بدھ، 14 دسمبر، 2022

و ما علینا الاالبلاغ




ایک انار سو بیمار کا محاورہ اس لیے پرانا ہو گیا ہے کہ اب آبادی بہت بڑھ چکی ہے اور انار مہنگے بھی بہت ہو گئے ہیں۔ مگر اس کے باوجود ملک کے اندر پیدا ہونے والے انار ناکافی ہوتے ہیں تواس کمی کو پورا کرنے کے لیے انار باہر سے درآمد کیے جاتے ہیں۔ باہر سے منگوائے انار کا معیار اور تعداد ہی نہیں قیمت بھی مقتدر قوتوں کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ درآمدی انار ہی نہیں کرسی کے بیمار بھی اس معیار پر پورے اترتے ہیں 

مقتدر قوتوں بارے تحریک انصاف کی حکومت کے آخری دنوں میں ایک صاحب راز نے کہا تھا (پاکستان میں مقتدر قوتیں ہمیشہ اقتدار میں ہوتی ہیں اور جب  اقتدار میں نہیں ہوتی تو زبردست اپوزیشن کرتی ہیں) وہ صاحب پاکستان کی معیشت کو کھانے والے کیک سے تشبیہ دے کر کسی کے حصے کی بات کر رہے تھے۔ ٹویٹ داغنے اور ڈیلیٹ کرنے کا قصہ چھیڑا ہی تھا کہ اس وقت کے وزیر اعظم نے ان کی زبان بند کر دی تھی۔ وہ زبان تو بند ہوگئی مگر اب عمران خان کے اقتدار سے نکلنے کے بعد بہت ساری زبانیں بے لگا م ہو چکی ہیں۔ بے لگام ہونے کی اصطلاح گھوڑے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ سیاسی جماعتوں کی اکثریت کی مثال گھوڑے ہی جیسی ہے جو کاٹھی ڈال لے اسی کی ہو جاتی ہے۔ پاکستان میں صرف دو سیاسی پارٹیاں ہیں جن میں جمہوریت ہے۔ دونوں ہی عوام کے آستانے سے راندہ درگاہ ہیں۔ جن دنوں ایم کیو ایم کے گھوڑے پر الظاف بھائی نے کاٹھی ڈالی ہوئی تھی۔ مقتدرہ نے کاٹھی کی زیریں بلٹ خنجر سے کاٹ دی۔اس کامیاب تجربے کے بعد نون لیگی شہسوار کو اسی تکنیک سے گرایا گیا۔ اب کپتان بھی کہتا ہے اچھے بھلا سواری کر رہا تھا۔ پہلے تو فوج کا نام لیا پھر ایک جرنیل پھر تین جرنیل پھر بیس لوگوں کا نام ادھر ہی سے آ رہا ہے۔ یہ بیس ہیں یا ڈیڑھ سو یا پانچ سو، سب سنی سنائی کہانیاں ہیں مگر یہ حقیقت ہے کہ یہی طبقہ پاکستان کا مقتدرہ ہے۔ اسی مقتدرہ کا، گلہ،  اسلام آباد کی عدالت کا برطرف شدہ جج کرتا پایا جاتا ہے۔ عدالت عظمی کا ایک حاضر جج اور اس کا خاندان بھی اپنے آپ کو اس مقتدرہ کی گرفت سے مشکل سے بچاتا ہے۔ سیاستدان تو عوام کے کھیت کی وہ مولی ہے جس کو کرپٹ اور غدار کہہ کر ہمیشہ ہی کاٹا گیا ہے۔ اسی مقتدرہ کے اشارے پر صحافیوں کو شمالی علاقوں کی سیر کرائی جاتی ہے بلکہ گولیاں تک مار دی جاتی ہیں۔ عوام جو دن کی ابتدا ہی جنرل ٹیکس کی ادائیگی کر کے کرتی ہے، اس کو حکومت میں شمولیت کا احساس ہوتا ہے نہ اس کے ووٹ سے منتخب نماہندوں کو۔ مقتدرہ کے، بظاہر، دباو پر قومی اسمبلی کے منتخب وزیر اعظم  کی  انتظامی افسروں کی تعیناتی کو عدالت موٹے شیشوں والی عینک لگا کر دیکھتی ہے مگر ایک صوبے میں ہونے والی غیر آئینی قانون سازی کو نظر انداز کر دیتی ہے۔ ریکوڈک حرام مگر رق وڈق پکار کر حلال کر لیا جاتا ہے۔ سیاسی جماعتوں کو شکائت ہے عدلیہ کو ان کے اور عوام کے ججوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ ایسی تقسیم پولیس میں بھی بتائی جاتی ہیں اور ایک انتظامی افسر کو مرکزی حکومت کے احکام کو نظر انداز کرتے عوام کی آنکھوں نے خود دیکھا۔ دوسری طرف صوبے سے پولیس کے سربراہ کو اسلام آباد  عدالت میں بلا کر بے توقیر کیا جاتا ہے۔ عوام پریشان ہے اور آئین اور قانون کے طالبعلم حیران ہیں کہ ادارے اپنے حصے کا کام کرنے کی بجائے دوسرے اداروں پر انگلی اٹھانے کو جوان مردی کیوں سمجھتے ہیں۔بہرحال کچھ سبق عوام کو ازبر ہو چکے ہیں 

لوگ جس زبان میں بات کرنا چاہتے ہیں کرنے دیں *

لوگ جس جگہ رہنا چاہیں انھیں رہنے دیا جائے *

انصاف ہونا چاہیے اور ہوتا ہوا نظر آنا چاہیے *

ٓآئین میں کی گئی مثبت ترامیم کو قبول کیا جانا چاہیے *

سسٹم کو چلنے دیا جائے اور سہولت کاری کا رویہ اپنایا  جائے *

جس ادارے کا جو کام وہ اسی پر توجہ دے *

پچھتر سالوں میں جس بات پر عوام متفق ہو چکی ہے۔ اس کے اعتراف اور عمل درآمد پر کیا مزید پچھتر سال لگیں گے۔ وقت بتاتا ہے کہ وقت بدل چکا ہے۔ دیکھنے اور سننے، لکھنے اور پڑہنے، سیکھانے اور پڑھانے ۔۔۔ سب کچھ ڈیجیٹل ہو چکا ہے۔ ڈیجیٹل دنیا انٹر نیٹ کے بادل پر سوار ہو کر انسان کے ہاتھ میں اٹھائے موبائل پر اتر چکی ہے۔ اس وقت  محکوم ذہنی طور پر حاکموں سے آگے نقل چکے ہیں۔ شہسوار، گھوڑے، خنجر اپنی جگہ موجود ہوتے ہوئے اپنا کردار کھو چکے ہیں۔ تصویر کبھی ممنوع ہوا کرتی تھی مگر کیمرہ مجبوری بن چکا ہے۔ 

جس پر عوام متفق ہو چکی اس کا اعتراف کرنے ہی میں زندگی ہے۔ اعتراف معافی کی طرح ہوتا ہے اور معافی انسان کو با کردار بناتی ہے۔ جو معافی نہیں مانگتا اسے خالق معاف کرتا ہے نہ مخلوق۔

انار مہنگے اور کم ہیں مگر عوام کا قلب وسیع اور خالق کی رحمت سب جہانوں پر غالب ہے۔


ہفتہ، 10 دسمبر، 2022

قوم بنانے کا عمل



پاکستان میں لوگوں کو ایک قوم بنانے کا عمل جاری ہے ابتدا قیام پاکستان کے وقت سے کی جائے تو ایک سال کے عرصے میں ہی قوم بننے کی بجائے لوگ کرپٹ ہو گئے۔ اسی لیے پروڈا 

 (Public Reresentation Fooce Disqualification Act)

سولہ جنوری 1949کو متعارف کرایا گیا مگر لاگو  اگست 1947 سے کر کے لوگوں کو قوم بنانے کا کیمیائی عمل شروع کیا گیا۔یہ پہلی سعی تھی۔

دوسری سعی1954 کا آئین  پھاڑ کرڈسٹ بن میں ڈال کر اور تیسری اور کامیاب کوشش   1958   میں ایک شجر تناور کا بیج  بو کر کی گئی۔بارہ سال کی نگہداشت اور آبیاری کے بعد1970کے الیکشن میں عوام نے مگراس مشجر مقدس کی جڑوں کو ہی کاٹ ڈالا۔ بنگالی اپنے بنگلہ کو چل دیے  توپاکستان میں 1971کے بعد عزم نو پیدا ہو۔ بھٹو جیسی کرشماتی شخصیت نے پارلیمان کی طاقت سے عوام کو روشناس کرایا ، مختلف طبقات کو اکٹھے ہونے اور بولنے کی آزادی دی۔بولیوں میں سب سے اونچی اواز لاوڈ سپیکر کی ظاہر ہوئی۔ باقی سب اوازیں دب گئیں۔ 1979میں بھٹو کو  ٹھکانے لگا کر صاحبان صوت مکبر کے دلائل پر عمل شروع ہوا تو راز کھلا لاوڈ سپیکر مسجد کے مینار پر آسمان سے نہیں اترتا بلکہ بازار سے خریدا جاتا ہے۔ لوگوں نے اپنے  اپنے لاوڈ سپیکر خرید لیے شور زیادہ بڑھ گیا تو اونچائی پر ٹانگے لاوڈ سپیکر کو گولی سے اڑا کر سکون حاصل کیا گیا۔ گولی کا چلن ہوا تو کلاشنکوف مارکیٹ میں آ گئی۔ کلاشن کوف کی گولی نے شکل دیکھی نہ قابلیت قد ماپا نہ قومیت جانچی۔ سبق مگر یہ حاصل ہوا اس ملک کے باسی سخت جان ہیں۔ جا ن سے مارنے سے بہتر ہے افہام و تفہیم سے کام لیاجائے۔ پارلیمان کھول دی گئی۔1973کے آئین پرلپٹے سبز غلاف کو اتار کر کر چوم لیا گیا۔ کتاب کی شکل پر بنی عدالت  کی عمارت کے دروازے پر لگی میزان کو  عدل سلیمانی کا استعارہ بتا دیا گیا۔ الیکشن ہو گئے۔ زندگی رواں دوان ہوگئی۔ لوگ تعمیر و ترقی کی باتیں کرنے لگے نوجوان اچھے مستقبل کے خواب دیکھنا شروع ہو گئے۔ تاریکی روشنی میں بدلنا شروع ہو گئی۔ ذہن کھلنا شروع ہو گئے۔قلب وسیع ہوئے۔ فرقہ بندی، جتھہ سازی اور مردہ باد کو لوگوں نے رد کرنا شروع کر دیا۔ 

ہم مشرقی لوگ توہم پرست نہیں مگر ہماری لوک کہانیوں میں غیبی آوازوں، آسمانی صداوں اور ماوراء عقل واقعات اور پل بھر میں حالات بدل جانے کے واقعات کی بھرمار ہے۔ ہم شے کو دیکھنے سے پہلے اس کے سائے کا مطالعہ کرتے ہیں اور شے کا ایسا نقشہ پیش کرتے ہیں کہ اپنے ہی لوگ انگلی منہ میں دبا لیتے ہیں۔ مگر اس بار نقاش اکیلا نہیں تھا۔ کہانی نویس ساتھ تھے۔ ایکٹر تربیت یافتہ تھے۔ ڈائریکٹر صد سالہ تجربہ رکھتے تھے۔ کیمرے جدید تر اور کیمرہ مین اپنے کام کے ماہر تھے، وسائل کا عالم یہ کہ سوچ پیدا ہو تو تعبیر سامنے دکھا دی جائے۔ جب زندہ انسان کو لوگوں کے سامنے مار کر زندہ کر دیا جائے تو کون کافر یقین نہیں کرے گا۔انسان کی فطرت ہے کہ اس کو میسیج کر کے بتایا جائے کہ اس کی دس ملین ڈالر کی لاٹری بغیر ٹکٹ خریدے نکل آئی ہے۔ اس سوٹ کیس کی تصویر بھی دکھا دی جائے جس میں ڈالر رکھے ہیں۔ ڈالروں کی ویڈیو دکھا کر لوگوں کی زندگی میں آئے امیرانہ انقلاب کی کہانی بھی سنا دی جائے تو پچیس سال کے تعلیم یافتہ مگر دولت سے محروم ایم فل کیے نوجوان کی عقل بھی ماوف ہو جاتی ہے اور وہ اٹھ سو ڈالر کے بدلے دس ملین پانے کی خواہش کو دبا نہیں پاتا۔ 

موجودہ دور میں لوگوں کی محرومیوں، خواہشوں، امنگوں، خوابوں اور جذبات کو خریدا جاتا ہے۔ بڑا پلیٹ فارم سوشل میڈیا ہے۔ سوشل میڈیا کا اعجاز ہے کہ انسان شناخت ظاہر کیے بغیر دل و ماغ کھول کر ایسے کھیل میں شامل ہوجاتا ہے جہاں سامنے والا کھلاڑی ماہر ہوتا ہے۔ اس کی پشت پر علم و ہنر کی بہریں بہہ رہی ہوتی ہیں۔ وسائل کی چپ اس کے کارڈ نمبر سے منسلک ہوتی ہے۔ وہ اکیلا نہیں ہوتا اس کو پروموٹ کرنے والے غیر ہی نہیں آپ کے جاننے والے بھی ہو سکتے ہیں۔ اور سب سے بڑی بات آپ جو کچھ کرتے ہیں وہ صیغہ راز میں ہی رہتا ہے۔

ہر وہ کام جو راز میں رکھا جائے غلط نہیں ہوتا مگر ہر غلط کام کو راز میں رکھاجاتا ہے۔

پاکستان کے ساتھ کیا ہوا 

  ٭  وہ پارلیمان جس کو قائد اعظم نے عزت دی تھی  اس پر چار حرف بھیجے گئے۔  

  ٭ میزان عدل کو پیاز تولنے والی (ترکڑی)  بنا ڈالا گیا۔

  ٭خبر نکالنے کے لیے جان ہتھیلی پر رکھ گولیاں کھانے والے لفافہ بتائے گئے

  ٭سیاستدان جنھوں نے مالی اور جانی قربانی دے کر آئین کو بچایا کرپٹ مشہور کر دئے گئے۔

  ٭وہ آئین جو ملک کو متحد رکھے ہوئے ہے اس کو مولفوں کے حوالے کردیا گیا

  ٭وہ جج جنھوں نے اپنے حلف کی پاسداری کی ان کو بے توقیرکرنے کی کوشش کی

  ٭ قابل اور تربیت یافتہ پرعزم پولیس آفیسران کو دارلحکومت کے وسط میں پھینٹا لگایا گیا

  ٭ اٹھارویں ترمیم کے ذریعے صوبائی خودمختاری کو ممکن بنانے والوں کو ڈاکو کہا گیا

  ٭ نوجوانوں میں علم کی پیاس جگا کر نادار  او ر  لائق طلباء میں لیپ ٹاپ تقسیم کرنے والوں کو چورکہا گیا

  ٭ ملکی دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے والے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو فیصل مسجد کے صحن میں عوام کی بنائی قبر میں اتارنے سے روک دیا گیا

  ٭ ملکی ترقی کے لیے تن من سے کام کرنے والوں کے خلاف بدنامی کے ڈھول  پیٹے گئے 

  ٭نوجوانوں سے امید چھین کر مایوسی بانٹی گئی

  اب عوام پر راز کھل چکا ہے کہ یہ وہی تجربہ کار ٹولہ ہے جو کبھی ترکی میں خلافت گراتا ہے۔ کبھی اسرائیل کی شکل میں مسلمانو ں کے قلب میں چھرا گھونپتا ہے۔ کبھی لیبیا،  و عراق اور شام میں خون کی ہولی کھیلتا ہے۔ مرسی کو لوہے کے پنجرے میں بند کر کے بھوکا رکھتا ہے۔ مگر اپنے مہروں کے لیے جنتی ارضی کا انتظام کرتا ہے۔ حکیم سعید کی شہادت کے شوائد اس لیے چھپا کر رکھتا ہے کہ وہ ان کی سازشوں کو جان گیا تھا۔

پاکستان میں فرعون اور موسی کو سیاسی بیانات میں ذکر کیا جاتا ہے۔ اور بتایا جاتا  کہ ہے کہ موسی 

(1271-1300 BC )

نے ایک قوم بنائی تھی حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ موسی نے قوم نہیں بنائی قوم پہلے سے موجود تھی۔ انھوں نے تو ایک غیر انسانی فعل بند کرایا تھا۔ اور غیر انسانی فعل یہ تھا کہ فرعون 

(ان کے لڑکوں کو ذبح کر ڈالتا تھا اور ان کی لڑکیوں کوزندہ چھوڑ دیتا تھا)

 پاکستان میں لوگوں کو ایک قوم بنانے کا عمل جاری ہے ابتدا قیام پاکستان کے وقت سے کر دی گئی تھی۔مگر اج پاکستانی سمجھ چکا ہے۔ قبیلہ اور خاندان اللہ تعالی کی عطا کردہ پہچان ہے۔ سارے پاکستانی محب وطن ہیں۔ پنجابی کو بلوچی پر اور سندھی کو پٹھان پر برتری حاصل نہیں ہے۔اردو ہو کہ سندھی، پنجابی ہو کہ بلتی، بلوچی ہو کہ ہندکو سب زبانیں پاکستانیوں کی ہیں۔ فرقہ بندی اور جتھہ سازی ہماری کمزوریاں ہیں اور سب سے بڑی کمزوری ڈوبتی معیشت ہے۔ 


جمعرات، 8 دسمبر، 2022

بد اعتمادی کا سبب

 



انتیس فروری دو ہزار بائیس کو اپنی تین سالہ  ملازمت بمع تین سالہ توسیعی مدت پوری کرکے ریٹائر ہونے والے چیف اف ارمی سٹاف ریٹائرڈ جنرل قمر جاوید باجوہ صاحب پر سابقہ وزیر اعظم عمران احمد نیازی المعروف عمران خان نے الزام لگایا ہے کہ جنرل باجوہ نے دوران ملازمت 
حکومت  کے ساتھ منافقاقہ رویہ رکھا ۔ اور ہمارے درمیان اعتماد کا بحران پیدا ہوا ۔
کسی بھی سیاسی رہنما یا ریاستی عہدیدار کو یاد رکھنا چاہیےکہ عدم اعتماد کا سبب ذاتی اقوال یا اعمال نہیں ہوتے بلکہ بد اعتمادی کا اصل سبب ائین اور قانون پر عمل درامد 
کی ناکامی سے پیدا ہوتا ہے 
  

سازشی مہرے

 


اس وقت سیاست اور ریاست دو دھڑوں میں تقسیم ہے ایک دھڑا جس کی قیادت مولانا

فضل الرحمن، میاں نواز شریف اور ٓاصف علی زرداری کر رہے ہیں اور پی ڈی ایم کے نام سے سیاسی اتحاد بنا کر سیاسی جماعتوں کی اکثریت کو ساتھ ملایا ہوا ہے ۔ کا موقف ہے کہ ملک کی اخلاقی معاشرتی اور معاشی بدحالی کا سبب ائین اور قانوں پر عمل درامد نہ ہونا ہے ۔ ریاستی اہلکاروں کا ایک دھڑا ان کے بیانئے کی تائید کرتا


ہے اور ان کا ساتھ دینا چاہتا ہے 

دوسری طرف عمران خان اور اس کے اتحادی ہیں جو چند ماوراٗ ائین اقدامات کے حامی ہیں ۔ ان کا موقف ہے کہ ریاستی ادارے خاص طور پر پاک ارمی ان کا ساتھ دے۔ حکومت کو مجبور کرے کہ وہ قبل از وقت الیکشن کرائیں ۔ تاکہ عمران خان کے وزیر اعظم بننے کے لیے راہ ہموار ہو سکے۔

پاک فوج کے غیر جانب دار ہونے کے اعلان کے بعد اب دونوں سیاسی دھڑے عدلیہ کی مدد سے ایک دوسرے پر حاوی ہونا چاہتے ہیں ۔ عوام کا تاثر یہ ہے کہ عدلیہ دو دھڑوں میں تقسیم ہے ۔ الیکشن کمیشن سیمت ضلعی عدالتوں اور ہائی کورٹ سے ہونے والے فیصلے سپریم کورٹ میں جا کر تبدیل ہو جاتے ہیں۔ بعض مقدمات کی ماعت تیزی سے ہوتی ہے اور بعض مقدمات سنے ہی نہیں جا رہے

قاف لیگ اور تحریک انصاف کا اتحاد

  قاف لیگ اور تحریک انصاف کا اتحاد



عمران خان کے اسمبلی توڑنے کے اعلان کے بعد پنجاب اسمبلی نہ ٹوٹی تو پنجاب میں عمران خان کی ذاتی مقبولیت کا گراف نیچے ا جائے گا البتہ تحریک  انصاف بطور جماعت پنجاب میں حکمران رہے گی۔

ق لیگ کے وزیر اعلی نے عمران خان کے مقابلے میں اعلی سیاسی بصرت ثابت کی ہے اور عمران خان کو وہ وعدہ وفا کرنے پر قائل کر چکے ہیں جو عمران خان نے چوہدری پرویز الہی سے انھیں پنجاب کا وزیر اعلی بناتے وقت کیا تھا کہ وہ الیکشن تک کی مدت پوری کریں گے۔ 

سیاسی پنڈتوں کا کہنا ہے کہ اگر پرویز الہی اسٹیبلشمنٹ میں اپنے اثر و رسوخ کے ذریعے عمران خان کا اسٹیبلشمنٹ  سے رابطہ کرا دیں تو عمراں خان اسمبلی توڑنے کے بیان سے یو ٹرن لے سکتے ہیں۔