اتوار، 9 نومبر، 2025
منفی سوچ — ایک بیماری
ہفتہ، 1 نومبر، 2025
یک ادبی اور معقول مکالمہ
مقام: مدینہ، مسجد نبوی ﷺ کے قرب
حضور ﷺ: عقیل! سنو، تمہارے دل میں کچھ سوالات ہیں جو تمہیں بے چین کرتے ہیں۔
عقیل بن رضیل: یا رسول اللہ ﷺ! میں جاننا چاہتا ہوں کہ انسان کے اعمال کے سلسلے میں سب سے اہم چیز کیا ہے؟
حضور ﷺ: عقیل! سب سے اہم وہ عمل ہے جو دل سے اخلاص کے ساتھ کیا جائے، اور جو لوگوں کے حق میں نفع پہنچائے۔
عقیل بن رضیل: لیکن یا رسول اللہ ﷺ، بعض لوگ بہت عمل کرتے ہیں، مگر ان کے دل میں حسد اور غرور ہوتا ہے۔ وہ کس قدر کامیاب ہیں؟
حضور ﷺ: جو عمل دل سے خالص نہ ہو، وہ صرف ظاہری شکل رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
"اور جو تم کرتے ہو، اس میں سے سب سے اچھا وہ ہے جو خالص اللہ کے لیے ہو۔"
عقیل بن رضیل: یا رسول اللہ ﷺ! پھر کیا ہر انسان کو اپنا راستہ خود تلاش کرنا چاہیے؟
حضور ﷺ: ہاں، عقیل! تمہیں علم اور عقل دونوں سے کام لینا ہوگا۔ دل کی روشنی اور عقل کی رہنمائی کے بغیر انسان گمراہ ہو سکتا ہے۔
عقیل بن رضیل: یا رسول اللہ ﷺ، اور اگر کوئی انسان گمراہی میں ہو، تو ہم اس کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟
حضور ﷺ: اسے نصیحت دو، مثال پیش کرو، صبر سے کام لو، اور اپنی زندگی کو اللہ کی رضا کے مطابق جیو۔ انسان کے دل کو اللہ کی یاد سے روشنی ملتی ہے۔
عقیل بن رضیل: جزاک اللہ خیر، یا رسول اللہ ﷺ۔ آپ کی باتیں میرے دل میں روشنی ڈالتی ہیں۔
حضور ﷺ: یاد رکھو، عقیل! علم اور عمل دونوں کا ساتھ ہو تو انسان کی زندگی میں سکون، فہم اور صحیح راستہ ممکن ہے۔
جمعرات، 30 اکتوبر، 2025
خسارۂ ذات
**خسارۂ ذات**
*دلپزیر احمد جنجوعہ*
زندگی کا ہر دن نفع اور نقصان کے ایک نئے توازن میں گزرتا ہے۔ مگر ایک ایسا نقصان ہے جس کا احساس سب سے کم ہوتا ہے — **خسارۂ ذات**۔ یہ وہ لمحہ ہے جب انسان اپنے ہی اندر سے کچھ کھو دیتا ہے، اپنی روح سے، اپنی سچائی سے، اپنی اصل سے۔
سوچیے، ایک مزدور سارا دن پسینہ بہاتا ہے، لیکن شام کو اُسے مزدوری نہ ملے — یہ صرف مالی نقصان نہیں، یہ اُس کی محنت کی بے قدری کا خسارہ ہے۔ ایک ملازم پورا سال دیانت داری سے کام کرے، لیکن سالانہ ترقی کی فہرست میں اس کا نام نہ آئے — یہ اس کی ذات کا خسارہ ہے۔ ایک طالب علم جو راتوں کی نیند قربان کر کے امتحان کی تیاری کرے مگر ناکام ہو جائے، وہ اپنی محنت اور حوصلے کا نقصان جھیلتا ہے۔ ایک سرمایہ کار جو اپنے خوابوں کی رقم کسی کمپنی میں لگا دے اور مارکیٹ میں اس کے حصص گر جائیں — وہ صرف روپے نہیں، اعتماد بھی کھو دیتا ہے۔
لیکن ان سب سے بڑا خسارہ وہ ہے جو **انسان اپنے ضمیر کے ساتھ کرتا ہے**۔ جب وہ اپنے آپ سے وعدہ کرے کہ جھوٹ نہیں بولے گا، اور پھر وعدہ توڑ دے — یہ اخلاقی شکست اس کے اندر ایک خلا چھوڑ جاتی ہے۔ یہی خلا رفتہ رفتہ اس کی انسانیت کو چاٹنے لگتا ہے۔
قرآن مجید میں ارشاد ہے:
> **وَالْعَصْرِ إِنَّ الْإِنسَانَ لَفِي خُسْرٍ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ**
(سورۃ العصر)
زمانے کی قسم! انسان خسارے میں ہے، سوائے ان کے جو ایمان لائے، نیک عمل کیے، حق کی تلقین کی اور صبر کی وصیت کی۔
یہ آیت ہمیں یاد دلاتی ہے کہ اصل کامیابی کا پیمانہ بینک بیلنس یا عہدہ نہیں، بلکہ ایمان، عمل، سچائی اور صبر ہیں۔
رسولِ اکرم ﷺ نے فرمایا:
> “دو نعمتیں ایسی ہیں جن میں بہت سے لوگ خسارے میں ہیں: صحت اور فارغ وقت۔”
(صحیح بخاری)
کیا ہم نے کبھی سوچا کہ ہم اپنی صحت اور وقت کو کس طرح ضائع کر دیتے ہیں؟ ہم دوسروں کو نقصان سے بچانے کے لیے تو بہت فکرمند ہوتے ہیں، مگر خود اپنی ذات کے نقصان کے بارے میں کتنے غافل ہیں۔
امام غزالیؒ نے کہا تھا:
> “جو اپنی روح کی اصلاح کے بغیر دنیا کی فلاح چاہتا ہے، وہ سب سے بڑے خسارے میں ہے۔”
اور مولانا رومؒ نے فرمایا:
> “اگر تُو نے اپنی جان کو نہ پہچانا تو سمجھ لے کہ تُو نے سب کچھ کھو دیا۔”
یہ اقوال ہمیں آئینہ دکھاتے ہیں — کہ اصل خسارہ دولت یا عہدہ نہیں، بلکہ **خودی کا زوال** ہے۔
دنیا کا خسارہ تو کبھی پورا ہو سکتا ہے، مگر آخرت کا خسارہ ناقابلِ تلافی ہے۔ قرآن میں صاف فرمایا گیا:
> **"إِنَّ الْخَاسِرِينَ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ"**
(الزمر: 15)
بے شک سب سے بڑے خسارے والے وہ ہیں جنہوں نے قیامت کے دن اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کو گنوا دیا۔
زندگی کی اصل کامیابی یہی ہے کہ انسان اپنی ذات کے سرمائے کو ضائع نہ کرے۔ ایمان، کردار، سچائی اور صبر — یہی وہ اثاثے ہیں جو **خسارۂ ذات** سے بچاتے ہیں۔ ورنہ زمانے کے بازار میں وہ سب کچھ جیت کر بھی انسان خود کو ہار دیتا ہے۔
بدھ، 29 اکتوبر، 2025
روضۂ رسول حق کے دربار کی گواہیﷺ —
انسانی شعور کی چار منازل
