جمعہ، 9 اگست، 2019

لمبڑ سے نمبر ایک

پانچ اگست 2019 کو بھارت کے صدر نے ایک فرمان کے ذریعے لداخ اور جمون و کشمیر کے جغرافیے کی ترتیب نو کی ہے۔
اس فرمان کے جاری ہونے سے پہلے کشمیرمیں سیکورٹی فورسز کی تعداد اس حد تک بڑہائی جا چکی تھی کہ ہر گھر کے باہر آٹھ سے دس فوجی یا پولیس والے موجود تھے۔ محلوں کا آپس میں رابطہ کاٹنے کے لیے کانٹے دار تار بچھ چکے تھے۔ تعلیمی ادارے اور بازار بند ہوچکے تھے۔کشمیریوں کو قتل اور زخمی کرنے کا کام شروع ہو چکا تھا۔لینڈ لائن اور سیل فون کام چھوڑ چکے تھے۔ انٹر نیٹ معطل ہو چکا تھا۔ لوگوں کے پاس نقدی ختم ہو چکی ہے۔ اے ٹی ایم خالی پڑے ہیں۔ ہوائی سفر کے لیے کارڈ قبول نہیں کیے جا رہے۔ کرفیو نافذ کر کے عملی طور پر کشمیریوں کو اپنے ہی گھروں میں قید کر دیا گیاالبتہ دودھ، دہی، سبزیوں اور کھانے پینے کی اشیاء نایاب ہو چکی ہیں۔اس کا سبب آرتیکل 370 اور اے 35 بتائے جاتے ہیں۔
بھارت کے ان اقدامات پر اگر دنیا خاموش ہے تو یقینااس کے اسباب بھی ہیں۔ بھارت اور پاکستان میں عوام کا مسٗلہ یہ ہے کہ حکمرانوں کی نظر میں عوام جاہل ہے اس لیے وہ سچ جاننے کا حق نہیں رکھتے اس کا منطقی نتیجہ یہ ہے کہ حکمران غلط بیانی کرتے ہیں۔ مگر بعض حکومتی اقدامات عوام کو ان ہونی پر یقین کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔جیسے بھارت اور پاکستان میں کشمیریوں کے حق میں اٹھنے والی ہر آواز کو پابند سلاسل کیا جا رہا ہے۔ کوئی تہاڑ میں بیمار پڑا ہے تو کوئی کوٹ لکھپت میں۔ مقبوضہ کشمیر میں کرفیو نافذ ہے اور ٓزاد کشمیر میں اجتماع کرنے والوں کو بھی گرفتار کر لیا گیا ہے۔اسلام کا نام لینے والوں پر وہاں بھی زمین تنگ ہے تو یہاں بھی حافظ سعید کے بعد توپوں کا رخ طاہر اشرفی کی طرف پھر چکا ہے۔
 پچھلے تین ماہ کے حالات اور واقعات تینوں کو ایک پیچ پر بتاتے ہیں۔ امریکہ درمیان میں بیٹھتا ہے۔ جاپان میں مودی کو بائیں طرف بٹھاتا ہے تو واشنگٹن میں کپتان کو دائیں ہاتھ رکھتاہے۔
بھارتی اعلان کے بعد پاکستان کی جان کو آئےایف ٹی ایف ٹی کے رویے میں نرمی آ چکی ہے ۔ایشیائی بنک نے پاکستان کو 500 ملین ڈالر جاری کر دیے ہیں حالانکہ دو سال ہونے کو ہیں کہ پاکستان کے لیے بجٹ سپورٹ فنڈ بند تھا۔امریکہ نے پاکستانی سفارت کاروں کے نقل و حرکت پر عائد پابندیاں اٹھا لی ہیں۔کہا جاتا ہے  سی پیک کے پہیے کو پنکچر کر کے ٹائر واپس چین بجھوا دیا گیا ہے البتہ جو کچھ پاکستان میں رہ گیا ہے زنگ کی نظر ہو گا۔ اورنج ٹرین واٹر پروف نہیں ہے۔ پیسہ مگر ان غریبوں کاہے جو18 فیصد جی ایس ٹی ادا کر کے بھی تیکس نا دہندہ ٹھہرائے گئے ہیں۔ عوام سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ کر خود پر ماتم نہ کریں تو کیا کریں۔
 مودی کے الیکشن جیتنے کے بعدان اقدامات کے برپا کر دیے جانے کی بازگشت بھارتی، پاکستانی اور انٹرنیشنل میڈیا میں سنائی دیتی رہی۔مگر منتقم مزاج دانش کو معلوم ہی نہ ہوا اور سیلاب ان پلوں کو بہا کر لے گیا جوسات دہائیوں سے سیلابوں کا راہ روکے ہوئے تھا۔
پاکستان کے اندر اسلام کے نام پر کام کرنے والی 79تنظیموں پر کو یا تو خلاف قانوں قرار دیا جا چکا ہے یا ان کو مانیٹر کیا جا رہا ہے۔آشا کے نام پر کشمیر میں عائشہ کا دوپٹہ بھارتی فوجیوں کے قدموں میں گر چکا ہے۔بھارت آئینی طور پر ایک سیکولر ملک ہو کر ہندو توا کو آگے بڑہا رہا ہے اور پاکستان اسلامی جمہوری ہو کر بھی مذہبی لوگوں کے خیالات اور اعمال پر شرمندہ ہے۔ 
قومی اسمبلی میں سوال اٹھا یا جاتاہے کہ ہر دس سال بعد ہم فسطائیت کی طرف کیوں لوٹ آتے ہیں۔ لوگوں کو گلہ ہے کہ  ادارے اپنا اپنا کام نہیں کر رہے ۔کرپشن کی حالت یہ ہے کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت میں چیف جسٹس کے سامنے ایک شہری ان پر رشوت لینے کا الزام لگاتا ہے مگر شنوائی نہیں ہوتی۔ہمیں فیصلہ کرنا ہو گا کون سا مطالبہ دین کا کافر یاملک کا غدار بناتا ہے۔
ہمارے سامنے عدالت کی مثالیں ہیں ساٹھ کی دہائی میں غلط طور پر سنائی گئی پھانسی کی سزاوں پر عمل درامد نہ ہو سکا۔بھارت کا ایجنٹ اور غدار ہونے کا بیانیہ اسی کی دہائی میں پٹ چکا ہے۔ ایک دوسرے کو کافر کہنے اور کلاشنکوف کی گولی مار کر گرانے کے تجربات بھی بہتری نہ لا سکے۔ موجودہ دور میں جھوٹ اور غلط پروپیگنڈے کے غبارے سے بھی ہوا نکل چکی ہے۔
سب سے بڑا سچ اداروں کا ایک پیچ پر ہونا ہے مگر اس پیج کی ہر سطر کی داستان البتہ لرزہ خیز ہے۔
ہمارے سامنے پاکستان ٹوٹا۔ ہم نے سبق حاصل نہ کیا۔ ہمارے سامنے سویت یونین کا شیرازہ بکھرا مگر ہم اپنے ہی بیانئے کے اسیر رہے۔ ایک بیانیہ امریکہ کا ہے جو چاہے تو دس دن میں ایک کروڑ افراد کو ہلاک کر کے دنیا میں فتح کا جشن منا سکتا ہے۔ ایک بیانیہ بھارت کا ہے کہ بابر اور شیر شاہ سوری کی حکمرانی کا بدلہ کشمیریوں کو نہتاکر کے اور ان کو خون میں نہلا کر لینا ہے۔ البتہ ہم نے پچھلی تین دہائیوں سے ایک ہمسائے کے بیانئے کو قریب سے دیکھا اور بھگتا بھی ہے۔ افغانیوں کا یہ بیانیہ دعوت فکر دیتا ہے۔اس بیانئے نے روس کا شیرازہ بکھیرا، امریکہ اپنے دعووں کے برعکس نا مراد لوٹنے کا ارادہ باندھ رہا ہے۔ راز یہ کھلا کہ ان کے حوصلے اور ہمت نے انھیں  لمبڑ سے نمبر ایک   بنا دیا۔



جمعہ، 2 اگست، 2019

امید کی نوید

متحدہ ہندوستان کے شہر پٹنہ  کے قریب ایک گاوں میں پیش آنے والا واقعہ ہے۔  فرید خان نامی ایک شخص نے شیر شاہ سوری   (1486۔ 1545)  کی تعمیر کردہ جرنیلی سڑک کے کنارے ایک درخت کو کلہاڑے سے کاٹنا شروع کیا۔ گاوں کے ایک فرد نے اسے سرکاری درخت کاٹنے سے منع کیا مگر فرید خان نے سنی ان سنی کردی اور اپنا کام جاری رکھا۔ دیہاتی گاوں سے کچھ اور لوگوں کو بلا لایا جنھوں نے اس اجنبی کو سرکاری درخت نہ کاٹنے کی تلقین کی۔ اجنبی نے ان کی بات بھی نہ مانی تو یہ لوگ گاوں کے مکھیا کو بلا لائے۔ مکھیا نے آتے ہی گرجدار لہجے میں کہا میں اس گاوں کا مکھیا ہوں یہ سرکاری درخت تم نہیں کاٹ سکتے۔ فرید خان نے کلہاڑا پھینک دیا۔ چہرے پر پڑا نقاب اتار دیا۔ ایک فوجی دستہ بھی سامنے گیا۔ گاوں والوں پر منکشف ہوا کہ درخت پر کلہاڑا چلانے والا فرید خان المعروف شیر شاہ سوری ہے۔ علاقے بھر کی انتطامیہ بھی دوڑی آئی۔ شیر شاہ سوری نے کہا ایک درخت کاٹنے پر تم سب لوگ دوڑے آئے ہومگر یہاں ایک مسافر قتل ہوا تھا۔ ایک مہینہ ہونے کو ہے اور تمھارے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔ سورج کے غروب ہونے سے پہلے مجرم زنجیروں میں جکڑا ہوا بادشاہ کے قدموں میں پڑا تھا۔یہ واقعہ اسلام آباد میں واقع ایوان بالا میں چیرمین سینٹ کے انتخاب کو دیکھتے ہوئے یاداشت میں تازہ ہوا ہے۔
انسان کے کندہوں پر سوار کرامالکاتبین کے اعمال لکھنے کا سلیقہ یہ ہے کہ گناہ کو ایک جب کہ نیکی کو دس سے ضرب دے کر لکھتے ہیں۔لیکن دنیاوی اداروں کی بنائی ہوئی فائلوں میں انسانوں کی بد اعمالیوں کو قیافے سے درج کیا جاتا ہے اور نیکیوں سے در گذر کیا جاتا ہے۔ بلکہ قیافہ گروں کو موقع دیا جاتا ہے کہ وہ گناہگاروں کو وقت پڑہنے پر اپنا اعمال نامہ پڑہا بھی دیتے ہیں۔ 
 قران پاک میں درج نبی اللہ حضرت یونس کی دعا سے ماخوذ ہے کہ کامل اور سبحان صرف ذات باری تعالیٰ ہے۔ انسان بہرحال خطا کا پتلا ہے۔ کچھ خطائیں ایسی بھی ہوتی ہیں کہ ان کی پردہ پوشی قائم رکھنے کے لیے بدنامی اور تاریک مستقبل کی سرنگ اور مال و زر میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوتا ہے۔حکمرانی بڑی ظالم شے ہوتی ہے۔ تخت اور تختہ منتخب کرنے کا چوائس مہیا کرتی ہے۔انسانی تاریخ میں ایسے لوگ بھی ہوئے ہیں جنھوں نے پھانسی کا پھندا اپنے ہاتھ سے اپنے گلے میں پہنا ہے۔ ایسے انسان لوگوں کے ہیروز ہوتے ہیں۔ معاشروں میں ایسے ہیروزبھی پائے جاتے ہیں جو مشکل وقت پڑنے پر زیرو بن جایا کرتے ہیں۔یکم اگست والے دن ایوان بالا میں اپوزیشن رہنما راجہ ظفرالحق نے سینٹ کے چیرمین کے خلاف تحریک عدم اعتماد پڑھ کر سنائی تو پی پی پی اور نون لیگ سمیت حزب اختلاف کی جماعتوں کے 64 ممبران نے کھڑے ہو کر اور کندہے سے کندہا ملا کر اس کی تائید کی۔پھر خفیہ رائے شماری میں اپوزیشن کو پچاس ووٹ ملے۔ 14  ووٹ یا تو حکومتی امیدوار کو ملے یا جان بوجھ کر ضائع کر دیے گئے۔ جرنیلی سڑک کے کنارے لگے 14 درخت نامعلوم طاقتوں نے کاٹ ڈالے۔ نہ شیر شاہ سوری موجود ہے جو ان کٹے درختوں کا حساب لے نہ اداروں ہی کو کوئی زحمت کرنے کی فکر ہے۔ عوام البتہ حیران ہے کہ ان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ ہر تصویر کے دو رخ ہوتے ہیں۔گو یہ تصویر جاذب نظر نہیں ہے مگر اس تصویر کا دوسرا رخ بڑا امید افزاء ہے۔خاص طور پر پاکستان میں بسنے والے جمہویت پسندوں کے لیے یہ واقعہ امید کی نوید ثابت ہوا ہے۔پاکستان،  جہاں بہت سے کام پہلی بار ہو رہے ہیں، یہ ادراک بھی پہلی بار ہو رہا ہے کہ پاکستان میں جمہوری پودا اس قدر مضبوط ہو چکا ہے کہ کسی کو اعلانیہ اس پر کلہاڑا چلانے کی جراٗت نہیں ہو رہی۔ سینٹ کے ہال میں، گیارہ سالوں کی ٹوٹی پھوٹی، نحیف و لنگڑاتی جمہوریت نے اپنے آپ کو یوں منوایا ہے کہ چودہ منحرفین خود کو اس قدر مجبور پاتے ہیں کہ کھڑے ہونے والوں کے کندہے کے ساتھ کندہا ملانے پر مجبور ہیں۔ درحقیقت یہ منحرفین ہیں ہی نہیں، انھوں نے تو اپنے بے وضو اماموں کی اقتداء میں تکبیر تحریمہ کے لیے اپنے ہاتھ کانوں تک اٹھا لیے ہیں۔ ان کی نماز کے کامل نہ ہونے کے فتوئے مسجد کے باہر کھڑے لوگ لگا رہے ہیں۔ امام کی مسکراہٹ کا قاتل پن بتا رہا ہے کہ منافقت کے حمام میں کپڑوں سمیت گھس آنے کا اشارہ حمام کے اندر سے ملا ہے، اس حقیقت سے مفر ممکن نہیں کہ دولت انسان کو مصلحت کیش بنا دیتی ہے۔ اور پاکستان میں سیاست کے رقص سے فیض یاب ہونے کے لیے    مینوں دہرتی قلعی کرا دے    والی ضرورت پورا کرنا ہوتی ہے۔بے سلوٹ اجلے جامے، چون ہزار کے جوتے، بیٹھنے کے لیے کھلے ڈلے ڈیرے، ڈیروں میں ہمہ وقت روشن چولہے، مہمان نوازیاں، سفر کے لیے بلٹ پروف گاڑیاں، مہلک اسلحہ بردار محافظ، محلے اور گاوں کے معاملات کا مالی تحفظ، ان سب سے بڑھ کر ٹکٹ کے حصول کے لیے چندے، پھر جلسوں اور جلوسوں پر اٹھنے والے اخراجات کے سامنے دو ہندسوں میں ناپ لیے جانے والے کروڑوں کی اہمیت ہی کیاہے۔ جب یہ بھی معلوم ہو کہ زر کی تھیلی اٹھانے سے انکار کی صورت میں ناگ کاٹ کھائے گا۔ایسے میں کوئی دیوانہ ہی ہیرو بننے کی کوشش کرے گا۔
 اس بھدی تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے صرف 11 سال کے جمہوری دور کے بعد ہی ممکن ہوا ہے کہ اعلانیہ مارشل لاء نہیں لگایا جا سکا۔ جمہوری عمل کے دشمن یہ چودہ لوگ بھی، ووٹنگ کے بعد ہونے والے حزب اختلاف کے اجلاس میں موجود تھے یعنی ان تاریک ستاروں کی قسمت میں روشن ہونا نہیں ہے۔
صرف گیارہ سالوں میں عوام کو جمہوریت کا یہ پودا کچھ نہ کچھ پھل دینے لگا ہے۔

ہفتہ، 20 جولائی، 2019

پٹکے


پاکستان کا نظام عدل اور تفتیش کا انتظام برطانیہ کا بنایا ہوا ہے۔ برطانیہ کے تفتیشی ادارے اپنی مستعدی کی شہرت کے باوجود بعض مقدمات میں پھنس جایا کرتے تھے اور تفتیش آگے نہیں بڑھ پاتی تھی۔ اٹھارویں صدی میں لندن کی پولیس نے جرائم میں ملوث گروہوں کی سر کوبی کے لیے ادارے سے باہر کے لوگوں کو مجرموں گروہوں میں شامل کرنا شروع کیا۔ یہ لوگ گینگ میں شامل ہو کر جرم کرتے اور ساتھ ساتھ مخبری کا فریضہ بھی سرانجام دیتے۔ جب مجرم گینگ پکڑا جاتا تھا یہ مخبر بھی گرفتار شدگان میں شامل ہوتے۔انھیں عدالت میں پیش کیا جاتا۔ پولیس عدالت کے سامنے مخبر سے کیا گیا معافی کا وعدہ رکھتی اور عدالت مخبر کو رہا کر دیتی۔ اس بندوبست کا بانی لندن کا ایک قانون دان اور جج فیرنی چارلس (متوفی ۴۹۷۱)  تھا۔ لندن میں اس بندوبست کی کامیابی کے بعد اس بندوبست کو انڈیا میں بھی رائج کیا گیا۔ مگر یہاں اس بندوبست میں وہ شفافیت نہیں رہی جو لندن میں تھی۔ 
پاکستان میں فوجداری مقدمات میں یہ بندوبست اب بھی موجود ہے البتہ سیاسی مقدمات میں اس کا استعمال  ۷۷۹۱ میں جنرل ضیاء االحق کے دور میں کامیابی سے ہوا۔ اس دور میں میں فیڈرل سیکورٹی فورس کے دو افسران اور ایک سپاہی وعدہ معاف گواہ بنے۔ ان کی گواہی پر پاکستان کے سابقہ وزیر اعظم ذولفقار علی بھٹو کو نواب محمد احمد خان کے قتل کے مقدمے میں پھانسی کی سزا ہوئی۔
اس کے بعد جو بھی سیاسی کیس بنا اس میں عام طور پر وعدہ معاف گواہوں کے بیانات پر انحصار کیا جاتا ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ وعدہ معاف گواہ عدالت میں اپنے گناہ کا اعتراف کرتا ہے۔اور اس مجرم کی نشان دہی کرتا ہے جس کے ایماء پر اس نے جرم کیا ہوتا ہے۔ مقدمے کے اختتام پر تفتیشی ادارہ عدالت سے اس کی معافی کی درخواست کرتا ہے۔ یہ اختیار عدالت کا ہوتا ہے کہ وہ وعدہ معاف گواہ کر بری کر دے یا اسے سزا دے۔ 
ایم کیو ایم کے رہنماء الطاف حسین پر مقدمات بننا شروع ہوئے تو صولت مرزا کا نام بطور وعدہ معاف گواہ سامنے آیا۔صولت مرزا کو گو پھانسی دے دے گئی مگر اس کی وجوہات سیاسی تھیں۔
پاکستان میں سابقہ صدر آصف زرداری کے خلاف مقدمات کا سلسلہ شروع ہوا تو ان کی بنیاد وعدہ معاف گواہوں کے بیانات پر رکھی گئی۔ لیاری گینگ کے مشہور کیس میں زرداری صاحب کے خلاف مقدمات ایک وعدہ معاف گواہ عزیر بلوچ کے بیانات پر رکھی گی۔جج ارشد ملک کی عدالت میں زرداری صاحب اور محترمہ فریال تالپور کے خلاف چلنے میں مقدمے میں شیر محمد کا نام بطور وعدہ معاف گاہ سامنے آیا۔ 
سابق وایر اعظم راجہ پرویز اشرف کے خلاف رینٹل پاور مقدمے میں شائد رفیع صاحب وعدہ معاف گاہ بنے۔
راجہ پرویز مشرف کے خلاف ایک وعدہ معاف گواہ رانا محمد امجد ہیں۔
اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی کے مقدمے کے وعدہ معاف گواہ گلزار احمد ہیں جو امریکہ میں مقیم ہیں 
جنرل مشرف کے دور میں اسحاق ڈار کو وعدہ معاف گواہ بنا کر نواز شریف کو سزا دی گئی تھی۔
مشرف ہی کے دور میں نواز شریف پر طیارہ اغوا کا کیس بنا تھا اس میں وعدہ معاف گواہ امین اللہ چوہدری بنے۔
موجودہ دور چوروں اور ڈاکووں کے خلاف، سابقہ چیف جسٹس ثاقب نثار کی عدالت سے صادق اور امین کی سند پانے والوں کا ہے۔ مگر تمام مقدمات کے ساتھ کوئی نہ کوئی وعدہ معاف گواہ جڑا ہوا ہے مثال کے طور پر سابقہ وزیر ریلوے 
خواجہ رفیق کے خلاف کرپشن کے مقدمے میں قیصر امیں بٹ، سلیمان شہباز کے خلاف مقدمے میں مشتاق چینی،شہباز شریف کے خلاف مقدمات میں فواد حسن فواد اور احد چیمہ، سابقہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے مقدمے میں عابد سعید وعدہ معاف گواہ ہیں۔ 
پاکستان میں جتنے بھی سی ایس پی افسر وعدہ معاف گواہ بنتے ہیں وہ اپنے اعترافی بیان کے چند دنوں بعد ہی رہا ہو کر گھر واپس آجاتے ہیں۔ البتہ شہبازشریف کے خلاف مقدمات سے جڑے ایسے گواہوں کو رہا نہ کرنے کی وجوہات قانونی نہیں بلکہ سیاسی اور معاشرتی ہیں۔
ٹی ٹی پی کے سابقہ ترجمان لیاقت علی عرف احسان اللہ احسان کو بھی وعدہ معاف گواہ کہا جا سکتا ہے۔
پاکستان میں کم از کم دو نام ایسے ہیں جنھوں نے نیب کی کوششوں کے باوجود وعدہ معاف گواہ کا پٹکا اپنے گلے میں ڈالنے سے انکار کیا ہے ایک نام کیپٹن محمد صفدر اعوان کا ہے جنھوں نے نواز شریف کے پناما کیس میں اور دوسرا نام عبدالجبار قدوائی کا ہے جنھوں نے آصف زرداری کے خلاف بے نامی مقدمات میں وعدہ معاف گاہ بننے سے انکار کیا۔
وعدہ معاف گواہوں کے بارے میں پاکستان کے ماہر قانون سابقہ جسٹس ناصر الملک صاحب نے ایک مقدمے کے فیصلے میں لکھا تھا کہ ایسے گواہوں کے بیان پر انحصارکر کے کسی کو سزا نہیں دی جا سکتی۔


بدھ، 19 جون، 2019

سید قطب کے بعد محمد مرسی

بہار عرب کی انقلابی ہوائیں جب مصر میں داخل ہوئیں تو قاہرہ کے التحریر اسکواہر میں جمہوریت کے حامیوں کے سامنے حسنی مبارک کی آمریت نے دم توڑ دیا۔ فری ایڈ فیئر الیکشن کا ڈول ڈالا گیا۔ تو اخوان المسلمین  کے حمائت یافتہ محمد مرسی (1951 ۔  2019)  مصر کے پانچویں اور عوام کی ووٹوں سے منتخب ہونے والے پہلے جمہوری صدر بنے۔
محمدمرسی ایک سیاستدان، پروفیسراور انجینئر تھے۔ ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد وہ کیلیفورنیا اسٹیٹ یونیورسٹی میں بطور اسٹنٹ پروفیسر پڑہاتے رہے۔حافظ قرآن مرسی ابتداہ ہی سے اخوان کے ساتھ وابستہ تھے مگر امریکہ سے واپسی کے بعد انھوں نے فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی بنائی یاد رہے اخوان المسلمین کے سیاست میں حصہ لینے پر پابندی ہے۔ اس پارٹی نے مرسی کی قیادت میں مصری عوام کی 51.7 فیصد حمائت حاصل کر لی۔ مصری عوام کو پہلی بار اقتدار نصیب ہوا تھا۔ لہذا الیکشن مین کامیابی حاصل کرتے ہی امریکہ سے تعلیم یافتہ محمد مرسی نے اپنی پارٹی سے یہ کہہ کر استعفیٰ دے دیا کہ وہ اب اپنی پارٹی کے نہیں بلکہ پورے مصر کے صدر ہیں۔ اہل جمہور نے ایک عبوری آئین نافذ کیا اور اس آئین کے تحت جمہوری صدر کو لا محدود اختیارات حاصل ہو گئے جن میں ایسے ادارے بھی شامل تھے جن کی باگ 1952 سے فوجی جرنیلوں کے ہاتھوں میں تھی۔فوج مرسی کے ان اقدامات پر غیر مطمئن تھی۔ مرسی کے سیاسی مخالفین، جنھوں نے ووٹ مرسی کے خلاف دیا تھا۔ التحریر اسکوائر میں دھرنا دینے اکھٹے ہونا شروع ہوئے۔ مرسی کے حامی مزاحمتی دھرنے کے لیے التحریر اسکائر میں جمع ہوئے،  وہ ان اقدامات کی تحسین کر رہے تھے جو مرسی نے فوج کے اثر ورسوخ کو کم کرنے کے لیے کیے تھے۔ان اقدامات میں حسنی مبارک کے دور کے فوجی افسران کو ہٹا کر جونئیر افسران کی تعیناتی شامل تھی۔مرسی نے ان تمام جرنیلوں کو نکال باہر کیا تھا جو تیس سالون سے سیاہ و سفید کے مالک بنے ہوئے تھے۔ حتیٰ کے طویل مدت تک وزیر دفاع رہنے والے فیلڈ مارشل اور اس کے متوقع جانشین کو بھی گھر بھجوا دیا تھا۔اور انٹیلی جنس چیف کو بھی فارغ کر دیا۔
عبد الفتح السیسی کو کو نیا وزیر دفاع خود مرسی نے مقرر کیا تھا۔
التحریر اسکوائر میں جمع مرسی کے حامی فوج کی نظر میں امن و امان کے لیے خطرہ تھے۔ فوج نے مرسی کو 48 گھنٹے کا الٹی میٹم دیا کہ وہ سیاسی افراتفری کو روکیں۔ صدر محمد مرسی نے اس انتباہ کو نظر انداز کر دیا تو فوج نے قصر صدارت پر قبضہ کر کے صدر کو گرفتار کر لیا۔ مرسی کے حامی مزاحمتی دھرنے کے لیے التحریر اسکائر میں جمع ہوئے تو سات سو مظاہرین کو موقع پر ہی ہلاک کر دیا گیا۔  ہزاروں افراد کو جیلوں میں ڈالا گیا۔
گرفتار صدر پر قتل،  قطر کے لیے جاسوسی کرنے،  جیل توڑنے اور حماس تنظیم جو مصر میں خلاف قانون قرار دی گئی تھی کے ساتھ روابط کے الزام لگے۔ 
شستہ اورروان لہجے میں انگریزی بولنے والے محمدمرسی کو عدالت میں پہلی بار پیش کیا گیا تو وہ ایک ساونڈ پروف پنجرے میں بند تھے۔ پہلی سماعت پر سابقہ صدر کا یہ موقف سامنے آیا کہ فوج نے غیر قانونی طور پر تختہ الٹا ہے اور عدالت کے اختیار سماعت کو بھی مسترد کر دیا۔ مصری عدالت نے تیز ی سے سماعت مکمل کی،  سابقہ صدر کو سزائے موت، دوسرے مقدمے میں بیس سال قید اورتیسرے مقدمے میں تین سال کی قید کی سزا سنائی۔ ان کی موت کی سزا تو اپیل کے بعد ختم کر دی گئی مگر دوسری سزاہیں بحال رہیں۔ 
کمرہ عدالت میں موت سے قبل محمد مرسی، جن کی تین بیویاں،  چار بیٹے اور ایک بیٹی  ہے، کو چھ سال تک اس طرح قید تنہائی میں رکھا گیا کہ ان کے خانداں کے کسی فرد کو ان سے ملنے کی اجازت نہ تھی۔ان کے خلاف ملک کے اندر زبردست پروپیگنڈہ مہم شروع کی گئی۔ جس کے مطابق وہ غیر ملکی ایجنٹ، مصر کا غدار،  جیلوں کو توڑ کر اپنے حامی آزاد کرانے والا، قانون اور آئین کو نہ ماننے والا،  دہشت گردوں کا حامی، ملکی راز دوسرے ملکوں میں افشا ء کرنے والااور قاتل بتایا گیااور ملک کی فوج، عدلیہ اور اداروں کا دشمن ظاہر کیا گیا۔ ایمنسٹی والوں کا کہنا ہے دوران اسیری، ملک کے سابقہ صدر کو سونے کے لیے ننگا فرش میسر رہا۔ ان کا قرآن مہیا کرنے کا مطالبہ رد کر دیا گیا۔ان کے دونوں بھائیوں اور مصر میں موجود ان کے بیٹوں (دو بیٹے امریکی شہری ہیں)سمیت کسی کو بھی ان چھ سالوں میں ملاقات کی اجازت نہیں دی گئی۔موت کے بعد جیل کے ہسپتال کے لان میں مرسی کے بیٹون کو جنازہ پڑہنے کی اجازت دی اور فوج نے اپنی نگرانی میں میت کو دفنا دیا۔
سید قطب کے بعد اخوان کے ہاں محمد مرسی طویل عرصہ تک یاد رکھے جائیں گے۔ البتہ ان کی سیاسی زندگی، قصر صدارت تک رسائی اور پھر بے کسی کی موت تاریخ کا حصہ ہے۔ 
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق اس وقت محمد مرسی کے چالیس ہزار حامی جیلوں میں بند ہیں۔
 ملکوں میں بٹی امت مسلمہ،  ملکوں کے اندر سیاسی طور پر تقسیم در تقسیم مسلمان،  شائد ابھی تک اس حقیقت کا ادراک نہیں کر پائے ہیں کہ جنگ جاری ہے۔ سابقہ امریکی صدر بش سینٗرکے الفاظ میں یہ جنگ امریکہ سے دور ممالک میں لڑی جارہی ہے ۔اس جاری جنگ کی نوعیت پر ایک مصری اخبار نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا     مرسی، احمق ہی نہیں بے وقوف بھی ہے    اس اخبار کا اشارہ اس ڈیڑھ بلین ڈالر کی طرف تھا جو امریکہ مصری فوج کو ہر سال وعدوں کو پورا کرنے کے عوض ادا کرتا ہے۔ 

اتوار، 16 جون، 2019

ہتھوڑا


قرآن پاک میں ہے 
   بے شک ہم نے اپنے رسولوں کوواضح دلائل کے ساتھ بھیجا ہے اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان کو نازل کیا ہے تاکہ لوگ انصاف کے ساتھ قیام کریں    
ایک حدیث پاک کا مفہوم ہے   لوگوں کے درمیان انصاف کرنا صدقہ ہے     ایک اور فرمان نبوی  ﷺ  ہے  جب وہ عدل کرے گا تو اس کے لیے اجر ہے    اجر کو قران مجید میں کھول کر بیان فرما دیا گیا ہے     اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے    (المائدہ )۔  عدالت، میزان اور دلیل وہ تکون ہے جس پر پر امن معاشرہ ترتیب پاتا ہے۔ 
کالم نویس ڈاکٹر اے ار  خان صاحب نے ہائی کورٹ کے ججوں کو مشورہ دیتے ہوئے لکھا تھا     جج مقدمے کی سماعت کے دوران اپنے سامنے پانی کا گلاس ضرور رکھے۔ جونہی سماعت شروع ہو، ایک گھونٹ منہ میں پینے کی غرض سے نہیں، اپنی زبان روکے رکھنے کی غرض سے، تاکہ فریقین کا موقف سن سکے   
امریتا پریتم نے تو یہاں تک کہا کہ    ترازو کے ایک پلڑے میں ہمیشہ پتھر ہوتے ہیں۔شائد اسی کا نام سچائی یا انصاف ہے    پتھروں میں جذبات نہیں ہوتے اسی لیے کمزور نہیں پڑتے۔ منصف کے لیے لازمی ہے اس کا دل اور آنکھ پتھر کے ہوں کیونکہ انصاف ایک بڑی امانت اور اعلی اخلاقی ذمہ داری اور بھاری بوجھ ہوتا ہے۔ منصف کے منہ سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ انصاف کا معیار مقرر کرتا ہے جو معاشرتی ترقی یا تنزلی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
ججوں کے بارے میں کہا جاتا ہے وہ خود نہیں بولتے ان کے فیصلے بولتے ہیں۔ پاکستان میں سماعت کے دوران بولنے والے ججوں میں سب سے زیادہ نام جسٹس ثاقب نثار نے کمایا۔مگر یہ نام کمانے والے پہلے جج نہیں تھے ان سے قبل چوہدری محمد افتخار، نسیم حسن شاہ، ایم  ار کیانی  یہ بدعت پوری کر چکے تھے۔ جسٹس سجاد علی شاہ، مولوی منیر، شیخ انوارعدالتوں میں بہت کم بولتے تھے مگر ان کے فیصلے چیخ و پکار کرتے ہوئے کمرہ عدا؛ت سے برامد ہوا کرتے تھے۔
آج کل سیاسی حلقوں میں ایک حکائت کا بہت چرچا ہے۔ حکایت یوں ہے کہ مسلمانوں کے ایک خلیفہ نے جنگل میں ایک کمہار کے گدہوں کے نظم و ترتیب پر حیرت کا اظہار کیا تو کمہار نے قریب ہو کر خلیفہ کو بتایاکہ جو گدہا نظم توڑے اسے ڈنڈے سے مارتا ہوں وہ واپس قطار میں آ جاتا ہے۔کسی گدہے کی کیا مجال جو میرے بنائے ہو نظم کی خلاف ورزی کرے۔خلیفہ کمہار کی ڈسپلن قائم کرنے کی صلاحیت کے باعث اپنے ساتھ لے آیا اور اسے منصف کی کرسی پر بٹھا دیا۔ پہلا مقدمہ چوری کا پیش ہوا۔ جج نے مجرم کے ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا۔ جلاد نے وزیر کی طرف دیکھا۔ وزیر نے اشارے سے اسے رک جانے کا کہا اور اٹھ کر جج کے پاس گیا اور اس کے کان میں کہا یہ اپنا آدمی ہے، جج نے دوسرا حکم وزیر کی زبان کاٹنے کا دیا۔جج کے حکم پر مجرم کا ہاتھ اور وزیر کی زبان کاٹ دی گئی۔ اس کے بعد ملک میں ایسا امن ہوا کہ پورا ملک ہی سدہر گیا۔ہمارے ایک وزیر با تدبیر نے ٹی وی پر بیٹھ کر فرمایا ہے کہ پانچ ہزار لوگوں کو لٹکا دیا جائے تو ملک سے کرپشن کا خاتمہ ہو جائے گا۔ کہا جاتا ہے چین میں مقدمات کا سرعت سے فیصلہ ہوتا ہے اور انھیں گولی سے اڑا کر اطمینا ن حاصل کر لیا جاتا ہے۔ کوریا سے بھی ایسے ہی سریع انصاف کی خبریں موصول ہوتی رہتی ہیں۔ عراق کے معزول صدر صدام حسین اختلاف رائے رکھنے والوں کو اپنے پستول سے میٹنگ کی میز پر ہی انصاف مہیا کر دیا کرتے تھے۔ کہا جاتا ہے اس قسم کا انصاف پاکستان میں عوام کو قابل قبول نہیں ہے۔
 حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی عوام تو اس انصاف کو بھی ٹھنڈے پیٹوں قبول نہیں کرتے۔ جس میں جج کا کرادار بھی انصاف پر مبنی نہ ہو۔ کیونکہ پاکستانیوں کو جمعہ کے خطبوں مین بتایا جاتا ہے    جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو توانصاف سے فیصلہ کیا کرو۔ خدا تمھیں خوب نصیحت کرتا ہے۔ بے شک خدا سنتا اور دیکھتا ہے   (النساء)
امام ابو حنیفہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھوں نے چیف جسٹس کا عہدہ اس لیے ٹھکرا دیا تھا کہ ان کے پیش نظر یہ فرمان نبوی  ﷺ  تھا    جو صیح فیصلہ نہیں کرے گا اس کا مقام جہنم ہے   ۔  جس معاشرے میں جج یا منصف حکمران کے ہاتھ کی چھڑی اور زور آور کی جیب کی گھڑی بن جائے وہاں عدالت کی عزت باقی رہتی ہے نہ جج کی۔ 
کیا پاکستانی عدالتوں کے ججوں کا کردار واقعی ایسا ہے کہ خدا ان کو محبوب رکھتا ہے۔ اور پاکستان کے سپریم کورٹ کی عمارت پر نصب میزان وہی ہے جو آسمان سے اتاری گئی تھی؟  یہاں تو جسٹس ثاقب نثار کے دور میں عدلیہ اپنے ہتھوڑے کے زور پر اپنی توقیر پر بضد رہی۔سرکاری ملازمیں کو بتایا جاتا کہ وہ حکومت کے نہیں ریاست کے ملازمیں ہیں۔مگر اپنے بارے میں ان کی رائے مختلف رہی۔اس دور میں سولی چڑھ جانے کے بعد بریت کے فیصلے بھی سامنے آتے رہے ہیں۔وقت کی حکومت کے وزیر داخلہ کو عدالت میں داخل ہونے سے روک دیا جاتاا مگر کسی ادارے کے افسرکو جج سے ملنے کی سہولت دستیاب رہی۔دوسری طرف پاکستان کی سب سے اعلی ٰ عدالت میں چیف جسٹس کی موجودگی میں ایک شہری جج کے رو برو کھڑے ہو کر ان پررشوت ستانی کا الزام لگاتا ہے۔ نہ عدالت کی چھت پھٹتی ہے نہ جج حیرت سے کرسیوں سے اچھلتے ہیں۔ البتہ سیکورٹی کے ذریعے اسے کمرہ عدالت سے ضرور نکال باہر کیا جاتا ہے۔اس دور میں سیاسی مقدمات میں دہرا معیار اپنا کر عوام کو حیرت زدہ کیا گیا۔ آئین کو پاما کرنے والوں اور شہریوں کے قاتلوں سے مخاطب ہونے سے پہلے لہجوں میں میٹھا رس گھولا جاتا۔البتہ اپنے وسائل سے دوسرے شہریوں کی خدمت کرنے والوں کو طعنہ زنی کا شکار بنایا گیا۔امیر اور غریب کے لیے انصاف کے پیمانے علیحدہ علیحدہ کر دیے گئے۔ اورخود کو اعلانیہ سیاسی طور پر متنازعہ بناکربقول فیض عدل کا   حشر   اٹھا دیا گیا۔
ہماری ستر سالہ تاریخ میں بے شمار ججوں میں سے صرف چند لوگوں ہی کی مثال مل سکتی ہے جنھوں نے عدلیہ کو بدنام کیا اور اپنی ذات کو رسوا، ورنہ سیاسی، معاشی اور سماجی عدم مساوات کو ہماری عدلیہ ہی برابر رکھے ہوئے ہے۔ عدل کے لفظ کے لیے عبرانی میں صداقت کا لفظ ہے۔ ہماری عدالتوں کے جج صداقت کی حد تک عدل کرتے ہیں۔ حقیقت مگر یہ ہے کہ نظام عدل میں پراسیکیوشن اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اور ہمارے پراسیکیوشن کے اداروں کا کردار نیب کے کردار سے زیادہ مختلف نہیں ہے۔
پراسیکیوشن کے کردار کو جانچنے کے لیے مختلف سیاسی  مقدمات میں بنائی جانے والی جے ائی ٹی اور ان کے مرتب کردہ  والیوم کو ذہن میں لایئے۔۔ ایسی مثالیں بھی موجود ہیں کہ ایسی دستاویزات جو ٹرالیوں پر لاد کر عدالت میں لائی گئی مگر عملی طور لندن میں ترازوکے اس پلڑے کو اٹھانے میں ناکام رہی جس میں صرف ایک قانونی شق رکھی ہوئی تھی۔
 اس کے باوجود جج اپنے علم کے بل بوتے پر حقیقت جان لیتاہے۔ اللہ کی یہ نصیحت ہر جج کو ازبر ہوتی ہے   جب بھی تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو  ۔ اس کے باوجود کچھ لوگوں کو شکوہ ہے کہ ججوں کے فیصلے انصاف کے ساتھ ساتھ اپنا ذاتی مستقبل سنوارتے نظر آتے ہیں اور سابقہ چیف جسٹس ثاقب نثار کا نام بطور مثال پیش کرتے ہیں۔ جو  
اپنی ریٹائرمنٹ کے فوری بعد اہل خانہ سمیت لندن جا بسے ہیں۔ 
پاکستان کی عدالتی تاریخ میں جناب ثاقب نثار صاحب ایسے جج کے طور پر یادگار رہیں گے جنھوں نے عدالتی ہتھوڑے کے ذریعے اپنا تاریخی مقام منتخب کیا