پیر، 6 مارچ، 2023

مرنے کے بعد سچ

دنیا کے اکلوتے صادق و امین کے فرمان کا مفہوم ہے   
مومن بزدل تو ہو سکتا ہے مگر جھوٹا نہیں 
عرب کہتے ہیں جھوٹا ٓدمی بزدل ہوتا ہے 
سابقہ چیف جسٹس ثاقب نثار نے  عادل شاہ زیب سے کہا عمران خان سے کوئی رابطہ نہیں ہے اورزاہد گشکوری کو بتایا عمران خان سے رابطہ ہے۔ 

معروف قانون دان نے حامد خان اپنی کتاب میں لکھا ہے ’بطور جج جسٹس منیر کی قابلیت اور علمی حیثیت شک و شبہے سے بالا ہے لیکن کاش ان کے ارادے بھی نیک 
ہوتے
ارادوں کے بارے میں 
مشرف نے کہا تھا ہمارے ارادوں پر شک نہ کرو  مگرعوام نے دیکھا کہ اس نے بھی پی سی او پر دستخط نہ کرنے والے سو سے زیادہ ججوں کو نظر بند کر دیا تھا۔ اس کے بعد عوام ارادے  نہیں عمل دیکھتی ہے اور ثاقب نثار کا شیخ رشید کے ساتھ ملکر انتخابی مہم چلانا اور ڈاکٹر سعید اختر جیسے پرعزم اور با عزت کوانسان کو اپنی عدالت میں بلا کر تلخ لہجے اور گھٹیا  الفاظ سے مخاطب کرنا عوام شائد طویل مدت تک بھول نہ پائے۔ 

میں ٓپ کو بتاتا ہوں چھوٹے کردار والے بڑے عہدوں پر آتے کیسے ہیں۔ پاکستان کے 
پہلے چیف جسٹس سر عبد الرشید صاحب کی ڑیٹائرمنت پر 
 پاکستان کا چیف جسٹس بننے کی باری ابو صالح محمد اکرم کی تھی جو ڈھاکہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس تھے ۔مگر وہ بنگالی تھا ایک سوچی سمجھی رائے کے بعد گورنر جنرل غلام محمد نے کہا کہ جسٹس سر عبدالرشید کی ریٹائرمنٹ کے بعد حکومت ایک برطانوی قانون دان کو پاکستان کا چیف جسٹس بنانے کا ارادہ رکھتی ہے کیونکہ پاکستان کی بیورو کریسی سمیت عدلیہ جسٹس اکرم کوبطور چیف جسٹس قبول نہیں کرے گی

قائد اعظم کی مسلم لیگ 1906 میں بنگالیوں کے گھر بنی تھی ۔ بنگالی جسٹس اکرم سمجھ دار تھا ۔ چاول کو چاول کہتا تھا اورسیاسی مچھلی کو پیچانتا تھا  تھا ۔ اس نے کہا ہم نے سیاسی اور خونی قربانیوں کے بعد پاکستان بنایا ہے اور اب کسی برطانوی کو چیف جسٹس بنایا جائے ۔یہ قبول نہیں ہے  اس نے خود کو اس شرط پر قربان کر دیا کہ  برطانوی کی بجائے  پاکستانی کو چیف چیف جسٹس بنایا جائے۔ اندھے کو دو آنکھیں مل گئی اور گورنر جنرل نے جسٹس منیر کو چار ججوں کو بائی پاس کر کے پاکستان کا چیف جسٹس مقرر کر دیا۔ ہم لوگ دوسرے کا احسان زیادہ دیر نہیں  
اٹھاتے
1954 
میں تحلیل شدہ اسمبلی کی بحالی سے انکار کر کے جسٹس منیر نے غلام ؐحمد کااحسان اتار دیا 


پاکستانی عدلیہ  میں قانونی تواتر کی بجائے زمینی حقائق کو مد نظر رکھ کر فیصلے کیے جاتے ہیں۔ ان حقائق پر انفرادی جذبات و تعصبات اور خواہشات حاوی ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔نا دیدہ قوتوں کو بھی عدالتی فیصلوں پر اثر انداز ہوتا بھی محسوس کیا جاسکتا ہے۔جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی گواہی میرا خیال ہے ابھی بھولی نہیں ہو گی۔

یہ زمینی حقائق ہی تھے جب جنرل ضیاء نے قانوں کی مدد چاہی تو چیف جسٹس انوارالحق کی جگہ جسٹس یعقوب علی کو چیفب بنانے نیت ہی کی تھی کہ   جسٹس انوار نے رکوع میں جا کر مارشل لاء  کو رستہ  دیا اور سجدے میں گر کر جنرل کو آئین میں ترمیم کا حق بھی دے دیا۔

عدلیہ اور عسکری اداروں میں ملی بھگت اس وقت دیکھی  گئی جب  جج محمد بشیر کی عدالت سے ایک فوجی برآمد ہوا  اور جسٹس شوکت صدیقی نے پنڈی بار میں اس کی گواہی دی۔

اگر عدالتوں میں فیصلے قانونی تواتر کی بجائے زمینی حقائق کو مد نظر رکھ کر کیے جاتے ہیں تو تسلیم کرنا ہو گا کہ زمینی حقائق کا تغیر پذیر ہونا وقت کا مرہون منت ہوتا ہے۔ موجودہ چیف جسٹس نے حلف تو آئین کے دفاع کا اٹھایا ہوا ہے مگر ظلم دیکھیں وہ اونچی میں دھاڑ کر کہتے ہیں ہم نے فیصلے ضمیر کے مطابق کرنے ہیں ۔ ایسے حالات میں جہاں انصاف ضرورت اور ضمیر کے مطابق ہوں
وہاں فرق صرف اتنا ہی پڑے گا کہ مولوی مشتاق ریٹائر منٹ کے بعد زندگی میں سچ بولتا ہے مگر اب موت کے بعد سچ کا انتظار کرنے کا کہا جا رہاہے ۔

کوئی تبصرے نہیں: