اتوار، 28 اپریل، 2019

کہانی بڑی پرانی


کہانی بڑی پرانی
کہانی ہے اور پرانی ہے مگر ہر دور میں ترمیم کر کے دہرائی جاتی رہی ہے۔جب شروع میں یہ کہانی لکھی گئی اس کا ہیرو،   یقین کی دولت سے مالا مال ایک غریب اور نیم خواندہ، نورحیات نام کاشخص تھا۔ اس نے ایک عالم دین کا وعظ سنا اور اپنی ساری جمع پونچی خرچ کر کے گاوں کے باہر اس رستے پر کنواں کھدوایاں جس رستے پر مسافروں کی آمدو رفت ہوا کرتی تھی۔ وہ صبح کی نماز پڑھ کر کنویں کی منڈہیر پر بیٹھ جاتا اور پیاسے مسافروں کو پانی پلاتا۔شیطان کو اس کا یہ عمل کھٹکتا تھا۔ اس نے نور حیات کے ساتھ دوستی لگائی اور انتظار کرنے لگا کہ موقع ملے تو اسے خدمت خلق سے باز رکھے۔ 
گرمیوں کی ایک دوپہر نور حیات نے ایک مسافر جو   راز دار لوح مقد ر تھا    کو پانی پلایا۔ مسافر کا کلیجہ تازہ پانی پی کرٹھنڈا ہوا تو اس نے نظر بھر کے نور حیات کو دیکھا اور بولا    اے نیک بخت مانگ کیا مانگتا ہے   ۔ نور حیات مانگنے کے سلیقے سے محروم تھا مگر اس نے اپنا داہنا ہاتھ پھیلا کر کہا   جو چاہیں عطا کر دیں   ۔ مسافرنے اس کے ہاتھ ہر اپنی انگلی سے ایک کا ہندسہ لکھا اور چل دیا۔ چند دنوں میں ہی نورحیات کو احساس ہو گیاکہ اس کی آمدن بڑھ کر ایک روپیہ روز ہو گئی ہے۔ وقت گزرتا رہا کہ ایک دن نور حیات کے ہاتھوں سے ایک اور    راز دار لوح مقدر    نے پانی پیا اور کہا    اے نیک بخت مانگ کیا مانگتا ہے   ۔ نور حیات مانگنے کے سلیقے سے محروم تھا مگر اس نے اپنا داہنا ہاتھ پھیلا کر کہا   جو چاہیں عطا کر دیں    مسافر نے اس کے ہاتھ پر ایک کا ہندسہ دیکھا تو اس کے دائیں طرف ایک صفر ڈال کر چل دیا۔ نور حیات کی روزانہ آمدن دس روپے ہوگئی۔ جس زمانے کی کہانی ہے دس روپے روازانہ بڑے بڑے رئیسوں کی آمدن بھی نہ تھی۔ طاق میں بیٹھے نور حیات کے دوست نے اسے یہ روپیہ کاروبار میں لگانے کا مشورہ دیا۔دونوں دوستوں نے مشورہ کیا اور اور اونے پونے داموں بنجر زمیں خرید کر اس پر اینٹیں بنانے کا بھٹہ لگا لیا۔ دس روپے روزانہ میں بھٹے کی کمائی بھی شامل ہو گئی۔ چند سالوں میں نور حیات نے علاقے میں اینٹوں کے بھٹوں کا جا ل پھیلا دیا۔ اس کا دوست اس کو مشورہ دیتا کہ وہ کنویں کی منڈہیر پر کسی ملازم کو بٹھائے اور خود اپنے کاروبار پر توجہ دے۔ مگر نورحیات کو کنویں پر لوگوں کو پانی پلا کر قلبی سکون ملتا تھا۔ ادھر اس کا دوست اس کو قائل کرنے کی کوشش کرتا۔ نور حیات فیصلہ نہ کر پاتا کہ وہ دل کی مانے یا دوست کی۔
کرنا خدا کا یہ ہوا کہ ایک دن گرمیوں کی تپتی دوپہر کو ایک گھڑ سوار کہ    راز دار لوح مقدر    تھا ،  پنے ساتھی سمیت کنویں پر اترا۔نور حیات نے اسے پانی کا پیالہ پیش کیا اس نے پیالہ پکڑانے والے ہاتھ پر لکھے دس کے ہندسے کو دیکھا پھر نور حیات کے ماتھے کو پڑہا اور بولا     اے نیک بخت مانگ کیا مانگتا ہے    نور حیات نے ہاتھ پھیلا دیا۔ مسافر نے پوچھا بولتے کیوں نہیں کیا مانگنے کا سلیقہ نہیں آتا ،  نور حیات نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ مسافر نے اپنے ساتھی سے کہا۔
مولوی، اس کے ہاتھ پر لکھے دس کے ہندسے کے دائیں طرف ایک صفر ہماری طرف سے ڈال دے، ساتھ ہی مولوی کی طرف متوجہ ہو کر کہا تیرا چلہ بھی ختم ہوا اب تو اسی نیک بخت کے ساتھ رہ اور اسے مانگنے کا نہیں خرچ کرنے کاسلیقہ سکھا۔یہ کہہ کر مسافر گھوڑے پر سوار ہوکر چل دیا۔ 
گھڑ سوار کے جاتے ہی مولوی نے نور حیات کو باور کرا دیا کہ سو روپے میں نوے روپے اس کے استاد کے دیے ہوئے ہیں اس لیے یہ رقم سلیقہ سیکھنے پر ہی خرچ ہو گی۔ نور حیات رضا مند ہو گیا۔ 
مولوی کے مشورے پر نور حیات نے کنویں کے ساتھ ہی ایک مسافر خانہ بنا لیا۔ اس میں کھانا پکتا مسافر اور ارد گرد کے لوگ کھاتے اور نور حیات کو دعائیں دیتے۔ آمدن زیادہ تھی اور اخراجات کم۔کچھ ہی عرصے میں مولوی کے کہنے پر ایک مسجد بھی بن گئی، بچوں کی تعلیم کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا۔ اہل علم بھی علاقے کے راستوں سے آشنا ہوئے۔یہ سب نور حیات کے دوست کو پسند نہ تھا۔ اس نے علاقے کے لوگوں کو قائل کیا اور نور حیات کے خلاف کے تھانے میں، نیب کے دفتر اور انکم ٹیکس کے دفتر میں درخواستیں دینا شروع کر دیں۔ تفتیش شروع ہوئی، پولیس کو ہدائت ہوئی   ایک کا ہندسہ   لکھنے والے کو گرفتار کیا جائے۔ کہا جاتا ہے پولیس چاہے تو ملزم کو پاتال سے بھی ڈہونڈ کر لا سکتی ہے۔ پولیس نے اپنی اہلیت کو ثابت کیا، ملزم کو مجبور کیا گیا کہ وہ اپنا لکھا ہوا    ایک کا ہندسہ    مٹائے۔ نیب کا خیال تھا کہ ایک کے مٹ جانے کے بعد، صفر، خواہ کتنے ہی ہوں اپنی وقعت کھو دیں گے۔ایسا ہی ہوا، اینٹوں کے سارے ہی بھٹے بیٹھ گئے۔ البتہ کہانی کے مطابق ایک مٹ جانے کے بعد وہ صفر بے وقعت ہو گیا جو ایک کو دس بناتا تھا  البتہ تیسرا  صفرجو سو بناتا تھا اپنے مقام پر قائم ہے مگر اس کی    قیمت    نوے ہے۔  
کہانی، کہانی ہی ہوتی ہے، ہمارا کام لکھنا ہے، نتیجہ نکالنا یا سبق حاصل کرنا قاری کا حق ہے اور پڑھ کر نذر انداز کردینے والوں کے اپنے حقوق ہیں۔ ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھنا رواداری ہے، اس سے بڑھ کر رواداری کیا ہو سکتی ہے کہ دستر خوان بچھا کر معترض کو بھی کھلایا جائے اور اس کی تنقید کوبھی مسکرا کر سنا جائے۔



ہفتہ، 27 اپریل، 2019

زبان اور عمل کی لگام

؂
یہ ایک حقیقت ہے کہ خدا نے انسانوں کو ہدائت ار رہنمائی سے کبھی بھی محروم نہ رکھا۔ تخلیق انسان کے ساتھ ہی اسے عقل و شعورکے ساتھ ساتھ اپنی ایک بڑی صفت ْ علیم ْ میں سےعلم عطا فرما کر انسان کو اس قابل کر دیا کہ وہ راہ حیات کے روشن اور تاریک راستوں کو پہچان سکے۔ہم صبح و شام اپنے خدا سے سیدھی راہ کی طلب کرتے ہیں۔حالانکہ یہ راہ تو موجود ہے البتہ ہماری دعاوں کا مدعا یہ ہوتا ہے کہ یہ سیدہی راہ روشن ہو کر ہمیں اس طرح دکھائی دے کہ ہم یقین کامل اور دل کے اطمینان کے ساتھ اس پر چل سکیں۔ ذہنی بے یقینی انسان کی جبلت کا حصہ ہے، اس کے باوجود کامیاب لوگوں کی زندگی سے متاثر ہونا انسان کی فطرت میں ہے۔
کامیابی کے پیمانے مختلف ہوتے ہیں، یہی سبب ہے کہ مختلف لوگوں کے قابل تقلید لوگ (ہیرو) مختلف ہوتے ہیں۔البتہ اس عالم رنگ و بو میں ایک نام ایسا بھی ہے جو دنیا کے اخلاقی طور پر تاریک ترین حصے میں روشن ہوااور اخلاقی، سماجی، نظریاتی اور عملی طور پر ایسے انقلابی اقدامات اٹھاٗے کہ دنیا کے کونے کونے سے اہل علم نے انھیں خراج تحسین پیش کیا۔اس ہستی کا نام مبارک محمد    ہے جو اللہ کے اخری رسول ﷺ ہیں اور ہم اپنی زندگیوں کو ان کی اتباع میں لانے کے لیے اپنے عزم کو مضبوط کرنے کی سعی میں مصروف رہتے ہیں۔
زمینی حقائق یہ ہیں کہ محمد رسول اللہ ﷺ کی زندگی کو بطور نمونہ اپنانے کے خواہش مند اپنے جبلی تعصبات سے بالا تر ہو کر بھی اس اجتماعیت سے دورہیں جس اجتماعیت نے رسول اللہ ﷺ کے پیروکاروں (اصحاب ) کے ایمان کو اس طرح راسخ کر دیا تھاکہ ان کو اپنی انفرادی اور اجتماعی کامیابی گویا نظرآ رہی تھی۔جبلی طور پر انسان وہی ہے۔فطرت آدم بھی تبدیل نہیں ہوئی۔  قران بھی وہی ہے جو اصحاب رسول پڑہا کرتے تھے۔تعلیمات نبوی ﷺ بھی محفوظ ہیں ۔مگرآج اسلام کی وحدانیت تقسیم ہو کر رہ گئی ہے۔ بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ مذہب ایک تقسیم کارآلہ بن کر رہ گیا ہے۔مقام غور ہے کہ ْ تبدیلی ْ کہاں ہوئی ہے۔
اللہ تعالی نے انسانوں کی انفرادی اور اجتماعی کامیابی کی طرف رہنمائی کرتے ہوئے فرمایا ہے

 ْ فی الحقیقت تمھارے لیے رسول اللہ کی ذات میں نہائت ہی حسین نمونہ ہے ْ (الاحزاب)

اسوہ حسنہ عنوان ہے رسول اللہ کی حیات طیبہ کااور اس عنوان کے کئی ابواب اور پہلو ہیں، ان میں ایک پہلو کی خود خدا نے نشاندہی کی ہے ۔ فرمان الہی ہے

 ْ تم کیوں کہتے ہو جو کرتےنئیں ، بڑی بے زاری ہے اللہ کے یہاں ، کہ کہو وہ جو کرو نہ ْ ۔ اس عمل کو 

اردو کے ایک محاورے میں کہا گیا ہے ْ دوسروں کو نصیحت خود میاں فصیحت ْ یہ عمل انسان کا ایسا کمزور پہلو ہے جس کی خدا نے نظریاتی طور پر اور خدا کے رسول نے عملی طور پر حوصلہ شکنی کی ہے۔سیرت النبی کا مطالعہ بتاتاہے کہ نبی اکرم ﷺ نے اپنی ہرنصیحت کے الفاظ میں عمل کی روح پھونک کراپنی تعلیمات کو ابدیت عطا فرمائی۔حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے ایک سائل کو جواب دیتے ہوئے فرمایا تھا

 ْ جو قران میں الفاظ کی صورت میں ہے ،وہی حامل قرآن کی سیرت مین بطور عمل تھا ْ ۔

 انھوں نے اگر دوسروں کو کھلانے کی نصیحت کی تو خود بھوکا رہ کر دوسروں کو کھلایا، اگر دوسروں کو معاف کرنے کی نصیحت کی تو ہند اوراس کے غلام کومعاف کیا، زہر کھلانے والوں سے در گذر کیا۔ اگر سوال کرنے والوں کے سوال پورا کرنے کی ہدایت کی تو شدید ضرورت کے ایام میں اپنی چادر اتار کر دے دی۔فرمان و اعمال میں ہم آہنگی کتاب اسوہ حسنہ کا روشن باب ہے۔اس فرمان نبی کا ہر لفظ عمل کی گردش پوری کرنے کے بعد زبان مبارک سے نکلا ہے

 ْ مومن وہ ہے جس کو لوگ امین سمجھیں ، مسلم وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے لوگ سلامت رہیں ، 
مہاجر وہ ہے جس نے بدی کو چھوڑ دیا ، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کوئی اس وقت تک جنت میں نہیں جا سکتا جب تک اس کا پڑوسی اس کے غصہ سے محفوظ نہ رہا ہو ْ 

قول و فعل کا ہم آہنگ نہ ہونا ایسا عیب ہے جو الفاظ کی تاثیر کو ختم کر دیتا ہے۔وعظ کو بے اثر بے جان الفاظ نہیں کیا کرتے۔ شخصیت کو گہن اقوال و افعال کی بے آہنگی لگایا کرتی ہے۔ ہمارے پاس خوبصورت اور مرصع الفاظ کی کمی ہے نہ دلپذیر حکائتوں کی قلت ۔ ناصحین کی بھی بہتات ہے۔حقیقت یہ ہے کہ زبان کو عمل کی لگام پہنانے کی ضرورت ہے

جمعہ، 26 اپریل، 2019

سمیع و علیم


زیادہ پرانی بات نہیں، 1992 کا سال تھا، کپمیوٹر میں ونڈو انسٹال کی، اس مشین میں حیرت انگیز انقلاب آیا۔ محنت کم اور نتیجہ رنگین۔ وہ کمپیوٹر جو میرے بچوں کے لیے معمہ تھا اب گھر میں ان کی پسندیدہ شے تھی۔ انٹر نیٹ نایاب نہیں مگر مہنگی  تھی۔ اس کے باوجود بچوں کو کچھ دیر اس انٹرنیٹ نامی نئے کھلونے سے کھیلنے کی اجازت تھی۔ البتہ میرا ایک بیٹا اس پر حیرت کا اظہار کیا کرتا تھا  ابو، آپ کو معلوم کیسے ہو جاتا ہے کہ میں نے کون سی ویب سائٹ دیکھی ہے 
 لاہور سے  ایک صاحب راولپنڈی تشریف لائے، ایک پروفیسرصاحب سے انھوں نے ملاقات کی۔ لاہور واپس جا کر انھوں نے اپنا طبی معائنہ کرایا۔ ان کو حیرت اس بات پر تھی کہ پروفیسر صاحب جن کا طب سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے اوروہ بیماری جو مجھ سے بھی پوشیدہ تھی کیسے جان گئے۔ 
وہ لوگ جو حکمرانی کے خواہش مندوں کو خوش خبریاں سناتے ہیں یا وزیر اعظم ہاوس مین بیٹھ کر وقت کے وزیراعظم کو مشورہ دیتے ہیں کہ اب اونٹوں کی قربانی کا وقت آں پہنچا ہے، یا وہ لوگ جو کسی میڈیا ہاوس میں بیٹھ کر دور کے ملک کے بارے میں پیش آنے والے واقعات کی پیشن گوئی کر دیتے ہیں یہ لوگ کوئی غیب دان نہیں ہوتے البتہ وہ علم کے بڑے درخت کی ایک شاخ کے ماہر ضرور ہوتے ہیں، امام محمد بن سیرین کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ ان کو خوابوں کی تعبیر بتانے میں ید طولی ٰ حاصل تھا۔ ان کے بارے میں مشہور واقعہ ہے کہ ان کے پاس ایک شخص حاضر ہوا اور بیان کیا کہ اس نے خواب میں اذان کہی ہے۔ ابن سیرین نے اس کی تعبیر یہ بتائی کہ تمھارا ہاتھ کاٹا جائے گا، مذکورہ شخص کی موجودگی میں ایک اور شخص اسی محفل میں داخل ہوااور اس نے بیان کیا کہ اس نے خواب میں اذان کہی ہے۔ امام نے اسے تعبیر بتائی کہ وہ حج کو جائے گا۔ پہلا شخص حیران ہوا مگر وقت نے ثابت کیا کہ پہلے شخص کا ہاتھ کاٹا گیا اور دوسرے شخص نے حج کیا۔ 

علم کیا ہے، کسے حاصل ہوتا ہے، کیسے حاصل ہوتا ہے، انسان کتنا علم حاصل کر سکتا ہے تشنہ بحث ہے مگر ایک بات پر سب صاحبان علم متفق ہیں کہ انسان کا علم ناقص اور ادہورا ہے۔ تمام علوم کی کی مکمل اجارہ داری خدا ہی کے پاس ہے کہ وہ تمام مخلوقات کا موجد اول ہے۔

انسان کو دیکھنے کے لیے بینا آنکھ کے ساتھ ساتھ روشنی کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ دن کو سورج آنکھ کی یہ ضرورت پوری کرتا ہے اور حد نگاہ تک مناطر روشن ہو جاتے ہیں۔ رات کے اندہیرے میں آنکھ کی حد نگاہ مصنوعی روشنی کی لو تک ہی محدود ہو کر رہ جاتی ہے۔صاحب شمس الفقراء نے لکھاہے کہ انسان کو اندر سے دیکھنے کے لیے قلبی آنکھ کے ساتھ ساتھ اس ضیاء کی بھی ضرورت ہوتی ہے جو نور اسم ذات سے حاصل ہوتا ہے۔ یعنی اسم ذات کے نور سے مستفید ہونے والا انسان دوسرے انسان کے اندر تک جھانک سکتا ہے۔ یہ تو صاحبان علم کی باتیں ہیں۔کچھ لوگ ان اقوال کی حقیقت تک پہنچتے ہیں اور بعض کا کم علم انھیں ان باتوں کے انکار پر پر اکساتا ہے۔ البتہ خالق کائنات ایسی ہستی ہے جس کے ہاں علوم کلی ازل سے سجدہ ریز ہیں اور تا ابد اس کی اجارہ داری مستحکم ہے۔ 
   جب ابراہیم نے بیت اللہ کی بنیادیں اٹھائیں تو رجوع کیا اور دعا کی  اے ہمارے رب، ہم سے قبول فرما بے شک آپ سنتے اور جانتے ہیں  (البقرۃ:127) ۔ علمائے دین کا کہنا ہے کہ نبیوں کا ہر عمل امر ربی کا مظہر ہوتا ہے اور انسانیت کے لیے اس میں اسباق پوشیدہ ہوتے ہیں۔ اس دعا میں پوشیدہ اسباق قابل غور ہیں 

۔     ا س دعا کے لیے رفع ید سے قبل خلیل اللہ علیہ السلام نے ایک بامقصد نیک عمل کو پورا کیا  
   ۔    اپنے اللہ کی طرف رجوع ہو کر اپنے ایمان کی سچائی کو ثابت کیا
۔    عمل کرتے وقت دل میں اخلاص تھا۔ غافل دل کے ساتھ نہیں بلکہ دل کو مائل کر کے اپنے قلب کی کیفیت کو اللہ کے سامنے رکھ کر ہی دعا کا سلیقہ پورا ہوتا ہے 
۔    دعا کے لیے مقام کی اہمیت بھی ظاہر کر دی گئی ہ
۔    اور یہ بھی بتا دیا گیا ہے کہ واسطہ بھی اسی قادر مطلق اور بے پرواہ کی صفات کا کارآمد ہے۔

   نیکی پر نیکی کرنے والوں کے دل حساب دینے کے لیے رب کے سامنے کھڑے ہونے کے تصور ہی سے خوف کھاتے ہیں  (المومنوں: 60,61) ۔ اس کا سبب یہ ہے کہ انسان کا دل خیالات کاایسا بھنور ہے جس میں سیاہ و بے رنگ لہروں کا جنم لینا اورعدم ہو جاتا جبلت انسان ہے۔ البتہ انسان کی حوصلہ افزائی یہ کہہ کر کی گئی ہے    مجھے پکارو، مین تمھاری دعا قبول کروں گا    (الغافر:60)
دنیا میں بسنے والا انسان بھی سنتا ہے  لیکن وہ دوسروں کے دل کے حالات سے بے خبر ہوتا ہے۔سمیع تو ضرور ہے مگر علیم نہیں ہے۔   اور جب ایمان والوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم بھی ایمان والے ہیں، جب اپنے بڑوں کے پاس جاتے ہیں تو کہتے ہیں ہم تمھارے ساتھ ہیں۔ ہم تو صرف ان سے مذاق کرتے ہیں ۔اللہ بھی ان سے مذاق کرتا ہے اور انھیں ان کی سرکشی اور بہکاوے میں بڑہا دیتا ہے  (البقرہ:15,16)۔ یہاں اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ منافقین اس بہکاوے میں ہیں کہ شائد اللہ صرف سنتا ہے۔اہل ایمان اور دوسروں میں فرق یہ ہے کہ ایمان والوں کو بصارت عطا کی جاتی ہے    تمھیں وہ کچھ سکھایا گیا جو تم اور تمھارے آبا بھی نہیں جانتے تھے  (الانعام:19)
حدیث قدسی ہے    میرے بندو،  تم سب کے سب گمراہ ہو، سواے اس شخص کے جسے میں ہدائت دوں، اس لیے مجھ سے ہدائت مانگو میں تمھیں ہدائت دوں گا۔ میرے بندو تم سب کے سب بھوکے ہو، سوائے اس شخص کے جسے میں کھلاوں، اس لئے مجھ سے کھانا مانگو، میں تمھیں کھلاوں گا۔ میرے بندو، تم سب کے سب بے لباس ہو، سوائے اس شخص کے جسے میں لباس پہناوں، اس لیے مجھ سے لباس مانگو، میں تمھیں لباس پہناوں گا۔ میرے بندو،  تم دن رات گناہ کرتے ہواور مین تمھارے گناہ معاف کر سکتا ہوں، اس لیے تم مجھ سے بخشش مانگو، میں تمھیں معاف کر دوں گا    البتہ رسول اکرم  ﷺ  کی یہ ہدائت پیش نظر رہے    اللہ کسی ایسے دل سے دعا قبول نہیں کرتاجو سہو و لہو مین مبتلاء  ہو 
وہ سنتا اور جانتا ہے۔ 
    ہر علم والے کے اوپر ایک علم والا ہے    اور علیم تو جمیع علوم کا اجارہ دار ہے۔ دعا گو کے ذہن میں یہ بچپنا نہیں ہونا چاہیے
    ابو، آپ کو معلوم کیسے ہو جاتا ہے کہ میں نے کون سی ویب سائٹ دیکھی ہے 

جمعرات، 25 اپریل، 2019

اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نور

 
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بیت اللہ میں یہ دعا مانگی تھی   اے ہمارے رب، اور ان میں ان ہی سے ایک رسول بھیج جو ان کو تیری آیات پڑھ کر سنائے اور کتاب اور حکمت سکھائے اور ان کو سنوارے، بے شک آپ غالب اور حکمت والے ہیں    اللہ تعالیٰ نے اپنے خلیل کی اس دعا کو شرف قبولیت بخشا اور فرمایا   جس طرح ہم نے آپ میں آپ ہی سے ایک رسول بھیجاجو آپ کو ہماری آیات سناتے اور آپ کو سنوارتے ہیں، اور آپ کو کتاب اور حکمت سکھاتے ہیں اور وہ سکھاتے ہیں جو آپ نہیں جانتے تھے ۔صرف اس سوال اور عطا میں ہی حکمت کا ذکر نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے بار بار اس نعمت کا تذکرہ فرمایا ہے۔ انسان کا حق ہے کہ وہ سمجھنے کی کوشش کرے کہ حکمت ہے کیا۔
لغت میں درج ہے     حکمت بہتریں چیز کو بہتریں علم کے ذریعے جاننے کو کہتے ہیں  
 علامہ سید سلیمان ندوی(۴۸۸۱ ۔  ۳۵۹۱) نے لکھا ہے  حکمت عقل و فہم کی اس کامل ترین حقیقت کا نام ہے جس سے صیح و غلط، صواب و خطا،حق و باطل اور خیر و شر کے درمیان تمیزوفیصلہ بذریعہ غور وفکر، دلیل و برہان اور تجربہ و استقراء کے نہیں بلکہ منکشفانہ طور پر ہو جاتا ہے اور اس کے مطابق صاحب حکمت کا عمل بھی ہوتا ہے۔ بعض لوگوں میں اشیاء کے حق وباطل اور افعال کے خیر وشر کی تمیزکا صیح وجدان اور صیح ذوق ہوتا ہے، وہ ان امور کے دقیق سے دقیق مسئلہ کے متعلق اپنے ربانی ذوق و وجدان سے ایسی صیح رائے دیتے ہیں جو دوسرے لوگ وسیع مطالعہ اور غور وفکر کے بعد بھی نہیں دے سکتے۔ یہی وہ معرفت اور نور الہی ہے جو جدوجہد اورسعی و محنت سے نہیں بلکہ عطا و بخشش سے حاصل ہوتی ہے۔اور اسی کانام حکمت ہے۔اس کے مختلف درجے اور رتبے عام انسانوں کو ملتے ہیں لیکن اس کا اعلیٰ ترین اور کامل ترین درجہ اور رتبہ حضرات انبیاء کو حاصل ہوتا ہے
حکمت کو عام طور پر کتاب اورعلم کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے   بے شک ہم نے ابراہیم کو کتاب اور حکمت دی    (النساء:۴۵)۔    اور جب میں نے آپ کو کتاب اور حکمت اور توراۃ اور انجیل دی   (المائدہ:۰۱۱)۔    اور جب اللہ نے انبیاء سے وعدہ لیا کہ جب میں آپ کوکوئی کتاب اور کوئی حکمت دوں    (آل عمران:۱۸) ۔    بے شک ہم نے ایمان والوں پر احسان کیاکہ ان ہی میں سے ایک رسول بھیجاجو ان کواس کی آیات پڑھ کر سناتاہے اور ان کو سنوارتا ہے اور ان کو کتاب اور حکمت سکھاتا ہے اگرچہ وہ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے    (آل عمران: ۴۶۱)۔    وہی اللہ جس نے ان پڑھ لوگوں میں ان ہی میں سے ایک رسول بھیجا جو ان کو اس کی آیات سناتے ہیں اور ان کو پاک و صاف کرتے ہیں اور کتاب وحکمت سکھاتے ہیں اور وہ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے    (الجمعہ:۲)۔    اللہ نے آپ پر کتاب اور حکمت اتاری    (النساء:۳۱۱) ۔    اور اللہ کا جوآپ پر احسان ہے اور اس نے آپ پر جو کتاب اور حکمت اتاری ہے ان کو یاد کرو۔ اللہ آپ کو اس سے سمجھاتا ہے    (البقرہ: ۱۳۲) ۔
 علم اگر جاننے کا نام ہے تو حکمت اس دانشمندی کانام ہے جو علم کو عمل میں ڈہالتی ہے۔ایک بار اللہ کے آخری نبی  ﷺ اپنے اصحاب کے ساتھ لطیف پیرائے میں تبادلہ خیالات فرما رہے تھے،اصحاب اپنی اپنی پسند بتا رہے تھے۔ حضرت جبریل اترے اور انھوں نے بھی اس تبادلہ خیالات میں شامل ہو کر اپنی پسند بتائی،پھر آسمان کی طرف گئے اور واپس آ کر اللہ تعالیٰ کی پسند بیان فرمائی۔ اس محفل میں رسول اللہ ﷺ نے جو اپنی پسند بتائی ان میں خوشبو، عورت اور نماز کا ذکر تھا۔ نماز کو نبی اکرم ﷺ نے اپنی آنکھوں کی ٹھندک بتایا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے انبیاء کو علم کے ساتھ جو حکمت عطا کی جاتی ہے وہ اعمال کی حقیقت منکشف کر دیتی ہے۔عام مسلمانوں کے لیے نماز پڑہنا مشکل عمل ہے مگراصحاب حکمت پر جب حقیقت منکشف ہو جاتی ہے تو وہ مرغوب عمل بن جاتا ہے۔حکمت کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ  کی ازدواج مطہرات کو مخاطب کرکے فرمایا ہے      اور تمھارے گھروں میں اللہ کی جو آیات اور حکمت کی باتیں سنائی جاتی ہیں ان کو یاد رکھو    (الاحزاب:۴۳) ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آیات تو اللہ تعالیٰ کا کلام ہے مگر حکمت کی باتیں وہ ہیں جو زبان مبارک رحمت العالمین سے عطا ہوتی ہیں۔امام شافعیؒ کا قول ہے    حکمت آنحضرت  ﷺ کی سنت کا نام ہے اور آپ کی سنت وہ حکمت ہے جوآپ  ﷺ  کے دل میں اللہ کی طرف سے ڈالی جاتی ہے   ۔سورۃ جمعہ میں آنحضرت  ﷺ  کے بارے میں فرمان ہے    مسلمانوں کو کتاب اور حکمت کی تعلیم فرماتے ہیں    یعنی کتاب اور حکمت دو مختلف چیزیں ہیں۔جب  اللہ کے رسول دوسروں کو حکمت کی تعلیم دیتے ہیں تو دراصل وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ منکشفانہ علم تقسیم کرتے ہیں۔اس منکشفانہ علم کا اعجاز ہے کہ یہ صاحب علم کو صاحب عمل بنادیتا ہے۔مقاتلؒ کا قول ہے    حکمت علم اور اس کے مطابق عمل کو کہتے ہیں   ۔اور ابو جعفر محمدبن یعقوب کا قول ہے   ہر وہ صیح با ت جو صیح عمل پیدا کرے حکمت ہے  ۔ہم کہہ سکتے ہیں حکمت وہ جوہر ہے جس کو عطا کیا جاتا ہے وہ سراپا عمل بن جاتا ہے۔
آپ کو کتابوں میں ایسے اصحاب علم کا نام ضرور ملے گا جن کے علم ہی نے ان کو دھوکا دیا مگرآپ کوشش کریں تو بھی کسی کو ڈہونڈ نہ پائیں گے کہ جس کو حکمت عطا کی گئی ہو اور وہ ناکام ہوا ہو۔سورۃ النساء کی آیت:۳۱۱ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ جس کو حکمت عطا کردی جائے وہ گمراہ ہو ہی نہیں سکتا، پوری آیت یوں ہے    اگر اللہ کا فضل و کرم آپ پر نہ ہوتاتو ان میں سے ایک گروہ نے چاہا تھاکہ آپ کو گمراہ کرے،اور وہ گمراہ نہیں کرتے مگر اپنے آپ کو،اور آپ کو ذرا سابھی نقصان نہیں پہنچائیں گے، اللہ نے آپ پر کتاب اور حکمت اتاری اور آپ کو سکھایا جو آپ نہیں جانتے تھے،اور اللہ کا آپ پر بڑا فضل ہے   ، اور فضل یہ ہے کہ کتاب کے ساتھ  آپ  ﷺ  کو حکمت عطا کی گئی ہے۔ اس آیت میں کھل کر بتا دیا گیا ہے   جس کو حکمت عطا کی گئی اس کو خیر کثیر عطا ہوئی    (البقرہ: ۹۶۲)۔ حکمت کی مزید وضاحت اس فرمان  رسول  ﷺ میں ہے   رشک و حسداگر جائز ہے تو صرف دو اشخاص پر، ایک اس پر جس کو مال کی دولت ملی تو وہ اس کو صیح صرف کرتا ہے، دوسرے اس شخص پرجس کو حکمت ملی ہے تو وہ اس کے ذریعہ سے فیصلہ کرتا ہے۔اور دوسروں کو سکھاتا ہے اور اس میں معلم ہونے کی شان پیدا ہوتی ہے
امام مالک کا قول ہے    حکمت دین میں سمجھ اور اس فہم کو کہتے ہیں جو ایک فطری ملکہ اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نور ہے

بدھ، 24 اپریل، 2019

حاکم یا محافظ




مرد عورتوں پر محافظ ہیں اس لیے کہ اللہ نے ایک کو ایک پر بزرگی دی ہے اور اس لیے کہ مرد اپنا مال ان پر خرچ کرتے ہیں۔ ( سورۃ النساء :۳۴) اور مال خرچ کرنے کی ذمہ داری مردپر اسطرح ہے کہ جو خود کھاٗے وہی بیوی کو مہیا کرے۔ جب خود پہنے تو بیوی کو بھی پہنائے۔بات یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ بچہ کی پیدائش کے بعد اگر بچے کی ماں کسی وجہ سے بچے کو دودھ نہ پلا سکے تو یہ ذمہ داری بچے کے باپ پر ہے کہ وہ بچے کی رضاعت کا انتظام کرے۔ اور اس رضاعت کی اجرت ادا کرے جس کی مدت دو سال ہے۔ خدا کا فرمان ہے ْ اور مائیں اپنے بچوں کو پورے دوسال دودھ پلائیں۔ جو چاہے کہ رضاعت کی مدت پوری کرے اور باپ پر ان دودھ پلانے والی ماوں کا کھانا کپڑا دستور کے مطابق واجب ہےْ (البقرہ:۲۳۳)۔ صرف دودھ پلانے والی ہی کے نان نفقہ کی ذمہ داری مرد پر نہیں ہے بلکہ بچے کے کھانے اور لباس کی ذمہ داری بھی باپ ( باپ کی عدم موجودگی میں دادا )پر ہے۔مرد کو ْ رب البیت ْ یعنی گھر کی ضروریات پوری کرنے والا بھی کہا جاتا ہے۔اسی پر بچے کی تربیت اور تعلیم کا فرض بھی عائد کیا گیا ہے۔ان مالی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ مرد کو اپنی بیوی کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید بھی کی گئی ہے۔ یہی نہیں بلکہ باپ کے لیے لازمی ہے کہ وہ تمام اولاد کے ساتھ مساوی سلوک یقینی بنائے ۔ اصحاب رسول میں سے ایک نے اپنے بیٹوں میں سے ایک کو اپنا غلام تحفے کو طور پردیا اور چاہا کہ ان کے اس عمل پر اللہ کے رسول ﷺ بھی شاہد ہوں تو رسول اللہ ﷺ نے دریافت فرمایا کہ کیا سب بیٹوں کو ایک ایک غلام دے دیا گیا ہے تو عرض کیا نہیں تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ْ میں ایسے ظالمانہ تحفہ پر گواہ نہ بنوں گا ْ 
اسلام کی ، مسلمان خاندان کی عورت کو عطا کردہ اس معاشی آزادی کے نتائج یہ نکلے کہ حضرت عمر بن خطاب فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ میں نے اپنی بیوی کو ڈانٹا تو اس نے بھی برابر کا جواب دیا۔ حالانکہ اسلام سے پہلے ہم عورتوں کو کسی گنتی اور شمار میں نہیں لاتے تھے۔اسلام آیا تو اس نے عورتوں کے بارے میں احکام اتارے اور ان کے حقوق مقرر کیے۔اسلام نے قدر و منزلت میں عورت کو اس حد تک بڑہایا کہ رسمی طور پر عورت کو مرد کے برابر کر دیا۔ مگر اخلاقی طور پر مردوں کی برتری قائم رکھی اور اس برتری کے بدلے مرد پر سماجی اور معاشی ذمہ داریاں عائد کر دیں۔البتہ ان مالی ذمہ داریوں نے مرد کو کچھ حقوق بھی عطا کیے۔ ان حقوق میں اولیں مرد کے ساتھ عورت کی وفا کا تقاضا ہے۔مذکورہ آیت کے اگلے حصے میں ہے کہ نیک بیویاں فرمان بردار ہوتی ہیں۔ اور غائبانہ نگرانی کرتی ہیں کہ خدا نے ان کی حفاطت کی ہے ْ یعنی اپنے خاودند کی عزت و آبرو اور مال کی محافظ ہوتی ہے ۔اب کسی مرد کا فعل ان ہدایات کے منافی ہے یا عورت کا عمل اس میزان پر پورا نہیں اترتا تو ذمہ داری ادا کرنے سے حقوق بھی سلب ہو جاتے ہیں۔ ایسے مرد جو عورت کے مال پر تکیہ کرتے ہیں یا بچوں کے کپڑے اور تعلیم کے اخراجات کے لیے بچوں کی ماں کے مالی طور پر محتاج ہوتے ہیں ان کا گھر پر حکمرانی کا حق سلب ہو جاتا ہے۔ 
اسلام نے والدین کے رشتے کے بعد سب سے اہم رشتہ بیوی خاوند کے رشتے کو قرار دیا ہے۔ قران پاک نے ان لوگوں کی سر عام مذمت کی ہے جو اس رشتے میں رخنہ اندازی کی کوشش کرتے ہیں۔ عام طور پر خیال کیا جاتا ہے بیوی خاوند کے تعلقات میں رخنہ ڈالنے والے جادو گروں کی قبیل کے لوگ ہوتے ہیں۔ مگر اس مذمت میں مرد اور عورت کے وہ قریبی رشتے دار بھی شامل ہیں جو بستے گھر کو اجاڑنے کی سازشیں کرتے ہیں۔
بیوی خاوند کا رشتہ خاندان کی بنا ہے۔اس رشتے کی توصیف کرتے ہوئے بیوی خاوند کو ایک دوسرے کے لیے لازم ملزوم ہی نہیں بلکہ ایک دوسرے کا پردہ پوش بتایا ہے۔دونوں ایک دوسرے کی تکمیل کا ذریعہ ہی نہیں بلکہ ایک دوسرے کی زینت بتائے گئے ہیں۔اکثر رشتوں اور ناتوں کی جڑ یہی ایک رشتہ ہے اسی لیے اس رشتے کو پاک دامنی کا ذریعہ کہا گیا ہے۔ آنے والا بچہ جس گود میں آنکھ کھولتا ہے اسلام نے اس گود اور اس گھر کو مہر محبت کا مرکز بنانے کے لیے بیوی خاوند کے رشتے پر تکریم کی چادر تان دی ہے۔ اور اس رشتے کو قائم رکھنے کے لیے بدخواہوں کی مذمت کے بعد مناقشے کی صورت میں فریقین کو تاکید کی ہے کہ ْ میاں بیوی اللہ کی حدود کو قائم رکھیں ْ (البقرہَ:۲۳۰)