جمعہ، 30 نومبر، 2018

نیا امتحان


اس سال 16 جنوری کو ایوان صدر میں ایک اجلاس ہوا تھا جس میں ملک کے تمام مسالک ، وفاق ہائے مدارس کے نمائندے ، علماء کرام اور مشائخ عظام شریک ہوئے تھے۔ انھوں نے ایک اجتماعی بیان یا فتویٰ بھی جاری کیا تھامگر بوجہ اس کے متوقع نتائج سے قوم بہرہ مند نہ ہوسکی۔ اس کے بعد 19 نومبر کو چیف آف آرمی سٹاف نے بیان دیا تھا کہ ملک میں مذہبی، مسلکی اور لسانی بنیادوں پر تقسیم کی کوششوں کے خلاف ایک نئے بیانئے کی ضرورت ہے۔
ہم اس وقت جس تقسیم در تقسیم کا شکار ہیں، اس تقسیم کے بعد حکومت پاکستان کی حالت بے دست و پا ہونے جیسی ہے۔ معاشرہ عدم تحفظ کا شکار ہے۔ اور دینی طبقہ وسوسوں کا شکار ہے۔ بے اعتمادی لوگوں کو مایوسی کی طرف لے جا رہی ہے۔مگرپاکستان میں ایک ایسا ادارہ بھی موجود ہے جس نے ہمیشہ تلخ اور جذباتی رویوں کو علمی حکمت وفراست سے تلخیوں کو اعتدال پر لانے میں اپنا کردار مثبت طور پر ادا کیا ہے۔مثال کے طور پر ایک وقت تھا جب مغربی تعلیم سے  متاثرہ لوگوں نے پاکستان میں شور بلند کرنا شروع کیا کہ کم عمر بچیوں کی شادی بنیادی انسانی آزادی کے خلاف ہے۔جبکہ مذہبی طبقے کا خیال تھا کہ یہ اسلامی روایات کا حصہ ہے یوں معاشرہ دو بیانیوں مین بٹنے لگا تو یہ ادارہ سامنے آیا۔ اس نے بتایا اسلامی معاشروں میں شادی دو مراحل پر مشتمل ہوتی ہے ایک مرحلے کا نام نکاح اور دوسرے مرحلے کا نام رخصتی ہے ۔
دو سال قبل عدالت کے سامنے یہ مسٗلہ درپیش تھا کہ ڈی این اے ٹسٹ کو بطور عدالتی ثبوت مانا جائے یا نہیں۔ اس پر بھی اس ادارے نے اپنی علمی رائے پیش کی جس کو فریقین نے تسلیم کیا ۔پاکستان میں ایک مقدمے میں ٹیسٹ ٹیوب کے ذریعے تولیدگی کے عمل پر بھی اس ادارے کی سفارشات کو خوشدلی سے قبول کیا گیا۔ اس ادارےکا نام اسلامی نظریاتی کونسل ہے۔
پاکستان بنا تو ملک کو اُس کے اساسی نظریے یعنی اسلام پر اُستوارکرنے کی ضرورت پیش آئی،کیونکہ پاکستان کی پہلی دستورسازاسمبلی میں یہ بحث شروع ہوگئی تھی کہ پاکستان کا دستوراِسلامی ہوگا،یاسیکولر ؟جس پر تحریک پاکستان کے وہ رہنمامتفکرہوئے ،جنہوں نے اسلام کے نام پر اِس نوزائیدہ ملک کی بنیادرکھی تھی۔اُن ہی کے ایماء پر لیاقت علی خان قراردادِ مقاصدکی تیاری پرقائل ہوئے اورماہرین نے دستورسازی کے راہنما اصول کے طورپر قراردادِمقاصدکا مسودہ تیارکیا۔جس میں پاکستان کو اسلامی ریاست قراردیتے ہوئے،اسلامی احکام اورقوانین کی معاشرہ میں ترویج اورعمل داری کا عہدکیاگیاتھا۔ قراردادِ مقاصدکو 7مارچ 1949کودستورسازاسمبلی میں پیش کیاگیا۔جسے کافی بحث وتمحیص کے بعد 12اپریل 1949کو اسمبلی نے منظورکرلیا۔ قرارداد مقاصد دستورِ پاکستان میں بالاتر حیثیت کی حامل رہی اور اس میں ضمانت دی گئی تھی کہ ملک کے دستور و قانون کی کوئی شق قرآن و سنت سے متصادم نہیں ہوگی۔اس کے باوجود ملکی آئین وقوانین کو اسلامی صورت میں منتقل کرنے کا مستقل کوئی آئینی ادارہ موجود نہیں تھا ۔اس خلاکو پُرکرنے کے لیے 1962ء میں آئین کے ارٹیکل 204 کے تحت تشکیل دیے گئے اس ادارے کا نام اسلامی مشاورتی کونسل رکھا گیاتھا۔ 1973ءکے آئین میں اس کا نام تبدیل کر کے اسلامی نظریاتی کونسل رکھ دیا گیا۔  قانون پر عمل درآمدکی غرض سے آئین کی دفعہ نمبر 228، 229 اور 230 میں اسلامی نظریاتی کونسل کے نام سے 20 اراکین پر مشتمل ایک آئینی ادارہ تشکیل دیا گیا جس کا مقصد صدر، گورنر یا اسمبلی کی طرف سے بھیجے جانے والے معاملے کا قرآن و حدیث کی روشنی میںجائزہ لے کر 15 دنوں کے اندراپنی سفارشات پیش کرنا ہوتا ہے۔ دستور کی شق نمبر 228 میں یہ کہا گیا کہ اس کے اراکین میں تمام فقہی مکاتب ِفکر کی مساوی نمائندگی ہوگی۔ ممبران کی تعداد کم از کم 8 اور زیادہ سے زیادہ 20 ہوگی جن کا انتخاب صدر پاکستان کریں گے۔ ممبران میں ایسے افراد شامل ہونگے جو اسلامی اصول و فلسفہ کی تعلیم اور معلومات رکھتے ہوں، وہ قرآن و سنت طیبہ ،معیشت اور قانونی و انتظامی امور اور پاکستان کے مسائل سے آگہی رکھتے ہوں۔ دو ممبران سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کے جج کی اہلیت اور چار کے لئے کم از کم 15 سال اسلامی تعلیمات و تحقیق کا تجربہ رکھنا لازمی ہے۔ ایک خاتون ممبربھی لازمی ہوگی۔ ممبران کی مدت تین سال رکھی گئی ہے۔
موجودہ اسلامی نظریاتی کونسل کی تشکیل 2016 میں سابق صرر ممنون حسین نے کی ہے جس کے چیرمیں پروفیسر ڈاکٹر قبلہ ایاز صاحب ہیں۔ اس کونسل کا 213 واں اجلاس 27 نومبر کو اسلام اباد میں ہوا جس میں پہلی دفعہ وزارت کے سطح کی دو حکومتی شخصیات نے بھی شرکت کی۔
حکومت اس ادارے کو جو اپنے اپنے شعبے کے ماہرین پر مشتمل ہے کو فعال کر کے اس بند گلی کو کھول سکتی ہے جس میں خود حکومت مزہبی طبقات اور پورا معاشرہ خود کو محصور تصور کرتا ہے۔
کچھ عرصہ سے یہ ادراک حقیقت بنتا جا رہا ہے کہ افراد کی بجائے اصولون کی اور شخصیات کی بجائے اداروں کو متحرک کیا جائے۔ قانون کی حکمرانی کی سمت یہ ایک مثبت اور قابل عمل قدم ہوگا اور وقت کے ساتھ ساتھ عوام بھی شخصیات کی
بجائے اداروں اور اصولوں کی پیروی شروع کر دے گی۔
البتہ یہ موجودہ حکومت کی فراست کا امتحان بھی ثابت ہو سکتا ہے ۔ عوام کی خواہش ہے کہ حکومت اس امتحان سے بھی سرخرو ہو نکلے تاکہ حکمران دلجمعی سے عوام کے اصل مسائل کی طرف توجہ دے سکیں 

پیر، 26 نومبر، 2018

تبلیغ

جناب پروفیسرڈاکٹر محمود علی انجم صاحب نے اپنی کتاب ْ نور عرفانْ میں یہ واقعہ تحریر فرمایا ہے کہ ایک بار مسلم لیگ اور کانگریس کے مشترکہ اجلاس میں کچھ شر پسند عناصر نے ہنگامہ برپا کر دیا، ہر طرف شور شرابہ برپا ہو گیا۔ جلسے میں مسلم لیگ اور کانگریس کے چوٹی کے رہنماء موجود تھے۔رہنماوں نے سامعین کو چپ کرانے کی کوشش کی حتی ٰ کہ نہرو اور گاندہی بھی سامعین کو چپ کرانے میں ناکام رہے۔ جب سب رہنماء ناکام ہو گئے تو قائد اعظم محمد علی جناح سٹیج پر کھڑے ہوئے ، انھوں نے مجمع میں موجود سامعین پر طائرانہ نظر ڈالی اور اپنی شہادت والی انگلی بلند کر کے تحکمانہ لہجے میں بلند آواز سے کہا Silence
مجمع میں ہر طرف خاموشی چھا گئی ۔

مجھے زندگی میں لا تعداد سیاسی رہنماوں، مذہبی مبلغین ، روحانی شخصیات ، سیلز کی دنیا کے ماہرین کو سننے کے مواقع ملے ہیں ان میں چند ہی لوگ ہیں جن کی باتیں اثر انگیز رہیں۔ ایک درگاہ کے باہر بیٹھا ملنگ ، جو سیف الملوک اس محویت سے پڑہا کرتا تھاکہ راہ چلتے لوگ اس کی ٓواز سن کر کھنچے چلے آتے تھے اس کی آواز میں خداد سحر کے ساتھ یہ بھی حقیقت تھی کہ ملنگ میاں محمد بخش کی شخصیت میں کھو کران کی ذات کا تعارف حاصل کر چکا تھا۔
عوام میں ذات کا تعارف شخصیت کا وہ پہلو ہوتا ہے جو انسان کے اعمال کے بل بوتے پر بنتا ہے ۔ سیرت البنی ﷺ کا مشہور واقعہ ہے کہ ایک ماں نے حاضر ہو کر عرض کی کہ میرا بیٹا گڑ کھانے کا رسیا ہے اس کو نصیحت فرما دیں ۔ ارشاد ہوا کل بیٹے کو لانا۔ مان دوسرے دن بیٹے کو لے کر حاضر خدمت ہوئی تو نبی اکرم ﷺ نے اسے گڑ نہ کھانے کی نصیحت کی تو ماں نے عرض کیا یہی بات آپ کل کہہ دیتے تو ارشاد ہوا کل خود میں نے گڑ کھایا ہوا تھا۔
نصیحت وہی کارگر ہوتی ہے جو ناصح کے یقین کا پرتو ہو۔اصل یہ ہے کہ تبلیغ وہی موثر ہوتی ہے جس پر مبلغ خود بھی عمل پیرا ہو۔عمل سے پہلے کے زینے کا نام ارادہ ہے ۔ ارادے کو عمل کی بنیاد اسی لیے کہا جاتا ہے کہ ارادہ مضبوط ہو گا تب ہی عمل کا روپ دھارے گا۔ارادے سے بھی پہلے خیال نام کا زینہ آتا ہے۔ دل میں پیدا ہونے والا خیال ارادہ تب ہی بنے گاجب اراد پختہ ہو گا۔ارادے کا اظہار زبان کا مرہون منت ہوتا ہے۔ صادق زبان سے نکلے الفاظ کی ہیبت ہوتی ہے جو جلسوں میں شر پسندوں کو مرعوب کرتی ہے۔ صادق و امین زبان سے نکلے الفاظ قلوب کو متاثر کرتے ہیں۔ کسی کی ذات میں کھو جانے کے لیے اس ذات کا ملنگ بننا پڑتا ہے ۔ ناصح کی زبان کی زبان اثر پذیر ہونے کے لیے عمل میں استقامت کی متقاضی رہتی ہے۔ تبلیغ کے لیے مبلغ کو عمل کی سیف میان سے نکال کے رکھنا لازم ہے۔ 
شاعر نے اس حقیقت کو اپنے شعر میں بیان کیا ہے ۔
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے         (علامہ اقبال : جوب شکوہ)

اتوار، 25 نومبر، 2018

ہمارا بیانیہ

ہم ہی اعلی و ارفع ہیں کیلئے تصویری نتیجہ                                     
شجو فرینیا ایک بیماری کا نام ہے جس کا مریض اپنے ذہن میں ایک خیالی دنیا آباد کر لیتا ہے اس مرض کے شکار عام طور پر 15 سے 25 سال کی عمر کے نوجوان ہوتے ہیںیہ بیماری فرد سے جب معاشرے میں سرائت کر جائے تو اس کے اثرات تباہ کن ہوا کرتے ہیں۔
ہٹلر کے جرمنی میں گوئبلز نام کا ایک فرد ہوا کرتا تھاجو عام طور پر ناقابل یقین خبر یا واقعے کو افراد کے ذہن میں ڈالتا اور پھر اس خبر کو اس حد تک اچھالنے کا انتطام کرتا کہ لوگ اس پر گفتگو کرنے پر مجبور ہو جاتے۔ گوئبلز نے جرمنی اور ہٹلر کے بارے میں لوگوں میں ایسی ایسی داستانیں پھیلا رکھی تھیں جو بعد میں جھوٹ ثابت ہوئیں۔البتہ اس عمل کو فن مانا گیا اور سیاست میں اس کا چلن چل نکلا۔اور اس کے شکار ہمیشہ نوجوان ہی رہے۔
پاکستان کے ایک سابق وزیر اعظم ذولفقار علی بھٹو کے بارے میں، جب وہ انتخابات میں حصہ لے رہے تھے تو عوام کو بڑی شد ومد کے ساتھ یہ  بتایا جاتا تھا کہ یہ شخص بھارتی ایجنسی "را" کا ایجنٹ اور ہندو ہے اور اس کا اصل نام گھنسی رام ہے اور پاکستان کے ایک سرکردہ صحافی کا یہ دعویٰ ریکارڈ پر موجود ہے۔
بھارت کے شہر ممبی میں مشہور زمانہ دہشت گردی کے ایک واقعے میں اجمل قصاب نامی دہشت گرد کو پھانسی کی سزا سنائی گئی تھی۔ اس کے بارے میں بھارت سے ہی یہ خبر چلی تھی کہ اس کا تعلق پاکستانی پنجاب سے ہے اور پھر پاکستان میں اس کا گاوں اور خاندان بھی دریافت ہو گیا مگر اب بھارت ہی سے خبریں آ رہی ہیں کہ ان کا تعلق پاکستان سے نہیں بلکہ بھارت سے ہے۔اس واقعے سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ موجودہ دور میں میڈیا کا کردار لوگوں کی ذہن سازی میں کس قدرموثر ہے۔اس واقعے سے ذہن سازی کے لیے میڈیا کے کردار کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
ہمارے وفاقی وزیر اطلاعات نے ٹی وی کے ایک پروگرام جرگہ میں کہا ْ عمران خان کو وزیر اعظم بنانے میں میڈیا کابڑا کردار ہے ْ 
پاکستان میں عمران خان کے وزیر اعظم بننے تک ، ٹی وی کھولتے تھے تو مخصوص وقت کے بعد طویل مدت کے اشتہارات چلا کرتے تھے۔ یہ اشتہار بین الاقوامی کمپنیوں کے مقبول عام برانڈ کے ہوا کرتے تھے ۔ وہ برانڈ اور اشیاء ا ب بھی موجود ہیں، کنزیومر بھی وہی ہیں مگر چند ماہ سے ٹی وی پر اشتہار غائب ہیں۔
ٹی وی کی آمدن کا بڑا ذریعہ اشتہارات ہی ہوا کرتے ہیں۔ ہمارے وزیر اطلاعات کے مطابق ْ ہماری میڈیا انڈسٹری جو 10 بلین روپے کی تھی اس کو35 بلین تک لے جایا گیا ْ پاکستان میں اشتہارات کے پیسے کو سیاست کے رخ کی تبدیلی کے لیے استعمال کیا گیا۔ اور اس حقیقت سے ملک کی سیاسی جماعتیں، الیکشن کمیشن ۔ ریاستی ایجنسیاں اور خود ٹی وی کی انتظامیہ بھی باخبر تھی۔ مگر بہتی گنگا سے استفادہ نہ کرنا کسی کو بھی گوارا نہ ہوا۔عمران خان کے وزیر اعظم بن جانے کے بعد میڈیا سے پچیس بلین روپے کی یہ آمدن یکایک رک جانے کے بعد ہمارے اکثر میڈیا ہاوس مالی بد حالی کا شکار ہو گئے اور بہت سے نام ور اینکر پرسن اور تجزیہ کار میڈیا سے فارغ کیے جا رہے ہیں۔جس ذہن سازی کے لیے ایک بڑی رقم میڈیا انڈسٹری میں انڈیلی گئی تھی ۔ اپنے مقصد میں کامیابی کے بعد اس سرمایہ کاری کو بند کر دیا گیاتو میڈیا انڈسٹری اپنی اصل اوقات پر آجانے کے بعدحکومت کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھ رہی ہے ان آنکھوں میں موجود سوال کو حکومت اچھی طرح سمجھتی ہے مگر ان کو میڈیا مینجمنٹ کا مشورہ دیا جا رہا ہے۔ میڈیا ہاوسز کو زندہ رہنے کے لیے خود کو نا پسندیدہ عناصر سے پاک کرنا ہوگا۔
ایک چاہت حکومت کی ہوتی ہے اور ایک چاہت عوام کی ہوتی ہے، پاکستان میں دونوں چاہتیں متوازی چلتی ہیں۔ البتہ جمہوریت کا تقاضا ہے کہ دونوں چاہتیں ساتھ ساتھ چلیں۔مگر ایسا بوجہ ہو نہیں پا رہا۔اور اس کے اسباب میں بڑا سبب ہمارے معاشرے میں موجود تقسیم شدہ رجحانات اور سوچ ہیں۔اکہتر سالوں میں جب عوام کو موقع ملتا ہے وہ پارلیمان اور وزیر اعظم لے آتے ہیں۔ جب مقتدر اداروں کو موقع ملتا ہے وہ صدارتی نظام کی بساط کی بچھا کر کھیلنا شروع کر دیتے ہیں۔ 
ہماری نوجوان نسل جس کو بتایا گیا ہے ساٹھ کے عشرے میں پاکستان جرمنی کو قرض دیا کرتا تھا۔ پینسٹھ کی جنگ میں لاالہ الااللہ نے ہمیں فتح مبین سے ہمکنار کیا تھا۔ اکہتر میں ادہر ہم اور ادہر تم کے سیاسی نعرے نے ہمیں بے دست و پا کر دیا تھا۔ ورنہ ہم نے تو اقوام متحدہ کے ایوانوں میں قراں پاک کی تلاوت کو سربلند کر دیا تھا۔ ہمارا مقام یہ ہے کہ کعبہ میں نماز کے لیے کھڑے ہوں تو امام کعبہ ہمارے لیے اپنا مصلیٰ چھوڑ دیں۔ روس کو افغانستان میں شکست دینے والے ہم ہی ہیں۔امریکہ کو تگنی کا ناچ ہم ہی نچا رہے ہیں۔ ہم اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی طاقت ہیں وغیرہ وغیرہ
شجو فرینیا ایک بیماری کا نام ہے جس کا مریض اپنے ذہن میں ایک خیالی دنیا آباد کر لیتا ہے اور اپنے ایقان کی آخری حد تک اس کو حقیقت سمجھ بیٹھتا ہے۔ یہ بیماری فرد سے جب معاشرے میں سرائت کر جائے تو اس کے اثرات تباہ کن ہوا کرتے ہیں۔یہ بیماری عوام میں ہوا کرتی تھی مگر اب لگتا ہے حکمران بھی اس کا شکار ہو چکے ہیں۔ 

ہفتہ، 24 نومبر، 2018

اردو کالم اور مضامین: سماع و وجد

اردو کالم اور مضامین: سماع و وجد: پتھر لوہے سے ٹکراتا ہے تو آگ جنم لیتی ہے جو ان میں پہلے ہی سے پوشیدہ تھی ۔ دل میں موجود عشق جب سماع و ذکر سے ٹکراتا ہے تو وجد کی حرارت پ...

سماع و وجد


پتھر لوہے سے ٹکراتا ہے تو آگ جنم لیتی ہے جو ان میں پہلے ہی سے پوشیدہ تھی ۔ دل میں موجود عشق جب سماع و ذکر سے ٹکراتا ہے تو وجد کی حرارت پیدا ہوتی ہے ۔ عشق نبی اور ذکر اللہ کی حرارت آگ کی مانند ہے اور اس کے شعلوں کا نام وجد و حال ہے ۔ جب عاشق حقیقی کے سامنے محبت و دوستی کا ذکرہوتا ہےتو اس کے اندر ذکر کی گرمی اسے لطف دیتی ہے جب جب ذکر بڑہتا ہے شعلہ بلند بوتا جاتا ہے ۔ کیف و سرور جب برداشت سے بڑہ جاتا ہے تو گرمی عشق بصورت وجد ظاہر ہوتی ہے ۔ دودھ کو مخصوص مقدار سے زبادہ حرارت دی جائے تو وہ ابلتا اور چھلکتا ہے ۔ فرمان نبی اکرم ہے کہ برتن سے وہی کچھ ٹپکے گا جو کچھ اس میں ہو گا ۔ عاشق کا عشق جب ابلتا اور چھلکتا ہے تواس کو وجد کا نام دیا جاتا ہے ۔ حضرت سخی سلطان باہو رحمۃ اللہ نے ققنس نام کے ایک پرندے کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ لکڑیاں اکٹھی کر کے اپنا گھر بناتا ہے اور جب اس کا گھر مکمل ہو جاتا ہے تو وہ ان قلعہ نما گھر میں مقید ہو کر بیٹھ جاتا ہے اور ذکر شروع کرتا ہے ۔ اس کے ذکر کی گرمی سے حرارت پیدا ہوتی ہے جو اس کو مست کر دیتی ہے ۔ جوں جوں کیف و مستی میں اضافہ ہوتا ہے توںتوں ذکر کی گرمی بھی بڑہتی ہے ۔ پھر اس حرارت سے آگ پیدا ہوتی ہے جو اس کے قلعے کو جلا دیتی ہے ۔ گھر کے ساتھ یہ خود بھی جل کرراکھ ہو جاتا ہے ۔ اس راکھ پر جب بارش برستی ہے تو اس سے انڑہ پیدا ہوتا ہے پھر اس سے بچہ پیدا ہوتا ہے اور جب بچہ جوان ہو جاتا ہے تو وہ بھی اپنے باپ کی طرح لکڑیاں اکٹھی کرتا ہے اور اسی انجام سے دوچار ہوتا ہے ۔ عاشق لوگ اپنے دل کے ہاتھوں معذور گردانے جاتے ہیں ۔ کبھی غور تو کرو محفل میں کچھ لوگ کیف و مستی کی صراحیاں پی جاتے ہیں اور وہ اپنے صحو کو قائم رکھتے ہیں اور کسی کو ذکر کے چند جام ہی بے خودی میں دھکیل دیتے ہیں ۔ اپنا اپنا ظرف ، مقام اور وقت ہوتا ہے ۔ سالک کا دل کھیت کی مانند ہوتا ہے ۔ کسان بیج کو مٹی میں چھپا دیتا ہے ۔ نظروں سے غائب بیچ کو موافق ماحول میں رطوبت ملتی ہے تو پودا بننا شروع ہو جاتا ہے . جس نے کسی رہنما کی سرپرتی میں راہ سلوک میں قدم رکھ لیا تو بیج اس کے دل میں پیوستہ کر دیا گیا ۔ جب اس بیج کو موافق ماحول میں روحانیت کی رطوبت ملتی ہے تو اس بیج کی بڑہوتی شروع ہو جاتی ہے ۔ 'ا اللہ چنبھے دی بوٹی ' میں صاحب کلام نے اسی حقیقت کو بیان کیا ہے ۔ ادراک و ورود دو مختلف کیفیات ہیں ۔ ایک کا تعلق کتابوں سے ہے جبکہ دوسری کا تعلق صحبت سے ہے ۔ ایک شاعر نے کہا ہے کہ پیالے سے ناپنا ایک ہنر ہے مگر کیف و مستی اور سرور پیالہ پینے کے بعد ملتا ہے ۔ نقل ہے کہ ایک سالک بازار سے گذر رہا تھا کسی نے آواز لگائی ایک کی دس ککڑیآں ۔ سالک پر وجد طاری ہو گیا ۔ لوگوں نے کہا یہ کیسا حال ہے ۔ اس نے کہا جب دس نیک لوگوں کی قیمت ایک ہے تو گناہگار کی قیمت کیا ہو گی ۔ کوہستانی علاقوں میں ساربان اونٹوں پر ثقیل بوجھ لاد کر انھیں 'ھدی' سناتے ہیں تو زیربار اونٹ وجد کی مستی سے بھاگ پڑتے ہیں ۔ صوت داودی وجد ہی تو پیدا کرتی تھی ۔ ذکر سے دل میں قرار اور دماغ پر خفقانی اثرات غالب ہو جانے ہیں  اور جب اضطراب قوت برداشت سے باہر ہو جاتا ہے تو رسم و ادب اٹھ باتا ہے ۔ اس وقت یہ خفقانی حرکات نہ مکر ہوتا ہے نہ اچھل کود بلکہ اضطنرابی کیفیت کا عالم ہوتا ہے اور انتہائی بھاری لمحات ہوتے ہیں ۔ اگر اس کیفیت کی تشریح محال ہے تو اس کا انکار بھی ناممکن ہے ۔ اور حرکات اگر اضطراب کے باعث ہیں تو امام غزالی کا سماع کے رقص کے بارے میں یہ قول یاد رکھنا چاہیے ' رقص کا حکم اس کے محرک پر محمول ہے اگر محرک محمرد ہے تو رقص بھی محمود ہے ' اور وجد کا سبب اگر ذکر ہے تو ذکر محمود ہی نہیں سعید پھی ہے ۔ شیخ عبد الرحمن نے اپنی کتاب السماع میں لکھا ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہہ سے روایت ہے کہ ہم نبی اکرم صل اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس تھے کہ حضرت جبریل تشریف لائے اور کہا یا رسول اللہ آپ کو بشارت ہو کہ آپ کی امت کے درویش و فقیر، امیروں کے اعتبار سے پانچ سو برس پیشتر جنت میں داخل ہوں گے ' ۔ یہ خوش خبری سن کر نبی اکرم صل اللہ علیہ و آلہ و سلم خوش ہو گئے اور فرمایا کوئی ہے جو شعر سناے ۔ ایک بدوی نے کہا ہاں ہے یا رسول اللہ ۔ آپ نے فرمایا آو آو اس نے شعر پڑہے ۔ ' میرے کلیجے پر محبت کے سانپ نے ڈس لیا ہے ، اس کے لیے طبیب ہے نہ کوئی جھاڑ پھونک والا ۔ مگر ہاں وہ محبوب جو مہربانی فرماے ، اس کے پاس ان کا تریاق اور منتر ہے " یہ سن کر نبی اکرم صل اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تواجد فرمایا اور جتنے اصحاب وہاں موجود تھے سب وجد کرنے لگے ۔ یہاں تک کہ آپ کی رداے مبارک دوش مبارک سے گر پڑی ۔ جب اس حال سے فارغ ہوے معاویہ بن ابی سفیان نے کہا ۔ ' کتنی اچھی ہے آپ کی یہ بازی یا رسول اللہ ' آپ نے فرمایا ' دور ہو اے معاویہ وہ شخص کریم نہیں ہے جو دوست کا ذکر سنے اور جھوم نہ اٹھے ' پھر رسول اللہ کی ردا میارک کے چار سو ٹکڑے کر کے حاضرین میں تقسیم کر دیے گے ۔حضرت ابو سعید ابو الخیررحمۃاللہ سے منقول ہے کہ جب فقیر ہاتھ پر ہاتھ مارتا ہے تو شہوت اس کے ہاتھ سے نکل جاتی ہے ۔ جب زمین پر پاوں مارتا ہے تو پاوں سے شہوت نکل جاتی ہے ۔ جب نعرہ مارتا ہے باطن کی شہوت نکل جاتی ہے ۔ روایات میں ہے کہ حضرت موسی علیہ السلام کے وعظ کے دوران کسی نے نعرہ مارا ۔ حضرت موسی علیہ السلام نے اس پر ناراضگی کا اظہار کیا ۔ آللہ تعالی نے فرمایا ۔ وہ میری محبت میں نعرہ مارتے ہیں ۔ میری محبت میں روتے چلاتے ہیں اور میرے قرب سے راحت پاتے ہیں ۔ تم ان کو مت جھڑکا کرو۔ جو لوگ مقام و ادب کا خیال رکھنے کی تاکید کرتے ہیں وہ یہ حقیقت کیوں بھول حاتے ہیں کہ جب برتن کو ابالا جائے گا تو اس کا ٹپکنا لازم ہے ۔ جہاں تک بدعت کا تعلق ہے حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ نے فرمایا ہے جو عمل سنت کی جگہ لے وہ بدعت ہے ۔ بدعت کا ثمر یہ ہے کہ وہ سنت سے محروم کر دیا جاتا ہے ۔ امام شافعی رحمۃ اللہ کے بقول نماز تراویح با جماعت کی ابتداء حضرت عمر رضی اللہ عنہہ نے کی ۔ اس سے اہل علم کوئی سنت ٹوٹتی نہیں پاتے ۔ اصحاب رسول ، نبی اکرم صل اللہ علیہ و آلہ و سلم کی آمد پر کھڑے نہ ہوتے تھے مگر جب حضرت فضل دین کلیامی نے اپنے جنازے کے امام حضرت قبلہ پیر مہر علی شاہ رحمۃ اللہ کا کھڑے ہو کر استقبال کیا تھا تو کون سی سنت ٹوٹی تھی ۔ سماع و وجد وہ پر خطر راہ ہے کہ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ نے اس کی حوصلہ افزائی نہیں کی ۔ مگر سکر کی کیفیت سے انکار ممکن نہیں ہے ۔یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ یہ مقام قریہ بلا ہے اور امان صرف بصیر کے زیر بصارت رہنے ہی میں ممکن ہے ۔