ہفتہ، 26 مارچ، 2022

وزیر اعظم ہاوس پر بد روح



میرا ایک ساتھی بتاتا ہے کہ اس کے گاوں میں ایک شخص نے قبرستان سے متصل زمین خریدی۔ قبرستان کی جگہ کو شامل کر کے وہاں آٹا پیسے والی چکی لگائی۔ پہلے دن ہی نیا پٹہ ٹوٹا اور اس شخص کا بازو ٹوٹ گیا۔ بزرگوں نے اس کو سمجھایا تو اس نے غصب شدہ چھوڑ کر چکی کو ذاتی جگہ منتقل کیا۔ میرا ساتھی بتاتا ہے آج بھی اس کی چکی موجود ہے۔ 

راولپنڈی میں میری رہائش گاہ سے چند قدم کے فاصلے پر ایک قبرستان ہے۔ میرے بچپن میں اس قبرستان میں ایک روح کے بھٹکنے کے قصے عام تھے۔ اس بد روح کا چشم دید شاہد تو کوئی نہ تھا مگر ہر دسویں آدمی کے کسی جاننے والے کو یہ روح ضرور نظر آتی تھی۔ یہ بدیسی روح کسی انگریز کی بتائی جاتی تھی۔ حلیہ اس کا بڑا ڈراونا تھا۔ تھری پیس سوٹ میں ملبوس ٹائی پہنے اس انگریز کا مگر سر کٹا ہوا تھا۔ 

پرانے قبرستانوں کو مسمار کر کے جب شاندار عمارتیں بن جاتی ہیں اور لوگ اس میں بس جاتے ہیں۔ تو پھر معاشرتی اختلافات جنم لیتے ہیں۔کچھ گھرانے ایسے بھی ہوتے ہیں۔ جن میں لڑائی جھگڑا روز کا مومول ہوتا ہے۔ اس معمول سے اکتا کر جب گھر کا سیانا کسی باہر کے بابے سے مشورہ کرتا ہے تو اسے معلوم ہوتا ہے۔ اس  رہائش کے نیچے کبھی قبرستان تھا۔ اس قبرستان میں مدفون مردے کی کوئی بے چین روح ہے جو اس گھر پر قابض ہو کر گھر کا سکون برباد کیے ہوئے ہے۔ 

اسلام آباد کا شہر میرے دیکھتے دیکھتے بسا۔ یہ علاقہ مختلف چھوٹے چھوٹے گاوں کا مسکن تھا۔ آہستہ آہستہ گاوں مٹتے گئے اور شاندار سیکٹر تعمیر ہوتے رہے۔ اسلام آباد کا ڈی چوک اپنی سیاسی گہما گہمی کے سبب معروف ہو چکا ہے۔ اور شہراہ دستور اہم ترین سڑک ہے اسی سڑک  پر موجودایوان صدر سے چند قدم کے فاصلے پر دو قبریں اب بھی موجود ہیں جو پرانے قبرستان کی یادگار ہیں۔ پنجاب ہاوس کے قریب خیابان اقبال کے شروع میں برگد کا درخت جس پر چار سو سال پرانا ہونے کا کتبہ موجود ہے کے سائے میں بھی ایک قبر موجود ہے۔ یہاں بھی کسی زمانے میں قبرستان ہوا کرتا تھا۔ 

جب وزیر اعظم ہاوس کی بنیاد رکھی جا رہی تھی اس وقت بھی اس جگہ قبرستان ہونے کا ذکر ہوا تھا۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اس شاندار وزیر اعظم ہاوس میں اس کے مکمل ہونے کے پہلے دن سے لے کر آج تک کوئی ایک وزیر اعظم بھی سکون سے نہ رہ سکا۔ کسی کو نکالا گیا تو کسی کو دھتکارا گیا۔ آپ کو یاد ہو گا وزیر اعظم بننے سے پہلے عمراں خان نے اس جگہ نہ رہنے کا اعلان کیا تھا۔ اور عمران خان اس عمارت میں منتقل نہیں ہوئےاور حفظ ما تقدم کے طور پر بنی گالہ ہی میں مقیم رہے۔ اس کے باوجود ان کے اقتدار پر سیاہ بادل منڈلاکر ہی رہے۔ 

اس عمارت کے سابقہ تمام مکینوں کو (قربانی) کا مشورہ دیا جاتا رہا۔ سیاسی لوگوں میں شیخ رشید نے ہمیشہ قربانی کا ذکر کیا۔ سابقہ وزیر اعظم نواز شریف کو اونٹوں کا خون بہانے کا مشورہ دیا گیا تھا۔ عمراں خان نے کئی  بار (بکروں) کی قربانی کی بلکہ  خون کو جلایا ۔ مگر بات نہ بن پائی ۔ 

 اگر سیاسی پارٹیاں اور سیاستدان اور عوام چاہیں تو ہم اس عامل کا نام بتا سکتے ہیں ۔ جو سرکاری عمارتوں پر چھائی نحوستوں کو ختم کرنے کی صلاحیت سے مالا ہے ۔ اس عامل کامل کا نام پارلیمانی لیڈر ہے ۔ 



 

منگل، 15 مارچ، 2022

نیوٹرل جانور



انسان بنیادی طور پر جانور ہی ہے مگر یہ عقل سے لیس ہوا تو اس نے خود کو جانوروں سے ممتاز ثابت کرنا شروع کر دیا۔ اس راستے میں انوکھی بات یہ ہے کہ جب انسان عقل کے خلاف عمل کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اس کے ہمدرد اور پیارے اسے بتاتے ہیں کہ یہ عمل انسانی عقل کے خلاف ہے۔ بار بار ایسا ہوتا ہے کہ جذباتی  فیصلے عقلی فیصلوں پر حاوی ہو جاتے ہیں۔لڑائی کا فیصلہ جذباتی ہوتا ہے اور بات چیت کو عقلی دلیل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔عقل کا تعلق تعلیم، تجربے اور حالات کو سمجھنے کی صلاحیت سے ہے۔ عام طور پر تعلیم عقل کے بڑھواے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اور سوچ کی نئی راہیں کھلتی ہیں۔انسانی تاریخ میں ایسے بے شمار مواقع ٓآئے جب بظاہر جذباتی فتوحات پر عقلی فیصلوں نے اپنی راہیں تراشیں اور جذباتی اور وقتی فتوحات پر حاوی ہو گئیں۔

پاکستان میں عوام کو جاہل اور انپڑھ ہونے کا طعنہ دیا جاتا ہے۔ عوام کو اس شرمندگی سے بچانے کے لیے انیس سو تہتر کے ٓئین بنانے والوں نے اس آئین میں درج کیا تھا کہ عوام کو بنیادی تعلیم دینا حکومت وقت کی ذمہ داری ہے۔ حکومت اور اداروں کو چلانے والے افراد اپنی کرسی پر براجمان ہونے سے پہلے اس آئین پر عمل درآمد کا حلف اٹھاتے ہیں۔ مگر چالیس سالوں میں عوام کو انپڑھ اور جاہل ہونے کا طعنہ تو متواتر دیا جاتا رہا مگر عوام کو تعلیم دینے میں مجرمانہ غفلت سے کام لیا جاتا رہا۔ ان چالیس سالوں میں خود کو اولی العزم بتاتے حکمران آئے تو چلے گے۔ ان میں سے کچھ مرکھپ گئے، کچھ حادثات میں مارے گئے، کچھ پھانسی چڑھ گئے تو کچھ ملک سے بھاگ گئے۔ ملک میں موجود خود کو رستم اور بقراط بتاتے حکمران بھی مگر عوام کو تعلیم دلانے کی توفیق سے محروم ہی رہے۔

عقل ایک خدا داد صلاحیت ہے تو علم خود خدا کی صفت ہے جو اس نے مہربانی کر کے زمین والوں پر نازل کی ہے۔ جن اقوام۔ معاشروں، خاندانوں اور افراد نے اس صفت کی اہمیت کو جانا وہ دوسروں سے ممتاز ہوتے گئے۔ جو نہ پہچان پائے ان کو اس صفت سے مزید دور رکھنے کے لیے علم سے دوری کے ڈول ڈالے گئے۔ تو جانور نما معاشرے وجود میں آئے۔ جانوروں کے معاشرے میں سارے ہی جانور ہوتے ہیں۔ کوئی طاقت ور جانور ہوتا ہے تو کوئی کمزور جانور۔ کوئی بڑا جانور ہوتا ہے تو کوئی چھوٹا جانور۔ اسی معاشرے سے یہ آواز اٹھی ہے کہ (نیوٹرل) تو جانور ہوتا ہے ۔حقیقت مگر یہ ہے نیوٹرل صرف تعلیم یافتہ ہوتا ہے باقی سارے جانور ہی ہوتے ہیں۔ 

 

جمعہ، 11 مارچ، 2022

دھرنے کی سیاست



فرض کریں عمران خان ایک نااہل، غیر ذمہ دار، متکبر، ضدی اور بد زبان وزیر اعظم ہے۔ یہ بھی مان لیتے ہیں عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں، وزیر اعظم کا دفتر اور درجنوں ترجمان چور اور ڈاکو کا راگ مسلسل دہرائے جا رہے ہیں۔ ان حالات میں سیاست سیاسی بیانیوں سے نکل کر لانگ مارچ کرتے ہوئے عدم اعتماد کی تحریک پر سانس لینے کو رکی ہی تھی کہ اسلام ٓباد میں پارلیمان کے احاطے میں موجود ممبران کے لاجز میں پولیس کا اپریشن ہو گیا۔ اپریشن کے فوری بعد وزیر داخلہ نے پریس کانفرنس کر کے اپوزیشن کو حکومتی طاقت سے دہمکایا۔ جمیعت العلماء اسلام کے سٹوڈنتس ونگ کے گرفتار شدہ افراد کو مگر سورج طلوع ہونے سے پہلے ہی رہا کر دیا گیا۔ اس دوران کراچی سے لے کر چترال تک والی کال کے باعث ملک کی کئی شاہرائیں بند ہو گئیں۔ اور یہ سب کچھ ساٹھ منٹوں میں ہو گیا۔اس واقعے سے ملک میں سیاسی درجہ حرارت کی بلندی کا احساس کیا جا سکتا ہے۔درجہ حرارت ایک دن یا ایک ہفتے میں نہیں بڑہا۔ اپوزیشن اور حکومت میں یہ خلیج پچھلی حکومت کے ابتدائی سالوں میں ہی شروع ہو گئی تھی۔ اس دوران البتہ حکومتی اور اپوزیشن میں موجود خلیج گہری ہی ہوئی ہے اور بات پارلیمان کے ممبران کو زخمی کرنے تک پہنچ چکی ہے۔ تحریک عدم اعتماد کو ملک کے لیے تحریک عدم استحکام بنا دیا گیا ہے۔

حامد میر، کہ ایک باخبر صحافی ہیں نے لکھا تھا  (عمران خان دھرنے سے اقتدار میں نہیں آئے نہ ہی دھرنے سے جائیں گے) اس جملے میں یہ حقیقت پوشیدہ ہے کہ حکومتوں کو تبدیل کرنے کے لیے جو ڈول جمہوریت کے کنویں میں ڈالا جاتا ہے اس ڈول کے پیندے میں قانونی  اور اخلاقی چھید ہیں۔

کچھ عرصہ قبل امریکہ میں شائع ہونے والی ایک کتاب میں مصنف نے دعوی کیا تھا کہ پاکستانیوں کے مفادات نہائت معمولی قسم کے ہوتے ہیں۔ ملک کے اندر مگر ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے حکمرانوں کے مفادات کس قدرنیچے آ چکے ہیں۔ اس کا اندازہ اس تگ و دود سے لگایا جا سکتا ہے۔ جو اہلیت کے ثابت کرنے میں لگایا جا رہا ہے۔ حکومتی اتحاد کے یو ٹرن اور حکومت  مخالف اتحاد کے بدلتے بیانئے نے اس  (انپڑھ اور جاہل) عوام کے سامنے سب ہی کو ننگا کر کے رکھ دیا ہے۔

ادارے کسی ملک کا فخر ہوتے ہیں مگر ان کو قیادت کرنے والے افراد کسی درانی کا کردار ادا کرتے ہیں تو جونیجو جیسا فخر سڑک پر بے توقیر ہو جاتا ہے۔ہم پولیس کو بے توقیر ہوتا دیکھ سکتے ہیں نہ کسی اور ادارے کو ۔۔۔  مہروں کو کب ادراک ہو گا کہ یہ  ( انپڑھ اور جاہل )  عوام گلوبل ویلیج کی باسی ہے۔ اور مزدور کے معاوضے کی طرح انٹر نیٹ کی رفتار میں فرق تو ہو سکتا ہے مگر وہ بے خبر نہیں ہے۔

 

جمعہ، 11 فروری، 2022

بھارت اسرائیل کے نقش قدم پر




روس کی ایک ڈیجیتل نیوز ایجنسی نے کشمیر پر ایک ویڈیو ڈاکومینٹری بنائی ہے جس میں بتایا گیاہے کہ    بھارتی کشمیر مقبوضہ فلسطین کی طرح مقبوضہ ریاست میں تبدیل ہو رہا ہے۔ 

اسرائیل نے فلسطین کے خلاف  جوطویل المدتی اور کثیر الجہتی اپریشن شروع کیا تھا اس کے نتیجے میں فلسطینی دنیا بھر میں تنہا ہو چکے ہیں۔ اس اپریشن کی ایک جہت تعلیمی طور پر فلسطینیوں کو پسماندہ کرنا تھا۔ ایک مشہور قول ہے کہ تم مجھے اچھی مائیں دو میں تمھیں اچھی قوم دوں گا۔ تعلیم کے بارے میں دنیا کے عقلمند ترین انسان کا قول ہے اگر تم نے ایک مرد کو تعلیم دی تو تم نے ایک فرد کو تعلیم دی اور اگر ایک عورت کو تعلیم دی تو گویا پورے خاندان کو تعلیم دی۔ فلسطین کی عورتوں پر جب تعلیم کے دروازے بند کیے گئے تو یاسر عرفات پیدا ہونے بند ہو گئے۔ جب یاسر ہی پیدا نہ ہو گا تو لیلا خالد کا پیدا ہونا محال ہو جاتا ہے۔ لیلہ خالد جیسے کردار ناپید ہو جائیں تو معاشرے بانجھ ہو جایا کرتے ہیں۔آج فلسطین  اکھڑی سانسوں کے ساتھ نشان عبرت بنا ہوا ہے تو دوسرے اسباب کے ساتھ ایک سبب فلسطینی خواتین کو تعلیم سے محروم کرنے کا اسرائیلی حربہ ہے۔

اگست 2019 کے بعد جب کشمیر میں تعلیمی ادارے بند ہونا شروع ہوئے تو کشمیروں خاص طور پر کشمیری طالبات نے بھارتی ریاست کرناٹک کے شہر بنگلور کے تعلیمی اداروں میں داخلہ لینا شروع کردیا۔ بھارت کی سیلیکون ویلی کہلاتا یہ شہر اردو میں تعلیم کی روایات کو زندہ رکھے ہوئے ہے تو کشمیر کے لوگوں کو اس شہر سے تاریخی اور جذباتی لگاو بھی ہے۔ مگر بھارت کی حکومت کشمیر ہی نہیں پورے ملک سے مسلمان خواتین پر تعلیم دروازے بند کرنے کے لیے فلسطین ماڈل پر عمل پیرا ہے۔

مسکان خان نامی لڑکی پہلی شکار نہیں ہے بلکہ جب سے بی جے پی کی حکومت آئی ہے۔ بھارت بھر میں مسلمان عورتوں پر تعلیم کے دروازے بند کرنے کی سازش نما  کوششیں جاری ہیں۔ بھارتی اپوزیش لیڈر نے  مسکان خان والے واقعہ پر حجاب کو بہانہ بنا کر انڈیا کی بیٹیوں کے مستقبل پر ڈاکہ قرار دیا ہے۔مولانا آزاد یونیورسٹی کے صدر نے یہ کہہ کر بلی والے تھیلے کا منہ کھول دیا ہے کہ حجاب کے مسئلے کو طول دینا دراصل ایک خاص طبقے کو نشانہ بنانا ہے۔ اور وہ خاص طبقہ ہے مسلم خواتین۔ 

ہندوستان میں عورتوں کے شارٹس اور ٹائٹس پہننے کو شخصی آزادی کہا جاتا ہے۔ مگر طالبات جب اپنی لباس کی پسند پرحجاب لیتی  ہے تو تعلیمی اداروں میں داخلہ بند کر دیا جاتا ہے۔ افغانستان میں جب طالبان  12 سال سے زائد عمر کی لڑکیوں کے سکول جانے پر پابندی لگاتے ہیں تو تعلیم دوست لوگ چلا اٹھتے ہیں کہ یہ ظلم ہے۔ مگر بھارت میں پری یونیورسٹی کالجوں سے ہر سال مسلمان طالبات کو حجاب کے نام پر تعلیمی اداروں سے نکال کر دراصل بھارت وہی کچھ کر رہا ہے جو اسرائیل نے فلسطین میں کیا تھا۔ بھارت دراصل ان ساڑہے سات فیصد طالبات پر تعلیم کے دروازے بند کر رہا ہے جو مسلمان کہلاتی ہیں۔ آل انڈیا لائرز فورم نے سرکار کے اس رجحان پر کہا ہے کہ طالبات کے خلاف انتطامیہ کا عمل بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔اسرائیل نے فلسطین میں سیاست کی بنیاد سیاسی مفاد کی بجائے عربوں سے نفرت اور انتقام پر رکھی تھی۔ بھارت میں بھی مسلمانوں سے رویہ نفرت اور انتقام پر مبنی ہے۔یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ بھارت اسرائیل کے نقش قدم پر چل پڑا ہے اور منزل بھارت میں مسلمان ظالبات پر تعلیم کے دروازے بند کر دینا ہے۔

بھارت کے ایک کالج میں جہاں مسلمان طالبات کی تعداد 75 تھی۔ ان میں سے صرف8 طالبات حجاب لیتی تھیں انتظامیہ نے انھیں کئی ہفتوں تک کلاس میں نہیں جانے دیا بالاخر انھیں تعلیم سے ہاتھ دہونا پڑے۔ آل انڈیا لائرز ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ طالبات کے خلاف انتظامیہ کا عمل بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ 

انسان پہلے انسان ہوتا ہے اس کے بعد اس کے اعتقادات ہوتے ہیں۔ کہا جاتا ہے اعتقادات نجی معاملہ ہوتا ہے۔ ہندو عورت کے گھونگھٹ لینے کو نجی معاملہ بتایا جاتا ہے۔ جسم ڈہانپنے کے لیے ساڑہی لینے کو تو ستائش کی نظر سے دیکھا جاتا ہے جو عورت کا سارا وجود ڈہانپ لیتی ہے مگر مسلمان عورت جب عبایا سے اپنا جسم ڈہانپتی ہے تو ان پر اوباش نوجوان چھوڑ کر توئین  کی جاتی ہے۔ مسکان خان  کا حجاب بھی چہرے کا اتنا ہی حصہ چھپاتا ہے جتنا بسنتی کا ماسک۔ مسئلہ مگر ماسک یا حجاب نہیں ہے مسئلہ عورت کی تعلیم ہے جو خود کو سیکولر کہلواتا بھارت عملی طور پر اسرائیل کے نقش قدم پر چل پڑا ہے۔

 

پیر، 17 جنوری، 2022

چھ سیکنڈ میں تینوں بے نقاب




میں صبح کام
 کے لیے نکلتا ہوں تو میرے راستے میں جو پہلا ٹریفک سگنل آتا ہے وہ راولپنڈی کی مال روڈ پر واقع پی سی ہوٹل کی بغل میں ہے ۔ یہ سگنل مال روڈ پر چلنے والی ٹریفک کے لیے   60سیکنڈ کے لیے جب کہ دوسری سڑک پر موجود ٹریفک کے لیے صرف 10 سیکنڈ کے لیے کھلتا ہے ۔ کام پر بر قت پہنچنے کی دوڑ میں شامل لوگوں کے کیے آدہا سیکنڈ کا وہ وقفہ بھی بہت لمبا محسوس ہوتا ہے جس میں سگنل کی بتی پیلی ہوتی ہے ۔ چند ہفتے قبل اسی سگنل پر میری آنکھوں کے سامنے اس آدہے سیکنڈ کی دوڑ جیتنے کے چکر میں 2 موٹر سائیکل سوارحادثے کا شکار ہوئے اور پنجاب حکومت کی مہیا کردہ 1122 ایمرجنسی سروس کی ایمبولینس میں لیٹ کر ہسپتال کو روانہ ہوئے ۔ 17 جنوری 2022 کی صبح پیش آنے والا واقعہ مگر بالکل ہی مختلف ہے ۔ میں اس سگنل سے 50 گز دور ہی تھا تو مجھے اندازہ ہو گیا کہ مجھے اس سگنل پر رکنا ہوگا ۔ میں ذہنی طور پر رکنے کے لیے تیار تھا اور سڑک پر لگی سفید لکیر پر پہنچا تو سگنل سرخ ہو چکا تھا ۔ میں رک گیا مگر میرے دائیں طرف ایک آلٹو گاڑی نے لائن کو عبور کیا ۔ اس کے ڈرائیور کا ارادہ ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ بتی کے سرخ ہونے کے باوجود دوسری طرف کے اشارے میں آدہے سیکنڈ کے وقفے سے فاہدہ اٹھانا چاہتا ہے ۔ مگر عملی طور پر ہوا یہ کہ میری بائیں جانب سے ایک تیز رفتا ر موٹر سائیکل جس پر 2 نوجوان سوار تھے نے آلٹو والے کی چوائس سے فائدہ اٹھانے کے لیے عجلت دکھائی ۔ مگر دیر ہو چکی تھی مال روڈ پر ٹریفک کے سیلاب نے موٹر سائیکل سوار کو ایمرجنسی میں بریک لگانے پر مجبور کر دیا ۔ موٹر سائیکل تو رک گیا مگر آلٹو والے کے فرنٹ بمپر نے موٹر سائیکل کے پچھلے مڈ گارڈ کو چھو لیا ۔ اس پرموٹر سائیکل سوار نے موٹر سائیکل کو سٹینڈ پر کھڑا کیا ۔ دونوں نیچے اترے اور آلٹو والے کو نظروں ہی نظروں میں للکارا ۔ آلٹو والا بھی اسی نلکے کا پانی پیا تھا ۔ اس نے دروازہ کھولا نیچے اترا ۔ اسی دوران میری بائیں جانب سے ایک موٹر سائیکل سوار نمودار ہوا جوپنڈی کی اس سردی کا ننگے سر بغیر دستانوں اور بغیر جرابوں کے کھلے چپل پہن کر مقابلہ کر رہا تھا مگر میں اس کی پھرتی اور قوت فیصلہ پر دل ہی دل میں داد دیے بغیر نہ رہ سکا ۔ اس نے فوری طور پر موبائل نکالا اور ویڈیو بنانا شروع کر دی۔ میں نے سوچا یہ واقعہ جو بھی رخ اختیار کرے گا اس کی مکمل عکاسی کی ویڈیو اس نوجوان کے پاس ہو گئی ۔ البتہ آلٹو والے کی جرات نے میری توجہ اپنی جانب مبذول کرا لی کیونکہ وہ کوئی فیصلہ کر کے دونوں موٹر سائیکل سواروں کی طرف بڑھ رہا تھا ۔ اس کا لباس دیکھ کر میرے ذہن میں اپنے خاندان کے وہ نوجوان آئے جو فیلڈ میں سیلز کا کام کرتے ہیں ۔ اور صبح جب تیار ہو کر نکلتے ہیں تو ایسا لباس زیب تن کیا ہوتا ہے کہ دیکھنے والا سمجھتا ہے کہ شائد کسی کمپنی کے چیف ایگزیکٹو نہیں تو ایم ڈی ضرور ہوں گے مگر تجربہ کار لوگ ان کی موٹر سائیکل  کی خستہ حالی سے اصلیت جان لیتے ہیں ۔ آلٹو اور اس کے ڈرائیور کو دیکھ کر میرے ذہن میں ایک تاثر ابھرا کہ سیلز مین نے اپنی دن رات کی محنت سے کمپنی کو مجبور کر دیا ہے کہ اسے فیلڈ مینیجر کی پوسٹ پر ترقی دے ۔ اور ترقی پانے کے بعد سیلز مین نے پہلا کام یہ کیا ہے کہ اپنا موٹر سائیکل بیچ کر اوراپنی   ساری جمع پونجی لگا کر یہ گاڑی خریدی ہے تاکہ خود کو یقین دلا سکے کہ وہ اب مینیجر ہے ۔ یہ صرف میرے ذہن میں چلنے والے قیاس تھے ۔ مگر اس کے گاڑی سے اتر نے کے بعد جو پہلی چیز میں نے نوٹ کی وہ اس کے چہرے پر فیصلہ بھری مسکراہٹ تھی ۔ کسی عمل کے وقوع پذیر ہونے سے پہلے جو مسکراہٹ ہوتی ہے وہ کسی بڑی فتح کا پیش خیمہ ہوتی ہے ۔ ایک طرف دو کڑیل نوجواں دوسری طرف فیصلہ کن مسکراہٹ ۔ ۔ ۔ مگر پھر میری آنکھوں نے وہ منظر دیکھا کہ میں مجبور ہو کر اسے لکھ رہا ہوں ۔ 6 سیکنڈ میں ایسا منظر پیش ہوا جس میں معاشرے کے تین کردار سامنے آئے ۔ پہلا  اخلاق کی ظاقت دوسرا پہلو غیر متوقع رد عمل پر ششدر رہ جانا اور تیسرا معاشرے کی تماش بین خصلت ۔

ہوا یہ  کہ آلٹو سے اترنے والے نوجوان نے مسکراتے چہرے کے ساتھ عمل پر آمادہ شخص کو گلے لگایا ۔ اور اپنے اس عمل کو تین بار دہرایا اور ساتھ اس کی زبان پر ورد جاری تھا "آ پ ناراض نہ ہوہیے گا" ، "آپ ناراض نہ ہوہیے گا" ۔ ۔ عمل کو غیر متوقع رد عمل نے ششدر کر کے پسپائی اختیار کرنے پر مجبور کر دیا ۔ آلٹو سوار نے "غلطی کس کی" کو موضوع ہی نہیں بنایا تھا ۔ اتنی دیر میں ہماری طرف کی بتی سبز ہو چکی تھی اور ٹریفک چل پڑی ۔ میں نے نکلتے ہوئے آلٹو والے کو انگوٹھا کھڑا کے شاباس دی ۔ اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی ۔ فتح مند مسکراہٹ ۔ اسی دوراں بائیں جانب سے آوازآئی ۔ شٹ ۔ میرے ذہن نے معاشرے کے سوشل میڈیا کے رسیا تماش بین طبقے کی نماہندہ ۔ ۔ ۔ مگر میں نے اپنی اس سوچ کو خود ہی بے دردی سے کچل دیا اور گھڑی پر نظر دوڑائی تو چھ سیکنڈ مین 3 کردار بے نقاب ہو چکے تھے ۔