بدھ، 8 اکتوبر، 2025

تیسرا دن: شرم الشیخ میں امن مذاکرات میں پیش رفت






تیسرا دن: شرم الشیخ میں امن مذاکرات میں پیش رفت
مشرقِ وسطیٰ میں امن کے امکانات نے تیسری بار روشن کرن دکھائی جب شرم الشیخ میں جاری اسرائیل اور حماس کے درمیان بالواسطہ مذاکرات کے تیسرے دن ایک اہم پیش رفت سامنے آئی۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں ایک غیر متعلقہ تقریب کے دوران اعلان کیا، “مجھے بتایا گیا ہے کہ ہم امن معاہدے کے بہت قریب ہیں۔”
صدر کے مطابق، یہ پیغام انہیں امریکی وزیرِ خارجہ مارکو روبیو کے ہاتھ سے موصول ایک نوٹ میں ملا، جس میں لکھا تھا: “آپ کو فوراً ٹروتھ سوشل پر پوسٹ کی منظوری دینی چاہیے تاکہ آپ پہلے امن معاہدے کا اعلان کر سکیں۔” اس لمحے ٹرمپ نے مسکراتے ہوئے کہا، “ہم مشرقِ وسطیٰ میں امن کے بہت قریب ہیں۔”

شرم الشیخ مذاکرات: نیا موڑ
بدھ کے روز مصری بحیرہ احمر کے ساحلی شہر شرم الشیخ میں ہونے والی بات چیت میں مصری، قطری اور ترک ثالثوں نے حماس کے نمائندوں کے ساتھ سات گھنٹے طویل نشست کی۔ ذرائع کے مطابق بات چیت کا مرکز امریکی صدر ٹرمپ کے مجوزہ 20 نکاتی امن منصوبے کا پہلا مرحلہ تھا، جس میں جنگ بندی، تمام مغویوں کی رہائی اور اسرائیلی افواج کا غزہ کے کچھ حصوں سے انخلا شامل ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ قیدیوں کی فہرستوں اور جنگ بندی کی ضمانتوں پر قابلِ ذکر پیش رفت ہوئی ہے۔ حماس نے تمام اسرائیلی مغویوں کی رہائی پر رضامندی ظاہر کی ہے، جبکہ شہدا کی لاشوں کی حوالگی زمینی حالات بہتر ہونے پر کی جائے گی۔

امن منصوبے کے خدوخال
ٹرمپ کے منصوبے کے مطابق، غزہ میں فوری جنگ بندی کے ساتھ اسرائیل اپنے فوجی پیچھے ہٹائے گا اور انسانی امداد کا راستہ کھولا جائے گا۔ اس منصوبے میں ایک بین الاقوامی فورس — زیادہ تر عرب و مسلم ممالک کی — غزہ میں سیکیورٹی کی ذمہ داری سنبھالے گی، جبکہ امریکا ایک بڑے تعمیرِ نو کے پروگرام کی قیادت کرے گا۔
اس منصوبے کا مقصد صرف جنگ بندی نہیں بلکہ ایک پائیدار امن قائم کرنا ہے۔ ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر لکھا،
“اس کا مطلب ہے کہ تمام مغوی بہت جلد رہا کیے جائیں گے، اسرائیلی افواج طے شدہ حد تک پیچھے ہٹیں گی، اور یہ ایک مضبوط، دیرپا اور حقیقی امن کی طرف پہلا قدم ہوگا۔ تمام فریقین کے ساتھ منصفانہ سلوک کیا جائے گا۔”

اسرائیل اور فلسطین کا ردِعمل

اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے اپنے بیان میں کہا، “خدا کے فضل سے ہم سب کو واپس گھر لائیں گے۔”
حماس نے اس بات کی تصدیق کی کہ معاہدے میں اسرائیلی فوج کے انخلا، امداد کے داخلے، اور قیدیوں کے تبادلے کی ضمانت شامل ہے۔
ذرائع کے مطابق، حماس اس ہفتے کے اختتام تک تمام 20 زندہ مغویوں کو رہا کرے گی، جبکہ اسرائیلی افواج غزہ کے بیشتر حصوں سے انخلا شروع کریں گی۔


بین الاقوامی ثالث اور آئندہ مرحلہ
ٹرمپ کے مشرقِ وسطیٰ کے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف اور داماد جیرڈ کشنر بدھ کو شرم الشیخ پہنچے تاکہ معاہدے کی تفصیلات کو حتمی شکل دی جا سکے۔ اجلاس میں مصر، قطر اور ترکی کے اعلیٰ حکام کے علاوہ اسرائیلی وفد بھی شریک تھا۔
مصری صدر عبدالفتاح السیسی نے امریکی صدر ٹرمپ کو دعوت دی ہے کہ اگر مذاکرات کامیاب ہوں تو وہ معاہدے پر دستخط کی تقریب میں شریک ہوں۔ اپنے خطاب میں السیسی نے کہا، “مذاکرات مثبت انداز میں آگے بڑھ رہے ہیں، امید ہے تمام فریق اس موقع کو امن کے لیے استعمال کریں گے۔”

امن کا تیسرا موقع
یہ جنگ کے آغاز کے بعد تیسرا بڑا جنگ بندی معاہدہ ہے۔ اگر یہ کامیاب ہوا، تو یہ نہ صرف دو سالہ جنگ کا خاتمہ ہوگا بلکہ مشرقِ وسطیٰ میں امن کے ایک نئے دور کا آغاز بھی ہو سکتا ہے۔

جیسے ٹرمپ نے کہا، “یہ صرف غزہ کا امن نہیں، یہ پورے مشرقِ وسطیٰ کا امن ہے۔”

ٹرمپ کا 20 نکاتی امن منصوبہ



شرم الشیخ میں امن مزاکرات کے بارے میں بہت کم خبریں باہر آرہی ہیں البتہ عرب میڈیا میں ایک ترمیم شدہ 20 نکاتی ٹرم پلان کا مسودہ گردش کر رہا ہے جو الجزیرہ ٹی وی کی ویب سایٹ پر بھی مجود ہے ۔ اپنے دوستوں کے لیے اس کا اردو ترجمہ پیش ہے

ترمیم شدہ 20 نکاتی منصوبہ: نوآبادیاتی شرائط سے آزاد ٹرمپ پلان


فلسطین اور اسرائیل دونوں ایسے دہشت گردی سے پاک ممالک ہوں گے جو اپنے ہمسایوں کے لیے خطرہ نہ ہوں۔


فلسطین کو فلسطینی عوام کے فائدے کے لیے دوبارہ تعمیر کیا جائے گا، جنہوں نے پہلے ہی بہت تکالیف برداشت کی ہیں۔


اگر دونوں فریق اس تجویز سے اتفاق کرتے ہیں تو جنگ فوراً ختم ہو جائے گی۔ اسرائیلی افواج قیدیوں کی رہائی کی تیاری کے لیے طے شدہ حد تک پیچھے ہٹ جائیں گی، اور تمام فوجی کارروائیاں بند ہو جائیں گی۔


دونوں فریقوں کی جانب سے اس معاہدے کو عوامی طور پر قبول کرنے کے 72 گھنٹوں کے اندر تمام مغوی — زندہ اور جاں بحق — واپس کر دیے جائیں گے۔


تمام مغویوں کی رہائی کے بعد، اسرائیل عمر قید یافتہ قیدیوں کے ساتھ ساتھ وہ تمام فلسطینی قیدی بھی رہا کرے گا جنہیں 7 اکتوبر 2023 کے بعد گرفتار کیا گیا تھا۔


جب تمام مغوی واپس کر دیے جائیں، تو ایسے حماس اراکین جو پُرامن بقائے باہمی پر آمادہ ہوں اور اپنے ہتھیار جمع کرائیں، انہیں عام معافی دی جائے گی۔ جو حماس اراکین غزہ چھوڑنا چاہیں، انہیں محفوظ راستہ فراہم کیا جائے گا۔


اس معاہدے کی منظوری کے فوراً بعد مکمل انسانی امداد غزہ پٹی میں داخل کی جائے گی۔ کم از کم امدادی مقدار 19 جنوری 2025 کے معاہدے کے مطابق ہوگی، جس میں بنیادی ڈھانچے (پانی، بجلی، نکاسیٔ آب) کی بحالی، اسپتالوں اور تنور خانوں کی تعمیرِ نو، اور ملبہ ہٹانے اور سڑکیں کھولنے کے لیے ضروری آلات کی فراہمی شامل ہے۔


غزہ میں امداد اور سامان کی تقسیم اقوام متحدہ، اس کی ایجنسیوں، ریڈ کریسنٹ اور دیگر غیر جانب دار بین الاقوامی اداروں کے ذریعے بغیر کسی مداخلت کے کی جائے گی۔ رفح کراسنگ کو دونوں سمتوں میں اسی طریقہ کار کے تحت کھولا جائے گا جو 19 جنوری 2025 کے معاہدے میں نافذ کیا گیا تھا۔


فلسطین، جس میں غزہ ایک لازمی حصہ ہوگا، فلسطینی اتھارٹی (PA) کے تحت ہوگا۔ بین الاقوامی مشیر اس عمل میں مدد کر سکتے ہیں، لیکن خودمختاری صرف فلسطینیوں کی ہوگی۔


فلسطینی اتھارٹی عرب ماہرین اور منتخب بین الاقوامی ماہرین کی مدد سے تعمیر نو اور ترقی کا منصوبہ تیار کرے گی۔ بیرونی تجاویز پر غور کیا جا سکتا ہے، لیکن اقتصادی منصوبہ بندی عرب قیادت میں ہوگی۔


فلسطینی خصوصی اقتصادی زون قائم کر سکتے ہیں، جس کے محصولات اور تجارتی نرخ فلسطین اور شراکت دار ممالک کے درمیان طے پائیں گے۔


کسی بھی خودمختار فلسطینی علاقے سے کسی کو زبردستی نہیں نکالا جائے گا۔ جو جانا چاہے وہ آزادانہ جا سکتا ہے اور آزادانہ واپس آ سکتا ہے۔


حماس اور دیگر گروہوں کا حکومتی معاملات میں کوئی کردار نہیں ہوگا۔ تمام فوجی و دہشت گردی کے ڈھانچے ختم کیے جائیں گے، جس کی تصدیق غیر جانب دار مبصرین کریں گے۔


علاقائی شراکت دار اس بات کی ضمانت دیں گے کہ حماس اور دیگر گروہ معاہدے کی پابندی کریں، تاکہ غزہ اپنے ہمسایوں یا اپنے عوام کے لیے خطرہ نہ بنے۔


عرب اور بین الاقوامی شراکت داروں کی دعوت پر فلسطین میں 1 نومبر 2025 سے عارضی بین الاقوامی استحکام فورس (ISF) تعینات کی جائے گی، جو فلسطینی سیکیورٹی کو تربیت و تعاون فراہم کرے گی۔ یہ فورس مصر اور اردن کے مشورے سے سرحدی حفاظت، عوامی تحفظ اور سامان کی تیز تر نقل و حرکت کو یقینی بنائے گی تاکہ تعمیر نو کا عمل تیز ہو۔


اسرائیل نہ تو غزہ اور نہ ہی مغربی کنارے پر قبضہ کرے گا یا اسے ضم کرے گا۔ اسرائیلی افواج 31 دسمبر 2025 تک تمام مقبوضہ فلسطینی علاقوں سے مکمل انخلا کر لیں گی، جب تک ISF اور فلسطینی سیکیورٹی کنٹرول سنبھال لیں۔


اگر حماس اس تجویز کو تاخیر کا شکار کرے یا مسترد کرے، تو امداد اور تعمیر نو کا عمل ان علاقوں میں جاری رہے گا جو ISF اور فلسطینی اتھارٹی کے کنٹرول میں ہوں گے۔


فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے درمیان برداشت اور پُرامن بقائے باہمی کو فروغ دینے کے لیے بین المذاہب مکالمے کا نظام قائم کیا جائے گا۔


یکم جنوری 2026 سے ریاستِ فلسطین اپنی مکمل خودمختار سرزمین پر حکومت کرے گی، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی 12 ستمبر کی قرارداد اور 2024 میں عالمی عدالتِ انصاف کی مشاورتی رائے کے مطابق۔


امریکہ ریاستِ فلسطین کو فوری طور پر ایک خودمختار، پُرامن ملک کے طور پر تسلیم کرے گا اور اسے اقوام متحدہ کی مستقل رکنیت دی جائے گی، تاکہ وہ ریاستِ اسرائیل کے ساتھ امن سے رہ سکے۔

منگل، 7 اکتوبر، 2025

مزاکرات کا دوسرا دن




شرم الشیخ میں مذاکرات کا دوسرا دن کسی حتمی معاہدے کے بغیر ختم ہوا، مگر سفارتی سرگرمیوں میں تیزی آ گئی ہے۔ امریکی، قطری، مصری اور ترک نمائندوں کی شمولیت سے امکان بڑھ گیا ہے کہ بدھ کا دن فیصلہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔
یہ دیکھنا باقی ہے کہ آیا باہمی بداعتمادی ختم ہو کر ایک پائیدار جنگ بندی کی راہ ہموار کر پاتی ہے یا نہیں — اور کیا غزہ ایک نئے باب کا آغاز دیکھ سکے گا۔

 امن کی نئی امید
مصر کے ساحلی شہر شرم الشیخ میں اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کے لیے بالواسطہ مذاکرات دوبارہ شروع ہو گئے ہیں۔ یہ دن علامتی طور پر نہایت اہم تھا کیونکہ یہ 7 اکتوبر 2023 کے اُس حملے کی دوسری برسی تھی جس نے موجودہ جنگ کو جنم دیا۔

امریکی امن منصوبہ اور مذاکرات کا محور
مذاکرات کا مرکز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا 20 نکاتی امن منصوبہ ہے، جس میں فوری جنگ بندی، یرغمالیوں کی رہائی، حماس کی غیر مسلحی اور غزہ کے لیے ایک بین الاقوامی انتظامی نظام کی تجویز شامل ہے۔
اسرائیل نے منصوبے کو اصولی طور پر قبول کر لیا ہے اور مذاکرات کو "تکنیکی تفصیلات" تک محدود قرار دیا ہے۔ دوسری جانب حماس کا اصرار ہے کہ معاہدے میں مستقل جنگ بندی اور مکمل اسرائیلی انخلا کی ضمانت شامل ہو، جو ابھی تک اسرائیل نے تسلیم نہیں کی۔

پہلا دن
پیر کے روز مذاکرات کے پہلے دن ماحول مثبت رہا۔ مبصرین کے مطابق بات چیت کے اختتام پر ایک محتاط امید پیدا ہوئی۔

گفتگو کے اہم نکات میں یرغمالیوں اور قیدیوں کے تبادلے، غزہ میں انسانی امداد کی ترسیل اور ابتدائی انخلا زونز کے تعین پر تبادلہ خیال شامل تھا۔ تاہم سب سے بڑا اختلافی نکتہ یہ رہا کہ حماس چاہتی ہے اسرائیل کسی بھی معاہدے کے بعد دوبارہ جنگ شروع نہ کرے۔

دوسرا دن 
منگل کو مذاکرات میں اہم سیاسی شخصیات شامل ہو گئیں۔ امریکی وفد کی قیادت اسٹیو وٹکوف اور جیرڈ کشنر کر رہے ہیں۔ قطر کے وزیرِ اعظم شیخ محمد بن عبدالرحمن آل ثانی اور ترکی کے انٹیلیجنس سربراہ ابراہیم کالن بھی مذاکرات میں شریک ہو چکے ہیں۔
حماس کا اصرار
اسی دوران حماس کے رہنما خلیل الحیہ، جو پچھلے مہینے قطر میں ایک اسرائیلی حملے میں اپنے بیٹے کو کھو چکے تھے، پہلی بار منظرِ عام پر آئے۔ انہوں نے مصری ٹی وی پر کہا کہ حماس صرف ایسے معاہدے پر دستخط کرے گی جس میں مستقل امن کی بین الاقوامی ضمانت ہو۔

عوامی دباو
دنیا بھر میں جنگ کے متاثرین کی یاد میں احتجاجی مظاہرے اور دعائیہ اجتماعات منعقد ہوئے۔ لندن، سڈنی اور نیویارک میں فلسطینیوں کے حق میں ریلیاں ہوئیں، جبکہ اسرائیل میں حملے میں مارے جانے والوں کی یادگار تقاریب منعقد کی گئیں۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے منگل کو صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انہیں “پائیدار امن کے امکانات حقیقی لگ رہے ہیں”، جبکہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے فریقین سے اپیل کی کہ “اس نایاب موقع کو ضائع نہ کریں”۔

تیسرے دن کے مذاکرات سے قبل اہم رکاوٹیں 
غیر مسلحی: ٹرمپ کا منصوبہ حماس سے ہتھیار ڈالنے کا مطالبہ کرتا ہے، لیکن حماس نے انکار کر دیا ہے۔
مکمل انخلا: حماس کا کہنا ہے کہ آخری یرغمالی کی رہائی اسرائیلی فوج کے مکمل انخلا سے مشروط ہوگی۔
غزہ کا نظم و نسق: منصوبے میں بین الاقوامی انتظامیہ (جن میں ٹونی بلیئر کا ذکر ہے) کی تجویز شامل ہے، جبکہ حماس چاہتی ہے کہ اختیار فلسطینیوں کے پاس رہے۔
بین الاقوامی ضمانتیں: حماس چاہتی ہے کہ کسی تیسرے فریق کی نگرانی میں ایسا قانونی نظام بنے جو اسرائیل کو دوبارہ جنگ سے روکے۔

مبصرین کے مطابق اس بار مذاکرات کا ماحول نسبتاً تعمیری ہے، جس سے ایک ممکنہ پیش رفت کی امید پیدا ہو گئی ہے۔


کامیابی والے ہنر



کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ مئی 2025 کی پاک–بھارت فضائی جھڑپ میں پاکستان نے بھارت جیسے بڑے ملک کی فضائیہ کو اتنی تیزی اور مہارت سے کیسے شکست دی؟
جواب صرف ایک لفظ میں ہے: مصنوعی ذہانت
پاکستانی نوجوان انجینیئرز اور ماہرینِ ٹیکنالوجی نے اے آئی پر مبنی سسٹم تیار کر کے نہ صرف دشمن کے منصوبے پڑھ لیے بلکہ لمحوں میں مؤثر جوابی کارروائی کی۔ یہ واقعہ اس بات کا ثبوت تھا کہ مستقبل کی جنگیں، معیشتیں اور سیاست — سب ذہانت اور ٹیکنالوجی سے جیتے جائیں گے۔
مصنوعی ذہانت کیا ہے؟
مصنوعی ذہانت ایسی ٹیکنالوجی ہے جو انسانی دماغ کی طرح سوچ، سمجھ، سیکھ اور فیصلے کر سکتی ہے۔
یہ ٹیکنالوجی ڈیٹا، الگورتھم اور کمپیوٹنگ کے ذریعے ایسے نتائج نکالتی ہے جو کبھی صرف انسان ہی نکال سکتے تھے۔
آج اے آئی, چیٹ جی پی ٹی , اور سیک ڈیپ
جیسے پروگراموں میں انسانوں کی طرح گفتگو کرتی ہے،
فیکٹریوں میں روبوٹس کو خودکار بناتی ہے،
اسپتالوں میں بیماریوں کی تشخیص کرتی ہے،
اور موبائل ایپس کو آپ کی پسند سمجھنے کے قابل بناتی ہے۔
دنیا کس سمت جا رہی ہے؟
امریکی سینیٹ کی حالیہ رپورٹ کے مطابق، اگلے دس برسوں میں 100 ملین نوکریاں مصنوعی ذہانت سے ختم ہو سکتی ہیں۔
سب سے زیادہ متاثر ہونے والے شعبے ہوں گے:
فاسٹ فوڈ: خودکار کچن روبوٹس کے ہاتھ میں جائیں گے۔
اکاؤنٹنگ: مالیاتی حساب کتاب خودکار نظام کرے گا۔
ٹرانسپورٹ: سیلف ڈرائیونگ گاڑیاں ڈرائیوروں کی جگہ لیں گی۔
صحت: رپورٹس اور تشخیص مشینیں خود تیار کریں گی۔
تعلیم: اے آئی ہر طالب علم کے لیے ذاتی نصاب تجویز کرے گی۔
یہ تبدیلیاں بظاہر خطرہ لگتی ہیں، مگر حقیقت میں یہ نئے مواقع کی بنیاد رکھ رہی ہیں۔
پاکستان کے لیے نئے مواقع
پاکستان میں اگر یہ ٹیکنالوجی درست سمت میں استعمال ہو تو یہ معیشت، تعلیم، زراعت اور دفاع — ہر میدان میں انقلاب لا سکتی ہے
نوجوانوں کے لیے سنہری موقع
پاکستان کی 60 فیصد سے زیادہ آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ یہی وہ طاقت ہے جو مصنوعی ذہانت کے ذریعے ملک کو ترقی کی نئی راہ پر ڈال سکتی ہے۔
نوجوانوں کو درج ذیل شعبوں میں مہارت حاصل کرنی چاہیے:
ڈیٹا اینالیسس اور پروگرامنگ
مشین لرننگ اور روبوٹکس
ڈیجیٹل مارکیٹنگ اور ای کامرس
ویڈیو ایڈیٹنگ اور گرافک ڈیزائن
سائبر سیکیورٹی اور کلاؤڈ کمپیوٹنگ
یہ مہارتیں انہیں عالمی سطح پر مسابقت کے قابل بنائیں گی، جہاں وہ صرف نوکری نہیں بلکہ خود روزگار بھی پیدا کر سکیں گے۔

پیر، 6 اکتوبر، 2025

مذاکرات کا پہلا دن


مذاکرات کا پہلا دن
مصر میں اسرائیل اور حماس کے درمیان ہونے والے مذاکرات کا پہلا دن احتیاط کے ساتھ مگر امید افزا انداز میں مکمل ہوا، جس کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے 20 نکاتی امن منصوبے پر پیش رفت کی توقعات بڑھ گئی ہیں۔
بحیرہ احمر کے ساحلی سیاحتی شہر شرم الشیخ میں ہونے والی بات چیت کو “مثبت” قرار دیا گیا، جہاں فریقین نے مذاکرات کے اگلے مرحلے کے لیے ایک واضح روڈمیپ پر اتفاق کیا۔ یہ طے پایا کہ مذاکرات منگل کو دوبارہ ہوں گے۔
حماس کے نمائندوں نے ثالثوں کو آگاہ کیا کہ اسرائیل کی جانب سے غزہ پر جاری بمباری قیدیوں کے تبادلے اور جنگ بندی سے متعلق پیش رفت میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ پہلے دن کی گفتگو تین اہم نکات پر مرکوز رہی: قیدیوں اور مغویوں کا تبادلہ، جنگ بندی، اور غزہ میں انسانی امداد کا داخلہ۔
وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری کیرولین لیوٹ کے مطابق صدر ٹرمپ اسرائیلی مغویوں اور فلسطینی قیدیوں کی جلد رہائی کو اولین ترجیح دے رہے ہیں تاکہ امن منصوبے کے دیگر نکات پر عمل درآمد کی راہ ہموار ہو۔ ان کا کہنا تھا، “ٹیکنیکل ٹیمیں دونوں فریقوں کی فہرستوں کا باریک بینی سے جائزہ لے رہی ہیں تاکہ رہائی کے لیے مناسب ماحول یقینی بنایا جا سکے۔”
صدر ٹرمپ نے کہا، “ہمارے پاس معاہدہ کرنے کا ایک بہترین موقع ہے۔ ہم اچھی پیش رفت کر رہے ہیں اور مجھے لگتا ہے کہ حماس نے کچھ اہم معاملات پر مثبت لچک دکھائی ہے۔” انہوں نے عرب و ترک مشترکہ کوششوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ انہی کی بدولت حماس مذاکرات کی میز پر موجود ہے۔
یہ مذاکرات ایک ایسے وقت میں ہو رہے ہیں جب اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں اب تک غزہ میں 67 ہزار سے زائد فلسطینی شہید اور تقریباً ایک لاکھ ستر ہزار زخمی ہو چکے ہیں۔ اقوام متحدہ، عالمی ماہرین اور انسانی حقوق کی تنظیمیں (بشمول اسرائیلی ادارے) ان کارروائیوں کو نسل کشی قرار دے چکی ہیں۔
پیر کے روز مذاکرات کے دوران بھی اسرائیلی حملوں میں کم از کم دس فلسطینی شہید ہوئے، جن میں تین وہ افراد شامل تھے جو انسانی امداد کے حصول کی کوشش کر رہے تھے۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریش نے اپنے بیان میں حماس کے 2023 کے “بڑے پیمانے پر دہشت گردانہ حملے” کو “قابلِ مذمت” قرار دیا، تاہم انہوں نے کہا کہ ٹرمپ کی پیش کردہ حالیہ تجویز ایک ایسا موقع ہے جسے ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ ان کے مطابق “ایک مستقل جنگ بندی اور قابلِ اعتماد سیاسی عمل ہی مزید خونریزی روکنے اور پائیدار امن کے قیام کا واحد راستہ ہے۔”