بدھ، 11 اکتوبر، 2017

صادق وامین


پاکستان کی عدالت عظمیٰ نے نواز شریف کو وزارت عظمیٰ کے عہدے سے نااہل قرار دیا تو معاشرے میں صادق و امین پر طویل بحث شروع ہو گئی ہے۔صادق و امین کی تعریف ہر کوئی اپنی ذہنی بساط اور علم کے مطابق کر رہا ہے۔اس بحث کے دوران جماعت اسلامی کے امیرجناب سینیٹر سراج الحق کا نام عدالت میں بھی سنا گیا اور صادق و امین ہونے کے حوالے سے عدالت کے باہر بھی سے ان کے نام کا ڈنکا بجتا رہا۔عوام جماعت کو ووٹ تو نہیں دیتے مگر اس بات پر خوش ہے کہ پاکستان میں کوئی تو بطل جلیل ایسا ہے جس کی پوشاک پر کرپشن کادھبہ نہیں ہے۔لیکن کب تک ۔۔۔۔!
پاکستان میں سوشل میڈیا اور پرنٹ میڈیا (اب الیکٹرونک میڈیا کو بھی شامل کر لیں) میں ایسے ایسے نابغہ روزگار بقراط صفت لوگ موجود ہیں جو سامنے کھڑے شیر کو گدھا ثابت کرنے کا ارادہ کر لیں تو اس پر ایسی ایسی دلیلیں لائیں گے کہ انسان ان کے علم کی داد دنہ بھی دے تو یہ یقین ہو جاتا ہے کہ پاکستان میں تاویلات کا میدان وسیع ہے اور گھوڑے بے لگام ہیں۔حال ہی میں ایک اخبار کے تجزیہ نگار نے سینٹ میں منظور ہونے والی ایک قانونی ترمیم کو لے کرسراج الحق کی ذات کو موضوع بناتے ہوئے اپنے قلم کا زور دکھاتے ہوئے لکھا ہے کہ پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ 2002 ء میں ترمیم کا حکومتی بل اپوزیشن کی اکثریت کے باوجود ملی بھگت کر کے پا س کرایا ہے اس سے آنے والے دنوں میں جمہوری نظام کی اینٹ سے اینٹ بج جائے گی اور اس سارے عمل کی ذمہ داری جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق پر ڈالتے ہوئے لکھا ہے کہ امیر جناب قبلہ محترم سراج الحق پارٹی اجلاس کو اہم تصور کرتے ہوئے ملک و قوم کے مفاد میں سینٹ کے اجلاس میں تشریف ہی نہیں لائے، ایک ایسے بل کی منظوری کے موقع پر جو آرٹیکل 62,63 کے تحت نااہل ہونے والے شخص کو دوبارہ اپنی پارٹی کا سربراہ بنا سکتا ہے۔ وہ عین موقع پر غائب ہو جاتے ہیں اس لیے اب سراج الحق بھی صادق و امین نہیں رہے۔
ہماری سوچیں اس قدر پست اور خیالات اس قدر منفی ہو چکے ہیں کہ ایک دن ایک سیاستدان کی تعریف کی جاتی ہے اور ابھی قلم کی سیاہی خشک بھی نہیں ہونے پاتی مگر پتہ چلتا ہے کہ وہ بھی اسی حمام میں ہے جہاں سب ننگے ہیں، مقام حیرت ہے کہ 20,22 کروڑ کی آبادی میں ننگے صرف ساستدان ہی ہیں، ہر قسم کا منافقانہ کردار ، غدارانہ سوچ اور عوام دشمنی کا عمل سیاستدانوں ہی کے خمیر میں ہے، سیاستدانوں کے علاوہ اس ملک میں فراش سے لے کر اعلیٰ عہدے داروں تک سب نیک و پاک ہیں ۔ ہمارے اس رویے نے نتیجہ یہ دیکھایا ہے کہ ستر سالوں میں سترہ سیاستدان وزراء اعظم کو بے توقیر کر کے وزیر اعظم کی کرسی سے اتارا ہے اور اسی پر بس نہیں ہے بلکہ جو سیاستدان اس کرسی تک پہنچنے کا نیت و ارادہ کرتا ہے وہ بھی ناقدوں کی سخت و ترش تنقید کا شکار رہتا ہے۔تنقید وہ آسان عمل ہے جو ہر شخص فرض سمجھ کر پورا کرتا ہے، مگر ستر سالوں سے تنقید کے تبرے صرف سیاستدانوں ہی کے حصے میں آتے ہیں، باقی ہر قسم کے حکمران ، فوجی ہوں کہ درآمد شدہ گویا دودھ میں نہائے ہوئے اور صادق و امین ہیں حالانکہ انکی کرپشن کی سزا ملک و عوام ان کے چلے جانے کے بعد بھی عشروں تک بھگتتے رہے ہیں اور بگھت رہے ہیں۔
صحافی ، تجزیہ کار اور تعلیم یافتہ لوگ اپنی لیاقت و قابلیت کو استعمال کر کے معاشرے کی بہتری اور چھے مستقبل کی طرف رہنمائی کرنے والے ہوتے ہیں، مگر پاکستان میں یہ لیاقت سویلین دور میں سیاستدانوں کی ٹانگیں کھینچنے اور غیر سویلین ادوار میں حکمرانوں کی کاسہ لیسی اور خوشامد کرنے میں استعمال ہوتی ہے ۔اور اپنے اس فن کو ہم نے خود ہی صحافت کا نام دے رکھا ہے ۔
صحافی اور تجزیہ نگار کا منصب یہ ہے کہ وہ معاشرے کی نبض پر ہاتھ رکھ کر معاشرتی امراض سے آگاہ کرے اور عوام و حکمرانوں کے لیے ان راہوں کی نشان دہی کرئے جن راہوں پر چل کر وہ منزل کا قرب حا صل کر سکیں۔

تحریر:دلپذیر احمد

منگل، 10 اکتوبر، 2017

کردار

کردار
قدیم بیانیہ: دودن مرد لے لیے باعث مسرت ہوتے ہیں ایک شادی 
والا دن دوسرا بیوی کی موت کادن 
متوسط بیانیہ: تونے شادی کر لی تو عورت تجھ کو خدا سے دور کر دے گی
الیکٹرانک بیانیہ: میں ایک کلو میٹر سے خاتون کا کردار پہچان لیتا ہوں

پیر، 9 اکتوبر، 2017

جگاڑ

جگاڑ
کراچی سے سید مراد علی شاہ صاحب کا اصل فتویٰ اس جگاڑ پر ہے جوعدالت نے واٹر کمیشن میں لگایا ہے،سمجھانے کے لیے فرمایاسیاستدان صحافی نہیں ہو سکتا اور کھلاڑی بطور سیاستدان اناڑی ہی رہے گا ۔ 
پہلی بات یہ ہے کہ اناڑی خود اب ماہر کھلاڑی ہونے کا مدعی ہے،دوسری بات یہ کہ ہمارے ہاں جگاڑ اس لیے کامیاب ہوتے ہیں کہ لگانے والوں کو اس کی کامیابی کا یقین ہوتا ہے، جو زندہ رہنا چاہیں گے وہ خود ہی اس جگاڑ کو کامیاب کریں گے کہ ْ پانی زندگی ہے 

کالی بلی


ہمارے ایک محترم و مکرم بزرگ (ظالمو قاضی آ رہا ہے) نے ایک بار ْ ٹاٹ ینْ کی اصطلاح ان لوگوں کے لئے استعمال فرمائی تھی جو زبان کوئی بھی بولیں سوچتے اردو میں ہیں۔ لوگ زبان کوئی بھی بولیں سوچتے اسی زبان میں ہیں جس میں انھوں نے تعلیم حاصل کی ہوتی ہے۔پاکستان کو یہ انفرادیت حاصل ہے کہ یہاں کچھ لوگ سوچتے بالکل بھی نہیں ۔ مثال کے طور پر بلی پکڑنا کبھی بھی آسان کاموں میں شمار نہیں ہوا۔ سرکاری ملازم سے دوران ڈیوٹی ایسی انہونی کی امید بھی نہیں ۔لیکن یہاں تو بلی بھی کالی ہے اور ہے بھی اندھیر۔۔۔!

قرآن نامی کتاب


ہماری ملاقات ایک سیمینار میں ہوئی تھی،خیالات ملتے تھے دل بھی مل گئے۔میں اس کے شہر جاتا تو اس کا مہمان ہوتا وہ میرے شہر آتا تومیں میزبان ہوتا۔دیکھنے میں وہ ہم جیسا ہی تھامگر تھا مختلف۔ہم خود کو پارسا گردانتے ہیں اس کا یقین ہے وہ گناہ گار ہے۔ہم اپنے والدین کو جانتے ہیں وہ والدین سے محروم ہے۔ہم گھر میں رہتے ہیں وہ یتیم خانے میں پلا تھا،ہمیں تعلیم دلائی جاتی ہے اس نے تعلیم حاصل کی تھی، ہم پیدائشی مسلمان ہیں وہ خود مسلمان بنا تھا۔ایک بار میں نے پوچھا تھا ۔۔۔ کیسے ؟ اس کا جواب تھا ْ میں نے قرآن نامی کتاب پڑہی تھی ْ