جمعہ، 1 اگست، 2025

ایک تاریک محاذ





صیہونیت اور ہولوکاسٹ کی سیاست: 

برس ہا برس تک یورپ کے یہودی اپنے گھروں، چرچوں اور بازاروں میں زندگی بسر کرتے رہے۔ مگر بیسویں صدی کے اوائل میں صیہونی تحریک نے اپنے پیش رووں کو یہ پیام دیا کہ “محفوظ رہنے کے لیے آپ کو ایک خود مختار ریاست چاہیے”۔ پھر آیا ہولوکاسٹ — وہ انسانیت سوز المیہ جس نے چھ لاکھ یہودیوں کی جانیں نگل لیں۔ کیا ہولوکاسٹ نے صیہونیت کو جواز بخشا؟ یا صیہونی حکمت عملی نے اس المیہ کو سیاسی ہتھیار میں بدل دیا؟
 ہولوکاسٹ: صیہونیت کے لیے نیا حجت نامہ؟

1933
 سے 1945 تک نازی جرمنی نے یہودیوں کو 
منظم
 طریقے سے قتل کیا۔ یروشلم کے عقیدے میں قیامت صفت واقعہ نے دنیا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ صیہونی رہنماؤں نے اس المیے کو “عالمی ہمدردی” کی ایک سونامی میں بدل دیا۔ بلاشبہ یہ المیہ خود ایک تاریخ کا بدترین باب تھا، لیکن اس کی سیاسی استحصال نے صیہونیت کو
اخلاقی جواز فراہم کیا — ’’ہمیں اپنا وطن چاہیے‘‘

مغربی طاقتوں کو اسرائیل کی حمایت پر آمادہ کیا گیا، جیسے کہ اقوامِ متحدہ کی تقسیمِ فلسطین کی قرارداد 
(1947)۔
ہولوکاسٹ کے بعد دنیا نے 
“Never Again”
 کا نعرہ لگایا۔ مگر کیا واقعی “دوبارہ نہیں” کے وعدے کا مرکز صرف یہودی المیے کی تکرار سے حفاظت تھا؟ یا اس کا ایک مظلومیت کا بیانیہ تھا، جس سے وہ ریاست قائم کرنا چاہتے تھے جو فلسطینیوں کے خون سے مسرور تھی؟
جب مغربی ممالک نے یہودیوں کو محفوظ اڈا دینے کا وعدہ کیا، تو فلسطینیوں کو اندھا دھند بے دخل کیا گیا۔
“Never Again”
 کا نعرہ اقوامِ متحدہ میں قراردادوں تک محدود رہا، عمل نہیں سامنے آیا۔
آج کل یورپ اور امریکہ میں ہر میوزیم اور تعلیمی پروگرام میں ہولوکاسٹ کی یاد تازہ ہوتی ہے۔ یہ یادگاری
صیہونی سفارت کاری کے زیر اہتمام چلتی ہے۔
مدرسوں، یونیورسٹیوں، اور سرکاری اداروں میں “ہولوکاسٹ ایجوکیشن” کے نام سے ہرگزروسی ضد ہوتی ہے۔
اس تعلیمی دباؤ نے آزاد تحقیق کو محدود کیا اور صیہونی روایت کو مقدس بنا دیا۔
نتیجتاً ہولوکاسٹ نے  فراہم کر دیا، جس کے خلاف تنقید مذہبی توہین کہلائی جاتی ہے۔
 سیاسی ہتھیار: ہولوکاسٹ سے استثناء؟
صیہونی ریاست جب فلسطینیوں کے خلاف طاقت استعمال کرتی ہے، تو عالمی سطح پر مخالفت تو ہوتی ہے مگر فوری “مزدوری” کا شور بلند نہیں ہوتا۔ کیونکہ:
زچیت میڈیا ہولوکاسٹ کا حوالہ دے کر اسرائیلی کارروائیوں کو “تسلیم شدہ دفاع” کا درجہ دے دیتا ہے۔
اور فلسطینیوں کی حالت “غیر متعلقہ داخلی معاملات” بن جاتی ہے۔
یورپی یونین میں اکثر قراردادیں تو پاس ہوتی ہیں، مگر فنڈز دینے اور ہتھیار فراہم کرنے کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔
یہ تضاد واضح کرتا ہے کہ ہولوکاسٹ کا المیہ ایک مستقل “سیاسی استثناء” کے طور پر استعمال ہو رہا ہے۔
 حقائق پر پردہ، المیے کی سیاست
کیا یہ درست ہے کہ ہولوکاسٹ کے زخم ہمیشہ تازہ رکھے جائیں مگر فلسطینی سربریدہ المیے کو آگے بڑھنے نہ دیا جائے؟ اس میں دوہرے معیار کی بھرپور جھلک نظر آتی ہے:
یہودی حقوق کی عالمی مہم کو ہر فورم پر سرفہرست رکھا جاتا ہے؛
فلسطینی انسانی حقوق کی تنظیموں پر پابندیاں لگتی ہیں یا انہیں دہشت گرد کہہ دیا جاتا ہے۔
اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ ایک المیہ کو یاد رکھنا انسانی فریضہ ہے، مگر دوسرا المیہ صرف سفارتی مذاکرات اور “میدانِ جنگ” میں لٹکایا جاتا ہے۔
 سوالِ ضمیر: انسانیت یا سیاست؟
ہولوکاسٹ نے ہمیں انسانیت کی بقاء کا سبق دیا۔ مگر اس واقعے کی سیاست نے ہمیں یاد دلایا کہ:
“مظلومیت کا بیانیہ جتنا درست، اس کا سیاسی استعمال اتنا گھناؤنا ہو سکتا ہے۔”
یہ وقت ہے کہ ہم پوچھیں:
کیا صیہونی لابی ہولوکاسٹ کو محض سیاسی شرط بندی کے لیے استعمال کر رہی ہے؟
کیا انسانی المیات کا استحصال انسانی اقدار کے منافی نہیں؟
اور آخر کار، کیا انسانی بہبود کو مقدم رکھ کر ایک منصفانہ حل تلاش کیا جا سکتا ہے؟

تقسیم کے بیج



اسرائیل کی "تقسیم کرو اور حکومت کرو" حکمتِ عملی

"تقسیم کرو اور حکومت کرو" (Divide and Rule) کی پالیسی انسانی تاریخ میں نوآبادیاتی طاقتوں کا پرانا ہتھیار رہا ہے۔ برطانوی سامراج نے برصغیر میں ہندو مسلم فسادات کو ہوا دے کر طویل حکومت کی، جبکہ روم کے حکمرانوں نے یونانی ریاستوں کے بیچ پھوٹ ڈال کر انہیں محکوم بنایا۔ تاہم، جدید دور میں اگر کسی ریاست نے اس پالیسی کو بڑی چالاکی اور تسلسل سے استعمال کیا ہے تو وہ اسرائیل ہے۔

اسرائیل نے اپنے وجود کے بعد جس انداز میں مسلم دنیا میں قومیت، مذہب، فرقہ واریت اور لسانیت کے بیج بوئے، وہ خالصتاً ایک طویل مدتی حکمتِ عملی کا حصہ تھا تاکہ مسلم دنیا متحد نہ ہو سکے۔ اس مضمون میں ہم اسرائیل کے اُن اقدامات کا جائزہ لیتے ہیں جنہوں نے مسلم دنیا کو تقسیم کیے رکھا:
1۔ عرب و عجم اختلافات کو ہوا دینا

عرب و عجم اختلاف کا تاریخی پس منظر قدیم دور سے موجود رہا ہے، لیکن اسلام نے ان امتیازات کو مٹا دیا تھا۔ بدقسمتی سے جدید دور میں ان اختلافات کو ایک بار پھر اجاگر کیا گیا، خصوصاً سعودی عرب اور ایران کے مابین بڑھتی کشیدگی کے ذریعے۔

اسرائیل نے ان اختلافات کو اپنی بقا کا ذریعہ بنایا۔ ایران کے انقلابِ اسلامی کے بعد مغربی میڈیا نے اسے "شیعہ خطرہ" بنا کر پیش کیا، جس سے سنی عرب ریاستیں خوف زدہ ہوئیں۔ اسرائیل نے اس فرقہ وارانہ بیانیے کو خفیہ اور اعلانیہ طور پر تقویت دی، تاکہ دونوں قوتیں ایک دوسرے کے خلاف صف آرا رہیں۔
2۔ کرد ریاست کا تصور

کرد، مشرق وسطیٰ کی سب سے بڑی اقلیت ہیں جن کی اپنی کوئی باقاعدہ ریاست نہیں۔ اسرائیل نے کردوں کی آزادی کی تحریک کی نہ صرف حمایت کی بلکہ اسے خفیہ طور پر عسکری امداد بھی فراہم کی۔ 1960 کی دہائی میں عراق کے کردوں کو موساد نے ٹریننگ دی اور ہتھیار فراہم کیے۔

2017 میں جب عراق کے کردوں نے آزادی کے لیے ریفرنڈم کروایا تو اسرائیل وہ واحد ملک تھا جس نے اس کا کھل کر خیرمقدم کیا۔ اس کا مقصد واضح تھا: عراق جیسے مضبوط مسلم ملک کو کمزور کر کے اسے اندرونی طور پر تقسیم کرنا۔
3۔ سعودی-ایرانی اختلافات کو شدت دینا

اسرائیل کا سب سے بڑا فائدہ سعودی عرب اور ایران کے باہمی تناؤ سے ہوا۔ جب بھی دونوں ممالک کے بیچ تعلقات میں بہتری کا امکان پیدا ہوتا، اسرائیل یا اس کے حلیف کوئی ایسا واقعہ ترتیب دیتے جس سے کشیدگی دوبارہ بھڑک اٹھے۔

مثلاً 2016 میں ایرانی مظاہرین کی جانب سے سعودی سفارتخانے پر حملہ ہو یا یمن جنگ، ان تمام واقعات میں اسرائیلی تھنک ٹینکس نے دونوں فریقوں کی سوچ کو مزید سخت بنانے میں کردار ادا کیا۔ اسرائیل کو معلوم ہے کہ سعودی عرب اور ایران کا اتحاد خطے میں اسرائیلی مفادات کے لیے تباہ کن ہو گا۔
4۔ دروز کمیونٹی کی اسرائیل نوازی

دروز ایک منفرد مذہبی کمیونٹی ہے جو لبنان، شام، اردن اور اسرائیل میں موجود ہے۔ اسرائیل نے دروز کو اپنے معاشرے میں ضم کر کے انہیں دیگر عرب اقلیتوں سے الگ رکھا، حتیٰ کہ اسرائیلی فوج میں بھی دروز نوجوانوں کو بھرتی کیا جاتا ہے۔

اس حکمت عملی سے اسرائیل نے عرب اتحاد کے ایک اور ممکنہ دھارے کو الگ کر دیا، اور دروز کمیونٹی کو ایک مخصوص شناخت دے کر عرب مسلم قوم پرستی سے کاٹ دیا۔ دروز اسرائیلی دفاعی اسٹیبلشمنٹ میں بطور انٹیلی جنس ایجنٹس اور افسران بھی موجود ہیں۔
5۔ عرب دنیا میں چھوٹے چھوٹے تنازعات کو بڑھاوا دینا

اسرائیل نے نہ صرف سعودی-ایرانی یا کرد-عرب اختلافات کو بڑھایا بلکہ مصر-ترکی، شام-اردن اور لبنان-خلیجی ممالک کے درمیان بھی غلط فہمیاں پیدا کیں۔ اسرائیلی میڈیا اور تھنک ٹینکس ان تمام تنازعات میں بطور پروپیگنڈہ مشینری کام کرتے رہے۔
نتیجہ: امت کی وحدت کے خلاف ایک منظم مہم

اسرائیل کی "تقسیم کرو اور حکومت کرو" پالیسی نے صرف فلسطین پر قبضے کو قائم نہیں رکھا، بلکہ پورے خطے میں مسلم اتحاد کو ممکن نہ بننے دیا۔ قومیت، فرقہ، نسل اور زبان کے نام پر تقسیم شدہ مسلمان آج بھی اسرائیل کو ایک مشترکہ دشمن تسلیم کرنے سے قاصر ہیں۔

جب تک مسلم دنیا تاریخ سے سبق نہیں سیکھتی اور اتحاد و شعور کی راہ اختیار نہیں کرتی، اسرائیل جیسی ریاستیں اپنے مفادات کے لیے ان کی صفوں میں دراڑیں ڈالتی رہیں گی۔

بنی اسرائیل کون تھے؟




بنی اسرائیل کون تھے؟

بنی اسرائیل کا مطلب ہے "حضرت یعقوب علیہ السلام کی اولاد"۔ عربی میں "بنی" کا مطلب ہے "بیٹے" اور "اسرائیل" حضرت یعقوب علیہ السلام کا لقب تھا، جس کا مطلب بعض روایات کے مطابق "اللہ کا بندہ" یا "اللہ کا مجاہد" لیا جاتا ہے۔

حضرت یعقوب علیہ السلام، حضرت اسحاق علیہ السلام کے بیٹے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پوتے تھے۔ قرآن و بائبل دونوں میں ان کا ذکر ہے اور ان کی اولاد کو بنی اسرائیل کہا جاتا ہے۔
بنی اسرائیل کی ابتدا اور تاریخی پس منظر:

بنی اسرائیل درحقیقت ایک قوم تھی جس کی شروعات حضرت یعقوب علیہ السلام کے بارہ بیٹوں سے ہوئیں۔ انہی بارہ بیٹوں کی نسل آگے جا کر بارہ قبائل میں تقسیم ہوئی، جو مجموعی طور پر "بنی اسرائیل" کہلائے۔ یہ قوم سب سے پہلے شام، فلسطین اور مصر کے علاقوں میں آباد ہوئی۔
مصر میں قیام اور غلامی:

حضرت یوسف علیہ السلام کے واقعے کے بعد بنی اسرائیل مصر منتقل ہوئے، جہاں ابتدائی دور میں انہیں عزت ملی، مگر وقت گزرنے کے ساتھ فرعونوں کے دور میں یہ قوم غلامی، مظالم اور ذلت کا شکار ہوئی۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام اور خروج مصر:

حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کی رہنمائی اور رہائی کے لیے مبعوث فرمایا۔ انہوں نے فرعون سے بنی اسرائیل کو نجات دلائی اور انہیں مصر سے نکال کر وعدے کی سرزمین (فلسطین) کی طرف روانہ کیا۔ اس واقعے کو "Exodus" یا خروجِ مصر کہا جاتا ہے۔
بنی اسرائیل کی خصوصیات اور ان کی غلطیاں:

بنی اسرائیل وہ قوم ہے جسے اللہ تعالیٰ نے مختلف انبیاء، معجزات اور آسمانی کتابوں سے نوازا۔ قرآن مجید میں بنی اسرائیل کے کئی واقعات، ان کی آزمائشوں، ناشکری، انبیاء کی نافرمانی اور بعض اوقات ان کی ہٹ دھرمی کا تفصیلی ذکر ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد حضرت داؤد، حضرت سلیمان، حضرت زکریا، حضرت یحییٰ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی انہی میں سے تھے۔
کیا موجودہ دور کے یہودی بنی اسرائیل ہیں؟
نسلی اعتبار سے:

جی ہاں، موجودہ دور کے بہت سے یہودی نسلی طور پر بنی اسرائیل کی اولاد ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ان میں خاص طور پر سفاردی، اشکنازی اور مزراحی یہودی شامل ہیں، جو دنیا بھر میں آباد ہیں اور اپنی جڑیں قدیم بنی اسرائیل سے جوڑتے ہیں۔

لیکن اس بارے میں کئی تاریخی، مذہبی اور سائنسی اختلافات بھی موجود ہیں:
1. خالص نسل کا دعویٰ مشکوک:

ہزاروں سالوں میں بنی اسرائیل کی نسل میں مختلف قوموں کی آمیزش ہوئی، غلاموں، نو مسلموں، شادیوں اور مختلف اقوام میں میل جول کے باعث اب یہ کہنا مشکل ہے کہ موجودہ تمام یہودی خالص بنی اسرائیل ہیں۔
2. خزر یہودیوں کا معاملہ:

تاریخی شواہد کے مطابق 8ویں صدی میں وسط ایشیا کی ایک قوم "خزر" نے اجتماعی طور پر یہودیت قبول کی، حالانکہ ان کا تعلق بنی اسرائیل سے نہیں تھا۔ موجودہ دور کے مشرقی یورپ کے کئی اشکنازی یہودی انہی خزر قوم کی نسل سے سمجھے جاتے ہیں، اس لیے انہیں خالص بنی اسرائیل ماننا پیچیدہ مسئلہ ہے۔
3. مذہب اور نسل کی تفریق:

یہودیت ایک مذہب بھی ہے اور نسل بھی۔ کچھ لوگ پیدائشی یہودی ہوتے ہیں (یعنی بنی اسرائیل کی نسل سے)، کچھ لوگ وقت گزرنے کے ساتھ مذہبِ یہودیت قبول کر لیتے ہیں۔ اس لیے ہر یہودی کو نسلِ بنی اسرائیل سمجھنا درست نہیں۔
خلاصہ:

موجودہ دور کے بیشتر یہودی خود کو بنی اسرائیل کی اولاد سمجھتے ہیں اور مذہبی و تاریخی حوالوں سے اس پر فخر کرتے ہیں، مگر تاریخی اعتبار سے ان کی نسل کی خالص حیثیت پر سوالات موجود ہیں۔ بعض یہودی حقیقی بنی اسرائیل کی نسل سے ہیں، جبکہ بہت سے یہودی دیگر اقوام کی نسل سے ہیں جنہوں نے وقت گزرنے کے ساتھ یہودیت قبول کی۔

اسلامی نقطہ نظر:
قرآن مجید بنی اسرائیل کو بطور قوم مخاطب کرتا ہے اور ان کے واقعات میں عبرت، ہدایت اور انتباہ کی نشانیاں بیان کرتا ہے۔ قرآن میں یہ واضح ہے کہ اللہ کے نزدیک کسی قوم کی اصل اہمیت تقویٰ اور عمل کی بنیاد پر ہے، محض نسل یا حسب نسب کی بنیاد پر نہیں۔
نتیجہ:

نسلی اعتبار سے بنی اسرائیل کی موجودگی آج بھی دنیا میں پائی جاتی ہے، مگر خالص نسل کی پہچان تاریخی اور سائنسی اعتبار سے پیچیدہ ہے۔ اصل کامیابی نسل میں نہیں، بلکہ عمل، کردار اور اللہ کی رضا میں ہے، جو ہر انسان کے لیے کھلا راستہ ہے۔

سورۃ الحدید، آیت 23




افسوس کی زنجیروں سے نجات پانے کا نسخہ

انسان کی فطرت ہے کہ وہ خطا کرتا ہے، غلط فیصلے لیتا ہے، اور پھر انہی غلطیوں پر افسوس اور ندامت میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ بعض اوقات یہ افسوس اتنا گہرا ہو جاتا ہے کہ انسان اپنی حالیہ زندگی اور مستقبل دونوں کو برباد کر بیٹھتا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا ماضی کی غلطیوں پر رونے دھونے سے کچھ حاصل ہوتا ہے؟ کیا گزرے وقت کو واپس لایا جا سکتا ہے؟ یقینا نہیں۔
اسلام ہمیں سکھاتا ہے کہ ماضی کی غلطیوں میں الجھنے کے بجائے اُن سے سبق سیکھ کر آگے بڑھا جائے۔ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے:
"المؤمن لا يلدغ من جحر واحد مرتين"
(مسلمان ایک سوراخ سے دو بار نہیں ڈسا جاتا)
(صحیح البخاری)
یعنی مؤمن ایک ہی غلطی کو بار بار نہیں دہراتا، بلکہ اپنی کوتاہی سے سبق سیکھتا ہے اور آئندہ محتاط رہتا ہے۔
افسوس میں جینا کیوں نقصان دہ ہے؟
جب انسان مسلسل یہ سوچتا ہے:
"اگر میں نے ایسا نہ کیا ہوتا..."
"کاش میں نے وہ بات نہ کہی ہوتی..."
"اگر میں نے وہ فیصلہ لیا ہوتا تو نقصان نہ ہوتا..."
تو وہ دراصل شیطان کے ایک فریب میں گرفتار ہو جاتا ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
"اگر" کہنا شیطان کے دروازے کھولتا ہے۔
(صحیح مسلم)
یہ "اگر" کا لفظ انسان کو مایوسی، حسرت اور شک میں ڈال دیتا ہے۔ اسلام ہمیں سکھاتا ہے کہ جو کچھ ہو چکا، وہ اللہ کی مشیئت سے ہوا، اور مومن کا کام یہ ہے کہ وہ حال کو سنوارے اور آئندہ بہتر کی کوشش کرے۔
قرآن کی رہنمائی
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے:
"لِكَيْلَا تَأْسَوْا عَلَىٰ مَا فَاتَكُمْ وَلَا تَفْرَحُوا بِمَا آتَاكُمْ"
(تاکہ تم ان چیزوں پر افسوس نہ کرو جو تم سے چھن گئیں، اور ان پر اتراؤ نہیں جو تمہیں ملی ہیں)
(سورۃ الحدید، آیت 23)
یہ آیت انسان کو متوازن رویہ اپنانے کا درس دیتی ہے — نہ ماضی پر حد سے زیادہ افسوس، نہ حال پر فخر و غرور۔ یہ تعلیم ہمیں دعوت دیتی ہے کہ ہم حال میں رہیں، شکر گزار ہوں اور آئندہ کے لیے عزم کے ساتھ کام کریں۔
مثبت سوچ: اسلامی رویہ
جب بھی ماضی کی کسی کوتاہی یا نقصان کا خیال آئے، تو بجائے افسوس اور مایوسی کے، خود سے یہ کہیں:
"اگلی بار میں یہ کام بہتر انداز سے کروں گا، ان شاء اللہ۔"
یہ ایک مثبت اسلامی رویہ ہے، جو انسان کو ماضی کی تاریکی سے نکال کر مستقبل کی روشنی کی طرف لے جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
"وَعَسَىٰ أَن تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ"
(ہو سکتا ہے تم کسی چیز کو ناپسند کرو اور وہ تمہارے لیے بہتر ہو)
(سورۃ البقرۃ، آیت 216)
یہی ایمان ہے — مومن جانتا ہے کہ ہر ناکامی میں کوئی حکمت ہے، ہر ٹھوکر میں کوئی سبق ہے، اور ہر نقصان میں کوئی تربیت۔
غم اور اندیشہ: غیر ضروری بوجھ
بیشتر انسان یا تو ماضی کے کسی حادثے کا ماتم کرتے رہتے ہیں، یا پھر مستقبل کے کسی خدشے سے پریشان رہتے ہیں۔ مگر یہ دونوں ہی کیفیتیں اسلام کی تعلیمات کے خلاف ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے دعا مانگی:
"اللَّهُمَّ إني أعوذ بك من الهمِّ والحَزَنِ..."
(اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں فکر اور غم سے...)
(صحیح بخاری)
یہ دکھاتا ہے کہ مسلسل غم اور اندیشہ مومن کی روحانی ترقی میں رکاوٹ بنتے ہیں۔
عملی راستہ: سیکھنا، شکر کرنا، آگے بڑھنا
اسلام انسان کو سکھاتا ہے کہ وہ:
اپنی غلطیوں کو تسلیم کرے
ان سے سیکھے
اللہ سے معافی مانگے
حال کو بہتر بنائے
اور مستقبل کے لیے اللہ پر بھروسا رکھے
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
"إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا"
(بے شک تنگی کے ساتھ آسانی ہے)
(سورۃ الشرح، آیت 6)

ماضی کی کوتاہیاں آپ کو روکنے والی زنجیر نہ بنیں، بلکہ وہ آپ کے عزم کا ایندھن بنیں۔ افسوس کے کمرے سے نکل کر امید کی کھڑکی کھولیں۔ جو شخص اللہ پر بھروسا کرتا ہے، وہ نہ ماضی سے ڈرتا ہے، نہ مستقبل سے گھبراتا ہے۔
"مؤمن مایوس نہیں ہوتا، افسوس میں نہیں جیتا، بلکہ عمل، صبر اور توکل سے اپنا راستہ خود بناتا ہے۔"


مذہبی صیہونیت: نظریاتی بنیاد




مذہبی صیہونیت: نظریاتی بنیاد

اسرائیل کو دنیا کے نقشے پر ایک یہودی ریاست کے طور پر قائم ہوئے 75 برس سے زائد ہو چکے ہیں، لیکن یہ ریاست اپنے اندر ایک عجیب و غریب تضاد کے ساتھ زندہ ہے — یہودی مذہب کی روحانی تعبیر اور جدید قومی ریاست کے آئینی ڈھانچے کا ایسا تصادم، جو وقت کے ساتھ مزید شدت اختیار کر رہا ہے۔ اس داخلی کشمکش کی سب سے نمایاں شکل "مذہبی صیہونیت" اور "اسرائیلی سیکولر آئین" کے درمیان تنازع ہے، جو نہ صرف اسرائیلی معاشرے کو تقسیم کر رہا ہے بلکہ پوری دنیا میں یہودی شناخت اور سیاسی مستقبل پر بھی اثرانداز ہو رہا ہے۔

مذہبی صیہونیت: نظریاتی بنیاد
صیہونیت کی ابتدا ایک سیاسی تحریک کے طور پر ہوئی، جس کا مقصد یہودیوں کو دنیا بھر سے لا کر فلسطین کی سرزمین پر ایک قومی وطن قائم کرنا تھا۔ لیکن وقت کے ساتھ یہ تحریک صرف سیاسی نہیں رہی بلکہ مذہبی صیہونیت کی ایک نئی جہت بھی سامنے آئی۔ مذہبی صیہونی یہودی مذہب کی اس تشریح پر یقین رکھتے ہیں کہ خدا نے سرزمینِ اسرائیل یہودیوں کو بطور "وعدہ شدہ سرزمین" عطا کی ہے، اور یہ سرزمین کسی طور بھی غیر یہودیوں کے ساتھ تقسیم نہیں کی جا سکتی۔

یہ سوچ "توریت" کے ان حوالوں سے ماخوذ ہے جن میں ارضِ مقدس پر بنی اسرائیل کے حقِ ملکیت کو خدائی وعدے کے طور پر بیان کیا گیا ہے، جیسے
"اور میں تیری نسل کو یہ ملک دوں گا، جو مصر کی ندی سے لے کر عظیم دریا فرات تک ہے۔"
ایسی مذہبی بنیاد پرستی کے تحت، یہودی بستیوں کی تعمیر، مسجد اقصیٰ کی جگہ ہیکلِ سلیمانی کی بحالی، اور فلسطینی سرزمین پر قبضہ محض سیاسی فیصلے نہیں، بلکہ "مقدس فریضہ" بن جاتے ہیں۔

اسرائیلی آئین: ایک سیکولر ریاست کا خاکہ
دوسری جانب، اسرائیل کا آئینی ڈھانچہ خود کو ایک "جمہوری" اور "سیکولر" ریاست کے طور پر پیش کرتا ہے، جہاں تمام شہریوں کو برابری کا حق حاصل ہے، خواہ وہ یہودی ہوں، مسلمان، عیسائی یا دروز۔ اگرچہ اسرائیل کے پاس مکمل تحریری آئین نہیں ہے، تاہم اس کی "بنیادی قوانین"  جمہوریت، انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کی ضمانت فراہم کرتے ہیں۔
اسی سیکولر فریم ورک کے تحت اسرائیلی عدالتیں، میڈیا اور بعض سیاسی جماعتیں مذہبی جنونیت کو خطرہ سمجھتی ہیں، کیونکہ اس سے نہ صرف فلسطینیوں کے حقوق پامال ہوتے ہیں بلکہ خود اسرائیل کے اندر اقلیتوں اور آزاد خیال یہودیوں کی زندگی دشوار ہو جاتی ہے۔

ٹکراؤ کی عملی شکلیں
یہ نظریاتی تصادم وقتاً فوقتاً اسرائیلی سیاست میں شدت سے ابھرتا ہے
عدالتی اصلاحات کا بحران: 2023–2024 میں اسرائیلی وزیرِاعظم نیتن یاہو کی حکومت نے عدالتِ عظمیٰ کے اختیارات محدود کرنے کی کوشش کی، جسے لاکھوں اسرائیلی شہریوں نے "مذہبی آمریت" کی طرف قدم قرار دیا۔ ان مظاہروں نے اسرائیل کے سیکولر اور مذہبی حلقوں میں خلیج کو واضح کر دیا۔

مسجد اقصیٰ کا تنازع:
 مذہبی صیہونی گروہ بارہا مسجد اقصیٰ میں داخل ہو کر وہاں یہودی عبادت کی کوشش کرتے ہیں، جب کہ اسرائیلی حکومت بین الاقوامی دباؤ کی وجہ سے رسمی طور پر اس عمل سے گریز کرتی ہے۔
حریدی (الٹرا آرتھوڈوکس) یہودیوں کی الگ حیثیت
 ان کے مدارس (یشیوا) کے طلبہ کو فوجی سروس سے استثنیٰ حاصل ہے، جو سیکولر نوجوانوں میں غصے کا باعث بنتا ہے۔ یہ مسئلہ بھی ریاست اور مذہب کی کشمکش کو ہوا دیتا ہے۔

عالمی اثرات
اسرائیل کے اندر اس تضاد کا اثر صرف داخلی سیاست تک محدود نہیں۔ چونکہ اسرائیل خود کو دنیا بھر کے یہودیوں کا نمائندہ سمجھتا ہے، اس لیے مذہبی صیہونیت کے انتہا پسندانہ اقدامات عالمی یہودی شناخت پر سوالیہ نشان بناتے ہیں۔ بہت سے آزاد خیال یہودی، خصوصاً امریکہ اور یورپ میں، اسرائیل کی مذہبی پالیسیوں سے علیحدگی اختیار کر رہے ہیں۔

وجود کی کشمکش
اسرائیل آج جس دو راہے پر کھڑا ہے، وہ اس کے وجود کے بنیادی سوال کو دوبارہ سامنے لاتا ہے: کیا اسرائیل ایک "یہودی مذہبی ریاست" ہے یا ایک "جمہوری قومی ریاست"؟ اگر اسرائیل مذہبی صیہونیت کی طرف جھکتا ہے تو یہ سیکولر آئینی نظام اور عالمی انسانی حقوق سے ٹکرا جائے گا۔ اور اگر وہ سیکولر رہتا ہے تو مذہبی صیہونیوں کے غصے اور بغاوت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
یہ کشمکش جلد اسرائیل کی داخلی استحکام، علاقائی امن، اور دنیا بھر میں یہودی تشخص کے لیے فیصلہ کن حیثیت رکھتی ہے۔