جمعہ، 14 اگست، 2020
بدھ، 5 اگست، 2020
ان پڑھ جاہل
ہم یقین رکھتے ہیں کہ علم کا منبع ذات باری تعالیٰ ہے۔ اس فانی زمین پر علم جس شہر میں اتارا گیا۔ اس کے اکلوتے دروازے
پر کنندہ ہے کہ ظلم تو برداشت کر لیا جاتا ہے مگر بے انصافی تباہی لاتی ہے۔ اس جملے کو یوں ہی کہا جا سکتا ہے کہ میرٹ کے بغیر شہر کھوکھلے ہو جایا کرتے ہیں۔ کھوکھلا درخت ہو کہ معاشرہ تیز ہواوں کے سامنے سر نگوں ہو جاتا ہے۔
حکومت کے لیے دولت و قوت بنیادی عوامل ہوتے ہیں اور 1947 میں جب پاکستان بن رہا تھا۔ تاج برطانیہ کے پاس دولت کی کمی تھی نہ قوت کی۔ جنگ عظیم دوئم کے بعد وہ فاتح قوم تھی۔ مگر ہندوستان میں اس کی اخلاقی برتری محض اس لیے ختم ہو چکی تھی وہ کچھ طبقات کو انصاف مہیا کرنے میں ناکام تھی۔
بہادر شاہ ظفر کو اگر دو گز زمین نہ ملی تو اس کا سبب انگریزوں کے ساتھ اس کے اپنے بھی تھے جن کے ساتھ انصاف نہیں ہو رہا تھا۔ ترکی کے سلیمان دی گریٹ جس کی حکومت بیس لاکھ مربع میل پر پھیلی ہوئی تھی کے وارثین جب دستبرداری کے معاہدے پر عمل کر رہے تھے تو ان کے اپنے وزیر و مشیر ان کے ساتھ نہ تھے۔اور ان کو بے انصافی نے دشمنوں کی گود میں جا بٹھایا تھا۔ یہ ماضی کی نہیں حال کی تاریخ ہے۔
قیام پاکستان کے بعد ہم خود ستائی کے دور گذر رہے ہیں۔ ہر زبان غدار وطن اور ہر لفظ کافر دین قرار پاتا ہے۔ دشنام طرازی سے بڑھ کر بات اغواء باالجبر اور گولی سے بھی آگے جا چکی ہے۔ لاہور والے واصف علی واصف سے کسی نے گلہ کیا تھا کہ لوگ نظریات پر روٹی کو ترجیح دیتے ہیں تو ان کا جواب تھا روٹی کا بندوبست کرو نظریہ قبول ہو جائے گا۔ ایک سیاسی اجتماع کے دوران ایک صاحب نے ایک ہاتھ میں روٹی اور دوسرے ہاتھ میں مقدس کتاب پکڑ کر لوگوں کو روٹی پر کتاب کو ترجیح دینے کی نصیحت کی تھی ووٹ مگر روٹی کو ملے تھے۔ انسان کی بنیادی ضرورت روٹی ہی ہے اسی لیے سب سے بڑی نیکی لوگوں کو کھلانا ہے تو سب سے بڑی بے انصافی خدا کے کنبے کو بھوکا رکھنا ہے۔
ہم اسلام کے جس قلعے کے باسی ہیں اس کی دیواریں ضخیم اور بلند ہیں۔ اس قلعے کے اندر بعض چھتیں عام چھتوں سے چالیس گناہ زیادہ مضبوط ہیں۔ اس کی منڈیر کے کنگروں پر ایٹمی ابابیل اس قلعے کی حفاظت کرتی ہیں تو ایٹمی چھتری اس قلعے کو تحفظ فراہم کرتی ہے۔ مگر اس قلعے کے باہر ہمارے کہے کا اثر نہیں ہوتا۔ ہماری دہمکیاں ہوا بھرے غبارے ثابت ہوتے ہیں ۔ اور ہماری طاقت ہمارا بوجھ بن جاتی ہے۔ ہمارا نظریاتی ٖ فخرخاک راہ ثابت ہوتا ہے۔ہمارے ہمدرد بے سروپا کر دیے جاتے ہیں۔ اس قلعے کے اندر ہماری محنتیں بے ثمر رہ جاتی ہیں۔ ہماری قابلیت اور ہنر بے فیض ثابت ہوتے ہیں۔ہمارے فتوے نا قابل عمل بن جاتے ہیں۔ امید وہ سہارا ہوتا ہے جس کے بل بوتے پر انسان زندگی بسر کر لیتا ہے مگر مایوسی کے لشکر اس مضبوط قلعے کے خفیہ راستوں سے مانوس ہو چکے ہیں۔
ملکوں میں سویت یونین اور شخصیات میں حسین شہید سہروردی، دونوں ہی داستان بن چکے مگر ہم داستانوں سے کیا سبق سیکھیں گے۔
آج کل پاکستان میں ارطغرل کے کارناموں پر عوام کو ایک ڈرامہ دکھایا جا رہا ہے۔ دنیا پر 600 سال تک حکمرانی کرنے والے اس گروہ کے بارے میں کتابوں میں درج ہے وہ یتیم بچوں کو اپنی سرپرستی میں اعلیٰ تعلیم دلوایا کرتے تھے۔پاکستان میں میٹرک تک مفت تعلیم مہیا کرنا آئینی تقاضا ہے مگر عملی طور پر آئین کاغذ کا ایک ٹکڑا ہے جس کا مقام ردی کی ٹوکری ہے ۔ اور بیانیہ یہ ہے کہ قوم ان پڑھ اور جاہل ہے۔
اتوار، 2 اگست، 2020
چاند اور ستارے
دوسرے نے پہلے کو بد دعائیں دیں۔ پہلے نے تحمل سے سنا اور جواب دیا
اگر روز جزا میزان کا پلڑا میرے گناہوں سے جھک گیا تو جو کچھ تم نے کہا ہے، میں اس سے بھی بد تر ہوں اور اگر گناہوں کا پلڑا ہلکاہو کر اوپر اٹھ گیا تو جو کچھ تم نے کہا ہے اس سے مجھے کوئی ڈر یا خطرہ نہیں ہے
اس جملے کے پیچھے تقوی ٰ کا پہاڑ ہی نہیں علم کا گہرا سمندر موجزن دکھائی دیتا ہے۔ایسا جواب کسی دوسرے نے نہیں بلکہ اس پہلے نے دیا تھا۔ جسے سابقین میں پہلا خودعالمین کے صادق اور اللہ کے آخری نبی ﷺ نے بتایا تھا۔ یہ وہی شخصیت ہیں جن کے بارے میں حضرت معاذ بن جبل ؓ نے اپنی وفات سے قبل کہا تھا علم کو ان کے پاس تلاش کرنا ۔
ان کو خود اللہ کے رسول ﷺ نے 300 کھجور کے درختوں اور 600 چاندی کے درہموں کے عوض عثمان بن العشال سے خرید ا ۔آزادی کا پروانہ حضرت علی بن ابو ظالب نے لکھا اور نام سلمان خود رسول اللہ ﷺ نے رکھا ۔ ان کو اپنے نام سلمان پر فخر تھا مگر جب بات دین کی آئی تو کہا میرا نام اسلام ہے ۔ صاحب تاریخ مشائخ نقشبند نے لکھا ہے کہ کسی نے سلمان فارسی سے پوچھا تھا آپ کا نسب کیا ہے تو انھوں نے جواب دیا تھا اسلام اور کہا کہ جب ہمارا دین اسلام ہے تو ہمارا سب کچھ اسلام ہے۔ ہمارا دین ہمیں اپنے ماں باپ، بہن بھائی سے زیادہ عزیز ہے
سلمان فارس میں خوشفودان نامی زرتشت کے گھر پیدا ہوئے تو ان کا نام مابہ رکھا گیا۔ اور سولہ سال کی عمر تک انھیں آتش پرستی کی تعلیم دے کر ایک معبد کا نگران مقرر کر دیا گیا۔ علم کی تاثیر ہے کہ وہ اپنے طالب کے اندر مزید علم کے حصول کی آتش کو بھڑکاتا ہے۔اس آتش پرست نوجوان کی آتش بھڑکی تو اس نے شام کا ارادہ کیا۔ خاندان کے لاڈلے بیٹے کو گھر والوں نے روکنے کی کوشش کی مگر وہ نہ رکے۔ اور شام میں عیسائی راہبوں کے پاس علم حاصل کرتے رہے۔ علم کا اعجاز ہے کہ وہ اپنے طالب پر حقیقت آشکار کرتی ہے۔ شام میں ہی انھیں ادراک ہو گیا تھا کہ اصل کامیابی کا علم اس نبی کے پاس ہو گا جن کے سارے ہی صاحبان علم منتظر تھے۔ انھیں معلوم ہو چکا تھا کہ ان کی آمد یثرب میں ہوگی۔ ان نبی آخر الزمان کی پہچان کی نشانیاں بھی انھوں نے ازبر کر لیں تو یثرب کے ارادے سے بنو کلب کے کاروان کے ساتھ ہو لیے۔ وقت نے انھیں بنو قریظہ کے عثمان بن العشال کا غلام بنا دیا۔
خندق کی کھدائی کا مشورہ دینے والے اس ساسانی پردیسی کہ اہمیت اس وقت کھلی جب مہاجرین نے کہا سلمان ہم میں سے ہے مگر انصار کا صرار تھا سلمان ہم سے ہے ۔ بات اللہ کے رسول ﷺ تک پہنچی تو فرمایا۔ سلمان میرے اہل بیت میں سے ہے یہ ایسا شرف تھا جو صرف حضرت سلمان ؓ کے حصے میں آیا ۔
صحابہ کرام ہمارے قمر نبوت کے نجوم ہیں۔ بات ستاروں کی ہو مگر استعاروں میں ہو تو علم فلکیات کے طالب علم جانتے ہیں کہ ہر ہر ستارے کی اپنی وسعت ہے۔ آسمان پر اورین بلٹ میں تین ستارے چمکتے ہیں
. النقاط1
. النیلم
المنظقہ
یہ تینوں ستاروں کی دنیا دوسرے آسمانی ستاروں سے مختلف ہے۔ ان کی چمک کا انداز ایسا روشن ہے کہ رات کے وقت آسمان کی وسعتوں میں ان کی نشان دہی مشکل نہیں ہوتی۔ روشنی، روشنی ہی ہوتی ہے مگر روشنیوں کے بھی اپنے اپنے رنگ ہوتے ہیں۔ قمر نبوت کے نجوم میں تین نام دوسروں سے بالکل مختلف ہیں۔ ان ناموں میں:
۔ سلمان فارسی
۔ صہیب رومی
۔ بلال حبشی ۔ شامل ہیں
اللہ کے رسول نے ایک دفعہ چار ناموں کا ایک چارٹ بنایا تو اپنے نام کے ساتھ ان تین پردیسیوں کے نام شامل کیے۔ رسول اللہ کے دنیا سے وصال کے بعدیہ مہاجرین مسلمانوں کے قلوب میں ایسے انصار بن کے رہے کہ حضرت بلال کو مسلمانوں کے خلیفہ یا سیدی سے مخاطب ہوتے تھے تو حضرت سلمان کو مدائن کی فرمان روائی پیش کی جاتی تھی ۔
اصحاب رسول ﷺ ایسے لوگ تھے جن کے دلوں میں اللہ تعالی ٰ نے ایمان ثبت کر دیا تھا (المجادلہ؛؛۲۲) البتہ مسلمانوں پر دین کا یہ قرض باقی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے فرمان کی روشنی میں قمرو نجوم کے استعاروں کو کھولیں تاکہ تشنگان علم کے قلوب میں ایمان کی رسوخیت کی کونپلیں کھل کر پھول بن جائیں۔
جمعرات، 30 جولائی، 2020
گولڑے والے پیر
جون 22، 1974 کو جب حضرت بابو جی نے دنیا سے پردہ فرمایا تھا تو ہم یہ سوچ کر گریہ کناں تھے کہ اب تشنہ قلوب کو
ضیائے نور کہان سے حاصل ہو گا مگر جب چھوٹے لالہ جی حضرت پیر شاہ عبدلحق بن غلام محی الدین بن مہر علی شاہ بن سید نذرالدین بن سید غلام شاہ بن روشن دین نے اپنے دست مبارک سے ہمارا ہاتھ تھاما تو ادراک ہوا کہ ہدائت کے طلبگاروں کے لیے نور ہدائت ہر وقت موجود رہتا ہے۔ اپنے والد گرامی سے بڑھ کر ہمارے دلوں میں احترام پانے والے ہمارے رفیق راہ، پیر، مرشداور نفس کو قابو رکھنے کے ہنر سے آشنا کرنے والے ہمارے اتالیق نے ہماری ترببیت الفاظ کے انبار سے نہیں کی مگر عمل کرنے کی تحریک سے دل روشناس کرایا تھا۔ یہ تحریک ایسی قوی ہوئی کہ اس کے مقابل جسم بھی تسلیم خم ہو گیا۔ دوران گفتگو چھوٹے چھوٹے جملے ایسی ایسی گرہیں کھولتے جو ضخیم کتب کے مطالعہ سے بھی نہ کھل پاتی تھیں۔
لالہ جی کی بیٹھک کے دروازے کے سامنے سایہ دار درخت کے نیچے بیٹھ کر یہ شکستہ تحریر لکھ رہا ہوں تو سب کچھ ویسا نہیں ہے جیسا ہوا کرتا تھا۔ آج وہ بند مٹھی کھل گئی ہے جس میں برسوں کا صبر پوشیدہ تھا۔وہ سہارا ٹوٹ گیا ہے جسے شیشے کی کھڑکی سے دیکھ کر دل مطمن ہو جایا کرتا تھا۔ وہ لمبا کپڑا اج لپیٹ دیا گیا ہے جس کے ایک سرے پر ہاتھ کر کر درد مند اپنے مرشد کے ہاتھ کا لمس محسوس کیا کرتے تھے۔ دربار گولڑہ کے رازوں کا امین میرا مغفور بھائی حاجی سلطان محمود جنجوعہ کے ادا کیے ہوئے کلمات رہ رہ کر یاد آتے ہیں کہ لالہ جی روحانیت سے لبریز ہو چکے ہیں۔ دل چاہتا ہے چیخ کر لوگوں کو بتاوں کہ اج روحانیت کا وہ جام چھلک گیا ہے۔
میرے والد گرامی مٖغفور حاجی محمد افسر جنجوعہ راہیا اس بات کاذکر کیا کرتے تھے کہ انھوں نے قبلہ عالم پیر مہر علی شاہ کو دیکھا تو تھامگر دست بیعت حضرت بابو جی کے ہاتھ میں دیاتھا ۔ وقت کا چرخہ گھوم کر اس مقام پر آ رکا ہے کہ ہم نے حضرت بابو جی کا دیدار تو کیا مگر ہمارا ہاتھ سرکار لالہ جی نے تھاماتھا۔
فراق ایسا غم نہیں ہے جو بھول پائے مگر ہمیں بتا دیا گیا تھاسدا رہنے والی ذات صرف احد و صمد کی ہے۔مادیت سب فانی ہے روحانیت اور علم مگر زندہ و جاوید ہے۔ہماری بلند درگاہ گولڑہ شریف کو رب محمد ﷺ سدا مینار نور کے طور پر سلامت رکھے۔یہ تقلید کا ایساقلعہ ہے جس میں مقلد پناہ گزیں ہو کر نفس و شیطان سے امان پاتا ہے۔
سبسکرائب کریں در:
اشاعتیں (Atom)