ہفتہ، 10 دسمبر، 2022

قوم بنانے کا عمل



پاکستان میں لوگوں کو ایک قوم بنانے کا عمل جاری ہے ابتدا قیام پاکستان کے وقت سے کی جائے تو ایک سال کے عرصے میں ہی قوم بننے کی بجائے لوگ کرپٹ ہو گئے۔ اسی لیے پروڈا 

 (Public Reresentation Fooce Disqualification Act)

سولہ جنوری 1949کو متعارف کرایا گیا مگر لاگو  اگست 1947 سے کر کے لوگوں کو قوم بنانے کا کیمیائی عمل شروع کیا گیا۔یہ پہلی سعی تھی۔

دوسری سعی1954 کا آئین  پھاڑ کرڈسٹ بن میں ڈال کر اور تیسری اور کامیاب کوشش   1958   میں ایک شجر تناور کا بیج  بو کر کی گئی۔بارہ سال کی نگہداشت اور آبیاری کے بعد1970کے الیکشن میں عوام نے مگراس مشجر مقدس کی جڑوں کو ہی کاٹ ڈالا۔ بنگالی اپنے بنگلہ کو چل دیے  توپاکستان میں 1971کے بعد عزم نو پیدا ہو۔ بھٹو جیسی کرشماتی شخصیت نے پارلیمان کی طاقت سے عوام کو روشناس کرایا ، مختلف طبقات کو اکٹھے ہونے اور بولنے کی آزادی دی۔بولیوں میں سب سے اونچی اواز لاوڈ سپیکر کی ظاہر ہوئی۔ باقی سب اوازیں دب گئیں۔ 1979میں بھٹو کو  ٹھکانے لگا کر صاحبان صوت مکبر کے دلائل پر عمل شروع ہوا تو راز کھلا لاوڈ سپیکر مسجد کے مینار پر آسمان سے نہیں اترتا بلکہ بازار سے خریدا جاتا ہے۔ لوگوں نے اپنے  اپنے لاوڈ سپیکر خرید لیے شور زیادہ بڑھ گیا تو اونچائی پر ٹانگے لاوڈ سپیکر کو گولی سے اڑا کر سکون حاصل کیا گیا۔ گولی کا چلن ہوا تو کلاشنکوف مارکیٹ میں آ گئی۔ کلاشن کوف کی گولی نے شکل دیکھی نہ قابلیت قد ماپا نہ قومیت جانچی۔ سبق مگر یہ حاصل ہوا اس ملک کے باسی سخت جان ہیں۔ جا ن سے مارنے سے بہتر ہے افہام و تفہیم سے کام لیاجائے۔ پارلیمان کھول دی گئی۔1973کے آئین پرلپٹے سبز غلاف کو اتار کر کر چوم لیا گیا۔ کتاب کی شکل پر بنی عدالت  کی عمارت کے دروازے پر لگی میزان کو  عدل سلیمانی کا استعارہ بتا دیا گیا۔ الیکشن ہو گئے۔ زندگی رواں دوان ہوگئی۔ لوگ تعمیر و ترقی کی باتیں کرنے لگے نوجوان اچھے مستقبل کے خواب دیکھنا شروع ہو گئے۔ تاریکی روشنی میں بدلنا شروع ہو گئی۔ ذہن کھلنا شروع ہو گئے۔قلب وسیع ہوئے۔ فرقہ بندی، جتھہ سازی اور مردہ باد کو لوگوں نے رد کرنا شروع کر دیا۔ 

ہم مشرقی لوگ توہم پرست نہیں مگر ہماری لوک کہانیوں میں غیبی آوازوں، آسمانی صداوں اور ماوراء عقل واقعات اور پل بھر میں حالات بدل جانے کے واقعات کی بھرمار ہے۔ ہم شے کو دیکھنے سے پہلے اس کے سائے کا مطالعہ کرتے ہیں اور شے کا ایسا نقشہ پیش کرتے ہیں کہ اپنے ہی لوگ انگلی منہ میں دبا لیتے ہیں۔ مگر اس بار نقاش اکیلا نہیں تھا۔ کہانی نویس ساتھ تھے۔ ایکٹر تربیت یافتہ تھے۔ ڈائریکٹر صد سالہ تجربہ رکھتے تھے۔ کیمرے جدید تر اور کیمرہ مین اپنے کام کے ماہر تھے، وسائل کا عالم یہ کہ سوچ پیدا ہو تو تعبیر سامنے دکھا دی جائے۔ جب زندہ انسان کو لوگوں کے سامنے مار کر زندہ کر دیا جائے تو کون کافر یقین نہیں کرے گا۔انسان کی فطرت ہے کہ اس کو میسیج کر کے بتایا جائے کہ اس کی دس ملین ڈالر کی لاٹری بغیر ٹکٹ خریدے نکل آئی ہے۔ اس سوٹ کیس کی تصویر بھی دکھا دی جائے جس میں ڈالر رکھے ہیں۔ ڈالروں کی ویڈیو دکھا کر لوگوں کی زندگی میں آئے امیرانہ انقلاب کی کہانی بھی سنا دی جائے تو پچیس سال کے تعلیم یافتہ مگر دولت سے محروم ایم فل کیے نوجوان کی عقل بھی ماوف ہو جاتی ہے اور وہ اٹھ سو ڈالر کے بدلے دس ملین پانے کی خواہش کو دبا نہیں پاتا۔ 

موجودہ دور میں لوگوں کی محرومیوں، خواہشوں، امنگوں، خوابوں اور جذبات کو خریدا جاتا ہے۔ بڑا پلیٹ فارم سوشل میڈیا ہے۔ سوشل میڈیا کا اعجاز ہے کہ انسان شناخت ظاہر کیے بغیر دل و ماغ کھول کر ایسے کھیل میں شامل ہوجاتا ہے جہاں سامنے والا کھلاڑی ماہر ہوتا ہے۔ اس کی پشت پر علم و ہنر کی بہریں بہہ رہی ہوتی ہیں۔ وسائل کی چپ اس کے کارڈ نمبر سے منسلک ہوتی ہے۔ وہ اکیلا نہیں ہوتا اس کو پروموٹ کرنے والے غیر ہی نہیں آپ کے جاننے والے بھی ہو سکتے ہیں۔ اور سب سے بڑی بات آپ جو کچھ کرتے ہیں وہ صیغہ راز میں ہی رہتا ہے۔

ہر وہ کام جو راز میں رکھا جائے غلط نہیں ہوتا مگر ہر غلط کام کو راز میں رکھاجاتا ہے۔

پاکستان کے ساتھ کیا ہوا 

  ٭  وہ پارلیمان جس کو قائد اعظم نے عزت دی تھی  اس پر چار حرف بھیجے گئے۔  

  ٭ میزان عدل کو پیاز تولنے والی (ترکڑی)  بنا ڈالا گیا۔

  ٭خبر نکالنے کے لیے جان ہتھیلی پر رکھ گولیاں کھانے والے لفافہ بتائے گئے

  ٭سیاستدان جنھوں نے مالی اور جانی قربانی دے کر آئین کو بچایا کرپٹ مشہور کر دئے گئے۔

  ٭وہ آئین جو ملک کو متحد رکھے ہوئے ہے اس کو مولفوں کے حوالے کردیا گیا

  ٭وہ جج جنھوں نے اپنے حلف کی پاسداری کی ان کو بے توقیرکرنے کی کوشش کی

  ٭ قابل اور تربیت یافتہ پرعزم پولیس آفیسران کو دارلحکومت کے وسط میں پھینٹا لگایا گیا

  ٭ اٹھارویں ترمیم کے ذریعے صوبائی خودمختاری کو ممکن بنانے والوں کو ڈاکو کہا گیا

  ٭ نوجوانوں میں علم کی پیاس جگا کر نادار  او ر  لائق طلباء میں لیپ ٹاپ تقسیم کرنے والوں کو چورکہا گیا

  ٭ ملکی دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے والے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو فیصل مسجد کے صحن میں عوام کی بنائی قبر میں اتارنے سے روک دیا گیا

  ٭ ملکی ترقی کے لیے تن من سے کام کرنے والوں کے خلاف بدنامی کے ڈھول  پیٹے گئے 

  ٭نوجوانوں سے امید چھین کر مایوسی بانٹی گئی

  اب عوام پر راز کھل چکا ہے کہ یہ وہی تجربہ کار ٹولہ ہے جو کبھی ترکی میں خلافت گراتا ہے۔ کبھی اسرائیل کی شکل میں مسلمانو ں کے قلب میں چھرا گھونپتا ہے۔ کبھی لیبیا،  و عراق اور شام میں خون کی ہولی کھیلتا ہے۔ مرسی کو لوہے کے پنجرے میں بند کر کے بھوکا رکھتا ہے۔ مگر اپنے مہروں کے لیے جنتی ارضی کا انتظام کرتا ہے۔ حکیم سعید کی شہادت کے شوائد اس لیے چھپا کر رکھتا ہے کہ وہ ان کی سازشوں کو جان گیا تھا۔

پاکستان میں فرعون اور موسی کو سیاسی بیانات میں ذکر کیا جاتا ہے۔ اور بتایا جاتا  کہ ہے کہ موسی 

(1271-1300 BC )

نے ایک قوم بنائی تھی حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ موسی نے قوم نہیں بنائی قوم پہلے سے موجود تھی۔ انھوں نے تو ایک غیر انسانی فعل بند کرایا تھا۔ اور غیر انسانی فعل یہ تھا کہ فرعون 

(ان کے لڑکوں کو ذبح کر ڈالتا تھا اور ان کی لڑکیوں کوزندہ چھوڑ دیتا تھا)

 پاکستان میں لوگوں کو ایک قوم بنانے کا عمل جاری ہے ابتدا قیام پاکستان کے وقت سے کر دی گئی تھی۔مگر اج پاکستانی سمجھ چکا ہے۔ قبیلہ اور خاندان اللہ تعالی کی عطا کردہ پہچان ہے۔ سارے پاکستانی محب وطن ہیں۔ پنجابی کو بلوچی پر اور سندھی کو پٹھان پر برتری حاصل نہیں ہے۔اردو ہو کہ سندھی، پنجابی ہو کہ بلتی، بلوچی ہو کہ ہندکو سب زبانیں پاکستانیوں کی ہیں۔ فرقہ بندی اور جتھہ سازی ہماری کمزوریاں ہیں اور سب سے بڑی کمزوری ڈوبتی معیشت ہے۔ 


جمعرات، 8 دسمبر، 2022

بد اعتمادی کا سبب

 



انتیس فروری دو ہزار بائیس کو اپنی تین سالہ  ملازمت بمع تین سالہ توسیعی مدت پوری کرکے ریٹائر ہونے والے چیف اف ارمی سٹاف ریٹائرڈ جنرل قمر جاوید باجوہ صاحب پر سابقہ وزیر اعظم عمران احمد نیازی المعروف عمران خان نے الزام لگایا ہے کہ جنرل باجوہ نے دوران ملازمت 
حکومت  کے ساتھ منافقاقہ رویہ رکھا ۔ اور ہمارے درمیان اعتماد کا بحران پیدا ہوا ۔
کسی بھی سیاسی رہنما یا ریاستی عہدیدار کو یاد رکھنا چاہیےکہ عدم اعتماد کا سبب ذاتی اقوال یا اعمال نہیں ہوتے بلکہ بد اعتمادی کا اصل سبب ائین اور قانون پر عمل درامد 
کی ناکامی سے پیدا ہوتا ہے 
  

سازشی مہرے

 


اس وقت سیاست اور ریاست دو دھڑوں میں تقسیم ہے ایک دھڑا جس کی قیادت مولانا

فضل الرحمن، میاں نواز شریف اور ٓاصف علی زرداری کر رہے ہیں اور پی ڈی ایم کے نام سے سیاسی اتحاد بنا کر سیاسی جماعتوں کی اکثریت کو ساتھ ملایا ہوا ہے ۔ کا موقف ہے کہ ملک کی اخلاقی معاشرتی اور معاشی بدحالی کا سبب ائین اور قانوں پر عمل درامد نہ ہونا ہے ۔ ریاستی اہلکاروں کا ایک دھڑا ان کے بیانئے کی تائید کرتا


ہے اور ان کا ساتھ دینا چاہتا ہے 

دوسری طرف عمران خان اور اس کے اتحادی ہیں جو چند ماوراٗ ائین اقدامات کے حامی ہیں ۔ ان کا موقف ہے کہ ریاستی ادارے خاص طور پر پاک ارمی ان کا ساتھ دے۔ حکومت کو مجبور کرے کہ وہ قبل از وقت الیکشن کرائیں ۔ تاکہ عمران خان کے وزیر اعظم بننے کے لیے راہ ہموار ہو سکے۔

پاک فوج کے غیر جانب دار ہونے کے اعلان کے بعد اب دونوں سیاسی دھڑے عدلیہ کی مدد سے ایک دوسرے پر حاوی ہونا چاہتے ہیں ۔ عوام کا تاثر یہ ہے کہ عدلیہ دو دھڑوں میں تقسیم ہے ۔ الیکشن کمیشن سیمت ضلعی عدالتوں اور ہائی کورٹ سے ہونے والے فیصلے سپریم کورٹ میں جا کر تبدیل ہو جاتے ہیں۔ بعض مقدمات کی ماعت تیزی سے ہوتی ہے اور بعض مقدمات سنے ہی نہیں جا رہے

قاف لیگ اور تحریک انصاف کا اتحاد

  قاف لیگ اور تحریک انصاف کا اتحاد



عمران خان کے اسمبلی توڑنے کے اعلان کے بعد پنجاب اسمبلی نہ ٹوٹی تو پنجاب میں عمران خان کی ذاتی مقبولیت کا گراف نیچے ا جائے گا البتہ تحریک  انصاف بطور جماعت پنجاب میں حکمران رہے گی۔

ق لیگ کے وزیر اعلی نے عمران خان کے مقابلے میں اعلی سیاسی بصرت ثابت کی ہے اور عمران خان کو وہ وعدہ وفا کرنے پر قائل کر چکے ہیں جو عمران خان نے چوہدری پرویز الہی سے انھیں پنجاب کا وزیر اعلی بناتے وقت کیا تھا کہ وہ الیکشن تک کی مدت پوری کریں گے۔ 

سیاسی پنڈتوں کا کہنا ہے کہ اگر پرویز الہی اسٹیبلشمنٹ میں اپنے اثر و رسوخ کے ذریعے عمران خان کا اسٹیبلشمنٹ  سے رابطہ کرا دیں تو عمراں خان اسمبلی توڑنے کے بیان سے یو ٹرن لے سکتے ہیں۔

منگل، 20 ستمبر، 2022

رسیلی دعا



جی ٹی روڈ کے کنارے رکشے پر ایستادہ گنے کا رس بنانے والی مشین دور سے ہی نظر آگئی تھی۔ جب ہم اس کے پاس آکر رکے۔تو جین کی پینٹ اور کھلی سی ٹی شرٹ پہنے نوجوان نے مشین کو اسٹارٹ کیا۔ گنا بیلا اور تین گلاس رس بنا کر ہمیں پیش کر دیا۔ ہم نے دوبارہ سفر شروع کیا تو شفقت نے کہا ہمارے رس پینے کے عمل میں پانچ منٹ سے بھی کم وقت خرچ ہوا ہے۔ 

وقت ازل سے ہی قیمتی رہا ہے۔ گاڑی اور جہاز انسان کا وقت بچانے ہی لیے معرض وجود میں آئے ہیں۔ وقت بچانے کے جتنے بھی حالات اور علوم موجود ہیں۔ ان پر بھی وقت صرف ہوتا ہے۔ گاڑی کے بننے میں طویل وقت اور بہت ساری انسانی کاوش شامل رہی ہے۔ پانچ منٹ میں تین گلاس گنے کا رس حاصل کرنے ہی کو دیکھیں۔ رس بنانے کے سسٹم کو معرض وجود میں لانے کے لیے کتنا وقت اور کاوش ہوئی۔ 

کسان نے کھیت تیار کیا۔ کھیت تک پانی لایا۔ٹریکٹر اور بیج مہیا کیا۔ بیج بو کر چھ ماہ فصل کی نگہداشت کی۔پھر فصل کو کاٹا، اسے منڈی تک پہنچایا، بیوپاری اور دوکان داروں کے ہاتھوں سے ہوتا ہوا گنا۔ رس بیلنے والی مشین تک پہنچا۔ نوجوان نے ہمیں دیکھتے ہی مشین سٹارٹ کی اور تین گلاس بنا کر پیش کر دیے۔ سسٹم مکمل ہونے کے لیے مگر زمین، موسم نے بھی موافقت کی۔ رس بنانے میں مشین کا کردار بنیادی ہے۔ مشین کی تکمیل میں انسانی عقل، محنت کا استعمال ہوا۔ ٹولز اور توانائی مہیا کی گئی۔ مشین خریدنے کے لیے وسائل جمع ہوئے۔ یعنی تین گلاس رس پانچ منٹ میں حاصل کرنے کے پیچھے ایک لمبا سسٹم کارفرما ہے۔ جو ماہ و سال کی وسعت پر پھیلا ہوا ہے۔ہر سہولت و ایجادوقت اور انسانی کاوش کے بعد معرض وجود میں آتی ہے۔ 

انسانی معاشرہ بھی وقت کے پنجرے میں بند ہوتا ہے۔ یہ بھی وقت پر، مثبت سوچ  اور سعی کے بعد ترقی کرتا ہے۔ یہ کام لکھ کر یا بیان کر کے نہیں بلکہ عمل سے کیا جاتا ہے۔ 

پاکستان نے  1998میں ایٹمی دھماکے کیے تھے۔ مگر  1956میں جوہری توانائی کمیشن کی بنیاد رکھ دی گئی تھی۔ طویل مدت تک پلاننگ ہوئی، دنیا بھر سے آلات و مواد اکھٹا کیا گیا۔ بہترین دماغ استعمال ہوئے، عزم و ایثار رقم کیا گیا اور پھر ایک بٹن دبانے پر مطلوب صلاحیت کا مظاہرہ ہو گیا۔ 

ہمارے نبی رحمت  ﷺ کے پاس ایک ملاقاتی آیا۔ اس سے پوچھا گیا کس سواری پر آئے ہو تو اس نے بتایا اونٹنی پر جس کو مسجد کے باہر بٹھا کر اللہ کی نگہبانی میں دے دیا ہے۔اسے نصیحت کی گئی پہلے جانور کا پاوں باندھو اس کے بعد اللہ کی نگہبانی میں دو۔

خدا کا حکم ہے  (جب کوئی پکارنے والا مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں)

مالک دو جہان کو پکارنے سے قبل مگر:

گنے کا رس پینے یا  ایٹمی دھماکے کر نے سے قبل لوازمات پورے کرنے پڑتے ہیں۔ اللہ تعالی شافی ہے مگر ہسپتال بنانا معاشرے کی ذمہ داری ہے۔ عادل کا انصاف دنیا میں دینے کے لیے اہل منصف کو کرسی پر بٹھانا معاشرے کا  فرض ہے۔اللہ کی حکمرانی سے مستفید ہونے کے لیے ایسے حکمران کو ووٹ دینا معاشرے کا فرض ہے جو خوف خدا رکھتا ہو۔ رزاق پر یقین کامل اسی صورت ہوتا ہے جب رزق کے وسائل کی تقسیم منصفانہ ہو۔ 

 دعائیں  بیت اللہ میں مانگی جائیں یا گھر میں صلاۃ تہجد کے بعد،  فقیروں کے آستانوں پر مانگی جائیں یا موحدوں کی عبادت گاہوں میں، اٹھے ہوئے ہاتھ خواہ معصومین کے ہوں یا اللہ کی راہ میں نکلے مجاہدین کے۔ قبول اسی وقت ہوں گے جب سسٹم کی پیروی کی جائے گا۔ 

اپنے ارد گرد نظر دوڑا کر دیکھ لیں جو معاشرہ اللہ کے اس سسٹم کی پیروی کرتا ہے  (اللہ کا وعدہ ہے انھیں زمین کا حاکم بنا دیتا ہے  جیسا کہ ان سے پہلے لوگوں کو حاکم بنایا تھا )