اتوار، 9 دسمبر، 2018

زندگی کی حراست


پی ٹی آئی نے حکومت میں آنے کے بعدسب سے پہلا کام یہ کیا کہ اقوام عالم میں پاکستان کی معاشی ترقی کے بارے میں جو تصور بن رہا تھا۔ اس کو غلط ثابت کیا۔ سابقہ حکومت کے وہ سارے منصوبے جن میں حکومت کو عوام کی تائید شامل تھی۔ مثال کے طور پر میٹرو اور توانائی سے متعلق منصوبے ، ان کو کرپشن کا گڑھ بتایا ۔ سب سے زیادہ اعتراض ملتان میٹرو پر سامنے آئے۔ جب اس منصوبے کو موازنہ پشاور میٹرو سے کیا جاتا ہے تو بالکل خاموشی اختیار کر لی جاتی ہے ۔ اورنج ٹرین ایسا منصوبہ تھا جس نے عوام ، حکومت اور سرمایہ کاروں کو نئے خواب دیکھنے کا حوصلہ دیا تھا۔ ایک سفارت کار نے ان دنوں سوشل میڈیا پر کہا تھا کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ ایک دن اسلام آباد سے ناشتہ کر کے ٹرین سے کراچی جا کر میٹننگ اٹینڈ کروں گااور دوپہر کا کھانا کھا کر رات کو واپس اسلام آباد ہوں گا۔ یہ اس وقت ہی ممکن ہوتا جب اسلام آباد سے کراچی تک بلٹ ٹرین چل چکی ہوتی۔ اورنج ٹرین کے منصوبے کو سست روی کا شکار کر کے عوام کی امنگ اور سرمایہ کاروں کے اعتماد کو ایسی ٹھیس پہنچائی گئی ہے جس کا ازالہ کرنے کے لیے پوری ایک نسل درکار ہوگی ۔
پاکستان میں سیاستدانوں کی کرپشن وہ داستان ہے جو 1954 سے مسلسل بیان کی جارہی ہے۔ پہلے عوام اس داستان سے متاثر ہوتی تھی۔ محدود ذرائع ابلاغ اور میڈیا پر سرکاری کنٹرول کے باعث عوام حقیقت حال جاننے سے محروم ہوتی تھی۔ مگر اب حالات بدل چکے ہیں ۔ عوام نے 200 ارب والے بیانیے پر یقین کیا۔ کرپشن کرنے والوں پر چار حرف بھی بھیجے مگر چند ہفتوں بعد ہم نے یہ بھی دیکھا کہ جس صحافی نے چار حرف بھیجے تھے حکومتی عہدیداروں سے پوچھتا پھر رہا ہے کہ قلم کی نوک سے نکلے یہ حروف اب کس  پر بھیجوں؟
جو مقدمات کرپشن کے نام پر حکومت مخالف جماعتوں پر چل رہے ہیں ان پر بہترین تبصرہ پاکستان کے صدر جناب عارف علوی نے ایک ٹی وی انٹر ویو میں ْ فضول مقدمات ْ کی اصطلاح استعمال کرکے کیاہے
نیب کے کردار کے بارے میں ہر با عزت شخض تبصرہ کرنے سے گریزاں رہتا ہے ۔ اس ادارے کی کارستانیاں دیکھ کر ماضی میں پنجاب میں چلی ایک تحریک کی یاد آتی ہے جس کا نام تھا ْ پگڑی سنبھال جٹا ْ نیب کا چیلنج ہے ْ پگڑی بچا کے دکھا جٹا ْ نیب کے بارے میں سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ وہ شریف لوگوں کی پگڑیاں نہ اچھالے ۔ نیب لوگوں کے بارے میں تو سپریم کورٹ کی سن سکتی ہے مگر شریفوں کا مسٗلہ دوسرا ہے۔پنجاب یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر جن کو نیب نے گرفتار کیا اور طویل ریمانڈ پر اپنی تحویل میں رکھا ، نے عدالت سے ضمانت پررہا ہونے کے بعد جو انکشافات کیے ہیں ان سے نیب کے سیاسی تعصب بارے اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ان کے انکشافات میں ایک یہ ہے کہ ان پر سابقہ حکومت کے ایک وزیر کے خلاف وعدہ معاف گواہ بننے کے لیے دباو ڈالا گیا ۔۔ سرگودہا یونیورسٹی کے ایک سابق وائس چانسلر کے ساتھ نیب کے نوجوان افسر کی بدتمیزی کی خبریں اور گرفتار ملزمان کے خاندان کے افراد کی موجودگی میں تشدد کر کے سابقہ حکومت کے خلاف بیان لینے کی کوشش جیسے الزام عام ہیں۔پی ٹی آئی کے رہنماء جناب عارف علوی صاحب نے اعتراف کیا ہے کہ نیب تحقیقاتی نہیں بلکہ سیاسی ادارہ ہے۔ اس فتوےٰ کے بعد اس ادارے بارے کچھ کہنا سورج کو چراغ دکھانا ہی ہے۔ 
سابقہ آمر پرویز مشرف کے کارناموں میں پی سی او کا نفاذ ایسا کارنامہ تھا جس سے ہمارا معاشرہ بہت زیادہ متاثر ہو۔ اس کے سب سے زیادہ اثرات عدلیہ کے فیصلوں میں دیکھے گئے۔ عوام پی سی او ججوں کے بعض فیصلوں کو پڑھ کر حیران ہوتی ہے اور بعض  مقدمات کی کاروائی پر ششدر رہ جاتی ہے۔  قانون کے طالب علموں، وکلاء اور سول سوسائٹی نے اکہتر سالوں میں بہت کچھ سیکھا ہے البتہ اس انکشاف پر حیران نہیں ہونا چاہیے کہ سب سے زیادہ سبق عوام نے سیکھا ہے کہ وہ اکہتر سالوں سے ہربے انصافی کا بلا واسطہ ہدف رہے ہیں۔ عوام میں ایک یقین پایا جاتا ہے کہ ہمارا آنے والا کل آج سے بہتر ہو گا ۔ ایک وقت آئے گا کہ پاکستانی معاشرہ ہر قسم کی آمرانہ سوچ کی باقیات سے چھٹکارا حاصل کر چکا ہو گا۔
پاکستان کی بنیا د رکھنے اور اس کو بنانے والے رہنماوں کے اپنی زندگی کے دن پورے کر لینے کے بعد جب ملک حکمرانوں کے زیر تسلط آ گیا اور پورے مغربی پاکستان کے صوبے کے گورنر نے لوگوں کو اپنی مونچھ سے ڈرانا شروع کر دیا تو پھر حکمرانوں کو اپنی ہی عوام سے خطرہ پیدا ہو گیا۔ روٹ لگنے اور سڑکوں پر مسلح محافظوں کو قطار اندر اندر قطار کھڑا کرنے کی ضرورت ایوب خان کے دور میں محسوس ہونا شروع ہو گئی تھی۔افراد اداروں پر حاوی ہونا شروع ہو گئے۔ پھر ادارے ایک دوسرے کے حریف بننے لگے۔ ایک دوسرے کونیچادکھاتے دکھاتے ہم اپنے ہی دو ٹکڑے کر بیٹھے۔ ایک دانشمند نے کہا تھا کہ لوگوں کی غلطیوں سے سیکھو مگر ہم نے اپنی ہی غلطیوں کو غلطی ہی تسلیم کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ ہمارے غلط ہونے کا ثبوت ہمارے پروٹوکول ہیں۔ جس دن ریاست ، حکومت اور عوام کی سوچ ایک جیسی ہو جائے گی اس دن پروٹوکول خود بخود ختم ہو جائے گا اور مسلح محافظوں اور ہٹو بچو پکارتے ہوٹروں کی ضرورت ختم ہو جائے گی۔ اس وقت تکمحفوظ دفاتر، پناہ گاہ بنے ادارے اور جان بچانے والی سیکیورٹی اور گاڑیوں کے قافلے کے ساتھ ایمبولنس کی بھی ضرورت ہے۔ البتہ یہ کہنا کہ پروٹول نہیں لیں گے سیکورٹی سے احتراز نہ کریں گے۔ بڑے گھرکے اندر چھوٹی رہائش مین رہیں گے۔ پاکستان اتنا بڑا ملک ہے اور عوام کا دل اس قدر وسیع ہے کہ انھیں آپ کے گھروں اور گاڑیوں پر کبھی اعتراز رہا ہی نہیں مگر یہ من کا چور ہے جو شور مچاتا ہے۔شور تو گرجتے بادل بھی بہت مچاتے ہیں۔ برستی بارش کو کان پھاڑتی گرج سے نہیں ، ملی میٹر سے ناپا جاتا ہے۔ جی کامیابی جان ، مال اور وقت لگا کر زینہ بزینہ ہی حاصل ہوتی ہے اور اس کے ماپنے والےپیمانے بھی طویل نہین ہوا کرتے ۔ ہمیں ایسا بیانیہ تیار کرنے کی ضرورت ہے جو نوجوان نسل کو یقین دلا سکے کہ کارخانہ قدرت میں ہر پرزے کا ایک مقام ہے۔ جب تک ایسا بیانیہ تراش نہیں لیا جاتا اس وقت تک آپ پروٹول کول اور سیکیورٹی کی اپنی تعریف بیان کرتے رہیں گے اور عوام اس پروٹوکول پر چار حرف بھیجتے رہیں گے۔مگر عوام کو یہ رویہ بھی پسند نہیں ہے کہ اداروں کے ملازمین کو ان ہی کے ادارے میں حکومتی وزراء اور مشیران دھکےماریںیا غریب ہمسائے کا جینا حرام کر دیں
وزیر اعظم صاحب کی ہمشیرہ محترمہ پر لگے مالی بد عنوانی کے الزامات کو جس طرح قانونی طور پر طے کیا گیا ہے ۔ اس عمل پر حزب اختلاف کی کسی جماعت نہ میڈیا نہ ہی عوام نے کوئی نقطہ چینی کی ہے۔ کیا مالی معاملات کو نمٹانے کایہ طریقہ اس طریقے سے بہتر ثابت نہیں ہوا جو طریقہ حکمران پارٹی کے مخالفین پر آزمایا جا رہا ہے۔البتہ یہ بیان حکومتی پارٹی کے اندر سے آیا ہے کہ ان سائیڈ ٹریڈنگ جرم نہیں ہے ۔ اس کو کہتے ہیں آ بیل مجھے مار
الزام تراشی اور بے بنیاد الزام ایسے اعمال ہیں ۔ جن سے ہمارا عدالتی نظام منفی طور پر متاثر ہو رہا ہے۔ سیاسی مقدمات کے عدالتی فیصلوں پر عوام کی رد عمل اس کا واضح ثبوت ہیں۔
کھنا مرے مزار کے کتبے پہ یہ حروف​
مرحوم زندگی کی حراست میں مر گیا


آسمانی صحیفہ

خلیل جبران نے ایک متبرک شہر کا قصہ لکھا ہے جس کے باشندے آسمانی صحیفوں کے مطابق زندگی گذارتے تھے۔مگر جب وہ اس شہر کودیکھنے پہنچا تو دیکھا کہ تمام شہریوں کا ایک ہاتھ اور ایک آنکھ نہیں ہے۔ استفسار پر اس شہر کے ایک بوڑہے نے بتایا ْ خدا نے ہمیں اپنی برائیوں پر فتح دی ہے ْ انھیں مقدس منبر کے اوپر وہ تحریر بھی دکھائی گئی جس پر تحریر تھا ْ اگر تمھاری داہنی آنکھ تمھیں ٹھوکر کھلائے تو اسے باہر نکال پھینکو۔ سارے جسم کے دوزخ میں جلنے سے ایک عضو کا ضائع ہونا بہتر ہے ْ 
آسمانی صحیفوں میں سب سے قدیم حضرت ابراہیم علیہ السلام کا صحیفہ تھامگر دنیا کے کسی بھی کونے میں اس کے وجود کا سراغ نہیں ملتامگر اس صحیفے میں سے کچھ موتی اب بھی لوگوں کو ازبر ہیں ، مثال کے طور پر ْ دانش مند اپنی زبان کی حفاظت کرے ْ 
دنیا میں معاش کمانے کے دو ہی ہتھیار ہیں ایک ہاتھ دوسرا زبان۔حضرت عقبہ ابن عامرؓ نے ایک بار پوچھا ْ اے اللہ کے رسول نجات کس طرح ممکن ہے ْ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ْ اپنی زبان کو قابو میں رکھو ْ 
بھلے شاہ نے جب کہا تھا ْ علمون پئے رولے ہور ْ تو اس کا مقصد علم کی مذمت نہیں بلکہ اس کااشارہ زبان ہی کی طرف تھا۔جب کوئی صاحب علم فلسفے کی سیڑہی چڑھ کر منطق کے منبر پر برجمان ہو کر کلام کے حصان بے لگام کو علم کے وسیع میدان میں دوڑاتا ہے تو آسمانی صحیفوں کا علم زمین پر گھسٹتاہے۔
حضرت سید شاہ محمد فاروقی (1878 ۔ 1951 ) کے ملفوظات شہیداللہ فریدی اور کپتان واحد بخش سیال نے ْ تربیت العشاق ْ کے نام سے لکھے ہیں۔ اس میں واقعہ درج ہے کہ ایک مفلوک الحال شخص بہتر معاش کی تلاش میں دہلی سے احمد آباد روانہ ہوا ۔ راستے میں اس کا زاد راہ ختم ہو گیا۔ تین دن سے فاقہ زدہ سرائے میں بیٹھا سوچوں میں گم تھاکہ سرائے کے ساتھ رہنے والی ایک طوائف اس کے پاس آئی اور پریشانی کا سبب پوچھا۔ غریب نے ساری بپتا کہہ سنائی۔ طوائف نے سوت کات کر جو حلال نقدی اپنے کفن دفن کے اخراجات کے لیے رکھی ہوئی تھی۔اسے لا کر دی اور کہا کہ اگر ہو سکے تو واپسی پر مجھے لوٹا دینا۔مسافر نقدی لے کر چلا گیا۔ احمد آباد میں اس نے خوب روپیہ کمایا اور امیر ہو گیا۔ جب وہ واپس دہلی جاتے ہوئے اسی سرائے میں اترا اور طوائف کو اس کی رقم واپس کرنے اس کے مکان پر گیا تو اس نے دیکھا کہ طواف پر سکرات کا عالم طاری ہے۔ مسافر کو دیکھ کر طوا ئف کی مشکل آسان ہو گئی۔مسافر نے اس کی تجہیز و تکفین کا بندوبست کیا۔ خود اس کو قبر میں اتارا۔ اس کام سے فارغ ہو کر جب سرائے میں واپس آیاتو اسے احساس ہوا کہ وہ اپنی نقدی والی ہمیانی قبر ہی میں گرا آیا ہے۔ وہ رات کے وقت چپکے سے سرائے سے نکلا۔ قبر کھودی تو یہ دیکھ کر حیران ہوا کہ قبر میں میت ہی نہیں ہے۔اسے ایک جانب کھڑکی نظر آئی۔اس نے کھڑکی میں جھانک کر دیکھا تو ایک وسیع باغ کامنطر ہے جس میں خوبصورت مکان بنا ہوا ہے اور وہ عورت باغ میں آرام دہ نشت پر بیٹھی ہے۔مسافر نے اس سے پوچھا کہ تم نے یہ مرتبہ کیونکر پایا۔ عورت نے جواب دیا میں نے تمھاری مشکل کے وقت میں جو مدد کی تھی۔ یہ ساری ذرہ نوازی اسی کا صلہ ہے ۔
درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو 
ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کروبیان ... خواجہ میر درد
آسمانی صحیفوں کا علم زمین پر خدا کی اشرف مخلوق کو کانا اور لولا کرنے کے لیے نہیں ہے۔آسمانی ضحیفے در اصل اقدار انسانی کی رفعت اور سکون قلب کے منبعے اور اخوت۔ مساوات، خدا ترسی۔ عزت نفس، امن و عافیت ۔ فلاح و نجات کے حصول کے قصے ہیں۔قران کا عطا کردہ علم اسوہ رسول اللہ کی اتباع میں گناہ گاروں کو وسیع باغات میں بنے مکانات میں لے جانے کے لیے ہے۔اتباع کے اعمال میں بلال جیسوں کی عملی اور سماجی اعانت شامل ہے۔ جب رحمت العالمین بلال کے حصے کی چکی پیسا کرتے تھے تو بلال دین کے نام سے بھی مانوس نہ تھے۔ 
غلام مصطفی خان نے ْ ڈاکٹر اقبال اور قران ْ میں لکھا ہے کہ علامہ اقبال نے سید سلمان ندوی کو بتایا تھا کہ ان کے والد نے انھیں نصیحت کی تھی ْ جب تم قران پڑہو تو یہ سمجھو کہ قران تم پر ہی اترا ہے یعنی اللہ 
تعالیٰ خود تم سے ہی ہم کلام ہےْ ۔
اللہ تعالیٰ کا اولین فرمان ہے ْ اقراء ْ ۔۔۔اقرا ء کا مطلب ہے پڑہو ۔۔
 نہیں پڑہو گے تو ایک آنکھ اور ایک ہاتھ سے محروم کر دیے جاو گے۔

جمعرات، 6 دسمبر، 2018

سلیمان کا سلیمان سے مکالمہ



اللہ کے نبی حضرت سلیمان 970 قبل مسیح سے 931 قبل مسیح تک 39 برس فلسطین کے علاقے کے حکمران رہے ۔ ان کی
 حکمرانی انسانوں کے علاوہ جنات ، چرند و پرند پر ہی نہیں بلکہ ہوا بھی ان کے زیر نگیں تھی۔ جنات سمندر سے قیمتی موتی ڈہونڈ ڈہونڈ کر ان کی خدمت میں پیش کرتے تو انسان ہر سال25 ٹن سونا ان کی خدمت میں پیش کرتے ان کی حکومت کو ٹیکس کی صورت میں جو رقم وصول ہوتی ماہرین نے اس کا اندازہ 297 ٹریلین روپے سالانہ لگایا ہے۔
واقعہ ہے کہ حضرت سلیمان اپنے لاو لشکر کے ساتھ ایک جنگل میں اترے۔ اہلکار خیمے زنی اور خوردووش کے انتظامات میں مصروف ہو گئے تو حضرت خود گھوڑے پر سوار ہو کر نکلے۔ انھوں نے ایک کمزور و لاغر بوڑہے کو دیکھا جو لکڑیوں کا گٹھا سر پر اٹھائے ہوئے تھا۔ حضرت سلیمان نے اسے اپنے پاس بلایا ۔ نام پوچھا تو اس نے اپنا نام سلیمان بتایااور کہا کہ وہ جنگل سے لکڑیاں چن کر اور بیچ کر اپنے خاندان کا پیٹ پالتا ہے۔ حضرت سلیمان نے اس کے بڑہاپے پر ترس کھا کر اسے ایک قیمتی لعل عطا کیا۔سلیمان لعل پا کر بستی کی طرف روانہ ہو گیا۔ راستے میں وہ لعل کی چمک و دمک سے لطف اندوز ہو رہا تھا کہ ایک چیل نے گوشت کا ٹکڑا سمجھ کر جھپٹا مارا اور لعل اٹھا کر اڑ گئی۔ سلیمان کی دیہاڑی ضائع ہو چکی تھی دوسرے دن اس نے لکڑیون کا گٹھا اٹھایا اور بستی کی طرف چل پڑا۔ حضرت سلیمان کے سپاہیوں نے بوڑہے کو لعل پانے کے باوجود لکڑیاں اٹھائے دیکھا تو پکڑ کر اسے حضرت سلیمان کی خدمت میں پیش کیا۔بوڑہے نے سارا قصہ سنا دیا ۔ حضرت سلیمان مسکرائے اور اسے ویسا ہی دوسرا لعل عطا کر دیا۔ اب بوڑہے نے اس لعل کو حفاظت سے کمر بند میں باندھا اور بستی کی طرف تیز تیز قدموں سے چل پڑااسے احسا س تھا اس کا خاندان دو دنوں سے بھوکا ہو گا۔ راستے میں ایک ندی جس کا پانی گھٹنوں سے بھی کم تھا ، میں اس کا کمربند کسی شے سے الجھا اور کھل کر پانی میں بہہ گیا۔ بوڑہے نے لعل تلاش کرنے کی بہت کوشش کی مگر لعل اس کو نہ ملا۔اس کی دوسری دیہاڑی بھی ضائع ہو گئی۔تیسرے دن وہ لکڑیوں کا گٹھا سر پر رکھے گھر کی طرف چلا جا رہا تھا کہ حضرت سلیمان کے سپاہیوں نے اسے روکا احوال دریافت کیا اور پکڑ کر حضرت سلیمان کی خدمت میں پیش کیا۔ حضرت کو اس کا قصہ سن کر حیرت بھی ہوئی اور اس پر ترس بھی آیااور تیسری بار اسے ویسا ہی ایک اور لعل عطافرما دیا۔ اس بار بوڑہے نے لعل کو بہت احتیاط سے اپنی پگڑی میں چھپایا اور اپنے گھر سے چند قدم ہی دور تھا کہ ایک گھڑ سوار اس کی پگڑی اچک کر بھاگ گیا۔ وہ واپس حضرت سلیمان کے پاس آیا اور کہا میں اپنے نصیب ہر راضی تھا۔ آپ کے چاہنے سے میں امیر نہیں ہو سکتا البتہ میرے گھر والے تین دن سے فاقے سے ہیں ۔ حضرت سلیمان نے فرمایا سلیمان کیا کرے جب خدا ہی نہ چائے۔۔۔
بادشاہ کا یہ قصہ انسان کا دوسرے انسان سے ایثار اوررحم کامظہر ہے۔ رحم خدا کی ایسی صفت ہے جو بنی آدم کے علاوہ حیوانات میں بھی موجود ہے۔ماں کی ممتا، باپ کی شفقت حیوانات میں بھی ہے۔اپنی اولاد کی حفاظت کا جذبہ، گھر بنانے کی لگن، انتقام لینے کا جذبہ۔ بھوک پیاس اور خوشی و غم کے احساس کو جانوروں میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔معاف کرنا اور ایثار کرنا بھی حیوانات میں معدوم نہیں ہے بلکہ بعض قوتیں تو انسان کی نسبت حیوانات میں زیادہ ہیں جیسے بصارت، سماعت اور سونگھنے کی حس ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ بعض حیوانات مستقبل کے خطرات کو قبل از وقت جان لیتے ہیں تو پھر ْ بنی آدم کی اشرفیت کہاں ہے ْ 
حدیث قدسی بیان کی جاتی ہے جسکا متن ہے:
كُنْتْ كَنْزاً مَخْفِياً فَأَحْبَبْتُ أَنْ أُعْرَفَ فَخَلَقْتُ الْخَلْقَ لِکَي أُعْرَفُ
الله ﷻ نے کہا کہ میں ایک چھپا ہوا خزانہ تھا، میں نے چاہا کہ میں جانا جاؤں تو میں نے خلقت کو خلق کیا تاکہ جانا جاؤں۔

محبت ایک جذبہ ہے جو کسی جاندار، بے جان شے یا نظریے سے ہوتا ہے۔ محبت سدا سے بے لوث ہوتی ہے۔اہل محبت کا مقولہ ہے کہ محبت پانے کا نام نہیں بلکہ کھونے کا نام ہے۔ محبت خدا کا ہی نہیں اس کی مخلوق کا بھی پسندیدہ ہے۔ خود خدا نے تخلیق کر کے مخلوق پر اپنی محبت اس طرح نچھاور کی ہے کہ مخلوق کا رویہ کیسا ہی کیوں نہ ہو اس کی محبت میں کمی نہیں ہوتی۔ انسان کی دوسری مخلوق پر اشرفیت کا راز بھی اسی خدائی صفت محبت میں پوشیدہ ہے۔ انسان اشرف المخلوقات اس لیے ہے کہ وہ صلہ کی لالچ کے بغیر اللہ کی مخلوق سے محبت کرتا ہے۔ کتاب اٹھا کے دیکھ لیں روشن نا م وہی ہے جس نے خدا کی مخلوق سے محبت کی۔ 
حضرت سلیمان کا سلیمان سے معاملہ بھی ایک صاحب علم ، پیغمبری کے مقام پر فائز، دولت مند اور صاحب اقتدار کا اللہ کی مخلوق سے محبت کا مظہر ہے ۔

علم اور تدبر

حافظ جی نے تلاوت شروع کی ، ابھی تعوذ بھی مکمل نہ ہوئی تھی کہ کپڑے کے سرپوش سے ڈھکا ایک برتن جو ان کے پاس رکھا ہوا تھا، کے سرپوش میں حرکت پیدا ہوئی اور رکوع شروع کرتے ہی وہ سر پوش ہوا میں اٹھا اور گز بھر کی اونچائی پر جا کر ٹھہر گیا۔ جب حافظ جی نے تلاوت ختم تو وہ سرخ پوش اپنی جگہ پر آ گیا ْ 
یہ واقعہ ایک کتاب میں درج ہے جو پانی پت کے مشہور بزرگ ،اپنے وقت کے قلندر اور روحانی علم کے بہت بڑے ماہر جناب حضرت غوث علی شاہ پانی پتی کی سوانح حیات اور ان کے سفر کی یاداشتوں پر مشتمل ہے۔کتاب کا نام تذکرہ غوثیہ ہے۔ اس کتاب کے مولف جناب حضرت مولانا گل حسین شاہ قادری ہیں۔ جوخود بھی آاسمان روحانیت کے درخشان ستارے ہیں۔یہ واقعہ جناب حضرت غوث علی شاہ پانی پتی کے ایک سفر کی روداد ہے ۔ 
بھوپال میں ہماری ملاقات عبیداللہ عرف قاری لالہ سے ہوئی۔ ہم ان ہی کے پاس مقیم تھے۔ ایک روز ہم نے ان سے ایک عجیب سا سوال کیا۔ سوال یہ تھا کہ کیا کبھی آپ کو کوئی قاری بھی ملے ۔۔؟ انھوں نے ناراض ہونے یا سوال پر معترض ہونے کی بجائے جواب میں فرمایا ہاں ایک دفعہ ہم دکن جارہے تھے تو راستے میں ایک گاوں کی سرائے میں قیام کیا۔۔۔وہاں لوگوں سے پوچھاکیا یہاں کوئی قاری صاحب ہیں۔ لوگوں نے بتایا قاری صاحب کا تو پتہ نہیں البتہ ایک نابینا حافظ صاحب رہتے ہیں جو بچوں کو قرآن پڑھانا سکھاتے ہیںْ۔ ہم نے ان سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی۔۔حافط صاحب اپنے حجرے سے باہر نہیں نکلتے تھے۔ طالب علم باری باری اندر جاتے اور سبق لے کر باہر آ جاتے۔۔ اس وقت جو طالب علم اپنی باری کے انتظار میں بیٹھا ہوا تھا۔ ہم نے اس کی معرفت اپنی آمد کی اطلاع بھیجی، حافظ جی نے ہمیں بلوا لیا۔سلام دعا کے بعدہم نے ان سے قرآن پاک کی تلاوت کی درخواست کی۔۔ کہنے لگے پہلے آپ پڑہیے۔ہم نے انکساری ظاہر کی تو وہ اصرار کرنے لگے۔ چنانچہ ہم نے ایک رکوع کی تلاوت کی۔۔ تلاوت ختم کرتے ہی بولے کیا تم قاری لالہ ہو ۔۔؟ ہم حیرت زدہ رہ گئے۔۔پوچھا آپ نے کیسے پہچانا ۔۔؟ وہ بولے پورے ہندوستان میں اتنی خوبصورت تلاوت کرنے والاسوائے قاری لالہ کے کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا ۔اس کے بعد ہماری درخواست پر حافظ جی نے تلاوت شروع کی ، ابھی تعوذ بھی مکمل نہ ہوئی تھی کہ کپڑے کے سرپوش سے ڈھکا ایک برتن جو ان کے پاس رکھا ہوا تھا، کے سرپوش میں حرکت پیدا ہوئی اور رکوع شروع کرتے ہی وہ سر پوش ہوا میں اٹھا اور گز بھر کی اونچائی پر جا کر ٹھہر گیا۔ جب حافظ جی نے تلاوت ختم تو وہ سرخ پوش اپنی جگہ پر آ گیا ْ ہم پھٹی پھٹی آنکھوں سے یہ منظر دیکھ رہے تھے۔ہماری حیرت کو دیکھ کرانھوں نے فرمایا تمھیں قال میں کمال ہے اور ہمیں حال میں۔۔پھر بولے اگر ٹھہرو تو ہم تمھیں اور بھی تماشے دکھائیں گے۔۔وہ ہمیں ظہر کے وقت جنگل لے گئے اور ایک کنویں کے پاس پہنچ کر کہنے لگے آو وضو کر کے نماز ادا کر لیں۔اس کنویں پر رہٹ لگا ہواتھا۔ہم نے حافظ جی سے کہا میں رہٹ چلاتا ہوں آپ وضو کرلیں۔۔کہنے لگے زحمت کی ضرورت نہیں۔۔تم ٖفلاں سورۃکنویں کے کنارے کھڑے ہو کر پڑہو۔۔ہم نے پڑہنا شروع کیا۔پانی نے جوش مارا اور کنارے تک آگیا۔۔نمازپڑہنے کے بعد حافظ جی نے کہا پیاس لگی ہے ،تم ایسا کرو فلاں سورۃ پڑھ کر اپنی شہادت کی انگلی پر دم کرواورتین دفعہ رہٹ کی طرف اشارہ کرکے چکر دو۔۔ ہم نے ایسا ہی کیا ، رہٹ خود بخود چل پڑا،حافظ جی نے پانی پیا اور ہم چل پڑے کہ کسان بھاگتا ہوا ہمارے پیچھے آیا ۔۔کہنے لگا یہ آپ کیا کر چلے ہیں، رہٹ ایسے ہی چلتا رہا تو میری فصل تباہ ہو جاٗے گی۔ حافظ جی نے ہم سے کہا ۔۔جاو اسی طریقے سے پڑھ کر انگلی سے تین بار الٹے چکر کا اشارہ کردو۔۔ ہم نے ایسا ہی کیا تورہٹ رک گیا۔
ایسے واقعات صرف کتابوں میں لکھے نہیں ملتے بلکہ ہم ایسے کئی واقعات کے شاہد ہیں جن کو مافوق الفطرت کہا جا سکتا ہے ۔ راولپنڈی سے جی ٹی روڈ پر لاہور کی طرف جائیں تو روات کے بعد کلیام اعوان نام کا قصبہ سڑک کے دائیں طرف آباد ہے ۔ بابافضل دین کلیامی اسی بستی میں محو استراحت ہیں۔ علاقے میں ان سے منسوب بہت سی کرامات مشہور ہیں۔ بابا کلیامی ، بلند درگاہ گولڑہ شریف ( اسلام آباد ) والے حضرت خواجہ پیر مہر علی شاہ کے پیر بھائی تھے۔اور بابا جی کلیامی کی نماز جنازہ بھی حضرت خواجہ پیر مہر علی شاہ گولڑوی ہی نے پڑہائی تھی۔ بابا جی کلیامی کے مزار پر ایک نابینا حافظ صاحب جنوبی پنجاب سے زیارت کے لیے آئے ۔ حافظ صاحب نے قبر کے سرہانے کھڑے ہو کر تلاوت شروع کی۔ کسی نے کہا سبحان اللہ ۔ حافظ صاحب تو ایصال ثواب کے لیے تلاوت فرما رہے تھے مگر سبحان اللہ کی آواز سے انھوں نے جانا کہ کوئی اللہ کے با برکت کلام سے مستفید بھی ہو رہا ہے ۔ ان کی آواز بلند ہو تی گئی ۔ سوز میں اضافہ ہوتا گیا۔ لہن داودی سماعت ہوتی گئی لوگ اکٹھے ہوتے گئے۔جب حافظ صاحب نے رکوع مکمل کیا تو مجمع میں سے ایک صاحب نے انھیں رات کا مہمان بننے کی دعوت دی۔ حافظ صاحب نے بتایا انھیں رات گزارنے کے لیے علیحدہ کمرہ درکار ہوتا ہے ۔ شرظ قبول کر لی گئی۔ رات کے کسی پہر صاحب خانہ تلاوت کی آواز سن کر بیدار ہوٗے انھوں نے دیکھا ۔ حافظ صاحب کے کمرے کا دروازہ نیم وا ہے۔ حافظ صاحب قراٗت میں غوطہ زن ہیں اور کمرے میں بہت سی پرداہ دار خواتین بیٹھی تلاوت سننے میں محو ہیں۔ صبح صاحب خانہ کے استفسار پر حافظ صاحب نے بتایا کہ وہ سب ان کی شاگرد ہیں مگر بنات الآدم نہیں ہیں اور تلاوت سیکھنے ان کے پاس آتی ہیں۔یہ حاٖفظ صاحب مندرہ چکوال روڈ کے کنارے واقع موہڑہ امین کے رہائشی تھے مگر قران کی تعلیم پھیلانے کے لیے جنوبی پنجاب میں جا بسے تھے۔ ان حافظ صاحب کے بھائی جو ائرفورس سے ریٹائرڈ تھے بتایا کرتے تھے کہ ان کی آواز میں ریکارڈ شدہ کیسٹ کی کاپی انھوں نے جس کسی کو بھی دی وہ جنات لے جاتے تھے۔ میں نے تجربے کے طور پر ان سے ایک کیسٹ کی کاپی لی ۔ اور اپنے لکھنے کے میز کی دراز میں رکھ دی۔ چند دنوں کے بعد وہ کیسٹ غائب ہو گئی۔
صاحب تذکرہ غوثیہ نے قاری لالہ کا جو واقعہ لکھا ہے یا دوسری کتابوں میں جو قصے بزرگ لوگ لکھتے ہیں ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ قاری ایسے قصے پڑھ کر اس حقیقت کو جانیں کہ پڑہنے اور غور و خوض میں فرق ہوتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے اپنی نازل کردہ کتاب میں انسان کو سمجھ آنے والے الفاظ مین بتا دیا ہے کہ اس میں ماننے والوں کے لیے ہدائت اور شفا ہے۔ غور و تدبر کی بھی ہدائت ہے۔
امریکہ کے خلائی ادارے ناسا میں قرآن سیل کے نام سے ایک تحقیقی مرکز ہے ۔ جہاں محقیقین میں کئی ملکوں کے ماہرین شامل ہیں۔ علم کا حق ہے اس پر تدبر کیا جائے اور جو اپنے علم پر تدبر کرتا ہے اس علم کا ماہر بن جاتا ہے۔علم میں تدبر کاکام کبھی اہل یونان کیا کرتے تھے۔ افلاطون اور ارسطوکا نام آج بھی زندہ ہے۔ پھر یہ کام عربوں نے سنبھالا ۔نویں اور تیرھویں صدی کے درمیان ریاضی،فلکیات، طب، کیمیاء ، طبیعات ،فلسفے ، تاریخ ، سیاحت، حیوانات اور جغرافیے کے علوم میں زندہ ناموں میں ابن الہیثم، جابر بن حیان،الاحصمی، خوارزمی، ابن فرناس، جابر بن سنان، فارابی اور بہت سے دوسرے شامل ہیں۔ تیرہویں صدی کے بعد روحانی علوم کے سوا ہر قسم کے علوم میں اہل یورپ اور اہل امریکہ نے تدبر اور تحقیق کا بیڑا اٹھایا۔ دریا بیڑے ہی سے پار ہوتا ہے لیکن بیڑے کو پار تدبر ہی لگاتا ہے۔

منگل، 4 دسمبر، 2018

عامل بمقابلہ موکل

عملیات کی دنیا میں عبدلقیوم جانا پہچانا نام ہے۔ موکلات، جنات اور ہمزاد پر قابو پانے کے شائقین عبدلقیوم کو استاد کا رتبہ دیتے ہیں۔ انھوں نے اپنی زندگی کابڑا حصہ چلے کاٹنے میں صرف کر دیا تھا۔ وہ ان علوم کے اتنے بڑے ماہر تھے کہ ان کے پائے کا کوئی عامل بر صغیر میں نہیں تھا (میرے علم کے مطابق، جو کہ ناقص ہے) ۔ انھوں نے اس علم پر دسترس کے لیے کیسے کیسے چلے کیے ان میں سے ایک کی روداد آپ کی نظر ہے۔عبدالقیوم نے سنیاس کا علم کسی ہندو سنیاسی سے سیکھا تھا مگر وہ ڈھاکہ کے ایک عامل سے اس قدر متاثر ہوئے کہ سنیاس کو خیرباد کہہ کر عملیات سیکھنے بنگال جا پہنچے۔ مگر عامل نے کچھ سکھانے سے انکار ہی کردیا۔ ان کی منت سماجت بھی جب بے کار ہو گئی تو یہ عامل کی چوکھٹ پر بیٹھ گئے ۔ کھانا پینا نہ موسم کی پراہ، چند دنوں کے بعد ہی ان کی حالت غیر ہونے لگی توان کے ارادے کی پختگی اور شوق نے عامل کر متاثر کر ڈالا۔آگے کی داستان ان ہی کی زبانی

بابا جی کو رحم آ ہی گیا ۔ وہ میرے پاس آئے مجھے اٹھاکر کہنے لگے تیرے شوق نے مجھے حیران کر دیا ہے۔ انھوں نے مجھے ایک دوا کھلائی پھر کھانا کھلایاجس سے میرے قوت تیزی سے بحال ہوئی۔ انھوں نے کہا تم بہت دور کے رہنے والے ہو ۔ تم سندھ میں پانجے ملنگ کے پاس چلے جاو ۔ اس کو میرا بتانا۔ تم جو چاہتے ہو وہ تمھیں سکھا دے ۔ انھوں نے پانجے ملنگ کے نام ایک کاغذ بھی لکھ دیا۔میں نے لمبے اور تکلیف دہ سفر کے بعد سندھ میں پانجے ملنگ کو ڈہونڈ ہی لیا۔پانجے نے مجھے دیکھتے ہی کہا ْ میرے پاس وہی آتا ہے جس کی بد قسمتی کا آغاز ہو چکا ہو ْ ۔جو کچھ تم سیکھنا چاہتے ہو اس میں ناکامی کی کم ازکم سزا پاگل پن ہے۔خوف سے تمھاری موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔ سوچ لو۔ میں تو سوچ کر اور فیصلہ کرکے ڈھاکے سے سندھ آیا تھا۔ میرے شوق کی گہرائی اور قوت ارادی کی مضبوطی کو دیکھ کر پانجے نے کہا میں تمھیں ایک آسان سا عمل بتاتا ہوں اگر تم اس میں کامیاب ہو گئے تو تمھارے لیے اگلے اعمال کی راہ کھل جائے گی۔

پانجے نے مجھے پیسے دیے اور بازار سے کدال، کسی اور بیلچہ لانے کا کہا۔ مجھے ہداٰت ملی کہ زمین میں کبوتروں کی گمیل کی طرح گڈھا کھودوجو تمھارے قد سے بھی گہرا ہو۔نیچے سے اسے اپنے قد سے زیادہ لمبا اور چوڑا کر دو۔جب یہ قبر نما گڑھا تیا ر ہو گیا تو پانجے استاد نے گڑھے کی تہہ سے ڈیڑھ ہاتھ کی اونچائی پر ایک بڑا سا طاق بنوایا۔پھر بازار سے کالے رنگ کا کپڑا،ایک مٹی کا گھڑا، ایک پیالہ ، ایک کنستر سرسوں کا تیل اور پانچ کلو جو لے کر ماچھی کی بھٹی سے بھنوا لانے کا کہا۔جب سب سامان حاضر ہو گیا تو پانجے استاد نے کہا بیٹے اب آرام کرو۔میں تمھیں بتاوں گا کب تم نے اس قبر میں اتر کر موت سے لڑنا ہے۔اس دوران پانجے استا د نے مختصر سا عمل بھی میرے ذہن نشین کر دیا۔ جو میں نے مسلسل پڑہتے ہی رہنا تھا۔یہ اکیس دن کا عمل تھا۔اس عمل کے دوران دن کے وقت چندگھنٹے سونے کی اجازت تھی وہ بھی دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ کر اس عمل میں لیٹنا منع تھا۔پیشاب وغیرہ کی حاجت کے لیے باہر آنے سے پہلے استاد کو بتانا تھا۔کھانے کے لیے بھنے جو اور پیاس کی صورت میں گھڑے سے پانی پینا تھا۔ استاد کا کہنا تھاتم اندر عمل کر رہے ہو گئے مگر میں باہر بیٹھ کر تمھاری حفاظت کروں گا۔ اس نے میرے اندر یہ یقین پیدا کر دیا تھا کہ میں جو بھی دیکھوں اس سے ڈروں نہیں ۔ڈراونے منظر صرف ڈرانے کے لیے ہوں گے نقصان نہیں پہنچا سکیں گے۔چاند کے ماہ کا آخری اتوار تھا۔میں نے سارا سامان اپنی ہی کھودی ہوئی گھڑا نما قبر میں پہنچا دیا۔ عصر کے وقت پانجے سے اپنی جھگی سے ایک بڑا سا مٹی کا دیا نکال کر مجھے دیا۔ میں نے ادھا کنستر تیل اس میں ڈال کر طاق میں رکھ دیا۔ استاد نے دیا سلائی دی اور دیا روشن کرنے کا کہا۔ تیاری مکمل ہو چکی تھی۔ میں نیچے اتر گیا استاد نے گڑھے کے منہ کو کالے کپڑے سے بند کر دیا۔میں طاق کی مخالف سمت میں منہ کر کے دیے کے سامنے کھڑا ہو گیااور ورد پڑہنا شروع کر دیا۔ نگاہ اپنے سائے کی گردن پر مرکوز کر لی۔ ساتویں دن رات کا آخری پہر تھامجھے بادلوں کے گرجنے جیسے آوازیں سنائی دیں ساتھ ہی میرے سائے میں روشنی پیدا ہوا۔ جیسے بے جان سائے مین جان پڑھ گئی ہو۔مجھے اپنے سائے میں کئی مناظر دکھائی دیے لیکن میں ڈرا نہ اپنا ورد چھوڑا۔ مجھے دنوں کی گنتی بھول چکی تھی البتہ میں کسی بھی ڈراونے منظر کو دیکھنے کے لیے ذہنی طور پر تیار تھا۔ میں نے استاد کی آواز سنی وہ کہہ رہا تھا بچے دل مضبوط رکھنا آج چوہدویں رات ہے وہ صرف ڈرا سکتے ہیں تجھے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے۔مگر کچھ بھی غیر معمولی واقعہ نہ ہوا اگلی را ت شروع ہوتے ہی مجھے جنگلی درندوں نے آ کر ڈرانا شروع کر دیا۔وہ بھاگ کر آتے اور مجھ پر حمل آور ہونے کی کوشش کرتے۔مجھے یقین تھا یہ سب ڈرانے کے حربے ہیں میں اپنے مقصد پر جما رہا۔ پتہ نہیں کتنی راتیں بیت چکی تھیں کہ مجھے اپنے سائے میں ایک مرد اور عورت نظر آئے کافی بچے بھی ان کے ساتھ تھے۔منظر ایک جنگل کا تھا۔ عورت مرد سے کہتی ہے بھوک لگی ہے ، بچے بھی بھوکے ہیں کچھ کھانے کو دو۔مرد ایک بڑا سا کڑاہا لاتا ہے ۔ اس مین تیل ڈال کر اس میں گوشت کے ٹکڑے ڈال دیتا ہے۔عورت کہتی ہے اس کے نیچے آگ جلاو،مرد بہت ساری لکڑیاں لا کر کڑاہے کے نیچے آگ جلاتا ہے۔ساری لکڑیاں چل گئی عورت کہتی ہے تیل تو گرم ہی نہیں ہوا اور لکڑیاں بھی ختم ہو گئی ہیں۔اب کیا کرو گے۔مرد نے ایک بچہ پکڑا اور انگاروں کے اوپر رکھ دیا بچہ چیختا رہا مگر مرد نے اسے جلا دیا۔عورت کہتی ہے تیل تو پھر بھی گرم نہیں ہوا۔ مرد دوسرے بچے کو جلاتا ہے۔ بچوں کی چیخیں نکلی رہیں اور مرد نے سب بچوں کو ایک ایک کر کے جلا دیامگر تیل گرم نہ ہوا۔ عورت نے کہا اب کیاکرو گے۔مرد کہتا ہے یہ سامنے جو عمل کر رہا ہے اب اس کی باری ہے۔ مرد نے ہاتھ میری طرف بڑہایا لیکن مجھے معلوم تھا یہ صرف ڈراسکتے ہیں نقصان نہیں پہنچا سکتے ۔ میں خوفزدہ ہوا نہ اپنا ورد چھوڑا۔ اس کے ساتھ ہی مرد اور عورت نے اپنا کڑاہا اٹھایا اور غائب ہو گئے۔

اٹھارہ ، بیس گھنٹے کھڑے ہو کر ایک ہی جملے کو ہر سانس کے ساتھ دہراتے رہنااتنا مشکل ثابت نہ ہوا اصل پریشانی تیل کے جلنے سے پیدا ہونے والے دھویں کی تھی، جسمانی نقاہت، نیند کی کمی ، میں وقت کا احساس کھو چکا تھا، لگتا تھا میں صدیوں سے یہیں کھڑا ہوں، لیکن میں جس مقصد کے لیے کھڑا تھا اس کو پورا کرکے مجھے جو قوت حاصل ہونی والی تھی اس امید کا بڑا سہارا تھا۔مین موٹے موٹے مناطر بتا رہا ہوں ورنہ یہ تھی کہ ایک کوٖ دور ہوتا تو دوسرا شروع ہو جاتاْ استاد پانجے کی ٓواز سنائی نے میرے اندر گویا نئی اندگی پھونک دی۔ بچے یہ آخری رات ہے اور مقابلہ سخت ہے۔ ڈرنا نہیں وہ کچھ بھی کر لیں تجھے نقصان نہین پہچا سکتے۔بس ورد کسی صورت نہ چھوڑنا، ساتھ ہی مجھے ایک خونخوار جانور نظر آیا اس نے بار بار مجھ پر کیا۔مجھے اس کا حملہ نظر آتا تھا۔ وہ خونخوار قسم کے دانت میرے جسم میں گاڑتا مگر مجھے نہ کوئی زخم آیا نہ درد محسوس ہوا۔ مجھے نہیں معلوم یہ عمل کتنی دیر جاری رہا ۔ استاد کی موجودگی کا بھی سہارا تھا۔ باربار استاد کی یقین دہانی بھی جاری تھی کہ کوئی چیز تجھے نقصان نہیں پہنچا سکتی ۔ اج آخری رات ہے تیرا عمل کامیاب ہو رہا ہے بس ڈر نا نہیں ۔ شیر جسم میں دانت گاڑھ دے اور انسان ڈرے نہ۔ مگر میں پسینے سے شرابور ضرور ہو گیا مگر اپنا ورد نہیں چھوڑا۔ مجھے معلوم تھا یہ ورد ہی میرا محافظ ہے۔ شیر نما جانور انسانی آواز مین بول پڑا۔تم تو انتہائی ڈہیٹ ہو۔فکر نہ کرو میں اپنے دادے کو بھیجتا ہوں وہی تمھارا علاج کرے گا اج تم زندہ نہیں بچوگے۔ استاد نہ ڈرنے کی باربار تلقین کر رہا تھا۔ بار بار یاد دلاتا آج آخری رات ہے ۔ آج نہ ڈرے تو تم دنیا کے سب سے بڑے عامل ہو گے۔ بس اپنا ورد نہ چھوڑنا۔ کامیاب تم ہی ہو گے۔اتنے میں میرے سائے میں ایک سفید رنگ کا سانپ نظر آیا۔کھلا منہ ، نوکیلے دانت، اس کی پھنکار ایسی خوفناک کہ میں نے زندگی میں ایسی ڈراونی آواز نہ سنی تھی۔ میرا جسم پسینے مین شرابور تھا۔ زندگی ہر جاندر کو عزیز ہوتی ہے ۔ استاد کی موجودگی اور اس کی بار بار کی اس یقین دہانی سے کہ وہ مجھے کوئی جسمانی نقصان نہین پہنچا سکتا مجھے کافی سہارا ملا۔ سانپ پھنکارتا رہا مجھے ڈسنے کے لیے حملہ کرتا دکھائی دیتا مگر مجھے ڈس نہ سکا۔ اس کے بعد اس نے میری ٹانگوں کے گرد لپٹنا شروع کیا ۔ میں خوف زدہ تو ہوا مگر واحد سہارا ورد کا تھا۔ میری آواز خوف کے باعث اونچی ہوتی چلی گئی۔ باہر سے استاد کی تلقین بڑھ گئی۔ سانپ کی پھنکار، میری ورد کرتی کانپتی آوازاور استاد کی تلقین کرتی آوازوں میں سانپ اپنا گھیرا سینے تک مکمل کر چکا تھا۔ استاد نے بار بار کہتا ڈرنا نہیں میں تیرے پاس موجود ہوں۔ میں عمل کررہا ہوں ۔جو بھی ہے تجھ سے انسانی زبان میں بات کرے گا ، ڈرنا نہیں تمھارا عمل کامیاب ہو چکا ہے تم دنیا کے سب سے بڑے عامل بننے والے ہو ، بس ڈرنا نہیں اور جب تک یہ جس شکل میں بھی ہے انسانی آواز میں تجھ سے بات نہ کرے اپنا ورد نہیں چھوڑنا۔سانپ نے اپنا منہ میرے چہرے کے بالکل سامنے کر لیا مجھے لگا ابھی مجھے ڈسنے کے لیے حملہ کرے گا ۔ مگر سانپ میرے جسم سے علیحدہ ہو گیا ۔ نیچے اتر کر اس نے انسانی آواز میں کہا۔ عامل صاحب بولو مجھ سے کیا چاہتے ہو، میں نے استاد پانجے کی بتائی شرطیں اسے بتائیں اور حاضری کا طریقہ پوچھا۔ جواب میں اسنے اپنی تین شرطیں بتائیں۔ ہمارے معاملات طے ہوگئے۔ میری محنت رنگ لے آئی۔ استادپانجے میرا ہاتھ پکڑ کر باہر نکالاْگلے لگایا اور مبارک بادی دی۔ نقاہت کے باعث میرا کھڑا ہونا مشکل تھا۔میں نے استاد سے کہا مجھے طاقت کے لیے کوئی نسخہ دیں۔ پانجے استاد نے کہا ۔جوجو شکلیں تم نے دیکھیں ہیں سب موکل تیرے قابومیں آ چکے ہیں ۔ ان سے نسخے بھی لو اور خدمت بھی کراو۔ تم اب میرے بعد دوسرے نمبر پر ہو اور تمھارے مقابلے کا کوئی عامل پورے ملک میں نہیں ہے ۔دراصل میں ایک عفریت کو تابع کرنے میں کامیاب ہوا تھا ۔ جو معمولی کامیابی نہ تھی۔ چند ہی دنوں میں مجھے عفریت کی طاقتوں کا اندازہ ہوگیا۔ میں ہر وہ چیز حاصل کر سکتا تھاجس کا تصور ہو سکتا ہے۔