بدھ، 21 نومبر، 2018

تبلیغی جماعت کے امیر


بزرگان دین نے ان مناظر کو زندہ رکھنے کی شعوری کوشش کی ہے جو اسلام کی اصل تصویر پیش کرتے ہیں۔ ان مناطر میں بنیادی اور اہم ترین منظر تنظیم کو قائم رکھنا ہے۔ یہ عمل جس قدر اہم ہے اسی بقدر فراست و ایثار کا متقاضی ہے۔ اسلام کی بنیادی تعلیم میں شامل ہے کہ کائنات کا خالق ہی اس کا مالک و مختار ہے۔ سیاسی طور پر کہا جاتا ہے کہ اقتدار اعلیٰ اسی کا حق و ملکیت ہے۔ اس کے اس حق کو انسان اسی کانمائندہ بن کراستعمال کرتا ہے۔ یہ اتنا بڑا کام ہے جو کہ سرانجام دینا نبی کے بعد کسی اکیلے انسان کے بس کا کام نہیں ہے۔ اس کے لیے زمین پر اللہ کا ظل اللہ یا نائب یا خلیفہ یا امیر یا بادشاہ یا صدر یا جو بھی لقب اختیار کر لیا جائے ۔ عوام میں سے چنا جاتا ہے ۔ ایک جماعت شوریٰ کی شکل میں اس کو مدد و نصرت مہیا کرتی ہے۔ اور شوریٰ کے سربراہ کا کیا ہوا فیصلہ قابل تعمیل ہوتا ہے۔اسلامی تاریخ میں سیاسی اتحا د کے بکھر جانے کے بعد بھی علماء اسلام نے اس منظر کو اپنے طور پر اپنی بساط کے مطابق زندہ رکھنے کی کوشش جاری رکھی ہوئی ہے۔ 
18 
نومبر 2018 کو مسلمانوں کی سب سے بڑی تنظیم تبلیغی جماعت کے امیر حاجی محمد عبدالوہاب ؒ کی رحلت کے بعد نئے امیر کے چناو کے موقع پر نوجوان نسل کووہ عمل دیکھنے کا موقع ملا جو تنظیم کو قائم رکھنے میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے یعنی مجلس شوریٰ کے نئے امیر کا انتخاب۔
تبلیغی جماعت کا شعار دائرہ اسلام سے باہر لوگوں کو دائرہ اسلام میں لانا اور دائرۃ اسلام کے اندر مسلمانوں کو بہتر مسلمان بنانا ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے جس فرد کی قربانی اور ایثار سب سے بڑھ کر ہو تا ہے اسی کو امیر منتخب کیا جاتا ہے۔ تعلیم و تصنیف، خاندان و معاشرتی وجاہت ، زہد و عبادت ، بدنی طاقت و ایمانی قوت کے اعتراف کے باوجود میرٹ صرف اور صرف عملی اخلاص ہی بنتا ہے۔اس کے لیے اہل مشورہ کا امیر کے چناو سے بہت عرصہ پہلے ذہن بن چکا ہوتا ہے۔ اور وقت آنے پر اس کا صرف رسمی اعلان ہی کرنا ہوتا ہے۔ 
تبلیغی جماعت کے نئے امیر مولانا نذرالرحمان اطول اللہ عمرہ کے بارے میں شوریٰ اور تبلیغ سے جڑے بزرگوں کا ذہن پہلے ہی بنا ہوا تھاکہ ان کے ایثار کا دوسرا نعم البدل تھا ہی نہیں۔ انھوں نے اپنی ساری زندگی تبلیغ کی نذر کی ۔ ان کی علمی استعداد کے بارے میں یہ ہی کافی ہے کہ وہ مولانا طارق جمیل اور مولانا جمشید جیسی شخصیات کے استاد ہیں۔عام طور پر ذہن میں آتا ہے کہ استاد اس کو کہا جاتا ہے جو مخصوص اوقات میں مخصوص موضوع پر تعلیم دیتا ہے مگر یہ ایسے استاد ہیں جو اپنے شاگردوں کی علمی پیاس بجھانے کے ساتھ ساتھ ان میں روحانی عطش پید ا کر کے اسے سیراب بھی کرتے ہیں۔ خود اپنی ذات کو مثال بنا کر پیش کرتے ہیں۔ باعزت صحافی شہزاد فاروقی نے تبلیغی جماعت کے سابق امیر جناب حاجی عبد الوہاب ؒ کے بارے میں ایک ذاتی مشاہدہ رقم کیا تھاکہ انھوں نے خود حاجی صاحب کو رات کے آخری پہر لوٹا اور جھاڑو ہاتھ میں لیے صفائی کرتے دیکھا تھا۔انسانیت اپنے معراج پر خدمت ہی سے پہنچتی ہے۔ اورخدمت ہی دوسروں کے قلوب کو مغلوب کرتی ہے۔ علم انسان میں دو ہی خصوصیات پیدا کرتا ہے خدمت کا جذبہ یا محسن کی بغاوت، علم نافع وہی ہے جس سے خالق کی مخلوق کو نفع حاصل ہو۔ اور نو منتخب امیر پانچ دہائیوں سے رائے ونڈ میں دینی، تنطیمی، روحانی اور لوگوں کی اجتماعی خدمت کے لیے خود کو وقف کیے ہوئے ہیں۔ ان کی عمر 85 سال سے زائد ہے اور ان کا تعلق راولپنڈی سے ہے اور رائے ونڈ منتقلی سے قبل وہ راولپنڈی کے تبلییغی مرکز ذکریا مسجد میں خدمات انجام دے چکے ہیں ۔ ان کے صاحبزادے مولانا عبد الرحمن صاحب مسجد ذکریا مسجد کی امامت و خطابت کو فریضہ انھام دے رہے ہیں تو دوسرے صاحبزادے مولانا عثمان صاحب فیصل آباد مرکز کے ذمہ دار ہیں۔ ان کے پوتے بھی رائے ونڈ کے مدرسہ العربیہ میں درس و تدریس ہی میں مصروف ہیں۔ گویا ان کی تین نسلیں دین و انسانیت کی خدمت کر رہی ہیں۔ روحانی طور پر وہ کندیاں والے مولانا خان محمد صاحب کے خلیفہ مجاز ہیں اور ان کے عقیدت مندوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔تبلیغی جماعت میں امیر تکریم کے اعلیٰ ترین منصب پر ہوتے ہیں تو یہ بھی حقیقت ہے اور یہی اس مضمون کا مقصد ہے کہ یہاں فرد کی بجائے اصول و نظریے کی پیروی کی جاتی ہے۔ امیر سے لے کر نووارد تک سب کے پیش نظر ایسی "محنت و کوشش" ہوتی ہے جو تبلیغ کے اہداف کو حاصل کرنے میں معاون و مدد گار ہوں۔ اور ہدف ایک ہی ہے انسان کو بہتر روحانی طرز زندگی کی طرف مائل کرنااور یہ عمل جس قدر اہم ہے اسی بقدر فراست و ایثار کا متقاضی ہے

منگل، 20 نومبر، 2018

اردو کالم اور مضامین: حاجی عبدلوہاب

اردو کالم اور مضامین: حاجی عبدلوہاب: اتوار والے دن عشاء سے قبل ، راے ونڈ کے تبلیغی مرکز کے گیٹ نمبر 11 کے سامنے واقع قبرستان میں ، حاجی عبدلوہاب صاحب کی تازہ بنی مرقد پر م...

پیر، 19 نومبر، 2018

حاجی عبدالوہاب


اتوار والے دن عشاء سے قبل ، راے ونڈ کے تبلیغی مرکز کے گیٹ نمبر 11 کے سامنے واقع قبرستان میں ، حاجی عبدالوہاب صاحب کی تازہ بنی مرقد پر میرے سامنے کھڑا ارسلان دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے ہوئے تھا ، ارد گرد سے بے خبر اس کی انکھوں سے آنسو ں بہہ کر اس کے چہرے کو تر کر چکے اور شائد اپنے دل کا دکھ ہلکا کرنے کے بعد اس نے جیب سے ٹشو نکالا چہرہ صاف کیا کہ ایک نوجوان نے اس نے ہاتھ ملایا پھر دونوں گلے لگے اور نوجوان کے سینے سے ایک ْ آہ ْ نکلی۔ میرے تصور میں ایک پرانا منظر تازہ ہوگیا۔
ہمارے سامنے 5 مئی 1980 کا اخبار رکھا تھا۔ سب سے بڑی خبر یوگوسلاویہ کے صدر مارشل ٹیٹو کی وفات کی تھی۔ ہمارا موضوع مارشل ٹیٹو کی یو گو سلاویہ کے لیے ان کی خدمات تھیں۔ ہم میں خاموش بیٹھے ہمارے ایک تبلیغی جماعت کے دوست نے پوچھا کہ کیا مرنے ولا مسلمان تھا۔ جب انھیں بتایا گیا کہ وہ غیر مسلم تھا تو ان کی زبان سے ایک ْ آہ ْ نکلی تھی۔ مجھے نہیں معلوم کہ ْ آہیں ْ دوسرے کے قلوب پر اثر انداز ہوتی ہیں یا نہیں مگر میں اس کا شاہد ہوں کہ ارسلان نامی نوجوان جو ہماری اس محفل میں موجود تھا ، کی زندگی کا رخ بدلنے والی یہی ْ آہ ْ بنی تھی ۔ایک ارسلان ہی نہیں تبلیغی جماعت نے بے شمار لوگوں کی زندگیوں کے رخ کو خاموشی سے بدلا ہے۔ 
مسلمانوں کی پستی پر آہ و زاری کرنا ، ان کو خواب غفلت سے جگانے کی سعی کرنا، کامیابی کی دوڑمیں پچھڑ جانے کی وجوہات کا احساس دلانا اور اس کام میں اپنا تن من دھن لگا دینا تبلیغی جماعت کا شعار ہے۔ اور جماعت میں اس شعار کو زندہ رکھنے کی ترغیب دینے میں حاجی عبدالوہاب صاحب نور اللہ مرقدہ کا لازوال کردار ہے۔ وہ 21 سال کے نوجوان تھے جب نظام الدین میں انھوں نے مولانا الیاس ؒ کے مسلمانوں کی روحانی پستی کے درد کو اپنا درد بنا لیا اور زندگی کے سارے ماہ و سال اسی درد کے دوا بن جانے کی نذر کر دیے۔وہ مولانا یوسف کاندہلوی اور مولانا انعام الحسن جیسے دین کے مخلصین کے با اعتماد ساتھی رہے۔پاکستان میں تبلیغ کی بنیاد رکھنے والے بزرگوں میں شامل تھے اور محمد شفیع قریشی ؒ ( 1903-1971 ) اور حاجی محمد بشیر ؒ ( 1919-1992 ) کے بعد پاکستان میں تبلیغی جماعت کے امیر بنائے گئے۔ وہ نظام الدین میں قائم عالمی شوریٰ کے بھی ممبر تھے۔ اور دنیا بھر میں اثر و رسوخ رکھنے والی شخصیات میں ان کا منفرد مقام تھا۔ 
مسلمانوں اور اسلام کے تعلق پر تبلیغ کی تعلیمات کی روشنی میں حفیظ کا یہ شعر حسب حال ہے

بے تعلق زندگی اچھی نہیں
زندگی کیا موت بھی اچھی نہیں 

حاجی عبدلوہاب صاحب ْ رات کو سوتے وقت موت سرہانے رکھ کر سوتے او ر صبح اٹھ کر موت کو سامنے 
رکھتے ْ انھوں نے ایک اجتماع کے دوران اپنی آخری تقریر میں کہا تھا ْ توبہ بہترین عمل ہے ْ ان کی زندگی مسلمانوں کے لیے قابل تقلید ہے اور ان کے بیانات اور تقریروں پر عمل کر کے مسلمان دنیا اور آخرت میں 
سرخروئی حاصل کر سکتے ہیں۔ 

کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاوں گا
(میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاوں گا (احمد ندیم قاسمی

ہفتہ، 17 نومبر، 2018

اردو کالم اور مضامین: تین ماہ کی حکومت کا ناقدانہ جائزہ

اردو کالم اور مضامین: تین ماہ کی حکومت کا ناقدانہ جائزہ: کولہو ہمارے زرعی معاشرے کا ایک اہم اثاثہ ہوا کرتا تھا۔ اس میں اردو محاورے والا بیل، صبح کے وقت آنکھوں پر پٹی باندھ کر لمبے سفر پر روانہ...

جمعہ، 16 نومبر، 2018

تین ماہ کی حکومت کا ناقدانہ جائزہ


کولہو ہمارے زرعی معاشرے کا ایک اہم اثاثہ ہوا کرتا تھا۔ اس میں اردو محاورے والا بیل، صبح کے وقت آنکھوں پر پٹی باندھ کر لمبے سفر پر روانہ کر دیا جاتا تھا، دسیوں کلو میٹرکا سفر طے کرنے کے بعدشام کو جب اس کی آنکھوں سے پٹی کھلتی تھی تو وہ اسی جگہ موجود ہوتا جہاں صبح تھا۔اس کا سفر مگر بے مقصد نہیں ہوتا تھاتیل اور کھل اس لمبے سفر کا ثمر ہوتے تھے۔ تیل کسان کے جبکہ کھل بیل کے حصے میں آتی تھی۔سفر با مقصد ہو تو رائیگان نہیں جاتا بے شک دائرے ہی میں ہو۔

معاشر ے کی منزل کا تعین، راہ کا ادراک اور اجتماعی سعی کو کامیابی میں بدل دینے والے کو رہنماء کہا جاتا ہے۔رہنمائی کی اہلیت ہر فرد میں ہوتی ہے۔اپنی ذات میں اس اہلیت کو تلاش کر کے اپنی ذات ، خاندان اور معاشرے کے لیے مثبت طور پر استعمال کرنا ہر اس فرد کے لیے ممکن ہے جو اس کی جستجو رکھتا ہے۔فطرت انسان کی ہر چاہت کو پورا کرنے اور ہر سوال کا جوب دینے کی استعداد رکھتی ہے۔البتہ چاہنا اور سوال کرنا لازمی ہے ۔ کوئی جواب بنا سوال اٹھائے نہیں دیا جاتانہ بلا چاہت کوئی خواہش پوری کی جاتی ہے۔سوال اٹھانے اور چاہت کے اظہار کے لیے بنیادی علم انسان کو مہیا کیا جاتا ہے۔ ہم درسگاہوں میں دراصل اس علم کے استعمال کا سلیقہ سیکھتے ہیں۔کسان کے علم کا سلیقہ ہے کہ وہ بیل کو مدد گار بنا کر استفادہ حاصل کرتا ہے۔ ابن رشد نے لوگوں کو زمین ماپنے کا گر بتایا تھاحالانکہ اس نے کسی سے سیکھا نہ تھا۔خالد بن ولید کے پاس جنگی مہارت خداداد تھی۔عمر بن عبدالعزیز کے پاس محبت و رواری کا علم ذاتی تھا۔ معاشرے میں ادیب ، موسیقار ، خطیب، سیاسی رہنماء ، طبیب اور سپہ سالار بن جانے والوں کے پاس علم خداداد ہوتا ہے۔

سیاسی جماعتوں کے کارکن اپنے اپنے علم سے لیس ہوتے ہیں ، جماعت ان کے علم کو 
Channellize
 کرتی ہے۔ایک فرداگر وزیر اعظم بنا دیا جاتا ہے تو ہو سکتا ہے اسی جماعت میں اس سے زیادہ علم والا موجود ہو۔ حکمرانوں پر تنقید کا بنیادی مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ سیاسی جماعت خود احتسابی کے عمل سے گذر کر بہتر سے بہترین افراد کو سامنے لائے۔ تنقید ی علم بھی خداد اد ہوتا ہے البتہ سلیقہ سیکھنا پڑتا ہے ۔اور تنقید کو برداشت کرنا بھی سلیقہ کا متقاضی ہوتا ہے۔

2014
کے دھرنے کے دوران حکمرانوں کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ درجنوں غلط الزام لگائے گئے۔ ان کی ذات اور خاندان کو تضحیک کا نشانہ ہی نہیں بنایا گیا بلکہ عوام کے لیے رستے بند کر کے سیاسی مخالفین کے لیے قبریں بھی کھود لی گئی تھیں۔اجتماعات میں ان پر جوتے پھینکے گئے، منہ کالے کیے گئے ، سر پھاڑے گئے اور گولیاں تک چلائی گئیں مگر حکمرانوں کے پاس تنقید کو برداشت کرنے کا سلیقہ تھا۔موجودہ حکمرانوں کی خامیوں میں سر فہرست تنقید برداشت کرنے کے سلیقے کا فقدان ہے۔ زبانی تنقید کے بدلے گالی دی جاتی ہیں، اخبار تنقید کرے تو اس کے مدیر کو لا پتہ کر دیا جاتا ہے۔ماوراے قانوں مقدمے اورصحافیوں کو چن چن کر ملازمت سے نکالنا ثابت کرتا ہے کہ یہ لوگ علم کے استعمال کے سلیقے ہی سے نا بلد نہیں بلکہ ان میں وہ خدا داد علمی استعداد ہی مفقود ہے۔

امن بنیادی انسانی ضرورت ہے ۔حکومت افراد اور معاشرے کی پاسبان ہوا کرتی ہے۔مگر اس حکومت کے دور میں معاشرے کا پاسبان سمجھی جانی والی پولیس کا ایک افسر ملک کے درالحکومت سے سورج کی روشنی میں اور کھلے بازار سے اغوا کر لیا جاتا ہے۔ جگہ جگہ لگے پولیس کے ناکوں کو عبور کر کے ملکی سرحد پر موجود چیتا نظر وطن کے رکھوالوں کی نظروں سے چھپا کر اسے دوسرے ملک لے جایا جاتا ہے اور وہاں سے اس کی تشدد زدہ لاش واپس بھیجی جاتی ہے۔اور وفاقی وزیر مملکت براے داخلہ اس خبر ہی کو غلط بتاتے ہیں پھر دلیل ختم ہو جانے کے بعد سارے معاملے کو حساس بتا کر چپ کا روزہ رکھ لیتے ہیں۔ موت سے بڑی حساسیت کیا ہوتی ہے ۔ وزیر باتدبیر کے پاس اس کا جواب نہیں ہے ۔ کیا حکمران پارٹی میں قابلیت کی یہی انتہا ہے یا کوئی بہتر علم والا موجود ہے۔ یہ عوام کا وہ سوال ہے جس کا جواب حکمرانوں پر قرض ہے ۔ یاد رکھنا چاہیے کہ قرض اور فرض ایسے واجبات ہوتے ہیں کہ ان سے انکار انسان کو معاشرے میں بے وقعت کر دیتا ہے۔ 

دولت مند اور حکمران ہمسایہ غریبوں کے لیے سایہ دار درخت کی مانند ہوتے ہیں ۔ میٹھا پھل نہ بھی کھائیں سائے سے مستفید ہوتے ہیں۔ مگر اس حکومت میں شامل دولت مند حکمران طاقت کے نشے میں ایسے سرشار ہیں کہ وہ انسان کی عظمت، احسان کی خصلت ، اپنے وقار اور حکومت کی ساکھ ہی کو بھول چکے ہیں۔ مہاجر اور غریب ہمسائے کی گائے کے اعمال پر ان کو اس قدر غصہ آتا ہے کہ گائے کوہی اپنے گھر میں باندھ لیتے ہیں مگر ان کا غصہ سرد نہیں ہوتا۔ غریب ہمسائے کے گھر کی پردہ دار خواتین کو جیل بجھواتے ہیں مگر غصہ پھر بھی نہیں اترتا ۔ ان کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کو اس علاقے ہی سے اٹھا کر ان کی نظروں سے دور بھیج دیا جائے۔ ایسا واقعہ تو کتابوں میں پڑہا نہ دانشمندوں کی زبانی سنا۔اگر حکمران ایسے نہیں ہوا کرتے تھے توجان لیں اب ہمارے موجودہ حکمران ایسے ہی ہیں۔

حکومت کے جن وزیروں اور مشیروں کا کام عوام کو خبروں کی فراہمی میں مدد کرنا ہے۔ وہ اپنے فرض منصبی کو چھوڑ کر با باعزت شہریوں کی پگڑیاں اچھالنا خود پر فرض کیے ہوئے ہیں۔ پارلیمان میں اپنی بد زبانی پر معافی مانگ کر دروازے سے نکل کر گلا پھاڑ کر پھر وہی الفاظ استعمال کرتے ہیں اور اپنی اس غیر اخلاقی جرات پر خود ہی نازان ہوتے ہیں۔مخالفین کو گالی دینا۔ ان کے نام بگاڑنا، بے بنیاد الزام لگانا اور اس پر مصر ہونا ان کے نزدیک بہت بڑا کارنامہ ہے۔ایسی سطحی سوچ پر کوئی ٹوک دے تو اس کو ریاست کی طاقت سے ڈرا کر اطمینان پاتے ہیں۔واقعات اور اطلاعات کو عوام سے چھپانا اور غلط اطلاعات فراہم کرنا ان کا شیوہ ہے۔ اگر کوئی صحافی ایسی بات لکھ دے جو ان کے خوشامدی من کو پسند نہ آئے تو ایسے صحافی کو ریاستی طاقت کے بل بوتے پر اٹھا لینا اور غائب کر دینا ان لوگوں کا وطیرہ ہے۔ لوگ قانون اور قاعدے کی بات کریں تو اس صحافی کو لوہے کی مقفل زنجیروں میں جکڑ کر اس کی تصاویر اخباروں میں چھپوا کر اپنے من کے رانجھے کو راضی کرتے ہیں۔ اتنی بڑی حکمران پارٹی کے پاس علم سے لیس بس یہی چند دانے ہیں ۔ عوام اس بات پر یقین کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ عوام کا حق ہے کہ ان پر مسلط ہی کرنا ہے تو ایسا آدمی مسلط کریں ۔ جو کم از کم پارٹی کے ساتھ مخلص ہوْ۔پارٹی سے عوام کو متنفر کرنے والوں کو کون پارٹی کا ہمدرد مانے گا۔

معیشت کا شعبہ زیادہ سنجیدہ شمار ہوتا ہے۔ مگر اسی شعبے کو غیر سنجیدہ لوگوں کے حوالے کر دیا گیا ہے۔اس شعبے کو چلانے والے ایک صاحب ٹی وی پر بیٹھ کر بتاتے ہیں کہ ان کی وزارت میں تنخواہوں کی ادائیگی کے بعد صرف تیس روپے بچے ہیں۔غربت کا جتنا ڈھندورا اس حکومت کے دور میں پیٹا گیا ہے وہ ملکی ہی نہیں عالمی ریکارڈ کی حیثیت رکھتا ہے۔ کشکول توڑنے اور خود داری کا راگ الاپنے والوں نے ملکوں ملکوں پھر کر بتایا ہے کہ ہمارے پاس قرض کی قسط ادا کرنے کے لیے رقم نہیں ہے۔ حالانکہ ملک میں سرکاری ملازمیں 48 سے 56 گھنٹے ہفتے میں کام کرتے ہیں اور پرائیویٹ سیکٹر میں لوگ ستر ستر گھنٹے تک کام کرتے ہیں ۔ ملک میں غریب اور متوسط طبقہ گھڑی کو دیکھے بغیر محنت میں جتا ہوا ہے۔ عوام کی طرف سے صحت و تعلیم کے لیے کوئی دباو ہے نہ مہنگائی کے خلاف کوئی آواز بلند کرتا ہے۔ بلند ہے تو صرف حکمرانوں کے اخراجات کا تخمینہ۔ اس کے باوجو د عرب و چین تک ہماری نااہلی اور غربت کے چرچے ہیں ۔ ہم ایسی ایٹمی طاقت ہیں جو طالب علموں اور موبائل کے صارفین سے چندے مانگتے ہیں ۔ ریل کے مسافروں سے زبردستی چندہ وصول کیا جاتا ہے مگر ہوائی جہاز کے مسافر اس سے مستثنیٰ ہیں۔جنرل سیلزٹیکس کے خاتمے کا ْ لارا ْ لگا کر عوام کو کرپشن کے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا گیا ہے۔ملک میں اپنے ذاتی سرمائے سے کاروبار کرنے والے سیاسی مخالفین کو چن چن کر انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔بیرون ملک سے دولت کما کر ملک کے اندر سرمایہ کاری کرنے والوں کو نشان عبرت بنایا جا رہا ہے۔اور ملک کے اندر اپنی محنت اور ذہانت سے آگے بڑہنے والوں کو یہ طعنہ دیا جاتا ہے کہ صرف انھوں ہی نے کیوں ترقی کی ہے۔ ان جیسے دوسرے کیوں ان سے پیچھے ہیں ۔کیا قابلیت کا یہی موسی ہے یا معاشرے کو معیشت کے کوہ طور تک پہنچانے کے لیے کوئی صاحب علم بھی موجود ہے۔

قانون کی حکمرانی کا جھنڈا بلند کرتے ہوے ہم فلیگ پوسٹ ہی کو گرا بیٹھے ہیں۔وزیر اعظم صاحب سپریم کورٹ کی بار بار کی تلقین کے باوجود اپنا گھر ریگولائز کرانے پر راضی نہیں ہیں۔وزیر اور مشیر عدالت کے سمن ہی وصول نہیں کرتے یا عدالت کے بلانے پر عدالت ہی نہیں جاتے۔کابینہ کی میٹنگز میں نیب زدہ، بنک زدہ اور غیر ملکی شہریت کے لوگ دھڑلے سے بیٹھتے ہیں۔ البتہ ان کو عدالت سے یہ گلہ ہے کہ ان کے سیاسی مخالفین کو قانونی رعائت کیوں دی جاتی ہے۔صدر مملکت اور وزیر اعظم صاحب خود عدالتی استثناء کی چھتری تلے براجمان ہیں۔ ملک کے تحقیقاتی اداروں کو کرپشن کے وہ کیس ثابت کرنے کے لیے فارغ کر دیا گیا ہے جو عشروں قبل ثابت نہ ہو کر بند ہو چکے ہیں۔ٖغریب دوکان داروں، گھوم پھر کو پھل سبزی فروخت کرنے والوں پر قانون کو نافذ کیا جاتا ہے۔ وزیروں کے اقرباء البتہ قانون سے بالا ہیں۔

تعلیم کا حشر نشر کر دیا گیا ہے کے پی کے اور پنجاب میں سینکڑوں سکولوں کو بند کر دیا گیا ہے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور استادوں کو بلا وجہ حراساں کرنا اسی دور حکومت میں ممکن ہوا۔ خاص طور پر پنجاب میں تو تعلیم دشمنی جیسا رویہ اختیار کیا گیا۔ پچاس لاکھ گھر بنا کر دینے کی ٹھوس پالیسی سامنے نہیں آئی۔نوکریاں دینے کی بنیاد رکھنے میں بھی ناکامی ہی کا سامنا ہے۔تعلیم یافتہ بے روزگار مایوسی کا شکار ہو رہے ہیں۔زراعت مشکلات کا شکار ہے اور کسان پر حکومتی سرمایہ کاری بند کر دی گئی ہے۔ زندگی کے ہر شعبے میں امید کے دیے بجھ رہے ہیں۔ حکمرانوں کی البتہ پانچوں دیسی گھی میں اور سر درآمد کردہ کڑاہی میں ہے۔

کولہو کے بیل کا گول دائرے میں سفر نتیجہ خیز ہوتا ہے ۔پاکستانی عوام کی حالت اکہتر سال کے سفر کے بعد ہی کولہوکے بیل سے بھی بدتر ہے۔ اکہتر سالوں سے امید کے ٹرک کی بتی کے پیچھے بھاگ بھاگ کر ہانپ چلے ہیں۔ اب تو لوگ مرنے سے بھی خوف زدہ ہیں کہ شہر خموشاں میں پلاٹ صرف نقد ادائیگی پر ہی ملتا ہے۔ حکومت سے گذارش ہے کہ مفلس اور بے وسیلہ لوگوں کے مر جانے پر میت کو دفنانے کے علاوہ کوئی اور سستا اور قانونی طریقہ نکالے کہ مرنا توآسان ہو سکے