اتوار، 9 نومبر، 2025

منفی سوچ — ایک بیماری

منفی سوچ — ایک بیماری
ہم زندگی میں خوشی اور سکون کی جتنی تلاش کرتے ہیں اتنی شاید ہی کسی اور چیز کی کرتے ہوں۔ مگر اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ہم خود ہی اپنے سکون کے دشمن بن جاتے ہیں۔ ہمارے خیالات، گمان اور رویّے — یہی وہ نادیدہ قوتیں ہیں جو یا تو زندگی کو خوبصورت بناتی ہیں یا اسے تلخ کر دیتی ہیں۔
مثبت سوچ زندگی کو آسان بناتی ہے، جبکہ غلط فہمیاں فاصلوں کو جنم دیتی ہیں۔ اگر ہمیں دوسروں میں خوبیاں نظر آنا بند ہو جائیں تو سمجھ لیں کہ ہم منفی سوچ کی "بیماری" میں مبتلا ہیں۔ یہ ایک خاموش بیماری ہے مگر بہت تباہ کن۔ یہ نہ صرف ہمارے تعلقات کو زہر آلود کرتی ہے بلکہ ہمارے اندرونی سکون کو بھی چُرا لیتی ہے۔
قرآن مجید نے اسی حقیقت کو کتنی سادہ مگر گہری بات میں سمیٹا ہے
"اِجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِّنَ الظَّنِّ، إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ" (الحجرات: 12)
"بہت سے گمانوں سے بچو، بے شک بعض گمان گناہ ہیں۔"
ہم میں سے اکثر اپنی رائے، گمان اور سن گن پر فیصلے کر لیتے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ محبت کے رشتے شکوک کے کانٹوں میں الجھ جاتے ہیں۔
ڈیل کارنیگی نے کیا خوب کہا تھا : "دنیا کی آدھی دشمنیاں غلط فہمیوں سے پیدا ہوتی ہیں، اور باقی آدھی ان کے نتیجے میں۔" یہ ایک سچ ہے جسے تسلیم کرنے میں ہمیں دشواری ہوتی ہے۔ ہم دوسروں کے بارے میں گمان بناتے ہیں، لیکن کبھی اپنے گمانوں کا احتساب نہیں کرتے۔
منفی سوچ کا سب سے پہلا نشانہ خود انسان کی اپنی ذات بنتی ہے۔
کارل یونگ نے لکھا تھا: "جو شخص دوسروں میں صرف برائیاں دیکھتا ہے، وہ دراصل اپنی اندرونی کمزوریوں کا عکس دیکھ رہا ہوتا ہے۔"
یہی تو اصل بیماری ہے — وہ ذہنی کیفیت جس میں انسان دوسروں میں روشنی دیکھنے کی صلاحیت کھو دیتا ہے۔ وہ تعریف کرنا بھول جاتا ہے، شکرگزاری سے دور ہو جاتا ہے، اور ہر خوشی میں شک کا سایہ تلاش کرتا ہے۔
دوسری طرف مثبت سوچ ہے — جو زخموں پر مرہم رکھتی ہے، گمانوں کو سمجھ میں بدل دیتی ہے، اور انسان کے اندر امید جگاتی ہے۔
نورمن ونسنٹ پیل نے لکھا تھا: "مثبت سوچ مسائل ختم نہیں کرتی، مگر ان کا سامنا کرنے کی ہمت ضرور دیتی ہے۔"
سچ یہی ہے کہ مثبت سوچ انسان کو طاقت دیتی ہے۔ یہ دل میں اطمینان پیدا کرتی ہے — وہی اطمینان جس کے بارے میں قرآن نے فرمایا:
"أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ" (الرعد: 28)
"یادِ خدا ہی سے دلوں کو اطمینان حاصل ہوتا ہے۔"
یہ اطمینان صرف عبادت سے ہی نہیں بلکہ طرزِ فکر سے بھی جنم لیتا ہے۔ جب ہم دوسروں کے لیے اچھا سوچتے ہیں، ان کی نیتوں پر شک نہیں کرتے، اور برائی کے بجائے بھلائی دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں تو ہمارا دل خود روشن ہونے لگتا ہے۔
حضرت علیؓ کا فرمان ہے: "بدگمانی محبت کو ختم کر دیتی ہے۔"
اور مولانا رومیؒ نے فرمایا: "جو دل میں بدگمانی رکھتا ہے، وہ اپنے اندر کا جہنم جلا رہا ہوتا ہے۔"
کتنی بڑی سچائیاں ہیں یہ! ہم روز سنتے ہیں مگر عمل نہیں کرتے۔ ہم خود کو دانا سمجھتے ہیں، مگر دانائی تو وہ ہے جو دلوں کو قریب کرے، نہ کہ دور۔
ہمارے پاس وقت ہے کہ ہم اپنے خیالات کا معائنہ کریں۔ اگر ہماری گفتگو، سوچ اور فیصلوں میں منفی پن بڑھ رہا ہے تو یہ کوئی معمولی بات نہیں۔ یہ وہ مقام ہے جہاں سے زندگی مشکل ہونے لگتی ہے۔ جتنی جلدی اس بیماری کا علاج کر لیا جائے، اتنا ہی بہتر ہے۔
علاج کیا ہے؟
دوسروں میں خوبیاں تلاش کرنا۔ شکر گزار رہنا۔ بدگمانی کے بجائے حسنِ ظن اپنانا۔ اور سب سے بڑھ کر، خود سے یہ کہنا: "میں دوسروں کو ویسا ہی دیکھنا چاہتا ہوں، جیسا میں خود ہوں۔"
زندگی یقیناً آسان نہیں، مگر اگر سوچ مثبت ہو تو راستے روشن ہو جاتے ہیں۔
خوشی کوئی خارجی شے نہیں، یہ ہمارے اندر کی کیفیت ہے۔
اگر ہم دوسروں میں خوبیاں تلاش کرنے لگیں، ان کی نیتوں کو بہتر سمجھنے لگیں، اور ہر حال میں شکر گزاری کو اپنائیں تو زندگی خود بخود خوبصورت ہو جاتی ہے۔
"زندگی کو خوبصورت بنانا چاہتے ہو تو لوگوں میں خامیاں نہیں، خوبیاں تلاش کرو۔"
دلپزیر احمد جنجوعہ

ہفتہ، 1 نومبر، 2025

یک ادبی اور معقول مکالمہ

 




مقام: مدینہ، مسجد نبوی ﷺ کے قرب

حضور ﷺ: عقیل! سنو، تمہارے دل میں کچھ سوالات ہیں جو تمہیں بے چین کرتے ہیں۔

عقیل بن رضیل: یا رسول اللہ ﷺ! میں جاننا چاہتا ہوں کہ انسان کے اعمال کے سلسلے میں سب سے اہم چیز کیا ہے؟

حضور ﷺ: عقیل! سب سے اہم وہ عمل ہے جو دل سے اخلاص کے ساتھ کیا جائے، اور جو لوگوں کے حق میں نفع پہنچائے۔

عقیل بن رضیل: لیکن یا رسول اللہ ﷺ، بعض لوگ بہت عمل کرتے ہیں، مگر ان کے دل میں حسد اور غرور ہوتا ہے۔ وہ کس قدر کامیاب ہیں؟

حضور ﷺ: جو عمل دل سے خالص نہ ہو، وہ صرف ظاہری شکل رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

"اور جو تم کرتے ہو، اس میں سے سب سے اچھا وہ ہے جو خالص اللہ کے لیے ہو۔"

عقیل بن رضیل: یا رسول اللہ ﷺ! پھر کیا ہر انسان کو اپنا راستہ خود تلاش کرنا چاہیے؟

حضور ﷺ: ہاں، عقیل! تمہیں علم اور عقل دونوں سے کام لینا ہوگا۔ دل کی روشنی اور عقل کی رہنمائی کے بغیر انسان گمراہ ہو سکتا ہے۔

عقیل بن رضیل: یا رسول اللہ ﷺ، اور اگر کوئی انسان گمراہی میں ہو، تو ہم اس کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟

حضور ﷺ: اسے نصیحت دو، مثال پیش کرو، صبر سے کام لو، اور اپنی زندگی کو اللہ کی رضا کے مطابق جیو۔ انسان کے دل کو اللہ کی یاد سے روشنی ملتی ہے۔

عقیل بن رضیل: جزاک اللہ خیر، یا رسول اللہ ﷺ۔ آپ کی باتیں میرے دل میں روشنی ڈالتی ہیں۔

حضور ﷺ: یاد رکھو، عقیل! علم اور عمل دونوں کا ساتھ ہو تو انسان کی زندگی میں سکون، فہم اور صحیح راستہ ممکن ہے۔



جمعرات، 30 اکتوبر، 2025

خسارۂ ذات

**خسارۂ ذات**  
*دلپزیر احمد جنجوعہ*  

زندگی کا ہر دن نفع اور نقصان کے ایک نئے توازن میں گزرتا ہے۔ مگر ایک ایسا نقصان ہے جس کا احساس سب سے کم ہوتا ہے — **خسارۂ ذات**۔ یہ وہ لمحہ ہے جب انسان اپنے ہی اندر سے کچھ کھو دیتا ہے، اپنی روح سے، اپنی سچائی سے، اپنی اصل سے۔  

سوچیے، ایک مزدور سارا دن پسینہ بہاتا ہے، لیکن شام کو اُسے مزدوری نہ ملے — یہ صرف مالی نقصان نہیں، یہ اُس کی محنت کی بے قدری کا خسارہ ہے۔ ایک ملازم پورا سال دیانت داری سے کام کرے، لیکن سالانہ ترقی کی فہرست میں اس کا نام نہ آئے — یہ اس کی ذات کا خسارہ ہے۔ ایک طالب علم جو راتوں کی نیند قربان کر کے امتحان کی تیاری کرے مگر ناکام ہو جائے، وہ اپنی محنت اور حوصلے کا نقصان جھیلتا ہے۔ ایک سرمایہ کار جو اپنے خوابوں کی رقم کسی کمپنی میں لگا دے اور مارکیٹ میں اس کے حصص گر جائیں — وہ صرف روپے نہیں، اعتماد بھی کھو دیتا ہے۔  

لیکن ان سب سے بڑا خسارہ وہ ہے جو **انسان اپنے ضمیر کے ساتھ کرتا ہے**۔ جب وہ اپنے آپ سے وعدہ کرے کہ جھوٹ نہیں بولے گا، اور پھر وعدہ توڑ دے — یہ اخلاقی شکست اس کے اندر ایک خلا چھوڑ جاتی ہے۔ یہی خلا رفتہ رفتہ اس کی انسانیت کو چاٹنے لگتا ہے۔  

قرآن مجید میں ارشاد ہے:  
> **وَالْعَصْرِ ۝ إِنَّ الْإِنسَانَ لَفِي خُسْرٍ ۝ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ**  
(سورۃ العصر)  

زمانے کی قسم! انسان خسارے میں ہے، سوائے ان کے جو ایمان لائے، نیک عمل کیے، حق کی تلقین کی اور صبر کی وصیت کی۔  
یہ آیت ہمیں یاد دلاتی ہے کہ اصل کامیابی کا پیمانہ بینک بیلنس یا عہدہ نہیں، بلکہ ایمان، عمل، سچائی اور صبر ہیں۔  

رسولِ اکرم ﷺ نے فرمایا:  
> “دو نعمتیں ایسی ہیں جن میں بہت سے لوگ خسارے میں ہیں: صحت اور فارغ وقت۔”  
(صحیح بخاری)  

کیا ہم نے کبھی سوچا کہ ہم اپنی صحت اور وقت کو کس طرح ضائع کر دیتے ہیں؟ ہم دوسروں کو نقصان سے بچانے کے لیے تو بہت فکرمند ہوتے ہیں، مگر خود اپنی ذات کے نقصان کے بارے میں کتنے غافل ہیں۔  

امام غزالیؒ نے کہا تھا:  
> “جو اپنی روح کی اصلاح کے بغیر دنیا کی فلاح چاہتا ہے، وہ سب سے بڑے خسارے میں ہے۔”  

اور مولانا رومؒ نے فرمایا:  
> “اگر تُو نے اپنی جان کو نہ پہچانا تو سمجھ لے کہ تُو نے سب کچھ کھو دیا۔”  

یہ اقوال ہمیں آئینہ دکھاتے ہیں — کہ اصل خسارہ دولت یا عہدہ نہیں، بلکہ **خودی کا زوال** ہے۔  

دنیا کا خسارہ تو کبھی پورا ہو سکتا ہے، مگر آخرت کا خسارہ ناقابلِ تلافی ہے۔ قرآن میں صاف فرمایا گیا:  
> **"إِنَّ الْخَاسِرِينَ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ"**  
(الزمر: 15)  
بے شک سب سے بڑے خسارے والے وہ ہیں جنہوں نے قیامت کے دن اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کو گنوا دیا۔  

زندگی کی اصل کامیابی یہی ہے کہ انسان اپنی ذات کے سرمائے کو ضائع نہ کرے۔ ایمان، کردار، سچائی اور صبر — یہی وہ اثاثے ہیں جو **خسارۂ ذات** سے بچاتے ہیں۔ ورنہ زمانے کے بازار میں وہ سب کچھ جیت کر بھی انسان خود کو ہار دیتا ہے۔

بدھ، 29 اکتوبر، 2025

روضۂ رسول حق کے دربار کی گواہیﷺ —




روضۂ رسول حق کے دربار کی گواہیﷺ 

مدینہ منورہ — وہ شہر جس کی فضا میں ایمان کی خوشبو ہے، اور جس کی گلیوں میں نبی ﷺ کے قدموں کی آہٹ آج بھی سنائی دیتی ہے۔ یہاں کا سب سے مقدس مقام وہ ہے جہاں آقائے دو جہاں ﷺ آرام فرما ہیں۔ روضۂ رسول ﷺ پر نظر پڑے تو سب سے پہلے ایک جملہ دل کی گہرائیوں کو چھو جاتا ہے -

لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ المَلِکُ الحَقُّ المُبِین، مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللّٰہِ صَادِقُ الوَاعِدِ الاَمِین۔
یہ الفاظ نہ صرف ایمان کی بنیاد ہیں بلکہ صداقت اور امانت کی وہ سند ہیں جو انسانیت کو آسمان سے عطا ہوئی۔

پہلا حصہ: لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ المَلِکُ الحَقُّ المُبِین
یعنی "اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہی بادشاہ، حق اور ظاہر کرنے والا ہے۔"
یہ جملہ توحید کی مکمل تصویر ہے۔ یہاں “المَلِک” یعنی بادشاہی صرف اللہ کے لیے ہے — کوئی طاقت، کوئی حکومت، کوئی اقتدار اس کے حکم کے بغیر نہیں۔ “الحق” اس بات کی شہادت ہے کہ حقیقت صرف وہی ہے، باقی سب مظاہر عارضی ہیں۔ اور “المبین” وہ ذات ہے جو سب کچھ ظاہر کرنے والی ہے، جس سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں۔
یہ کلمہ محض عقیدے کا اظہار نہیں بلکہ شعور کی بیداری ہے — کہ دنیا کا ہر نظام، ہر قانون، ہر حرکت اسی کی مشیت کے تابع ہے۔ جب انسان دل سے اس آیت کو سمجھتا ہے تو اس کا غرور پگھل جاتا ہے، اور بندگی کا شعور جاگ اٹھتا ہے۔

دوسرا حصہ: مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللّٰہِ صَادِقُ الوَاعِدِ الاَمِین
یعنی "محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں، وعدے کے سچے اور امانت دار۔"
یہ وہ تعریف ہے جو کسی فرد کے لیے نہیں بلکہ ایک مثالی وجود کے لیے ہے — جس نے انسانیت کو سچائی، انصاف، صبر اور محبت کا کامل درس دیا۔ “صادق الوعد” — وہ جو کبھی وعدہ خلاف نہ ہوا۔ “الامین” — وہ جس کی امانت و دیانت پر دشمن بھی گواہ تھے۔
روضۂ رسول ﷺ پر یہ الفاظ محض تبرک نہیں بلکہ اعلان ہیں — کہ سچائی، امانت اور وعدے کی پاسداری ایمان کا جزوِ لازم ہے۔ یہ ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ ایمان صرف زبان سے ادا کیے گئے کلمے کا نام نہیں، بلکہ کردار میں اترے ہوئے نور کا نام ہے۔

روحانی مفہوم
یہ دو جملے دراصل ایک ہی پیغام کے دو رخ ہیں — ایک اللہ کی وحدانیت اور دوسرا نبی ﷺ کی رسالت۔ ایک ہمیں مقصدِ حیات بتاتا ہے اور دوسرا اس مقصد تک پہنچنے کا راستہ۔ جب کوئی دل سے کہتا ہے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ تو وہ اپنے وجود کی تمام جھوٹی خدائیوں سے انکار کرتا ہے۔ اور جب وہ کہتا ہے مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللّٰہِ تو وہ اعلان کرتا ہے کہ وہ سچائی اور امانت کے اس راستے کا پیروکار ہے جو محمد ﷺ نے دکھایا۔

روضۂ رسول ﷺ کی تاثیر
وہ لمحہ جس میں کوئی مؤمن روضۂ اقدس کے سامنے کھڑا ہو کر یہ الفاظ پڑھتا ہے، اس کے دل پر ایک عجیب سکون نازل ہوتا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے یہ الفاظ صرف دیواروں پر نہیں، بلکہ روح کے اندر لکھے جا رہے ہوں۔ وہاں کا نور، وہاں کی فضا، اور وہ سکوت — سب اسی ایک حقیقت کی گواہی دیتے ہیں:
کہ “اللہ حق ہے، اور محمد ﷺ اس کے سچے رسول ہیں۔”
روضۂ رسول ﷺ صرف ایک زیارت گاہ نہیں، یہ ایمان کی تجدید کا مقام ہے۔ یہاں انسان اپنی ساری خواہشیں، غم، اور تکبر چھوڑ کر خالص بندگی کی کیفیت میں ڈھل جاتا ہے۔

ان دو جملوں میں کائنات کا نچوڑ چھپا ہے۔ ایک اللہ کے وجود کی دلیل ہے، اور دوسرا انسان کے کامل ترین 
یونے کی گواہی۔
اگر انسان اس حقیقت کو سمجھ لے تو اس کے دل سے خوف، نفرت اور جھوٹ ختم ہو جائیں — اور باقی رہ جائے صرف روشنی، وہ روشنی جو مدینہ کے آسمان سے پھوٹتی ہے۔

“لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ المَلِکُ الحَقُّ المُبِین،
مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللّٰہِ صَادِقُ الوَاعِدِ الاَمِین۔”
یہ وہ کلمہ ہے جو روح کو ایمان کی روشنی سے منور کرتا ہے،
اور انسان کو بندگی کے سچ میں زندہ کر دیتا ہے۔


انسانی شعور کی چار منازل

 


 انسانی شعور کی چار منازل

انسانی ذہن ہمیشہ تلاش میں رہتا ہے — کبھی حقیقت کی جستجو میں، کبھی یقین کے استحکام میں۔ یہ جستجو ہی انسان کو چار فکری منازل میں تقسیم کرتی ہے: مومن، منکر، منافق اور متذبذب۔ یہ چاروں کیفیتیں دراصل انسانی شعور کی مختلف حالتیں ہیں، جو فرد کی سوچ، عمل اور سماج پر گہرا اثر ڈالتی ہیں۔

مومن 
مومن وہ ہے جو حقیقت کو پہچاننے کے بعد دل سے اسے تسلیم کرے اور اپنے عمل سے اس پر گواہی دے۔ ایمان اس کے لیے صرف عقیدہ نہیں بلکہ شعوری یقین اور عملی اخلاقیات کا امتزاج ہوتا ہے۔
مومن کا ذہن سکون، توازن اور اعتماد سے بھرا ہوتا ہے۔ وہ شک اور تذبذب کے مرحلوں سے گزر کر یقین کے مقام تک پہنچتا ہے۔ اس کے لیے کائنات اتفاق نہیں بلکہ نظم اور حکمت کی مظہر ہے۔ قرآن اسی یقین کو “نورٌ علیٰ نور” قرار دیتا ہے — روشنی پر روشنی۔
ایمان والے انسان معاشرے میں عدل، صداقت اور خدمت کا چراغ جلاتے ہیں۔
 امام حسینؓ نے
نے ساری متاح حیات کربلا کے میدان میں قربان کر کے مومن کی مثال قائم کی۔

منکر 
منکر وہ شخص ہے جو سچائی کا ادراک رکھنے کے باوجود اسے تسلیم کرنے سے انکار کرے۔ وہ عقل رکھتا ہے مگر دل کے تکبر، مفاد یا انا کے باعث حق سے منہ موڑ لیتا ہے۔
منکر کا ذہن تضاد، ضد اور خوف کا مجموعہ ہوتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ وہ غلط ہے، مگر اپنی برتری یا مفاد کے لیے سچائی سے فرار اختیار کرتا ہے۔
فرعون نے موسیٰؑ کے معجزات دیکھے مگر اقتدار قائم رکھنے کے لیے سچ ماننے سے انکار کیا۔
ابوجہل جانتا تھا کہ محمد ﷺ صادق و امین ہیں، لیکن قبیلوی برتری نے اسے حق کے سامنے جھکنے نہ دیا۔
منکر جب اقتدار یا علم کا حامل ہو تو معاشرے میں سچائی کمزور اور مفاد پرستی غالب آ جاتی ہے۔ ایسے لوگ نظریاتی انتشار پیدا کرتے ہیں، مگر ان کے سوال ہی آگے چل کر فکری ارتقاء کا سبب بنتے ہیں۔


 منافق 
منافق وہ ہے جو زبان سے ایمان کا اظہار کرے مگر دل میں انکار چھپائے۔ اس کی وفاداری اصول نہیں بلکہ ذاتی مفاد سے بندھی ہوتی ہے۔
منافق مسلسل خوف اور تضاد کا شکار رہتا ہے۔ وہ نہ ایمان کے سکون سے بہرہ مند ہوتا ہے، نہ انکار کی آزادی سے۔ اس کا وجود دو چہروں کے بوجھ تلے دب جاتا ہے۔
مدینہ کا عبداللہ بن اُبی بظاہر مسلمان تھا مگر ہر موقع پر مسلمانوں کے خلاف سازش کرتا۔ وہ اقتدار کے خوف سے ایمان لایا، مگر دل سے کبھی مان نہ سکا۔
منافق معاشرے کے لیے سب سے خطرناک عنصر ہے۔ وہ سچائی کے لبادے میں جھوٹ پھیلاتا ہے۔ قرآن کہتا ہے
"إِنَّ الْمُنَافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ"
(بے شک منافق جہنم کے سب سے نچلے درجے میں ہوں گے)
کیونکہ نفاق انسان کو اعتماد، سچائی اور اجتماعی بھروسے سے محروم کر دیتا ہے۔

متذبذب 
متذبذب وہ شخص ہے جو نہ پوری طرح ایمان لا پاتا ہے نہ کھلے دل سے انکار کرتا ہے۔ وہ فکری اور روحانی دو راہے پر کھڑا رہتا ہے۔
متذبذب کا ذہن کشمکش، تجسس اور خوف کا میدان ہوتا ہے۔ وہ حق کو دیکھتا ہے مگر قدم نہیں بڑھا پاتا۔ کبھی علم اسے قریب لاتا ہے، کبھی وسوسہ دور کر دیتا ہے۔
یونانی فلسفی سقراط نے کہا تھا: “شک علم کی پہلی سیڑھی ہے۔”
اسی طرح اسلام نے بھی سوال کو جرم نہیں سمجھا — قرآن میں بارہا عقل، فکر اور تدبر کی دعوت دی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ متذبذب انسان اگر علم و دلیل کے ذریعے رہنمائی پائے تو ایمان کی طرف پلٹ سکتا ہے۔
متذبذب لوگ معاشرے کے لیے بوجھ نہیں بلکہ موقع ہیں۔ ان میں تبدیلی کی صلاحیت باقی ہوتی ہے۔ اگر مومن علم، شفقت اور دلیل سے ان تک پہنچے تو وہ ایمان کی روشنی قبول کر لیتے ہیں۔ منافق کے برعکس، متذبذب کو قائل کرنا ممکن ہوتا ہے کیونکہ اس کا دل ابھی مکمل بند نہیں ہوتا۔

 شعور کی روشنی میں انسان کا مقام
انسان کا شعور چار سمتوں میں سفر کرتا ہے
مومن روشنی میں چلتا ہے۔
منکر روشنی دیکھ کر آنکھیں بند کرتا ہے۔
منافق روشنی کا لباس پہن کر اندھیرے میں رہتا ہے۔
متذبذب روشنی اور اندھیرے کے درمیان بھٹکتا ہے۔
یہ سب انسان کے اندر کے ممکنات ہیں۔ اصل کامیابی اس کی ہے جو شک سے گزر کر یقین تک پہنچے، اور یقین کو عمل کا جامہ پہنائے۔


“شک اگر علم کی تلاش بن جائے،
تو وہ ایمان کا دروازہ کھول دیتا ہے۔”
 برطانوی فلسفی اینٹونی فلو
(Antony Flew)
 خدا کے وجود کے منکر رہے، مگر جب انہوں نے ڈی این اے اور انسانی تخلیق کے پیچیدہ ڈھانچے کا مطالعہ کیا تو تسلیم کر لیا کہ “ایسا منظم نظام محض اتفاق سے وجود میں نہیں آ سکتا۔”
جو کبھی الحاد کا مبلغ تھا اس نے خدا کے وجود کی گواہی میں کتاب لکھی
یہ واقعہ واضح کرتا ہے کہ جب علم تعصب سے پاک ہو تو منکر بھی ایمان کی طرف پلٹ آتا ہے۔