ہفتہ، 26 جولائی، 2025

جھوٹ کی دیوار پر کھڑی ریاست — اسرائیل



جھوٹ کی دیوار پر کھڑی ریاست

دنیا کی بہت سی ریاستیں تاریخی حادثات کا نتیجہ ہوتی ہیں، کچھ قوموں کی جدوجہد سے وجود میں آتی ہیں، اور کچھ طاقتوروں کے کاغذی فیصلوں سے جنم لیتی ہیں۔ لیکن ایک ریاست ایسی بھی ہے، جو قیام سے لے کر آج تک جھوٹ کی بنیاد پر قائم ہے۔ وہ ریاست ہے: اسرائیل۔
اسرائیل کا قیام صرف ایک سیاسی فیصلہ نہیں، بلکہ ایک مربوط جھوٹ کا تسلسل ہے — جو تاریخ، مذہب، قانون، اخلاق، اور میڈیا کی چادر میں لپیٹ کر دنیا کو دکھایا گیا۔
صیہونیت کے بانیوں نے ایک جھوٹ پر بنیاد رکھی:
"A land without a people for a people without a land"
یعنی ’’ایسی زمین جو خالی ہو، ایسی قوم کے لیے جو بے گھر ہو۔‘‘
یہ دعویٰ اس وقت کیا گیا جب فلسطین کی زمین پر لاکھوں عرب باشندے — مسلمان، مسیحی اور یہودی — صدیوں سے آباد تھے۔ 1880 کی دہائی میں فلسطینی عرب اس سرزمین کی 95 فیصد آبادی تھے۔ لیکن صیہونی منصوبہ سازوں نے ان سب کی موجودگی کو نظر انداز کر دیا، گویا وہاں کوئی تھا ہی نہیں۔
1917
 میں برطانوی حکومت نے بالفور اعلامیہ کے ذریعے فلسطین میں یہودیوں کے لیے "قومی گھر" کا وعدہ کیا — ایسی زمین کا وعدہ، جو نہ ان کی تھی، نہ خالی، اور نہ برطانیہ کو دینے کا اختیار تھا۔
1948 
میں جب اسرائیل کو ایک ریاست کی حیثیت دی گئی، تو دنیا نے اسے "آزادی" کہا، مگر فلسطینیوں کے لیے وہ دن نَکبہ (تباہی) کا آغاز تھا۔
تقریباً سات لاکھ فلسطینیوں کو بے دخل کیا گیا، 500 سے زائد دیہات و شہر مٹا دیے گئے۔ اور جب پوچھا گیا کہ یہ لوگ کہاں گئے؟ تو کہا گیا: "وہ خود چلے گئے!"
اسرائیل کی تاریخ میں ہر جنگ کو "دفاعی جنگ" قرار دیا گیا — چاہے وہ
 1956
 میں مصر پر حملہ ہو،
 1967
 کی قبضہ گیری ہو، یا آج کا غزہ پر چڑھائی۔
دراصل یہ وہی ریاست ہے، جو پہلے حملہ کرتی ہے، پھر دنیا کے سامنے اپنی مظلومیت کا ڈھول پیٹتی ہے۔
فلسطینی اگر پتھر اٹھائیں تو "دہشت گرد"، اسرائیلی اگر ٹینک چلائیں تو "دفاعی اقدام"۔
صیہونی بیانیہ صرف بندوق سے نہیں، کیمرے اور قلم سے بھی چلتا ہے۔
مغربی میڈیا کا رویہ یہ ہے کہ اسرائیل جب ظلم کرے تو خبریں بنیں:
"Clashes between Palestinians and Israeli forces..."
یعنی "جھڑپیں ہوئیں"، نہ کہ "اسرائیل نے حملہ کیا"۔
معصوم بچوں کے جنازے
 "Colleteral Damage"
 بن جاتے ہیں اور انسانی حقوق محض رپورٹس کی زینت۔
اسرائیل کے قیام کو الہامی حق قرار دینا ایک دھوکہ ہے۔
یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ تورات میں خدا نے یہ زمین بنی اسرائیل کو دی تھی، حالانکہ خود بہت سے یہودی علما مثلاً
 Neturei Karta
 اس ریاست کو مذہب کی توہین سمجھتے ہیں۔
اسلامی عقیدہ بھی یہی ہے کہ زمین صرف ان لوگوں کو دی جاتی ہے جو عدل، امن، اور تقویٰ کے راستے پر ہوں  نہ کہ ظلم، نسل پرستی اور قتل عام کے۔
اقوامِ متحدہ کی کئی قراردادیں اسرائیل کو غیر قانونی بستیوں، قبضے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا مرتکب ٹھہراتی ہیں۔
لیکن یہ کیسی ریاست ہے جو ہر قانون سے بالاتر ہے؟
کیسا انصاف ہے کہ عالمی عدالت میں عام مجرم تو کھینچا جاتا ہے، لیکن اسرائیل کو پوچھنے والا کوئی نہیں؟
اسرائیل صرف ایک ریاست نہیں، یہ جھوٹ کا ایک مربوط نظام ہے:
ایک تاریخی جھوٹ: کہ یہ زمین خالی تھی
ایک اخلاقی جھوٹ: کہ فلسطینی خود ہجرت کر گئے
ایک قانونی جھوٹ: کہ طاقت ہی حق ہے
ایک مذہبی جھوٹ: کہ یہ خدا کی طرف سے دیا گیا ملک ہے
اور ایک انسانی جھوٹ: کہ اسرائیل جمہوریت ہے، ظلم نہیں
یہ سب جھوٹ ایک ایسی عمارت کی بنیاد بنے جو آج بھی فلسطینی لاشوں، ملبوں، اور آنکھوں میں سمٹے خوابوں پر کھڑی ہے۔
کیا ایسی ریاست، جو آغاز سے انجام تک جھوٹ پر قائم ہو، کبھی پائیدار ہو سکتی ہے؟
کیا ظلم کی دیوار پر کھڑی کوئی ریاست تاریخ کے سامنے سرخرو ہو سکتی ہے؟
اور کیا دنیا ہمیشہ خاموش تماشائی بنی رہے گی؟

جرمنی کا کفارہ




"قاتل کا کفارہ یا مفاد کا تقاضا؟ — جرمنی اور اسرائیل کا غیر معمولی رشتہ"

  جرمنی
ایک ایسا ملک جس نے بیسویں صدی کی سب سے بڑی انسانی نسل کشی کا ارتکاب کیا، آج اسی نسل کی قائم کردہ ریاست کا محافظ اور خیر خواہ بن کر دنیا کے سامنے کھڑا ہے۔ جرمنی اور اسرائیل کا تعلق ایک ایسا غیر معمولی سیاسی و اخلاقی مظہر ہے جسے بغیر تاریخی تجزیے کے سمجھنا ممکن نہیں۔
دوسری جنگ عظیم کے دوران، نازی جرمنی کے ہاتھوں ساٹھ لاکھ یہودیوں کو گیس چیمبرز، جبری مشقت، اور منظم قتل و غارت کے ذریعے ختم کیا گیا۔ اس قتل عام کو "ہولوکاسٹ" یا "شوآہ" کہا جاتا ہے، جس نے انسانی تاریخ کو شرمندہ کر دیا۔
جنگ کے خاتمے کے بعد جب جرمنی دو حصوں میں تقسیم ہوا، تو مغربی جرمنی  نے اس جرم کا اعتراف کیا اور خود کو عالمی سطح پر اخلاقی کفارے کے لیے پیش کیا۔
1948 
میں اسرائیل کے قیام کے بعد، 1952
 میں جرمنی اور اسرائیل کے درمیان لکسمبرگ معاہدہ ہوا، جس کے تحت جرمنی نے اسرائیل کو اربوں ڈالر کی مالی امداد دینے کا وعدہ کیا۔ ان رقوم سے اسرائیل نے ریلوے نظام، بجلی گھروں، ہاؤسنگ اسکیموں اور معیشت کی بحالی میں مدد حاصل کی۔
یہ جرمن رویہ بعض حلقوں میں اخلاقی کفارے کے طور پر سراہا گیا، لیکن بہت سے ناقدین نے اسے یہودی لابی کے سیاسی دباؤ اور مغربی بلاک میں اپنی جگہ بنانے کی اسٹریٹجک چال قرار دیا۔
2008
 میں چانسلر اینجیلا مرکل نے اسرائیلی پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہا:
"اسرائیل کی سلامتی جرمنی کی ریاستی پالیسی کا لازمی جز ہے۔"
یہ جملہ معمولی نہیں، بلکہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ جرمنی نہ صرف اسرائیل کی حمایت کرتا ہے، بلکہ اگر کبھی اسرائیل پر جنگ مسلط ہوئی تو جرمنی عملاً اس کے دفاع میں شامل ہو سکتا ہے۔ جرمن اسلحہ، ٹیکنالوجی، سائبر سیکیورٹی اور انٹیلیجنس میں اسرائیل کو مسلسل سہولت دے رہا ہے، جن میں ڈولفن کلاس آبدوزیں شامل ہیں جو ایٹمی ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔
یہ سوال آج بھی قائم ہے کہ آیا جرمنی کی اسرائیل نوازی واقعی ندامت اور توبہ پر مبنی ہے، یا یہ سیاسی و اقتصادی مفادات کا ایک لبادہ ہے؟
جرمنی یورپی یونین میں اسرائیل کا سب سے بڑا تجارتی ساتھی ہے۔
اسرائیل کی ٹیکنالوجی اور انٹیلیجنس مہارت جرمنی کے لیے اہم ہے۔
جرمنی کے اندر یہودی لابی اور امریکہ سے قریبی تعلقات کی خواہش بھی ایک بڑا عنصر ہے۔
جرمنی کی منافقت؟ فلسطین پر خاموشی کیوں؟
یہ وہ نکتہ ہے جہاں جرمنی کا دوہرا معیار سامنے آتا ہے۔
جرمنی جہاں ایک طرف ہولوکاسٹ کا پچھتاوا کرتا ہے، وہیں غزہ، مغربی کنارے، اور فلسطینی بستیوں میں اسرائیل کے مظالم پر یا تو خاموش رہتا ہے یا نرم لہجے میں متوازن موقف اختیار کرتا ہے۔
کیا فلسطینی بچے انسان نہیں؟ کیا اسرائیلی بمباری کے نیچے دبنے والے خاندان ہولوکاسٹ کے سائے میں دفن کیے جا سکتے ہیں؟
جرمن عوام کا بدلتا ہوا نظریہ
دلچسپ بات یہ ہے کہ جرمن حکومت کے برخلاف، عوامی رائے میں اسرائیل کی حمایت کم ہو رہی ہے۔ متعدد سروے ظاہر کرتے ہیں کہ جرمنی کی نئی نسلیں اسرائیل کی طرف غیر مشروط جھکاؤ کو ناانصافی تصور کرتی ہیں اور فلسطینیوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی بڑھ رہا ہے۔
جرمنی نے جو جرم کیا، اس کا کفارہ ادا کرنا لازم تھا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ایک جرم کا کفارہ دوسروں پر ظلم کی چشم پوشی کے ذریعے ادا کیا جا سکتا ہے؟
جرمنی اگر واقعی "کبھی دوبارہ نہیں
" (Never Again)
 کے نعرے پر یقین رکھتا ہے، تو اسے فلسطین، شام، عراق، اور دیگر مظلوم اقوام کے حق میں بھی ویسا ہی واضح اور اخلاقی موقف اختیار کرنا ہوگا جیسا وہ اسرائیل کے لیے کرتا ہے۔
کیا جرمنی کا اسرائیل سے لگاؤ سچ کا اعتراف ہے یا عالمی طاقتوں کا دباؤ؟ فیصلہ قارئین خود کر سکتے ہیں

صیہونیت کا ارتقاء:




صیہونیت کا ارتقاء:
تحریر: دلپزیر احمد جنجوعہ
تاریخ کے صفحات میں کچھ تحریکیں ایسی ہوتی ہیں جو وقت کے ساتھ بدلتی نہیں بلکہ اپنے اندر کئی چہرے  اور روپ چھپائے ہوتی ہیں۔ صیہونیت 
ایسی ہی ایک تحریک ہے، جو مذہبی نعرے سے ابھری، سیاسی مقصد میں بدلی، اور بالآخر ایک جنگی نظریے میں ڈھل گئی۔
صیہونیت کا نام آج بھی دنیا بھر میں تنازع، نسل پرستی، اور جارحیت کی علامت کے طور پر لیا جاتا ہے۔ لیکن یہ ہمیشہ ایسی نہ تھی۔ اس کا آغاز کہاں سے ہوا؟ اس نے کس طرح عالمی حمایت حاصل کی؟ اور آج یہ کس رخ پر کھڑی ہے؟ آئیے اس ارتقائی سفر پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
 صیہون کیا ہے؟
لفظ "صیہون"
 (Zion)
 دراصل یروشلم کے قدیم پہاڑی علاقے کا نام ہے، جسے یہودیوں کے نزدیک روحانی مرکز کی حیثیت حاصل ہے۔
جب "صیہونیت" کی اصطلاح استعمال ہوئی، تو اس کا مطلب تھا: یہودیوں کی اپنے آبائی وطن (فلسطین) میں واپسی کی تحریک۔
لیکن یہ محض واپسی کی بات نہیں تھی، بلکہ ایک سیاسی نظریہ تھا جو جلد ہی ایک ریاست کے قیام کی بنیاد بن گیا۔
 مذہب سے بغاوت پر مبنی آغاز
حیرت کی بات یہ ہے کہ صیہونی تحریک کے بانی تھیوڈور ہرزل
 (Theodor Herzl)
 اور اس کے ساتھی مذہبی یہودی نہیں تھے، بلکہ وہ مغربی یورپ کے سیکولر، لبرل، اور قوم پرست یہودی تھے۔
ہرزل نے اپنی مشہور کتاب
 "Der Judenstaat"
(یہودی ریاست) 1896 میں لکھی، جس میں اس نے کہا:
"یہودیوں کو سیاسی و سماجی تعصب سے نجات دلانے کے لیے انہیں ایک علیحدہ ریاست درکار ہے۔"
یعنی یہ ایک پناہ گاہ کا تصور تھا، نہ کہ دینی حکم۔
یہی وجہ ہے کہ اس وقت کے بہت سے مذہبی یہودی علما نے اس تحریک کی مخالفت کی، کیونکہ وہ اسے "خدا کے فیصلے میں مداخلت" تصور کرتے تھے۔
 مغربی سامراج کی چھتری تلے
صیہونی تحریک کی عالمی شناخت اس وقت بنی جب اسے مغربی سامراجی طاقتوں کی پشت پناہی حاصل ہوئی:
1917
 میں برطانیہ نے بالفور اعلامیہ کے ذریعے فلسطین میں یہودیوں کے "قومی گھر" کے قیام کا وعدہ کیا — حالانکہ فلسطین نہ خالی تھا، نہ برطانیہ کی ذاتی جاگیر۔
صیہونی رہنما برطانوی اور فرانسیسی سفارت کاری کے ماہر بن گئے، اور انہوں نے بین الاقوامی ہمدردی کو سیاسی منظوری میں بدل دیا۔
 ہولوکاسٹ کے بعد اخلاقی جواز
دوسری جنگ عظیم اور ہولوکاسٹ کے بعد عالمی برادری، خاص طور پر یورپ، یہودیوں کے ساتھ ہمدرد ہو گئی۔ صیہونیوں نے اس موقع کو خوب استعمال کیا اور کہا:
’’ہمیں اپنی سرزمین دی جائے جہاں ہم محفوظ رہ سکیں۔‘‘
لیکن جس سرزمین کی بات کی جا رہی تھی، وہ فلسطینیوں کی تھی، جن کا اس قتل عام سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
یوں ظلم کے ازالے کے نام پر ایک نئی قوم پر ظلم کا دروازہ کھول دیا گیا۔
 اسرائیل: صیہونیت کا سیاسی ظہور
1948
 میں جب اسرائیل قائم ہوا تو صیہونیت نے اپنی تکمیل کا پہلا ہدف حاصل کر لیا۔ لیکن اصل ہدف فلسطین پر مکمل کنٹرول تھا۔
صیہونیت نے صرف "وطن کی واپسی" کا خواب نہیں دیکھا تھا، بلکہ ایک نسلی برتری پر مبنی ریاست کا قیام چاہا تھا، جہاں صرف یہودی کو "حقِ حکمرانی" ہو۔
باقی اقوام — خصوصاً فلسطینی — اس تصور میں "غیر موجود" سمجھی گئیں۔
 جدید صیہونیت: ایک جارح نظریہ
آج صیہونیت محض ایک تحریک نہیں، بلکہ ایک نظامِ فکر بن چکا ہے:
یہ صرف فلسطین نہیں، پورے مشرقِ وسطیٰ کو اپنے کنٹرول میں لینے کا نظریہ رکھتا ہے۔
اس کا جدید چہرہ انتہاپسند مذہبی صیہونیت ہے، جو یہودی شریعت کو ریاستی قانون بنانا چاہتی ہے۔
یہ نظریہ آج غزہ، غرب اردن، اور القدس میں ظلم و بربریت کے ذریعے نافذ کیا جا رہا ہے۔
 عالم اسلام کی غفلت
صیہونیت کے ارتقاء کی داستان صرف یہودیوں کی چالاکی نہیں، مسلمانوں کی غفلت، تقسیم اور بے عملی کی بھی ایک المناک داستان ہے۔
عرب ریاستیں مفادات کے پیچھے لگیں، کبھی امریکہ کی گود میں، کبھی اقوام متحدہ کی قرار دادوں کی لوری میں۔
کچھ نے اسرائیل کو تسلیم کر کے "تاریخی سمجھوتہ" کیا، جبکہ اصل میں وہ نظریاتی شکست تھی۔
صیہونیت کا ارتقاء محض ایک قوم کی وطن واپسی کی داستان نہیں، بلکہ یہ مذہب کے لبادے میں چھپا ایک سیاسی منصوبہ ہے، جس نے فلسطین کو ملبے میں بدلا، انصاف کا منہ چڑھایا، اور عالمی ضمیر کو آزمائش میں ڈال دیا۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا دنیا صیہونیت کے اس ننگے چہرے کو پہچانے گی؟
کیا مظلوم فلسطینیوں کی آواز کبھی اس شور میں سنی جائے گی؟
اور کیا اسلام کی امت خواب غفلت سے جاگے گی؟

استنبول کے مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکلنے کی پیشگوئی؟



استنبول کے مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکلنے کی پیشگوئی؟ — ایک صیہونی فریب


کچھ عرصے سے ایک عجیب قسم کی پیشگوئی سوشل میڈیا، یوٹیوب چینلز اور خود ساختہ مذہبی تجزیہ کاروں کے ذریعے پھیلائی جا رہی ہے کہ ’’استنبول (قسطنطنیہ) ایک مرتبہ پھر مسلمانوں سے چھن جائے گا‘‘۔ بعض اسے قیامت کی نشانیوں سے جوڑتے ہیں تو بعض اسے احادیث کا مفہوم بنا کر پیش کرتے ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ سب صیہونی منصوبہ بندی کا حصہ ہے، جس کا مقصد مسلمانوں کو ان کی روحانی اور تاریخی شناخت سے کاٹنا اور انہیں مایوسی، بدگمانی اور بےعملی کی طرف لے جانا ہے۔
اسلام میں قسطنطنیہ (استنبول) کے متعلق سب سے معروف اور متفق علیہ حدیث یہ ہے
(تم ضرور قسطنطنیہ فتح کرو گے، اور کیا ہی بہترین ہوگا وہ امیر، اور کیا ہی بہترین ہوگا وہ لشکر)
(مسند احمد، حدیث نمبر: 18189)
یہ حدیث بلا شبہ سلطان محمد فاتح اور ان کے لشکر پر پوری ہو چکی ہے۔ اس کے بعد، نہ قرآن میں اور نہ کسی صحیح حدیث میں یہ کہا گیا ہے کہ قسطنطنیہ (استنبول) دوبارہ غیر مسلموں کے قبضے میں چلا جائے گا۔ بلکہ کسی بھی حدیث میں اس کے مسلمانوں سے چھننے کی کوئی وضاحت یا اشارہ بھی موجود نہیں۔
یہ بیانیہ ایک گہری نفسیاتی جنگ کا حصہ ہے جسے صیہونی تھنک ٹینکس اور ان کے زیرِ اثر میڈیا چینلز منظم طور پر پھیلا رہے ہیں۔ ان کا مقصد
مسلمانوں میں مایوسی پیدا کرنا،
ان کے تاریخی فخر اور روحانی وابستگی کو مشکوک بنانا،
ترکی جیسے ممالک میں اسلام پسندی کے بڑھتے رجحان کو روکنا،
اور خلافتِ عثمانیہ کی تاریخ کو متنازعہ بنانا ہے۔
یاد رہے، یہ وہی سوچ ہے جو بیت المقدس کو مکمل صیہونی ریاست کا دارالحکومت قرار دینے کے لیے کوشاں ہے اور چاہتی ہے کہ مسلمان اپنے ہی تاریخی مراکز سے لاتعلق ہو جائیں۔
امام سیوطیؒ، ابنِ کثیرؒ اور قاضی عیاضؒ جیسے جید مفسرین اور محدثین نے قسطنطنیہ کی فتح کو آخر الزمان کی علامات میں سے ایک بڑی خوشخبری کے طور پر بیان کیا ہے — مگر دوبارہ کھونے کی کوئی بات نہیں کی۔
شیخ یوسف القرضاویؒ نے بھی ایک بار بیان کیا کہ:
’’قسطنطنیہ کی فتح نبی کریم ﷺ کی سچائی کا زندہ ثبوت ہے، اور جو لوگ اس کی دوبارہ چھن جانے کی جھوٹی افواہیں پھیلاتے ہیں، وہ اسلام کی روح کو نہیں سمجھتے۔‘‘
کچھ لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ استنبول کے دوبارہ غیر مسلم قبضے کی ’’آسمانی کتابوں‘‘ میں پیشگوئی ہے۔ مگر جب عہدِ قدیم (Old Testament) اور عہدِ جدید
 (New Testament)
 کو تحقیق سے پڑھا جائے تو ایسی کوئی پیشگوئی استنبول سے متعلق موجود نہیں ملتی۔
یہودیوں کی سب سے اہم مذہبی کتاب تلمود ہو یا عیسائیوں کی کتابِ مکاشفہ 
(Book of Revelation)
— دونوں میں استنبول کے حوالے سے کوئی مخصوص پیشگوئی نہیں۔
ہاں، مسیحی صلیبی روایات میں روم کو دوبارہ مسیحی مرکز بنانے کی خواہش ضرور بیان کی گئی ہے، مگر وہ بھی علامتی اور غیر مستند روایات پر مبنی ہے۔
کچھ افراد نے استنبول کے دوبارہ کھو جانے کی جھوٹی پیشگوئیوں کو غیر مسلم مصنفین کے تجزیاتی ناولوں، افسانوی کتابوں یا
 "End Times Prophecies"
 پر مبنی یوٹیوب چینلز سے لیا ہے۔ ان میں
Hal Lindsey
کی کتاب 
The Late Great Planet Earth
Tim LaHaye 
کی مشہور ناول سیریز
 Left Behind
اور
 Evangelical Christians
 کی ویب سائٹس شامل ہیں۔
یہ سب تاریخی حقیقت کے بجائے مذہبی افسانویات 
(mythologies)
 اور مذہبی شدت پسندی کی عکاس ہیں۔
آج کا استنبول ایک بار پھر اسلامی شناخت کی طرف لوٹ چکاہے
  ترک نوجوانوں میں خلافتِ عثمانیہ سے محبت، اور ترکی میں اسلامی اقدار کی واپسی — یہ سب کچھ صیہونی منصوبہ سازوں کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔
لہٰذا وہ ’’استنبول کھو جائے گا‘‘ جیسے افسانے پھیلا کر مسلمانوں کو بددل کرنا چاہتے ہیں۔
استنبول کے مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکلنے کی کوئی پیشگوئی نہ قرآن میں ہے، نہ کسی صحیح حدیث میں، نہ تورات یا انجیل میں۔ یہ بیانیہ صیہونی دماغوں کی گھڑی ہوئی سازش ہے تاکہ مسلمانوں کو مایوس اور تقسیم کیا جائے۔
مسلمانوں کو چاہیئے کہ وہ ایسے افسانوی بیانیات کو رد کریں، اسلامی تعلیمات اور اپنی تاریخ پر بھروسہ کریں، اور استنبول سمیت ہر اسلامی مرکز کے تحفظ و وقار کے لیے فکری و عملی جدوجہد جاری رکھیں۔




جمعہ، 25 جولائی، 2025

اپنے آپ سے محبت کرنا سیکھیں۔

اپنے آپ سے محبت کرنا سیکھیں۔
ہم ایک ایسے دور میں زندہ ہیں جہاں انسانی صحت کے لیے سب سے بڑا خطرہ نہ بھوک ہے، نہ بیماری — بلکہ مایوسی ہے۔ یہ مایوسی محض ذاتی کیفیت نہیں رہی، بلکہ ایک اجتماعی وائرس بن چکی ہے، جو ہماری سوچوں، رویوں، سوشل میڈیا اور یہاں تک کہ عبادات تک میں در آیا ہے۔ افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ اس بیماری کے پھیلاؤ میں سب سے بڑا کردار وہ لوگ ادا کر رہے ہیں جو خود کو فکری رہنما یا روحانی انسان سمجھتے ہیں۔
روحانی زندگی میں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو بظاہر زہد و تقویٰ کی علامت بنے بیٹھے ہوتے ہیں، مگر درحقیقت وہ اپنی زندگی سے بدظن ہو چکے ہوتے ہیں۔ نہ اچھا لباس پہنتے ہیں، نہ صحت مند کھانا کھاتے ہیں، نہ صفائی ستھرائی کا خیال رکھتے ہیں، اور نہ ہی اپنے چہرے پر زندگی کی کوئی رمق باقی رکھتے ہیں۔ ایسے لوگ نہ صرف خود اندر سے خالی ہو چکے ہوتے ہیں، بلکہ دوسروں کو بھی جینے کا حوصلہ چھین لیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں نا:
"مایوسی ایک ایسی آگ ہے جو صرف جلانے والے کو نہیں، آس پاس کے سب کو جلا دیتی ہے۔"
یہ لوگ نہ صرف حقیقی زندگی میں، بلکہ سوشل میڈیا پر بھی نظر آتے ہیں۔ ان کی وال پر جائیں تو ہر پوسٹ میں ایک ہی راگ ہوتا ہے:
دنیا تباہ ہو چکی ہے، مسلمان ناکام ہو چکے ہیں، سب کچھ برباد ہو چکا ہے، اگر فلاں یوں کر لیتا تو یوں ہو جاتا، اگر 57 ملک مل کر خلافت قائم کر لیں تو… اگر فلاں پارٹی اقتدار میں آ جائے تو انقلاب آ جائے… وغیرہ وغیرہ۔
یاد رکھیے!
"اگر" کے سہارے جینے والے ہمیشہ "کاش" کے دکھ میں مرتے ہیں۔
یہی وہ لوگ ہوتے ہیں جو خود کوئی عمل نہیں کرتے اور دوسروں کو بھی عمل سے روکتے ہیں۔ علامہ اقبال نے ایسے ہی لوگوں کو نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا:
"باقی نہیں ہے بندۂ حر مست"
یعنی وہ انسان جو جوشِ عمل کھو بیٹھا ہو، وہ حقیقتاً مردہ ہے، چاہے جسمانی طور پر زندہ ہو۔
ایسے میں سب سے پہلی ذمہ داری آپ کی اپنی ذات ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ زندگی میں بہتری آئے تو سب سے پہلے اپنے آپ سے محبت کرنا سیکھیں۔
صاف ستھرا لباس پہنیں، متوازن غذا کھائیں، جسم کی صفائی کا خاص خیال رکھیں، خوشبو لگائیں، خوش اخلاقی اپنائیں۔
یہ سب چیزیں نہ صرف ظاہری خوبصورتی میں اضافہ کرتی ہیں بلکہ باطنی سکون، خود اعتمادی اور روحانی تازگی کا باعث بھی بنتی ہیں۔
دوسری بات یہ کہ اپنے اردگرد ایسے لوگوں کو تلاش کریں جو زندگی کے پیامبر ہوں۔ وہ جو ہر وقت ماضی کے زخموں کو کریدنے کے بجائے حال کو سنوارنے اور مستقبل کو روشن کرنے کی بات کریں۔
سوشل میڈیا پر بھی صرف اُن صفحات اور افراد کو فالو کریں جو آپ کو آگے بڑھنے، مثبت سوچنے، اور جینے کا حوصلہ دیں۔
جو صرف ماضی کے جھگڑوں، فرقہ واریت، سیاسی نفرت یا عالمی سازشوں کی دہائی دیتے ہوں، ان سے ایسے دور ہو جائیں جیسے کوا غلیل سے بھاگتا ہے۔
ایک خوبصورت قول ہے:
"Man is known by the company he keeps"
اور اسی طرح یہ بھی سچ ہے کہ:
"زندگی اُن کے ساتھ بسر کریں جو آپ کو جینا سکھائیں، مرنے کا نہیں"
لہٰذا، فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے:
آپ زندگی کے سفیر بننا چاہتے ہیں یا مایوسی کے سوداگر؟
آپ وہ چراغ بننا چاہتے ہیں جو روشنی پھیلاتا ہے یا وہ سایہ جو ہر روشنی کو نگل جاتا ہے؟
یاد رکھیں،
جو وقت کی قدر نہیں کرتا، وقت اُسے مٹی میں ملا دیتا ہے۔
زندہ رہنے کا سلیقہ اپنائیے، اپنی ذات سے محبت کیجیے، اور دوسروں کو بھی جینے کا حوصلہ دیجیے۔