پتھر لوہے سے ٹکراتا ہے تو آگ جنم لیتی ہے جو ان میں پہلے ہی سے پوشیدہ تھی ۔ دل میں موجود عشق جب سماع و ذکر سے ٹکراتا ہے تو وجد کی حرارت پیدا ہوتی ہے ۔ عشق نبی اور ذکر اللہ کی حرارت آگ کی مانند ہے اور اس کے شعلوں کا نام وجد و حال ہے ۔ جب عاشق حقیقی کے سامنے محبت و دوستی کا ذکرہوتا ہےتو اس کے اندر ذکر کی گرمی اسے لطف دیتی ہے جب جب ذکر بڑہتا ہے شعلہ بلند بوتا جاتا ہے ۔ کیف و سرور جب برداشت سے بڑہ جاتا ہے تو گرمی عشق بصورت وجد ظاہر ہوتی ہے ۔ دودھ کو مخصوص مقدار سے زبادہ حرارت دی جائے تو وہ ابلتا اور چھلکتا ہے ۔ فرمان نبی اکرم ہے کہ برتن سے وہی کچھ ٹپکے گا جو کچھ اس میں ہو گا ۔ عاشق کا عشق جب ابلتا اور چھلکتا ہے تواس کو وجد کا نام دیا جاتا ہے ۔ حضرت سخی سلطان باہو رحمۃ اللہ نے ققنس نام کے ایک پرندے کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ لکڑیاں اکٹھی کر کے اپنا گھر بناتا ہے اور جب اس کا گھر مکمل ہو جاتا ہے تو وہ ان قلعہ نما گھر میں مقید ہو کر بیٹھ جاتا ہے اور ذکر شروع کرتا ہے ۔ اس کے ذکر کی گرمی سے حرارت پیدا ہوتی ہے جو اس کو مست کر دیتی ہے ۔ جوں جوں کیف و مستی میں اضافہ ہوتا ہے توںتوں ذکر کی گرمی بھی بڑہتی ہے ۔ پھر اس حرارت سے آگ پیدا ہوتی ہے جو اس کے قلعے کو جلا دیتی ہے ۔ گھر کے ساتھ یہ خود بھی جل کرراکھ ہو جاتا ہے ۔ اس راکھ پر جب بارش برستی ہے تو اس سے انڑہ پیدا ہوتا ہے پھر اس سے بچہ پیدا ہوتا ہے اور جب بچہ جوان ہو جاتا ہے تو وہ بھی اپنے باپ کی طرح لکڑیاں اکٹھی کرتا ہے اور اسی انجام سے دوچار ہوتا ہے ۔ عاشق لوگ اپنے دل کے ہاتھوں معذور گردانے جاتے ہیں ۔ کبھی غور تو کرو محفل میں کچھ لوگ کیف و مستی کی صراحیاں پی جاتے ہیں اور وہ اپنے صحو کو قائم رکھتے ہیں اور کسی کو ذکر کے چند جام ہی بے خودی میں دھکیل دیتے ہیں ۔ اپنا اپنا ظرف ، مقام اور وقت ہوتا ہے ۔ سالک کا دل کھیت کی مانند ہوتا ہے ۔ کسان بیج کو مٹی میں چھپا دیتا ہے ۔ نظروں سے غائب بیچ کو موافق ماحول میں رطوبت ملتی ہے تو پودا بننا شروع ہو جاتا ہے . جس نے کسی رہنما کی سرپرتی میں راہ سلوک میں قدم رکھ لیا تو بیج اس کے دل میں پیوستہ کر دیا گیا ۔ جب اس بیج کو موافق ماحول میں روحانیت کی رطوبت ملتی ہے تو اس بیج کی بڑہوتی شروع ہو جاتی ہے ۔ 'ا اللہ چنبھے دی بوٹی ' میں صاحب کلام نے اسی حقیقت کو بیان کیا ہے ۔ ادراک و ورود دو مختلف کیفیات ہیں ۔ ایک کا تعلق کتابوں سے ہے جبکہ دوسری کا تعلق صحبت سے ہے ۔ ایک شاعر نے کہا ہے کہ پیالے سے ناپنا ایک ہنر ہے مگر کیف و مستی اور سرور پیالہ پینے کے بعد ملتا ہے ۔ نقل ہے کہ ایک سالک بازار سے گذر رہا تھا کسی نے آواز لگائی ایک کی دس ککڑیآں ۔ سالک پر وجد طاری ہو گیا ۔ لوگوں نے کہا یہ کیسا حال ہے ۔ اس نے کہا جب دس نیک لوگوں کی قیمت ایک ہے تو گناہگار کی قیمت کیا ہو گی ۔ کوہستانی علاقوں میں ساربان اونٹوں پر ثقیل بوجھ لاد کر انھیں 'ھدی' سناتے ہیں تو زیربار اونٹ وجد کی مستی سے بھاگ پڑتے ہیں ۔ صوت داودی وجد ہی تو پیدا کرتی تھی ۔ ذکر سے دل میں قرار اور دماغ پر خفقانی اثرات غالب ہو جانے ہیں اور جب اضطراب قوت برداشت سے باہر ہو جاتا ہے تو رسم و ادب اٹھ باتا ہے ۔ اس وقت یہ خفقانی حرکات نہ مکر ہوتا ہے نہ اچھل کود بلکہ اضطنرابی کیفیت کا عالم ہوتا ہے اور انتہائی بھاری لمحات ہوتے ہیں ۔ اگر اس کیفیت کی تشریح محال ہے تو اس کا انکار بھی ناممکن ہے ۔ اور حرکات اگر اضطراب کے باعث ہیں تو امام غزالی کا سماع کے رقص کے بارے میں یہ قول یاد رکھنا چاہیے ' رقص کا حکم اس کے محرک پر محمول ہے اگر محرک محمرد ہے تو رقص بھی محمود ہے ' اور وجد کا سبب اگر ذکر ہے تو ذکر محمود ہی نہیں سعید پھی ہے ۔ شیخ عبد الرحمن نے اپنی کتاب السماع میں لکھا ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہہ سے روایت ہے کہ ہم نبی اکرم صل اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس تھے کہ حضرت جبریل تشریف لائے اور کہا یا رسول اللہ آپ کو بشارت ہو کہ آپ کی امت کے درویش و فقیر، امیروں کے اعتبار سے پانچ سو برس پیشتر جنت میں داخل ہوں گے ' ۔ یہ خوش خبری سن کر نبی اکرم صل اللہ علیہ و آلہ و سلم خوش ہو گئے اور فرمایا کوئی ہے جو شعر سناے ۔ ایک بدوی نے کہا ہاں ہے یا رسول اللہ ۔ آپ نے فرمایا آو آو اس نے شعر پڑہے ۔ ' میرے کلیجے پر محبت کے سانپ نے ڈس لیا ہے ، اس کے لیے طبیب ہے نہ کوئی جھاڑ پھونک والا ۔ مگر ہاں وہ محبوب جو مہربانی فرماے ، اس کے پاس ان کا تریاق اور منتر ہے " یہ سن کر نبی اکرم صل اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تواجد فرمایا اور جتنے اصحاب وہاں موجود تھے سب وجد کرنے لگے ۔ یہاں تک کہ آپ کی رداے مبارک دوش مبارک سے گر پڑی ۔ جب اس حال سے فارغ ہوے معاویہ بن ابی سفیان نے کہا ۔ ' کتنی اچھی ہے آپ کی یہ بازی یا رسول اللہ ' آپ نے فرمایا ' دور ہو اے معاویہ وہ شخص کریم نہیں ہے جو دوست کا ذکر سنے اور جھوم نہ اٹھے ' پھر رسول اللہ کی ردا میارک کے چار سو ٹکڑے کر کے حاضرین میں تقسیم کر دیے گے ۔حضرت ابو سعید ابو الخیررحمۃاللہ سے منقول ہے کہ جب فقیر ہاتھ پر ہاتھ مارتا ہے تو شہوت اس کے ہاتھ سے نکل جاتی ہے ۔ جب زمین پر پاوں مارتا ہے تو پاوں سے شہوت نکل جاتی ہے ۔ جب نعرہ مارتا ہے باطن کی شہوت نکل جاتی ہے ۔ روایات میں ہے کہ حضرت موسی علیہ السلام کے وعظ کے دوران کسی نے نعرہ مارا ۔ حضرت موسی علیہ السلام نے اس پر ناراضگی کا اظہار کیا ۔ آللہ تعالی نے فرمایا ۔ وہ میری محبت میں نعرہ مارتے ہیں ۔ میری محبت میں روتے چلاتے ہیں اور میرے قرب سے راحت پاتے ہیں ۔ تم ان کو مت جھڑکا کرو۔ جو لوگ مقام و ادب کا خیال رکھنے کی تاکید کرتے ہیں وہ یہ حقیقت کیوں بھول حاتے ہیں کہ جب برتن کو ابالا جائے گا تو اس کا ٹپکنا لازم ہے ۔ جہاں تک بدعت کا تعلق ہے حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ نے فرمایا ہے جو عمل سنت کی جگہ لے وہ بدعت ہے ۔ بدعت کا ثمر یہ ہے کہ وہ سنت سے محروم کر دیا جاتا ہے ۔ امام شافعی رحمۃ اللہ کے بقول نماز تراویح با جماعت کی ابتداء حضرت عمر رضی اللہ عنہہ نے کی ۔ اس سے اہل علم کوئی سنت ٹوٹتی نہیں پاتے ۔ اصحاب رسول ، نبی اکرم صل اللہ علیہ و آلہ و سلم کی آمد پر کھڑے نہ ہوتے تھے مگر جب حضرت فضل دین کلیامی نے اپنے جنازے کے امام حضرت قبلہ پیر مہر علی شاہ رحمۃ اللہ کا کھڑے ہو کر استقبال کیا تھا تو کون سی سنت ٹوٹی تھی ۔ سماع و وجد وہ پر خطر راہ ہے کہ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ نے اس کی حوصلہ افزائی نہیں کی ۔ مگر سکر کی کیفیت سے انکار ممکن نہیں ہے ۔یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ یہ مقام قریہ بلا ہے اور امان صرف بصیر کے زیر بصارت رہنے ہی میں ممکن ہے ۔
ہفتہ، 24 نومبر، 2018
بدھ، 21 نومبر، 2018
تبلیغی جماعت کے امیر
بزرگان دین نے ان مناظر کو زندہ رکھنے کی شعوری کوشش کی ہے جو اسلام کی اصل تصویر پیش کرتے ہیں۔ ان مناطر میں بنیادی اور اہم ترین منظر تنظیم کو قائم رکھنا ہے۔ یہ عمل جس قدر اہم ہے اسی بقدر فراست و ایثار کا متقاضی ہے۔ اسلام کی بنیادی تعلیم میں شامل ہے کہ کائنات کا خالق ہی اس کا مالک و مختار ہے۔ سیاسی طور پر کہا جاتا ہے کہ اقتدار اعلیٰ اسی کا حق و ملکیت ہے۔ اس کے اس حق کو انسان اسی کانمائندہ بن کراستعمال کرتا ہے۔ یہ اتنا بڑا کام ہے جو کہ سرانجام دینا نبی کے بعد کسی اکیلے انسان کے بس کا کام نہیں ہے۔ اس کے لیے زمین پر اللہ کا ظل اللہ یا نائب یا خلیفہ یا امیر یا بادشاہ یا صدر یا جو بھی لقب اختیار کر لیا جائے ۔ عوام میں سے چنا جاتا ہے ۔ ایک جماعت شوریٰ کی شکل میں اس کو مدد و نصرت مہیا کرتی ہے۔ اور شوریٰ کے سربراہ کا کیا ہوا فیصلہ قابل تعمیل ہوتا ہے۔اسلامی تاریخ میں سیاسی اتحا د کے بکھر جانے کے بعد بھی علماء اسلام نے اس منظر کو اپنے طور پر اپنی بساط کے مطابق زندہ رکھنے کی کوشش جاری رکھی ہوئی ہے۔
18
18
نومبر 2018 کو مسلمانوں کی سب سے بڑی تنظیم تبلیغی جماعت کے امیر حاجی محمد عبدالوہاب ؒ کی رحلت کے بعد نئے امیر کے چناو کے موقع پر نوجوان نسل کووہ عمل دیکھنے کا موقع ملا جو تنظیم کو قائم رکھنے میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے یعنی مجلس شوریٰ کے نئے امیر کا انتخاب۔
تبلیغی جماعت کا شعار دائرہ اسلام سے باہر لوگوں کو دائرہ اسلام میں لانا اور دائرۃ اسلام کے اندر مسلمانوں کو بہتر مسلمان بنانا ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے جس فرد کی قربانی اور ایثار سب سے بڑھ کر ہو تا ہے اسی کو امیر منتخب کیا جاتا ہے۔ تعلیم و تصنیف، خاندان و معاشرتی وجاہت ، زہد و عبادت ، بدنی طاقت و ایمانی قوت کے اعتراف کے باوجود میرٹ صرف اور صرف عملی اخلاص ہی بنتا ہے۔اس کے لیے اہل مشورہ کا امیر کے چناو سے بہت عرصہ پہلے ذہن بن چکا ہوتا ہے۔ اور وقت آنے پر اس کا صرف رسمی اعلان ہی کرنا ہوتا ہے۔
تبلیغی جماعت کے نئے امیر مولانا نذرالرحمان اطول اللہ عمرہ کے بارے میں شوریٰ اور تبلیغ سے جڑے بزرگوں کا ذہن پہلے ہی بنا ہوا تھاکہ ان کے ایثار کا دوسرا نعم البدل تھا ہی نہیں۔ انھوں نے اپنی ساری زندگی تبلیغ کی نذر کی ۔ ان کی علمی استعداد کے بارے میں یہ ہی کافی ہے کہ وہ مولانا طارق جمیل اور مولانا جمشید جیسی شخصیات کے استاد ہیں۔عام طور پر ذہن میں آتا ہے کہ استاد اس کو کہا جاتا ہے جو مخصوص اوقات میں مخصوص موضوع پر تعلیم دیتا ہے مگر یہ ایسے استاد ہیں جو اپنے شاگردوں کی علمی پیاس بجھانے کے ساتھ ساتھ ان میں روحانی عطش پید ا کر کے اسے سیراب بھی کرتے ہیں۔ خود اپنی ذات کو مثال بنا کر پیش کرتے ہیں۔ باعزت صحافی شہزاد فاروقی نے تبلیغی جماعت کے سابق امیر جناب حاجی عبد الوہاب ؒ کے بارے میں ایک ذاتی مشاہدہ رقم کیا تھاکہ انھوں نے خود حاجی صاحب کو رات کے آخری پہر لوٹا اور جھاڑو ہاتھ میں لیے صفائی کرتے دیکھا تھا۔انسانیت اپنے معراج پر خدمت ہی سے پہنچتی ہے۔ اورخدمت ہی دوسروں کے قلوب کو مغلوب کرتی ہے۔ علم انسان میں دو ہی خصوصیات پیدا کرتا ہے خدمت کا جذبہ یا محسن کی بغاوت، علم نافع وہی ہے جس سے خالق کی مخلوق کو نفع حاصل ہو۔ اور نو منتخب امیر پانچ دہائیوں سے رائے ونڈ میں دینی، تنطیمی، روحانی اور لوگوں کی اجتماعی خدمت کے لیے خود کو وقف کیے ہوئے ہیں۔ ان کی عمر 85 سال سے زائد ہے اور ان کا تعلق راولپنڈی سے ہے اور رائے ونڈ منتقلی سے قبل وہ راولپنڈی کے تبلییغی مرکز ذکریا مسجد میں خدمات انجام دے چکے ہیں ۔ ان کے صاحبزادے مولانا عبد الرحمن صاحب مسجد ذکریا مسجد کی امامت و خطابت کو فریضہ انھام دے رہے ہیں تو دوسرے صاحبزادے مولانا عثمان صاحب فیصل آباد مرکز کے ذمہ دار ہیں۔ ان کے پوتے بھی رائے ونڈ کے مدرسہ العربیہ میں درس و تدریس ہی میں مصروف ہیں۔ گویا ان کی تین نسلیں دین و انسانیت کی خدمت کر رہی ہیں۔ روحانی طور پر وہ کندیاں والے مولانا خان محمد صاحب کے خلیفہ مجاز ہیں اور ان کے عقیدت مندوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔تبلیغی جماعت میں امیر تکریم کے اعلیٰ ترین منصب پر ہوتے ہیں تو یہ بھی حقیقت ہے اور یہی اس مضمون کا مقصد ہے کہ یہاں فرد کی بجائے اصول و نظریے کی پیروی کی جاتی ہے۔ امیر سے لے کر نووارد تک سب کے پیش نظر ایسی "محنت و کوشش" ہوتی ہے جو تبلیغ کے اہداف کو حاصل کرنے میں معاون و مدد گار ہوں۔ اور ہدف ایک ہی ہے انسان کو بہتر روحانی طرز زندگی کی طرف مائل کرنااور یہ عمل جس قدر اہم ہے اسی بقدر فراست و ایثار کا متقاضی ہے
تبلیغی جماعت کا شعار دائرہ اسلام سے باہر لوگوں کو دائرہ اسلام میں لانا اور دائرۃ اسلام کے اندر مسلمانوں کو بہتر مسلمان بنانا ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے جس فرد کی قربانی اور ایثار سب سے بڑھ کر ہو تا ہے اسی کو امیر منتخب کیا جاتا ہے۔ تعلیم و تصنیف، خاندان و معاشرتی وجاہت ، زہد و عبادت ، بدنی طاقت و ایمانی قوت کے اعتراف کے باوجود میرٹ صرف اور صرف عملی اخلاص ہی بنتا ہے۔اس کے لیے اہل مشورہ کا امیر کے چناو سے بہت عرصہ پہلے ذہن بن چکا ہوتا ہے۔ اور وقت آنے پر اس کا صرف رسمی اعلان ہی کرنا ہوتا ہے۔
تبلیغی جماعت کے نئے امیر مولانا نذرالرحمان اطول اللہ عمرہ کے بارے میں شوریٰ اور تبلیغ سے جڑے بزرگوں کا ذہن پہلے ہی بنا ہوا تھاکہ ان کے ایثار کا دوسرا نعم البدل تھا ہی نہیں۔ انھوں نے اپنی ساری زندگی تبلیغ کی نذر کی ۔ ان کی علمی استعداد کے بارے میں یہ ہی کافی ہے کہ وہ مولانا طارق جمیل اور مولانا جمشید جیسی شخصیات کے استاد ہیں۔عام طور پر ذہن میں آتا ہے کہ استاد اس کو کہا جاتا ہے جو مخصوص اوقات میں مخصوص موضوع پر تعلیم دیتا ہے مگر یہ ایسے استاد ہیں جو اپنے شاگردوں کی علمی پیاس بجھانے کے ساتھ ساتھ ان میں روحانی عطش پید ا کر کے اسے سیراب بھی کرتے ہیں۔ خود اپنی ذات کو مثال بنا کر پیش کرتے ہیں۔ باعزت صحافی شہزاد فاروقی نے تبلیغی جماعت کے سابق امیر جناب حاجی عبد الوہاب ؒ کے بارے میں ایک ذاتی مشاہدہ رقم کیا تھاکہ انھوں نے خود حاجی صاحب کو رات کے آخری پہر لوٹا اور جھاڑو ہاتھ میں لیے صفائی کرتے دیکھا تھا۔انسانیت اپنے معراج پر خدمت ہی سے پہنچتی ہے۔ اورخدمت ہی دوسروں کے قلوب کو مغلوب کرتی ہے۔ علم انسان میں دو ہی خصوصیات پیدا کرتا ہے خدمت کا جذبہ یا محسن کی بغاوت، علم نافع وہی ہے جس سے خالق کی مخلوق کو نفع حاصل ہو۔ اور نو منتخب امیر پانچ دہائیوں سے رائے ونڈ میں دینی، تنطیمی، روحانی اور لوگوں کی اجتماعی خدمت کے لیے خود کو وقف کیے ہوئے ہیں۔ ان کی عمر 85 سال سے زائد ہے اور ان کا تعلق راولپنڈی سے ہے اور رائے ونڈ منتقلی سے قبل وہ راولپنڈی کے تبلییغی مرکز ذکریا مسجد میں خدمات انجام دے چکے ہیں ۔ ان کے صاحبزادے مولانا عبد الرحمن صاحب مسجد ذکریا مسجد کی امامت و خطابت کو فریضہ انھام دے رہے ہیں تو دوسرے صاحبزادے مولانا عثمان صاحب فیصل آباد مرکز کے ذمہ دار ہیں۔ ان کے پوتے بھی رائے ونڈ کے مدرسہ العربیہ میں درس و تدریس ہی میں مصروف ہیں۔ گویا ان کی تین نسلیں دین و انسانیت کی خدمت کر رہی ہیں۔ روحانی طور پر وہ کندیاں والے مولانا خان محمد صاحب کے خلیفہ مجاز ہیں اور ان کے عقیدت مندوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔تبلیغی جماعت میں امیر تکریم کے اعلیٰ ترین منصب پر ہوتے ہیں تو یہ بھی حقیقت ہے اور یہی اس مضمون کا مقصد ہے کہ یہاں فرد کی بجائے اصول و نظریے کی پیروی کی جاتی ہے۔ امیر سے لے کر نووارد تک سب کے پیش نظر ایسی "محنت و کوشش" ہوتی ہے جو تبلیغ کے اہداف کو حاصل کرنے میں معاون و مدد گار ہوں۔ اور ہدف ایک ہی ہے انسان کو بہتر روحانی طرز زندگی کی طرف مائل کرنااور یہ عمل جس قدر اہم ہے اسی بقدر فراست و ایثار کا متقاضی ہے
منگل، 20 نومبر، 2018
اردو کالم اور مضامین: حاجی عبدلوہاب
اردو کالم اور مضامین: حاجی عبدلوہاب: اتوار والے دن عشاء سے قبل ، راے ونڈ کے تبلیغی مرکز کے گیٹ نمبر 11 کے سامنے واقع قبرستان میں ، حاجی عبدلوہاب صاحب کی تازہ بنی مرقد پر م...
پیر، 19 نومبر، 2018
حاجی عبدالوہاب
اتوار والے دن عشاء سے قبل ، راے ونڈ کے تبلیغی مرکز کے گیٹ نمبر 11 کے سامنے واقع قبرستان میں ، حاجی عبدالوہاب صاحب کی تازہ بنی مرقد پر میرے سامنے کھڑا ارسلان دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے ہوئے تھا ، ارد گرد سے بے خبر اس کی انکھوں سے آنسو ں بہہ کر اس کے چہرے کو تر کر چکے اور شائد اپنے دل کا دکھ ہلکا کرنے کے بعد اس نے جیب سے ٹشو نکالا چہرہ صاف کیا کہ ایک نوجوان نے اس نے ہاتھ ملایا پھر دونوں گلے لگے اور نوجوان کے سینے سے ایک ْ آہ ْ نکلی۔ میرے تصور میں ایک پرانا منظر تازہ ہوگیا۔
ہمارے سامنے 5 مئی 1980 کا اخبار رکھا تھا۔ سب سے بڑی خبر یوگوسلاویہ کے صدر مارشل ٹیٹو کی وفات کی تھی۔ ہمارا موضوع مارشل ٹیٹو کی یو گو سلاویہ کے لیے ان کی خدمات تھیں۔ ہم میں خاموش بیٹھے ہمارے ایک تبلیغی جماعت کے دوست نے پوچھا کہ کیا مرنے ولا مسلمان تھا۔ جب انھیں بتایا گیا کہ وہ غیر مسلم تھا تو ان کی زبان سے ایک ْ آہ ْ نکلی تھی۔ مجھے نہیں معلوم کہ ْ آہیں ْ دوسرے کے قلوب پر اثر انداز ہوتی ہیں یا نہیں مگر میں اس کا شاہد ہوں کہ ارسلان نامی نوجوان جو ہماری اس محفل میں موجود تھا ، کی زندگی کا رخ بدلنے والی یہی ْ آہ ْ بنی تھی ۔ایک ارسلان ہی نہیں تبلیغی جماعت نے بے شمار لوگوں کی زندگیوں کے رخ کو خاموشی سے بدلا ہے۔
مسلمانوں کی پستی پر آہ و زاری کرنا ، ان کو خواب غفلت سے جگانے کی سعی کرنا، کامیابی کی دوڑمیں پچھڑ جانے کی وجوہات کا احساس دلانا اور اس کام میں اپنا تن من دھن لگا دینا تبلیغی جماعت کا شعار ہے۔ اور جماعت میں اس شعار کو زندہ رکھنے کی ترغیب دینے میں حاجی عبدالوہاب صاحب نور اللہ مرقدہ کا لازوال کردار ہے۔ وہ 21 سال کے نوجوان تھے جب نظام الدین میں انھوں نے مولانا الیاس ؒ کے مسلمانوں کی روحانی پستی کے درد کو اپنا درد بنا لیا اور زندگی کے سارے ماہ و سال اسی درد کے دوا بن جانے کی نذر کر دیے۔وہ مولانا یوسف کاندہلوی اور مولانا انعام الحسن جیسے دین کے مخلصین کے با اعتماد ساتھی رہے۔پاکستان میں تبلیغ کی بنیاد رکھنے والے بزرگوں میں شامل تھے اور محمد شفیع قریشی ؒ ( 1903-1971 ) اور حاجی محمد بشیر ؒ ( 1919-1992 ) کے بعد پاکستان میں تبلیغی جماعت کے امیر بنائے گئے۔ وہ نظام الدین میں قائم عالمی شوریٰ کے بھی ممبر تھے۔ اور دنیا بھر میں اثر و رسوخ رکھنے والی شخصیات میں ان کا منفرد مقام تھا۔
مسلمانوں اور اسلام کے تعلق پر تبلیغ کی تعلیمات کی روشنی میں حفیظ کا یہ شعر حسب حال ہے
بے تعلق زندگی اچھی نہیں
زندگی کیا موت بھی اچھی نہیں
حاجی عبدلوہاب صاحب ْ رات کو سوتے وقت موت سرہانے رکھ کر سوتے او ر صبح اٹھ کر موت کو سامنے
رکھتے ْ انھوں نے ایک اجتماع کے دوران اپنی آخری تقریر میں کہا تھا ْ توبہ بہترین عمل ہے ْ ان کی زندگی مسلمانوں کے لیے قابل تقلید ہے اور ان کے بیانات اور تقریروں پر عمل کر کے مسلمان دنیا اور آخرت میں
سرخروئی حاصل کر سکتے ہیں۔
کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاوں گا
(میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاوں گا (احمد ندیم قاسمی
ہمارے سامنے 5 مئی 1980 کا اخبار رکھا تھا۔ سب سے بڑی خبر یوگوسلاویہ کے صدر مارشل ٹیٹو کی وفات کی تھی۔ ہمارا موضوع مارشل ٹیٹو کی یو گو سلاویہ کے لیے ان کی خدمات تھیں۔ ہم میں خاموش بیٹھے ہمارے ایک تبلیغی جماعت کے دوست نے پوچھا کہ کیا مرنے ولا مسلمان تھا۔ جب انھیں بتایا گیا کہ وہ غیر مسلم تھا تو ان کی زبان سے ایک ْ آہ ْ نکلی تھی۔ مجھے نہیں معلوم کہ ْ آہیں ْ دوسرے کے قلوب پر اثر انداز ہوتی ہیں یا نہیں مگر میں اس کا شاہد ہوں کہ ارسلان نامی نوجوان جو ہماری اس محفل میں موجود تھا ، کی زندگی کا رخ بدلنے والی یہی ْ آہ ْ بنی تھی ۔ایک ارسلان ہی نہیں تبلیغی جماعت نے بے شمار لوگوں کی زندگیوں کے رخ کو خاموشی سے بدلا ہے۔
مسلمانوں کی پستی پر آہ و زاری کرنا ، ان کو خواب غفلت سے جگانے کی سعی کرنا، کامیابی کی دوڑمیں پچھڑ جانے کی وجوہات کا احساس دلانا اور اس کام میں اپنا تن من دھن لگا دینا تبلیغی جماعت کا شعار ہے۔ اور جماعت میں اس شعار کو زندہ رکھنے کی ترغیب دینے میں حاجی عبدالوہاب صاحب نور اللہ مرقدہ کا لازوال کردار ہے۔ وہ 21 سال کے نوجوان تھے جب نظام الدین میں انھوں نے مولانا الیاس ؒ کے مسلمانوں کی روحانی پستی کے درد کو اپنا درد بنا لیا اور زندگی کے سارے ماہ و سال اسی درد کے دوا بن جانے کی نذر کر دیے۔وہ مولانا یوسف کاندہلوی اور مولانا انعام الحسن جیسے دین کے مخلصین کے با اعتماد ساتھی رہے۔پاکستان میں تبلیغ کی بنیاد رکھنے والے بزرگوں میں شامل تھے اور محمد شفیع قریشی ؒ ( 1903-1971 ) اور حاجی محمد بشیر ؒ ( 1919-1992 ) کے بعد پاکستان میں تبلیغی جماعت کے امیر بنائے گئے۔ وہ نظام الدین میں قائم عالمی شوریٰ کے بھی ممبر تھے۔ اور دنیا بھر میں اثر و رسوخ رکھنے والی شخصیات میں ان کا منفرد مقام تھا۔
مسلمانوں اور اسلام کے تعلق پر تبلیغ کی تعلیمات کی روشنی میں حفیظ کا یہ شعر حسب حال ہے
بے تعلق زندگی اچھی نہیں
زندگی کیا موت بھی اچھی نہیں
حاجی عبدلوہاب صاحب ْ رات کو سوتے وقت موت سرہانے رکھ کر سوتے او ر صبح اٹھ کر موت کو سامنے
رکھتے ْ انھوں نے ایک اجتماع کے دوران اپنی آخری تقریر میں کہا تھا ْ توبہ بہترین عمل ہے ْ ان کی زندگی مسلمانوں کے لیے قابل تقلید ہے اور ان کے بیانات اور تقریروں پر عمل کر کے مسلمان دنیا اور آخرت میں
سرخروئی حاصل کر سکتے ہیں۔
کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاوں گا
(میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاوں گا (احمد ندیم قاسمی
ہفتہ، 17 نومبر، 2018
اردو کالم اور مضامین: تین ماہ کی حکومت کا ناقدانہ جائزہ
اردو کالم اور مضامین: تین ماہ کی حکومت کا ناقدانہ جائزہ: کولہو ہمارے زرعی معاشرے کا ایک اہم اثاثہ ہوا کرتا تھا۔ اس میں اردو محاورے والا بیل، صبح کے وقت آنکھوں پر پٹی باندھ کر لمبے سفر پر روانہ...
سبسکرائب کریں در:
اشاعتیں (Atom)