اتوار، 7 دسمبر، 2025

کارل مارکس — پاکستانی اہلِ فکر کی نظر میں





 کارل مارکس — اہلِ فکر کی نظر میں
1. علامہ محمد اقبال
"مارکس کا دردِ انسانیت سچا ہے، مگر اس کی دنیا میں روحانی ارتقاء کا چراغ بجھا ہوا ہے۔ وہ معاشی عدل تو چاہتا ہے، مگر انسان کی باطنی پرواز کو سمجھ نہیں سکا۔ اس کا اشتراکیت مادہ پرستی کی اسیر ایک نامکمل دنیا پیش کرتی ہے۔"
2. ڈاکٹر مبشر حسن 
"مارکس نے سرمایہ دارانہ استحصال کا جو نقشہ کھینچا، پاکستان جیسے معاشروں میں وہ آج بھی جوں کا توں نظر آتا ہے۔ ہمارے ہاں طاقت کے تمام مراکز اسی معاشی جبر سے جنم لیتے ہیں۔"
3. ڈاکٹر پرویز ہود بھائی 
"مارکس کے معاشی تجزیے کی سائنسی گہرائی حیران کن ہے۔ تاہم انسانی آزادی، جمہوریت اور علمی تنوع کے بغیر مارکسی معاشرہ بھی جمود کا شکار ہو جاتا ہے۔ پاکستان میں اس کے نظریات اکثر جذباتی نعروں تک محدود رہے۔"
4. ڈاکٹر محمد حنیف رامے 
"مارکس کی فکر نے محکوم طبقات کو زبان دی۔ مگر پاکستان جیسے ملک میں اس کی تعبیر کو صرف سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا، فلسفیانہ بنیادوں پر نہیں۔"
5. احمد بشیر 
"مارکس نے انسان کے دکھ کو معاشی زاویے سے دیکھا، جو اپنی جگہ درست تھا، مگر ہمارے معاشرے میں دکھ کی تہیں کہیں زیادہ پیچیدہ اور تہذیبی ہیں۔ یہاں صرف معاشی انقلاب کافی نہیں ہوتا۔"
6. فیض احمد فیض 
"مارکس نے ظلم کی وہ شکلیں دکھائیں جو عام آنکھ نہیں دیکھ سکتی۔ اس نے مزدور اور کسان کو تاریخ کا اصل ہیرو بنایا۔ ہمارے ادب میں جو انقلابی روشنی ہے، اس کی جڑیں مارکس کی فکر تک جاتی ہیں۔"
7. حبیب جالب
"مارکس نے ہمیں بتایا کہ ظلم کے سامنے خاموشی بھی جرم ہے۔ اس کے نظریات نے ہمیں طاقت کے ایوانوں سے سوال کرنے کا حوصلہ دیا۔"
8. ڈاکٹر خالد جاوید 
"مارکس نے سماجی ڈھانچے کی جو تشریح کی، وہ برِصغیر کے جاگیردارانہ نظام پر بھی پوری اترتی ہے۔ ہمارے یہاں طبقاتی تقسیم اور طاقت کا کھیل اسی کے بیان کردہ اصولوں پر چلتا ہے۔"
9. ڈاکٹر اعجاز احمد 
"مارکس کو صرف معاشیات تک محدود کرنا غلط ہے؛ وہ تاریخ، ادب، ثقافت اور سیاست سب کے اندر چھپے رشتوں کو بے نقاب کرتا ہے۔ جنوبی ایشیا میں اس کی تعبیرات کئی شکلیں اختیار کرتی ہیں۔"
10. عابد حسن منٹو 
"مارکس نے قانون اور انصاف کے پیچھے کارفرما طبقاتی قوتوں کو آشکار کیا۔ پاکستان کے عدالتی ڈھانچے کو سمجھنے کے لیے اس کی فکر آج بھی ناگزیر ہے۔"
11. ڈاکٹر لئیق احمد 
"مارکس کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے فکر کو عمل سے جوڑا۔ نظریہ اگر انسان کے دکھ میں کارآمد نہ ہو تو بے معنی ہے۔"
12. امجد اسلام امجد 
"مارکس کا تصورِ عدل خوبصورت ہے، مگر انسان صرف روٹی سے نہیں بنتا—وہ محبت، خوف، خواب اور روحانیت سے بھی جڑا ہے۔ یہی وہ پہلو ہے جسے ادب نے ہمیشہ مارکسزم سے زیادہ بہتر سمجھا۔"
13. ڈاکٹر مقصود علی 
"پاکستانی سماج میں سرمایہ داری اور جاگیرداری ایک ساتھ چلتی ہیں؛ مارکس کے اصولوں کا ان کے باہمی ملاپ پر اطلاق بہت اہم ہے۔ اس نے جو تضادات دکھائے وہ آج بھی موجود ہیں۔"
14. ڈاکٹر راشد شاز 
"مارکس کے سوال درست تھے، مگر اس کے جواب ادھورے۔ انسان کو بدلنے کے لیے صرف ڈھانچے نہیں، اخلاقی بنیادیں بھی درکار ہوتی ہیں۔"

سماع و وجد


 

سماع و وجد


پتھر لوہے سے ٹکراتا ہے تو آگ جنم لیتی ہے جو ان میں پہلے ہی سے پوشیدہ تھی ۔ دل میں موجود عشق جب سماع و ذکر سے ٹکراتا ہے تو وجد کی حرارت پیدا ہوتی ہے ۔ عشق نبی اور ذکر اللہ کی حرارت آگ کی مانند ہے اور اس کے شعلوں کا نام وجد و حال ہے ۔ جب عاشق حقیقی کے سامنے محبت و دوستی کا ذکرہوتا ہےتو اس کے اندر ذکر کی گرمی اسے لطف دیتی ہے جب جب ذکر بڑہتا ہے شعلہ بلند بوتا جاتا ہے ۔ کیف و سرور جب برداشت سے بڑہ جاتا ہے تو گرمی عشق بصورت وجد ظاہر ہوتی ہے ۔ دودھ کو مخصوص مقدار سے زبادہ حرارت دی جائے تو وہ ابلتا اور چھلکتا ہے ۔ فرمان نبی اکرم ہے کہ برتن سے وہی کچھ ٹپکے گا جو کچھ اس میں ہو گا ۔ عاشق کا عشق جب ابلتا اور چھلکتا ہے تواس کو وجد کا نام دیا جاتا ہے ۔ 
حضرت سخی سلطان باہو رحمۃ اللہ نے ققنس نام کے ایک پرندے کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ لکڑیاں اکٹھی کر کے اپنا گھر بناتا ہے اور جب اس کا گھر مکمل ہو جاتا ہے تو وہ ان قلعہ نما گھر میں مقید ہو کر بیٹھ جاتا ہے اور ذکر شروع کرتا ہے ۔ اس کے ذکر کی گرمی سے حرارت پیدا ہوتی ہے جو اس کو مست کر دیتی ہے ۔ جوں جوں کیف و مستی میں اضافہ ہوتا ہے  توں توں ذکر کی گرمی بھی بڑہتی ہے ۔ پھر اس حرارت سے آگ پیدا ہوتی ہے جو اس کے قلعے کو جلا دیتی ہے ۔ گھر کے ساتھ یہ خود بھی جل کرراکھ ہو جاتا ہے ۔ 
اس راکھ پر جب بارش برستی ہے تو اس سے انڑہ پیدا ہوتا ہے پھر اس سے بچہ پیدا ہوتا ہے اور جب بچہ جوان ہو جاتا ہے تو وہ بھی اپنے باپ کی طرح لکڑیاں اکٹھی کرتا ہے اور اسی انجام سے دوچار ہوتا ہے ۔
 عاشق لوگ اپنے دل کے ہاتھوں معذور گردانے جاتے ہیں ۔ کبھی غور تو کرو محفل میں کچھ لوگ کیف و مستی کی صراحیاں پی جاتے ہیں اور وہ اپنے صحو کو قائم رکھتے ہیں اور کسی کو ذکر کے چند جام ہی بے خودی میں دھکیل دیتے ہیں ۔ اپنا اپنا ظرف ، مقام اور وقت ہوتا ہے ۔ 
سالک کا دل کھیت کی مانند ہوتا ہے ۔ کسان بیج کو مٹی میں چھپا دیتا ہے ۔ نظروں سے غائب بیچ کو موافق ماحول میں رطوبت ملتی ہے تو پودا بننا شروع ہو جاتا ہے . جس نے کسی رہنما کی سرپرتی میں راہ سلوک میں قدم رکھ لیا تو بیج اس کے دل میں پیوستہ کر دیا گیا ۔ جب اس بیج کو موافق ماحول میں روحانیت کی رطوبت ملتی ہے تو اس بیج کی بڑہوتی شروع ہو جاتی ہے ۔ 'الف۔ اللہ چنبھے دی بوٹی ' میں صاحب کلام نے اسی حقیقت کو بیان کیا ہے ۔ 
ادراک  و  ورود  دو مختلف کیفیات ہیں ۔ ایک کا تعلق کتابوں سے ہے جبکہ دوسری کا تعلق صحبت سے ہے ۔ ایک شاعر نے کہا ہے کہ پیالے سے ناپنا ایک ہنر ہے مگر کیف و مستی اور سرور پیالہ پینے کے بعد ملتا ہے ۔
 نقل ہے کہ ایک سالک بازار سے گذر رہا تھا کسی نے آواز لگائی ایک کی دس ککڑیآں ۔ سالک پر وجد طاری ہو گیا ۔ لوگوں نے کہا یہ کیسا حال ہے ۔ اس نے کہا جب دس نیک لوگوں کی قیمت ایک ہے تو گناہگار کی قیمت کیا ہو گی ۔
 کوہستانی علاقوں میں ساربان اونٹوں پر ثقیل بوجھ لاد کر انھیں 'ھدی' سناتے ہیں تو زیربار اونٹ وجد کی مستی سے بھاگ پڑتے ہیں ۔ صوت داودی وجد ہی تو پیدا کرتی تھی ۔ ذکر سے دل میں قرار اور دماغ پر خفقانی اثرات غالب ہو جانے ہیں اور جب اضطراب قوت برداشت سے باہر ہو جاتا ہے تو رسم و ادب اٹھ باتا ہے ۔ اس وقت یہ خفقانی حرکات نہ مکر ہوتا ہے نہ اچھل کود بلکہ اضطنرابی کیفیت کا عالم ہوتا ہے اور انتہائی بھاری لمحات ہوتے ہیں ۔ اگر اس کیفیت کی تشریح محال ہے تو اس کا انکار بھی ناممکن ہے ۔
 اور حرکات اگر اضطراب کے باعث ہیں تو امام غزالی کا سماع کے رقص کے بارے میں یہ قول یاد رکھنا چاہیے ' رقص کا حکم اس کے محرک پر محمول ہے اگر محرک محمرد ہے تو رقص بھی محمود ہے ' اور وجد کا سبب اگر ذکر ہے تو ذکر محمود ہی نہیں سعید پھی ہے ۔
 شیخ عبد الرحمن نے اپنی کتاب السماع میں لکھا ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہہ سے روایت ہے کہ ہم نبی اکرم صل اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس تھے کہ حضرت جبریل تشریف لائے اور کہا یا رسول اللہ آپ کو بشارت ہو کہ آپ کی امت کے درویش و فقیر، امیروں کے اعتبار سے پانچ سو برس پیشتر جنت میں داخل ہوں گے ' ۔ یہ خوش خبری سن کر نبی اکرم صل اللہ علیہ و آلہ و سلم خوش ہو گئے اور فرمایا کوئی ہے جو شعر سناے ۔ ایک بدوی نے کہا ہاں ہے یا رسول اللہ ۔ آپ نے فرمایا آو آو اس نے شعر پڑہے ۔
 ' میرے کلیجے پر محبت کے سانپ نے ڈس لیا ہے ، اس کے لیے طبیب ہے نہ کوئی جھاڑ پھونک والا ۔ مگر ہاں وہ محبوب جو مہربانی فرماے ، اس کے پاس ان کا تریاق اور منتر ہے " یہ سن کر نبی اکرم صل اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تواجد فرمایا اور جتنے اصحاب وہاں موجود تھے سب وجد کرنے لگے ۔ یہاں تک کہ آپ کی رداے مبارک دوش مبارک سے گر پڑی ۔ 
جب اس حال سے فارغ ہوے معاویہ بن ابی سفیان نے کہا ۔ ' کتنی اچھی ہے آپ کی یہ بازی یا رسول اللہ ' آپ نے فرمایا ' دور ہو اے معاویہ وہ شخص کریم نہیں ہے جو دوست کا ذکر سنے اور جھوم نہ اٹھے ' پھر رسول اللہ کی ردا میارک کے چار سو ٹکڑے کر کے حاضرین میں تقسیم کر دیے گے ۔
حضرت ابو سعید ابو الخیررحمۃاللہ سے منقول ہے کہ جب فقیر ہاتھ پر ہاتھ مارتا ہے تو شہوت اس کے ہاتھ سے نکل جاتی ہے ۔ جب زمین پر پاوں مارتا ہے تو پاوں سے شہوت نکل جاتی ہے ۔ جب نعرہ مارتا ہے باطن کی شہوت نکل جاتی ہے ۔ 
روایات میں ہے کہ حضرت موسی علیہ السلام کے وعظ کے دوران کسی نے نعرہ مارا ۔ حضرت موسی علیہ السلام نے اس پر ناراضگی کا اظہار کیا ۔ آللہ تعالی نے فرمایا ۔ وہ میری محبت میں نعرہ مارتے ہیں ۔ میری محبت میں روتے چلاتے ہیں اور میرے قرب سے راحت پاتے ہیں ۔ تم ان کو مت جھڑکا کرو۔ 
جو لوگ مقام و ادب کا خیال رکھنے کی تاکید کرتے ہیں وہ یہ حقیقت کیوں بھول حاتے ہیں کہ جب برتن کو ابالا جائے گا تو اس کا ٹپکنا لازم ہے ۔
 جہاں تک بدعت کا تعلق ہے حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ نے فرمایا ہے جو عمل سنت کی جگہ لے وہ بدعت ہے ۔ بدعت کا ثمر یہ ہے کہ وہ سنت سے محروم کر دیا جاتا ہے ۔ امام شافعی رحمۃ اللہ کے بقول نماز تراویح با جماعت کی ابتداء حضرت عمر رضی اللہ عنہہ نے کی ۔ اس سے اہل علم کوئی سنت ٹوٹتی نہیں پاتے ۔ اصحاب رسول ، نبی اکرم صل اللہ علیہ و آلہ و سلم کی آمد پر کھڑے نہ ہوتے تھے مگر جب حضرت فضل دین کلیامی نے اپنے جنازے کے امام حضرت قبلہ پیر مہر علی شاہ رحمۃ اللہ کا کھڑے ہو کر استقبال کیا تھا تو کون سی سنت ٹوٹی تھی ۔
 سماع و وجد وہ پر خطر راہ ہے کہ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ نے اس کی حوصلہ افزائی نہیں کی ۔ مگر سکر کی کیفیت سے انکار ممکن نہیں ہے ۔یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ یہ قریہ بلا ہے اور امان صرف بصیر کے زیر بصارت رہنے ہی میں ممکن ہے ۔

مایوسی کا عالمی جال




 مایوسی کا عالمی جال

دنیا آج ایک ان دیکھے محاذ پر لڑ رہی ہے—ایک جنگ جو نہ توپ، نہ ٹینک، نہ سرحدوں کی ہے۔ یہ جنگ انسانی ذہن، دل اور ایمان کی ہے، اور سب سے مہلک ہتھیار مایوسی ہے۔
"اللہ کی رحمت سے نا امید نہ ہو" — الزمر 53
 خوف کی گہری چھاؤں
عالمی میڈیا، سوشل نیٹ ورکس اور سیاسی بیانیے مسلسل خوف اور منفی سوچ پھیلا رہے ہیں۔
نیوروسائنس کے مطابق:
منفی خبریں
تیز رفتار اطلاعات
خوف پر مبنی بیانیے
دماغ میں ایسے کیمیکل خارج کرتے ہیں جو انسان کو مایوس، بے بس اور غیر مؤثر بنا دیتے ہیں۔
قرآن میں اس کیفیت کو ’’قنوط‘‘ اور ’’یأس‘‘ کہا گیا ہے، اور آج یہ عالمی ذہنی جنگ کا بنیادی ہتھیار بن چکی ہے۔
  ذہن پر حکومت
پروپیگنڈہ صرف جھوٹ نہیں، بلکہ ایک سائنس ہے، جس کے اصول یہ ہیں:
خوف پیدا کرنا: الجھا دو، ڈراؤ، بے بس کر دو۔
جھوٹ کی تکرار: بار بار دہرانے سے جھوٹ سچ لگنے لگتا ہے۔
معلومات کی بھرمار: ذہن تھک جاتا ہے، سوچنے کی طاقت کمزور ہو جاتی ہے۔
احساسِ کمتری: سب کامیاب ہیں، ہم پیچھے ہیں۔
مسلسل بے چینی
FOMO (Fear of Missing Out) 
ایک عالمی ذہنی بیماری بن چکی ہے۔

"وہ اللہ کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں" — الصف 8
 دین، سائنس اور امید کا ملاپ
حیرت انگیز طور پر قرآن، حدیث، تصوف اور جدید نیوروسائنس سب ایک ہی بات کہتے ہیں:
ذکر اور تلاوت: دماغ کو پرسکون، دل کی دھڑکن کو متوازن اور بے چینی کم کرتے ہیں۔
"أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ"
توکل: یقین رکھنے والے افراد میں سٹریس ہارمونز 45٪ تک کم ہوتے ہیں۔
امید: ڈوپامین زندگی کا محرک ہے اور قرآن اسی امید کو ایمان کا حصہ بناتا ہے۔
 روشنی کی طرف سفر
یہ جنگ ذہن اور دل کی ہے۔ قرآن کا نسخہ واضح ہے: خوف کو رد کرو، امید اپناؤ، نور کی طرف دیکھو، اور شعور زندہ رکھو۔
"اللہ اپنا نور مکمل کر کے رہے گا" — الصف 8
دنیا جتنا بھی ظلمت بچھائے، روشنی کی راہ باقی رہے گی، اور وہی کامیاب ہوگا جو مایوسی کے جال کو پہچان لے اور امید، ایمان اور شعور کے ساتھ زندگی کی راہ پر گامزن ہو۔


جمعرات، 27 نومبر، 2025

رسول اللہ کا محسن

رسول اللہ کا محسن
طائف کی سرزمین آج بھی تاریخ کے وہ زخم اپنے خشک میدانوں میں سنبھالے بیٹھی ہے، جہاں رسول اللہ ﷺ پر سنگ برسائے گئے، جہاں گلیوں میں لڑکوں کو شہہ دے کر اس کاینات کے وحید صادق ا امین کو ایسا لہولہان کیا گیا، کہ صاحب کرسی و سماوات نے فرشتہ نازل فرما کر اپنا قہر نازل کرنا چاہا ۔۔۔۔لیکن شاید تاریخ کا سب سے کٹھن لمحہ وہ نہیں تھا جب پتھر لگے۔ اصل اذیت وہ تھی جب آپ ﷺ مکہ کے دروازے پر کھڑے تھے، وہی مکہ جو آپ کا شہر تھا، آپ کا گھر تھا، مگر قریش کا فیصلہ تھا:
"محمد ﷺ بغیر پناہ کے مکہ میں داخل نہیں ہو سکتے۔"
یہ اعلان اس زمانے کے سماجی ڈھانچے کا آئینہ تھا۔ مکہ میں ’’جوار‘‘ یعنی پناہ، اس وقت کی دستوری ضمانت تھی۔ جسے جوار نہ ملتا، اس کی جان بھی محفوظ نہ ہوتی۔ اور طائف کے سفرِ اذیت کے بعد یہ دوسرا دروازہ بھی بند ملا۔
رسول اللہ ﷺ نے دو سرداروں کو جوار کا پیغام بھیجا
سہیل بن عمرو، حارث بن حرب—دونوں نے انکار کر دیا۔
مکہ کے دروازے پرایک مسلسل ناامیدی تیر رہی تھی۔ پھر رسول اللہ نے اس شخصیت کو پیغام بھیجا جس نے چند سال قبل بنی ہاشم کے معاشرتی بائیکاٹ کے خلاف آواز اٹھائی تھی۔ اور صحیفۂ مقاطعہ کو پھاڑنے والوں کی حوصلہ افزائی کی تھی ۔۔۔ یہ شخسیت تھی ۔۔۔۔ مطعم بن عدی۔۔۔۔۔۔ بنو نوفل کا سردار، ایک ایسا شخص جومزہب کے اختلاف کے باوجود انصاف کی حرمت پر یقین رکھتا تھا۔
مطعم بن عدی نے جواب دیا: "آؤ محمد ﷺ، تم میرے جوار میں ہو۔"
یہ صرف لفظی اعلان نہ تھا۔ مکہ کے داخلی راستے پر مطعم نے اپنے بیٹوں،
بھائیوں اور قبیلے کے کئی افراد کو ہتھیاروں کے ساتھ لا کر کھڑا کیا۔ خود اونٹ پر سوار ہوئے اور کعبہ کے پاس آ کر اعلان کیا: "محمد ﷺ میرے جوار میں ہیں، خبردار! ان پر کوئی ہاتھ نہ اٹھائے۔"
رسول اللہ ﷺ شہر میں داخل ہوئے۔ سب سے پہلے کعبہ کا ظواف کیا۔۔۔۔
قریش کے چہروں پر حیرانی، خاموشی اور اک تحفظ کا بوجھ تھا۔
مطعم بن عدی بن نوفل بن عبد مناف قریش کے بڑے اور معزز خاندان بنو نوفل کے سردار تھے۔ ان کا نسب عبد مناف تک پہنچتا تھا، یعنی وہ قریش کے ممتاز خانوادے سے تھے، وہی خاندان جس سے ہاشم، عبد شمس اور مطلب جیسے بڑے سردار نکلے تھے۔
مطعم بن عدی ایک ممتاز ’’حلیفِ انصاف‘‘ کے طور پر جانے جاتے تھے۔
قریشی معاشرے کے قبائلی فیصلوں میں ان کی رائے انتہائی معتبر تھی
وہ ’’دارالندوہ‘‘ کے مستقل رکن تھے ۔ قریش ان کی بات کو سیاسی اور سماجی وزن دیتے تھے ۔ اعلیٰ اخلاق اور باکمال شرافت ان کی پہچان تھی
ان کا گھر قریش کی مجلسِ شوریٰ اور اہم قبائلی فیصلوں کا مرکز سمجھا جاتا تھا۔
مطعم بن عدی کی عظمت تین بنیادوں پر قائم ہے:
(1) اخلاقی جرات : انہوں نے رسول اللہ ﷺ کا ساتھ مذہب نہیں بلکہ انصاف کی بنیاد پر دیا، وہ بھی ایسے وقت میں جب قریش کی پوری طاقت آپ ﷺ کے خلاف صف آراء تھی۔
(2) انسانی وقار کی پاسداری: ان کا کردار ثابت کرتا ہے کہ اخلاق ایک آفاقی قدر ہے، اور نبی ﷺ نے اس قدر کو مذہب سے بالا قرار دے کر سراہا۔
(3) تاریخ کا واحد غیر مسلم جسے نبی ﷺ نے اس انداز میں خراجِ تحسین پیش کیا کہ
۔۔۔۔ سالوں بعد، غزوۂ بدر کے موقع پر جب مشرکین کے قیدی رسول اللہ ﷺ کے سامنے لائے گئے تو آپ ﷺ نے ایک جملہ کہا جو تاریخ میں مطعم کے مقام کو امر کر گیا: آپ ﷺ نے فرمایا: "اگر مطعم بن عدی زندہ ہوتے اور ان قیدیوں کے بارے میں سفارش کرتے، تو میں احترام میں سب کو بغیر فدیہ کے آزاد کر دیتا۔" (صحیح بخاری)
مطعم اسلامی تاریخ کا وہ "غیر مسلم محسن" ہے جس کے کردار پر خود رسول اللہ ﷺ نے مہرِ تصدیق ثبت کی۔

بدھ، 26 نومبر، 2025

زمین میں چل پھر کر دیکھو کہ اللہ نے مخلوق کی ابتدا کیسے کی۔



خالقِ کائنات نے علم کو اپنی امانت بنا کر انسان کو تلاش کا شوق دیا ہے۔ جب انسان کھوج کے سفر پر نکلتا ہے تو علم کی نئی جہات اس پر وا ہونے لگتی ہیں، اور ذہن کا افق روشن ہوتا جاتا ہے۔ یہی نورِ علم "حقیقت" کے پردے چاک کرتا ہے اور دیکھنے والے پر وہ راز کھلنے لگتے ہیں جو عام نگاہوں سے اوجھل رہتے ہیں۔
“زمین میں چل پھر کر دیکھو کہ اللہ نے مخلوق کی ابتدا کیسے کی۔”
(العنکبوت: 20)
 رسول اللہ ﷺ حقیقت کی طلب میں یہ دعا مانگا کرتے تھے:
“اے اللہ! چیزوں کی حقیقت مجھے ویسی ہی دکھا جیسے وہ ہے۔”

علم کی اس روشنی نے کئی بڑے اذہان کا رخ بدل دیا۔ وہ لوگ جو ابتدا میں الحاد اور انکار کے مسافر تھے، تحقیق کے سفر میں آگے بڑھتے گئے تو کائنات کی "حکمت" نے انہیں مجبور کیا کہ کسی "عظیم خالق" کا اعتراف کریں۔ 
 ، ان علماء (اہل علم) میں
, اینٹونی فلیو
،آلن سینڈیج
،فریڈ ہوئل
،فرانسس کولنز
 ،ڈین کینیون
 ،الیسٹر میک گراتھ
 ،پال ڈیوس
 ،آرنو پینزیاس
 ،جے پول کنگھورن
 ،پیٹرک گلن
 ،البرٹ آئن اسٹائن
 ،ورنےر ہائزنبرگ
 ،ماکس پلینک
،رابرٹ جیسٹرو
اور
جوہانس کیپلر
جیسے سائنس دان شامل ہیں
یہ وہ مسافر تھے جنہیں آخرکار علم نے وہ دکھایا جو صرف آنکھ نہیں، بینائی مانگتا ہے—اور بینائی وہی پاتا ہے جو تلاش میں نکلے۔