منگل، 7 اکتوبر، 2025

کامیابی والے ہنر



کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ مئی 2025 کی پاک–بھارت فضائی جھڑپ میں پاکستان نے بھارت جیسے بڑے ملک کی فضائیہ کو اتنی تیزی اور مہارت سے کیسے شکست دی؟
جواب صرف ایک لفظ میں ہے: مصنوعی ذہانت
پاکستانی نوجوان انجینیئرز اور ماہرینِ ٹیکنالوجی نے اے آئی پر مبنی سسٹم تیار کر کے نہ صرف دشمن کے منصوبے پڑھ لیے بلکہ لمحوں میں مؤثر جوابی کارروائی کی۔ یہ واقعہ اس بات کا ثبوت تھا کہ مستقبل کی جنگیں، معیشتیں اور سیاست — سب ذہانت اور ٹیکنالوجی سے جیتے جائیں گے۔
مصنوعی ذہانت کیا ہے؟
مصنوعی ذہانت ایسی ٹیکنالوجی ہے جو انسانی دماغ کی طرح سوچ، سمجھ، سیکھ اور فیصلے کر سکتی ہے۔
یہ ٹیکنالوجی ڈیٹا، الگورتھم اور کمپیوٹنگ کے ذریعے ایسے نتائج نکالتی ہے جو کبھی صرف انسان ہی نکال سکتے تھے۔
آج اے آئی, چیٹ جی پی ٹی , اور سیک ڈیپ
جیسے پروگراموں میں انسانوں کی طرح گفتگو کرتی ہے،
فیکٹریوں میں روبوٹس کو خودکار بناتی ہے،
اسپتالوں میں بیماریوں کی تشخیص کرتی ہے،
اور موبائل ایپس کو آپ کی پسند سمجھنے کے قابل بناتی ہے۔
دنیا کس سمت جا رہی ہے؟
امریکی سینیٹ کی حالیہ رپورٹ کے مطابق، اگلے دس برسوں میں 100 ملین نوکریاں مصنوعی ذہانت سے ختم ہو سکتی ہیں۔
سب سے زیادہ متاثر ہونے والے شعبے ہوں گے:
فاسٹ فوڈ: خودکار کچن روبوٹس کے ہاتھ میں جائیں گے۔
اکاؤنٹنگ: مالیاتی حساب کتاب خودکار نظام کرے گا۔
ٹرانسپورٹ: سیلف ڈرائیونگ گاڑیاں ڈرائیوروں کی جگہ لیں گی۔
صحت: رپورٹس اور تشخیص مشینیں خود تیار کریں گی۔
تعلیم: اے آئی ہر طالب علم کے لیے ذاتی نصاب تجویز کرے گی۔
یہ تبدیلیاں بظاہر خطرہ لگتی ہیں، مگر حقیقت میں یہ نئے مواقع کی بنیاد رکھ رہی ہیں۔
پاکستان کے لیے نئے مواقع
پاکستان میں اگر یہ ٹیکنالوجی درست سمت میں استعمال ہو تو یہ معیشت، تعلیم، زراعت اور دفاع — ہر میدان میں انقلاب لا سکتی ہے
نوجوانوں کے لیے سنہری موقع
پاکستان کی 60 فیصد سے زیادہ آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ یہی وہ طاقت ہے جو مصنوعی ذہانت کے ذریعے ملک کو ترقی کی نئی راہ پر ڈال سکتی ہے۔
نوجوانوں کو درج ذیل شعبوں میں مہارت حاصل کرنی چاہیے:
ڈیٹا اینالیسس اور پروگرامنگ
مشین لرننگ اور روبوٹکس
ڈیجیٹل مارکیٹنگ اور ای کامرس
ویڈیو ایڈیٹنگ اور گرافک ڈیزائن
سائبر سیکیورٹی اور کلاؤڈ کمپیوٹنگ
یہ مہارتیں انہیں عالمی سطح پر مسابقت کے قابل بنائیں گی، جہاں وہ صرف نوکری نہیں بلکہ خود روزگار بھی پیدا کر سکیں گے۔

پیر، 6 اکتوبر، 2025

مذاکرات کا پہلا دن


مذاکرات کا پہلا دن
مصر میں اسرائیل اور حماس کے درمیان ہونے والے مذاکرات کا پہلا دن احتیاط کے ساتھ مگر امید افزا انداز میں مکمل ہوا، جس کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے 20 نکاتی امن منصوبے پر پیش رفت کی توقعات بڑھ گئی ہیں۔
بحیرہ احمر کے ساحلی سیاحتی شہر شرم الشیخ میں ہونے والی بات چیت کو “مثبت” قرار دیا گیا، جہاں فریقین نے مذاکرات کے اگلے مرحلے کے لیے ایک واضح روڈمیپ پر اتفاق کیا۔ یہ طے پایا کہ مذاکرات منگل کو دوبارہ ہوں گے۔
حماس کے نمائندوں نے ثالثوں کو آگاہ کیا کہ اسرائیل کی جانب سے غزہ پر جاری بمباری قیدیوں کے تبادلے اور جنگ بندی سے متعلق پیش رفت میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ پہلے دن کی گفتگو تین اہم نکات پر مرکوز رہی: قیدیوں اور مغویوں کا تبادلہ، جنگ بندی، اور غزہ میں انسانی امداد کا داخلہ۔
وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری کیرولین لیوٹ کے مطابق صدر ٹرمپ اسرائیلی مغویوں اور فلسطینی قیدیوں کی جلد رہائی کو اولین ترجیح دے رہے ہیں تاکہ امن منصوبے کے دیگر نکات پر عمل درآمد کی راہ ہموار ہو۔ ان کا کہنا تھا، “ٹیکنیکل ٹیمیں دونوں فریقوں کی فہرستوں کا باریک بینی سے جائزہ لے رہی ہیں تاکہ رہائی کے لیے مناسب ماحول یقینی بنایا جا سکے۔”
صدر ٹرمپ نے کہا، “ہمارے پاس معاہدہ کرنے کا ایک بہترین موقع ہے۔ ہم اچھی پیش رفت کر رہے ہیں اور مجھے لگتا ہے کہ حماس نے کچھ اہم معاملات پر مثبت لچک دکھائی ہے۔” انہوں نے عرب و ترک مشترکہ کوششوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ انہی کی بدولت حماس مذاکرات کی میز پر موجود ہے۔
یہ مذاکرات ایک ایسے وقت میں ہو رہے ہیں جب اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں اب تک غزہ میں 67 ہزار سے زائد فلسطینی شہید اور تقریباً ایک لاکھ ستر ہزار زخمی ہو چکے ہیں۔ اقوام متحدہ، عالمی ماہرین اور انسانی حقوق کی تنظیمیں (بشمول اسرائیلی ادارے) ان کارروائیوں کو نسل کشی قرار دے چکی ہیں۔
پیر کے روز مذاکرات کے دوران بھی اسرائیلی حملوں میں کم از کم دس فلسطینی شہید ہوئے، جن میں تین وہ افراد شامل تھے جو انسانی امداد کے حصول کی کوشش کر رہے تھے۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریش نے اپنے بیان میں حماس کے 2023 کے “بڑے پیمانے پر دہشت گردانہ حملے” کو “قابلِ مذمت” قرار دیا، تاہم انہوں نے کہا کہ ٹرمپ کی پیش کردہ حالیہ تجویز ایک ایسا موقع ہے جسے ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ ان کے مطابق “ایک مستقل جنگ بندی اور قابلِ اعتماد سیاسی عمل ہی مزید خونریزی روکنے اور پائیدار امن کے قیام کا واحد راستہ ہے۔”

چینی صدر کا بیان




چینی صدر کا بیان:

"We reviewed the U.S. standards for defining terrorism... and found that they apply perfectly to Israel."

یہ جملہ محض ایک سیاسی ریمارک نہیں بلکہ عالمی طاقتوں کے دوہرے معیار پر کڑا سوال ہے۔ چین نے یہ بات بالکل واضح کر دی کہ اگر دنیا وہی اصول اختیار کرے جو امریکہ نے خود طے کیے ہیں، تو اسرائیل صاف صاف ایک دہشت گرد ریاست کے طور پر سامنے آتا ہے۔

دہشت گردی کی تعریف میں سب سے پہلے نہتے شہریوں پر حملہ آتا ہے۔ اسرائیل نے غزہ کے رہائشی علاقوں، اسپتالوں اور اسکولوں پر وہ ظلم ڈھایا جس کی مثال تاریخ میں کم ہی ملتی ہے۔ عورتیں، بچے، معذور، حتیٰ کہ نومولود تک اسرائیلی بمباری کی زد میں آئے۔ دنیا کا کون سا قانون ہے جو اسے دہشت گردی نہیں کہتا؟

اس کے بعد اجتماعی سزا کا معاملہ ہے۔ کسی خطے کو خوراک، پانی، بجلی اور دواؤں سے محروم کرنا بظاہر جنگ نہیں بلکہ انسانیت کے خلاف اعلان ہے۔ غزہ کو ایک کھلی جیل میں بدل دینا اور وہاں مصنوعی قحط پیدا کرنا، امریکہ کے اپنے ہی بیان کردہ "state terrorism" کے معیار پر پورا اترتا ہے۔

سیاسی دباؤ کے لیے خوف اور دہشت کا استعمال بھی اسرائیل کے طریقۂ کار کا حصہ ہے۔ فلسطینیوں کو ڈرا دھمکا کر ان سے ان کی زمین چھینی جاتی ہے، ان کے گھروں کو مسمار کیا جاتا ہے اور بستیاں آباد کی جاتی ہیں۔ یہی وہ عمل ہے جسے دنیا نسل کشی اور نسلی تطہیر کے نام سے جانتی ہے۔

اقصیٰ مسجد اور دیگر مقدس مقامات پر حملے بھی اسرائیل کے ریکارڈ پر موجود ہیں۔ نمازیوں پر تشدد، عبادت میں رکاوٹ اور مذہبی جذبات کو مجروح کرنا محض سیاست نہیں بلکہ دہشت گردی کا دوسرا رخ ہے۔

چین کے نزدیک اصل نکتہ یہ ہے کہ اسرائیل بین الاقوامی قوانین کو مسلسل پامال کرتا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی قراردادیں ایک کے بعد ایک نظر انداز کی جاتی ہیں، لیکن مغربی دنیا آنکھیں بند کیے بیٹھی رہتی ہے۔ یہ وہی دوہرا معیار ہے جسے چین نے بے نقاب کیا ہے۔

دہشت گردی صرف بم یا بندوق نہیں، بلکہ پروپیگنڈہ بھی اس کا ہتھیار ہے۔ اسرائیل نے میڈیا کی طاقت استعمال کرکے دنیا کے سامنے جھوٹا بیانیہ بیچا اور اپنے مظالم کو چھپایا۔ یہ بھی دہشت گرد سوچ کی علامت ہے۔

آخر میں سوال یہ ہے کہ اگر امریکہ کے وضع کردہ اصول ہی عالمی معیار ہیں تو پھر ان پر اسرائیل کیوں پورا نہیں اترتا؟ چین نے یہ سوال اٹھا کر دراصل دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑا ہے۔ 

غزہ میں سسکتی انسانیت

 غزہ کی جنگ نے صرف گھروں کو ہی نہیں بلکہ زندگیوں کو بھی ٹکڑوں میں بانٹ دیا ہے۔ اس بربادی کے پس منظر میں ایک نئی سیاسی کہانی جنم لے رہی ہے: ڈونلڈ ٹرمپ کا غزہ کے لیے مجوزہ 20 نکاتی منصوبہ۔ یہ منصوبہ بظاہر امن کی راہ دکھاتا ہے، لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ سب سے بنیادی مسئلے یعنی جنگی جرائم کی جواب دہی کو نظرانداز کرتا ہے۔

ہیومن رائٹس واچ نے اپنی تنقید میں واضح کیا ہے کہ ٹرمپ کا منصوبہ اسرائیل کی فلسطینیوں کے خلاف جنگ میں کیے گئے سنگین انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو ایڈریس نہیں کرتا۔ ادارے کے اسرائیل و فلسطین ڈائریکٹر، عمر شاکر نے زور دے کر کہا کہ 7 اکتوبر 2023 کے بعد سے دو سالوں میں ہونے والے مظالم اب تک انصاف سے محروم ہیں۔ ان کا کہنا تھا: "حکومتوں کو ٹرمپ کے منصوبے یا کسی اور منصوبے کے انتظار کے بجائے فوری اقدام کرنا چاہیے، ہتھیاروں پر پابندیاں عائد کرنی چاہییں، پابندیاں لگانی چاہییں اور بین الاقوامی فوجداری عدالت کی حمایت کرنی چاہیے۔"

دوسری جانب، غزہ کی زمینی حقیقت کسی بھی سیاسی مسودے سے کہیں زیادہ کٹھن ہے۔ غزہ سٹی میں المدارس کے قریب حملوں میں زخمی ہونے والے بچے، پلاسٹک اور کمبلوں کے خیموں میں پناہ گزین خاندان، آبادکاروں کے ہاتھوں اکھاڑی گئی زیتون کی کھیتیاں، اور ہیبرون میں منہدم گھروں کی کہانیاں عالمی قانون کی خلاف ورزی کا ایک تسلسل دکھاتی ہیں۔ ندا، ایک بیوہ جو اپنی بیٹیوں کے ساتھ خیمے میں رہ رہی ہے، کہتی ہیں: "ہم نہیں جانتے کہاں جائیں۔ ہم دعا کرتے ہیں کہ کوئی معاہدہ ہو جائے، اگرچہ میرا گھر پہلے ہی تباہ ہو چکا ہے۔" ایک اور بے گھر خاتون، عطاف، اپنے گھر کے ملبے سے نکلنے کی یاد سناتی ہیں: "یہ زندگی نہیں ہے۔"

مصر میں جاری مذاکرات اسرائیل اور حماس کو ایک میز پر لا رہے ہیں۔ اسرائیل کی نمائندگی رون ڈرمر کر رہے ہیں جبکہ خالد الحیہ حماس کی قیادت کر رہے ہیں۔ ٹرمپ کی جانب سے جیرڈ کشنر اور اسٹیو وٹکوف شریک ہیں، جو واشنگٹن کی اس نازک عمل میں ذاتی دلچسپی کو ظاہر کرتا ہے۔ اطلاعات ہیں کہ ٹرمپ اسے "تین ہزار سال میں پہلا امن" قرار دے رہے ہیں—یہ ایک مبالغہ آمیز دعویٰ ہے لیکن یہ ان کی سیاسی وراثت بنانے کی خواہش کو ظاہر کرتا ہے۔ پروفیسر محمد المسری کا کہنا ہے کہ یہ ذاتی خواہش ٹرمپ کو اسرائیل پر دباؤ ڈالنے پر مجبور کر سکتی ہے، جو ماضی کی حکومتوں سے مختلف ہوگا۔

تاہم، اختلافات اپنی جگہ موجود ہیں۔ اسرائیل قیدیوں کی واپسی پر زور دے رہا ہے، جبکہ حماس انخلا، حکمرانی اور ہتھیار نہ ڈالنے کی ضمانتیں مانگ رہی ہے—یہ وہ نکات ہیں جن پر ٹرمپ کا منصوبہ سختی سے زور دیتا ہے۔ 1150 سے زائد اسرائیلی فوجیوں کی ہلاکت اور غزہ میں بے پناہ شہری جانی نقصان کے ساتھ، ثالثی کرنے والے غم، عدم اعتماد اور سیاسی چالبازیوں کے مشکل امتزاج سے دوچار ہیں۔

شلال العوجہ جیسے دیہات میں، جہاں آبادکاروں نے امن کارکنوں کو مارا پیٹا، یا پناہ گزین کیمپوں میں جہاں نوجوان چھاپوں میں زخمی ہوتے ہیں، امن کا تصور دور محسوس ہوتا ہے۔ پھر بھی، خیموں میں بیٹھے پناہ گزین خاندانوں کی دعاؤں میں، اجڑی زیتون کی کھیتوں میں، اور بیواؤں اور بچوں کی آوازوں میں ایک نازک سی امید زندہ ہے: کہ کوئی بھی معاہدہ، چاہے کتنا ہی نامکمل کیوں نہ ہو، کم از کم انہیں گھر لوٹنے کا موقع دے سکے۔

ٹرمپ کا غزہ منصوبہ صرف سفارتکاری کا امتحان نہیں ہے—یہ امتحان ہے کہ دنیا طاقت کی سیاست سے آگے بڑھ کر انصاف، جواب دہی اور انسانی وقار کی کم از کم ضمانت فراہم کر سکتی ہے یا نہیں۔

دو سالوں میں غزہ پر کیا بیتی




دو سالوں میں غزہ پر کیا بیتی

گزشتہ دو برس غزہ کے عوام کے لیے ایک مسلسل کرب، دکھ اور اذیت کی داستان رہے ہیں۔ اسرائیلی جارحیت نے نہ صرف زمین کو کھنڈرات میں بدلا بلکہ لاکھوں بے گناہوں کی زندگیوں کو تاریکیوں میں دھکیل دیا۔ دنیا کی آنکھوں کے سامنے ایک ایسے المیے کو پروان چڑھایا گیا جسے تاریخ نسل کشی اور انسانیت کے خلاف سنگین جرائم کے طور پر یاد کرے گی۔
نسل کشی اور بے رحمانہ حملے

اسرائیل کی جارحانہ پالیسیوں نے غزہ کے عوام کو اجتماعی سزا دینے کا ایک ایسا سلسلہ شروع کیا جس کا مقصد فلسطینی نسل کو مٹانا تھا۔ ہزاروں بچے اور عورتیں شہید ہوئیں، سینکڑوں خاندان صفحۂ ہستی سے مٹ گئے۔ رہائشی علاقوں پر بمباری نے غزہ کو ملبے کے ڈھیر میں بدل دیا۔
اسپتال اور طبی عملہ نشانہ

جہاں دنیا کے مہذب معاشرے میں جنگ کے دوران اسپتالوں اور طبی عملے کو محفوظ قرار دیا جاتا ہے، وہاں اسرائیل نے ان مراکز کو براہ راست نشانہ بنایا۔ آپریشن تھیٹر، ایمرجنسی وارڈ اور حتیٰ کہ نوزائیدہ بچوں کے وارڈز بھی اسرائیلی بمباری سے محفوظ نہ رہ سکے۔ ڈاکٹرز اور نرسز کو قتل کیا گیا یا ان پر ایسا دباؤ ڈالا گیا کہ وہ اپنی بنیادی ذمہ داریاں ادا نہ کرسکیں۔ ان دو برسوں میں غزہ کا صحت کا نظام مکمل طور پر زمین بوس ہوگیا۔
مصنوعی قحط اور ناکہ بندی

اسرائیل نے منظم طور پر غزہ میں مصنوعی قحط پیدا کیا۔ خوراک کی ترسیل روکی گئی، انسانی ہمدردی کی بنیاد پر آنے والی امداد کو روک کر عوام کو بھوک کے کرب میں مبتلا کیا گیا۔ بچوں کو دودھ تک دستیاب نہ رہا اور لوگ ایک روٹی کے لیے گھنٹوں لائنوں میں کھڑے رہے۔
پانی اور توانائی کی بندش

غزہ کے عوام کو پانی جیسی بنیادی ضرورت سے محروم کیا گیا۔ پانی کی لائنیں تباہ کردی گئیں، بجلی کے پلانٹس نشانہ بنائے گئے۔ اندھیروں میں ڈوبی آبادی دو سال تک پانی کے ایک ایک قطرے اور توانائی کے ایک ایک یونٹ کو ترستی رہی۔ یہ سب کچھ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کے باوجود کھلے عام ہوا۔
عالمی اداروں اور اقوام متحدہ کی خاموشی

اس تمام عرصے میں اقوام متحدہ اور بڑے عالمی ادارے صرف بیانات جاری کرنے تک محدود رہے۔ نہ کوئی عملی اقدام اٹھایا گیا اور نہ ہی اسرائیل کو اس کے جرائم پر جواب دہ ٹھہرایا گیا۔ طاقتور ممالک کی سیاست نے انصاف کو پسِ پشت ڈال دیا۔ سلامتی کونسل کی قراردادیں کاغذی رہ گئیں اور عالمی عدالت انصاف کی پکاروں کو نظرانداز کیا گیا۔ اس مجرمانہ خاموشی نے نہ صرف غزہ کے عوام کے زخموں کو گہرا کیا بلکہ انسانیت پر سے اعتماد بھی متزلزل کر دیا۔
انسانی استقامت کی کہانی

ان سب مظالم کے باوجود غزہ کے عوام نے اپنی جدوجہد جاری رکھی۔ انہوں نے بھوک، پیاس، بیماری اور بمباری کے باوجود ہمت نہ ہاری۔ یہ دو سال فلسطینی عوام کی قربانی، استقامت اور عزم کی ایک لازوال داستان ہیں۔ وہ آج بھی دنیا کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ ظلم وقتی ہے مگر آزادی کی تڑپ دائمی ہے۔

غزہ کی یہ دو سالہ کہانی انسانیت کے ضمیر پر دستک ہے۔ یہ صرف فلسطینی عوام کا مسئلہ نہیں بلکہ پوری انسانیت کا امتحان ہے کہ آیا وہ نسل کشی کو دیکھ کر خاموش رہتی ہے یا مظلوموں کی آواز بنتی ہے۔