ہفتہ، 20 اکتوبر، 2018

ذکر دو بہنوں کا


راولپنڈی کی ضلع کچہری میں ایک شخص نے عدلیہ کے کردار کا ماتم کرتے ہوے کہا تھا ْ اس ملک میں انصاف مر چکاہے بس اس کی دو بہنیں رشوت اور سفارش زندہ ہیں ْ اس سفید ریش کے ساتھ ہوا یہ تھا کہ اس نے اپنے نوجوان کالجیٹ بیٹے کو موٹر سائیکل دے کر مہمانوں کے لیے سموسے لانے کے لیے بھیجا ۔ مہمان چائے پی کر چلے بھی گئے مگر نوجوان واپس نہ آیا ۔ موبائل فون پر ْ آپ کامطلوبہ نمبر بند ہے ْ کی گردان نے اسے پہلے غصہ دلایا پھر تشویش میں مبتلا کر دیا۔ جب اندھیرا گہرا ہونا شروع ہوا تشویش بھی گہری ہو گی ۔ کسی ممکنہ حادثے کے خوف نے سر اٹھایا ۔ شہر کے سارے ہسپتال چھان کر بیٹھے تو والد کا فون بج اٹھا۔ کال کرنے والے نے بتایا کہ میں تھانے کی حوالات میں بند اپنے عزیز سے ملنے گیا تھا۔ آپ کے بیٹے نے یہ نمبر دیا اور اطلاع دینے کی درخواست کی تھی ْ 
باپ بیٹے کی کہانی یہ تھی کہ بیٹے کو پولیس والے نے روکا ، لائسنس اور موٹر سائیکل کے کاغذات موجود تھے ۔ پولیس والے نے ایک سول کپڑوں میں ملبوس شخص کو پیر ودہائی کے بس اسٹینڈ پر چھوڑ کر آنے کا کہا، بیٹے نے گھر جلدی پہنچے اور مہمانوں تک سموسے پہچانے کا عذر پیش کیا۔ اس بات پر تلخ کلامی ہوئی ۔ سموسوں سمیت موٹر سائیکل تھانے میں اور بیٹا حوالات میں بند ہو گئے ۔ باپ نے تھانے پہنچ کر اس رویے پر احتجاج کیا تو والد کو بھی بیٹے کے ساتھ حوالات میں بند کر دیا گیا۔محکمے کے بڑوں تک بات پہنچی تو باپ پر منشیات فروشی کا مقدمہ درج ہو چکا تھا۔ عدالت میں پیشی پر ڈیوٹی مجسٹریٹ نے باپ بیٹے کی بات سنے بغیر انھیں عدالتی ریمانڈ پر جیل بجھوا دیا ۔ اس بے انصافی پر باپ نے ہتھکڑیوں میں جکڑے دونوں ہاتھوں سے مکہ بنا کر مجسٹریٹ کو مارنے کی کوشش کی جو عدالت کے سٹینو گرافر نے ناکام بنا دی اور پولیس کو ایک اور مقدمہ درج کرنے کا حکم صادر ہو گیا۔
تفتیشی افسر کے مطابق ٹریفک پولیس کے اہلکار نے موٹر سائیکل کے کاغذات نہ ہونے پر لڑکے کا چالان کیا تو نوجوان نے اس سے ہاتھا پائی کی اور چالان بک ٹریفک اہلکار سے چھین کر پھاڑ دی۔ نوجوان کے باپ کے خلاف تفتیشی افسر کے پاس ایک شہری کی درخواست موجود تھی جس میں منشیات فروشی کا الزام لگایا گیا تھا ۔ پولیس نے چھاپہ مارا اور ملزم کو منشیات سمیت گرفتار کر لیا۔عدالت سے باپ بیٹے کی ضمانت منظور ہونے کے بعد وکیل کے چمبر میں بیٹھے تفتیشی افسر کے مطابق جذباتی بڈھے نے خود ہی اپنے کیس کو الجھا لیا تھا۔اس کا جذباتی بڈھے کے پاس جواب نہیں تھا مگر جب بڈھے نے کہا ْ اس ملک میں انصاف مر چکاہے بس اس کی دو بہنیں رشوت اور سفارش زندہ ہیں ْ تو اس کا جواب تفیشی افسر دے سکا نہ وکیل صاحب۔میں سوچتا ہوں اس کا جواب مجسٹریٹ کے پاس بھی نہیں ہو گا جس نے ذاتی انتقام میں ایک جذباتی بڈھے پر ایک نیا مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا تھا۔ 

عمران خان


چین اور پاکستان کے ایک دوسرے سے جڑے مفادات ہی ہیں جن کے باعث دونوں ممالک کی دوستی ہمالیہ کی بلندیوں کو چھو رہی ہے۔ گہرے پانی بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہیں اور زمین پر بھی پاک چین راہداری کی شکل میں موجود ہیں۔ 
جدید چین پاکستان سے بہت پیچھے تھا ۔ مگر اس نے تیز ترین ترقی کر کے خود کو ماڈل کے طور پر پیش کیا ہے ۔ عمران خان صاحب لوگوں کو بتاتے ہیں ْ پاکستان چائنا کی طرح اوپر جائے گا ْ وہ پاکستان کو چین کے رستے پر ڈالنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ پنجاب کے وسط میں ان کی یہ اواز ہنر مندوں اور چھوٹے تاجروں کو بہت بھلی لگتی ہے۔ وہ مڈل کلاس طبقہ بھی اس بیان کو پسند کرتا ہے جن کے چین کے ساتھ تاجرانہ روابط ہیں۔چین کے سخت اور بے رحم نظام انصاف کو وہ کرپشن ختم کرنے کا آسان حل بتاتے ہیں۔کرپشن کی بے رحم چکی میں پستا طبقہ ان کی آواز کو اپنے دکھوں کا مدادا سمجھتا ہے۔ پاکستان میں عمران خان صاحب کا یہ بیانیہ بہت سے لوگوں کو پسند آتا ہے۔
برٹش کونسل کے مطابق پاکستان میں انگریزی سیکھنے اور اس کے استعمال میں خاطر خواہ اضافہ ہو ہے، انگریزی میڈیا اور ادب پہلے سے زیادہ پڑھا جاتا ہے۔ یہ بات امریکی فلموں بارے بھی سچ ہے۔پاکستانی طالب علموں کو تعلیمی وظائف زیادہ ترمغرب سے ہی آتے ہیں ۔ پاکستانی معاشرہ کا علمی، معاشی اور مقتدر طبقوں کا سماجی قبلہ مغرب ہی ہے۔
اسد عمر صاحب نے ایک صحافی سے بات کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ْ خان صاحب پورے انگریز ہیں ْ وہ ۱۷ سال کی عمر میں لندن جا بسے تھے زندگی کا بڑا حصہ لندن اور مغرب میں گزارا، ان کا رہن سہن انگریزی ہے۔ انھوں نے اینگلو فرنچ خاندان کی جمائما خان سے شادی کی تھی۔ دو بار شہزادی ڈیانا کو لاہور لائے۔دو برطانوی بیٹوں کے باپ ہیں۔کتوں سے ان کی محبت کا عالم یہ ہے کہ ان کے دوست انھیں کتا بطور تحفہ دیتے ہیں۔وہ مغرب میں قانون کی حکمرانی سے اس قدر متاثر ہیں کہ اپنے جلسوں میں اس کی مثالیں دیتے ہیں۔ برطانوی پارلیمان کو جمہوریت کی ماں بتاتے ہیں۔پارلیمان کیسے کام کرتی ہے سب ان کو ازبر ہے ۔ جلسوں میں برطانوی جیوری سسٹم کی تعریف کرتے ہیں۔ان کے یہ الفاظ ملک کے متوسط طبقے کو ان کے عزائم دکھائی دیتے ہیں۔انھیں یقین ہے کہ خان صاحب برطانیہ اور سکینڈینیوین ممالک جیسا فلاحی معاشرہ پاکستان میں قائم کر کے پاکستان کو جمہوری اور فلاحی ریاست میں تبدیل کر دیں گے ۔
پاکستان میں ایک بڑے بڑی تعداد میں لوگوں کے عزیزو اقارب دوبئی اور ریاض میں ہیں یہ لوگ دبئی اور ریاض کی روشن اور بلند عمارات، سامان سے لبریز دوکانوں ، نئے ماڈل کی چمکتی شفاف شاہراہوں پر دوڑتی گاڑیوں اور وہاں پر درہم و ریال کی فراوانی سے مرعوب ہیں ۔ ان لوگوں کو یقین دلایا گیا ہے عمران خان پاکستان کو دوبئی کی طرح ایسا ملک بنائیں گے جہاں مغرب سے لوگ ملازمت کرنے پاکستان آیا کریں گے۔
امیر لوگ دوبئی اور سنگاپور سے متاثر ہیں۔ کھلی مارکیٹ کی بات ان کے ہاں توجہ پاتی ہے۔ سنگا پور کے سابقہ رہنماء 
Lee Kuan Yewکا ذکر خان صاحب اپنے دوستوں اور ملنے والوں میں اکثر کرتے ہیں ۔عمران خان صاحب اس طبقے کے لوگوں کو بتاتے ہیں کہ وہ پاکستان کو دوبئی اور سنگاپور بنانا چاہتے ہیں۔آزاد معیشت اور کھلی منڈی کے دلدادہ افراد کو خان صاحب کا یہ وژن اپنی طرف راغب کرتاہے۔
پاکستان میں جرنیل، جج ، اداروں کے سربراہاں اور خفیہ اداروں کے کرتا دھرتا کو ملا کر اسٹیبلشمنٹ کا نام دیا جاتا ہے۔ مرحوم حمیدگل صاحب سے مثاثر ہونے کا وہ خود اعتراف کرتے ہیں۔ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا تھا ْ فوج کے ساتھ کوئی ٹکراو نہیں ہے۔ وہ کرپٹ سیاستدانوں سے چھٹکارا چاہتی ہے اور ان سے دور ہونا چاہتی ہے ، کیا یہ غلط ہے کہ میں ان کی حمائت نہ کروں ْ اسٹیبلشمنٹ کے سابقہ اور حاضر افراد کے ساتھ ان کے روابط کو وہ چھپانے کی کوشش نہیں کرتے ۔ یہ سوچ اور عمل پاکستان کی مقتدر طاقتوں اور ان کے ہم نواوں کو خان صاحب کا گرویدہ بناتی ہے۔
خان صاحب پاکستان کو امریکہ کی غلامی سے نکالنے کے بہت بڑے حامی ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کو وہ امریکہ کی جنگ سمجھتے ہیں ۔ امریکی امداد اور غیر ملکی شرائظ بھرے قرضوں اور گرانٹوں کو وہ پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھتے ۔وہ ڈرون حملوں کے مخالف ہیں۔ان کا شمار طالبان کے ہمدردوں میں ہوتا ہے۔ ان کے نزدیک طالبان گمراہ لوگ ہیں ان کو پیار سے سمجھانے کی ضرورت ہے۔ وہ طالبان کو یہ بات سمجھانے مدرسہ حقانیہ جاتے ہیں۔ ان کی بات کے وزن کو محسوس کیا جاتا ہے۔طالبان کو ان کا بیانیہ پسند ہے
خان صاحب کا آئیڈیل مدینہ کی ریاست ہے، وہ نماز ادا کرتے ہیں، ان کی پارٹی میں علماء اور مفتیان کرام موجود ہیں، اپنی جوانی مغرب میں گذارنے اور آزادانہ معاشرے کے ثمرات سمیٹنے کے بعد اسلام سے اس قدر مثاثر ہیں کہ شرعی پردہ ان کے گھر کے اندر موجود ہے۔ وہ درگاہوں اور آاستانوں پر سر خم کرتے ہیں۔ کے پی کے میں انھوں نے مساجد کے پیش اماموں کی مالی مشکلات کو کم کرنے کی سعی کی۔ایک جلسے میں انھوں نے کہا تھا ْ محمد ﷺ ایک سیاستدان تھے ْ ان کا یہ طرز کلام و حیات پاکستان میں دینی طبقات کو ان کا مداح اور پیرو کار بناتا ہے۔
وہ ہر موضوع پر بولنے کا سلیقہ جانتے ہیں۔ ان کے پاس دلیلوں کے انبار ہیں۔ ان کی شخصیت میں سحر اور زبان میں جادو ہے ۔ان کے پاس متاثر کن الفاظ کا نہ ختم ہونے والا ذخیرہ ہے۔ وہ لوگوں کو نہیں ان کے جذبات کو مخاطب کرتے ہیں۔ وہ پاکستان کے عوام کی کمزوریوں، خواہشات، اور آگے بڑہنے کی شدید تڑپ سے آگاہ ہیں ۔ وہ اپنی کرشماتی شخصیت سے بھی آگاہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے وہ وقت کے مشہور ترین شخص ہیں۔ بی بی سی کو ایک انٹر ویومیں انھوں نے کہا تھا ان کے پاس سٹریٹ پاور ہے اور وہ ملک کو بند کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں
پاکستان کے عوام اور خود عمران خان کی پارٹی کے لوگوں میں خان صاحب کا سیاسی وژن، معاشی سمت اور تزویراتی راہ واضح نہیں ہے ۔اور اس کا سبب خود خان صاحب کا ذہن واضح نہ ہونا ہے
عمران خان صاحب کے بہت قریب اور باخبر وزیر نے ایک غیر ملکی کو انٹر ویو دیتے ہوئے اپنے لیڈر کے بارے میں کہا :
He is selling pakistanis, a dream but he is not a con man. Khan, to me, is not an ideoligist or a popupist ,but a genius at PR.
۔

جمعہ، 19 اکتوبر، 2018

تیسری منزل

اپنے سکول کے زمانے میں ہم چند دوست ایک ادارے کی لائبریری میں جایا کرتے تھے ۔ اس لائبریری میں کتابوں کے علاوہ غیر ملکی اخبارات و رسائل بھی ہوا کرتے تھے۔ وہاں اس وقت کے سویت یونین کے سفارت خانے کا ْ طلوع ْ نام کا ایک مجلہ رکھا ہوتاتھا جس کی پیشانی پر لکھا ہوتا تھا ْ سچ کی طرح سادہ ْ ہم دوستوں نے کئی مرتبہ اس جملے کی حقانیت پر بحثیں کی مگر اس پر سب متفق ہوجاتے تھے کہ سادہ ترین چیز سچ ہی ہے مگر اس کے اندر لکھے گئے مضامین اور اعداد و شمار بار بار ہمیں بحث کرنے کر مجبور کر دیتے تھے مگر اس جملے کو غلط ثابت نہ کر پاتے تھے۔
پاکستان میں سچ سے بھی اوپر کی ایک قسم ہم نے دریافت کر کے اس کا نام ْ کھرا سچ ْ رکھا ہے ۔ یعنی سچ سے بھی اوپر کی منزل موجود ہے ۔ مگر ہم بحث کرنے والے اپنے دوستوں کو عملی زندگی کی بھول بلیوں میں کھو چکے اور نئے دوست بحث کو اختلاف اور اختلاف کو دشمنی گردانتے ہیں۔کیا دن تھے جب اختلاف رائے ادراک کے نئے در کھولا کرتے تھے۔ 
اب دوسری منزل پر بیٹھ کر ْ کڑا ْ ہی جا سکتا ہے ویسے دوستوں کی محفل ہو تو ہر روز منفرد موضوع ۔ اس منزل پر بیٹھ کر ْ طلوع ْ دور بہت دور نیچے گہرائی میں نظر آتا ہے جیسے یہ دوسری منزل کسی عمودی پہاڑی کی چوٹی پر ہو۔
دنیا میں علم کی نئی نئی جہتیں دریافت ہو رہی ہیں ہم نے مگر سچ کی تیسری منزل دریافت کر لی ہے اس کا نام تو سامنے نہیں آیا مگر بابا بھلے شاہ کے ْ علموں پئے رولے ہور ْ کے مصداق اس نے رولے بہت ڈال دیے ہیں ، سنا ہے یہ ففتھ جنریشن وار کا ایک ہتھیار ہے حالانکہ کتابیں پڑھ کر ہمیں یقین تھا ہتھیار دشمنوں کے لیے ہوتے ہیں مگرجدید حکمت عملیوں کی اس صدی میں ہدف بھی نئے ہو گئے ہیں۔ پہلے وقتوں میں علاقے فتح کیے جاتے تھے اب تسخیر اذہان پر زور ہے۔اس کا عملی مظاہرہ ہم پاکستانی دیکھ چکے تھے البتہ افغانیوں کو تجربہ حال ہی میں ہوا ہے۔پاکستان اور اس کے ادارے ہمیشہ فرنٹ پر کھیل کر داد سمیٹنے کا سلیقہ جانتے ہیں ۔ ہمیں قوی امید ہے اس میدان میں بھی ہم ہی سر خرو ہوں گے۔ہم نے کچھ عرصہ عربوں میں گزارا ہے عربی زبان ہماری سرائیکی سے بھی میٹھی ہے ۔ ایک لطیفہ سنا کرتے تھے جس کا ترجمہ تو نہ کر پائیں گے مگر مفہوم آپ کو بتا دیتے ہیں ْ جو کام جو کر رہا ہے اسے کرنے دیں اگر نہیں کر پا رہا ہے تو یا حبیبی میں کیسے کر پاوں گا ْ ہم مگر کر گذرنے والے لوگ ہیں ہم کر گزرتے ہیں بشرطیکہ معاوضہ ہمارے شایان شان ہو اور ڈالروں میں ہو

جمعرات، 18 اکتوبر، 2018

کالا کتا



گاوں کے چوہدری صاحب نے کتا پال رکھا تھا ، کتے کے بارے میں پورے گاوں میں مشہور تھا کہ وہ چور پکڑنے میں ماہر ہے ۔ کتے کی اس ماہرانہ خصلت کا مظاہرہ گاوں والوں نے کئی بار اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ کتا چوہدری صاحب کی ڈنگروں والی حویلی میں ایک کمرے میں بندہا رہتا تھا۔مشکوک چورکا نام چوہدری صاحب کو پیش کیا جاتا، اگر یہ نام کسی اپنے کا ہوتا تو چوہدری صاحب فرماتے بھائی یہ بڑا الزام ہے، کتا تو کتا ہے ، پہلے کچھ انسانوں سے تحقیق کرالویہ نہ ہو بے چارہ بے گناہ مارا جائے۔ان کی انسان دوستی سے متاثر ہو کر معاملہ چوہدری صاحب کی بنائی انصاف پسند پنچایت میں پیش کیا جاتا ، گواہ طلب کیے جاتے ، ثبوت مانگے جاتے۔ گاوں میں اہل گاوں کے خلاف گواہی دینے کا حوصلہ تھوڑے دال والے لوگوں میں کم ہی ہوتا ہے۔ بہر حال چوہدری صاحب خدا کا شکر ادا کرتے کہ ان سے بے انصافی کا گناہ سر زد ہونے سے اللہ نے بچا لیا ہے۔ البتہ مخالفین میں سے کسی پر الزام لگ جاتا تو اتوار کے دن کتے کو میدان میں لایا جاتا۔مشکوک چور کو میدان میں بھاگنے کے لیے کہا جاتا ساتھ ہی کتے کا پٹہ کھول دیا جاتا، کتا تماش بینوں کو نظر انداز کر کے بھاگتے چور کی لنگوٹی اتار لیتا۔
ایک دن، ایک مشکوک پکڑا گیا ، پنچایت میں پیش کیا گیا ، گواہ بھی پیش ہوئے ، ثبوت بہرحال کتے نے پیش کرنا تھا۔ جمعے والے دن مولوی صاحب نے نجس و ناپاک کتے کی مذمت کی اور بتایا کہ چوہدری صاحب اس عمل سے گناہ کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ سب سے اہم نکتہ یہ تھا کہ چوہدری صاحب کے کتے کا رنگ کالا ہے اور کالا کتا، کتوں میں بھی نجس ترین ہوتا ہے۔ لوگوں کا ایمان تازہ ہوا ، کالے کتے سے گاوں والوں کو نفرت سی ہو گئی۔
پاکستان کے مایہ ناز ادارے نیب کی پھرتیاں ان دنوں عروج پر ہیں ، جس کو چاہتا ہے الزام لگا کر ہتھکڑی پہنا دیتا ہے، جس کو چاہتا ہے گرفتار کر لیتا ہے اور جس کے لیے چاہتا ہے اس کے خلاف ثبوت اکٹھے کرنے کے لیے پنچایت بٹھا دیتا ہے۔مگر اج تک اس نے جو بھی اور جس کے خلاف بھی ثبوت اکٹھے کیے بھونڈے ہی نکلے۔سب سے مشہور کیس سابقہ نا اہل وزیر اعظم صاحب کا ہوا، ثبوت موٹے موٹے والیم کی صورت میں ٹرالیوں میں لاد کر عدالت میں لائے گئے۔ عوام کو یقین دلانے کے لیے درجنوں ٹی وی چینل ، اخبارات اور سوشل میڈیا کے ایکٹیوسٹ کے ذریعے وسائل کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔کھوجی دوسرے ملکوں مین دوڑائے گئے، خط و کتابت کے انبار لگ گٗے ، نہ عوام کو یقین آیا نہ عدالت میں کچھ ثابت ہوا۔پنجاب کے سابقہ وزیر اعلیٰ کو آشیانہ کے عنوان سے گرفتار تو کر لیا گیامگر ثبوت کی باری آئی تو نیب نے دانت نکال کے دکھا دیے ۔ نیب کا کردار چوہدری صاحب اور ان کے کالے کتے جیسا ہی ہے

منگل، 16 اکتوبر، 2018

کالم نویسی اور فنکاری


ایک صاحب اخبار میں کالم لکھا کرتے تھے ، پرانے پاکستان میں کہ ہر آدمی اور ہر ادارہ ہی کرپٹ تھا، ایک 
ادارے نے میڈیا والوں میں ریوڑیاں بانٹیں۔ سرکار ی اداروں میں ایک ایک روپے کاحساب ہوتا ہے کہ کہاں سے آیا اور کہاں خرچ ہوا۔ حساب درج رجسٹر ہو گیا ۔ آڈیٹر حساب چیک کرنے آئے جمع تفریق برابردیکھ کر رجسٹر پر آڈیٹڈ کی مہر ماری رجسٹر بند کرنے سے پہلے کاغذ کے ایک ٹکڑے پر رجسٹر نمبر ، صفحہ نمبر لکھا اوررجسٹر بند کر کے دفتر سے روانہ ہو گیا۔ 
کالم نویسی آج کل قلم گھسیٹنے کا نام ہے ، گھسیٹنے کے مقاصد ہوا کرتے ہیں ، جب کسی کو گھسیٹا جاتا ہے تو عام طور پر بغض کی کہیں جلتی آگ کو ٹھنڈا کیا جا رہا ہوتا ہے، کالم نویس جو حالات کو دیکھ کر مستقبل کی پیشن گوئی کیا کرتے تھے شہر خموشاں میں جا سوٗے یا گم نامی کے اندہیروں میں گم ہیں۔
ایک محفل میں صحافت کی دنیا کے چند بڑے ایک سیاسی شخصیت کی شادی پر تبصرہ کر رہے تھے ، پاس سے گذرتے کالم نویس کو بھی پاس بٹھا لیااور جب اسے تبصرہ کی دعوت دی تو سب حیرت سے کن انکھیوں سے ایک دوسرے کو دیکھتے لگے ۔ ایک صاحب نے کہاکیا آپ یہ لکھ کر دے سکتے ہیں۔ اسی ہفتے ملک کے سب سے بڑے اخبار میں ایک کالم چھپا اور جناب ارشاد احمد حقانی نے اپنا کہا لکھ کر دنیا کے سامنے پیش کر دیا۔وہ خود تو اللہ کی جنت میں جا بسے مگر ہم نے دیکھا کہ جناب آصف علی زرداری پاکستان کے صدر ہوئے۔ حرف مگر دو قسم کے ہوتے ہیں ایک ْ حرف تمنا ْ ہوتا ہے اورثقیل ہوتا ہے، دوسرا حرف قیمت پاتا ہے ۔ جس چیز کی قیمت وصول کر لی جائے انمول نہیں رہتی۔ جب مقتول کا بیٹا خون بہا وصول کر چکا ہوپھر وعدہ خلافی جرم بن جایا کرتی ہے۔ غیرت کا با غیرت لوگ بھی اسی وقت تک ساتھ نبھاتے ہیں جب تک غیرت کو بیچ نہ دیا گیا ہو۔زبان سے نکلا لفط رقم ہو کر ہی قیمتی بنتا ہے ، اس لیے کہ اس پر عمل ہونا ہے ۔ معاہدوں کو تحریر کرنے کا مقصد انھیں پایہ تکمیل تک پہچانا ہوتا ہے۔ کالم نویس کی مثال مبلغ جیسی ہے۔ مبلغ چالیس دن کی تبلیغ میں وہ پیغام ڈیلیور نہیں کر پاتا جو ایک درویش چوبیس گھنٹوں میں کر دکھاتا ہے۔ بے عمل زبان سے معجزے برپا کر دیتا ہے جو اس کو نظر بھی آرہے ہوتے ہیں مگر درویش جانتاہے معجزے برپا کرنا ایک عہد کے بعد ممکن نہیں رہا ۔ صاحب عمل سعی کرتا ہے اور داد لوگ نتیجے کو دیتے ہیں۔
ذکر ریوڑیاں بانٹنے کا شروع کیا تھا، وہ کاغذ کا ٹکڑاایک سیاسی شخصیت کی میز پر رکھا تھا ، اس کو بھی یقین تھا یہ انٹری بوگس ہے مگر اس نے کالم نویس سے کنفرم بھی کر لیا۔ یقین حاصل کرنا ایک چلہ یا تپسیا ہے ، یہ جو ہم سنتے ہیں فلاں بزرگ نے ایک نظر میں زندگی کا رخ بدل دیا، یہ جو ہمیں یقین ہوتا ہے فلاں جو کہہ رہا ہے سچ ہی ہو سکتا ہے، یہ جو فلاں نے لکھ دیا ہے غلط نہیں ہو سکتا ۔ یہ مقام تپسیا کے بعد ہی حاصل ہوتا ہے مگر اس مقام کی حفاظت لگاتار تپسیا کی متقاضی رہتی ہے۔اور اپنے مقام کی حفاظت کرنے والے لوگ رات کے اندھیرے میں معاشرے کے مجرم نہیں چھڑایا کرتے، وہ شخصیت کے سحر سے آزاد ہوا کرتے ہیں۔ وہ اپنی پاک دامنی کے قصیدے خود نہیں لکھا کرتے اور دوسروں پر سنگ باری بھی نہیں کیا کرتے۔لفظوں سے کھیلنا ایک فن ہے ۔طلوع آفتاب سے پہلے ایک ساعت آتی ہے جب فنکاراپنے فن کی داد پاتا ہے۔ البتہ جو فنکار سر شام ہی داد لینے چوکڑی مار کر بیٹھ جائے اسے تو اس کے شعبے کے لوگ بھی فنکار نہیں مانتے ۔ ہم خوبصورت لفظوں والے فنکار کو کالم نویس کیونکر مان لیں۔