منگل، 4 دسمبر، 2018

عامل بمقابلہ موکل

عملیات کی دنیا میں عبدلقیوم جانا پہچانا نام ہے۔ موکلات، جنات اور ہمزاد پر قابو پانے کے شائقین عبدلقیوم کو استاد کا رتبہ دیتے ہیں۔ انھوں نے اپنی زندگی کابڑا حصہ چلے کاٹنے میں صرف کر دیا تھا۔ وہ ان علوم کے اتنے بڑے ماہر تھے کہ ان کے پائے کا کوئی عامل بر صغیر میں نہیں تھا (میرے علم کے مطابق، جو کہ ناقص ہے) ۔ انھوں نے اس علم پر دسترس کے لیے کیسے کیسے چلے کیے ان میں سے ایک کی روداد آپ کی نظر ہے۔عبدالقیوم نے سنیاس کا علم کسی ہندو سنیاسی سے سیکھا تھا مگر وہ ڈھاکہ کے ایک عامل سے اس قدر متاثر ہوئے کہ سنیاس کو خیرباد کہہ کر عملیات سیکھنے بنگال جا پہنچے۔ مگر عامل نے کچھ سکھانے سے انکار ہی کردیا۔ ان کی منت سماجت بھی جب بے کار ہو گئی تو یہ عامل کی چوکھٹ پر بیٹھ گئے ۔ کھانا پینا نہ موسم کی پراہ، چند دنوں کے بعد ہی ان کی حالت غیر ہونے لگی توان کے ارادے کی پختگی اور شوق نے عامل کر متاثر کر ڈالا۔آگے کی داستان ان ہی کی زبانی

بابا جی کو رحم آ ہی گیا ۔ وہ میرے پاس آئے مجھے اٹھاکر کہنے لگے تیرے شوق نے مجھے حیران کر دیا ہے۔ انھوں نے مجھے ایک دوا کھلائی پھر کھانا کھلایاجس سے میرے قوت تیزی سے بحال ہوئی۔ انھوں نے کہا تم بہت دور کے رہنے والے ہو ۔ تم سندھ میں پانجے ملنگ کے پاس چلے جاو ۔ اس کو میرا بتانا۔ تم جو چاہتے ہو وہ تمھیں سکھا دے ۔ انھوں نے پانجے ملنگ کے نام ایک کاغذ بھی لکھ دیا۔میں نے لمبے اور تکلیف دہ سفر کے بعد سندھ میں پانجے ملنگ کو ڈہونڈ ہی لیا۔پانجے نے مجھے دیکھتے ہی کہا ْ میرے پاس وہی آتا ہے جس کی بد قسمتی کا آغاز ہو چکا ہو ْ ۔جو کچھ تم سیکھنا چاہتے ہو اس میں ناکامی کی کم ازکم سزا پاگل پن ہے۔خوف سے تمھاری موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔ سوچ لو۔ میں تو سوچ کر اور فیصلہ کرکے ڈھاکے سے سندھ آیا تھا۔ میرے شوق کی گہرائی اور قوت ارادی کی مضبوطی کو دیکھ کر پانجے نے کہا میں تمھیں ایک آسان سا عمل بتاتا ہوں اگر تم اس میں کامیاب ہو گئے تو تمھارے لیے اگلے اعمال کی راہ کھل جائے گی۔

پانجے نے مجھے پیسے دیے اور بازار سے کدال، کسی اور بیلچہ لانے کا کہا۔ مجھے ہداٰت ملی کہ زمین میں کبوتروں کی گمیل کی طرح گڈھا کھودوجو تمھارے قد سے بھی گہرا ہو۔نیچے سے اسے اپنے قد سے زیادہ لمبا اور چوڑا کر دو۔جب یہ قبر نما گڑھا تیا ر ہو گیا تو پانجے استاد نے گڑھے کی تہہ سے ڈیڑھ ہاتھ کی اونچائی پر ایک بڑا سا طاق بنوایا۔پھر بازار سے کالے رنگ کا کپڑا،ایک مٹی کا گھڑا، ایک پیالہ ، ایک کنستر سرسوں کا تیل اور پانچ کلو جو لے کر ماچھی کی بھٹی سے بھنوا لانے کا کہا۔جب سب سامان حاضر ہو گیا تو پانجے استاد نے کہا بیٹے اب آرام کرو۔میں تمھیں بتاوں گا کب تم نے اس قبر میں اتر کر موت سے لڑنا ہے۔اس دوران پانجے استا د نے مختصر سا عمل بھی میرے ذہن نشین کر دیا۔ جو میں نے مسلسل پڑہتے ہی رہنا تھا۔یہ اکیس دن کا عمل تھا۔اس عمل کے دوران دن کے وقت چندگھنٹے سونے کی اجازت تھی وہ بھی دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ کر اس عمل میں لیٹنا منع تھا۔پیشاب وغیرہ کی حاجت کے لیے باہر آنے سے پہلے استاد کو بتانا تھا۔کھانے کے لیے بھنے جو اور پیاس کی صورت میں گھڑے سے پانی پینا تھا۔ استاد کا کہنا تھاتم اندر عمل کر رہے ہو گئے مگر میں باہر بیٹھ کر تمھاری حفاظت کروں گا۔ اس نے میرے اندر یہ یقین پیدا کر دیا تھا کہ میں جو بھی دیکھوں اس سے ڈروں نہیں ۔ڈراونے منظر صرف ڈرانے کے لیے ہوں گے نقصان نہیں پہنچا سکیں گے۔چاند کے ماہ کا آخری اتوار تھا۔میں نے سارا سامان اپنی ہی کھودی ہوئی گھڑا نما قبر میں پہنچا دیا۔ عصر کے وقت پانجے سے اپنی جھگی سے ایک بڑا سا مٹی کا دیا نکال کر مجھے دیا۔ میں نے ادھا کنستر تیل اس میں ڈال کر طاق میں رکھ دیا۔ استاد نے دیا سلائی دی اور دیا روشن کرنے کا کہا۔ تیاری مکمل ہو چکی تھی۔ میں نیچے اتر گیا استاد نے گڑھے کے منہ کو کالے کپڑے سے بند کر دیا۔میں طاق کی مخالف سمت میں منہ کر کے دیے کے سامنے کھڑا ہو گیااور ورد پڑہنا شروع کر دیا۔ نگاہ اپنے سائے کی گردن پر مرکوز کر لی۔ ساتویں دن رات کا آخری پہر تھامجھے بادلوں کے گرجنے جیسے آوازیں سنائی دیں ساتھ ہی میرے سائے میں روشنی پیدا ہوا۔ جیسے بے جان سائے مین جان پڑھ گئی ہو۔مجھے اپنے سائے میں کئی مناظر دکھائی دیے لیکن میں ڈرا نہ اپنا ورد چھوڑا۔ مجھے دنوں کی گنتی بھول چکی تھی البتہ میں کسی بھی ڈراونے منظر کو دیکھنے کے لیے ذہنی طور پر تیار تھا۔ میں نے استاد کی آواز سنی وہ کہہ رہا تھا بچے دل مضبوط رکھنا آج چوہدویں رات ہے وہ صرف ڈرا سکتے ہیں تجھے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے۔مگر کچھ بھی غیر معمولی واقعہ نہ ہوا اگلی را ت شروع ہوتے ہی مجھے جنگلی درندوں نے آ کر ڈرانا شروع کر دیا۔وہ بھاگ کر آتے اور مجھ پر حمل آور ہونے کی کوشش کرتے۔مجھے یقین تھا یہ سب ڈرانے کے حربے ہیں میں اپنے مقصد پر جما رہا۔ پتہ نہیں کتنی راتیں بیت چکی تھیں کہ مجھے اپنے سائے میں ایک مرد اور عورت نظر آئے کافی بچے بھی ان کے ساتھ تھے۔منظر ایک جنگل کا تھا۔ عورت مرد سے کہتی ہے بھوک لگی ہے ، بچے بھی بھوکے ہیں کچھ کھانے کو دو۔مرد ایک بڑا سا کڑاہا لاتا ہے ۔ اس مین تیل ڈال کر اس میں گوشت کے ٹکڑے ڈال دیتا ہے۔عورت کہتی ہے اس کے نیچے آگ جلاو،مرد بہت ساری لکڑیاں لا کر کڑاہے کے نیچے آگ جلاتا ہے۔ساری لکڑیاں چل گئی عورت کہتی ہے تیل تو گرم ہی نہیں ہوا اور لکڑیاں بھی ختم ہو گئی ہیں۔اب کیا کرو گے۔مرد نے ایک بچہ پکڑا اور انگاروں کے اوپر رکھ دیا بچہ چیختا رہا مگر مرد نے اسے جلا دیا۔عورت کہتی ہے تیل تو پھر بھی گرم نہیں ہوا۔ مرد دوسرے بچے کو جلاتا ہے۔ بچوں کی چیخیں نکلی رہیں اور مرد نے سب بچوں کو ایک ایک کر کے جلا دیامگر تیل گرم نہ ہوا۔ عورت نے کہا اب کیاکرو گے۔مرد کہتا ہے یہ سامنے جو عمل کر رہا ہے اب اس کی باری ہے۔ مرد نے ہاتھ میری طرف بڑہایا لیکن مجھے معلوم تھا یہ صرف ڈراسکتے ہیں نقصان نہیں پہنچا سکتے ۔ میں خوفزدہ ہوا نہ اپنا ورد چھوڑا۔ اس کے ساتھ ہی مرد اور عورت نے اپنا کڑاہا اٹھایا اور غائب ہو گئے۔

اٹھارہ ، بیس گھنٹے کھڑے ہو کر ایک ہی جملے کو ہر سانس کے ساتھ دہراتے رہنااتنا مشکل ثابت نہ ہوا اصل پریشانی تیل کے جلنے سے پیدا ہونے والے دھویں کی تھی، جسمانی نقاہت، نیند کی کمی ، میں وقت کا احساس کھو چکا تھا، لگتا تھا میں صدیوں سے یہیں کھڑا ہوں، لیکن میں جس مقصد کے لیے کھڑا تھا اس کو پورا کرکے مجھے جو قوت حاصل ہونی والی تھی اس امید کا بڑا سہارا تھا۔مین موٹے موٹے مناطر بتا رہا ہوں ورنہ یہ تھی کہ ایک کوٖ دور ہوتا تو دوسرا شروع ہو جاتاْ استاد پانجے کی ٓواز سنائی نے میرے اندر گویا نئی اندگی پھونک دی۔ بچے یہ آخری رات ہے اور مقابلہ سخت ہے۔ ڈرنا نہیں وہ کچھ بھی کر لیں تجھے نقصان نہین پہچا سکتے۔بس ورد کسی صورت نہ چھوڑنا، ساتھ ہی مجھے ایک خونخوار جانور نظر آیا اس نے بار بار مجھ پر کیا۔مجھے اس کا حملہ نظر آتا تھا۔ وہ خونخوار قسم کے دانت میرے جسم میں گاڑتا مگر مجھے نہ کوئی زخم آیا نہ درد محسوس ہوا۔ مجھے نہیں معلوم یہ عمل کتنی دیر جاری رہا ۔ استاد کی موجودگی کا بھی سہارا تھا۔ باربار استاد کی یقین دہانی بھی جاری تھی کہ کوئی چیز تجھے نقصان نہیں پہنچا سکتی ۔ اج آخری رات ہے تیرا عمل کامیاب ہو رہا ہے بس ڈر نا نہیں ۔ شیر جسم میں دانت گاڑھ دے اور انسان ڈرے نہ۔ مگر میں پسینے سے شرابور ضرور ہو گیا مگر اپنا ورد نہیں چھوڑا۔ مجھے معلوم تھا یہ ورد ہی میرا محافظ ہے۔ شیر نما جانور انسانی آواز مین بول پڑا۔تم تو انتہائی ڈہیٹ ہو۔فکر نہ کرو میں اپنے دادے کو بھیجتا ہوں وہی تمھارا علاج کرے گا اج تم زندہ نہیں بچوگے۔ استاد نہ ڈرنے کی باربار تلقین کر رہا تھا۔ بار بار یاد دلاتا آج آخری رات ہے ۔ آج نہ ڈرے تو تم دنیا کے سب سے بڑے عامل ہو گے۔ بس اپنا ورد نہ چھوڑنا۔ کامیاب تم ہی ہو گے۔اتنے میں میرے سائے میں ایک سفید رنگ کا سانپ نظر آیا۔کھلا منہ ، نوکیلے دانت، اس کی پھنکار ایسی خوفناک کہ میں نے زندگی میں ایسی ڈراونی آواز نہ سنی تھی۔ میرا جسم پسینے مین شرابور تھا۔ زندگی ہر جاندر کو عزیز ہوتی ہے ۔ استاد کی موجودگی اور اس کی بار بار کی اس یقین دہانی سے کہ وہ مجھے کوئی جسمانی نقصان نہین پہنچا سکتا مجھے کافی سہارا ملا۔ سانپ پھنکارتا رہا مجھے ڈسنے کے لیے حملہ کرتا دکھائی دیتا مگر مجھے ڈس نہ سکا۔ اس کے بعد اس نے میری ٹانگوں کے گرد لپٹنا شروع کیا ۔ میں خوف زدہ تو ہوا مگر واحد سہارا ورد کا تھا۔ میری آواز خوف کے باعث اونچی ہوتی چلی گئی۔ باہر سے استاد کی تلقین بڑھ گئی۔ سانپ کی پھنکار، میری ورد کرتی کانپتی آوازاور استاد کی تلقین کرتی آوازوں میں سانپ اپنا گھیرا سینے تک مکمل کر چکا تھا۔ استاد نے بار بار کہتا ڈرنا نہیں میں تیرے پاس موجود ہوں۔ میں عمل کررہا ہوں ۔جو بھی ہے تجھ سے انسانی زبان میں بات کرے گا ، ڈرنا نہیں تمھارا عمل کامیاب ہو چکا ہے تم دنیا کے سب سے بڑے عامل بننے والے ہو ، بس ڈرنا نہیں اور جب تک یہ جس شکل میں بھی ہے انسانی آواز میں تجھ سے بات نہ کرے اپنا ورد نہیں چھوڑنا۔سانپ نے اپنا منہ میرے چہرے کے بالکل سامنے کر لیا مجھے لگا ابھی مجھے ڈسنے کے لیے حملہ کرے گا ۔ مگر سانپ میرے جسم سے علیحدہ ہو گیا ۔ نیچے اتر کر اس نے انسانی آواز میں کہا۔ عامل صاحب بولو مجھ سے کیا چاہتے ہو، میں نے استاد پانجے کی بتائی شرطیں اسے بتائیں اور حاضری کا طریقہ پوچھا۔ جواب میں اسنے اپنی تین شرطیں بتائیں۔ ہمارے معاملات طے ہوگئے۔ میری محنت رنگ لے آئی۔ استادپانجے میرا ہاتھ پکڑ کر باہر نکالاْگلے لگایا اور مبارک بادی دی۔ نقاہت کے باعث میرا کھڑا ہونا مشکل تھا۔میں نے استاد سے کہا مجھے طاقت کے لیے کوئی نسخہ دیں۔ پانجے استاد نے کہا ۔جوجو شکلیں تم نے دیکھیں ہیں سب موکل تیرے قابومیں آ چکے ہیں ۔ ان سے نسخے بھی لو اور خدمت بھی کراو۔ تم اب میرے بعد دوسرے نمبر پر ہو اور تمھارے مقابلے کا کوئی عامل پورے ملک میں نہیں ہے ۔دراصل میں ایک عفریت کو تابع کرنے میں کامیاب ہوا تھا ۔ جو معمولی کامیابی نہ تھی۔ چند ہی دنوں میں مجھے عفریت کی طاقتوں کا اندازہ ہوگیا۔ میں ہر وہ چیز حاصل کر سکتا تھاجس کا تصور ہو سکتا ہے۔ 

تسخیر جنات 2

میں نے گذشتہ کالم میں حضرت میاں محمد شیر صاحب سے خواجہ حسن نظامی صاحب کی ملاقات کا ذکر کیا تھا۔ نظامی صاحب لکھتے ہیں کہ ان کی موجودگی میں کچھ لوگ نینی تال کے پہاڑ سے ایک عورت کو لائے۔ اس عورت کی آنکھیں لا ل تھیں اور وہ بہک رہی تھی۔ساتھ والوں نے کہا اس عورت پر آسیب ہے۔شاہ صاحب (حضرت میاں محمد شیرصاحب) نے فرمایا تیل منگواو۔ تھوڑی دیر میں تیل آگیا۔ شاہ صاہ نے کہا تیل کا ایک ایک قطرہ اس کے دونوں کانوں میں ڈالو۔ تیل ڈالتے ہی عورت بھلی چنگی ہو گئی۔ اس کی آنکھوں کی لالی جاتی رہی اور اس کے حواس بھی بحال ہو گئے۔شاہ صاحب نے مجھ (خواجہ حسن نظامی صاحب ) سے فرمایا لوگ کہیں گے یہ ہماری کرامت سے اچھی ہو گئی حالانکہ اس میں ہماری کوئی کرامت نہیں ہے ۔ تم نے دیکھا ہم نے تیل کو ہاتھ لگایا نہ کچھ دم کر کے پھونکا۔دراصل اس کے سر مین خشکی تھی ۔تیل ڈالنے سے سر کی خشکی جاتی رہی اور عورت ٹھیک ہو گئی۔ اس کے بعد ارشاد فرمایا میاں جب ہم تمھاری عمر کے تھے تو ہمیں بھی ہمزاد اور جنات کی تسخیر کا شوق ہوا۔ ہمیں ایک شخص نے جنات اور ہمزاد کو اپنے تابع کرنے کا عمل بتایا ۔ میں نے مسجد میں جا کر اس کو پڑہنا شروع کیا ۔ ایک غیبی چیز نے ہمیں مسجد کے بوریے میں لپیٹ کر مسجد کے ایک کونے میں کھڑا کر دیا۔ہم بمشکل بوریے سے نکلے ، بوریے کو بچھایا اور دوبارہ عمل پڑہنا شروع کر دیا۔ پھر کسی نے ہمیں بوریے میں لیٹ کر کونے میں کھڑ ا کردیا۔تین دفعہ ایسا ہی ہوا۔چوتھی بار ایک آدمی ہمارے سامنے آیا اور کہا تم یہاں کیوں بیٹھے ہو اور کیا پڑھ رہے ہو۔ ہم نے کہا جنات اور ہم زاد کی تسخیر کا عمل پڑھ رہا ہوں۔اس آدمی نے کہا او دیوانے تو خدا کا مسخر ہو جا اس کا فرمانبردار بن جا ساری مخلوق تیرے تابع ہو جاے گی۔ ہم جنات بھی اسی کی مخلوق ہیں ہم بھی تیرے تابعدار ہو جائیں گے۔اس دن سے تو میاں ہم نے جنات اور ہمزاد کی تسخیر کے عمل چھوڑ دیا اور خدا کے دروازے پر بیٹھ گئےْ 

میرے استاد محترم نے بھی تسخیر جنات کا کوئی چلہ نہیں کیا ہوا مگر ان کے شاگردوں اور مریدوں میں بڑی تعداد میں جنات شامل ہیں۔ایک بار جنات کی طویل عمری بارے بات ہو رہی تھی ۔ استاد جی نے بتایا ان کے ایک مرید جن کی عمر دو ہزار سال سے زیادہ ہے۔کسی مرید کے استفسار پر انھوں نے بتایا کہ رسالت ماب ﷺ کے دور میں وہ جن موجود تھا۔ نبی اکرم ﷺ کے بارے میں اس نے سنا بھی تھا مگر وہ مسلمان بعد میں ہوا اس لیے زیارت سے محروم رہا۔اب وہ جن نہ صرف مسلمان ہے بلکہ عبادت میں بہت رہاضت کرتا ہے ۔ اپنے قبیلے کا روحانی سربراہ اور استاد و پیر ہے۔صرف وہی نہیں اور بہت سارے جنات استاد جی کی خدمت میں حاضر رہتے ہیں اور منتظر رہتے ہیں کہ ان کی زبان سے کوئی حکم نکلے جسے پورا کر کے وہ اپنی عقیدت کو بجا لا سکیں۔نو وارد مرید اور شاگرد ایسی باتوں کو حیرت سے سنتے اور واقعات کو دیکھتے ہیں۔حالانکہ اس میں حیران ہونے کی بات نہیں ہے۔شاہ جی نے خواجہ حسن نظامی کو یہی ایک جملہ ہی تو سمجھایا تھاکہ خدا کے تابع ہو جاو ساری مخلوق تمھارے تابع ہو جائے گی۔یہ وہ حقیقت ہے جس کی شریعت تائید کرتی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ علم پر ہر قسم کی اجارہ داری صرف اور صرف خداے بزرگ و برترین ہی کی ہے وہ جس کے کاسہ گدائی میں جتنا ڈال دے۔ کاسہ اپنے اپنے من کی مقدار کا ہوتا ہے۔ علم عقل کو حیران کرتا آیا ہے۔ اژدھے کا لکڑی کے ڈندے والا قصہ آپ نے بھی پڑھ رکھا ہے۔ پتھر سے چلتی پھرتی اونٹنی کے برامد ہونے کا قصہ بھی آپ نے سن رکھا ہے۔ڈوبتے سورج اور ٹکڑوں میں بٹے چاند کی داستان زیادہ پرانی نہیں ہے۔ یہ سوال بجا ہے کہ یہ پیغمبروں کے معجزے ہیں مگر رکے دریا کو خط لکھنے والا تو پیغمبر نہ تھا۔یہ حقیقت ہے کہ اتباع محمدی ﷺ انسان میں کراماتی صفات کا سبب بن جاتی ہے البتہ یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ طالب علم کی سولہ سال کی مسلسل محنت اس کو ماسٹر کی ڈگری کا حقدار بنا دیتی ہے۔کمال طالب علم کی ذات میں نہیں بلکہ سولہ سال کی مسلسل اور مہربان اتالیق کی زیر سرپرستی محنت اور جدوجہد میں ہے۔ 
میں ایک بار تبلیغی جماعت کے ہم سفر تھا۔ وہ لوگ چلہ لگانے نکلے ہوئے تھے۔ان میں ایک بزرگ ایسے بھی تھے جن کے بارے میں مشہور تھا کہ ان کی زبان سے جو کلمہ نکل جائے سچ ہو جاتا ہے۔ مگر وہ سوتے،کھاتے اور بولتے کم ہی تھے ۔ پڑہتے اور سنتے زیادہ تھے۔جنات کے بارے ان کا کہنا تھا کم عقل مخلوق ہے اور ان کی تسخیر سے کسی کو کیا مل سکتا ہے۔ البتہ انسان اپنے آپ ہی کواپنا تابع کر لے تو جنات کو قابو کرنے سے بڑی کامیابی ہے۔
استاد جی کو خوشبو کے استعمال کا شوق ہے البتہ دیکھا یہ گیا ہے کہ خوشبو پاکیزہ لوگوں ہی پر کھلتی ہے۔ خیالات، ارادوں، اعمال، معاملات میں پاکیزگی انسان میں خلق خدا کی خدمت کا جوہرکھولتی ہے ۔ جو انسان خدا کی مخلوق کی خدمت میں لگ جاتا ہے۔ خدا اس کو دوست بنا کر علم کے استعمال کا سلیقہ عطا کرتا ہے۔ 

پیر، 3 دسمبر، 2018

نیا امتحان

: نیا امتحان: اس سال 16 جنوری کو ایوان صدر میں ایک اجلاس ہوا تھا جس میں ملک کے تمام مسالک ، وفاق ہائے مدارس کے نمائندے ، علماء کرام اور مشائخ عظام ش...

اردو کالم اور مضامین: نیا امتحان

اردو کالم اور مضامین: نیا امتحان: اس سال 16 جنوری کو ایوان صدر میں ایک اجلاس ہوا تھا جس میں ملک کے تمام مسالک ، وفاق ہائے مدارس کے نمائندے ، علماء کرام اور مشائخ عظام ش...

تسخیر جنات 1

کسی زمانے میں ہندوستان میں روحانی علم کے کچھ بزرگوں کا اپنے اپنے علاقے میں بہت شہرہ تھاحضرت میاں محمد شیر صاحب پیلی بھیت میں نمایان شہرت کے مالک تھے تو حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب گنج مراد آباد میں مشہور تھے، حضرت حاجی وارث علی شاہ صاحب کا طوطی دیوہ مین بولتا تھااور حضرت غوث علی شاہ صاحب پانی پت میں اپنے علم کے موتی بکھیراکرتے تھے۔خواجہ حسن نظامی صاحب نے حضرت میاں محمد شیر صاحب کے بارے میں ایک واقعہ تحریر کیا ہے 
لکھتے ہیں 

ْ میں نے سنا پیلی بھیت میں حضرت میاں محمد شیر صاحب تسخیر جنات اور ہمزاد کے بڑے عامل ہیں۔اس واسطے میں دہلی سے ریل میں سوار ہو کر پیلی بھیت گیا، جب اسٹیشن پر اترا تو میری جیب میں صرف چار پیسے تھے،میں نے سوچا بزرگوں کے پاس خالی ہاتھ نہیں جانا چاہیے۔اس لیے میں نے ایک پیسے کے امرود لیے اور شاہ صاحب کے پاس حاضر ہو گیا۔میں نے دیکھا کہ منڈھیا پر سانولے رنگ اور چھوٹے قد کے ایک بزرگ جن کی سفید لمبی داڑہی ہے اور سر پر نیلے گاڑھے کی پگڑی ہے بیٹھے ہیں ۔ میں نے جا کر سلام کیااور امرود ان کے قدموں مین رکھ دیے۔اور لوگوں کے ساتھ میں بھی بیٹھ گیا۔شاہ صاحب نے میری طرف دیکھ کر فرمایا کہو میان دہلی میں خیریت ہےْ 

عامل ، پیر اور روحانیت کے استادوں کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ آنے والے کے بارے میں پیشگی طور پر جان لیتے ہیں۔میں نے دیکھا ہے کہ میرے استاد ، جن کے پاس اکثر سائے والے مریض آتے ہیں ۔مریض کے آنے سے قبل ہی اس کے بارے میں معلومات اپنے ساتھیوں کو دے دیتے ہیں۔ دراصل ایسے افراد نے ایسی تمرین و مشق کی ہوتی ہے یا ایسے چلے کاٹے ہوتے ہیں کہ ان کو روحانی طاقتین حاصل ہو جاتی ہیں۔ ان روحانی طاقتوں میں مستقبل بینی، دوسرے کا ذہن پڑہنا اور مریض کی سوچ پر اثر انداز کی قوت شامل ہوتی ہے۔یہ طاقت ہر شخص حاصل کر سکتا ہے۔ مگر اس کے لیے جو مشقیں کرنا پڑتی ہیں وہ ہر انسان کے بس کا روگ نہیں ہوتا۔ 

پچیس سال پہلے کا واقعہ ہے کہ میرے استاد کے پاس ایک نوجوان آیاجو تسخیر جنات کا علم سیکھنا چاہتا تھا۔ اس کی تعلیم ایف اے تھی۔اس کا سارا خاندان لندن میں جبکہ وہ اکیلا ضلع راولپنڈی کی اس وقت کی تحصیل کہوٹہ کے ایک شہر کلر سیداں کے پاس ایک گاوں میں رہتا تھا۔ والدین کی بنائی چار کنال کی کوٹھی میں مقیم تھا۔ دولت کی بھی کمی نہ تھی۔ مگر اس کے دماغ میں جنات کو قابو کرنے کا شوق سمایا ہوا تھا۔ استاد محترم نے اس کو ٹالنے کی بہت کوشش کی مگر اس نے ایک سال سے زیادہ عرصہ منت سماجت کر کے استاد جی کو راضی کر ہی لیا۔ استاد جی نے اس کی قوت ارادی کا امتحان لینے کے لیے اسے ایک چلہ بتایا جو رات کے وقت پانی میں کھڑے ہو کر کرنا تھا۔ تسخیر جنات کے چلے کے دوران عامل بننے والے شخص کو ایک تو نڈر ہونا چاہیے دوسرے اپنے استاد کے بتائے ہوئے عمل اور وظیفے پر ہرحال میں کار بند رہنا چاہیے ۔ وہ نوجوان قوت ارادی کو مضبوط کرنے والی چند ایک مشقیں کامیابی سے کر چکا تھا۔اب اس نے رات کے وقت پانی میں کھڑے ہو کر ایک عمل کرنا تھا۔ استاد جی نے اس کو ممکنہ پیش آنے والے واقعات سے آگاہ کر دیا تھااور یہ ہدائت بھی دی تھی کہ وہ کسی صورت اپنا وظیفہ نہ چھوڑے ورنہ وہ کسی دائمی معذوری میں مبتلا ہو سکتا ہے۔ یہ وظیفہ یا چلہ اکیس دن کا تھا۔نوجوان ہدایات اور عزم لے کر جانے لگا تو یہ بھی بتا گیا کہ وہ آنے والے اتوار کی رات سے چلہ شروع کرے گا۔ وہ دن منگل کا تھااور ستمبر کا مہینہ تھا۔ سوموار والے دن استاد جی نے بتایا کہ ْ انگلینڈیے ْ نے اپنے گھر میں ایک تالاب بنایا ہے اور اس میں کھڑے ہو کر رات والا وظیفہ کیا ہے۔ استاد جی کو یہ خبریں ان کے جنات دیتے تھے۔ اگلے منگل کو میں صبح کے وقت استاد جی کے پاس موجود تھا۔ انھوں نے بتایا رات کو ْ انگلینڈیا ْ ڈر گیا ہے ۔ بے ہوش ہے اور ابھی لوگ اسے یہاں لا رہے ہیں۔ کچھ دیر بعد ایک گاڑی آ کر رکی۔ لوگوں نے بے ہوش نوجوان کو گاڑی سے نکالا۔ استاد جی کو بتایا گیا وہ رات کے کسی پہر چیخیں مارتا ہوا گلی میں بھاگ رہا تھا۔ پھر گر کر بے ہوش ہو گیا۔ رشتے دار صبح کے وقت اس کو کلر سیداں میں ایک ڈاکٹر کے پاس لے کر گئے ۔ ڈاکڑ نے بہت کوشش کی ۔ دو ٹیکے بھی لگائے مگر نوجوان کو ہوش نہ آیا۔ عقلمندی اس نے یہ کی تھی کہ چلہ شروع کرنے سے پہلے اپنے کچھ رشتے دار ساتھیوں کو اپنے چلے اور استاد کے بارے میں بتا دیا تھا۔اس کے رشتے دار اس کو اٹھا کر استاد جی کے پاس لے آئے تھے ۔ استاد جی کے پاس پہنچے کے ایک گھنٹے بعد اس کو ہوش آنا شروع ہوا ۔ اس دوران اس پر تین بار مخصوص دم شدہ پانی چھڑکا جاتا رہا۔ڈاکٹر کو بلایا گیا اور تیسرے دن اس کا بخار اترا۔ تسخیر جنات کا شوق بھی اتر چکا تھا۔ مگر خوف باقی تھا۔ استاد جی نے مجھے کہا دفتر سے تین دن کی چھٹی لو اور اس کے ساتھ رہو۔ جب میں اور اس کے رشتے دار گاوں پہنچے تو اس نے گھر جانے سے انکار کر دیا۔ اس کا ماموں ہمیں اپنے گھر لے گیا۔ دوسرے دن میں اس کے گھر وہ تالاب دیکھنے گیا مگر اس نے دن کے وقت بھی گھر جانے سے انکار کردیا۔ اس کے ماموں اور ان کے گھر والوں نے اس کی دیکھ بال کی ذمہ داری لی۔ میں واپس آگیا۔ چند دنوں کے بعد اس نے ماموں کے بیٹوں کے ساتھ گھر جانا شروع کر دیا۔ تالاب پاٹ دیا گیا۔اور اس کا خوف ختم ہو گیا۔ کئی ماہ بعد گرمیوں کے دن تھے کہ استاد جی نے ایک لڑکے کو ایک تعویز دے کر اس کے گاوں بھیجا اورجلدی پہنچنے کی تاکید کی۔استاد جی کا کہنا تھا ۔ اس کے گلے میں پڑا ہوا ان کا دیا ہوا تعویذ چشمے میں نہاتے ہوٗے اس کے گلے سے نکل گیا ہے۔ جب لڑکا واپس آیا تو نوجوان بھی اس کے ساتھ تھا۔ اس نے بتایا کہ اس کو تعویذ کے گرنے کی خبر ہی نہیں ہوئی مگر وہ 
خود کو ہلکے بخار کی کیفیت میں محسوس کر رہا تھاکہ اس کو کمک مہیا کر دی گئی۔
سالوں بعد کئی بار کے میرے اصرار کے بعد اس نے بتایا کہ اس کے ساتھ واقعہ کیا پیس آیا تھا۔ 
ْ میں نے اپنی کوٹھی کے صحن میں پانچ فٹ گہرا تالاب بنوایا ۔ اس میں ٹنکر کے ذریعے چار فٹ پانی بھرا ۔ اتوار کی رات کو میں نے چلہ شروع کیا۔چوتھی رات کو مجھے کچھ غیر مانوس مخلوق کی موجودگی کا احسا س ہونا شروع ہو گیا۔لیکن میں نے توجہ پڑہائی پر رکھی ۔ اگلی رات کچھ صورتیں نظر آئیں جو مکروہ اور ڈراونی تھی مگر میں ان سے متاثر نہ ہوا۔ اگلی رات پھر ڈراونی آوازیں اور کریہہ چہرے والوں نے مجھے ڈرانے کی کوشش کی ۔لیکن میں ڈرا نہ میں نے استاد جی کا بتایا ہوا وظیفہ چھوڑا۔ 
اس سے اگلی رات وہ ڈراونی صورتوں والی مخلوق تیزی سے میری طرف حملہ آور ہوتی مگر مجھے استاد جی نے بتایا ہوا تھا کہ وہ ڈرا سکتے ہیں مجھے کوئی نقصان نہیں پہچا سکتے۔ایک رات میں پانی میں کھڑا تھا ۔ گھر کی تمام بتیاں بجھی ہوئی تھیں ۔ میرا منہ اپنے گھر کے مین گیٹ کی طرف تھا۔ کہ میں نے دیکھا ایک آدمی نے تالا لگے گیٹ کو کھول لیا ۔ گیٹ کے دونوں پٹ کھول کر وہ ادمی باہر گیا ۔ واپس آیا تو اس کے ہاتھ میں ایک رسی تھی۔ رسی اونٹ کی نکیل میں بندہی ہوئی تھی۔ اونٹ کے گلے میں بڑاسا گھنٹہ تھا۔ اونٹ پر ایک عورت سر پر چادر ڈالے منہ چھیائے بیٹھی تھی۔ اس کی گود میں ایک بڑا سا دیگچہ رکھا ہوا تھا۔ اور عورت کی پشت پر ایک معصوم سا ننگ دھڑنگ بچہ بیٹھا ہوا تھا۔ آنے والا اونٹ سمیت گھر میں داخل ہوا۔تالاب کے کنارے اس نے اونٹ کو بٹھایا۔ ایک چٹائی بچھائی، جس پر وہ خود ، عور ت اور بچہ بھی بیٹھ گئے۔ عورت نے دیگچے کا ڈھکن اٹھایا اور تینوں نے مل کر اس میں جو کچھ بھی تھا کھا لیا۔ جب دیگچہ خالی ہو گیاتو عورت نے دیگچہ زور سے پھینکا جو میرے سرکے اوپر سے گذر کر دور ایک درخت سے زور دار آواز کے ساتھ ٹکرا کر نیچے گر گیا۔میں یہ تماشا دیکھ ہی رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ شائد ابھی یہ کوئی ڈراونی حرکت کریں گے۔ مجھے یاد تھا وہ مجھے کسی قسم کا نقصان نہیں پہچا سکتے اس لیے میں نے ساری توجہ وظیفے پر مرکوز کر دی۔ انھوں نے میرے ساتھ کوئی حرکت نہ کی جیسے وہ میری موجودگی ہی سے بے خبر ہوں۔ میری توجہ وظیفے پر تھی ۔اتنے میں میں نے سنا عورت مرد سے کہہ رہی ہے مجھے بھوک لگی ہے۔ مرد نے اونٹ کی طرف اشارہ کیا کہ اسے کھالو۔ اس عورت نے وہیں سے بیٹھے ہوئے دونوں ہاتھ بڑہائے اور زندہ اونٹ کو ٹکڑوں میں کر کے کھانا شروع کر دیا۔ چند لمحوں میں وہ سارا اونٹ کھا گئی۔میں سمجھ گیا یہ مجھے ڈرانے کے لیے ہو رہا ہے۔ میں نے دل کو مضبوط کیا کہ کچھ بھی کریں میں خوف زدہ نہیں ہوں گا۔کہ اتنی دیر میں عورت کی آواز سنائی دی وہ مرد سے کہہ رہی تھی اب کیا کھاوں ۔ مرد نے بچے کی طرف اچارہ کیا عورت نے بچے کے دو ٹکڑے کیے بچے کی چیخوں کی آواز نے گویا میرا دماغ ہی شل کر دیا۔ میرے دیکھتے دیکھتے وہ بچے کو کھا گئی۔ بچے کو کھاکر اس نے مرد سے پوچھا اب کس کوکھاوں۔ مرد نے میری طرف اشارہ کر کے کہا اپنے اس باپ کو کھاو جس کے لیے میں تمھیں یہاں لے کرآیا ہوں۔عورت اٹھی اس نے سر پر پڑی چادر اتار دی ۔ اس کا ڈروانا ، کریہہ، شیطانی چہرہ ایسا تھاکہ میرا جسم خوف سے کانپ گیا۔ عورت نے میری طرف ہاتھ بڑہائے میں خوف سے بھاگ کر تالاب کے گرد کھینچے دائرے سے باہر نکل گیا۔میں بھاگ نکلا مگر وہ ہاتھ میرا پیچھاکرتا رہا۔مجھے محسوس ہوا ہاتھ میرے گلے تک پہیچ گیا ہے ۔ اس کے بعد کیا ہوا ۔مجھے لوگوں نے بتایا تم گلی میں چیختے بھاگ رہے تھے ۔ پھر گر کر بے ہوش ہو گئے ْ 
مجھے معلوم ہے اس کو بچانے میں استاد جی کا ہاتھ تھا جو رات کو جاگ کر اپنے موکلوں کے ذریعے اس کا خیال رکھتے تھے۔میری ان تمام شوقین مزج لوگوں کو نصیحت ہے کہ وہ تسخیر جنات کا کوئی بھی عمل کسی استاد کامل کی سرپرستی کے بغیر نہ کریں۔ورنہ اس میں جان سے ہاتھ دہو بیٹھنے کا خطرہ ہے۔