بدھ، 24 اپریل، 2019

حاکم یا محافظ




مرد عورتوں پر محافظ ہیں اس لیے کہ اللہ نے ایک کو ایک پر بزرگی دی ہے اور اس لیے کہ مرد اپنا مال ان پر خرچ کرتے ہیں۔ ( سورۃ النساء :۳۴) اور مال خرچ کرنے کی ذمہ داری مردپر اسطرح ہے کہ جو خود کھاٗے وہی بیوی کو مہیا کرے۔ جب خود پہنے تو بیوی کو بھی پہنائے۔بات یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ بچہ کی پیدائش کے بعد اگر بچے کی ماں کسی وجہ سے بچے کو دودھ نہ پلا سکے تو یہ ذمہ داری بچے کے باپ پر ہے کہ وہ بچے کی رضاعت کا انتظام کرے۔ اور اس رضاعت کی اجرت ادا کرے جس کی مدت دو سال ہے۔ خدا کا فرمان ہے ْ اور مائیں اپنے بچوں کو پورے دوسال دودھ پلائیں۔ جو چاہے کہ رضاعت کی مدت پوری کرے اور باپ پر ان دودھ پلانے والی ماوں کا کھانا کپڑا دستور کے مطابق واجب ہےْ (البقرہ:۲۳۳)۔ صرف دودھ پلانے والی ہی کے نان نفقہ کی ذمہ داری مرد پر نہیں ہے بلکہ بچے کے کھانے اور لباس کی ذمہ داری بھی باپ ( باپ کی عدم موجودگی میں دادا )پر ہے۔مرد کو ْ رب البیت ْ یعنی گھر کی ضروریات پوری کرنے والا بھی کہا جاتا ہے۔اسی پر بچے کی تربیت اور تعلیم کا فرض بھی عائد کیا گیا ہے۔ان مالی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ مرد کو اپنی بیوی کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید بھی کی گئی ہے۔ یہی نہیں بلکہ باپ کے لیے لازمی ہے کہ وہ تمام اولاد کے ساتھ مساوی سلوک یقینی بنائے ۔ اصحاب رسول میں سے ایک نے اپنے بیٹوں میں سے ایک کو اپنا غلام تحفے کو طور پردیا اور چاہا کہ ان کے اس عمل پر اللہ کے رسول ﷺ بھی شاہد ہوں تو رسول اللہ ﷺ نے دریافت فرمایا کہ کیا سب بیٹوں کو ایک ایک غلام دے دیا گیا ہے تو عرض کیا نہیں تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ْ میں ایسے ظالمانہ تحفہ پر گواہ نہ بنوں گا ْ 
اسلام کی ، مسلمان خاندان کی عورت کو عطا کردہ اس معاشی آزادی کے نتائج یہ نکلے کہ حضرت عمر بن خطاب فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ میں نے اپنی بیوی کو ڈانٹا تو اس نے بھی برابر کا جواب دیا۔ حالانکہ اسلام سے پہلے ہم عورتوں کو کسی گنتی اور شمار میں نہیں لاتے تھے۔اسلام آیا تو اس نے عورتوں کے بارے میں احکام اتارے اور ان کے حقوق مقرر کیے۔اسلام نے قدر و منزلت میں عورت کو اس حد تک بڑہایا کہ رسمی طور پر عورت کو مرد کے برابر کر دیا۔ مگر اخلاقی طور پر مردوں کی برتری قائم رکھی اور اس برتری کے بدلے مرد پر سماجی اور معاشی ذمہ داریاں عائد کر دیں۔البتہ ان مالی ذمہ داریوں نے مرد کو کچھ حقوق بھی عطا کیے۔ ان حقوق میں اولیں مرد کے ساتھ عورت کی وفا کا تقاضا ہے۔مذکورہ آیت کے اگلے حصے میں ہے کہ نیک بیویاں فرمان بردار ہوتی ہیں۔ اور غائبانہ نگرانی کرتی ہیں کہ خدا نے ان کی حفاطت کی ہے ْ یعنی اپنے خاودند کی عزت و آبرو اور مال کی محافظ ہوتی ہے ۔اب کسی مرد کا فعل ان ہدایات کے منافی ہے یا عورت کا عمل اس میزان پر پورا نہیں اترتا تو ذمہ داری ادا کرنے سے حقوق بھی سلب ہو جاتے ہیں۔ ایسے مرد جو عورت کے مال پر تکیہ کرتے ہیں یا بچوں کے کپڑے اور تعلیم کے اخراجات کے لیے بچوں کی ماں کے مالی طور پر محتاج ہوتے ہیں ان کا گھر پر حکمرانی کا حق سلب ہو جاتا ہے۔ 
اسلام نے والدین کے رشتے کے بعد سب سے اہم رشتہ بیوی خاوند کے رشتے کو قرار دیا ہے۔ قران پاک نے ان لوگوں کی سر عام مذمت کی ہے جو اس رشتے میں رخنہ اندازی کی کوشش کرتے ہیں۔ عام طور پر خیال کیا جاتا ہے بیوی خاوند کے تعلقات میں رخنہ ڈالنے والے جادو گروں کی قبیل کے لوگ ہوتے ہیں۔ مگر اس مذمت میں مرد اور عورت کے وہ قریبی رشتے دار بھی شامل ہیں جو بستے گھر کو اجاڑنے کی سازشیں کرتے ہیں۔
بیوی خاوند کا رشتہ خاندان کی بنا ہے۔اس رشتے کی توصیف کرتے ہوئے بیوی خاوند کو ایک دوسرے کے لیے لازم ملزوم ہی نہیں بلکہ ایک دوسرے کا پردہ پوش بتایا ہے۔دونوں ایک دوسرے کی تکمیل کا ذریعہ ہی نہیں بلکہ ایک دوسرے کی زینت بتائے گئے ہیں۔اکثر رشتوں اور ناتوں کی جڑ یہی ایک رشتہ ہے اسی لیے اس رشتے کو پاک دامنی کا ذریعہ کہا گیا ہے۔ آنے والا بچہ جس گود میں آنکھ کھولتا ہے اسلام نے اس گود اور اس گھر کو مہر محبت کا مرکز بنانے کے لیے بیوی خاوند کے رشتے پر تکریم کی چادر تان دی ہے۔ اور اس رشتے کو قائم رکھنے کے لیے بدخواہوں کی مذمت کے بعد مناقشے کی صورت میں فریقین کو تاکید کی ہے کہ ْ میاں بیوی اللہ کی حدود کو قائم رکھیں ْ (البقرہَ:۲۳۰)

منگل، 23 اپریل، 2019

قصہ جسے تحریر کیا جاتا ہے



اللہ کے نبی موسی علیہ السلام کے وقت کی ایک حکائت ہے کہ قوم بنی اسرائیل میں ایک بہت ہی شریر شخص تھا جو اپنی بد اعمالیوں سے باز نہ آتا، اہل شہر اس کی بد اعمالیوں سے عاجزتھے اورخدا سے دعا کرتے تھے کہ اس کے شر سے عافیت دے۔ خدا نے اپنے نبی کو وحی بھیجی کہ اس شریر کو شہر بدر کر دو۔ وہ ایک غار میں جا بسا، جب اس کا آخری وقت قریب آیا اور بیمار و لاچار ہو کر زمین پر گرپڑا تو اس نے کہا آج میری ماں میرے پاس ہوتی تو میری تیمارداری کرتی اور میرا باپ میرے پاس ہوتا تو مجھ پر مہربانی کرتا۔
والدین اولاد کے لیے مجسم مہربانی ہوتے ہیں۔اس کا سبب یہ ہے کہ خدا نے والدین کے دل اولاد کی محبت سے لبریز کر دیے ہیں مگر اولاد کے دل میں یہ مادہ نہیں رکھا بلکہ اولاد کو حکم دیا ہے ْ اور ہم نے انسان کو اس کے والدین کے بارے میں تاکید کی ، اس کی مان نے اس کو تکلیف اٹھا کر اپنے پیٹ میں رکھا اور دو برس تک اس کو دودھ پلایا ْ ( سورۃ لقمان:۱۴) ۔ 
اللہ کے رسول ﷺ نے جہاد پر جانے کے متمنی سے فرمایا تم والدہ کی خدمت سے چمٹے رہو کہ جنت اس کے پاوں کے پاس ہے۔ اور والد کی ناراضگی کو خدا کی ناراضگی بتایا۔ خدا نے اولاد کو والدین کے سامنے ادب سے جھکے رہنے اور اف تک نہ کہنے کی نصیحت فرمائی ہے۔ اور ان کی خدمت، اطاعت ، دلجوئی اور مدد کو فرض قرار دیا ہے۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دعا مانگی تھی ْ اے مرے رب مجھے اور میرے والدین کو بخش دے ْ (سورۃ ابراہیم: ۴۱ ) ایسی ہی دعا حضرت نوح علیہ السلام نے بھی مانگی تھی ( سورۃ نوح:۲۸) ۔ والدین کی خدمت وہ آب مصفا ہے جو انفرادی گناہوں کی فرد کو مٹا دیتا ہے۔ تعلیمات نبوی ﷺ ہے کہ سب سے بڑا گناہ شرک اور اس کے بعد والدین کی نا فرمانی ہے ۔
حضرت عبداللہ بن عمر بن خطاب کی ایک بیوی تھی، جس سے وہ راضی تھے مگر ان کے والد کو بہو پسند نہ تھی، اس اختلاف نے خانگی جھگڑے کی صورت اختیار کر لی۔ اللہ کے رسول ﷺ نے عبداللہ کو مشورہ دیا کہ اپنے باپ کی اطاعت کرو۔
عبداللہ بن عمر نے نہ صرف مشورہ مانا بلکہ ان سے مروی ہے کہ میں کبھی اس مکان کی چھت پر نہیں چڑہا جس میں میرے والد صاحب ہوں۔
ایک شخص نے خراسان سے اپنی ضعیف ماں کو کندہوں پر اٹھایا ، اسے بیت اللہ میں لایا، حج کے مناسک ادا کیے اور پوچھا کیا میں نے والدہ کا حق ادا کر دیا تو ابن عمر نے کہا ْ نہیں ۔ ہر گز نہیں ، یہ سب تو مان کے اس ایک چکر کے برابر بھی نہیں جو اس نے تجھے پیٹ میں رکھ کر لگایا تھا ْ امام حسن بن علیؓ سے پوچھنے والے نے پوچھاوالدین کے ساتھ حسن سلوک کس طرح کیا جائے ، فرمایا ْ تو ان پر اپنا مال خرچ کر اور جو حکم دین اس کی تعمیل کر ْ عبدللہ بن عباس کا قول ہے ْ تم ان کے سامنے اپنے کپڑے بھی نہ جھاڑو، کہیں کپڑوں کا غبار اور دھول انھیں نہ لگ جائے ْ امیر المومنین علی مرتضی کا حکیمانی قول ہے ْ اگر والدین کی بے ادبی میں اف سے کم درجہ ہوتا تو بھی اللہ تعالیٰ اسے حرام قرار دیتے ْ ۔ مجاہد ؒ کا قول ہے کہ بوڑہے والدین کا پیشاب دھونا پڑے تو اف مت کہنا کہ وہ تمھارا پیشاب دہوتے تھے ۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ ایک شخص خدمت اقدس نبوی ﷺ میں حاضر ہوا ، اس کے ساتھ ایک بوڑہ�آدمی تھا۔ پوچھا یہ کون ہے کہا میرا والد ہے آپ ﷺ نے نصیحت فرمائی اس کے آگے نہ چلنا ، مجلس میں اس سے پہلے نہ بیٹھنا ، ان کا نام لے کر مت پکارنا ، ان کو گالی مت دینا۔
خدا کا فرمان ہےْ و قل لہا قول کریم ْ ان سے خوب ادب سے بات کرنا ، حضرت سعید بن مسیب نے خدا کے اس فرمان کی تشریح میں کہا ہے خطا کار اور زر خرید غلام ، سخت مزاج اور ترش رو آقا سے جس طرح بات کرتا ہے یہ قول کریم ہے۔ 
حضرت عروہ ؒ کا کہنا ہے کہ تو ان کو ترچھی نگاہ سے بھی مت دیکھ کہ آدمی کی ناگواری اول اس کی آنکھوں سے ظاہر ہوتی ہے۔ حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا جو شخص یہ چاہے کہ اس کی عمر دراز کر دی جائے اور رزق میں اضافہ ہو تو اسے چاہیے کہ والدین کے ساتھ بھلائی کا معاملہ کرے۔امام محمد بن سیرین نے لکھا ہے کہ حضرت عثمان کے دور میں کھجور کے ایک درخت کی قیمت ایک ہزاردرہم تک پہنچ گئی تھی۔حضرت اسامہ نے یہ درخت بیچنے کی بجائے اندر سے کھود کر رخت کو کھوکھلا کر دیااور اس کا گودا نکال کر اپنی ماں کو کھلا دیا۔لوگوں نے پوچھا آاپ نے ایسا کیوں کیا، انھوں نے کہا میری والدہ نے کھجور کا گودا مجھ سے مانگا تھا اور میری عادت یہ ہے کہ جب میری ماں مجھ سے کچھ مانگتی ہے اور اس کا دینا میرے بس میں ہو تو میں وہ چیز ضرور ان کو دیتا ہوں۔حضرت ابو امامہ سے روائت ہے کہ ایک شخص نے نبی اکرم ﷺ سے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ والدین کا ان کی اولاد پر کیا حق ہے آپ ﷺ نے فرمایا وہ دونوں تیری جنت یا جہنم ہیں۔اور یہ بھی فرمان ہے کہ تین دعائیں مقبول ہیں والدین کی اولاد کے لیے دعا، مسافر کی دعا اور مظلوم کی دعا۔
حضرت اویس قرنی کے بارے میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اویس کی والدہ ہے، اس کے ساتھ انھوں نے حسن سلوک کیا ہے اگر اویس کسی بات میں اللہ کی قسم کھا لیں تو اللہ تعالی ضرور ان کی قسم پوری فرمائے۔مزید اویس کو خیر التابعین بتایا اور عمر و علی نے ان سے امت کے لیے دعا کرائی تھی۔
عبداللہ بن ابی بن سلول کے بیٹے ایسے جان نثار صحابی تھے کہ ایک بار انھوں نے عرض کیا یا رسول اللہ اس ذات کی قسم جس نے آپ پر کتا ب اتاری اگر آپ چائیں تو میں اس کا سر لا کر آپ کی خدمت میں پیش کر دوں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا نہیں ، ایسا نہ کرو بلکہ والد کے ساتھ نیکی کرواور ان کے ساتھ حسن سلوک کرو ۔
میرے ایک دوست نے لکھا تھا ْ والدین کی خدمت گزاری اور اطاعت ایک قصہ ہے جسے بچوں نے آپ کو پڑھ کر سنانا ہے، جتنا اچھا تم یہ قصہ تحریر کرو گے اتنا ہی اچھا تمھیں سنتے ہوئے لگے گا ْ 

اتوار، 21 اپریل، 2019

پہلے مرغی آئی تھی یا انڈہ

                                  

دنیا ، ملک، معاشرے اور گھر کا امن اخلاق سے وابستہ ہے۔ مہذب ممالک میں انفرادی اخلاق کی کمی کو حکومت قوت اور جبری قوانین سے پور اکرتی ہے۔ اگر افراد اپنے اخلاق کو از خود پوری طرح استعمال کریں تو حکومت کو جبری قوانین کے نفاذ کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔جو افراد حکومت کے جبری قوانین کی مخالفت کرتے ہیں مجرم کہلاتے ہیں۔مثالی معاشرے میں فرد پر جرم کے خلاف اس قدر دباو ہوتا ہیکہ وہ جرم کے ارتکاب کے بعد بے چین ہو جاتا ہے۔ ریاست مدینہ میں ماعز اسلمی نامی ایک فرد سے غیر اخلاقی جرم سرزد ہو گیا۔ اس جرم کا عینی شائد تھا نہ کسی نے اس جرم کا شکوہ کیا تھا۔مگر ان کے اعلیٰ اخلاق نے مجبور کیا کہ وہ عدالت میں حاضر ہو کر اپنے جرم کا اعتراف کریں۔ ان کے اس عمل خود احتسابی کی رسول اللہ ﷺ نے تعریف فرمائی اور بتایا کہ اعتراف کا یہ عمل اس قدر پسندیدہ ہے کہ اگر اعتراف کے اس عمل کے اجر کو اہل مدینہ پر تقسیم کیا جائے تو سب کی نجات کے لیے کافی ہو جائے۔اخلاقی لحاظ سے رسول اللہ ﷺ کے دور سے لے کر عمر بن خطاب کی شہادت تک دور مثالی تھا۔ معاشرے کا مجموعی اخلاق اس قدر اعلیٰ تھا کہ انسان اپنی زبان سے نکالے ہوئے کلمے کی پاسداری کے لیے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ لیا کرتا تھا۔ محمد دباب الاتلیدی ( متوفی ۰۰۱۱ ہجری) نے اپنی کتاب میں شرف الدین بن ریان سے ایک واقعہ نقل کیا ہے کہ عمر بن خطاب کی عدالت میں دو نوجوانوں نے اپنے باپ کے قتل کا مقدمہ پیش کیا۔ قاتل نے اعتراف جرم کیا مگر التجاء کی 
ْ اے امیر المومنین ، اس کے نام سے جس کے حکم سے یہ زمین و آسمان قائم ہیں، مجھے صحرا میں اپنے بیوی اور بچوں کے پاس جانے کی اجازت دی جائے تاکہ میں انھیں بتا آوں کہ میں قتل کر دیا جاوں گا ، ان کا اللہ اور میرے سوا کوئی آسرا نہیں ہے ، میں پھر واپس آ جاوں گا ْ 
واسطہ زمین و آسمان کو قائم رکھنے والے کا تھا مگر عدالت کو ضمانت درکار تھی کہ یہ شخص صحرا سے واپس بھی آئے گا ۔ عمر نے کہا ْ اے لوگو ، کوئی ہے جو اس کی ضمانت دےْ ابو ذر غفاری نے اس کی ضمانت دی ۔ عمر نے ابوذر کو مخاطب کر کے کہا ْ ابو ذر دیکھ لو اگر یہ تین دن میں لوٹ کر نہ آیا تو مجھے تمھاری جدائی کا صدمہ سہنا پڑے گا ْ جواب آیا ْ اے امیر المومنین اللہ مالک ہے ْ تین دن کے بعد اہل مدینہ نے مسجد سے بلاوے کی آواز سنی ، سب کو معلوم تھاآج قتل کے مقدمے کا فیصلہ ہونا ہے ، لوگ یہ بھی جانتے تھے بدو صحرا سے واپس نہ آیا تو اس کے ضامن کی گردن اڑا دی جائے گی ۔ مسجد میں ابو ذر بھی حاضر ہیں ، مقتول کے وارثین بھی موجود ہیں۔ عمر کی آواز سے اہل مدینہ کے دل کی دھڑکنیں گویا رک ہی گئیں ، سوال ابو ذر سے تھا ْ کدھر ہے وہ آدمی ْ جس کا نام معلوم ہے نہ گھر اور ٹھکانہ ْ مجھے کچھ معلوم نہیں امیر المومنینْ ۔ اتنے میں لوگوں نے دیکھا وہ بدو ہانپتا ہوا آ پہنچا۔ اب عمر کا سوال بد وسے تھا ْ اے شخص ، اگر تو لوٹ کے نہ بھی آتا تو ہم تیرا کیا بگاڑ لیتے ، یہاں کوئی ایسا آدمی نہیں ہے جو تیرا گھر اور ٹھکانہ جانتا ہو ْ بدو نے جواب دیا ْ امیر المومنین، اللہ کی قسم ، بات آپ کی نہیں ہے بلکہ اس ذات کی ہے جو ظاہر و باطن کو جانتا ہے ، دیکھ لی جئے میں آ گیا ہوں، اپنے بچوں کو چوزوں کی طرح صحرا میں تنہا چھوڑ کرجہاں نہ درخت کا سایہ ہے نہ پانی کا نام و نشان، میں قتل کیے جانے کے لیے حاضر ہوں۔ مجھے بس یہ ڈر تھا کہ کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں میں سے وعدوں کا ایفا ہی اٹھ گیا ہے ْ 
پاکستان کے سپریم کورٹ کے چہف جسٹس کی عدالت میں ایک مقدمے کے دوران ایک گواہ کو خود چیف جسٹس نے جھوٹا بتایا اور اس خواہش کا اطہار بھی کیا کہ اس جرم کی سزا عمر قید ہونی چاہیے ۔ مگر سزا دے نہیں پائے ۔ اسی عدالت میں ان سے پہلے چیف جسٹس کی عدالت میں ان کی موجودگی میں ایک شہری نے ان پر رشوت لینے کا الزام لگایا تھا۔ چند لمحوں تک عدالت میں سناٹا رہا مگر پھر معمولات معمول پر آ گئے۔ 
بحث یہ نہیں ہے کہ پہلے حاکم ٹھیک ہو یا محکوم ۔ یہ بحث ایسے ہی ہے جیسے یہ بحث کہ پہلے مرغی آئی تھی یا انڈہ۔ رسول اللہ ﷺ کی اتباع کے داعی کو اپنے ضمیر سے یہ بحث کرنا ہے کہ اس نے اپنے معاملات اللہ کے سپرد کیے ہیں یا نہیں 

جمعہ، 19 اپریل، 2019

عمران خان کو جنونی بنانے کا دھواں بتاتا ہے

ایک کالم نکار نے لکھا ہے تبدیلی کے اندر آنے والی اس تبدیلی کا مقصد وقت حاصل کرنا ہے ۔ اسد عمر کی صلاحیتوں کے ثمر آور ہونے کا اگر آٹھ ماہ صبر کیا گیا ہے ۔تو ظاہر ہے نئے آنے والے کو جانے والی کی صلاحیتوں کے سمجھنے اور بین الاقوامی اداروں کے ساتھ کیے گئے وعدوں کے مطالعہ اور اپنے ہیٹ سے ْ مطلوبہ نتائج ْ برآمد کرنے کے لیے وقت درکار ہو گا۔

دوسرے کالم نگار کا کہنا ہے اصل لڑائی تحریک انصاف کے اندر ہے۔ پارٹی دو دھڑوں میں تقسیم ہو چکی ہے۔ اسد عمر کا تعلق شاہ محمود قریشی کے دھڑے کے ساتھ تھا ۔ جہانگیر ترین نے ناہل ہو کر بھی خود کوکپتان کی ٹیم میں اہل ثابت کیا ہے۔ بحران خان کانوں کے کچے ہیں۔ان کے نزدیک اہل وہی ہے جو جہانگیر ترین کی راہ پر چلے، یہ اندرونی سیاسی کامیابی ہے مگر عملی طور پر حکومت کی نا اہلی ہے۔جو کچھ ہو گیا ہے اس کا مداوا ممکن ہے مگر کتنی مدت میں۔ کیا عوام اتنی لمبی مدت کا صبر کا روزہ رکھنے کے قابل رہے گی بھی یا نہیں۔کپتان دباو برداشت نہ کر سکے۔دو سو ماہرین کے دعوے والا غبارہ ٹھاہ کر کے پھٹ گیا ہے۔آئی سی یو سے نکال کر جنرل وارڈ میں لانے کا دعویٰ خود ہی اپنی موت مر گیا۔حکومت کے حوصلے پست ہونے کا اصل سبب وہ حقیقی بحران ہے جو اسد عمر پیدا کر گئے ہیں۔عمران خان کا دعویٰ کہ قیادت اچھی ہو تو سب ٹھیک ہوتا ہے غلط ثابت ہو گیا ہے۔

تیسرے کالم نگار کا کہنا ہے کہ سابق صدر کے قریبی ساتھی ، انٹیلی جنس بیورو کے سابق سربراہ اور فوج کے سابقہ افسر اعجاز شاہ کا بطور وزیر داخلہ تقرری ، تبدیلی کی داعی سیاسی جماعت کے پر کاٹنے کے مترادف ہے ۔ اس تقرری کے بعد عمران خان اپنے ویژن کے مطابق کیسے حکومت چلا پائیں گے۔ 

کہانی  پرانی ہے مگر بار بار دہرائی جاتی ہے۔ ہر بار بیانیہ کرپشن کی تلاش سے شروع ہو کر کرپٹ لوگوں پر ختم ہو جاتا ہے۔ داستان گو بھلے سمارٹ ہو عزت بچا کر دیار غیر میں وقت گزارنے یا پاکستان میں کسی کونے میں بیٹھ کرکتاب لکھنے کی بجائے اللہ اللہ کرنے ہی میں سکون پاتا ہے۔ان میں چند نام ایسے بھی ہیں جو جنونی ثابت ہوٗے ۔ ایسے ہی ایک جنونی کا نام سہروردی تھا ۔ اس کی لاش لبنان کے ایک ہوٹل سے برآمد ہوئی تھی۔ سہروردی کی غیر طبعی موت کی بات ذولفقار علی بھٹو نے کی تھی۔دوسرا جنونی خود بھٹو تھا۔ جیل اور قید تنہائی اس کے جنون کو ختم نہ کر سکی تو اس کے گلے میں پھندا ڈال دیا گیا۔اس مقدمے کی نظر ثانی کی اپیل پاکستان کے سپریم کورٹ میں موجود ہے ۔ تیسرا جنونی محمد خان جونیجو تھا۔ وہ ایک اللہ والے کا مرید تھا۔ اس نے اللہ اللہ کر کے عافیت پائی۔ بھٹو کی بیٹی وقت کی رفتار کے ساتھ چلنے کا سلیقہ جانتی تھی مگر اس کے خون میں جنون شامل تھا۔ اس جنون کو راولپنڈی کے اسی باغ میں گولی سے اڑایا گیا جس باغ میں لیاقت علی خان کو گولی ماری گئی تھی۔ حالانکہ لیاقت علی خان وقت کے سلیقے سے ہم آہنگ ہو چکے تھے۔ انھوں نے مادر ملت کو دہیمے پن کا مشورہ بھی دے دیا تھا اور مکہ بھی لہرا دیا تھا۔ موجودہ دور میں بھی ایک جنونی ہے جو بیٹی کو ساتھ لے کر لندن سے جیل کاٹنے چلا آیا تھا۔ ناہلیت، سیسلین مافیا کی عرفیت ، مودی کے یار کا طعنہ، چور اور ڈاکو کے بیانئے اس پر اثر انداز نہیں ہو رہے۔
خدشہ یہ ہے کہ جنونیوں کی تعداد میں اضافہ کہیں اضافہ نہ ہو جائے۔ایسا ہوا تو نیا جنونی خطرناک بھی ثابت ہو سکتا ہے۔کہا جاتا ہے کہ بلی کو بند کر کے اس پر تشدد کیا جائے تو وہ تشدد کرنے والوں کی آنکھیں نوچ لیتی ہے۔ اسد عمر امریکہ گئے تو پریس کانفرنس کر کے گئے تھے۔ ان کے لہجے میں اعتماد بتاتا تھا انھیں اعتماد حاصل ہے۔ بہتر گھنٹوں مین کیا آفت آئی کہ بقول عمران خان ْ پی ٹی آئی کے لائق ترین ْ شخص کو وزیر اعظم نے نکال باہر کیا۔کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ غلام سرور نے پارٹی چھوڑنے کی دہمکی دی تھی۔ کیا محمود الرشید اعلانیہ پارٹی پر چار حرف نہیں بھیج چکے۔ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ حکومتی فلور صرف چار ووٹوں پر کھڑا ہے۔ جس فلور پر دھمال ممکن ہی نہیں ہے۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ تجوریوں والوں نے تجوریوں کے دروازے بند کر لیے ہوئے ہیں۔ سرکاری افسران سے لے کر نجی اداروں کے مالکان تک تذبذب کا شکار ہیں۔یوٹیلٹی بلوں نے عوام کو حیرت زدہ کیا ہوا ہے۔بے روزگاروں کی فوج میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔جان بوجھ کر مایوس کن پیشن گوئیوں کو بڑہا چڑہا کر پیش کیا جاتا ہے۔ ہمسائیوں کے تعلقات بارے چھٹی پر گئے وزیر خارجہ کو پریس کانفرنس کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ ایف اے ٹی ایف تلوار سونت کر گردن کے قریب پہنچ چکا ہے۔محصولات میں پانچ سو ارب کی کمی کا ذمہ دار کیا واقعی اسد عمر ہے ۔
اسد عمر کو ہٹانے کا فیصلہ ٹھندے پیٹوں نہیں ہوا۔ایسے فیصلے پارلیمانی لیڈر مجبوری میں ہی کرتے ہیں۔یہ مجبوری کے بیچ نظر نہیں آتے مگر اندر ہی اندر پھوٹتے رہتے ہیں اور ایک دن جنون بن کر نکل آتے ہیں۔ ایک جنونی تو سنبھالا نہیں جا رہا ۔ دو جنونیوں کو کون سنبھالے گا۔ 
یہ یقین کہ فائل ہمارے ہاتھ میں ہے ۔ میزان میں بھاری ثابت ہو گئی۔ زندہ جنونی کے خلاف وہ دس والیوم جو ٹرالیوں پر رکھ کر میزان میں کے پلڑے میں رکھنے کے لیے لائے گئے تھے ۔ لندن کے میزان میں وہ ایک قانونی شق کو اوپر نہ اٹھا سکے۔ جس کے بعد قانون دان بھی آپ کی میزان کو دیکھ کر مسکرا دیتے ہیں۔ 
جنونی بنائے جانے پر کسی جاہل اور ان پڑھ کو اعتراض ہو ہی نہیں سکتا مگر زمینی حقیقت یہ ہے کہ نہ چاہتے ہوئے بھی جاہل اور ان پڑھ کے ایک آدمی ایک دوٹ کا حق تسلیم کرنا پڑا ۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا روشن پاکستان کی تاریخ کا تاریک باب ہے۔ 
بعض گمان ، گمان ہی رہتے ہیں ، حقیقت کا روپ نہیں دہار سکتے۔ جنونیوں کے بارے میں گمان غلط ہی ثابت ہوئے ہیں۔ عمران خان کو جنونی بنانے کا دھواں بتاتا ہے کہ کہیں نہ کہیں چنگاری سلگ رہی ہے۔ کہا جاتا ہے بھینس کا دودھ دہنے سے پہلے اس کر ْ ٹنگا ْ باندھ لینا چاہیے۔ 


جمعرات، 18 اپریل، 2019

کالی ٹوپی

                           
 
ملک بھر میں دہشت گردی کے سبب سناٹا تھا۔  ایک شادی کے ولیمے کی دعوت تھی ۔ اس خوشی کے موقع پر بھی شرکاء کے چہروں پر خوشی کی بجائے انجانا خوف صاف دکھائی دے رہا تھا ۔ شادی ہال میں میرے ساتھ بیٹھے دوستوں میں سے ایک نے چند ہفتےقبل ہونے والی سکول کی ایک تقریب کا ذکر چھیڑ دیا ۔یہ سکول راولپنڈی میں واقع ہے مگر تقریب اسلام آباد کے ْ محفوظْ مقام کنونشن سنٹر میں ہو رہی تھی۔ میں زندگی میں پہلی بار کسی ایسی تقریب میں شریک تھا جو ان بچوں کے لیے منعقد کی گئی تھی جو چند سال سکول میں گزار کر اس قابل ہو گئے تھے کہ پہلی جماعت میں داخلہ لے سکیں۔ اس تقریب کو سکول نے بچوں کی ْ
Graduation Ceremony
 کا نام دے رکھا تھا۔ بچوں نے باقاعدہ گاون پہنے ہوئے تھے اور سروں پر وہ ٹوپی سجا رکھی تھی۔ جس کے پہننے کی آرزو پوری کرنے کے لیے ہم نے سالوں کالج جانے والے رستے کو صبح و شام ناپا تھا۔اس دن مجھے احساس ہوا کہ یہ کالی ٹوپی صرف نوجوانوں ہی کا نہیں بلکہ پہلی جماعت تک پہنچ جانے والے بچوں کا سر بھی فخر سے بلند کر دیتی ہے۔تقریب کے بعد بچے بھی اپنی ٹوپیاں اچھال رہے تھے۔ ایک بچے نے خوشی کے اظہار میں ٹوپی اچھالی۔ قبل اس کہ وہ واپس بچے تک پہنچتی میں نے اسے ہوا میں ہی پکڑ کر بچے کے سر پر پہنا دیا۔ بچہ میری طرف متوجہ ہوا تو میں نے پوچھا
 ْ مسٹر گریجویٹ یہ کیا ہےْ
 اس نے کہا ْ انکل یہ میری گریجویشن کی ری ہرسل ہے ۔ْ
 اپ کیا بننا چاہتے ہوْ
 جواب بے ساختہ تھا ْ اچھا مسلمان اچھا پاکستانی اور اچھا آئی ٹی گریجویٹ ْ 
ایک پھول کی طرح مسرت و شادمانی سے سرشار خاتون نے مسکراتے ہو ئے کہا ْ مسٹر گریجویٹْ ذیشان میرا بیٹا ہے۔ میں نے کہا ْ ذیشان کے
concepts
 اس عمر ہی کافی
clear
 ہیں۔ یہ آپ کی تربیت کا چمتکار ہے یا سکول نے یہ کارنامہ انجام دیا ہے۔ میری تربیت کا اثر بھی ہو سکتا ہے مگر میں اس کا کریڈٹ ذیشان کے اسکول ہی کو دوں گی ۔ تقریب کے اختتام پر میری اسلام آباد سے راولپنڈی واپسی پرنسپل صاحبہ کے ساتھ بات چیت کا موضوع کلیر اور ان کلیر کونسیپٹ ہی رہا ۔ پرنسپل نے ایک واقعہ سنایا جس کا خلاصہ ہے کہ بچہ والدین اور اساتذہ دونوں کے لیے ایک امتحان ہوتا ہے ،بچہ کامیاب ہو کر اپنی کامیابی کا ہار والدین اور اساتذہ کے گلے میں ڈالتا ہے اور ناکام رہ جانے والا نوجوان اپنی ناکامیوں کا بار والدین اور اساتذہ پر ہی ڈالتا ہے۔ کالی ٹوپی کے بارے میں ان کا کہنا تھاہم بچوں کو گاون اور ٹوپی پہنا کر ان کے ذہن میں ایک تحریک پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ وہ اصلی گریجویشن کی اہمیت جان سکیں۔
ایک واقعہ میں آپ کو سناتا ہوں جس کا خلاصہ یہ ہے کہ والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کا بیٹا یا بیٹی ان سے زیادہ تعلیم حاصل کرے۔ ایک بی اے والد اور ایف اے والدہ کی بیٹی نے ایک دن راولپنڈی کی ایک یونیورسٹی میں ایم اے کی ڈگری پانے کی خوشی میں منعقدہ تقریب کے بعد یونیورسٹی کے لان میں ٹوپی اچھالی تو اس کی ماں نے لپک پر اسے ہوا ہی میں اچک لیا۔اور بیٹی کے سر پر پہنایا، لڑکی نے دوبارہ اس ٹوپی کو اچھالا تو میں نے ہوا میں اچھل کر اسے اچک لیااور اپنے دوست کے سر پر پہنانا چاہا تو اس نے ٹوپی بیٹی کے سر پر پہنا کر کہا۔ یہ ٹوپی میرے قد سے اونچی ہے۔ خوشی سے میرے دوست کا چہرہ گلاب کی طرح کھل رہا تھا۔
 ڈہائی سال کے بعد میں ایک باراسی خاندان کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا مگر اس بار چہرے اترے ہوئے تھے۔ بات ڈھکی چھپی بھی نہ تھی ۔ والدین اپنی بیٹی کی شادی اپنے خاندان میں اپنی پسند کے لڑکے سے کرنا چاہتے تھے ۔ جب کہ لڑکی نے اس شادی سے ماں کے سامنے انکار کر دیا تھا۔ لڑکی کے باپ نے لڑکی کی نانی کو بھلا بھیجا تھا۔ اس کا خیال تھا لڑکی کو نانی راضی کر لے گی۔ مگر نانی سے آتے ہی اپنی بیٹی کو مخاطب کیا۔زیب النساء میں نے تجھے کہا تھا لڑکی نے ایف اے کر لیا ہے اب اس کی شادی کردو۔ اس وقت اس کے باپ کو شوق چڑہا ہوا تھا ماسٹر کرانے کا ۔ میں نے کہا نہیں تھا جب لڑکی کا قد والد ین سے اونچا ہو جائے تو خود سر ہو جایا کرتی ہے ۔ اس کا باپ تو کہا کرتا تھا میں اپنی بیٹی کو خود اعتمادی دے رہا ہوں اب اس میں خود اعتمادی آ گئی ہے تو اس خود اعتمادی کا بوجھ اس سے سنبھالا نہیں جا رہا۔ اس سے پوچھو تو سہی کیااللہ اور اس کے رسول کا دیا ہوا حق اس لیے چھین لینا چاہتا ہے کہ اس کی اکلوتی بیٹی ہے۔ لوگ تو اولاد کو خوشیاں خرید کر دیتے ہیں۔ یہ اپنی ہی بیٹی کی زندگی اجیرن کرنا چاہتا ہے۔ بلاو لڑکی کو کہاں ہے۔ لڑکی کا چہرہ بھی اترا ہوا تھااور نظریں جھکی ہوئی تھیں۔ نانی بولتی ہی گئی بس کرو یہ ٹسوے اور باپ کا سر چومو جس نے تمھیں کالی ٹوپی پہناتے پہناتے گنجا کر لیا ہے ۔ کالی ٹوپی پہن کر بھی اتنی عقل نہیں آئی کہ والدین کو رولایا نہیں قائل کیا جاتا ہے۔
ٓجس شادی ہال میں ہم بیٹھے ہوئے ہیں وہاں قائد اعظم کی تصویر لگی ہوئی ہے جس میں انھوں نے سیاہ جناح کیپ پہن رکھی ہے۔ شادی کی اس تقریب میں دلہن میرے دوست کی بیٹی ہے، اس دلہن کی نانی کے الفاظ  میرے ذہن میں گویا چپک ہی گئے ہیں
 ْ کالی ٹوپی پہن کر بھی اتنی عقل نہیں آئی ۔۔۔رولایا نہیں قائل کیا جاتا ہےْ