جمعرات، 31 جنوری، 2019

بقائے جمہوریت اور آزادیٔ صحافت

آصف علی بھٹی



کہاجاتا ہےکہ صحافت کے بغیر جمہوریت کی بقا ممکن نہیں اور آزادیٔ صحافت کا مطلب ہے کہ جمہوریت جاری رہے اور منتخب لوگ عوام کے اعتماد سےترقی وفلاح کا کام کرتے رہیں۔ جس ریاست یا معاشرے میں آزاد صحافت کا گلا گھونٹ دیا جاتاہے وہاں جمہوریت کی سانسیں بھی بند ہوجاتی ہیں۔ بدقسمت ہوتی ہیں وہ قومیں جہاں اقتدار حاصل کرلیاجاتاہے مگرسچ سننا اور برداشت کرنا تو درکنار سچ وحقیقت کی تلاش بھی جرم بن جاتی ہے۔ ایسی جمہوری حکومتیں عوام پر حکمرانی کا حق تو جتاتی ہیں لیکن خود احتسابی اور تنقید سےبچنےکےلئے زبانِ خلق کو گنگ رکھنا چاہتی ہیں۔حقیقت یہ ہےکہ نیت،مقصد اور جدوجہد نیک ہو تو کسی کاخوف نہیں رہتا بلکہ سوال مثبت ہو یا منفی، غلط ہو یا درست، مثبت سمت سے گمراہ نہیں کرسکتا اورنہ منزل سے بھٹکا سکتاہے۔شومئی قسمت کہ ہم گزشتہ دس سال سے جمہوریت کا پہیہ کامیابی سےچلانے کے دعویدار تو ہیں لیکن جمہوریت کےرکھوالے اور سلامتی کے ضامن صحافتی کردار کو اپنے ہاتھوں سے قتل کرکے فخر محسوس کررہے ہیں۔یہ سب کچھ وہاں ہورہاہے جس ملک کےبانی جناب محمدعلی جناح نے خود آزادیٔ اظہار اور صحافت کی آزادی کاسرخیل بن کر اپنی جدوجہد کو پوری قوم کی فتح میں تبدیل کیا۔ 1947ء کی جدوجہدِ آزادی سے بہت پہلے ہی جنگ، منشور، زمیندار، انجم اور برصغیر پاک و ہند کےدیگر جریدوں نے مسلمانانِ ہند کی الگ ریاست کے قیام کا عَلم اپنی خبروں، اداریوں، بحث مباحثوں اور تصویروں سےبلند کردیاتھا، ایسے میں بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح خود پریس کی آزادی کےلئے میدان میں آگئے۔1910ءمیں امپیریل لیجیسلیٹیو کونسل کا ممبر بننےکےبعد بطور قانون دان حکومت کے آزادی صحافت کو دبانے کے ’’پریس ایکٹ‘‘ کی مخالفت کی۔ آپ اس قوم کے پہلے اور واحد رہنما ہیں جس نے انگریزوں، ہندوئوں اور عالمی استعمار کی سیاسی، صحافتی و عددی مخالفت اور پروپیگنڈے سے نمٹنے کےلئے 7جون 1937ء میں پہلا آزاد پریس فنڈ قائم کرنے کا فیصلہ کیا جو 1939ء تک پورے برصغیر میں فعال ہوگیا۔ قائد اعظم نے شہر شہر جاکر 1لاکھ 50 ہزار روپے کی خطیر رقم کے فنڈز اکٹھے کئے،1941 میں قائد اعظم نے انگریزی زبان کےجریدے کو اپنی اور قوم کی آواز اور آئینہ قراردیا۔قائد اعظم محض آزادجمہوری ریاست کے موجد ہی نہیں تھے بلکہ آزاد صحافت کے بھی سرخیل تھے۔ 12مارچ 1947 میں بمبئی کی صوبائی مسلم جرنلسٹ ایسوسی ایشن سےخطاب میں واضح کردیاکہ صحافیوں کےپاس عظیم طاقت ہے،وہ عوام کی نظر میں کسی بڑی شخصیت کو بنا اور بگاڑ سکتےہیں۔پریس کےپاس عظیم طاقت محض’’ اعتماد‘‘ ہےجس کےحصول کےلئے پوری ایمانداری اور مخلصانہ انداز میںمکمل طور پر بلا خوف و خطرکام کریں۔وہ آزاد صحافت کی خاطر خود پر تنقید کوبھی خوش آمدید کہتےہیں، وہ یا مسلم لیگ، پالیسی یا کسی منصوبے کےمعاملے پر کوئی بھی غلطی کریں تو انہیں تنقید کانشانہ بنایاجائے وہ اس کو دوستانہ انداز میں برداشت کریں گے۔
قارئین! اندازہ لگائیں کہ عظیم قائد ایسے نازک موقع پر جب وہ خالی ہاتھ محض عوام کی سپورٹ اور اپنے بےداغ کردار سے علیحدہ سرزمین کےحصول کےمشکل ترین مرحلےمیں سرتوڑ کوششوں میں مصروف ہو،اپنی سیاسی جدوجہد کی کامیابی اور جمہوری اصولوں کی پاسداری کےلئے آزاد میڈیا کی بنیاد رکھ رہاہے لیکن آزادی کےبعد ڈکٹیٹرشپ اور جمہوری حکومتیں محض اقتدار کےلئے آزادیٔ اظہار پر کیسے کیسے کڑے پہرے اور قدغن لگاتی رہی ہیں، ماضی کے بعض واقعات سے شاید اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں،آج بھی اپنے اقتدار کو برقرار اور مضبوط رکھنے کے لئےحقِ تنقید ہی نہیں حقِ زندگی بھی چھینا جارہاہے۔
قارئین کرام! نیا سال مبارک ہو، نیا طرز سیاست اور حکومت مبارک ہو، نیا پاکستان مبارک ہو،قوم شکر گزار ہےکہ وطن عزیز میں جمہوریت قائم ہے، ریاستی ادارے آزاد اور فعال ہیں، احتساب کا عمل بلاتخصیص جاری ہے۔
لیکن یہاں توحد یہ ہےکہ بانی قائد نےجس پاک دھرتی کی جدوجہد میں آزاد و بلا خوف صحافت کی بنیاد رکھی اور آزاد و پیشہ ور اداروں کو مضبوطی سےسچائی پر قائم رکھنےکےلئےمتحدہ ہندوستان کے قریہ قریہ جاکر فنڈز اکھٹے کئے، اسی پاک سرزمین میں صحافتی اداروں اور کہنہ مشق صحافیوں کو دیوار سےلگایاجارہاہے۔ پاکستان میں اپنی محنت اور کوششوں کےبل بوتے پر تیز رفتار ترقی اور مقام بنانے والےالیکٹرونک میڈیا کو وطن عزیز کے روشن چہرے اور حکمرانوں کی کوتاہیوں کو دکھانے سے روکنے کےلئے کوڑی کوڑی کامحتاج کیاجارہاہے۔ گزشتہ جمہوری دور میں وفاق اور صوبوں نے اخبارات اور چینلزکو8ارب کےاشتہارات دئیے مگر جمہوری تسلسل کے نئے حکمران ان جائز ادائیگیوں کو بھی تیار نہیں۔ نتیجتاً قیامِ پاکستان کے لئے بھرپور کردار اداکرنے والے صحافتی اداروں کا کاروبار ٹھپ، آزادیٔ اظہار کے علمبردار خاموش اور عوام کو حق وسچ سے آگاہی دینے والے سینکڑوں عامل صحافی بے روزگار ہو رہے ہیں۔ ایسے میں محض صحافت کو ذریعہ معاش وروزگار بنانے والے ادارے لاچار اور ہدف تنقید ہیں۔ صحافتی پیشے کی بے بسی نوشتۂ دیوار ہے۔ریاست کے چوتھے ستون کو ہٹاکر آپ سب ایک دن اپنے گناہوں کے بوجھ سے زمین بوس ہو جائیں گے اور پھر اس عمارت کو کھڑا کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہو جائے گا۔ دنیا پر حکمرانی کرنے والےجمہوری ملک امریکہ کا آئین1787 ء میں بنا جس کی پہلی شق ہی آزادیٔ اظہار ہے، جو اسکول کےبنیادی نصاب میں بچوں کو پڑھانا لازمی ہے، اسی جمہوری ریاست میں چوتھے منتخب صدر جیمز مڈیسن نے کینٹکی کےگورنر کو خط لکھ کر آگاہ کیا تھا کہ ایک مقبول حکومت اطلاعات یا اطلاعات دینے والے صحافتی اداروں کی عدم موجودگی سے مذاق اور سانحات کا شکار ہو سکتی ہے، عوام کو آزاد معلومات سے مسلح کریں، وہ آپ کو اپنا سمجھیں گے۔
وقت آ گیا ہے کہ نئے سال کی شروعات پر ہم عزم کریں کہ اپنے ارادوں کو مضبوط اور دلوں کو کشادہ کریں گے، نئے پاکستان کی تعبیر کیلئے سچائی سننے کی ہمت اور تنقید سہنے کی برداشت پیدا کریں گے۔ تالے بندیوں اور گردن زنی کے آمریتی ہتھکنڈوں سے نجات پا لیں گے اور حق اور سچ کو آشکار ہونے دیں گے کیونکہ جھوٹ اور گمراہی ہی زوال کے بنیادی اسباب ہیں۔

بدھ، 30 جنوری، 2019

عثمان بزدار کی سادگی اور ’’حرکت تیز تر‘‘ ماڈل

عثمان بزدار کی سادگی اور ’’حرکت تیز تر‘‘ ماڈل
عثمان بزدار کو مبارک ہو۔ اپنے کپتان کی خواہش کے مطابق وہ ’’وسیم اکرم پلس‘‘ تو نہیں بن پائے مگر تحریک انصاف کے شدید ترین ناقد بھی ان سے ہمدردی محسوس کرنا شروع ہوگئے ہیں۔سوشل میڈیا پر ان کا مذاق اُڑاتی کلپس کی بھرمار سے اُکتاگئے ہیں۔بزدار صاحب سے ہمدردی جتانے والے اب یاد دلانا شروع ہوگئے ہیں کہ موصوف کا تعلق جنوبی پنجاب کے ایک پسماندہ ترین علاقے سے ہے۔ اٹک سے رحیم یار خان تک پھیلے پاکستان کے آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑے صوبے کے حکمران بن جانے کے بعد ان میں غرور نہیں آیا۔ اپنی سادگی برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ یہ سادگی کہیں سے بھی پرکاری نظر نہیں آتی۔ ’’ممی ڈیڈی برگرز‘‘ مگر شہری تعصب میں مبتلا ہوئے اس ’’پینڈو‘‘ کو طنز ومزاح کا نشانہ بنائے ہوئے ہیں۔اپنی بات بڑھانے سے قبل اعتراف کرتا ہوں کہ ذاتی طورپر میں بھی بزدار صاحب کی تضحیک مناسب نہیں سمجھتا۔ میری فکر تو یہ ہے کہ ان کی سادگی پر فوکس کرتے ہوئے ہم پنجاب کی سیاست کے حوالے سے کئی اہم ترین پہلو اور سوالات نظر انداز کئے ہوئے ہیں۔میری دانست میں اہم ترین بات یہ جاننا ہے کہ عثمان بزدار سے ’’اصل شکایت‘‘ کیا ہے اور یہ کن لوگوں کو پریشان کئے ہوئے ہے۔ ان لوگوں کی نشاندہی کے لئے ضروری ہے کہ ہم ذہن میں رکھیں کہ شہباز شریف 2008ء سے 2018ء تک مسلسل پنجاب کے وزیر اعلیٰ رہے۔پنجاب کے وزیر اعلیٰ ہوتے ہوئے شہباز شریف کا رویہ اپنی جماعت کے ایم پی ایز کے ساتھ بہت دوستانہ نہیں تھا۔ ترقی اور گڈگورننس کا جو ماڈل انہوں نے متعارف کروایا اسے سیاست کے سنجیدہ طالب علم 
Top Down Model
پکارتے ہیں۔ اس ماڈل پر عمل کرنے والا سیاست دان اپنے گرد بیوروکریٹس اور ٹیکنوکریٹس کا ایک Core Group
اکٹھا کرتا ہے۔ اس گروپ کی معاونت سے میٹروبس جیسے میگا پراجیکٹس بنائے جاتے ہیں۔انڈر پاسز اور اوورہیڈ پلوں کے ذریعے شہروں کی ایک ’’جدید‘‘ تصویر بنائی جاتی ہے۔یہ ماڈل ’’حرکت تیز تر ہے…‘‘ والی کیفیت 24/7بنیادوں پر برقرار رکھتا ہے۔’’حرکت تیز تر ہے…‘‘ والی کیفیت نے گجرات سے ساہی وال تک پھیلے وسیع ترین وسطی پنجاب میں پاکستان مسلم لیگ نون کا ایک بہت ہی مضبوط ووٹ بینک تشکیل دیا ہے۔ نواز شریف کی نااہلی اور شہباز شریف کی کرپشن الزامات کے تحت گرفتاری اس ووٹ کو متاثر نہیں کر پائی ہے۔ اسی باعث
 PMLN
میں فارورڈ بلاک کا قیام بہت دشوار نظر آرہا ہے۔یہ بلاک قائم نہ ہوا تو پنجاب میں تحریک انصاف پاکستان مسلم لیگ (ق) جیسے اتحادیوں کی محتاج رہے گی۔ مستحکم نہ ہوپائے گی اور آئندہ انتخابات کے دوران اس کے ٹکٹ پر کھڑے امیدواروں کو اتنے ووٹ اور سیٹیں حاصل کرنا بھی دشوار تر ہوجائے گا جو اسے اگست 2018ء میں میسر ہوئی تھیں۔ ’’مائنس نواز‘‘ ہوجانے کے باوجود وسطی پنجاب میں ان کے نام سے منسوب جماعت کا ووٹ بینک اصل مسئلہ ہے جسے کمزور کرنے میں بزدار صاحب کوئی کردار نہیں ادا کر پائے۔سوال مگر یہ اٹھتا ہے کہ مذکورہ ووٹ بینک کو تحریک انصاف کی جانب راغب کرنے کے لئے چودھری سرور یا علیم خان کیا کردار ادا کررہے ہیں۔ ان دونوں کو ہر حوالے سے ’’فری ہینڈ‘‘ میسر ہے۔ لاہور سے ڈاکٹر یاسمین راشد کئی برس تک تحریک انصاف کی جاندار پہچان رہی ہیں۔وہ ایک بااختیار وزیر صحت بھی ہیں۔ اپنے اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے مگر انہوں نے وسطی پنجاب میں صحت عامہ کی سہولتوں میں ’’انقلابی‘‘ تبدیلیاں نہیں دکھائیں۔ تحریک انصاف کے ہر حوالے سے مہربان کہلانے کے مستحق عزت مآب ثاقب نثار بھی ان سے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے اپنے عہدے سے رخصت ہوئے۔ وسطی پنجاب کے لئے تحریک انصاف کی پہچان اب صوبائی وزیر اطلاعات وثقافت جناب ضیاض الحسن چوہان ہیں۔وہ اپوزیشن پر تابڑتوڑ حملوں سے تحریک انصاف کی غصہ بھری 
Base
کو خوش رکھتے ہیں۔ تحریک انصاف کا پڑھے لکھے طبقات سے تعلق رکھنے والا حامی مگر خود کو ان سے 
Identify 
نہیں کرپاتا۔ ان کے سوا تحریک انصاف کے پیغام کو وسطی پنجاب میں پھیلاتا کوئی اور نظر نہیں آرہا۔وسطی پنجاب میں نواز لیگ کے ووٹ بینک کو زک پہنچانا اصل ٹارگٹ ہے۔ عثمان بزدار کی حکومت یہ ٹارگٹ حاصل کرنے میں ناکام نظر آرہی ہے۔ لاہور، گوجرانوالہ،سیالکوٹ، وزیر آباد سے لے کر ساہی وال تک پنجاب میں سیاسی ماحول فی الوقت جامد ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ سیاست میں جمود مگر ہمیشہ عارضی ہوتا ہے۔ لوگوں کے دلوں میں بیگانگی بڑھتی رہے تو بالآخر احتجاجی تحریکوں کی صورت پھوٹ پڑتی ہے۔برطانوی سرکار نے پنجاب پر اپنا تسلط مستحکم کرنے کے بعد ’’یونینسٹ پارٹی‘‘ کے ذریعے بڑے جاگیرداروں اور شہری’’شرفا‘‘ کا ایک طبقہ ٹوڈیوں کی صورت جمع کیا تھا۔ نظر بظاہر اس جماعت نے کئی برس تک پنجاب میں ’’جی حضوری‘‘ والی فضا برقرار رکھی۔اقبال مگر اسے ’’خوئے غلامی‘‘ کہلاتے ہوئے بلبلااُٹھے۔ مولانا ظفر علی خان کا ’’زمیندار‘‘ اخبار لوگوں کو بغاوت پر اُکسانے لگا۔مجلس احرار نے مستقل احتجاج کی صورت بنادی۔احتجاج کی اس روایت کی بنا پر ہی قیام پاکستان کے صرف چھ سال بعد لاہور میں مارشل لاء لگانا پڑا تھا۔1953ء کے بعد والے سالوں کو نظرانداز کرتے ہوئے ہم 70ء کی دہائی میں آجائیں تو ذوالفقار علی بھٹو نے 1977ء تک پنجاب میں ’’استحکام‘‘ کی فضا برقراررکھی۔ اس برس ہوئے انتخابات کے بعد بنیادی طورپر وسطی پنجاب کے شہروں ہی سے ’’دھاندلی‘‘ کے خلاف ایک تحریک اُبھری جس کے نتیجے میں مارشل لاء لگانا پڑا۔ اس مارشل لاء کی طوالت کا اصل سبب یہ تھا کہ وسطی پنجاب کے لاہور،گوجرانوالہ اور وزیر آباد جیسے شہروں میں چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری حضرات مطمئن تھے۔ خلیجی ممالک میں گئے پنجابیوں کی بھیجی رقوم سے 
Upward Mobility
کا سلسلہ شروع ہوچکا تھا۔ پراپرٹی کا دھندا عروج کو پہنچا۔ نئی بستیاں آباد ہوئیں۔ دیہاتوں سے شہروں میں منتقل ہوکر کسی زمانے میں ’’کمی‘‘ کہلاتے گھرانے خوش حال متوسط طبقے کی صورت اختیار کرنے لگے۔نواز شریف اور ان کی جماعت کی 
Core Constituency
مذکورہ بالا طبقات تھے۔تحریک انصاف اس 
Constituency
میں اپنی جگہ بنانے میں ابھی تک کامیاب نہیں ہوئی ہے اور بنیادی وجہ اس کی عثمان بزدار نہیں اسد عمر کی متعارف کردہ اقتصادی پالیسیاں ہیں۔ان پالیسیوںکی وجہ سے بجلی اور گیس کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں۔ روزگار میں کمی واقع ہوئی ہے۔ کاروباری طبقے نے مختلف النوع وجوہات کی بنا پر نئی سرمایہ کاری سے ہاتھ کھینچ رکھا ہے۔عثمان بزدار کی جگہ کوئی اور شخص بھی پنجاب کا وزیر اعلیٰ بن جائے تو وفاقی حکومت کی موجودہ اقتصادی پالیسیوں کی وجہ سے لاہور،وزیر آباد،سیالکوٹ وغیرہ میں ’’رونق‘‘ لگی نظر نہیں آئے گی۔یہ رونق طویل عرصے تک معدوم نظر آئی تو کسی نہ کسی نوعیت کی احتجاجی تحریک پھوٹ پڑے گی۔جس سے نبردآزما ہونا تحریک انصاف کے لئے تقریباً ناممکن ہوجائے گا۔انگریزی محاورے کے مطابق اصل مسئلہ 
"It is the Economy Stupid"
کا ہے۔عثمان بزدار کی سادگی کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔

نظام کی تبدیلی؟

نظام کی تبدیلی؟
ذوالفقار علی بھٹو نے ستمبر 1977ء میں جنرل ضیاء الحق کی مارشل لاء حکومت کے ہاتھوں گرفتاری سے پہلے راولپنڈی کے آرمی ہاؤس میں اگست کے آخری ہفتے میں جنرل ضیاء الحق سے اپنی ملاقات کے بارے میں اپنی کتاب ’’میرا پاکستان‘‘ میں لکھا ہے کہ اس ملاقات میں جنرل ضیاء الحق نے بات چیت کے دوران کہا کہ میں حیران ہوں کہ آپ جیسے تجربہ کار اور جہاندیدہ سیاست دان نے پارلیمانی نظام کیسے قبول کرلیا۔ یہ نظام تو ملک کو سیاسی استحکام نہیں دے سکتا۔ مسٹر بھٹو نے لکھا کہ جنرل ضیاء الحق نے مجھ سے ملک کو مستقبل میں سیاسی طور پر مستحکم بنانے کے لیے میری رائے پوچھی تو میں نے جواباً جنرل کو بتایا کہ انہیں اس معاملے پر رائے دینے کے لیے ان کے پاس اے کے بروہی اور شریف الدین پیرزادہ ایسے مشیر موجود ہیں آپ ان سے مستقبل کے سیاسی نقشے پر رائے لیں وہ آپ کو زیادہ بہتر مشورہ دے سکتے ہیں۔ مسٹر بھٹو نے جنرل ضیاء الحق کے اس استفسار کے بارے میں اپنی رائے دیتے ہوئے لکھا کہ ایک طرف چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر نے ملک میں نوے دن میں انتخابات کرا کر اقتدار منتخب نمائندوں کے حوالے کرنے کا اعلان کر رکھا تھا اور دوسری طرف وہ پاکستان کے مستقبل کے سیاسی نظام کے ایک نئے خاکے پر صلاح مشورہ کررہا تھا۔1977ء کے مارشل لاء کے بعد فوجی حکومت نے ایک ’’الیکشن سیل‘‘ بھی قائم کیا تھا جس کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل فیض علی چشتی تھے یہ سیل مختلف سیاسی جماعتوں سے پارلیمانی نظام کی جگہ کسی دوسرے جمہوری نظام کے بارے مشورے کرتا رہا۔ یہ سیل CELL متناسب نمائندگی کی بنیاد پر انتخابات کرانے پر سنجیدگی سے غور کرتا رہا اس وقت جماعت اسلامی متناسب نمائندگی پُر جوش حامی تھی۔ اس دور میں جرمنی اور فرانس کے جمہوری نظام کو پاکستان میں آزمانے پر بھی بحث ہوتی رہی۔ 1985ء میں جنرل ضیاء الحق نے جو انتخابات کرائے وہ غیر جماعتی بنیادوں پر کرائے۔
وطن عزیز میں کچھ عرصہ کے بعد نظام کی تبدیلی کی بحث شروع ہو جاتی ہے ان دنوں بھر ملک میں صدارتی نظام کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ پارلیمانی نظام کے بارے میں کچھ طبقوں کی رائے یہ ہے کہ یہ نظام ایک تو ملک میں سیاسی استحکام پیدا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ دوسرا ملک میں اچھی حکمرانی اور کرپشن کا خاتمہ بھی اس نظام میں ممکن نہیں ہے۔ پارلیمانی نظام برطانیہ‘ بھارت اور کئی دوسرے ملکوں میں کامیابی سے چل رہا ہے۔ اپنی خامیوں کے باوجود یہ نظام ان ملکوں میں ڈیلیور کر رہا ہے۔ ملک کے انتظامی معاشی اور سکیورٹی مسائل بھی حل ہورہے ہیں۔ پاکستان میں چونکہ پارلیمانی نظام چلانے والوں کی نیت اور اہلیت اس نظام کو کامیاب بنانے کے راستے میں رکاوٹ بنتی ہے اسی لیے پارلیمانی نظام پر کچھ عرصے کے بعد نکتہ چینی شروع ہو جاتی ہے اور ایسے سیاسی عدم استحکام ملکی مسائل کا ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے ۔
پاکستان کی تاریخ میں پہلے فوجی حکمران فیلڈ مارشل ایوب خان صدارتی نظام کا تجربہ کر چکے ہیں۔ جنرل ایوب خان نے 1962 ء کا جوآئین قوم کو دیا تھا اس کے تحت صدارتی نظام رائج کیا گیا تھا۔ 1962 ء کے آئین کے تحت بالغ رائے دہی کی بنیاد عام لوگوں کو ارکان پارلیمنٹ اور صدر کے منصب کے لئے ووٹ ڈالنے کے حق سے محروم کردیا گیا تھا۔ ایک بالواسطہ جمہوری نظام رائج کیا گیا تھا۔ متحدہ پاکستان میں عام آدمی کو مغربی اور مشرقی پاکستان میں بنیادی جمہوریت کے تصور کے تحت دونوں صوبوں میں چالیس چالیس ہزار نمائندے چننے کا اختیار دیا گیا تھا۔ یہ نظام 1962 ء سے مارچ 1969 ء میں دوسرے مارشل لاء لگنے تک چلتا رہا۔ مغربی اور مشرقی پاکستان کے 80 ہزار نمائندے جنہیں BD ممبر کہا جاتا تھا۔ ارکان اسمبلی اور صدر کو منتخب کرتے تھے۔ اس نظام کے تحت صدر جنرل ایوب خان نے قائداعظم محمد علی جناح کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح کو 1964 ء کے صدارتی انتخابات میں شکست دی تھی۔ اپوزیشن جماعتوں نے ان انتخابات کو غیرمنصفانہ اور MANIPULATED قرار دیا تھا۔ اپوزیشن کا دعویٰ تھا کہ جن 80 ہزار ارکان نے صدارتی انتخاب میں ووٹ ڈالے تھے انہیں دباؤ اور لالچ سے ایوب خان کے حق میں ووٹ دینے پر مجبور کیا گیا۔ سیاسی تجزیہ کاروں اور تاریخ دانوں کے ایک طبقے کی رائے ہے کہ 1964 ء کا یہی صدارتی انتخاب ایوب خان کے اقتدار کو لے ڈوباکیونکہ اس میں ہونے والی دھاندلی نے اپوزیشن جماعتوں کو متحد کیا اور انٹی ایوب تحریک کا راستہ ہموار ہوا۔ 1968 ء میں ایوب مخالف تحریک دونوں صوبوں میں عروج پر پہنچ گئی۔ جنرل ایوب خان کو سیاست دانوں سے مذاکرات کرنا پڑے۔ اپوزیشن کے مطالبے پر صدارتی نظام کی جگہ پارلیمانی نظام اور ون مین ون ووٹ کی بنیاد پر انتخابات منعقد کرنے اور ون یونٹ توڑ کر مغربی پاکستان کے چار صوبے بحال کرنے کے مطالبات ایوب خان نے مان لئے۔ یہ الگ بات ہے کہ ایوب خان کو یہ وعدے پورے کرنے کا موقع نہ ملا۔ جنرل یحییٰ خان نے 1969 ء میں مارشل لاء لگا دیا۔ جنرل یحییٰ خان نے دسمبر 1970 ء میں جو انتخابات کرائے ان کے نتیجے میں پارلیمانی نظام بحال ہوا۔ لیکن ملک دو لخت ہو گیا۔
ایک مرتبہ پھر پاکستان میں کچھ حلقے صدارتی نظام کی بحث چھیڑ رہے ہیں صدارتی نظام کو ایک مرتبہ تو پاکستانی قوم مسترد کر چکی ہے شاید اسے پھر آزمانے کی کوشش کی جائے۔ یہاں آزمائے ہوئے کو آزمانے کی روایت موجود ہے۔

پی ٹی آئی کےحامیوں کے خواب اور حقیقت

ڈاکٹر مفتاح اسماعیل


میری خوش قسمتی ہے کہ میرے بہت سے دوست مختلف سیاسی جماعتوں کی حمایت کرتے ہیں لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ دوستی سیاسی وابستگیوں سے کہیں زیادہ اہم ہوتی ہے مگر آج کل میرے کچھ دوست جو پی ٹی آئی کے حامی تھے یا ابھی بھی ہیں، کسی قدر دفاعی انداز اختیار کر گئے ہیں۔ شاید یہ استفسار کرنا درست نہ ہو لیکن میں اُن سے پوچھے بغیر نہیں رہ سکتا کہ کیا وہ دکھائی دینے والی تبدیلی سے خوش ہیں؟ حسن نثار صاحب جیسے چند ایک احباب تو مایوس دکھائی دیتے ہیں۔ اُنہیں پی ٹی آئی سے اس قدر اناڑی پن کی توقع نہ تھی۔ ان کے غصے کا رخ پی ٹی آئی کی معاشی ٹیم کی طرف ہے۔ میرے احباب میں سے اکثر ابھی تک پی ٹی آئی کی حمایت کر رہے ہیں۔ ایسے افراد کا شمار دو گروہوں میں ہوتا ہے۔ پہلے گروہ میں وہ افراد شامل ہیں جن کا کہنا ہے کہ اتنے کم عرصہ میں پی ٹی آئی کی پالیسیوں اور کارکردگی کو جانچنا درست نہیں۔ نتائج کی پرکھ کیلئے چھ ماہ ایک قلیل عرصہ ہے۔ میں اُن سے پوچھتا ہوں کہ کیا وہ ابتدائی نتائج کو حوصلہ افزا پاتے ہیں یا اگر ابتدائی نتائج کیلئے بھی یہ عرصہ کم ہے تو کیا وہ پی ٹی آئی کی کوششوں سے مطمئن ہیں؟ کیا پی ٹی آئی خوش کن نعروں کے سوا بھی کچھ کر رہی ہے؟ کیا حکومت کی سمت درست ہے؟ احباب سے ان سیدھے سادے سوالات کا جواب بھی نہیں بن پڑتا۔ دوسرے گروہ کا خیال ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت اتنے عقربی مسائل چھوڑ گئی ہے کہ اُنہیں درست کرنے میں پی ٹی آئی کو بہت زیادہ وقت اور محنت درکار ہے۔ اُن میں سے کچھ کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی دراصل گزشتہ 70برس کا گند صاف کر رہی ہے۔ گویا گزشتہ سات عشروں سے کسی حکومت نے پاکستان کیلئے کچھ نہیں کیا۔ اب رادھا کیلئے نو من تیل کا اہتمام پی ٹی آئی کو ہی کرنا ہے۔مجھے کہنے کی اجازت دیجیے کہ اگر مسلم لیگ (ن) اور قائم ہونے والی دیگر حکومتیں ہی مسائل کی جڑ تھیں تو اُن کی حکومتیں ختم ہوتے ہی بہت سے مسائل خود بخود حل ہو جاتے۔ کیا اس وقت ایک ایماندار، ذہین، منکسر المزاج اور اپنے کام کیلئے پوری طرح تیار رہنما اقتدار میں نہیں؟ کیا اس سے ایک واضح فرق دکھائی نہیں دینا چاہیے؟ یا پھر میں ہی جانبداری کا شکار اپنے اردگرد بہتری دیکھنے سے قاصر ہوں؟
مجھے تو یہ دکھائی دیتا ہے کہ آج مہنگائی گزشتہ چار برسوں میں بلند ترین سطح پر ہے، حکومت اتنے قرضے لے رہی ہے جس کی مثال ہماری تاریخ پیش کرنے سے قاصر ہے، سود کے نرخ گزشتہ چار برسوں میں بلند ترین ہیں، محصولات جمع کرنے کے اہداف پورے نہیں ہو پائے ہیں، اس سال خسارہ پہلے سے کہیں زیادہ رہنے کی توقع ہے۔
اس ضمن میں احباب کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کو مسلم لیگ (ن) کے قرضوں کی واپسی کیلئے قرض لینا پڑ رہا ہے لیکن پھر یہی بات میں بھی کہہ سکتا ہوں کہ مسلم لیگ (ن) کو پی پی پی حکومت کے قرضوں کی واپسی کیلئے قرض لینا پڑا۔ پی پی پی کے پاس بھی یہی جواز ہو گا کہ اُس نے جنرل مشرف کے قرضوں کی واپسی کیلئے قرضے لیے۔ ممکن ہے کہ یہاں ہم سب درست، یا ہم سب غلط ہوں لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) غلط ہوں اور اکیلی پی ٹی آئی درست ہو۔
پھر لیے جانے والے قرضوں کے حجم کا بھی ایشو ہے۔ اگر آج پی ٹی آئی اُس سے کہیں زیادہ قرض لے رہی ہے جو مسلم لیگ (ن) نے کبھی لیے تھے، تو پھر آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ محض لیے گئے قرضوں کی واپسی کیلئے ہیں۔ درحقیقت پی ٹی آئی ماضی کے قرضوں پر صرف سود ہی ادا نہیں کر رہی، وہ نئی حکومت کے اخراجات بھی ملنے والے قرضوں سے پورے کر رہی ہے۔ پی ٹی آئی میں میرے احباب، خاص طور پر جو بہت زود اثر اور حساس ہیں، کو رات کو جب نیند نہیں آتی تو سوچتے تو ہوں گے کہ اُن کی توقعات کی شہزادی کس دیو کی قید میں ہے؟ عرض ہے کہ چلیں سمندر پار چھپائے گئے200 بلین ڈالرز کو بھول جائیں، اُنھوں نے واپس نہیں آنا تھا لیکن منی لانڈرنگ کے ذریعے بیرونی دنیا میں منتقل ہونیوالے سالانہ بارہ بلین ڈالر کا کیا ہوا؟ یقیناً پی ٹی آئی تو منی لانڈرنگ نہیں کرتی، وہ رقم تو محفوظ ہی ہو گی، تو پھر ہم اسٹیٹ بینک میں ڈالرز کے حجم میں اضافہ کیوں نہیں دیکھتے؟
یہاں یہ سوال بھی ضرور بنتا ہے کہ آپ شہباز شریف جیسے ’’سست اور کام چور‘‘ لیڈر کا سیاست کے ’’وسیم اکرم پلس‘‘ سردار عثمان سے موازنہ کیسے کریں، جن کے ایک ایک کام سے وژن، کشش اور صلاحیت لشکارے مار رہی ہے (عثمان بزدار کو وسیم اکرم کی مثل قرار دینا موخر الذکر کو یقیناً پسند نہیں آتا ہو گا) شہباز شریف کا ذکر کرتے ہوئے مجھے اُن کی ایوان میں کی گئی مختصر سی تقریر کی یاد آ گئی، جو اُنھوں نے فنانس منسٹر کے منی بجٹ سے پہلی کی تھی۔ یہ موصوف کا تین ماہ میں دوسرا منی بجٹ تھا۔ اپنی تقریر میں لیڈر آف دی اپوزیشن شہباز شریف نے وزیراعظم پر اُسی طرح تنقید کی جس طرح عمران خان اپنے اپوزیشن کے دنوں میں حکومت پر کیا کرتے تھے۔ اس پر وزیراعظم نے قومی اسمبلی کا اجلاس ہی ختم کر دیا۔
پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ فنانس بل پیش کرنے کے بعد حکومت نے اسے پاس کرائے بغیر قومی اسمبلی کا اجلاس منقطع کر دیا ہو۔ وزیراعظم نے لیڈر آف اپوزیشن کی تقریر کو اپنی شان میں گستاخی جانا اور اجلاس ختم کر دیا۔ ایک طویل عرصے تک سابق وزیر اعظم، نواز شریف پر کسی مغل بادشاہ کی طرح برتائو کرنے کا الزام لگتا رہا لیکن جو لوگ اُنہیں قریب سے جانتے ہیں، اور جنہوں نے اُن کے ساتھ کام کیا ہوا ہے، اُن کا تجربہ اس کے برعکس ہے۔ نواز شریف درحقیقت شریف النفس، مہربان اور روادار انسان ہیں اور بسا اوقات اُن کی فطری رواداری ہی اُن کا قصور بن جاتی ہے۔
نواز شریف پر شاہی رویہ روا رکھنے کا الزام لگانے والوں میں موجودہ وزیراعظم پیش پیش تھے لیکن اب جب پہلی مرتبہ اسمبلی میں اُن پر براہ راست تنقید کی گئی تو وہ برداشت نہیں کر پائے۔ مجھے خوشی ہے کہ پی ٹی آئی اسمبلی سے کوئی بل منظور نہیں کراتی وگرنہ ممکن ہے کہ ہم وزیراعظم کی توہین کو بھی قابلِ مواخذہ جرم بنتا دیکھتے۔ ہمارے ہاں مغربی جمہوریت کیا پنپنی تھی، ہم قرونِ وسطیٰ کے مغرب کی طرح شہنشاہ کی توہین کو جرم بنتا دیکھنے جا رہے ہیں۔

نئے پاکستان کی کنفیوژڈ کہانی


آصف علی بھٹی


چھ ماہ پہلے معرضِ وجود میں آنے والے نئے پاکستان میں اک بھونچال برپا ہے جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا- چھ ماہ کے دوران مالیاتی خسارہ دو ارب ماہانہ کےحساب سے مسلسل بڑھ رہا ہے، قرضوں کےبوجھ میں کمی کے بجائے اضافہ ہو رہا ہے اور زرمبادلہ کے ذخائر روز بروز گر رہے ہیں، عوام کو اچھے کی آس امید دلانے کے لئے دو ضمنی بجٹ بھی آ چکے ہیں، حالیہ ضمنی بجٹ کے اندازے و تخمینے چار ماہ پہلے کے منی بجٹ کے برعکس دکھائی دیتے ہیں۔ دعوئوں اور وعدوں کی مشکلات اور پریشانیاں بڑھنے سے عوام کی امیدیں ماند پڑتی دکھائی دے رہی ہیں۔
بلاشبہ خان حکومت پر اب تک کرپشن کا کوئی داغ نہیں لیکن نااہلی اور عدم استعداد کا دھبہ کیا اس سے کہیں زیادہ برا نہیں؟ اب یہ بات جناب وزیراعظم کو بھی سمجھ آ رہی ہے، انہوں نے ابتدا میں بھجوائی گئی ’’تگڑی‘‘ ٹیم کے ڈھیر ہونے کے خطرات کو بھی بھانپ لیا ہے لیکن بوجوہ اس کو تبدیل کرنے کی ہمت نہیں کر پا رہے، تاہم وقتی حل کے طور وہ بیک وقت اپنی ذاتی آل رائونڈر صلاحیت کو آزمانے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ وفاق کی سطح پر کم از کم پانچ ترجمانوں کے باوجود حکومت کی حالت یا پرفارمنس کی درست ترجمانی کرنے والا کوئی نظر نہیں آتا، وفاق میں چھوٹے بڑے وزرا و مشیر بیچارے جھنڈے والی گاڑیوں، درجنوں ملازموں، مفت بجلی، پانی، ٹیلیفون، پیٹرول اور ایئر ٹکٹس کی سہولتوں سمیت وزرا کالونی کے مزے لوٹ کر وزیراعظم کی سادگی پسند حکومت کے دعوئوں کا تو منہ چڑا ہی رہے ہیں، رونا تو یہ ہے کہ دو اہم صوبوں کے سادہ طبیعت وسیم اکرم پلس اور انضمام الحق کی کارکردگی بھی ایسی ہے کہ بیچارے کپتان کو ہر روز ان کی وکالت اور پرفارمنس کے لئے بھی بیان دینا پڑتے ہیں۔ یہی نہیں وزرا کی زبان درازی کا خمیازہ بھی کپتان کو منتخب ایوان میں ناپسندیدہ ذاتی حملوں کی صورت سہنا پڑتا ہے۔ یہ سب کچھ تو پریشانی کا سبب بن ہی رہا ہے لیکن نئی نویلی حکمرانی کے انداز کا دوسرا اہم پہلو اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ ہے اور وہ ہے مسلسل بڑھتی کنفیوژن جس سے عوام کو آگے بھی اندھیرا دکھائی دے رہا ہے اور ان کے حوصلے پست ہو رہے ہیں۔ عوام سوچتے ہیں کیا انصافی حکومت ہے کہ جو چھوٹی چھوٹی گستاخیوں پر بے گناہ اعلیٰ پولیس افسران کو سخت سزائیں دے لیکن سرعام جیتے جاگتے معصوم انسانوں کے قاتلوں اور ان کی پشت پناہوں کو مجرم کہنے سے بھی عاری ہو۔ لگتا ہے کہ کسی بھی سطح پر فیصلہ سازی یا نئے مجوزہ اقدامات پر کوئی مربوط و ٹھوس حکمت عملی نہ ہونے کے سبب عوام و خواص کی بے چینی آئے روز بڑھتی جا رہی ہے اور کنفیوژن کو دور کرنے کا حل یہ نکالا گیا ہے کہ مزید کنفیوژن پیدا کر دی جائے۔
چھ ماہ کےدوران ملکی سطح پر اب تک کوئی بڑا فیصلہ یا کامیابی تو سامنے نہیں آ سکی البتہ ڈوبتی معیشت کے سہارے کے لئے برادر ملکوں سے اربوں ڈالر کی سود پر ملنے والی امداد کو بڑی کامیابی قرار دیا جا رہا ہے، جو بقول شہباز شریف اور مسٹر زرداری، دوست ملکوں سے امداد بھی سپہ سالار کی کوششوں کے طفیل مل رہی ہے، حکومت کا اس میں کوئی کمال نہیں۔
کنفیوژن یہ ہے کہ معاملہ مانگ تانگ اور ادھار سے کب تک چلے گا؟ دگرگوں معاشی حالات کا حقیقی حل کیا ہے؟ گزشتہ حکومت کے درجنوں ترقیاتی منصوبوں سمیت بجلی بنانے کے پلان بھی روک دئیے گئے سب باتیں چھوڑیں مگر یہ تو واضح کر دیں کہ سردیوں میں گیس نہ ہونے پر ٹھٹھر کر لحافوں سے گزارہ کرنے والے بے بس عوام کو کیا آئندہ گرمیوں میں ٹھنڈے پسینے پر صبر و شکر کرنا پڑے گا یا لوڈشیڈنگ کے بچائو کی کچھ تدابیر کر رہے ہیں؟ یہی وہ کنفیوژن ہے جس کو دور کوئی نہیں کر رہا۔
ایک کروڑ نوکریوں اور 50لاکھ گھروں کا وعدہ تو جانے کب ایفا ہوگا لیکن کوئی تو اس گتھی کو سلجھائے کہ لاکھوں بیروزگار اور تجاوزات کے نام پر بے گھر ہونے والوں کو اب آباد کون اور کب کرے گا؟ بقول خواجہ آصف ترقی کی شرح ساڑھے چھ سے گر کر ساڑھے تین پر آنے سے سالانہ 7لاکھ افراد کے بیروزگار ہونے کا خدشہ پیدا ہو رہا ہے، اس کنفیوژن کو حکومت دور نہیں کرے گی تو کون کرےگا؟خدا خدا کرکے حکومت اپوزیشن کی مارا ماری کے بعد چیئرمین پی اے سی اور کمیٹیوں کا معاملہ حل ہوا لیکن فوجی عدالتوں میں توسیع سمیت قانون سازی کے معاملات جوں کے توں ہیں، سیاسی محاذ آرائی کا ماحول پارلیمنٹ کے ایوانوں کو مسلسل پراگندہ کر رہا ہے۔ شاید عوام کو مزید کنفیوژ کیا جا رہا ہے کہ وہ سیاست کے اس چال چلن کو دیکھ کر جمہوریت سے توبہ کر لیں۔
کرپشن کےخلاف نعروں اور ایکشنز پر بھی کنفیوژن بڑھتی جا رہی ہے، دو بڑی جماعتوں کے سربراہوں اور اہم قائدین کےخلاف کرپشن کے سنگین الزامات پر کارروائیاں جاری ہیں لیکن بیماریوں اور تکلیفوں کی خبروں سے محض کنفیوژن ہی نہیں، ڈیل کا تاثر بھی پیدا کیا جا رہا ہے جس کا ممکنہ کلیدی کردار اور سہولت کار چھوٹا بھائی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ پہلے چھوٹے میاں اور پھر بڑے میاں بیماری کے علاج اور خاطر خواہ خفیہ ادائیگیوں کے بعد بیرون ملک جانے والے ہیں، چھوٹے بھائی کے بیٹوں اور داماد کو حالیہ ریلیف دینا اس کا غماز ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ بڑے بھائی اور تیمارداری کے لئے بیٹی کا باہر جانا بھی ٹھہر گیا ہے۔ سیاست میں سب پہ بھاری شخصیت کی اہم کیسز میں عدم گرفتاری اور ای سی ایل سے نام نکالا جانا بھی معاملات طے ہونے کی طرف اہم قدم قرار دیا جا رہا ہے۔ پتا نہیں خان صاحب کی ’’کوئی این آر او نہیں ملےگا‘‘ کی دھمکیوں اور ملک لوٹنے والوں کو اندر کرنے کی گردان پر کوئی یقین کرنے کو کیوں تیار نہیں؟ پتا نہیں کیوں سیاسی افق پر اس قسم کی افواہوں سے پھیلنے والی کنفیوژن کو کوئی ٹھوس اقدامات سے دور نہیں کر رہا ہے، تاہم طاقتور حلقوں میں یہ بات بھی کہی جا رہی ہے کہ حکومت کی نااہلی سے پھیلنے والی کنفیوژن کا ماحول اب مزید چلنے والا نہیں!دوسری طرف بھی لگتا ہے مسٹر خان کا صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا ہے لیکن شاید اس میں ابھی ایک دو ماہ باقی ہیں، اگر انہوں نے اندرونی معاملات کو ٹھیک کرنے کے لئے ضروری ایکشن از خود نہ لیے اور مسلط کردہ وسیم اکرموں اور انضماموں سے جان نہ چھڑائی تو معاملات ہاتھ سے نکل بھی سکتےہیں جو اس کنفیوژڈ کہانی کے ڈراپ سین کا سبب بن سکتےہیں۔