منگل، 7 اکتوبر، 2025
کامیابی والے ہنر
پیر، 6 اکتوبر، 2025
مذاکرات کا پہلا دن
چینی صدر کا بیان
غزہ میں سسکتی انسانیت
غزہ کی جنگ نے صرف گھروں کو ہی نہیں بلکہ زندگیوں کو بھی ٹکڑوں میں بانٹ دیا ہے۔ اس بربادی کے پس منظر میں ایک نئی سیاسی کہانی جنم لے رہی ہے: ڈونلڈ ٹرمپ کا غزہ کے لیے مجوزہ 20 نکاتی منصوبہ۔ یہ منصوبہ بظاہر امن کی راہ دکھاتا ہے، لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ سب سے بنیادی مسئلے یعنی جنگی جرائم کی جواب دہی کو نظرانداز کرتا ہے۔
ہیومن رائٹس واچ نے اپنی تنقید میں واضح کیا ہے کہ ٹرمپ کا منصوبہ اسرائیل کی فلسطینیوں کے خلاف جنگ میں کیے گئے سنگین انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو ایڈریس نہیں کرتا۔ ادارے کے اسرائیل و فلسطین ڈائریکٹر، عمر شاکر نے زور دے کر کہا کہ 7 اکتوبر 2023 کے بعد سے دو سالوں میں ہونے والے مظالم اب تک انصاف سے محروم ہیں۔ ان کا کہنا تھا: "حکومتوں کو ٹرمپ کے منصوبے یا کسی اور منصوبے کے انتظار کے بجائے فوری اقدام کرنا چاہیے، ہتھیاروں پر پابندیاں عائد کرنی چاہییں، پابندیاں لگانی چاہییں اور بین الاقوامی فوجداری عدالت کی حمایت کرنی چاہیے۔"
دوسری جانب، غزہ کی زمینی حقیقت کسی بھی سیاسی مسودے سے کہیں زیادہ کٹھن ہے۔ غزہ سٹی میں المدارس کے قریب حملوں میں زخمی ہونے والے بچے، پلاسٹک اور کمبلوں کے خیموں میں پناہ گزین خاندان، آبادکاروں کے ہاتھوں اکھاڑی گئی زیتون کی کھیتیاں، اور ہیبرون میں منہدم گھروں کی کہانیاں عالمی قانون کی خلاف ورزی کا ایک تسلسل دکھاتی ہیں۔ ندا، ایک بیوہ جو اپنی بیٹیوں کے ساتھ خیمے میں رہ رہی ہے، کہتی ہیں: "ہم نہیں جانتے کہاں جائیں۔ ہم دعا کرتے ہیں کہ کوئی معاہدہ ہو جائے، اگرچہ میرا گھر پہلے ہی تباہ ہو چکا ہے۔" ایک اور بے گھر خاتون، عطاف، اپنے گھر کے ملبے سے نکلنے کی یاد سناتی ہیں: "یہ زندگی نہیں ہے۔"
مصر میں جاری مذاکرات اسرائیل اور حماس کو ایک میز پر لا رہے ہیں۔ اسرائیل کی نمائندگی رون ڈرمر کر رہے ہیں جبکہ خالد الحیہ حماس کی قیادت کر رہے ہیں۔ ٹرمپ کی جانب سے جیرڈ کشنر اور اسٹیو وٹکوف شریک ہیں، جو واشنگٹن کی اس نازک عمل میں ذاتی دلچسپی کو ظاہر کرتا ہے۔ اطلاعات ہیں کہ ٹرمپ اسے "تین ہزار سال میں پہلا امن" قرار دے رہے ہیں—یہ ایک مبالغہ آمیز دعویٰ ہے لیکن یہ ان کی سیاسی وراثت بنانے کی خواہش کو ظاہر کرتا ہے۔ پروفیسر محمد المسری کا کہنا ہے کہ یہ ذاتی خواہش ٹرمپ کو اسرائیل پر دباؤ ڈالنے پر مجبور کر سکتی ہے، جو ماضی کی حکومتوں سے مختلف ہوگا۔
تاہم، اختلافات اپنی جگہ موجود ہیں۔ اسرائیل قیدیوں کی واپسی پر زور دے رہا ہے، جبکہ حماس انخلا، حکمرانی اور ہتھیار نہ ڈالنے کی ضمانتیں مانگ رہی ہے—یہ وہ نکات ہیں جن پر ٹرمپ کا منصوبہ سختی سے زور دیتا ہے۔ 1150 سے زائد اسرائیلی فوجیوں کی ہلاکت اور غزہ میں بے پناہ شہری جانی نقصان کے ساتھ، ثالثی کرنے والے غم، عدم اعتماد اور سیاسی چالبازیوں کے مشکل امتزاج سے دوچار ہیں۔
شلال العوجہ جیسے دیہات میں، جہاں آبادکاروں نے امن کارکنوں کو مارا پیٹا، یا پناہ گزین کیمپوں میں جہاں نوجوان چھاپوں میں زخمی ہوتے ہیں، امن کا تصور دور محسوس ہوتا ہے۔ پھر بھی، خیموں میں بیٹھے پناہ گزین خاندانوں کی دعاؤں میں، اجڑی زیتون کی کھیتوں میں، اور بیواؤں اور بچوں کی آوازوں میں ایک نازک سی امید زندہ ہے: کہ کوئی بھی معاہدہ، چاہے کتنا ہی نامکمل کیوں نہ ہو، کم از کم انہیں گھر لوٹنے کا موقع دے سکے۔
ٹرمپ کا غزہ منصوبہ صرف سفارتکاری کا امتحان نہیں ہے—یہ امتحان ہے کہ دنیا طاقت کی سیاست سے آگے بڑھ کر انصاف، جواب دہی اور انسانی وقار کی کم از کم ضمانت فراہم کر سکتی ہے یا نہیں۔