بدھ، 18 جون، 2025

غیر قانونی ایٹمی طاقت کا تعارف





اسرائیل کی 
 بغیر دھماکے کے ایٹمی قوت بننے کی کہانی
دنیا میں ایٹمی طاقت بننے کے لیے عموماً ایٹمی دھماکہ ایک لازم امر سمجھا جاتا ہے۔ مگر اسرائیل دنیا کا واحد ملک ہے جس نے نہ کوئی ایٹمی تجربہ کیا، نہ ہی نیوکلیئر نان پرولیفریشن ٹریٹی
 (NPT)
 پر دستخط کیے، اور نہ ہی کبھی کھلے عام اعتراف کیا کہ وہ ایٹمی ہتھیار رکھتا ہے — اس کے باوجود وہ ایک مکمل ایٹمی قوت ہے۔
ایٹمی ابہام کی پالیسی
اسرائیل نے ہمیشہ "ایٹمی ابہام" یا
 Nuclear Ambiguity 
کی پالیسی اپنائی ہے۔ نہ تصدیق، نہ تردید۔ اس سے اسے دو فوائد حاصل ہوتے ہیں: ایک طرف خطے میں اپنی برتری کا پیغام دیتا ہے، اور دوسری طرف بین الاقوامی دباؤ سے بچا رہتا ہے۔ امریکہ اور مغربی دنیا اس پالیسی کی خاموش حمایت کرتے رہے ہیں تاکہ مشرق وسطیٰ میں طاقت کا توازن بگڑے نہیں۔
ابتدا کیسے ہوئی؟
اسرائیل کے ایٹمی پروگرام کی بنیاد 1950 کی دہائی میں رکھی گئی۔ اس وقت کے وزیرِ اعظم ڈیوڈ بن گوریون نے فرانس سے خفیہ معاہدہ کیا، جس کے تحت اسرائیل کو جنوبی نیگیو کے علاقے "دیمونا" میں ایک ایٹمی ری ایکٹر بنانے میں مدد ملی۔
یہ پلانٹ ظاہر میں "ٹیکسٹائل فیکٹری" کہلایا، لیکن دراصل یہاں پلوٹونیم تیار کیا جاتا رہا۔ فرانس نے نہ صرف ٹیکنالوجی دی بلکہ اسرائیلی سائنسدانوں کو تربیت بھی فراہم کی۔
امریکہ کا ردعمل
1960
 کی دہائی میں جب امریکی سیٹلائٹ نے دیمونا کی مشکوک سرگرمیاں نوٹ کیں تو امریکہ نے بازپرس کی۔ اسرائیل نے روایتی انداز میں اسے "میٹالرجیکل ریسرچ سنٹر" قرار دیا، اور امریکہ نے مزید سوالات نہ کیے۔
وانونو کا انکشاف
1986 
میں اسرائیلی ٹیکنیشن موردخائی وانونو نے برطانوی اخبار سنڈے ٹائمز کو دیمونا پلانٹ کی تصاویر اور تفصیلات دیں، جن سے واضح ہوا کہ اسرائیل نہ صرف ایٹمی ہتھیار بنا چکا ہے بلکہ اس کے پاس 100 سے 200 ایٹمی وار ہیڈز کا ذخیرہ موجود ہے۔
اس انکشاف کے بعد اسرائیلی خفیہ ادارے موساد نے اسے اٹلی سے اغوا کیا اور اسرائیل لا کر 18 سال قید میں رکھا۔
چونکہ اسرائیل نے کبھی سرکاری طور پر اپنے ایٹمی ذخیرے کا اعلان نہیں کیا، اس لیے حتمی تعداد نامعلوم ہے۔ لیکن اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ
 (SIPRI)
 اور فیڈریشن آف امریکن سائنٹسٹ
 (FAS)
 کے مطابق
اسرائیل کے پاس اس وقت 80 سے 90 ایٹمی ہتھیار موجود ہیں
اور اس کے پاس اتنا پلوٹونیم موجود ہے کہ وہ 200 تک ہتھیار تیار کر سکتا ہے

اسرائیل نے ایٹمی ہتھیاروں کے لیے تین راستے رکھے ہیں، 
بیلسٹک میزائلز (ٰٰجیرکو II اور III)   
، جن کی رینج 5,000 کلومیٹر تک ہے
آبدوزوں سے داغے جانے والے میزائلزجن کا پلیٹ فارم جرمنی سے حاصل کردہ ڈالفن کلاس آبدوزیں    

ایٹمی صلاحیت والے طیارے جیسے F-15 اور F-16
بغیر تجربے کے ایٹمی طاقت؟

یہ حیرت انگیز ہے کہ اسرائیل نے آج تک کوئی کھلا ایٹمی تجربہ نہیں کیا، لیکن پھر بھی وہ ایک ایٹمی قوت ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ:
اسرائیل نے سب-کریٹیکل تجربات کیے جو مکمل دھماکہ نہیں کرتے
جدید کمپیوٹر سمیولیشنز سے ہتھیاروں کی افادیت جانچی گئی
1979 
میں جنوبی بحرِ اوقیانوس میں امریکی سیٹلائٹ نے "ڈبل فلیش" نوٹ کی، جسے بہت سے ماہرین نے اسرائیل-جنوبی افریقہ کے مشترکہ ایٹمی تجربے کا نتیجہ کہا

ایران جیسا ملک، جس نے 
NPT
پر دستخط کیے ہیں اور 
IAEA
 کو انسپکشن کی اجازت دی ہے، ہمیشہ دباؤ میں رہتا ہے۔ دوسری طرف اسرائیل، جو نہ معاہدہ مانتا ہے، نہ انسپیکشن، اس پر کوئی پابندی نہیں۔
یہ دہرا معیار مشرق وسطیٰ میں خطرناک مثال قائم کرتا ہے۔




جنگ کا منافع




 جنگ کا منافع
تحریر: دلپزیر احمد جنجوعہ

جب اسرائیل اور ایران کے درمیان کشیدگی بڑھتی ہے، تو دنیا کی نظریں بے اختیار امریکہ پر جم جاتی ہیں۔ ہر طرف ایک ہی سوال گردش کرتا ہے: کیا امریکہ اس جنگ میں براہِ راست کود پڑے گا؟ اور اگر ہاں، تو کیا یہ جنگ امریکہ کے لیے کسی بھی قسم کا اقتصادی فائدہ لے کر آئے گی؟
ظاہر ہے، جنگوں میں کچھ صنعتوں کو عارضی فائدے ضرور حاصل ہوتے ہیں۔ خاص طور پر امریکہ جیسی فوجی طاقت رکھنے والے ملک میں، دفاعی صنعت سب سے پہلے منافع سمیٹتی ہے۔ دفاعی ٹھیکے، ہتھیاروں کی فروخت، اور اتحادی ممالک کو جنگی سازوسامان کی ترسیل — ان تمام سرگرمیوں سے 
Raytheon، Lockheed Martin، اور General Dynamics
 جیسے ادارے اربوں ڈالر کماتے ہیں۔ اسرائیل، سعودی عرب، اور خلیجی ریاستیں امریکی ہتھیاروں کی سب سے بڑی خریدار ہیں، اور جنگ کی صورت میں ان کی مانگ کئی گنا بڑھ سکتی ہے۔
اسی طرح توانائی کے شعبے کو بھی فوری فائدہ ہوتا ہے۔ ایران پر حملے یا پابندیاں اس کے تیل کی سپلائی کو متاثر کرتی ہیں، جس سے عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں بڑھتی ہیں۔ ایسے میں امریکی تیل اور گیس کمپنیاں، خاص طور پر شیل انڈسٹری، یورپ اور ایشیا کو زیادہ قیمت پر تیل بیچ کر خوب منافع کماتی ہیں۔ عالمی بحران میں سرمایہ دار محفوظ پناہ گاہ تلاش کرتے ہیں — اور عموماً وہ امریکی ڈالر اور اسٹاک مارکیٹ ہوتی ہے۔ یوں وال اسٹریٹ کو بھی وقتی فائدہ ملتا ہے۔
لیکن سوال یہ ہے: کیا یہ فائدہ عوام تک بھی پہنچتا ہے؟
جنگ میں دفاعی صنعت تو امیر ہو جاتی ہے، لیکن عام امریکی کو مہنگائی، بے یقینی اور بجٹ خسارے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جب تیل کی قیمت بڑھتی ہے، تو ٹرانسپورٹ مہنگی ہو جاتی ہے، خوراک کی قیمتیں بڑھتی ہیں، اور صنعتوں پر دباؤ آتا ہے۔ نتیجہ؟ مہنگائی، بے روزگاری، اور معیشت پر بوجھ۔
امریکہ نے 2003 میں عراق پر حملہ کیا — کیا اس سے عام امریکی کو کوئی معاشی فائدہ ہوا؟ نہیں، بلکہ اسے 8 ٹریلین ڈالر کا خرچ، ہزاروں جانیں، اور ایک غیر مستحکم مشرقِ وسطیٰ ملا۔
امریکہ کی فوجی مہمات کبھی اقتصادی بحالی کا ذریعہ نہیں رہیں۔ جنگی اخراجات صحت، تعلیم، اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی کو پیچھے چھوڑ دیتے ہیں۔ یہ وہ علاقے ہیں جہاں سرمایہ کاری معاشرے کے ہر فرد کو فائدہ دیتی ہے — لیکن جنگ اس سرمایہ کو تباہ کر دیتی ہے۔
آج اگر امریکہ اسرائیل کے کہنے پر ایران سے جنگ چھیڑتا ہے، تو شاید چند کمپنیوں کے اسٹاک اوپر چلے جائیں، مگر امریکی شہریوں کو اس کا نقصان ہی ہوگا۔ تیل کی قیمتوں میں اضافہ، مشرقِ وسطیٰ میں امریکی اڈوں پر حملے، دنیا بھر میں امریکہ کے خلاف جذبات میں اضافہ — یہ وہ سچ ہے جس سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔
بدقسمتی سے جنگ اب نفع کا کاروبار بن چکی ہے — مگر صرف چند کے لیے۔ اور جو قومیں اپنے مستقبل کو چند کارپوریشنوں کے منافع کے لیے گروی رکھ دیتی ہیں، وہ بالآخر تاریخ میں قیمت ادا کرتی ہیں۔
جنگ کا نعرہ لگانے والوں سے پوچھنا چاہیے:
کیا اس منافع کی قیمت انسانی جانوں، عالمی امن، اور معاشی تباہی سے ادا کی جا سکتی ہے؟
تحریر: دلپزیر احمد جنجوعہ

ایران — تہذیب، تاریخ اور طاقت کا استعارہ


جب دنیا ایران کا نام لیتی ہے تو اکثر کے ذہن میں ایٹمی تنازع، عالمی پابندیاں یا "مرگ بر امریکہ" جیسے نعرے آتے ہیں۔ مگر ایران صرف حال کا سیاسی کردار نہیں بلکہ ہزاروں برسوں کی تہذیب، فکری ورثے، اور مزاحمتی تاریخ کا نمائندہ ہے۔
یہ وہی سرزمین ہے جسے دنیا قدیم دور میں "فارس" کے نام سے جانتی تھی — ایک عظیم سلطنت، ایک گہری ثقافت، اور ایک ایسا تمدن جس نے نہ صرف مشرق وسطیٰ بلکہ ایشیا اور یورپ کی تاریخ پر بھی انمٹ نقوش چھوڑے۔
جغرافیہ اور آبادی کی جھلک

ایران مغربی ایشیا کے قلب میں واقع ہے اور سات ممالک سے جڑا ہوا ہے: عراق، ترکی، پاکستان، افغانستان، آرمینیا، آذربائیجان اور ترکمانستان۔ اس کی زمینی وسعت 16 لاکھ مربع کلومیٹر سے زائد ہے، جہاں البرز اور زاگروس جیسے پہاڑی سلسلے، دشتِ لوط اور دشتِ کویر جیسے تپتے صحرا، اور کارون جیسے دریا موجود ہیں۔
ایران کی آبادی تقریباً 88 ملین ہے۔ اکثریت فارسی النسل ہے، لیکن آذری ترک، کرد، بلوچ، لور، ترکمان، عرب اور دیگر قومیں بھی یہاں رہتی ہیں۔ مذہبی لحاظ سے شیعہ مسلمانوں کی اکثریت ہے، جبکہ سنی، زرتشتی، یہودی، عیسائی اور بہائی اقلیتیں بھی موجود ہیں۔
ایران بطور تہذیب

ایران کو صرف ایک ملک کہنا زیادتی ہوگی۔ یہ ایک تہذیب ہے — زرتشت کی روشنی، فارسی کی نرمی، شعر و ادب کی بلندی، اور مزاحمت کی شدت، سب اس میں رچی بسی ہیں۔ ایرانی قوم پرستی اسلام سے پہلے کی سلطنتوں، زبان و ادب، اور فکری برتری پر بھی فخر کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایران خود کو عرب دنیا سے ایک الگ اور برتر شناخت کے ساتھ دیکھتا ہے۔
تاریخ کے اوراق

تاریخ ایران میں چار بڑے ادوار واضح ہیں:
قبل از اسلام سلطنتیں — ہخامنشیوں نے کثیرالقومی حکومت قائم کی، ساسانیوں نے زرتشتی مذہب کو سرکاری مذہب بنایا، اور رومیوں، بازنطینیوں و عربوں سے طویل جنگیں لڑیں۔
اسلامی عہد — 651ء میں عربوں نے ایران فتح کیا، لیکن ایران نے نہ صرف اسلام قبول کیا بلکہ اسے علم، ادب اور حکومت کے میدان میں نئی روح دی۔
صفوی عہد — ایران پہلی بار بطور "شیعہ ریاست" سامنے آیا، جو آج تک اس کی مذہبی و سیاسی شناخت کا مرکز ہے۔
پہلوی اور انقلابی دور — مغربی اثرات، شاہی جبر، اور پھر
1979
 کا اسلامی انقلاب۔ امام خمینی نے نہ صرف بادشاہت کا خاتمہ کیا بلکہ ایران کو "ولایت فقیہ" کی فقہی قیادت میں بدل دیا۔
موجودہ ایران
ایران آج پابندیوں، معاشی دباؤ اور عالمی تنہائی کا شکار ضرور ہے، لیکن اس کے اندر ایک ایسی ریاستی مضبوطی ہے جو اسے مسلسل عالمی سیاست میں سرگرم رکھتی ہے۔
سپاہِ پاسداران (IRGC)
 بیلسٹک میزائل، ڈرون ٹیکنالوجی، اور خطے بھر میں اس کا اثر و رسوخ — خاص طور پر شام، لبنان، یمن اور عراق میں — ایران کو ایک مزاحمتی طاقت بنا دیتے ہیں۔
جوہری مسئلہ

ایران نے جوہری عدم پھیلاؤ
(NPT)
معاہدے پر دستخط کیے، لیکن امریکہ و مغرب کا شک اسے مسلسل تنازع کی شکل میں رکھتا ہے۔ 2015 کا JCPOA
معاہدہ امید کی کرن تھا، مگر ٹرمپ حکومت نے اسے توڑ کر حالات پھر بگاڑ دیے۔
عالمی اثر و نفوذ
ایران آج شیعہ دنیا کا نظریاتی و عسکری مرکز بن چکا ہے۔ بحرین سے لے کر یمن تک، اور افغانستان و پاکستان میں بھی اس کے اثرات موجود ہیں۔ روس و چین سے اس کے تعلقات گہرے ہو رہے ہیں، اور یہ بلاک امریکہ و اسرائیل مخالف سوچ کو مضبوط کرتا جا رہا ہے۔
آخری بات
ایران کو کمزور کہا جا سکتا ہے، معاشی لحاظ سے تنہا بھی، لیکن اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ایک ایسی تہذیب ہے جو زخم کھا کر بھی زندہ ہے، اور دنیا کو بتا رہی ہے کہ مزاحمت صرف فوج سے نہیں بلکہ فکر، ثقافت اور نظریے سے بھی کی جاتی ہے۔
ایران کا وجود آج کی دنیا میں ایک یاد دہانی ہے — کہ قومیں صرف جنگوں سے نہیں، تہذیب سے پہچانی جاتی ہیں۔

تحریر: دلپزیر احمد جنجوعہ

ایران بمقابلہ اسرائیل: مزاحمتی نظریے کا تقابلی جائزہ




مشرقِ وسطیٰ کی سیاست میں اگر کوئی دو ریاستیں سب سے زیادہ ایک دوسرے کے مخالف دھارے پر کھڑی ہیں، تو وہ ایران اور اسرائیل ہیں۔ یہ دشمنی صرف سفارتی یا عسکری سطح تک محدود نہیں بلکہ ایک گہری نظریاتی، مذہبی اور تہذیبی تقسیم کی نمائندہ ہے۔
ایک طرف ایک ایسی یہودی ریاست ہے جس نے دوسری جنگِ عظیم کے بعد ظلم و ستم کی کوکھ سے جنم لیا، تو دوسری طرف ایک قدیم تہذیب کا وارث ایران، جو 1979 کے انقلاب کے بعد مغربی سامراج کے خلاف مزاحمت کی علامت بن چکا ہے۔

ایران کی تاریخ ہزاروں برس پر محیط ہے۔ کوروش اعظم کی ہخامنشی سلطنت سے لے کر صفوی حکمرانوں تک، ایران نے ایک تہذیب، ایک قوم، اور ایک شناخت کے طور پر دنیا پر گہرا اثر ڈالا۔
اسرائیل جدید ریاست ہے، مگر اس کی بنیادیں یہودی عقیدے اور دیاسپورا کی صدیوں پرانی امید پر رکھی گئیں — ایک ایسی سرزمین جہاں یہودی اپنے مذہب، قوم اور شناخت کے ساتھ محفوظ رہ سکیں۔

مگر یہاں اصل بات صرف تاریخی تسلسل کی نہیں، بلکہ نظریاتی ترجیح کی ہے۔ ایران نے اسلامی انقلاب کے بعد اپنے بیانیے کو سامراج مخالف مزاحمت میں ڈھال لیا — اسرائیل اس بیانیے میں "غاصب ریاست" کی علامت ہے۔
دوسری طرف، اسرائیل کا بیانیہ "بقا ہر قیمت پر" ہے — چاہے وہ جنگ ہو، نیوکلیئر تیاری ہو یا پراکسی خطرات کا سدِ باب۔

اسرائیل کا رقبہ چھوٹا سہی، مگر عسکری اعتبار سے وہ خطے کی سب سے جدید اور منظم فوجی طاقت ہے۔ 
F-35
 جیسے جنگی طیارے، آئرن ڈوم دفاعی نظام، اور نیوکلیئر ہتھیار — یہ سب اس کی حفاظت کی چھتری بن چکے ہیں۔
ایران کے پاس نیوکلیئر بم نہیں، مگر اس کا بیلسٹک میزائل پروگرام، سپاہِ پاسداران، اور پراکسی نیٹ ورک (جیسے حزب اللہ، حماس، حوثی) اسے ایک "زمینی طاقت" بناتا ہے۔
اگر اسرائیل "فضائی اور ٹیکنالوجی کی برتری" کا ترجمان ہے تو ایران "نظریاتی اور زمینی اثر" کا حامل ہے۔
ایران کا نعرہ ہے: "مرگ بر اسرائیل"
اسرائیل کا نعرہ ہے: "Never Again"
ایک مزاحمت کو فرض سمجھتا ہے، دوسرا اپنی بقا کو مقدس مانتا ہے۔
ایران فلسطینی کاز کو ایک مذہبی فریضہ اور شیعہ–سنی اتحاد کی بنیاد سمجھتا ہے۔
اسرائیل اسے دہشت گردی کی پشت پناہی تصور کرتا ہے۔
یہ اختلاف جغرافیہ یا حکمتِ عملی کا نہیں، بلکہ اخلاقی اور مذہبی برتری کے دعوے کا ہے۔
اسرائیل مغرب کی آنکھ کا تارا ہے۔ امریکہ، یورپ، برطانیہ، خلیجی عرب ریاستیں — سب کے سب یا تو اس کے 
حلیف ہیں یا اس کی  دشمنی سے پرہیز کرتے ہیں۔
ایران چین، روس، بھارت شام اور عراق میں اثر رکھتا ہے، مگر
موجودہ کشیدہ حالات میں بھارت نے اسے زبردست دھوکہ دیا ہے تو عراق اور شام بھی اس کا ساتھ دینے سے 
 ۔  عاجز پائے گئے ہیں
البتہ پاکستان دل و وسائل کے ساتھ ایران کےساتھ کھڑا ہے
 اسے عالمی پابندیوں، معاشی مشکلات، اور داخلی احتجاجات کا سامنا ہے۔
پھر بھی ایران عالمی منظرنامے سے غائب نہیں — وہ خطے کی ہر جنگ میں موجود ہے، چاہے پردے کے پیچھے۔
 یہ صرف دشمنی نہیں، دو الگ دنیاؤں کا تصادم ہے
اسرائیل اور ایران کا تنازع دراصل ایک تہذیبی جنگ ہے۔
ایک طرف ایک سیکولر، یہودی قوم پرست ریاست ہے جس کی بنیاد بقا پر ہے۔
دوسری طرف ایک مذہبی انقلابی ریاست ہے جس کی بنیاد مزاحمت پر ہے۔
کیا یہ تصادم کبھی ختم ہو گا؟
کیا کبھی ایسا دن آئے گا جب تل ابیب اور تہران ایک دوسرے کو صرف دشمن کے طور پر نہیں، ایک انسانی وجود کے طور پر دیکھیں گے؟
شاید نہیں — کیونکہ جب دشمنی نظریاتی ہو، تو جنگ میدان میں نہیں، ذہنوں میں ہوتی ہے… اور وہ طویل ہوتی ہے۔

"یہ لڑائی زمین کی نہیں، نظریے کی ہے۔
اور نظریہ کبھی میزائلوں سے نہیں مرتا… صرف فہم سے بدلتا ہے۔"




اسرائیل: خواب، حقیقت یا عالمی سیاست کا المیہ






چند ریاستیں اپنے وجود سے زیادہ اپنی تخلیق کے عمل میں چھپی کہانیوں سے جانی جاتی ہیں، اور اسرائیل ان میں سرِفہرست ہے۔ یہ ریاست نقشے پر تو 1948 میں ابھری، مگر اس کا نظریہ، منصوبہ، اور مالی و عسکری بنیادیں کئی دہائیوں بلکہ صدیوں پہلے رکھی جا چکی تھیں۔ آج اسرائیل ایک ایٹمی طاقت، ٹیکنالوجی کا مرکز، اور مغربی دنیا کا اسٹریٹیجک حلیف ہے، مگر اسی وقت فلسطینیوں کے لیے یہ ایک خونچکاں المیہ بھی ہے۔
خواب سے ریاست تک کا سفر

صہیونیت محض ایک تحریک نہیں تھی، یہودی بقا کا منصوبہ بھی تھی۔ جب یورپ میں یہودیوں پر مظالم بڑھے، خاص طور پر نازی جرمنی کے ہاتھوں ہولوکاسٹ کی تباہی کے بعد، تو عالمی رائے عامہ ایک "یہودی وطن" کے حق میں ہموار ہوئی۔ برطانیہ نے بالفور ڈیکلریشن کے ذریعے اس خواب کو عملی شکل دینے کی راہ ہموار کی، اور بالآخر 1948 میں اقوامِ متحدہ کے فیصلے سے اسرائیل کی ریاست وجود میں آ گئی۔

اسی دن فلسطین کے لیے تباہی کا آغاز ہوا — لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے، اور ان کا وطن اجنبی ہاتھوں میں چلا گیا۔
اسرائیل کا مقدمہ
اسرائیل تین بنیادوں پر اپنا مقدمہ دنیا کے سامنے رکھتا ہے:
 مذہبی بنیاد — کہ یہ زمین خدا کی عطا ہے،
 تاریخی بنیاد — کہ یہاں کبھی داؤد و سلیمان کی سلطنتیں تھیں،
 سیاسی بنیاد — کہ ایک جمہوری، جدید، اور خودمختار قوم کو بقا کا حق ہے۔

دنیا کے بڑے طاقتور ممالک، خصوصاً امریکہ اور یورپی ممالک، ان دعووں کو قانونی و اخلاقی جواز فراہم کرتے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا تین ہزار سال پرانی تاریخ یا مذہبی دعوے آج کی دنیا میں زمین کا قانونی قبضہ ثابت کرتے ہیں؟

دولت اور طاقت کا گٹھ جوڑ
اسرائیل کی بقا میں دولت نے اہم کردار ادا کیا۔ یورپ اور امریکہ میں موجود سرمایہ دار یہودی خاندان، خصوصاً روتھ شیلڈز اور دیگر صہیونی ادارے، ریاست اسرائیل کے قیام سے بہت پہلے مالیاتی بنیادیں رکھ چکے تھے۔ آج بھی امریکہ ہر سال اسرائیل کو 4 ارب ڈالر کی فوجی امداد دیتا ہے۔
اسرائیل نے ٹیکنالوجی، اسلحہ سازی، سائبر سیکیورٹی، اور زراعت میں حیران کن ترقی کی ہے — یہاں دولت اور سائنس ایک نظریاتی مشن کا ایندھن بن چکے ہیں۔

اسرائیل کے اتحادی: ایک مضبوط نیٹ ورک
دنیا کے کئی ممالک اسرائیل کے خفیہ یا اعلانیہ اتحادی ہیں:
 امریکہ: سب سے بڑا عسکری و سفارتی محافظ
 یورپی ممالک: اسلحہ و ٹیکنالوجی میں شریک
 بھارت: دفاعی خرید و فروخت اور سفارتی قربت
 خلیجی عرب ریاستیں: یو اے ای، بحرین، مراکش، سوڈان نے ابراہیمی معاہدے کے ذریعے تعلقات قائم کر لیے
 سعودی عرب: خاموش حمایت، مگر سیاسی مفادات کا توازن برقرار
اور فلسطین؟
فلسطینی اس تمام سیاسی گیم میں ایک زخم زدہ قوم ہیں۔ ان کے پاس نہ وہ دولت ہے، نہ وہ اسلحہ، نہ وہ سفارتکاری جو اسرائیل کے پاس ہے۔ اسرائیل نے 1967 کی جنگ کے بعد مغربی کنارے، غزہ اور مشرقی یروشلم پر قبضہ کیا، اور وہاں آج بھی فوجی، آبادیاتی اور معاشی دباؤ قائم ہے۔
عالمی برادری خاموش ہے، اور امتِ مسلمہ اختلافات میں الجھی ہوئی ہے۔

 ریاست یا نظریہ؟
اسرائیل ایک ریاست ہے، مگر اس سے بھی بڑھ کر ایک نظریہ ہے — ایک ایسا بیانیہ جو مذہب، تاریخ، جدیدیت، اور بقا کے جواز کو یکجا کرتا ہے۔ یہی بیانیہ اسے طاقت دیتا ہے، اور یہی بیانیہ اسے اخلاقی کٹہرے میں کھڑا کرتا ہے۔

یہ کہانی صرف زمین کی نہیں، شناخت کی ہے
یہ صرف سفارت کی نہیں، تاریخ، عقیدے اور مستقبل کے خواب کی بھی ہے۔
اور یہی وجہ ہے کہ اسرائیل کا تنازع آج بھی جاری ہے  اور شاید کل بھی جاری رہے۔

"بعض ریاستیں سرحدوں سے پہچانی جاتی ہیں،
بعض نظریات سے
اسرائیل دونوں میں شمار ہوتا ہے۔"