پیر، 17 جنوری، 2022

چھ سیکنڈ میں تینوں بے نقاب




میں صبح کام
 کے لیے نکلتا ہوں تو میرے راستے میں جو پہلا ٹریفک سگنل آتا ہے وہ راولپنڈی کی مال روڈ پر واقع پی سی ہوٹل کی بغل میں ہے ۔ یہ سگنل مال روڈ پر چلنے والی ٹریفک کے لیے   60سیکنڈ کے لیے جب کہ دوسری سڑک پر موجود ٹریفک کے لیے صرف 10 سیکنڈ کے لیے کھلتا ہے ۔ کام پر بر قت پہنچنے کی دوڑ میں شامل لوگوں کے کیے آدہا سیکنڈ کا وہ وقفہ بھی بہت لمبا محسوس ہوتا ہے جس میں سگنل کی بتی پیلی ہوتی ہے ۔ چند ہفتے قبل اسی سگنل پر میری آنکھوں کے سامنے اس آدہے سیکنڈ کی دوڑ جیتنے کے چکر میں 2 موٹر سائیکل سوارحادثے کا شکار ہوئے اور پنجاب حکومت کی مہیا کردہ 1122 ایمرجنسی سروس کی ایمبولینس میں لیٹ کر ہسپتال کو روانہ ہوئے ۔ 17 جنوری 2022 کی صبح پیش آنے والا واقعہ مگر بالکل ہی مختلف ہے ۔ میں اس سگنل سے 50 گز دور ہی تھا تو مجھے اندازہ ہو گیا کہ مجھے اس سگنل پر رکنا ہوگا ۔ میں ذہنی طور پر رکنے کے لیے تیار تھا اور سڑک پر لگی سفید لکیر پر پہنچا تو سگنل سرخ ہو چکا تھا ۔ میں رک گیا مگر میرے دائیں طرف ایک آلٹو گاڑی نے لائن کو عبور کیا ۔ اس کے ڈرائیور کا ارادہ ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ بتی کے سرخ ہونے کے باوجود دوسری طرف کے اشارے میں آدہے سیکنڈ کے وقفے سے فاہدہ اٹھانا چاہتا ہے ۔ مگر عملی طور پر ہوا یہ کہ میری بائیں جانب سے ایک تیز رفتا ر موٹر سائیکل جس پر 2 نوجوان سوار تھے نے آلٹو والے کی چوائس سے فائدہ اٹھانے کے لیے عجلت دکھائی ۔ مگر دیر ہو چکی تھی مال روڈ پر ٹریفک کے سیلاب نے موٹر سائیکل سوار کو ایمرجنسی میں بریک لگانے پر مجبور کر دیا ۔ موٹر سائیکل تو رک گیا مگر آلٹو والے کے فرنٹ بمپر نے موٹر سائیکل کے پچھلے مڈ گارڈ کو چھو لیا ۔ اس پرموٹر سائیکل سوار نے موٹر سائیکل کو سٹینڈ پر کھڑا کیا ۔ دونوں نیچے اترے اور آلٹو والے کو نظروں ہی نظروں میں للکارا ۔ آلٹو والا بھی اسی نلکے کا پانی پیا تھا ۔ اس نے دروازہ کھولا نیچے اترا ۔ اسی دوران میری بائیں جانب سے ایک موٹر سائیکل سوار نمودار ہوا جوپنڈی کی اس سردی کا ننگے سر بغیر دستانوں اور بغیر جرابوں کے کھلے چپل پہن کر مقابلہ کر رہا تھا مگر میں اس کی پھرتی اور قوت فیصلہ پر دل ہی دل میں داد دیے بغیر نہ رہ سکا ۔ اس نے فوری طور پر موبائل نکالا اور ویڈیو بنانا شروع کر دی۔ میں نے سوچا یہ واقعہ جو بھی رخ اختیار کرے گا اس کی مکمل عکاسی کی ویڈیو اس نوجوان کے پاس ہو گئی ۔ البتہ آلٹو والے کی جرات نے میری توجہ اپنی جانب مبذول کرا لی کیونکہ وہ کوئی فیصلہ کر کے دونوں موٹر سائیکل سواروں کی طرف بڑھ رہا تھا ۔ اس کا لباس دیکھ کر میرے ذہن میں اپنے خاندان کے وہ نوجوان آئے جو فیلڈ میں سیلز کا کام کرتے ہیں ۔ اور صبح جب تیار ہو کر نکلتے ہیں تو ایسا لباس زیب تن کیا ہوتا ہے کہ دیکھنے والا سمجھتا ہے کہ شائد کسی کمپنی کے چیف ایگزیکٹو نہیں تو ایم ڈی ضرور ہوں گے مگر تجربہ کار لوگ ان کی موٹر سائیکل  کی خستہ حالی سے اصلیت جان لیتے ہیں ۔ آلٹو اور اس کے ڈرائیور کو دیکھ کر میرے ذہن میں ایک تاثر ابھرا کہ سیلز مین نے اپنی دن رات کی محنت سے کمپنی کو مجبور کر دیا ہے کہ اسے فیلڈ مینیجر کی پوسٹ پر ترقی دے ۔ اور ترقی پانے کے بعد سیلز مین نے پہلا کام یہ کیا ہے کہ اپنا موٹر سائیکل بیچ کر اوراپنی   ساری جمع پونجی لگا کر یہ گاڑی خریدی ہے تاکہ خود کو یقین دلا سکے کہ وہ اب مینیجر ہے ۔ یہ صرف میرے ذہن میں چلنے والے قیاس تھے ۔ مگر اس کے گاڑی سے اتر نے کے بعد جو پہلی چیز میں نے نوٹ کی وہ اس کے چہرے پر فیصلہ بھری مسکراہٹ تھی ۔ کسی عمل کے وقوع پذیر ہونے سے پہلے جو مسکراہٹ ہوتی ہے وہ کسی بڑی فتح کا پیش خیمہ ہوتی ہے ۔ ایک طرف دو کڑیل نوجواں دوسری طرف فیصلہ کن مسکراہٹ ۔ ۔ ۔ مگر پھر میری آنکھوں نے وہ منظر دیکھا کہ میں مجبور ہو کر اسے لکھ رہا ہوں ۔ 6 سیکنڈ میں ایسا منظر پیش ہوا جس میں معاشرے کے تین کردار سامنے آئے ۔ پہلا  اخلاق کی ظاقت دوسرا پہلو غیر متوقع رد عمل پر ششدر رہ جانا اور تیسرا معاشرے کی تماش بین خصلت ۔

ہوا یہ  کہ آلٹو سے اترنے والے نوجوان نے مسکراتے چہرے کے ساتھ عمل پر آمادہ شخص کو گلے لگایا ۔ اور اپنے اس عمل کو تین بار دہرایا اور ساتھ اس کی زبان پر ورد جاری تھا "آ پ ناراض نہ ہوہیے گا" ، "آپ ناراض نہ ہوہیے گا" ۔ ۔ عمل کو غیر متوقع رد عمل نے ششدر کر کے پسپائی اختیار کرنے پر مجبور کر دیا ۔ آلٹو سوار نے "غلطی کس کی" کو موضوع ہی نہیں بنایا تھا ۔ اتنی دیر میں ہماری طرف کی بتی سبز ہو چکی تھی اور ٹریفک چل پڑی ۔ میں نے نکلتے ہوئے آلٹو والے کو انگوٹھا کھڑا کے شاباس دی ۔ اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی ۔ فتح مند مسکراہٹ ۔ اسی دوراں بائیں جانب سے آوازآئی ۔ شٹ ۔ میرے ذہن نے معاشرے کے سوشل میڈیا کے رسیا تماش بین طبقے کی نماہندہ ۔ ۔ ۔ مگر میں نے اپنی اس سوچ کو خود ہی بے دردی سے کچل دیا اور گھڑی پر نظر دوڑائی تو چھ سیکنڈ مین 3 کردار بے نقاب ہو چکے تھے ۔ 


جمعہ، 7 جنوری، 2022

دادے کا پوتا



ذوالفقار کا گھر اپنے باپ کے گھر، باری صاحب کے گھر سے سو گز کے فاصلے پر ہے۔ سات سالہ عمار نے اپنے دادا باری صاحب کو بتایا کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ نہیں بلکہ اپنے دادا کے گھر میں رہنا چاہتا ہے۔ عملی طور پر اس  نے کتابوں کا اور کپڑوں کا بیگ بھی تیار کر لیا تھا۔

باری صاحب کے بیٹے ذولفقار کا نکاح میں نے ہی پڑہایا تھا۔اس وقت سات سالہ عمار بہت ہی کیوٹ سا  بچہ ہے۔ مودب اور ذہین، اور کیوں نہ ہو باپ بھی تعلیم یافتہ ہے اور ماں بھی ٹیچر ہے۔ 

ٓآج سے بیس تیس پہلے گھر سے بھاگنے والے بچوں کہ عمر سولہ سال سے زیادہ ہوا کرتی تھیں۔ انٹرنیٹ نے آ کر وقت کر تیز تر کر دیاہے۔ جو کام سولہ سال کی عمر کا بچہ کرتا تھا۔اب وہ سات سال کا بچہ کررہا ہے۔ 

ذوالفقار کے گھر کا ماحول ایسا ہی ہے جیسا متوسط طبقے کے خاندانی لوگوں کا ماحول ہوتا ہے۔ مودب  رکھ  رکھاو سے لیس میاں بیوی نے اپنے بچے کی ضروریات کا کافی خیال رکھا ہوا ہے۔ بچے کو گھر کا کمپیوٹر استعمال کرنے کی اجازت کے علاوہ  اس کو ٹیب بھی ملا ہوا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ انھوں نے بچے کو لاڈلا رکھا ہوا ہے تو غلط نہ ہو۔

باری صاحب کا پوتا ہی نہیں بلکہ کئی گھرانوں کے بچے اپنے والدین سے شاکی ہیں۔ باری صاحب جب بھی اپنے بیٹے کے گھر جاتے ہیں  تو انکی توجہ کا مرکز ان کا پوتا ہی ہوتا ہے۔ اور پوتا بھی جب اپنے دادا، دادی کے گھر آتا ہے تو بھی اسے خوب توجہ ملتی ہے۔  بچے کے والد رات کو دیر سے گھر آتے ہیں۔ کھانا کھا کر وہ کمپیوٹر کے سامنے کمپنی کے کھاتے لے کر بیٹھ جاتے ہیں۔ تو والدہ سکول سے واپسی کے بعد گھر کے کام کاج میں مشغول ہو جاتی ہے۔ مہمانوں کا آنا جاتا بھی رہتا ہے۔ ان حالات میں بچہ محسوس کرتا ہے کہ اس سے جو محبت  اسکے دادا اور دادی کرتے ہیں ویسی محبت اسکے والدین اس سے نہیں کرتے۔ 

آج کے دور کا بچہ، جوان اور بوڑہا  ہر شخص دوسرے کی توجہ اور وقت کا طلب گار ہے۔ معاملہ یہاں تک پہنچ گیاہے کہ بیوی اور خاوند، بہن اور بھائی اور والدین سوشل میڈیا پر اپنی اپنی دنیا میں مگن ہیں۔ ان حالات میں سات سالہ بچہ اس داد ہی کے گھر جائے گا نا جو اسکو وقت دیتے ہیں۔

 

جمعہ، 24 دسمبر، 2021

تقدیس کی قظار

تقدیس کی قطار
(محمد بن عبداللہ القحطانی (1935 - 1982 نے امام مہدی ہونے کا دعویٰ کیا ۔ اپنے پروکاروں میں ایسی دینی حرارت پیدا کی کہ
1979 ان کے ایک کزن جن کا نام جیمان العتیبی تھا ۔ انھوں نے مبینہ مہدی کے لقتدار کی راہ ہموار کرنے کے لیے سعودی عرب کی حکومت پر قبضہ کرنے کی نیت سے مکہ میں مقدس مسدجد الحرام پر اپنے 200 سے زہادہ مسلح جنگجو ساتھیوں کے ساتھ مل کر قبضہ کر لیا ۔ ایسا بحران پیدا ہوا جو حل ہوتے ہوتے 15 دن تک پھیل گیا اور کم از کم 300 لوگ اپنی جان سے گئے۔
ابن خلدون نے لکھا ہے کہ اموی خلیفہ حشام بن عبد المالک کے دور میں بھی بھی ایک مہدی کا دعویدار پیدا ہوا تھا ۔ اس کا نام صالح بن تعارف تھا اور اس نے مہدی ہی نہیں بلکہ خود کو مہدی آخرالزمان بتایا ۔
اموی خلیفہ یزید الثالث کے دور میں 744 ء میں عبداللہ بن معاویہ نامی ایک مہدیت کا دعویدار اٹھا ۔ اپنے پیرو کاروں کی مدد سے کچھ علاقے پر قبضہ بھی کیا مگر خلیفہ کی فوج مقابل ائی تو بھاگ کر ہرات (خراسان) کی طرف بھاگ گیا۔ اس کے پیروکاروں کا خیال ہے کہ وہ زندہ ہے اور روپوش ہے ۔ ان کا عقیدہ ہے کہ وہ ایک دن واپس آئے گا اور جب بھی میدی آئین گے در اصل وہ وہی ہون گے یعنی عبد اللہ بن معاویہ ۔
مہدی ہونے کے دعویدار بر صغیر میں بھی پیدا ہوے ۔ سید محمد جوناپوری (1443-1505) ۔ نے بیت اللہ کے احاطے میں اپنی مہدیت کا اعلان کیا تھا۔ کمیونیکیشن بہت ہی سست تھی ۔اس لیے اندیا واپس آ کر انھوں نے احمد آباد کی مشہور مسجد تاج خان سالار میں اپنے دعوے کو دہرایا ۔ البتہ جب گجرات ( اندیا) میں انھوں نے اپنا دعوی دہرایا تو علماء ان کے خلاف اٹھ کحرے ہوئے۔ مگر ان کے پیروکار پیدا ہو چکے تھے ۔ بلکہ ان کی وفات کے بعد بندگی میاں نے ان کے مشن کو جاری رکھا۔ اب بھی پاکستان سمیٹ کافی ممالک میں ان کے پیروکار موجد ہیں۔
اہندوستان میں ہی مرزا غلام احمد (1835-1934) نے برظانوی راج کے دوران 1880 میں ایک کتاب لکھی جس کا نام برہان الاحمدیہ تھا ۔ اس کتاب میں خود کو مہدی ہونا بتایا۔ 1974 میں پاکستان کی پرلیمان نے مگراسے کافر قرار دیا۔
پاکستان میں ریاض احمد گوہر شاہی (1941-2003) نے دو تنظیمیں بنائیں پاکستان میں انجمن سرفوشان اسلام اور برظانیہ میں
Masiah foundation International
ان کا دعوی تھا کہ وہ مہدی، اور کالکی اوتار ہیں ۔ ان کے پیروکاروں کے مطابق ان کا چہرہ چاند، سورج نیبولا ستارے کے علاوہ مکہ میں متبرک ہجر اسود میں ظاہر ہو گیا ہے ۔ 1985 میں گوہر شاہی نے ان دعووں کی تصدیق کی ان کا کہنا تھا اس امر کے زمہ دار وہ نہیں بلکہ خدا ہے لہذاا یہ سوال بھی خدا سے ہونا چاہیے نہ کہ ان سے کہ ان کا چہرہ مختلف جگہوں پر کیوں ظاہر ہوا ہے
پاکستان میں اور بھی مہدیت کے دعوے دار ہیں جو یا تو روپش ہیں یا جیل میں زندگی کے دن پورے کرہے ہیں ۔ پاکستان کے ہمسائیہ ملک ایران میں 2012 میں کم از کم 3000 افراد ایسے تھے جنھوں نے مہدی ہونے کا دعویٰ کر رکھا تھا اور جیل میں زندگی گذار رہے تھے ۔
علی محمد شیرازی (1819-1850) نے 1844 میں مہدی ہوانے کا دعوی کیا ۔ ان کے پیروکاروں کو بہائی کہا جاتا ہے ۔ ان کو تبریز میں فائرنگ سکواڈ نے گولیاں مار کر ختم کر دیا تھا ۔ ان کے پیروکار ان کی باقیات کو لے کر فلسطیں کے شہر حیفہ پہنچے اور وہاں ان کا مقبرہ تعمیر کیا۔ ان کا شمار اب بھی بہائی مزہب کے برے پیشواووں میں ہوتا ہے
سال 2016 میں ایک مصری عالم کو شیخ میزو کے نام سے معروف تھ اور ان کا نام محمد عبداللہ النصر تھا نے اپنے فیس بک پیج پر اپنے مہدی ہونے کا دعوی کیا اور حکومت نے انھیں گرفتار کر لیا۔
بر صغیر اور عرب دنیا کے علاوہ ایشیاء کے کئی ممالک میں وقتا فوقتا مہدیت کے دعوے دار پیدا ہوتے رہے ہیں ۔ بلکہ یورپ اور امریکہ میں بھی اس دعوے کے علم بردار پیدا ہوتے رہے ہیں۔
اتقدیس کی قطار کے سلسلے کا پہلا مضمون از دلپذیر
مضمون نمبر 1
Like
Comment
Share

خوف



حضرت شاہ ولی اللہ نے لکھا ہے کہ  تمام انسانی جذبات میں سب سے بنیادی ، دوررس اور گہری اہمیت خوف کے جذبے کو حاصل ہے۔جناب رئیس
 امروہوی کے مطابق خوف ایک جذبہ ہے جو ذہن میں پیدا ہوتا ہے اور بہت سی سماجی اور جسمانی بیماریوں کامنبع ہے۔
خوف کا جذبہ انسانوں کے علاوہ حیوانات میں بھی پایا جاتا ہے۔اس کے رد عمل میں پیدا ہونیوال بنیادی ترین  عمل فرار کا ہے اور خود کو روپوش کر لینے کا عمل بھی فرار ہی کی قسم ہے۔انسانوں میں یہ جذبہ جو رد عمل پیدا کرتا ہے ان میں قلق 
Anxiety 
اور اکتساب 
Depression
 شامل ہے۔خوف کے جذبات برقرار رہیں تو انسان نفسیاتی امراض کا شکار ہوجاتا ہے۔
رئیس امروہی نے لکھا ہے کہ جرائم کا مبداء خوف ہے۔خوف کے باعث انسانی جسم میں کیمیائی اور غدودی تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں۔جگر خراب ہو جاتا ہے، معدہ ریڑھ کی ہڈی کے ساتھ جا لگتا ہے، دوران خون کی رفتار تیر ہو جاتی ہے، ہاتھ اور پاوءں کی طاقت سلب ہونے لگتی ہے اور انسان کے جنسی غدودکا عمل ناکارہ ہو جاتا ہے۔کسی صورتحال سے نمٹنے میں ناکامی کا احساس بھی خوف بن کر انسان پر مسلط ہوتا ہےخوف کی حالت میں ہم مدد کے اپنے سے طاقتور ہستی کی طرف مدد کے لیے دیکھتے ہیںیہ طاقتور ہستی یا تو ہم جیسا انسان ہو گا یا کوئی نادہدہ قوت ہو گی اگر ہم اپنے جیسے کسی انسان سے مدد کے طلب گار ہیں تو ہمیں ایک منٹ رک کر سوچنا چاہیے کہ وہ کیا محرکات ہیں کہ ایک شخص اس قابل ہو گیا ہے کہ اپنے جیسے دوسرے لوگوں کا مدد گار بن سکے یہ شخص جسمانی طور پر مضبوط اعضا کا مالک ہوگا، یا سماجی طور پر اس کا رتبہ ایسا ہو گا کہ وہ حالات پر اثر انداز ہو سکے یا پھر وہ روحانی طور پر مضبوط شخصیت کا مالک ہو گادوسروں کے مدد گار بننے والے تمام افراد مین ایک چیز مشترک ہوتی ہے جسے ان کی شخصیت کی مضبوطی کہا جا سکتا ہے۔ شخصیت کی مضبوطی کا تمام دارو مدار انسان کے خیالات سے ہوتا ہے۔ جو آدمی چھت پر کھڑا ہوا ہے۔ اس نے چھت پر پہنچنے کے لیے سیڑہیاں چڑہنے کا عمل کیا ہے ، مگر سیڑہیاں چڑہنے سے پہلے اس نے ایک ارادہ کیا ہے مگر ارادے سے پہلے خیال پیدا ہوا تھا۔ خیال ہی وہ بنیادہے ہر کسی نتیجے کی بنیاد بنتا ہے۔خوف کا تعلق بھی خیال سے جڑا ہو ہے۔ 
خوف کا عنصر کسی نہ کسی سطح پر ہر انسان مین پایا جاتا ہے ۔ سب سے بڑا خوف زندگی کے چلے جانے کا ہوتا ہے۔ارسطو نے کہا تھا ْ موت سب چیزوں سے زیادہ ہولناک ہے کہ اس کے بعد کچھ بھی نہیں رہتا ْ یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ فنا ہو جانا  بڑا خوف ہے۔
فنا ہو جانے کے  خوف سے مگر جو چیز نچات دیتی ہے وہ فنا نہ ہونے کا خیال ہے۔1949 میں جیمز کڈ نامی ایک امریکی کان کن ایروزونا کے علاقے میں لاپتہ ہوگیااس کی دستاویزات میں ایک وصیت شامل تھی کہ اس کے ورثے مین سے لاکھوں ڈالر کی رقم اس محقق کو دی جائے جو یہ ثابت کرے کہ انسان کے جسم میں ایک ایسی ان دیکھی شے بھی ہے جو کبھی فنا نہیں ہوتی۔اس رقم کو حاصل کرنے کے کئی دعوے دار سامنے آئے مگر عدالت نے یہ رقم دو ایسی تنظیموں کو دلوائی جو اس موضوع پر تحقیق کر رہی تھیں۔
فنا ہونا ایک ایسی حقیقت ہے جو ہر ہماری انکھوں کے سامنے ظہور پذیر ہوتی ہے ہم دیکھتے ہیں کہ ہر
 102
 سیکنڈ کے بعد انسان جنگ میں مارا جاتا ہے، ہر
61
 سیکنڈ کے بعد ایک انسان قتل ہو جاتا ہے،ہر
 39
 سیکنڈ کے بعد کسی کے خود کشی کر لینے کی خبر آتی ہے، ہر
 26
 سیکنڈ کے بعد سڑک پر حادثہ کسی کی جان لے لیتا ہے، ہر
 3
 سیکنڈ کے بعد بھوک کسی کو موت کی نیند سلا دیتی ہے حتیٰ کہ ہر تین سیکنڈ کے بعد نو مولود ہماری آنکھوں کے سامنے دم توڑ دیتا ہے۔ یہ ایسے مناظر ہیں جن سے ہم مانوس ہیں ، ہمیں اپنے بارے میں بھی یقین ہے کہ ہم نے مرنا ہے لہذا موت اتنا بڑا خوف نہیں ہے اصل تکلیف دہ خوف ْ چھن جانے کا ہےْ 
چھن جانے کے خوف کو دور کرنے کا شافی علاج موجود ہونے کا جو لوگ دعویٰ کرتے ہیں ان میں سے ایک طبقے کا مطالعہ بتاتا ہے کہ خوش رہا کرواور اپنے نطام ہاضمہ کو درست رکھو۔ کچھ نصیحت کرتے ہیں مصروف رہو ، ورزش میں دل لگاو۔کچھ کا خیال ہے کہ کھانے کے برتن ابلے پانی سے دہوو۔ ہاتھ باربار دہوتے رہو۔سبزیاں اور پھل دہو کر استعمال کرو۔بعض تو کہتے ہیں بلا ضرورت باہر ہی نہ نکلو۔البتہ ایک طبقہ ایسا ہے جوان سے بالکل منفرد بات کرتا ہے ان کا کہنا ہے کہ اپنی سوچ یعنی خیالات کو کنتڑول کر لو ہر قسم 
کے خوف سے آزاد ہو جاو گے اور اس کے لیے کارگر نسخہ قوت ارادی کو مضبوط کرنا ہے۔۔ 

ڈیل کارنیگی کے مطابق خیال ایک ایسے لوہے کی مانند ہے جس کے چاروں طرف چارون طرف خواہاشات کے مقناطیس رکھے ہوئے ہیں۔جس مقناطیس مین زیادہ طاقت ہو گی وہ اسے اپنی طرف کینھچ لے گا ۔ جن لوگوں کی قوت ارادی مضبوط ہوتی ہے انھیں اپنے خیالات پر قابو ہوتا ہے ایسے لوگوں کے خیالات ان کے ضبط میں ہوتے ہیں۔ایسے لوگوں کے خیال کا کا نام عزم ہوتا ہے۔مضبوط قوت یارادی کے لیے منظم خیالات اساس کی اہمیت رکھتے ہیں۔
ڈینیل گولمین لکھتا ہے کہ اگرآپ کے خیالات آپ کے قابو میں نہیں تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کتنے ذہین ہیں مگر آپ زیادہ دور تک نہیں چل سکیں گے۔
اپنے خیالات کو قابو میں رکھنا ایک رویہ ہے۔ اس کی صلاحیت ہر انسان میں ہوتی ہے البتہ اس کو پروان چڑہانا خود انسان کے بس میں ہے۔یہ رویہ ایسامعجزہ نما قوت ہے کی اس سے کام لے کر آپ زندگی میں 
معجزے برپا کر سکتے ہیں۔اانسان اگر چاہے تو دنیا کا ہر کام ممکن ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو یہ صلاحیت عطا کی ہے کہ وہ عقل اور محنت کے بل بوتے پر ہر ناممکن کو ممکن بناسکتا ہے لیکن اس کے لیے مضبوط قوت ارادی کا ہونا ضروری ہے۔ قوت ارادی ایسا جذبہ ہے جو انسان کو کوئی بھی کام کرنے اور اپنے مقصد کے حصول کے لیے کوشش کرنے پر اکساتا ہےجس طرح جسمانی ورزشوں کے ذریعے جسم کے پٹھوں کو مضبوط بنایا جاسکتا ہے بالکل اسی طرح قوت ارادی کو بھی مخصوص ذہنی مشقوں کی مدد سے مضبوط بنانا ممکن ہے  مضبوط قوت ارادی سے کسی بھی دشمن کو زیر کیا جاسکتا ہے۔ محمود غزنوی نے سومنات کے مندر پر سولہ حملے کیے، ہر مرتبہ ناکام رہا لیکن مایوس نہ ہوا اور آخر کار سترہویں حملے میں اس نے سومنات کا مندر فتح کرلیایہ جملہ اپ نے لازمی سنا ہو گا”خدا ان کی مدد کرتا ہے جو اپنی مدد آپ کرتے ہیں“ایک مفکر کا قول ہے ”جدوجہد کی انتہا ہی تقدیر ہے۔“ یعنی جہد مسلسل سے انسان اپنی تقدیر تک بدل سکتا ہے
 انسان کی زندگی میں خیالات کے ارتکاز اور قوت ارادی کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہےئے دماغ کی طاقت اور اہمیت کا ادراک کریںکہسائنس دان سٹیفن ہاکنگ  جو جسمانی طور پر معذور تھا مگر اس نے اپنے خیالات کی  صلاحیتوں سے کام لے کر اپنے شعبے میں نام پیدا کیا

، خوف کسی ممکنہ صورتحال کے خلاف ہمارے دماغ کا ردِعمل ہوتا ہے اور ان کا تعلق ہمارے دماغ کی کارکردگی سے ہے۔تو کیا ہماے اندر دماغ کی اس کارکردگی کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے کی صلاحیت موجود ہے؟اس کا جواب ہاں میں ہے ہم مختلف مشقوں سے اپنے زہن میں بہتے والے خیالوںجن کی آمد کی رفتار
600 
خیالات فی پانچ سیکنڈ ہےارتکاز خیالکی مشقوں سے ہم
 600
 کے انبار میں سے ایک خیال کو چن کر اپنی ساری توجہ اس وحید خیال پر مرتکز کرسکتے ہیں اور ذہن میں بہنے والے خیالات کے سیلاب کو کنٹرول کر سکتے ہیں ایک صبر آزما اور مسلسل محنت  مانگتا عمل ہے مگر اس کے نتائج انتہائی حوصلہ افزا اور حیران کن ہوتے ہیں 
 سرکاری سکولوں میں ایک منظر عام ہے کہ انگریزی سکھانے کی جماعت میں تین طالب علم جماعت کے سامنے کھڑے ہو کر ایک طالب علم انگریزی کا ایک لفظ اونچی آواز   سے پکارتا ہے دوسرا اونچی آواز سے اس کا  اردو مترادف بتاتا ہ اور تیسرا بچوں کی مادری زبان میں وہی کلنہ دہراتا ہے۔ اور یہ   کام باری باری سارے طالب علم کرتے ہیں۔ انسان جو کلام زبان سے نکالتا ہے سب سے پہلے اس کے کان اس کو سنتے ہیں۔ خیالات کی  تقویت کے لئے اپنے آپ کو تلقین کر نا خا صا مؤ ثر ہے، لہذا خود تلقینی کا عمل بڑا اسان اور موثر ہے۔ 
 خود اعتمادی ایک انسان کا اپنی ذات سے وہ رابطہ ہے جو اسے کسی مخصوص صورتحال میں خود کو پرکھنا،صورتحال کا مقابلہ کرنا اور صورتحال کے مطابق ڈھلنا سکھاتا ہے۔کسی غیرمتوقع یا ناخوشگوار صورت میں آپ کا سب سے پہلا رابطہ خود اپنی ذات سے ہونا چاہیے۔یہ خود اعتمادی اپنی صلاحیتوں اور خوبیوں کے ادراک اور ان کے اعتراف سے پیدا ہوتی ہے۔ اپنے آپ کو ،اپنی صلاحیتوں کو سمجھنے کی کوشش کریں تو آپ حالات کو بھی بہتر طور پر سمجھ سکیں گے۔ٖقدرت کا اصول ہے کہ ہمیں اکثر اوقات جن مسائل سے واسطہ پڑتا ہے ان کا حل بھی ہمارے پاس ہی کہیں موجود ہوتا ہے۔نہ صرف یہ بلکہ انسان کے اندر اللہ تعالی کا قانون ہے کہ وہ کسی پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتاالبتہ یہ انسان کی ذمہ داری ہے کہ وہ خوف کی صورت میں آ پڑنے والے بوجھ کے مداوا کے لیے اپنے ارد گرد وسائل کا سراغ لگائے۔اس سے بھی پہلے اسے اپنی ذات کے اندر اس حوصلے کو دریافت کرنے کی ضرورت ہوتی ہے جو اس کی ذات کے اندر موجود ہوتا ہے مگر اسے دریافت کرنے کی ضرورت ہوتی ہے 
اللہ تعالی کی کتاب کا مطالعہ ہمیں تلقین کرتا ہے کہ ناامید نہ ہو۔ 
کے پسندیدہ اورخود کو اچھا ثابت کرنے کے لیے معاملات میں ایثار کرنا ایسے اعمال ہیں جن خیالات کی پختگی میں مثبت کردار ادا کرتے ہیں۔
ہندوستان کے ایک متقی شخص کا واقعہ ہے کہ ان کی نطریں ایک نازنین سے دوچار ہو گئیں  وہ ایک حجرے میں آٹھ دن تک اس کا تصورکیے بیٹھے رہے۔ آٹھویں دن وہ نوجوان لڑکی اپنے شوہر کے ساتھ حضرت  کے سامنے حاضر ہوگئی، تب حضرت نے اپنے آپ سے کہا ’’اگر اس کو جوروبنانا چاہتے ہو تو دونوں میاں بیوی راضی ہیں اور اگر اس کو بہن بنانا چاہتے ہو تو اپنی ماں اور بہن کو کیوں چھوڑا، ’’اس واقعے میں دو حقیقتیں پوشیدہ ہیں ایک یہ کہ انسانی ذہن جب کسی ایک چیز یا واقعہ پرپوری طاقت کے ساتھ مرتکز ہوجائے تو یہ خیال مظہر بن کر سامنے آجاتا ہے۔دوسری یہ کہ انسان کے خیالات اس قدر پختہ ہونے چاہیے کہ وہ غلط اور صیح میں تمیز کر سکے۔ نا پختہ ذہن یا کمزور قوت ارادی کا مالک ریا کار  بھی ہو تو امید ہے وہ بار بار کی ریاکاری کے بعد ایک وقت اخلاص کی  حقیقت کو بھی پا لے گاکاموں میں ابتری معاملات مین بد نظمی انسانی خیالات کی پختگی میں رکاوٹ بنتے ہیں جب انسان نے سوچ سمجھ کر اپنے خیالات کی پختگی کا ارادہ کر لیا ہے تو لازم ہے کہ وہ دکھاوے ہی کے لیے سہی اپنےاقوال و اعمال و معاملات  کو بہتر کرے یہ ماہرین کا آزمودہ نسخہ ہے اور معاشرے میں بھی مذموم نہیں ہے خیالات کی پختگی ، ارادوں کی مضبوطی اور خود اعتمادی کے لیے انسان کی شخصیت کا سادہ ہونا لامی ہے اور دنیاکی سب سے سادہ چیز کا نام سچ 

جمعرات، 30 ستمبر، 2021

اناج کے پڑولے سے شلوار تک


 


دنیا میں کمیونزم ناکام ہوئی تو روس کے پندرہ ٹکڑے ہو گئے۔ یوگوسلاویہ بھی ٹوٹا اور اس کے آٹھ حصے ہوئے۔ چیکو سلواکیہ چار ٹکڑوں میں بٹ گیا۔ بوسنیا ہرزگوینیا دو حصوں میں بٹا۔ ان ممالک کے پاس عسکری طاقت موجود اور اسلحہ کے انبارتھے۔ لش پش وردیوں میں ملبوس فوجی اور خود کو ناقابل شکست تصور کرتے جرنیلوں کو مگر جوہر دکھانے کا موقع ہی نہ ملا۔جب پاکستان دو لخت ہوا تو سبب فوج کی قلت یا اسلحہ کی نایابی نہ تھی بلکہ معاشی محرومی نے اپنا کام دکھایا تھا۔

لوگوں کو خواب دکھایا جاتا ہے۔ رہنماراہ متعین کرتے ہیں اور عوام تعبیر پانے کے لیے معجزے برپا کرتی ہے۔ چین نے اوپن ڈور پالیسی برپا کی تو ان کے رہنماء نے عوام کو ایک خواب دیکھایا، عوام کے لیے محنت کا میدان ہموار کیا اور مختصر عرصے میں مثالی معاشی کامیابی حاصل کر لی۔

پاکستانی عوام میں سے جن لوگوں کو آزاد معاشروں مین محنت کرنے کے لیے میدان میسر آتا ہے۔ وہ چند سالوں میں اپنی اہلیت کا لوہا منوا لیتے ہیں۔ ملک کے اندر ایسا نہیں ہے کہ محنت نہیں کی جاتی بلکہ حقائق یہ ہیں کہ محنت کش موجود ہیں مگر ہمارے رہنماء بے راہ ہو چکے ہیں۔

موجودہ حکومت ہی کو دیکھ لیں دو سالوں کی پرامید محنت نے اقتدار تو دلوا دیا مگر تین سالوں کی کارکردگی نے عوام کو مایوسی کے گڑہے میں دھکیل دیا ہے۔ ہمارے رہنماوں کی ساری صلاحتیں اس پر ضائع ہو رہی ہیں کہ ان کی کارکردگی پر جو دو حرف لکھے اس پر چار حرف بھیجے جائیں۔ کارکردگی یا سمت کی درستگی پر تبصرہ ذات پر حملہ تصور کیا جاتا ہے اور سیاسی مجاہدین کو ان پر چڑھ دوڑنے کا اشارہ کیا جاتا ہے۔

بدیسی آقاوں نے ہمیں مذہبی طور پر تقسیم کر رکھا تھاتو دیسی آقاوں نے مذہبی ہی نہیں لسانی، علاقائی، نسلی اور طرح طرح کی معاشرتی تقسیم میں الجھا رکھا ہے۔ گذشتہ پانچ سالوں میں تقسیم اس قدر گہری ہو چکی ہے کہ اختلافات سے خیر برآمد کرنا ممکن ہی نہیں رہا۔ کسی کا بیانیہ مقدس ہے تو کسی کی شخصیت۔ ڈہول قابلیت اور انصاف کا پیٹا جا رہا ہے۔ حالانکہ عدالت اعتراف کر چکی ہے کہ انصاف دینے میں ناکام ہے۔بیانوں اور تقریروں کا مقابلہ جاری ہے۔ یہ فقرہ کہ ( امیر کے لیے ڈالر مہنگا اور غریب کے لیے روپیہ سستا کر دیا گیا ہے) کسی دوسرے سیارے سے درآمد نہیں ہوا بلکہ یہ چرب زبانی کا اعجاز ہے۔صحت کے میدان میں رنگین کارڈ تقسیم کر کے اپنوں کا پیٹ بھر دیا گیا ہے مریض البتہ ہسپتالوں کے دروازوں کے باہر سسک رہے ہیں۔ امن و امان کی اس سے بڑی ناکامی کیا ہو گی کہ تحفظ فراہم کرنے والے ادارے خود نجی سیکیورٹی کمپنیوں کی چھتری تانے ہوئے ہیں۔

پاکستانی سخت جان لوگ ہیں عشروں سے برے حالات کا پہلوان بن کر مقابلہ کر رہے ہیں۔خوراک مگر پہلوان کو بھی درکار ہوتی ہے۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ مرد سارا دن مشقت کرتا اور عورت سستی خوراک کے حصول کے لیے قطاروں میں دن گذارتی ہے۔زرعی ملک کا المیہ یہ ہے کہ گندم اور چینی درآمد کی جاتی ہے۔ حکومتی وزراء میڈیا پر بیٹھ کر آٹے اور چینی کے جس نرخ کا اعلان کرتے ہیں۔ حکومت خود اپنے سٹورز پر اس نرخ پر سپلائی دینے میں ناکام ہے۔

غربت کی ندی کے ایک کنارے پر ووٹ کو عزت دو کا غلغلہ ہے دوسری جانب الیکٹرانک ووتنگ مشین زندگی اور موت کا مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ایک فریق حکمرانوں سے کرسی چھین لینا چاہتا ہے تو دوسرا مخالفین کو صفحہ ہستی ہی سے مٹا دینے کا متمنی ہے۔

جب چند ممالک ٹوٹ رہے تھے اسی دور میں ٹوٹا ہوا مشرقی اور مغربی جرمنی متحد ہو رہے تھے تو اس کے اسباب میں بڑا سبب مالی خوشحالی تھی۔عقل، ذہانت اور صلاحیت کے اظہار کے خالی پیٹ نہ ہونا شرظ ہے

(جنھاں دے پڑولے دانے انھاں دے کملے وی سیانے)

یہ معاشی مجبوری ہوتی ہے جو اخلاق اور منفی رویوں کر فروغ دیتی ہے اور اس فروغ میں روز بروز فروغ ہی ہو رہا ہے۔نااہلی کی انتہا یہ ہے کہ بے روزگاروں کو مصروف رکھنے کے لیے سوشل میڈیا پر جنسی ٹوٹے ریلیز کیے جاتے ہیں۔ نوجوان کبھی شلوار کے درشن کرتے ہیں اور کبھی اتری ہوئی پتلون سے آنکھوں کو ٹھنڈا کرتے ہیں۔ دراصل یہ ثبوت ہے اس مالی بدحالی کا جس نے قوم کے اخلاق کو پست کر دیا ہوا ہے۔