ہے۔ سیاسی مخالفین کے مقدمات روزانہ کی بنیاد پر سن کر انصاف کا بول بالا کیا جاتا ہے۔ جب ملک کے اندر ظلم اور بے انصافی کا راج ہو گاتو لا محالہ قوم کی سوچ تقسیم ہو گی۔ یہ کیسا اجینڈا ہے جو عوام کو گروہوں میں بانٹ کر مایوسی کی آبیاری کررہا ہے اور امید کی ٹہنیاں کاٹ کرجلا رہا ہے۔

حالت یہ ہے کہ ایشیاء ٹائیگر بننے سے انکار کر کے عوام کے معاشی ترقی کے عزم کے سیلاب کے آگے بند باندہنے کی تبلیغ کی جاتی ہے۔ یہ موجودہ حکمرانوں کے کس منشور کا حصہ ہے۔ لوگ ووٹ منشور کو دیتے ہیں۔ یہاں منشور کو لیٹ کر رکھ دیاگیا ہے۔

غریبوں کی روزمرہ اشیائے ضرورت پر جی ایس ٹی کے نام پر دنیا کا مہنگا ترین ٹیکس لگا کر رقم جہاز والوں میں تقسیم کی جاتی ہے۔ عمران خان کنٹینر پا کھڑے ہو کر فرمایا کرتے تھے اوئے شرم کرو۔۔یہ تمھارے باپ کا پیشہ ہے عوام یہ پوچھنے میں حق بجانب ہے کہ یہ ۲۰۸ ارب کس کے باپ کا پیسہ ہے جو گیس کے بلوں اور کھاد کی قیمت کے ذریعے لوٹا گیا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ عوام کو ۴۰۰ ارب کا ٹکہ لگا یا گیا مگر سرکاری خزانے میں کچھ بھی جمع نہ ہوا۔۔

وزیر اعظم کو ایسی خبریں ٹی وی سے پتہ چلتی ہیں، حالانکہ اس صدارتی آرڈیننس کی سمری وزیر اعظم نے قصر صدارت بھیجی تھی۔ جب ٓرڈیننس جاری ہو گیا تو دو وزیروں نے پریس کانفرنس کر کے اس کے فضائل بیان کیے اورجب لوگ اس آرڈیننس سے مستفید ہو چکے تو وزیر اعظم نے نوٹس لے لیا۔پھر اس نوٹس لینے پر قوالوں کی پوری پارٹی میدان میں اتاری گٗی جس کی سربراہی حفیظ شیخ نے کی۔ 

وزیر اعظم سیاست کو تجارت بنا کر تجارت پر سیاست کر رہے ہیں۔ انھیں قانون، آئین حتیٰ کہ اخلاقیات کی بھی پرواہ نہیں ہے۔جہانگیر ترین اور رزاق داود کے جہازوں میں جلنے والے ایندہن کا جب بھی لیبارٹری میں فرانزک ہوا اس میں غریب عوام کے نچوڑے خون اور محنت کے پسینے کی آمیزش ضرور ثابت ہو گی۔عوام پر ظلم، زیادتی اور بے انصافی پر حکمرانوں نے کان اور آنکھیں بند کی ہوئی ہیں۔ ان کو احساس ہی نہیں کہ غریب جب روزمرہ استعمال کی چیز کو ہاتھ لگاتا ہے تو مہنگائی اسے ایسا کرنٹ مارتی ہے کہ اس کا دماغ شل ہو کے رہ جاتا ہے۔

حکومتی باجوں پر نئی دہن یہ بجائی جا رہی ہے کہ اس کرپشن کا سبب وہ عدالتی اسٹے آرڈر ہیں جو ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ نے جاری کر رکھے ہیں۔ اس کے جواب میں بقول عمران خان یہی کہا جا سکتا ہے اوٗے شرم کرو مگر شرم اور حیا، قانوں اور قانون کی پاسداری سے عملی طور پر حکومت ہاتھ دہو چکی ہے۔

جمعہ، 9 اگست، 2019

لمبڑ سے نمبر ایک

پانچ اگست 2019 کو بھارت کے صدر نے ایک فرمان کے ذریعے لداخ اور جمون و کشمیر کے جغرافیے کی ترتیب نو کی ہے۔
اس فرمان کے جاری ہونے سے پہلے کشمیرمیں سیکورٹی فورسز کی تعداد اس حد تک بڑہائی جا چکی تھی کہ ہر گھر کے باہر آٹھ سے دس فوجی یا پولیس والے موجود تھے۔ محلوں کا آپس میں رابطہ کاٹنے کے لیے کانٹے دار تار بچھ چکے تھے۔ تعلیمی ادارے اور بازار بند ہوچکے تھے۔کشمیریوں کو قتل اور زخمی کرنے کا کام شروع ہو چکا تھا۔لینڈ لائن اور سیل فون کام چھوڑ چکے تھے۔ انٹر نیٹ معطل ہو چکا تھا۔ لوگوں کے پاس نقدی ختم ہو چکی ہے۔ اے ٹی ایم خالی پڑے ہیں۔ ہوائی سفر کے لیے کارڈ قبول نہیں کیے جا رہے۔ کرفیو نافذ کر کے عملی طور پر کشمیریوں کو اپنے ہی گھروں میں قید کر دیا گیاالبتہ دودھ، دہی، سبزیوں اور کھانے پینے کی اشیاء نایاب ہو چکی ہیں۔اس کا سبب آرتیکل 370 اور اے 35 بتائے جاتے ہیں۔
بھارت کے ان اقدامات پر اگر دنیا خاموش ہے تو یقینااس کے اسباب بھی ہیں۔ بھارت اور پاکستان میں عوام کا مسٗلہ یہ ہے کہ حکمرانوں کی نظر میں عوام جاہل ہے اس لیے وہ سچ جاننے کا حق نہیں رکھتے اس کا منطقی نتیجہ یہ ہے کہ حکمران غلط بیانی کرتے ہیں۔ مگر بعض حکومتی اقدامات عوام کو ان ہونی پر یقین کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔جیسے بھارت اور پاکستان میں کشمیریوں کے حق میں اٹھنے والی ہر آواز کو پابند سلاسل کیا جا رہا ہے۔ کوئی تہاڑ میں بیمار پڑا ہے تو کوئی کوٹ لکھپت میں۔ مقبوضہ کشمیر میں کرفیو نافذ ہے اور ٓزاد کشمیر میں اجتماع کرنے والوں کو بھی گرفتار کر لیا گیا ہے۔اسلام کا نام لینے والوں پر وہاں بھی زمین تنگ ہے تو یہاں بھی حافظ سعید کے بعد توپوں کا رخ طاہر اشرفی کی طرف پھر چکا ہے۔
 پچھلے تین ماہ کے حالات اور واقعات تینوں کو ایک پیچ پر بتاتے ہیں۔ امریکہ درمیان میں بیٹھتا ہے۔ جاپان میں مودی کو بائیں طرف بٹھاتا ہے تو واشنگٹن میں کپتان کو دائیں ہاتھ رکھتاہے۔
بھارتی اعلان کے بعد پاکستان کی جان کو آئےایف ٹی ایف ٹی کے رویے میں نرمی آ چکی ہے ۔ایشیائی بنک نے پاکستان کو 500 ملین ڈالر جاری کر دیے ہیں حالانکہ دو سال ہونے کو ہیں کہ پاکستان کے لیے بجٹ سپورٹ فنڈ بند تھا۔امریکہ نے پاکستانی سفارت کاروں کے نقل و حرکت پر عائد پابندیاں اٹھا لی ہیں۔کہا جاتا ہے  سی پیک کے پہیے کو پنکچر کر کے ٹائر واپس چین بجھوا دیا گیا ہے البتہ جو کچھ پاکستان میں رہ گیا ہے زنگ کی نظر ہو گا۔ اورنج ٹرین واٹر پروف نہیں ہے۔ پیسہ مگر ان غریبوں کاہے جو18 فیصد جی ایس ٹی ادا کر کے بھی تیکس نا دہندہ ٹھہرائے گئے ہیں۔ عوام سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ کر خود پر ماتم نہ کریں تو کیا کریں۔
 مودی کے الیکشن جیتنے کے بعدان اقدامات کے برپا کر دیے جانے کی بازگشت بھارتی، پاکستانی اور انٹرنیشنل میڈیا میں سنائی دیتی رہی۔مگر منتقم مزاج دانش کو معلوم ہی نہ ہوا اور سیلاب ان پلوں کو بہا کر لے گیا جوسات دہائیوں سے سیلابوں کا راہ روکے ہوئے تھا۔
پاکستان کے اندر اسلام کے نام پر کام کرنے والی 79تنظیموں پر کو یا تو خلاف قانوں قرار دیا جا چکا ہے یا ان کو مانیٹر کیا جا رہا ہے۔آشا کے نام پر کشمیر میں عائشہ کا دوپٹہ بھارتی فوجیوں کے قدموں میں گر چکا ہے۔بھارت آئینی طور پر ایک سیکولر ملک ہو کر ہندو توا کو آگے بڑہا رہا ہے اور پاکستان اسلامی جمہوری ہو کر بھی مذہبی لوگوں کے خیالات اور اعمال پر شرمندہ ہے۔ 
قومی اسمبلی میں سوال اٹھا یا جاتاہے کہ ہر دس سال بعد ہم فسطائیت کی طرف کیوں لوٹ آتے ہیں۔ لوگوں کو گلہ ہے کہ  ادارے اپنا اپنا کام نہیں کر رہے ۔کرپشن کی حالت یہ ہے کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت میں چیف جسٹس کے سامنے ایک شہری ان پر رشوت لینے کا الزام لگاتا ہے مگر شنوائی نہیں ہوتی۔ہمیں فیصلہ کرنا ہو گا کون سا مطالبہ دین کا کافر یاملک کا غدار بناتا ہے۔
ہمارے سامنے عدالت کی مثالیں ہیں ساٹھ کی دہائی میں غلط طور پر سنائی گئی پھانسی کی سزاوں پر عمل درامد نہ ہو سکا۔بھارت کا ایجنٹ اور غدار ہونے کا بیانیہ اسی کی دہائی میں پٹ چکا ہے۔ ایک دوسرے کو کافر کہنے اور کلاشنکوف کی گولی مار کر گرانے کے تجربات بھی بہتری نہ لا سکے۔ موجودہ دور میں جھوٹ اور غلط پروپیگنڈے کے غبارے سے بھی ہوا نکل چکی ہے۔
سب سے بڑا سچ اداروں کا ایک پیچ پر ہونا ہے مگر اس پیج کی ہر سطر کی داستان البتہ لرزہ خیز ہے۔
ہمارے سامنے پاکستان ٹوٹا۔ ہم نے سبق حاصل نہ کیا۔ ہمارے سامنے سویت یونین کا شیرازہ بکھرا مگر ہم اپنے ہی بیانئے کے اسیر رہے۔ ایک بیانیہ امریکہ کا ہے جو چاہے تو دس دن میں ایک کروڑ افراد کو ہلاک کر کے دنیا میں فتح کا جشن منا سکتا ہے۔ ایک بیانیہ بھارت کا ہے کہ بابر اور شیر شاہ سوری کی حکمرانی کا بدلہ کشمیریوں کو نہتاکر کے اور ان کو خون میں نہلا کر لینا ہے۔ البتہ ہم نے پچھلی تین دہائیوں سے ایک ہمسائے کے بیانئے کو قریب سے دیکھا اور بھگتا بھی ہے۔ افغانیوں کا یہ بیانیہ دعوت فکر دیتا ہے۔اس بیانئے نے روس کا شیرازہ بکھیرا، امریکہ اپنے دعووں کے برعکس نا مراد لوٹنے کا ارادہ باندھ رہا ہے۔ راز یہ کھلا کہ ان کے حوصلے اور ہمت نے انھیں  لمبڑ سے نمبر ایک   بنا دیا۔



جمعہ، 2 اگست، 2019

امید کی نوید

متحدہ ہندوستان کے شہر پٹنہ  کے قریب ایک گاوں میں پیش آنے والا واقعہ ہے۔  فرید خان نامی ایک شخص نے شیر شاہ سوری   (1486۔ 1545)  کی تعمیر کردہ جرنیلی سڑک کے کنارے ایک درخت کو کلہاڑے سے کاٹنا شروع کیا۔ گاوں کے ایک فرد نے اسے سرکاری درخت کاٹنے سے منع کیا مگر فرید خان نے سنی ان سنی کردی اور اپنا کام جاری رکھا۔ دیہاتی گاوں سے کچھ اور لوگوں کو بلا لایا جنھوں نے اس اجنبی کو سرکاری درخت نہ کاٹنے کی تلقین کی۔ اجنبی نے ان کی بات بھی نہ مانی تو یہ لوگ گاوں کے مکھیا کو بلا لائے۔ مکھیا نے آتے ہی گرجدار لہجے میں کہا میں اس گاوں کا مکھیا ہوں یہ سرکاری درخت تم نہیں کاٹ سکتے۔ فرید خان نے کلہاڑا پھینک دیا۔ چہرے پر پڑا نقاب اتار دیا۔ ایک فوجی دستہ بھی سامنے گیا۔ گاوں والوں پر منکشف ہوا کہ درخت پر کلہاڑا چلانے والا فرید خان المعروف شیر شاہ سوری ہے۔ علاقے بھر کی انتطامیہ بھی دوڑی آئی۔ شیر شاہ سوری نے کہا ایک درخت کاٹنے پر تم سب لوگ دوڑے آئے ہومگر یہاں ایک مسافر قتل ہوا تھا۔ ایک مہینہ ہونے کو ہے اور تمھارے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔ سورج کے غروب ہونے سے پہلے مجرم زنجیروں میں جکڑا ہوا بادشاہ کے قدموں میں پڑا تھا۔یہ واقعہ اسلام آباد میں واقع ایوان بالا میں چیرمین سینٹ کے انتخاب کو دیکھتے ہوئے یاداشت میں تازہ ہوا ہے۔
انسان کے کندہوں پر سوار کرامالکاتبین کے اعمال لکھنے کا سلیقہ یہ ہے کہ گناہ کو ایک جب کہ نیکی کو دس سے ضرب دے کر لکھتے ہیں۔لیکن دنیاوی اداروں کی بنائی ہوئی فائلوں میں انسانوں کی بد اعمالیوں کو قیافے سے درج کیا جاتا ہے اور نیکیوں سے در گذر کیا جاتا ہے۔ بلکہ قیافہ گروں کو موقع دیا جاتا ہے کہ وہ گناہگاروں کو وقت پڑہنے پر اپنا اعمال نامہ پڑہا بھی دیتے ہیں۔ 
 قران پاک میں درج نبی اللہ حضرت یونس کی دعا سے ماخوذ ہے کہ کامل اور سبحان صرف ذات باری تعالیٰ ہے۔ انسان بہرحال خطا کا پتلا ہے۔ کچھ خطائیں ایسی بھی ہوتی ہیں کہ ان کی پردہ پوشی قائم رکھنے کے لیے بدنامی اور تاریک مستقبل کی سرنگ اور مال و زر میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوتا ہے۔حکمرانی بڑی ظالم شے ہوتی ہے۔ تخت اور تختہ منتخب کرنے کا چوائس مہیا کرتی ہے۔انسانی تاریخ میں ایسے لوگ بھی ہوئے ہیں جنھوں نے پھانسی کا پھندا اپنے ہاتھ سے اپنے گلے میں پہنا ہے۔ ایسے انسان لوگوں کے ہیروز ہوتے ہیں۔ معاشروں میں ایسے ہیروزبھی پائے جاتے ہیں جو مشکل وقت پڑنے پر زیرو بن جایا کرتے ہیں۔یکم اگست والے دن ایوان بالا میں اپوزیشن رہنما راجہ ظفرالحق نے سینٹ کے چیرمین کے خلاف تحریک عدم اعتماد پڑھ کر سنائی تو پی پی پی اور نون لیگ سمیت حزب اختلاف کی جماعتوں کے 64 ممبران نے کھڑے ہو کر اور کندہے سے کندہا ملا کر اس کی تائید کی۔پھر خفیہ رائے شماری میں اپوزیشن کو پچاس ووٹ ملے۔ 14  ووٹ یا تو حکومتی امیدوار کو ملے یا جان بوجھ کر ضائع کر دیے گئے۔ جرنیلی سڑک کے کنارے لگے 14 درخت نامعلوم طاقتوں نے کاٹ ڈالے۔ نہ شیر شاہ سوری موجود ہے جو ان کٹے درختوں کا حساب لے نہ اداروں ہی کو کوئی زحمت کرنے کی فکر ہے۔ عوام البتہ حیران ہے کہ ان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ ہر تصویر کے دو رخ ہوتے ہیں۔گو یہ تصویر جاذب نظر نہیں ہے مگر اس تصویر کا دوسرا رخ بڑا امید افزاء ہے۔خاص طور پر پاکستان میں بسنے والے جمہویت پسندوں کے لیے یہ واقعہ امید کی نوید ثابت ہوا ہے۔پاکستان،  جہاں بہت سے کام پہلی بار ہو رہے ہیں، یہ ادراک بھی پہلی بار ہو رہا ہے کہ پاکستان میں جمہوری پودا اس قدر مضبوط ہو چکا ہے کہ کسی کو اعلانیہ اس پر کلہاڑا چلانے کی جراٗت نہیں ہو رہی۔ سینٹ کے ہال میں، گیارہ سالوں کی ٹوٹی پھوٹی، نحیف و لنگڑاتی جمہوریت نے اپنے آپ کو یوں منوایا ہے کہ چودہ منحرفین خود کو اس قدر مجبور پاتے ہیں کہ کھڑے ہونے والوں کے کندہے کے ساتھ کندہا ملانے پر مجبور ہیں۔ درحقیقت یہ منحرفین ہیں ہی نہیں، انھوں نے تو اپنے بے وضو اماموں کی اقتداء میں تکبیر تحریمہ کے لیے اپنے ہاتھ کانوں تک اٹھا لیے ہیں۔ ان کی نماز کے کامل نہ ہونے کے فتوئے مسجد کے باہر کھڑے لوگ لگا رہے ہیں۔ امام کی مسکراہٹ کا قاتل پن بتا رہا ہے کہ منافقت کے حمام میں کپڑوں سمیت گھس آنے کا اشارہ حمام کے اندر سے ملا ہے، اس حقیقت سے مفر ممکن نہیں کہ دولت انسان کو مصلحت کیش بنا دیتی ہے۔ اور پاکستان میں سیاست کے رقص سے فیض یاب ہونے کے لیے    مینوں دہرتی قلعی کرا دے    والی ضرورت پورا کرنا ہوتی ہے۔بے سلوٹ اجلے جامے، چون ہزار کے جوتے، بیٹھنے کے لیے کھلے ڈلے ڈیرے، ڈیروں میں ہمہ وقت روشن چولہے، مہمان نوازیاں، سفر کے لیے بلٹ پروف گاڑیاں، مہلک اسلحہ بردار محافظ، محلے اور گاوں کے معاملات کا مالی تحفظ، ان سب سے بڑھ کر ٹکٹ کے حصول کے لیے چندے، پھر جلسوں اور جلوسوں پر اٹھنے والے اخراجات کے سامنے دو ہندسوں میں ناپ لیے جانے والے کروڑوں کی اہمیت ہی کیاہے۔ جب یہ بھی معلوم ہو کہ زر کی تھیلی اٹھانے سے انکار کی صورت میں ناگ کاٹ کھائے گا۔ایسے میں کوئی دیوانہ ہی ہیرو بننے کی کوشش کرے گا۔
 اس بھدی تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے صرف 11 سال کے جمہوری دور کے بعد ہی ممکن ہوا ہے کہ اعلانیہ مارشل لاء نہیں لگایا جا سکا۔ جمہوری عمل کے دشمن یہ چودہ لوگ بھی، ووٹنگ کے بعد ہونے والے حزب اختلاف کے اجلاس میں موجود تھے یعنی ان تاریک ستاروں کی قسمت میں روشن ہونا نہیں ہے۔
صرف گیارہ سالوں میں عوام کو جمہوریت کا یہ پودا کچھ نہ کچھ پھل دینے لگا ہے۔

ہفتہ، 20 جولائی، 2019

پٹکے


پاکستان کا نظام عدل اور تفتیش کا انتظام برطانیہ کا بنایا ہوا ہے۔ برطانیہ کے تفتیشی ادارے اپنی مستعدی کی شہرت کے باوجود بعض مقدمات میں پھنس جایا کرتے تھے اور تفتیش آگے نہیں بڑھ پاتی تھی۔ اٹھارویں صدی میں لندن کی پولیس نے جرائم میں ملوث گروہوں کی سر کوبی کے لیے ادارے سے باہر کے لوگوں کو مجرموں گروہوں میں شامل کرنا شروع کیا۔ یہ لوگ گینگ میں شامل ہو کر جرم کرتے اور ساتھ ساتھ مخبری کا فریضہ بھی سرانجام دیتے۔ جب مجرم گینگ پکڑا جاتا تھا یہ مخبر بھی گرفتار شدگان میں شامل ہوتے۔انھیں عدالت میں پیش کیا جاتا۔ پولیس عدالت کے سامنے مخبر سے کیا گیا معافی کا وعدہ رکھتی اور عدالت مخبر کو رہا کر دیتی۔ اس بندوبست کا بانی لندن کا ایک قانون دان اور جج فیرنی چارلس (متوفی ۴۹۷۱)  تھا۔ لندن میں اس بندوبست کی کامیابی کے بعد اس بندوبست کو انڈیا میں بھی رائج کیا گیا۔ مگر یہاں اس بندوبست میں وہ شفافیت نہیں رہی جو لندن میں تھی۔ 
پاکستان میں فوجداری مقدمات میں یہ بندوبست اب بھی موجود ہے البتہ سیاسی مقدمات میں اس کا استعمال  ۷۷۹۱ میں جنرل ضیاء االحق کے دور میں کامیابی سے ہوا۔ اس دور میں میں فیڈرل سیکورٹی فورس کے دو افسران اور ایک سپاہی وعدہ معاف گواہ بنے۔ ان کی گواہی پر پاکستان کے سابقہ وزیر اعظم ذولفقار علی بھٹو کو نواب محمد احمد خان کے قتل کے مقدمے میں پھانسی کی سزا ہوئی۔
اس کے بعد جو بھی سیاسی کیس بنا اس میں عام طور پر وعدہ معاف گواہوں کے بیانات پر انحصار کیا جاتا ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ وعدہ معاف گواہ عدالت میں اپنے گناہ کا اعتراف کرتا ہے۔اور اس مجرم کی نشان دہی کرتا ہے جس کے ایماء پر اس نے جرم کیا ہوتا ہے۔ مقدمے کے اختتام پر تفتیشی ادارہ عدالت سے اس کی معافی کی درخواست کرتا ہے۔ یہ اختیار عدالت کا ہوتا ہے کہ وہ وعدہ معاف گواہ کر بری کر دے یا اسے سزا دے۔ 
ایم کیو ایم کے رہنماء الطاف حسین پر مقدمات بننا شروع ہوئے تو صولت مرزا کا نام بطور وعدہ معاف گواہ سامنے آیا۔صولت مرزا کو گو پھانسی دے دے گئی مگر اس کی وجوہات سیاسی تھیں۔
پاکستان میں سابقہ صدر آصف زرداری کے خلاف مقدمات کا سلسلہ شروع ہوا تو ان کی بنیاد وعدہ معاف گواہوں کے بیانات پر رکھی گئی۔ لیاری گینگ کے مشہور کیس میں زرداری صاحب کے خلاف مقدمات ایک وعدہ معاف گواہ عزیر بلوچ کے بیانات پر رکھی گی۔جج ارشد ملک کی عدالت میں زرداری صاحب اور محترمہ فریال تالپور کے خلاف چلنے میں مقدمے میں شیر محمد کا نام بطور وعدہ معاف گاہ سامنے آیا۔ 
سابق وایر اعظم راجہ پرویز اشرف کے خلاف رینٹل پاور مقدمے میں شائد رفیع صاحب وعدہ معاف گاہ بنے۔
راجہ پرویز مشرف کے خلاف ایک وعدہ معاف گواہ رانا محمد امجد ہیں۔
اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی کے مقدمے کے وعدہ معاف گواہ گلزار احمد ہیں جو امریکہ میں مقیم ہیں 
جنرل مشرف کے دور میں اسحاق ڈار کو وعدہ معاف گواہ بنا کر نواز شریف کو سزا دی گئی تھی۔
مشرف ہی کے دور میں نواز شریف پر طیارہ اغوا کا کیس بنا تھا اس میں وعدہ معاف گواہ امین اللہ چوہدری بنے۔
موجودہ دور چوروں اور ڈاکووں کے خلاف، سابقہ چیف جسٹس ثاقب نثار کی عدالت سے صادق اور امین کی سند پانے والوں کا ہے۔ مگر تمام مقدمات کے ساتھ کوئی نہ کوئی وعدہ معاف گواہ جڑا ہوا ہے مثال کے طور پر سابقہ وزیر ریلوے 
خواجہ رفیق کے خلاف کرپشن کے مقدمے میں قیصر امیں بٹ، سلیمان شہباز کے خلاف مقدمے میں مشتاق چینی،شہباز شریف کے خلاف مقدمات میں فواد حسن فواد اور احد چیمہ، سابقہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے مقدمے میں عابد سعید وعدہ معاف گواہ ہیں۔ 
پاکستان میں جتنے بھی سی ایس پی افسر وعدہ معاف گواہ بنتے ہیں وہ اپنے اعترافی بیان کے چند دنوں بعد ہی رہا ہو کر گھر واپس آجاتے ہیں۔ البتہ شہبازشریف کے خلاف مقدمات سے جڑے ایسے گواہوں کو رہا نہ کرنے کی وجوہات قانونی نہیں بلکہ سیاسی اور معاشرتی ہیں۔
ٹی ٹی پی کے سابقہ ترجمان لیاقت علی عرف احسان اللہ احسان کو بھی وعدہ معاف گواہ کہا جا سکتا ہے۔
پاکستان میں کم از کم دو نام ایسے ہیں جنھوں نے نیب کی کوششوں کے باوجود وعدہ معاف گواہ کا پٹکا اپنے گلے میں ڈالنے سے انکار کیا ہے ایک نام کیپٹن محمد صفدر اعوان کا ہے جنھوں نے نواز شریف کے پناما کیس میں اور دوسرا نام عبدالجبار قدوائی کا ہے جنھوں نے آصف زرداری کے خلاف بے نامی مقدمات میں وعدہ معاف گاہ بننے سے انکار کیا۔
وعدہ معاف گواہوں کے بارے میں پاکستان کے ماہر قانون سابقہ جسٹس ناصر الملک صاحب نے ایک مقدمے کے فیصلے میں لکھا تھا کہ ایسے گواہوں کے بیان پر انحصارکر کے کسی کو سزا نہیں دی جا سکتی۔