بدھ، 28 مئی، 2025

زمین کے ایک سائنسی و قرآنی مطالعہراز اور انسانی جستجو —

 



زمین کے ایک سائنسی و قرآنی مطالعہ راز اور انسانی جستجو


اللہ تعالیٰ نے انسان کو علم حاصل کرنے اور کائنات پر غور و فکر کرنے کی صلاحیت عطا کی ہے۔ قرآن کریم ہمیں بار بار دعوت دیتا ہے کہ ہم زمین و آسمان کی تخلیق میں تدبر کریں، اور اللہ کی نشانیاں تلاش کریں:

"أَفَلَا يَنظُرُونَ إِلَى الْإِبِلِ كَيْفَ خُلِقَتْ، وَإِلَى السَّمَاءِ كَيْفَ رُفِعَتْ، وَإِلَى الْجِبَالِ كَيْفَ نُصِبَتْ، وَإِلَى الْأَرْضِ كَيْفَ سُطِحَتْ"
(سورۃ الغاشیہ: 17-20)
"کیا وہ اونٹ کی طرف نہیں دیکھتے کہ کس طرح پیدا کیا گیا؟ اور آسمان کی طرف کہ کیسے بلند کیا گیا؟ اور پہاڑوں کی طرف کہ کیسے گاڑے گئے؟ اور زمین کی طرف کہ کس طرح بچھائی گئی؟"

یہی آیات انسان کو زمین کے اندر جھانکنے کی دعوت بھی دیتی ہیں۔ سوال یہ ہے: اگر ہم زمین میں مسلسل کھودتے جائیں تو کیا ہوگا؟

زمین کی گہرائیوں کی تلاش: ایک سائنسی کاوش

صدیوں سے انسان اس بات کا متجسس رہا ہے کہ زمین کے نیچے کیا ہے۔ جدید سائنس کے مطابق زمین مختلف تہوں پر مشتمل ہے:
کرسٹ (crust)، مینٹل (mantle)، آؤٹر کور، اور انر کور۔
زمین کا مرکز تقریباً 6,371 کلومیٹر کی گہرائی پر ہے، لیکن آج تک ہم اس کا صرف معمولی سا حصہ ہی کھود پائے ہیں۔

▪ کولا سوپر ڈیپ بورہول (Kola Superdeep Borehole) — روس

1970 کی دہائی میں سوویت یونین نے زمین کی گہرائی میں کھودنے کا ایک عظیم منصوبہ شروع کیا۔ وہ 12.2 کلومیٹر تک کھودنے میں کامیاب ہوئے — جو آج تک کی سب سے گہری کھدائی ہے۔

اہم دریافتیں:
  • غیر متوقع شدید گرمی (180°C)

  • چٹانیں جو دباؤ سے نرم پگھلی ہوئی پلاسٹک کی مانند ہو گئیں

  • دو ارب سال پرانے خوردبینی جرثومے

  • چٹانوں میں گہرائی سے پانی کا انکشاف

▪ جرمن KTB پروجیکٹ

1980 کی دہائی میں جرمنی نے 9.1 کلومیٹر تک کھدائی کی، تاکہ زلزلوں، فالٹ زونز اور زمینی ساخت کو سمجھا جا سکے۔

▪ جاپان کا چیکیُو منصوبہ

جاپان نے ایک تحقیقاتی جہاز کے ذریعے سمندر کی تہہ سے کھودنے کا آغاز کیا، اور اب تک 7.7 کلومیٹر کی گہرائی تک جا چکے ہیں۔ ان کا ہدف: زمین کی مینٹل تک پہنچنا اور زلزلوں و پلیٹ ٹیکٹونکس کو سمجھنا۔

▪ امریکہ کا پروجیکٹ موہول

1960 کی دہائی میں امریکہ نے سمندر کے نیچے مینٹل تک کھودنے کی کوشش کی، مگر فنڈز کی کمی کے باعث منصوبہ مکمل نہ ہو سکا۔

قرآنی روشنی میں زمین کی تہیں

قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

"اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ"
(سورۃ الطلاق: 12)
"اللہ وہ ہے جس نے سات آسمان بنائے اور زمین سے بھی ویسی ہی (تہیں) پیدا کیں۔"

علماء کی رائے ہے کہ اس آیت سے زمین کی سات تہوں کی طرف اشارہ ہے، جو جدید سائنسی دریافتوں سے مطابقت رکھتا ہے۔

اسی طرح رسول اللہ ﷺ کی حدیث میں فرمایا:

"من أخذ شبرا من الأرض ظلما طوقه الله إياه يوم القيامة من سبع أرضين"
(صحیح بخاری)
"جس نے ایک بالشت زمین ظلم سے لی، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے سات زمینوں تک پہنائے گا۔"

یہ سب واضح کرتے ہیں کہ زمین کے نیچے بھی تہ در تہ نظام موجود ہے، جس کی حقیقت مکمل طور پر صرف اللہ تعالیٰ جانتا ہے۔

سائنسی فائدے اور دینی سوچ

اگرچہ ہم زمین کے مرکز تک نہیں پہنچ سکے، لیکن ان سائنسی منصوبوں سے ہمیں یہ فائدے حاصل ہوئے:

  • زلزلوں اور پلیٹوں کی حرکت کو سمجھنا

  • گہرائی میں موجود خوردبینی مخلوقات کی دریافت

  • زمین کی گرمی اور اندرونی نظام کو جاننا

  • انسانی ٹیکنالوجی کی حدود کو آزمانا

یہ سب علم کی وہ شاخیں ہیں جنہیں اسلام تفکر و تدبر کی روشنی میں پسند کرتا ہے، بشرطے کہ انسان غرور میں مبتلا نہ ہو، اور علم کو اللہ کی نعمت سمجھے۔

اگر ہم زمین میں کھودتے جائیں، تو ہم زمین کے مرکز تک شاید نہ پہنچ پائیں، لیکن علم کے مرکز تک ضرور جا سکتے ہیں۔ زمین کے راز ہمیں اللہ کی تخلیق، اس کی حکمت، اور ہماری محدود علم کی حیثیت کا شعور عطا کرتے ہیں۔

قرآن کی رہنمائی اور سائنس کی تحقیق ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ:

"وَفَوْقَ كُلِّ ذِي عِلْمٍ عَلِيمٌ"
(سورۃ یوسف: 76)
"اور ہر علم والے سے اوپر ایک علم والا ہے

غربت کس کو کہتے ہیں



غربت کس کو کہتے ہیں

ہماری دوستی کالج کے دنوں میں پروان چڑھی۔ وہ ایک خاموش مزاج، سنجیدہ اور محنتی نوجوان تھا۔ زندگی نے اسے آسان راستے نہیں دیے تھے، مگر اس کے حوصلے ہمیشہ بلند رہے۔ کالج کے دنوں میں ہی مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ اس کا تعلق ایک نہایت کمزور مالی پس منظر سے ہے۔ اس کا والد دیہاڑی دار مزدور تھا، اور خاندان  کے باقی افراد اس قدر تنگ نظر تھے کہ رشتے داری تسلیم کرنے کو بھی تیار نہ تھے۔

میرا دوست نے بچوں کو ٹیوشن  پڑھاتااور روزی کا بندوبست کرتا۔ وہ دن رات محنت کرتا رہا۔ بی ایس سی کرنے کے بعداسے  ایک جاپانی کمپنی میں ملازمت ملی۔ قسمت نے بھی اس کی محنت کا ساتھ دیا اور کمپنی نے اپنے خرچ پر اسے جاپان اعلیٰ تعلیم کے لیے بھیجا۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ واپس آیا تو اس کی زندگی تبدیل ہو چکی تھی، مگر اس کے اصول وہی تھے: محنت، سادگی اور خودداری۔

ان سالوں میں اس نے صرف اپنی زندگی سنواری، بلکہ اپنے چھوٹے بھائیوں اور بہنوں کو بھی سہارا دیا۔ وہ سب ایک ایک کر کے تعلیم یافتہ اور خود مختار ہو گئے۔ مگر یہ سب کرنے کے باوجود وہ آج بھی کرائے کے گھر میں رہ رہا تھا۔

زندگی کا ایک اور موڑ اس وقت آیا جب 48 سال کی عمر میں اس نے اپنی کولیگ سے شادی کی۔ وہ خود بھی ایک اچھی ملازمت پر تھی اور پوش علاقے میں اس کا اپنا ذاتی گھر تھا۔ شادی کے بعد دونوں وہاں منتقل ہو گئے۔ اب ان کا طرزِ زندگی ایسا تھا جسے دیکھ کر رشک آتا تھا — ایک کنال کا گھر، تین ملازم، کمپنی کی گاڑیاں، اور مالی طور پر بظاہر ہر سہولت موجود۔

مگر ایک دن کی ملاقات نے میرے تمام اندازے بدل دیے۔

کافی دیر تک بات چیت کے بعد اس نے کہا:
"گھر کے اخراجات پورے نہیں ہوتے۔"

میں چونک گیا۔ پوچھا: "آمدن کتنی ہے؟"

اس نے بتایا: "میری تنخواہ پانچ لاکھ سے زیادہ ہے، بیوی کی ساڑھے تین لاکھ ہے۔"

یعنی دونوں کی کل آمدن آٹھ لاکھ روپے ماہانہ۔ پھر بھی اخراجات پورے نہ ہونا؟ حیرت زدہ ہو کر میں خاموش ہو گیا۔

اس نے کہا:
"میری ماں کرائے کے گھر میں، نہایت کم آمدنی میں ہمیں کبھی محرومی کا احساس نہیں ہونے دیتی تھی۔ آج ہم دونوں اتنا کما رہے ہیں، پھر بھی ہم احساسِ محرومی کے ساتھ زندہ ہیں۔"

پھر اس کی وہ بات، جو میرے دل پر نقش ہو گئی:
"غریب وہ نہیں ہوتا جس کی آمدن کم ہو، اصل غربت احساسِ محرومی ہے۔"

میرا کہنا ہے 

 "گھر میں ماں ہو یا بیوی اگر وہ احساس محرومی میں زندہ ہے تو پورا گھرانہ غریب ہی رہے گا " 

منگل، 27 مئی، 2025

یومِ تکبیر – پاکستان کا فخر، قوم کی آواز



 یومِ تکبیر – پاکستان کا فخر، قوم کی آواز

28 مئی 1998 کا دن پاکستانی تاریخ میں ہمیشہ سنہری الفاظ میں لکھا جائے گا۔ یہ دن صرف ایک جوہری تجربے کا دن نہیں تھا، بلکہ یہ دن خودمختاری، جرأت، عزم اور قومی غیرت کا اعلان تھا۔ اسی دن پاکستان نے بلوچستان کے پہاڑوں میں چھ دھماکوں کے ساتھ دنیا کو یہ پیغام دیا کہ ہم اپنے دفاع اور خودمختاری پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ اسی دن کو "یومِ تکبیر" کے طور پر منایا جاتا ہے، جو درحقیقت اللہ اکبر کی صدا کا دن ہے۔

ذوالفقار علی بھٹو – بانیِ ایٹمی پروگرام

پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھنے والے شہسوار، ذوالفقار علی بھٹو تھے۔ 1974 میں بھارت کے جوہری دھماکے کے بعد جب پورا خطہ خطرات کی لپیٹ میں آ چکا تھا، تب بھٹو صاحب نے جرأت مندانہ فیصلہ کیا: "ہم گھاس کھا لیں گے، مگر ایٹم بم ضرور بنائیں گے۔" ان کا یہ وژن اور عزم ہی تھا جس نے پاکستان کو ایک جوہری قوت بنانے کی سمت میں پہلا قدم بڑھایا۔ انہوں نے سائنسدانوں کو مکمل آزادی دی، وسائل مہیا کیے اور ہر ممکن حمایت کی تاکہ یہ خواب حقیقت بن سکے۔

پاکستانی سائنسدانوں کو سلام

پاکستان کا ایٹمی پروگرام اپنے سائنسدانوں کی محنت، ذہانت، حب الوطنی اور قربانی کا مظہر ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور ان کی ٹیم نے اپنی زندگیوں کے قیمتی لمحے قوم کے دفاع کے لیے وقف کیے۔ کہوٹہ ریسرچ لیبارٹریز، پی اے ای سی، اور دیگر اداروں نے محدود وسائل کے باوجود وہ کام کر دکھایا جو دنیا کی بڑی طاقتیں بھی آسانی سے نہیں کر سکتیں۔ ان کے تجربات، ریسرچ، اور عزم نے وہ طاقت قوم کو بخشی جس نے پاکستان کو ناقابل تسخیر بنا دیا۔

نواز شریف – دباؤ کے سامنے سیسہ پلائی دیوار

1998 میں بھارت نے ایک بار پھر ایٹمی تجربے کر کے خطے میں طاقت کا توازن بگاڑنے کی کوشش کی۔ عالمی برادری کا دباؤ تھا کہ پاکستان جواب نہ دے۔ معاشی پابندیوں کی دھمکیاں دی گئیں، لاکھوں ڈالرز کی امداد اور مراعات کی پیشکشیں کی گئیں، مگر وزیرِاعظم میاں محمد نواز شریف نے دباؤ کو مسترد کرتے ہوئے قوم کے جذبات کی ترجمانی کی۔ انہوں نے کہا: "ہم کسی کی دھمکیوں میں آنے والے نہیں۔ ہماری غیرت، ہماری خودداری ہمیں اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ خاموش رہیں۔"

قوم کا ردعمل – جشنِ خودداری

28 مئی 1998 کو جب چھ جوہری دھماکوں کی گونج بلوچستان کے پہاڑوں سے نکلی، تو پورا پاکستان "اللہ اکبر" کی صداؤں سے گونج اٹھا۔ سڑکوں پر لوگ نکل آئے، ایک دوسرے کو مٹھائیاں کھلائیں، خوشی سے سجدہ شکر ادا کیا۔ بچوں، نوجوانوں، بزرگوں سب کی آنکھوں میں ایک نئی روشنی تھی – خود اعتمادی کی، خود داری کی، اور اپنے وطن سے بے پناہ محبت کی۔ قوم نے ثابت کیا کہ اگر قیادت سچی نیت اور جرأت سے فیصلہ کرے، تو عوام اس کے پیچھے سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑی ہو جاتی ہے۔

یومِ تکبیر – ایک عہد کی تجدید

یومِ تکبیر صرف ایک دن نہیں، ایک عہد ہے۔ یہ یاد دلاتا ہے کہ پاکستان نے جب بھی چاہا، دنیا کو حیران کر دیا۔ یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ وژن رکھنے والے لیڈر (ذوالفقار علی بھٹو)، غیرت مند قیادت (نواز شریف)، اور محب وطن سائنسدانوں کی مشترکہ کوششیں کس طرح ایک قوم کو طاقتور بناتی ہیں۔

آئیے، یومِ تکبیر پر ہم ایک بار پھر اپنے عزم کو دہراتے ہیں – کہ ہم اپنے وطن کی خودمختاری، سلامتی، اور ترقی پر کبھی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔

پاکستان زندہ باد۔ 

پیر، 26 مئی، 2025

پانی - نیا محاذ




پانی - نیا محاذ

جنوبی ایشیا میں بھارت اور پاکستان کی دشمنی اب صرف بارود، میزائل اور کشمیر تک محدود نہیں رہی۔ اب پانی  — دونوں ایٹمی قوتوں کے درمیان کشیدگی کا نیا ہتھیار بن چکا ہے۔

اپریل 2025 میں مقبوضہ کشمیر میں پہگام واقعے کا ذمہ دار پاکستان کوقرار دے کرد بھارت نے سندھ طاس معاہدے کو معطل کر دیا۔ وزیراعظم نریندر مودی نے ڈیموں کی تعمیر تیز کرنے کا اعلان کیا اور واضح الفاظ میں کہا:
پاکستان کو بھارت کا ایک قطرہ پانی بھی نہیں ملے گا

یہ بیان نہیں پالیسی ہے۔

بھارت نے مغربی دریاؤں — چناب، جہلم اور سندھ — پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے بڑے آبی منصوبے تیزی سے شروع کیے۔ پاکستان کے لیے یہ اقدام ایک معاشی اور زرعی تباہی کا پیش خیمہ ہیں۔ پنجاب کی زرخیز زمینیں، جو پاکستان کا "اناج گھر" کہلاتی ہیں، پانی کی شدید کمی کا شکار ہو رہی ہیں

 مئی 10 کو امریکہ کی ثالثی سے جنگ بندی تو ہوئی، لیکن بھارت نے صاف کہا کہ جب تک پاکستان "دہشت گردی" کے خلاف فیصلہ کن اقدامات نہیں کرتا، وہ معاہدے کی بحالی پر غور نہیں کرے گا۔

دریاؤں پر کنٹرول اب صرف انجینئرنگ نہیں بلکہ اسٹریٹیجک ہتھیار ہے۔ بھارت پانی کو ایک "خاموش جنگ" کے طور پر استعمال کر رہا ہے — وہ جنگ جس میں نہ گولہ بارود چلتا ہے، نہ سرحد پار ہوتی ہے، لیکن دشمن کو اندر سے توڑ دیا جاتا ہے۔

ماحولیاتی تبدیلی نے اس بحران کو مزید بڑھا دیا ہے۔ گلیشیئرز کا پگھلاؤ، بے ترتیب بارشیں اور طویل خشک سالی نے پاکستان جیسے زرعی ملک کو شدید خطرے سے دوچار کر دیا ہے۔

اب صورتحال یہ ہے کہ اگر بھارت نے کوئی ڈیم بند کیا یا پانی روکا، تو نہ صرف فصلیں تباہ ہوں گی بلکہ دیہات خالی اور شہر بے حال ہو جائیں گے۔ ہجرت، بے روزگاری، مہنگائی اور سماجی بے چینی کا نہ رکنے والا طوفان آئے گا۔

یہ صرف پاکستان کے لیے نہیں، بلکہ پورے خطے کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ اگر پانی کو ہتھیار بنایا گیا تو  جنگ کی شروعات گولی سے نہیں، ڈیم کے دروازے بند کرنے سے ہو گی۔


منگل، 20 مئی، 2025

خود ساختہ فیلڈ مارشل

خود ساختہ فیلڈ مارشل

پاکستان کی پُرآشوب سیاسی و عسکری تاریخ میں چند شخصیات ایسی ہیں جو ہمیشہ متنازعہ رہیں — ان میں سب سے نمایاں نام فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کا ہے۔ ایک وقت میں “نجات دہندہ” اور “رہبرِ ترقی” کے طور پر پیش  میراث  خود پرستی، طاقت کی ہوس، اور ادارہ جاتی حدود کو روندنے کی علامت 

کے علاوہ کچھ بھی نہ تھی۔

ابتدائی ترقی: سینئرز کو نظرانداز کر کے پروموشن

ایوب خان کی ترقی کی کہانی جنگی میدان سے نہیں بلکہ اقتدار کی راہداریوں سے شروع ہوتی ہے۔ 1951 میں، جب وہ راولپنڈی میں سب سے جونیئر جنرل تھے، انہیں اچانک کمانڈر ان چیف بنا دیا گیا۔ اس فیصلے پر کئی حلقوں میں حیرت اور تشویش کا اظہار ہوا۔

یہ فیصلہ اسکندر مرزا (سیکریٹری دفاع) اور وزیرِاعظم لیاقت علی خان کے باہمی مشورے سے ہوا۔ ایوب خان کو وفادار اور غیر سیاسی سمجھ کر ترقی دی گئی — بدقسمتی سے یہ اندازہ غلط ثابت ہوا۔

قائدِاعظم کی پیش گوئی

ایک مشہور واقعہ جو اکثر دہرایا جاتا ہے، یہ ہے کہ قائدِاعظم محمد علی جناح نے ایوب خان کے بارے میں کہا تھا:
"اس شخص سے ہوشیار رہو، یہ بہت
 ambitious
 ہے۔"
یہ جملہ، خواہ حقیقت ہو یا روایت، ایوب خان کی شخصیت کو مکمل طور پر بیان کرتا ہے — ایک ایسا شخص جو وردی میں اقتدار کا خواب دیکھ رہا تھا۔

خود ساختہ فیلڈ مارشل

1958

میں ایوب خان نے اپنے سیاسی سرپرستوں کو برطرف کر کے مارشل لا نافذ کیا اور خود کو صدر پاکستان بنا لیا۔ اگلے ہی سال، 1959 میں، انہوں نے خود کو فیلڈ مارشل کے عہدے پر ترقی دے دی — نہ کوئی جنگ جیتی، نہ کوئی تاریخی عسکری کارنامہ۔

یہ ذاتی تمنا اور طاقت کے اظہار کا مظاہرہ تھا، نہ کہ کوئی فوجی ضرورت یا اعزاز۔ ذوالفقار علی بھٹو نے بعد میں اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ایوب نے خود کو اس لیے فیلڈ مارشل بنایا تاکہ وہ باقی جرنیلوں سے "اونچے" دکھائی دیں۔

سیاستدانوں اور مورخین کا ردعمل

سینئر سیاستدانوں نے اس اقدام کو غرور اور خود پرستی کا شاخسانہ قرار دیا، جبکہ ماہرینِ عسکریات نے اسے ادارے کے تقدس کی توہین سمجھا۔ ممتاز مورخین جیسے ڈاکٹر عائشہ جلال اور اسٹیفن کوہن نے اس عمل کو پاکستان میں عسکری سیاست کی بنیاد قرار دیا۔

فیلڈ مارشل کا لقب ایوب کے لیے باعزت رتبہ نہیں بلکہ مذاق بن گیا، خصوصاً جب 1965 کی جنگ میں ان کی کارکردگی نہ ہونے کے برابر تھی۔ جنگ کی قیادت جنرل موسیٰ خان نے کی، جبکہ ایوب خان پس منظر میں خاموش تماشائی بنے رہے۔

زوال: عوام نے آواز بلند کی

ایوب خان نے اپنی شخصیت کو ریاستی میڈیا، پوسٹرز، شاعری اور پروموشنز کے ذریعے "قومی رہنما" کے طور پر پیش کیا، مگر زمینی حقائق کچھ اور تھے۔ جنگ، مہنگائی، بے روزگاری اور سیاسی گھٹن نے عوام کو بغاوت پر مجبور کر دیا۔

1969

میں ملک گیر احتجاج اور ہنگاموں کے بعد ایوب خان نے استعفیٰ دے دیا اور اقتدار جنرل یحییٰ خان کے حوالے کر دیا۔ اس کے بعد وہ ہمیشہ کے لیے سیاسی منظرنامے سے غائب ہو گئے۔

خاموشی کا انجام

اپنی باقی زندگی ایوب خان نے خاموشی، گمنامی اور پچھتاوے میں گزاری۔ وہ اسلام آباد میں مقیم رہے، عوام میں شاذ و نادر ہی نظر آئے۔ 1974 میں ان کا انتقال ہوا — ایک ایسا شخص جس کی پرواز بلند تھی مگر انجام عبرتناک۔

نتیجہ: اقتدار کی خواہش کا سبق

ایوب خان کی کہانی صرف ایک شخص کی نہیں بلکہ اس سوچ کی نمائندہ ہے جو اقتدار کو ذات کی توسیع سمجھتی ہے۔ ان کا فیلڈ مارشل بننا فوجی عہدوں کی بے توقیری، اور جمہوری اداروں کی پامالی کی علامت بن چکا ہے۔

تاریخ، ہمیشہ دیر سے مگر غیر جانبداری سے انصاف کرتی ہے۔ اور ایوب خان کی کہانی ہمیں یہی سبق دیتی ہے:
قومیں فردِ واحد کے سائے میں نہیں پنپتیں۔