منگل، 20 ستمبر، 2022

رسیلی دعا



جی ٹی روڈ کے کنارے رکشے پر ایستادہ گنے کا رس بنانے والی مشین دور سے ہی نظر آگئی تھی۔ جب ہم اس کے پاس آکر رکے۔تو جین کی پینٹ اور کھلی سی ٹی شرٹ پہنے نوجوان نے مشین کو اسٹارٹ کیا۔ گنا بیلا اور تین گلاس رس بنا کر ہمیں پیش کر دیا۔ ہم نے دوبارہ سفر شروع کیا تو شفقت نے کہا ہمارے رس پینے کے عمل میں پانچ منٹ سے بھی کم وقت خرچ ہوا ہے۔ 

وقت ازل سے ہی قیمتی رہا ہے۔ گاڑی اور جہاز انسان کا وقت بچانے ہی لیے معرض وجود میں آئے ہیں۔ وقت بچانے کے جتنے بھی حالات اور علوم موجود ہیں۔ ان پر بھی وقت صرف ہوتا ہے۔ گاڑی کے بننے میں طویل وقت اور بہت ساری انسانی کاوش شامل رہی ہے۔ پانچ منٹ میں تین گلاس گنے کا رس حاصل کرنے ہی کو دیکھیں۔ رس بنانے کے سسٹم کو معرض وجود میں لانے کے لیے کتنا وقت اور کاوش ہوئی۔ 

کسان نے کھیت تیار کیا۔ کھیت تک پانی لایا۔ٹریکٹر اور بیج مہیا کیا۔ بیج بو کر چھ ماہ فصل کی نگہداشت کی۔پھر فصل کو کاٹا، اسے منڈی تک پہنچایا، بیوپاری اور دوکان داروں کے ہاتھوں سے ہوتا ہوا گنا۔ رس بیلنے والی مشین تک پہنچا۔ نوجوان نے ہمیں دیکھتے ہی مشین سٹارٹ کی اور تین گلاس بنا کر پیش کر دیے۔ سسٹم مکمل ہونے کے لیے مگر زمین، موسم نے بھی موافقت کی۔ رس بنانے میں مشین کا کردار بنیادی ہے۔ مشین کی تکمیل میں انسانی عقل، محنت کا استعمال ہوا۔ ٹولز اور توانائی مہیا کی گئی۔ مشین خریدنے کے لیے وسائل جمع ہوئے۔ یعنی تین گلاس رس پانچ منٹ میں حاصل کرنے کے پیچھے ایک لمبا سسٹم کارفرما ہے۔ جو ماہ و سال کی وسعت پر پھیلا ہوا ہے۔ہر سہولت و ایجادوقت اور انسانی کاوش کے بعد معرض وجود میں آتی ہے۔ 

انسانی معاشرہ بھی وقت کے پنجرے میں بند ہوتا ہے۔ یہ بھی وقت پر، مثبت سوچ  اور سعی کے بعد ترقی کرتا ہے۔ یہ کام لکھ کر یا بیان کر کے نہیں بلکہ عمل سے کیا جاتا ہے۔ 

پاکستان نے  1998میں ایٹمی دھماکے کیے تھے۔ مگر  1956میں جوہری توانائی کمیشن کی بنیاد رکھ دی گئی تھی۔ طویل مدت تک پلاننگ ہوئی، دنیا بھر سے آلات و مواد اکھٹا کیا گیا۔ بہترین دماغ استعمال ہوئے، عزم و ایثار رقم کیا گیا اور پھر ایک بٹن دبانے پر مطلوب صلاحیت کا مظاہرہ ہو گیا۔ 

ہمارے نبی رحمت  ﷺ کے پاس ایک ملاقاتی آیا۔ اس سے پوچھا گیا کس سواری پر آئے ہو تو اس نے بتایا اونٹنی پر جس کو مسجد کے باہر بٹھا کر اللہ کی نگہبانی میں دے دیا ہے۔اسے نصیحت کی گئی پہلے جانور کا پاوں باندھو اس کے بعد اللہ کی نگہبانی میں دو۔

خدا کا حکم ہے  (جب کوئی پکارنے والا مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں)

مالک دو جہان کو پکارنے سے قبل مگر:

گنے کا رس پینے یا  ایٹمی دھماکے کر نے سے قبل لوازمات پورے کرنے پڑتے ہیں۔ اللہ تعالی شافی ہے مگر ہسپتال بنانا معاشرے کی ذمہ داری ہے۔ عادل کا انصاف دنیا میں دینے کے لیے اہل منصف کو کرسی پر بٹھانا معاشرے کا  فرض ہے۔اللہ کی حکمرانی سے مستفید ہونے کے لیے ایسے حکمران کو ووٹ دینا معاشرے کا فرض ہے جو خوف خدا رکھتا ہو۔ رزاق پر یقین کامل اسی صورت ہوتا ہے جب رزق کے وسائل کی تقسیم منصفانہ ہو۔ 

 دعائیں  بیت اللہ میں مانگی جائیں یا گھر میں صلاۃ تہجد کے بعد،  فقیروں کے آستانوں پر مانگی جائیں یا موحدوں کی عبادت گاہوں میں، اٹھے ہوئے ہاتھ خواہ معصومین کے ہوں یا اللہ کی راہ میں نکلے مجاہدین کے۔ قبول اسی وقت ہوں گے جب سسٹم کی پیروی کی جائے گا۔ 

اپنے ارد گرد نظر دوڑا کر دیکھ لیں جو معاشرہ اللہ کے اس سسٹم کی پیروی کرتا ہے  (اللہ کا وعدہ ہے انھیں زمین کا حاکم بنا دیتا ہے  جیسا کہ ان سے پہلے لوگوں کو حاکم بنایا تھا )




 

 

جمعہ، 6 مئی، 2022

احسان



فردوس بدری کے بعد آدم کی آہ و زاری اور اعتراف گناہ گاری پر خالق آدم نے آل آدم پر رحمت و نوازشات کا ايسا مينہ برسايا کہ آدمی نعمت کے حصول کے بعد اعداد کا شمار ھی بھول گيا ۔عرب کہتے ھيں ''بادشاہ کے تحفے ، بادشاہ ھی کے اونٹ اٹھا سکتے ھيں'' ۔ابن آدم کی مجال ھی نہيں کہ کریم کے شکرکا بار اٹھا سکے ۔ احسان کرنا اللہ کی صفات ميں سے ايک صفت ھے ۔ اس نے خود اپنی اس صفت سے انسان کو حصہ عطا فرمايا ھے ۔ احسان کے عمل کو ھر معاشرہ ميں قدر و عزت دی جاتی ھے ۔ یہ ايسا قابل ستائش جذبہ ھے جو انسانوں کے درميان پيار و محبت اور امن و سلامتی کو فروغ و استحکام عطا کرتا ھے ۔احسان معاشرہ ميں جرائم کی حوصلہ شکنی کی بنياد کو مستحکم کرتا ھے ۔ معاشرے کے مسابقاتی طبقات سے نفرت کی جڑوں کی بيخ کنی کرتا ھے ۔ رشتوں اور ناتوں کو گاڑھا کرتا ھے ۔ تاريخ انسانی ميں احسان کا منفرد واقعہ سيرت محمدی سے ھے کہ اللہ کے رسول نے اپنا کرتا ايک دشمن دين کی ميت کے کفن کے ليے اتار ديا اور يہ وضاحت بھی کر دی کہ جب تک اس کپڑے کا ايک دھاگہ بھی اس کے جسم پر رھے گا عذاب سے محفوظ رھے گا ۔ اللہ بہرحال اپنے نبی سے بڑا محسن ھے اور ھماری آس و اميد اسی سے ھے ۔ احسان ، بدون استحقاق ضرورت مند کی مدد کا نام ھے ۔ مصيبت زدہ کو مصيبت سے نکالنا، سڑک پر حادثے کا شکار کو مدد دينا ، مقروض کی مدد کرنا ، کمزور کی اخلاقی يا قانونی مدد کرنا احسان ميں شامل ھيں۔ جن معاشروں ميں احسان کيا جاتا ھے اور اس کا بدلہ چکايا جاتا ھے ،ان معاشروں ميں جنک و جدل ، چوری و ڈکيتی ، رھزنی و دھوکہ دھی کم ھوتی ھے ۔ يہ بات قابل غور ھے کہ معاشرہ کی بناوٹ انسانوں کے اعمال کے مطابق ھوتی ھے ، مثال کے طور پر ايک ملک ميں ''کذب بيانی'' نہ ھونے کے باعث عدالتوں ميں جج صاحبان کے پاس مقدمات بہت کم ھيں۔ جہاں صاحب ثروت لوگ ٹيکس پورا ديتے ھيں وھاں بھوک و افلاس کم ھے ۔ جہاں قرض کی ادائيگی فرض سمجھ کر کی جاتی ھے وھاں دولت کی فراوانی ھے ۔ جہاں مريضوں کی تيمارداری خدمت کے جذبے سے کی جاتی ھے وھاں بيماری کی شرع کم ھے ۔ ان باتوں کی مزيد وضاحت، خدائی حکم ، جس ميں آبپاش اور بارانی علاقوں ميں ٹيکس [عشر] کی شرع بيان کی گئی ھے، کے مطالعہ سے ھو جاتی ھے ۔ حضرت عليم نے انسان کو علم عطا فرمايا ھے، اس پر واجب ھے کہ اس علم سے اپنی ذات اور ارد گرد اپنے پياروں کو اس علم سے نفع پہنچائے اور يہ تب ھی ممکن ھے جب انسان غور و فکر کو اپنائے ۔ خدا نے انسان کو غور و فکر کی تاکيد فرمائی ھے ۔ جب انسان غور و فکر کے عمل سے گزرتا ھے تو اس پر يہ حقيقت کھلتی ھے کہ احسان کرنا اور احسان کا بدلہ چکانا ايسی خوبياں ھيں جو اللہ کے بندوں کے لئے بہت نفع رساں ھيں ۔ اس عمل کو سراھا گيا ھے اور قرآن پاک ميں رب کائنات کا واضح اعلان ھے

"بے شک اللہ احسان کرنے والوں کو پسند کرتا ہے "  

ہاتھوں کی کمائی




ٹیچر نے کلاس میں نویں جماعت کی طالبہ کو کام مکمل نہ کرنے پر سرزنش کی۔ لڑکی نے کلاس کے سامنے خود کو بے عزت ہوتے محسوس کیا۔ گھر آ کر اس نے رو  ر وکر والدین اور بھائیوں کو بتایا کہ ٹیچر نے اس پر زیادتی کی ہے لہذا ٹیچر کوسبق سکھایا جائے لڑکی کے دو بھائیوں نے موٹر سائیکل نکالا۔ اورسڑک کنارے جاتی ٹیچر کے گلے میں پیچھے سے کپڑا ڈال کر گرایا اور پھر سڑک پر گھسیٹا۔ چند سال  بعد اس لاڈلی بیٹی کے باپ نے مجھ سے بڑی حسرت سے کہا کہ اس کی اولاد (تین بیٹوں اور ایک بیٹی)میں سے ایک بھی میٹرک  نہ کر سکا۔ 

میں نے زندگی میں بہت سے ایسے لوگ دیکھے ہیں جو کامیاب زندگی گذار رہے ہیں اور اس کا کریڈٹ اپنے والدین، اساتذہ اور اپنے تعلیمی اداروں کودیتے ہیں۔ میں نے مگر ایسا ایک شخص بھی؎؎؎؎نہیں دیکھا جو ناکامی کی زندگی گزار رہا ہے اور اس کا ذمہ داراپنے والدین، اپنے اساتذہ اور اپنے تعلیمی ادارے کو نہ دیتا ہو۔بلکہ کچھ لوگ اپنی ناکامیوں اور محرومیوں کا ذمہ دار اللہ تعالی ٰ  کو ٹھہرانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔

قران پاک نے اللہ تعالی کے ایک جلیل القدر پیغمبر کے الفاظ نقل کیے ہیں جن کا مفہوم یہ ہے کہ 

٭ اس نے مجھے پیدا کیا اور مجھے راستہ دکھایا

٭ وہی مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے

٭بیمار ہوتا ہوں تو وہی مجھے تندرست کرتا ہے

٭وہ مجھے موت دے گا مگر دوبارہ زندہ کرے گا

٭میں امید رکھتا ہوں کہ جزاء کے دن وہ مجھے بخش دے گا

نظام قدرت ہے کہ اس نے ہر ذی روح کو عقل عطا کی ہے حتی کی صیح و غلط کا فیصلہ اس کے اندر سے اٹھتاہے۔بیماری کا سبب ہماری کوتاہی بنتی ہے مگر اللہ تعالی تندرستی دیتا ہے۔ اگر موت زندگی کو دبوچ لیتی ہے تو دوبارہ زندہ کرنے کی امید بھی وہی دیتا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام امید کرتے ہیں کہ ایسا مہربان رب قیامت کے دن بخش بھی دے گا۔یہ چار جملے زندگی کی حقیت کی عکاسی کرتے ہیں۔ ان میں امید ہی امید ہے۔ امید ہی یقین پیدا کرتی ہے اور یقین ہی انسان کو مثبت عمل پر آمادہ کرتی ہے۔ مثبت عمل ہی انسان کی کامیابی کا راز ہے۔

یہ حقیت ہے کہ آدم کی اولاد غلطی سے مبراء نہیں ہے البتہ ہر غلطی کی ایک قیمت ہوتی ہے جو غلط کار کو ادا کرنا ہوتی ہے۔ آپ  اللہ کے باغی والدین  دیکھیں گے کہ اس کی اولاد نافرمانبردار ہے۔ استاد کا بے ادب تعلیم سے محروم رہتا ہے۔ حاسد ہر وقت بے چینی کی آگ میں زندگی گذارتا ہے۔ حرام خور بہت سی دولت حاصل کرکے بھی عزت سے محروم رہتا ہے۔ خیانت کرنے والا ہر وقت خوف زدہ  رہتا ہے۔بری صحبت پریشانیوں کی طرف لے جاتی ہے۔مگر۔ بارہا دیکھا گیا ہے کہ جب انسان خود کو بدلنے کا ارادہ کرتا ہے تو قدرت کو اپنا معاون پاتا ہے۔ اصل یہ ہے کہ آدم کی اولاد جبلی طور پر ہر چمکتی چیز سے متاثر ہوتی ہے۔ ایک سپیرے نے ایک بار مجھے بتایا تھا سانپ جتنا زیادہ خوبصورت ہو گا اتنا ہی زیادہ زہریلا ہو گا۔ باتونی شخص کم عقل ہوتا ہے۔خربوزے اور تربوز جیسا ہی شر بوز ہوتا ہے۔ اس کے مارکیٹ میں آنے کے بعد کہا تھا مٹھاس تو ساری (شر)میں ہی ہوتی ہے۔اور انسان مٹھاس کا رسیا ہوتا ہے۔دولت، شہرت، عزت اور خوبصورتی مٹھاس ہی تو ہیں۔

 انسانی معاشروں  میں  بد عہدی کرنے والوں پر ان ہی کے مخالفین حاوی ہو جاتے ہیں،  نا انصافی ہو تو خون ریزی اور انتشار بڑھ جاتا ہے، ناپ تول میں کمی کرنے والے معاشرے رزق میں کمی پاتے ہیں  بدکار گروہوں میں موت کا تناسب بڑھ جاتا ہے۔انصاف کی کمی معاشرے میں بدامنی کا سبب بنتی ہے۔بے ادب معاشروں پر جہالت مسلط ہو جاتی ہے  اورجہلاء کی عقل ناکارہ کر دی جاتی ہے

تعلیمی ادارے مقدس ہوتے ہین ۔ اساتذہ قابل احترام ہوتے ہیں ۔ والدین محسن ہوتے ہیں ۔ جو انسان احسان ند نہیں ہوتا ۔ ادب کو نہین اپناتا اور مقدس مقامات کا تقدس برقرار نہیں رکھتا اس کو بے ادب کہا جاتا ہے ۔ بچوں کو بے ادب بنانے میں کردار اداکرنے کے بعد ۔  اولاد کا تعلیم میں پچھڑ جانے کا گلہ ، زبان سے کرنے کی بجائے دماغ سے سمجھنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اولاد کو پیار دی جئے مگر ادب بھی سکھائے ۔ اسی میں ان کی کامیابی ہے۔


 

ہفتہ، 26 مارچ، 2022

وزیر اعظم ہاوس پر بد روح



میرا ایک ساتھی بتاتا ہے کہ اس کے گاوں میں ایک شخص نے قبرستان سے متصل زمین خریدی۔ قبرستان کی جگہ کو شامل کر کے وہاں آٹا پیسے والی چکی لگائی۔ پہلے دن ہی نیا پٹہ ٹوٹا اور اس شخص کا بازو ٹوٹ گیا۔ بزرگوں نے اس کو سمجھایا تو اس نے غصب شدہ چھوڑ کر چکی کو ذاتی جگہ منتقل کیا۔ میرا ساتھی بتاتا ہے آج بھی اس کی چکی موجود ہے۔ 

راولپنڈی میں میری رہائش گاہ سے چند قدم کے فاصلے پر ایک قبرستان ہے۔ میرے بچپن میں اس قبرستان میں ایک روح کے بھٹکنے کے قصے عام تھے۔ اس بد روح کا چشم دید شاہد تو کوئی نہ تھا مگر ہر دسویں آدمی کے کسی جاننے والے کو یہ روح ضرور نظر آتی تھی۔ یہ بدیسی روح کسی انگریز کی بتائی جاتی تھی۔ حلیہ اس کا بڑا ڈراونا تھا۔ تھری پیس سوٹ میں ملبوس ٹائی پہنے اس انگریز کا مگر سر کٹا ہوا تھا۔ 

پرانے قبرستانوں کو مسمار کر کے جب شاندار عمارتیں بن جاتی ہیں اور لوگ اس میں بس جاتے ہیں۔ تو پھر معاشرتی اختلافات جنم لیتے ہیں۔کچھ گھرانے ایسے بھی ہوتے ہیں۔ جن میں لڑائی جھگڑا روز کا مومول ہوتا ہے۔ اس معمول سے اکتا کر جب گھر کا سیانا کسی باہر کے بابے سے مشورہ کرتا ہے تو اسے معلوم ہوتا ہے۔ اس  رہائش کے نیچے کبھی قبرستان تھا۔ اس قبرستان میں مدفون مردے کی کوئی بے چین روح ہے جو اس گھر پر قابض ہو کر گھر کا سکون برباد کیے ہوئے ہے۔ 

اسلام آباد کا شہر میرے دیکھتے دیکھتے بسا۔ یہ علاقہ مختلف چھوٹے چھوٹے گاوں کا مسکن تھا۔ آہستہ آہستہ گاوں مٹتے گئے اور شاندار سیکٹر تعمیر ہوتے رہے۔ اسلام آباد کا ڈی چوک اپنی سیاسی گہما گہمی کے سبب معروف ہو چکا ہے۔ اور شہراہ دستور اہم ترین سڑک ہے اسی سڑک  پر موجودایوان صدر سے چند قدم کے فاصلے پر دو قبریں اب بھی موجود ہیں جو پرانے قبرستان کی یادگار ہیں۔ پنجاب ہاوس کے قریب خیابان اقبال کے شروع میں برگد کا درخت جس پر چار سو سال پرانا ہونے کا کتبہ موجود ہے کے سائے میں بھی ایک قبر موجود ہے۔ یہاں بھی کسی زمانے میں قبرستان ہوا کرتا تھا۔ 

جب وزیر اعظم ہاوس کی بنیاد رکھی جا رہی تھی اس وقت بھی اس جگہ قبرستان ہونے کا ذکر ہوا تھا۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اس شاندار وزیر اعظم ہاوس میں اس کے مکمل ہونے کے پہلے دن سے لے کر آج تک کوئی ایک وزیر اعظم بھی سکون سے نہ رہ سکا۔ کسی کو نکالا گیا تو کسی کو دھتکارا گیا۔ آپ کو یاد ہو گا وزیر اعظم بننے سے پہلے عمراں خان نے اس جگہ نہ رہنے کا اعلان کیا تھا۔ اور عمران خان اس عمارت میں منتقل نہیں ہوئےاور حفظ ما تقدم کے طور پر بنی گالہ ہی میں مقیم رہے۔ اس کے باوجود ان کے اقتدار پر سیاہ بادل منڈلاکر ہی رہے۔ 

اس عمارت کے سابقہ تمام مکینوں کو (قربانی) کا مشورہ دیا جاتا رہا۔ سیاسی لوگوں میں شیخ رشید نے ہمیشہ قربانی کا ذکر کیا۔ سابقہ وزیر اعظم نواز شریف کو اونٹوں کا خون بہانے کا مشورہ دیا گیا تھا۔ عمراں خان نے کئی  بار (بکروں) کی قربانی کی بلکہ  خون کو جلایا ۔ مگر بات نہ بن پائی ۔ 

 اگر سیاسی پارٹیاں اور سیاستدان اور عوام چاہیں تو ہم اس عامل کا نام بتا سکتے ہیں ۔ جو سرکاری عمارتوں پر چھائی نحوستوں کو ختم کرنے کی صلاحیت سے مالا ہے ۔ اس عامل کامل کا نام پارلیمانی لیڈر ہے ۔ 



 

منگل، 15 مارچ، 2022

نیوٹرل جانور



انسان بنیادی طور پر جانور ہی ہے مگر یہ عقل سے لیس ہوا تو اس نے خود کو جانوروں سے ممتاز ثابت کرنا شروع کر دیا۔ اس راستے میں انوکھی بات یہ ہے کہ جب انسان عقل کے خلاف عمل کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اس کے ہمدرد اور پیارے اسے بتاتے ہیں کہ یہ عمل انسانی عقل کے خلاف ہے۔ بار بار ایسا ہوتا ہے کہ جذباتی  فیصلے عقلی فیصلوں پر حاوی ہو جاتے ہیں۔لڑائی کا فیصلہ جذباتی ہوتا ہے اور بات چیت کو عقلی دلیل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔عقل کا تعلق تعلیم، تجربے اور حالات کو سمجھنے کی صلاحیت سے ہے۔ عام طور پر تعلیم عقل کے بڑھواے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اور سوچ کی نئی راہیں کھلتی ہیں۔انسانی تاریخ میں ایسے بے شمار مواقع ٓآئے جب بظاہر جذباتی فتوحات پر عقلی فیصلوں نے اپنی راہیں تراشیں اور جذباتی اور وقتی فتوحات پر حاوی ہو گئیں۔

پاکستان میں عوام کو جاہل اور انپڑھ ہونے کا طعنہ دیا جاتا ہے۔ عوام کو اس شرمندگی سے بچانے کے لیے انیس سو تہتر کے ٓئین بنانے والوں نے اس آئین میں درج کیا تھا کہ عوام کو بنیادی تعلیم دینا حکومت وقت کی ذمہ داری ہے۔ حکومت اور اداروں کو چلانے والے افراد اپنی کرسی پر براجمان ہونے سے پہلے اس آئین پر عمل درآمد کا حلف اٹھاتے ہیں۔ مگر چالیس سالوں میں عوام کو انپڑھ اور جاہل ہونے کا طعنہ تو متواتر دیا جاتا رہا مگر عوام کو تعلیم دینے میں مجرمانہ غفلت سے کام لیا جاتا رہا۔ ان چالیس سالوں میں خود کو اولی العزم بتاتے حکمران آئے تو چلے گے۔ ان میں سے کچھ مرکھپ گئے، کچھ حادثات میں مارے گئے، کچھ پھانسی چڑھ گئے تو کچھ ملک سے بھاگ گئے۔ ملک میں موجود خود کو رستم اور بقراط بتاتے حکمران بھی مگر عوام کو تعلیم دلانے کی توفیق سے محروم ہی رہے۔

عقل ایک خدا داد صلاحیت ہے تو علم خود خدا کی صفت ہے جو اس نے مہربانی کر کے زمین والوں پر نازل کی ہے۔ جن اقوام۔ معاشروں، خاندانوں اور افراد نے اس صفت کی اہمیت کو جانا وہ دوسروں سے ممتاز ہوتے گئے۔ جو نہ پہچان پائے ان کو اس صفت سے مزید دور رکھنے کے لیے علم سے دوری کے ڈول ڈالے گئے۔ تو جانور نما معاشرے وجود میں آئے۔ جانوروں کے معاشرے میں سارے ہی جانور ہوتے ہیں۔ کوئی طاقت ور جانور ہوتا ہے تو کوئی کمزور جانور۔ کوئی بڑا جانور ہوتا ہے تو کوئی چھوٹا جانور۔ اسی معاشرے سے یہ آواز اٹھی ہے کہ (نیوٹرل) تو جانور ہوتا ہے ۔حقیقت مگر یہ ہے نیوٹرل صرف تعلیم یافتہ ہوتا ہے باقی سارے جانور ہی ہوتے ہیں۔