جمعہ، 7 اپریل، 2023

اچھوتی تقسیم

  



ارجنٹائن نے اپنی آزادی کی سالگرہ  کی تقریب کے موقع پر اسرائیلی وزیر اعظم کو دعوت دی کہ وہ اس تقریب مین شرکت کے لیے اپنا سفارتی نمائندہ ارجنٹائن بھیجے جو اسپین سے ارجنٹائن کی آزادی کی  150 ویں سالگرہ کی تقریب میں شرکت کرے۔اسرائیلی سفارتی وفد نے ایک خصوصی طیارے کے ذریعے بیونس آئرس کے ہوائی اڈے پر اترا۔ سفارتی وفد اپنی مصروفیات میں مشغول ہو گیا جبکہ طیارے کا عملہ شہر کی طرف روانہ ہو گیا۔ اور اس وقت لوٹا جب طیارے نے واپسی کا سفر شروع کرنا تھا۔ ہوائی اڈے کے عملے نے خوشدلی سے سفارتی وفد کو الوداع کہا۔
دو دنوں کے بعد اسرائیلی وزیر اعظم نے اپنی پارلیمنٹ کو بتایا     اڈولف ایکمان، جو نازی جرمن رہنماوں کے ساتھ اس امر کے عمل درامد میں مصروف رہا تھا، جسے یہودیوں کا حتمی حل کہتے تھے    وزیر اعظم کا اشارہ یورپ میں مار دیے جانے والے ساٹھ لاکھ یہودیوں کی طرف تھا جنھیں  نازی دور میں مار دیا گیا تھا ۔    اس کو اسرائیل کی سیکورٹی سروس نے ڈھونڈ نکالا ہے، وہ اسرائیل میں زیر حراست ہے اور جلد ہی اسے عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کیا جاٗے گا  
ہوا یہ تھا کہ سفارتی وفد کے طیارے میں واپسی کے سفر میں اجنٹائن سے ایک فرد کو اغوا کر کے اسرائیل لایا گیا تھا۔ ارجنٹائین کی حکومت نے اسرائیل کے اس عمل پر احتجاج کیا اور اغوا کنندہ کی واپسی کا مطالبہ کیا جسے اسرائیل نے رد کر دیا۔ ارجنٹائین یہ معاملہ اقوام متحدہ میں لے گیا۔ اقوام متحدہ نے اسرائیلی اقدام کی مذمت کی اور دونوں ملکوں کو یہ قضیہ بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی ہدائت کی۔ ایکمان پر اسرائیل مین مقدمہ چلا اور اسے سزائے  مو ت دے دی گئی۔
 اسرائیل کے اس وقت کے وزیر اعظم ڈیوڈ  بن گورین  نے ایکمان کے اغوا پر اعتراض کے جواب میں کہا تھا    جو رستہ اختیار کیا گیا وہ اخلاقی طور پر غلط تھا مگر پکڑے جانے والے کا جرم بہت بڑا تھا  
 دنیا نے اسرائیل کا ہاتھ پکڑا نہ اقوام متحدہ مذمتی بیان سے آگے بڑہی نہ ہی کسی انسانی حقوق کے ادارے نے یہ سوال اٹھایا تھا کہ ایکمان کو اسرائیلی ججوں سے انصاف نہیں مل پائے گا۔دنیا کی اس خاموشی کا سبب یہ تھاکہ اسرائیلی دنیا کو باور کرا چکے تھے کہ نازی جرمنی میں مارے جانے والے یہودی دنیا کے پر امن اور مظلوم ترین لوگ تھے اور نازی جرمن بنی نوع انسان کے بد ترین مجرم تھے۔
یہودیوں نے نظر آتے  کالے کوے   کو سفید ثابت کرنے کا فن اپنے دشمن نازیوں ہی سے سیکھا تھا۔1895 میں ایک  جرمن دانشور گشتاولی بون نے اپنی کتاب    دی لراڈڈ    مین اس امر پر بحث کی تھی کہ کسی معاشرے میں اگر رائے عامہ کو کنٹرول کرنا ہے تو منظم پروپیگنڈہ کے ہتھیار کو استعمال کرنا ہو گا۔ اڈولف ہٹلر کی پرپیگنڈہ ٹیم کے روح رواں جوزف گوئبلز نے لی بون کے اس قول کو سچا کر دکھایا۔ اس نے ریڈیو، اخبارات اور مختلف حربوں سے جرمنی میں ہٹلر کے  ذاتی تشخص کو اس حد تک ابھار ا اور مبالغہ آرائی کی کہ ہٹلر کو عبادت کے لائق ہستی کی سطح تک پہنچا دیا۔
یہ پروپیگنڈہ ہی ہے جو فلسطینیوں کو دہشت گرد اور ظالم مگر یہودیوں کو امن کی فاختہ بنا کر پیش کرتا ہے۔ کشمیر کے نہتے نوجوانوں کے تازہ خون، معصوم بچوں کی چیخوں اور خواتین کے سر کی چادروں کے سرکائے جانے پر انسانیت کو خاموش رکھتا ہے۔یہ پروپیگنڈہ ہی تھا جس نے صدام حسین کو پھانسی کا پھندہ اپنے گلے میں ڈالنے پر مجبور کیا تھا۔ اس ظالم پروپیگنڈے کی مثالیں لیبیاء سے گوانتوناموبے تک پھیلی ہوئی ہیں۔ آپ احساس کے گھوڑے پر بیٹھ کر عقل کی آنکھوں سے دیکھیں تو آپ کو اللہ تعالی کی یہ زمین ایسا گلوبل ویلیج نظر آئے گی۔ جہاں بھکاری سے لے کر شکاری۔ سب نے ہی اپنا اپنا پروپیگنڈے کا بھونپو اٹھایا ہوا ہے۔  اس گلوبل ویلج کے سارے ہی باسی مگر دو پارٹیوں میں منقسم ہیں۔ ایک پرپیگنڈہ کرنے والی جبکہ دوسری اس پروپیگنڈے کا شکار ہونے والی پارٹی ہے۔

پیر، 6 مارچ، 2023

مرنے کے بعد سچ

دنیا کے اکلوتے صادق و امین کے فرمان کا مفہوم ہے   
مومن بزدل تو ہو سکتا ہے مگر جھوٹا نہیں 
عرب کہتے ہیں جھوٹا ٓدمی بزدل ہوتا ہے 
سابقہ چیف جسٹس ثاقب نثار نے  عادل شاہ زیب سے کہا عمران خان سے کوئی رابطہ نہیں ہے اورزاہد گشکوری کو بتایا عمران خان سے رابطہ ہے۔ 

معروف قانون دان نے حامد خان اپنی کتاب میں لکھا ہے ’بطور جج جسٹس منیر کی قابلیت اور علمی حیثیت شک و شبہے سے بالا ہے لیکن کاش ان کے ارادے بھی نیک 
ہوتے
ارادوں کے بارے میں 
مشرف نے کہا تھا ہمارے ارادوں پر شک نہ کرو  مگرعوام نے دیکھا کہ اس نے بھی پی سی او پر دستخط نہ کرنے والے سو سے زیادہ ججوں کو نظر بند کر دیا تھا۔ اس کے بعد عوام ارادے  نہیں عمل دیکھتی ہے اور ثاقب نثار کا شیخ رشید کے ساتھ ملکر انتخابی مہم چلانا اور ڈاکٹر سعید اختر جیسے پرعزم اور با عزت کوانسان کو اپنی عدالت میں بلا کر تلخ لہجے اور گھٹیا  الفاظ سے مخاطب کرنا عوام شائد طویل مدت تک بھول نہ پائے۔ 

میں ٓپ کو بتاتا ہوں چھوٹے کردار والے بڑے عہدوں پر آتے کیسے ہیں۔ پاکستان کے 
پہلے چیف جسٹس سر عبد الرشید صاحب کی ڑیٹائرمنت پر 
 پاکستان کا چیف جسٹس بننے کی باری ابو صالح محمد اکرم کی تھی جو ڈھاکہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس تھے ۔مگر وہ بنگالی تھا ایک سوچی سمجھی رائے کے بعد گورنر جنرل غلام محمد نے کہا کہ جسٹس سر عبدالرشید کی ریٹائرمنٹ کے بعد حکومت ایک برطانوی قانون دان کو پاکستان کا چیف جسٹس بنانے کا ارادہ رکھتی ہے کیونکہ پاکستان کی بیورو کریسی سمیت عدلیہ جسٹس اکرم کوبطور چیف جسٹس قبول نہیں کرے گی

قائد اعظم کی مسلم لیگ 1906 میں بنگالیوں کے گھر بنی تھی ۔ بنگالی جسٹس اکرم سمجھ دار تھا ۔ چاول کو چاول کہتا تھا اورسیاسی مچھلی کو پیچانتا تھا  تھا ۔ اس نے کہا ہم نے سیاسی اور خونی قربانیوں کے بعد پاکستان بنایا ہے اور اب کسی برطانوی کو چیف جسٹس بنایا جائے ۔یہ قبول نہیں ہے  اس نے خود کو اس شرط پر قربان کر دیا کہ  برطانوی کی بجائے  پاکستانی کو چیف چیف جسٹس بنایا جائے۔ اندھے کو دو آنکھیں مل گئی اور گورنر جنرل نے جسٹس منیر کو چار ججوں کو بائی پاس کر کے پاکستان کا چیف جسٹس مقرر کر دیا۔ ہم لوگ دوسرے کا احسان زیادہ دیر نہیں  
اٹھاتے
1954 
میں تحلیل شدہ اسمبلی کی بحالی سے انکار کر کے جسٹس منیر نے غلام ؐحمد کااحسان اتار دیا 


پاکستانی عدلیہ  میں قانونی تواتر کی بجائے زمینی حقائق کو مد نظر رکھ کر فیصلے کیے جاتے ہیں۔ ان حقائق پر انفرادی جذبات و تعصبات اور خواہشات حاوی ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔نا دیدہ قوتوں کو بھی عدالتی فیصلوں پر اثر انداز ہوتا بھی محسوس کیا جاسکتا ہے۔جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی گواہی میرا خیال ہے ابھی بھولی نہیں ہو گی۔

یہ زمینی حقائق ہی تھے جب جنرل ضیاء نے قانوں کی مدد چاہی تو چیف جسٹس انوارالحق کی جگہ جسٹس یعقوب علی کو چیفب بنانے نیت ہی کی تھی کہ   جسٹس انوار نے رکوع میں جا کر مارشل لاء  کو رستہ  دیا اور سجدے میں گر کر جنرل کو آئین میں ترمیم کا حق بھی دے دیا۔

عدلیہ اور عسکری اداروں میں ملی بھگت اس وقت دیکھی  گئی جب  جج محمد بشیر کی عدالت سے ایک فوجی برآمد ہوا  اور جسٹس شوکت صدیقی نے پنڈی بار میں اس کی گواہی دی۔

اگر عدالتوں میں فیصلے قانونی تواتر کی بجائے زمینی حقائق کو مد نظر رکھ کر کیے جاتے ہیں تو تسلیم کرنا ہو گا کہ زمینی حقائق کا تغیر پذیر ہونا وقت کا مرہون منت ہوتا ہے۔ موجودہ چیف جسٹس نے حلف تو آئین کے دفاع کا اٹھایا ہوا ہے مگر ظلم دیکھیں وہ اونچی میں دھاڑ کر کہتے ہیں ہم نے فیصلے ضمیر کے مطابق کرنے ہیں ۔ ایسے حالات میں جہاں انصاف ضرورت اور ضمیر کے مطابق ہوں
وہاں فرق صرف اتنا ہی پڑے گا کہ مولوی مشتاق ریٹائر منٹ کے بعد زندگی میں سچ بولتا ہے مگر اب موت کے بعد سچ کا انتظار کرنے کا کہا جا رہاہے ۔

ہفتہ، 4 مارچ، 2023

جنات کی اقسام

 



جنات کا قرآن میں ذکر:

 

بات یہ ہے کہ چند انسان بعض جنات سے پناه طلب کیا کرتے تھے جس سے جنات اپنی سرکشی میں اور بڑھ گئے۔

سورة الجن، آيت:6

 

:ابن کثیر لکھتے ہیں

جنات کے زیادہ بہکنے کا سبب یہ ہوا کہ وہ دیکھتے تھے کہ انسان جب کبھی کسی جنگل یا ویرانے میں جاتے ہیں تو جنات کی پناہ طلب کیا کرتے ہیں، جیسے کہ جاہلیت کے زمانہ کے عرب کی عادت تھی کہ جب کبھی کسی پڑاؤ پر اترتے تو کہتے کہ اس جنگل کے بڑے جن کی پناہ میں ہم آتے ہیں اور سمجھتے تھے کہ ایسا کہہ لینے کے بعد تمام جنات کے شر سے ہم محفوظ ہو جاتے ہیں جس طرح شہر میں جاتے تو وہاں کے بڑے رئیس کی پناہ لے لیتے تاکہ شہر کے اور دشمن لوگ انہیں ایذاء نہ پہنچائیں۔

 

جنات ایسی مخلوق ہے جو آگ کے شعلوں سے پیدا کی گئی ہے۔ یہ مخلوق علم و ادراک، حق و باطل میں تمیز کرنے اور منطق واستدلال کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے

بالکل ایسے ہی جیسے انسانوں میں صاؒلح اوربد ہوتے ہی

جنوں کے درمیان بعض طاقتور ہوتے ہیں، جیسا کہ طاقتور لوگ انسانوں کے درمیان بھی ہوتے ہیں۔ انسان دوسروں کے کام آتے ہیں اور نرم دل ہوتے ہیں اسی طرح جنات میں بھی نرم دل اور سخت دل بھی ہوتے ہیں ۔ شیطنت جنات کی صفت نہیں بلکہ ایک جبلت ہے جو انسانوں میں اور جنات میں بھی ہوتی ہے ۔ گو بد بخت  عزازیل جن ہی ہے مگر اس کے عمل کی وجہ سے جنات کی بطور مخلوق مذمت نہیں کی گئی بلکہ جنات پیغمبروں کے مدد گار رہے ہیں ۔ قرآن شریف میں ہے : 
جو کچھ سلیمان چاہتے وه جنات تیار کردیتے مثلا قلعے اور مجسمے اور حوضوں کے برابر لگن اور چولہوں پر جمی ہوئی مضبوط دیگیں ، اے آل داؤد اس کے شکریہ میں نیک عمل کرو ، میرے بندوں میں سے شکرگزار بندے کم ہی ہوتے ہیں۔ (سورہ سنا، آیت 13)

جنات کئی قسم کے ہوتے ہیں ۔ علامہ سلیمان ندوی نے لکھا ہے

1۔ جواجنہ وہ جن ہوتے ہیں جو ویرانوں میں رہتے ہیں ۔ ان کے علاقے مین جانے والے مسافروں کو اپنی صورتین بدل بدل کر خوف زدہ کرتے ہیں ۔

2۔ ایسے جنات جو انسانوں کی آبادیوں مین رہتے ہیں ان کو عامر کہا جاتا ہے

3۔ جنات کی وہ شریر قسم جو بچوں کو ڈراتے ہیں ان کا نام روح ہے

  جنات کی انسان دشمن اور شریر قسم کو شیطان کہا جاتا ہے

5۔ شیطان سے بھی شریر اور قسم کو عفریت کہا جاتا ہے۔

عفریت کی قسم سے جنات تھے جو حضرت علی بن ابی طالب کے بھائی ظالب کو اتھا کر لے گئے تھا جو کبھی واپس آئے نہ ان کا کوئی سراغ ہی ملا۔۔

کتابوں میں درج ہے کہ انسان جنات کو مار بھی ڈالتے ہیں طہوی نامی ایک عامل نے بھوت کو مار ڈالا تھا ۔ موجودہ دور میں جنات کے عامل  جنوں کو انفرادی طور پر یا خاندانوں کی صورت میں جلا دینے کا دعوی کرتے ہیں ۔ مگر عاملوں کا یہ دعوی علمی طور پر ماہرین ماننے سے انکاری ہیں ۔ البتہ انسانوں کے مونث جنات جن کو سعلاۃ کہا جاتا ہے سے شادی کی مثالیں موجود ہیں ۔ ایک عرب عامل جس کا نام عمرو بن یربوع نے سعلاۃ سے شادی کا ذکر کتابوں میں ملتا ہے اور یہ بھی لکھا ہے کہ اس کی اولاد بھی ہوئی تھی ۔ ملکہ سبا بلقیس کے بارےمین بھی بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس کی ماں بھی سعلاہ تھی۔

 

 

 

 


اتوار، 26 فروری، 2023

فتنہ کیا ہے




مجھے اتنا معلوم ہے عمر کے والد سکول میں ٹیچر تھے والدہ میٹرک تک تعلیم یافتہ تھی مگر ان کا مطالعہ وسیع تھا۔ ان کے گھر میں دو الماریاں کتابوں سے بھری ہوئی تھیں۔ عمر کی والدہ نے وہ تمام کتابیں پڑہی ہوئی تھیں۔ عمر کالج کی لائبریری سے انھیں باقاعدگی نے کتابیں لا کر دیا کرتا تھا۔ اس خاتون سے میں نے بھی سلیقہ، قرینہ اور ادب سیکھا تھا۔ عمر کے والد ایک ایسی کتاب کے مصنف تھے جو ہمارے کالج کی لائبریری میں بھی موجود تھی۔ 

دسمبر 1976 میں ہم دونوں ہی سکالرشپ پر بیرون ملک گئے ماسٹر کرنے کے بعد عمر پاکستان فارن سروسز میں چلا گیا۔ عملی زندگی میں بھی ہم دونوں قریب رہے جب اس کی شادی ہوئی تو میں نے محسوس کیا وہ مذہب کی شفاف جھیل میں غوطہ زن ہو چکا ہے۔ ماتھے پر عبادت گذاری عیاں تھی تو چہرے پر سنت رسول نے اس کی شخصیت کو با رعب بنا دیا تھا۔ عمر کا علمی وژن وسیع تھا میرا خیال ہے ملکوں ملکوں کی سیاحت نے اس کے علم میں اضافہ کرکے ذہن کو کھول دیا تھا۔ یورپ میں اس کی تعیناتی کے دوران مسلمان اسے مذہبی محفلوں میں بلاتے اور اس کے علم و اقوال کو سن کر اپنے مذہبی عقائد کو مضبوط کرتے۔ 

عمر کی زوجہ  فرح،  جب شادی ہوئی ایک سکول میں  اے لیول کی ٹیچر تھی۔ پہلے بچے کی پیدائش کے بعد اس نے ملازمت ترک کر دی تھی۔ مذہبی رجحان کی اس خاتون نے اپنے دونو ں بیٹوں کو حفظ کرایا تھا۔ اس وقت ایک بیٹا پی ایچ ڈی کرنے کے بعد بیرون ملک ایک یونیورسٹی میں پروفیسر ہے تو دوسرا بیٹا پی ایچ ڈی کر کے اپنا  آ ٹی ٹی کا کاروبار کر کے خوشحالی کی زندگی گذار رہا ہے۔

میں اور عمر  دونوں ہی ریٹائر زندگی گذار رہے ہیں۔ ایک ہی شہر میں رہتے ہی نہیں بلکہ ہر وقت رابطے میں رہتے ہیں۔ میرا خیال تھا میں عمر کو اندر سے جانتا ہوں مگر فرح جو کچھ بتا رہی تھی میرے لیے حیرت تھی۔ اس کی بیوی بتا رہی تھی۔ وہ ملحد ہو گیا ہے۔ قرآن کے کتاب الہی ہونے سے انکار کرتا ہے۔اور آخرت کوانسانی ذہنی اختراح کہتا ہے۔ 

اسلام آباد سے لاہور کا سفر چار گھنٹوں کا ہے۔ ہم جان بوجھ کر سات گھنٹے میں پہنچے۔پہلی رات کی صبح ہوئی تومیں عمر کے نظریات کی تبدیلی کے محرکات سمجھنے لگا تھا۔ بڑا محرک ٹوءئٹر پر برپا  ہونے والی سپیسسز

 تھیں (Spaces)۔ 

جب میں گھر عمر کو اس کے گھر اتار کر اپنے گھر واپس آ یا۔ میری بیوی، جو مسکراہٹ سے میرا استقبال کیا کرتی تھی۔ اس نے فکر مندی سے پہلا سوال یہ کیا   (کیا بات ہے آپ پریشان کیوں ہیں)۔ میں واقعی پریشان تھا۔ یہ پریشانی عمر کے بارے میں نہ تھی بلکہ اپنے تین تعلیم یافتہ بیٹوں کے بارے میں تھی۔ بیٹی بارے پریشان نہیں تھا کہ وہ ایک مضبوط کردار کے مسلمان کی زوجہ تھی۔ پھر ذہن کے کونے میں دھماکا سا ہوا۔ عمر بھی تو مضبوط کردار کا مسلمان تھا۔

عمر کے ساتھ کیے ایک ہفتے کے سفر کو آج مدت ہو چکی ۔ میں اور میری بیوی خوفزدہ ہیں۔ ہم اپنے حلقہ احباب میں کئی لوگوں سے مشورہ کر چکے ہیں مگر ہم دونوں، میاں بیوی، کی پریشانی کم نہیں ہو رہی  بلکہ روز بروز بڑھ رہی ہے۔ کیا ہم خود اور ہماری اولاد  (خاتمۃبالایمان) کی  سعادت پا سکیں گے۔ اگر عمر جیسے شخص کے اعتقاد  بدل سکتے ہیں تو ہمارا کیا بنے گا۔۔۔۔ 

کل میرے پوتے کی سالگرہ تھی۔ میرا سارا خاندان موجود تھا۔ کیک کاٹنے کے بعد یہ مسٗلہ بچوں کی ماں نے ان کے سامنے رکھا۔ میرا سب سے چھوٹا بیٹا جو سٹین فورٹ سے سائبر سیکورٹی کی ڈگری لے چکا ہے۔ ہنس دیا  اور ماں سے پوچھا۔ خوفزدہ آپ ہیں یا ابو! 

وہ خوف کے مقام ابتداء  تک پہنچ چکا تھا۔ خوفزدہ خود ہی گویا ہو ا  

(اگر انسان  زندگی کی عصر کے وقت، اپنی تربیت، اعتقاد، علم و سیاحت کے ہوتے ہوئے دین ہی  بارے میں اپنے نظریات تبدیل کر لے تو فکر مند ہونا قدرتی عمل ہے۔ اور اس کا سبب وہ ٹیکنالوجی ہے جس کے ہم سب مداح اور  benefiercies

  ہیں۔ میں اپنی ذات اور اپنے پیاروں کے خاتمۃبالایمان بارے خوف زدہ ہوں)

 ابو آپ کا خوف بجا ہے۔مصنوعی ذہانت کی کیمیاٗء سے کشید کردہ ایسی پروڈکٹس فرد کے موبائل فون پر دستیاب ہیں۔ جو رنجیدہ کو مخمور و سرشارکرنے کے علاوہ روح کو زخمی کرنے، اعتقاد کے نیچے سے مصلی کھینچ لینے، بیکار وجود کو عظمت و جلالت کی کرسی پر بیٹھا محسوس کرانے جیسا احساس پیدا کر سکتی ہے۔

میں نے کہا  مگر میں تو ان اعتقادی نظریات بارے فکر مند ہوں جو تمھارے انکل عمر پر سترکے پیٹے میں حملہ آور ہوئے  ہیں؟

ابو بات یہ ہے کہ کچھ حقیقت ہوتی ہے جس کو اساس بنا کر اس پر تغیر کی دیوار بنائی جاتی ہے اور پھر اپنے مطلب کا لنٹل ڈالا جاتا ہے۔ہمارے گھر کی لائبریری  میں  Andrew Wheatcraft کی کتاب پڑی ہے جس میں اس نے لکھا ہے  (اسلام صحرا کی مانند تھا) پھر ریت کے ان ذروں کو عمل نے متحد کیا۔ علماء  و مبلغین نے قرآن کی چتھری  تلے بنیادی کردار ادا کیا۔ مگر اس وقت اتحاد کی تسبیع کا دھاگہ ٹوٹ چکا ہے۔ متبرک  چھتری کا کپڑا پھٹ چکا ہے،  تنقیدی دھوپ اور ذہن بدلتی ژالہ باری کو روکنا ممکن نہیں ہے۔اسلام جذبات کی بجائے دلیل کی تبلیغ کرتاہے۔ مگر آج کل جذبات غالب ہیں اور دلیل تلاش کرنے والے، دلیل پیش کرنے والے موجود ہیں مگر صاحبان دلیل بزرگوں  نے خود ہی جذباتی  نوجوانوں کو سامنے کیا ہوا ہے۔ دلیل جس تعلیم یافتہ طبقے کے پاس ہے اس کے لباس اور شکل پر تنقید کی جاتی ہے۔ اس کے علم کے ماخذ کو نحس کہا جاتا ہے۔ یہی سبب ہے ان کی بات محدود طبقے تک پہنچتی ہے۔ دوسری طرف ٹوئٹر پر چند افراد  space  برپا کرتے ہیں۔ مگر ان کی پشت پر ادارے ہوتے ہیں۔ جب ایک فرد ان کے نرغے میں آتا ہے تو اس کا حشر وہی ہوتا ہے۔ جو آپ کے دوست کا ہوا ہے۔ 

کیا ہم بے بس ہو چکے ہیں۔میں نے سوال کیا 

آپ کے سوال کا جواب دینا اس وقت ممکن نہیں ہے کیونکہ ایک طرف ہم دفاعی حصار میں ہیں دوسری طرف جارہانہ پیش رفت میں خود ہمارے ہی کیمپ کے لوگ ہم سے مزاحم ہیں۔ مگر ایک بات میں یقین سے کہہ سکتا ہوں آخری کامیابی علم دلیل ہی کو ہونی ہے نہ کہ جذباتی مزاحمت کی۔ یہ انسانیت کی تاریخ ہے اور تاریخ اپنے آپ کو دھراتی ہے۔ 

اس بات کا کیا مطلب ہے کہ ہمارے ہی کیمپ کے لوگ ہم سے مزاحم ہیں کیا وہ مسلمان ہیں ؟  میں نے پوچھا 

ابو وہ ہم سے بہتر مسلمان ہیں۔ با عمل ہیں۔ وہ حقیقتوں کو ایسے دیکھ سکتے ہیں جیسے میں اس چمچ کو دیکھ رہا ہوں۔ مگر وہ دیکھنا نہیں چاہتے کیونکہ جس تشویش میں آپ مبتلا ہیں اس کی تپش  میں تو محسوس کرتا ہوں مگر ابھی تک یہ تپش وہاں تک نہیں پہنچی جہاں تک پہنچنی چاہیے تھی۔ 

 میں نے بیٹے کو ڈی ٹریک ہوتے دیکھا تو کہا  عمر کے بارے میں، میں ہی نہیں اس کی بیگم بھی فکر مند ہے۔فرح کا کہنا ہے  جب نزلہ کے جراثیم گھر میں گھس آئیں تو سب کی صحت خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ اس کو اصل تشویش اپنے بیٹوں کے بارے میں ہے۔

میرے لیے انکشاف تھا جب بیٹے نے کہا  شانی (عمر کا بیٹا)  فرضی نام سے اس سپیس کا حصہ ہے جو اس کے والد صاحب کو کھا گئی ہے۔ جب اس کے والد پہلی دفعہ اس سپیس میں بولے تھے۔ اسی دن ہی سے شانی باقاعدگی سے اس سپیش بارے مجھ سے بات کرتا رہا ہے۔ میں نے خوو بھی کئی بار انکل کو بولتے سنا ہے۔ مگر ہمار کنسرن عمر انکل نہیں ہیں۔ ہماری اصل تشویش وہ سوچ ہے جو ہمارے معاشرے میں تیزی سے پھیل رہی ہے۔ ہم نے ایک بار ارادہ کیا تھا۔ وہ تمام اکاونٹ بند کر ا دیں جو ایک مخصو ص جگہ سے اوپریٹ ہوتے ہیں مگر یہ اسلام کی اس بنیادی تعلیم کے خلاف ہے جس میں اللہ تعالی بنی آدم کے سامنے خیر اور شر کو بیان فرما کر بنی آدم کو چوائس کا موقع دیتا ہے۔ اس چوائس کو جو لوگ چنتے ہیں وہ عام لوگ نہیں ہوتے۔ ان کو گمراہ نہیں کہا جا سکتا۔ لوگ مذہب میں داخل ہوتے ہیں چھوڑ جاتے ہیں، کبھی کبھی پلٹ بھی آتے ہیں۔ یہ لوگ دلیل کو ماننے والے لوگ ہوتے ہیں۔ ان لوگوں کا وژن عام لوگوں سے بلند ہوتا ہے۔ یہ بہتر سے بہترین کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ شانی کا خیال ہے کہ اس کے والد پلٹ ائیں گے

میں نے پوچھا 

تمھار کیا خیال ہے عمر کے بارے میں کیا وہ لوٹے گا۔

میں نہیں جانتا  وہ لوٹیں گے یا نہیں مگر مدار کی گردش سے جب کوئی سیارہ نکل جائے تو وہ مدار میں واپس نہیں آیا کرتا۔۔۔۔

میرے گھر کے اندر اپنے بچوں سے اس بات چیت کو ساڑے تین سال گذر چکے ہیں۔ عمر اس دار فانی سے کوچ کر چکا ہے۔ اس کی وفات کے بعد فرح نے اپنے گھر کے ماحول میں اپنے ذہن کے مطابق تبدیلیاں کی۔ اس نے بتایا ہر ہفتے محفل کرانے کا مقصد صرف یہ ہے کہ نوجوانوں کو سوال کرنے کا موقع دیا جائے۔ ہر شخص ہر قسم کا سوال پوچھ سکتا ہے۔ اور میرے بیٹے ان سوالوں کا جواب دیتے ہیں۔ اور مجھے خوشی ہے سب سے تلخ اور بے ہودہ سوال خود میرے پوتے اور پوتیاں پوچھتے ہیں۔ اس عمر کے سوال عمر کے ساتھ ساتھ بڑے ہوتے جاتے ہیں اور جب سوال بوڑہے ہو جاتے ہیں۔۔۔  فرح کی آواز بوجھل ہورہی تھی ۔۔ میرے تصور میں مگر وہ سیارہ تھا جو مدار سے نکل جاتا ہے۔



ہفتہ، 7 جنوری، 2023

شادی کس سے کی جائے


 


شادی کس سے کی جائے 
یہ ایسا سوال ہے جس کا جواب کم لوگ ہی دے پاتے ہیں۔ہر نوجوان مرد خوبصورت ، نیک سیرت ، تعلیم یافتہ ، اچھے خاندان کی لڑکی سے شادی کرنا چاہتاہے

اور ہر نوجوان لڑکی کا اصرار ہے ، کہ اسے خوبصورت ، تعلیم یافتہ او ر معاشی طور پر مضبوط شریک حیا ت ملے۔

کیا تعلیم یافتہ ہونا ہی خوبی ہے
تعلیم ایسی نعمت ہے جو انسان کی شخصیت کو بدل کر رکھ دیتی ہے ۔ تعلیم کو پیغمبروں کی میراث بتایا جاتا ہے ۔ اس دنیا کی سب سے زیادہ عالی شان ہستی نے علم کی تعریف میں خالق کاہنات کو علیم بتایا ۔ علم ایک زیور ہے اور زیور خواتین پر ہی جچتا ہے ، اور جس خاندان یا گھرانے میں کسی تعلیم یافتہ عورت کا وجود ہو جائے ، وہ گھرانہ ایک نسل بعد ہی ممتاز ہو جاتا ہے ۔ کسی نے علم کے حصول کے لیے طویل سفر کرنے کی ہدائت کی اور کسی نے تعلیم یافتہ ماں کو معاشرے کی کامیابی قرار دیا، موجودہ دور میں دنیا میں ایسے معاشرے بطور مثال موجود ہیں جنھوں نے تعلیم کے بل بوتے پر ایک نسل کی طوالت میں اپنے معاشرے کو با عزت بنا دیا
جی ہاں ۔ ہم سفر کے چناؤ میں تعلیم کو ضرور اہمیت دیں ، اس سلسلے میں میرا مشورہ یہ ہے کہ آپ کا ہم سفر آپ سے زیادہ تعلیم رکھتا ہو تویہ ایک بہت بڑی کامیابی ہو گی ، خاص طور پر مرد حضرات اگر اس حقیقت کا ادراک کر لیں تو ان کا گھرانہ بہت جلد ترقی و کامیابی سے ہم کنار ہو سکتا ہے۔یہ سوچ کہ بیوی کا خاوند سے کم تعلیم یافتہ ہونا لازمی ہے ایک منفی سوچ ہے ، جو گھریلو اور خاندانی ترقی میں کوئی مثبت کردار ادا نہیں کرتی،
بچہ، جس گھرانے میں انکھ کھولتاہے ، جس معاشرت میں پل کر جوان ہوتا ہے، جن بزرگوں سے متاثر ہوتا ہے، یہ سارے عوامل نوجوان کے اعتقادات بن چکے ہوتے ہیں۔تعلیم ایسے نوجوان کے خیالات کی تطہیر میں مدد گار ضرور ہوتی ہے ۔
علموں بس کریں او یار
پنجابی زبان کے ایک بالغ الذہن شاعر ، اپنے اعتقادات کے عظیم مبلغ اور علم کے بڑے داعی نے درج بالا کلمات علم کی مذمت میں نہیں کہے بلکہ ان تعلیم یافتہ لوگوں کی مذمت کے لیے کہے ہیں جن کا
ْ تعلیم نے کچھ بھی نہ بگاڑا ْ
گو ایسے افراد کم ہی ہوتے ہیں جو اپنے علم کے نور کی روشنی میں چلنے کے منکر ہوں مگر ان کے وجود سے انکار ممکن نہیں ہے ۔ اس لائن میں سب سے پہلا نام ابلیس کا ہے جس کے علم نے اسے سوائے تکبر کے کچھ نہ دیا ۔ ہمارے معاشرتی زندگی میں ہم اپنے ارد گرد ایسے لوگوں کو کھلی آنکھ سے دیکھ سکتے ہیں جن کی مثال
ْ کتاب بردار گدہا ہے ْ
ہم سفر کے چناؤ سے قبل اس بات کی چھان پھٹک کر لینی چاہیے کہ اپ کا ساتھی کتاب بردار ہی نہ ہو ۔ اس کے جانچتنے کے طریقے ہیں مثال کے طور پر جو تعلیم یافتہ مرد ، محنت سے جی چرانے والا ہو ، رشتوں کی اہمیت سے منکر ہو ، تکبر کا شکار ہو ، ملازمت اس لیے نہ کرتا ہو کہ اس کے معیار کی نہیں ہے ۔۔۔ عورت ، اپنے جسم ، گھر بار کی صفائی، رویوں کی ترتیب ، رشتوں کی پہچان ، اپنے فرائض سے بے خبر ہو تو ایسے تعلیم یافتہ لوگ بے ضرر نہیں ہوتے گو آٹے میں نمک کا وجود لازمی ہے مگر اس کی زیادتی کھانے کے عمل ہی کو بد مزہ بنا دیتی ہے اور کھانے کو بد مزہ کرنے والا عنصر ایک ہوتا ہے مگر باورچی کی طویل محنت کا بیڑا غرق ہو جاتا ہے