پیر، 28 جولائی، 2025

سچ کا محاصرہ



سچ کا محاصرہ

دنیا کی ہر جنگ صرف میدان میں نہیں لڑی جاتی، ایک جنگ شعور، بیانیے، اور خبروں کی بھی ہوتی ہے — اور اس جنگ کا سب سے بڑا ہتھیار ہے: میڈیا۔
صیہونیت کو جب اپنی بقا کے لیے زمین، اسلحہ اور اتحادیوں کی ضرورت تھی، تو اسے مغربی استعمار نے دیا۔اور جب صیہونیت کو اپنی حقیقت چھپانے اور مظالم کو “دفاع” کہنے کے لیے ایک پردہ درکار تھا، تو وہ پردہ مغربی میڈیا نے مہیا کیا۔
مغربی میڈیا فلسطین میں اسرائیلی جارحیت کو رپورٹ کرنے کا جو انداز اپناتا ہے، وہ سادہ قارئین کو بھی گمراہ کر دیتا ہے۔
مثالیں ملاحظہ ہوں:
فلسطینی شہید ہوتا ہے:
"A Palestinian dies in a clash"
اسرائیلی فوجی زخمی ہوتا ہے:
"An Israeli soldier was brutally attacked by militants"
گویا فلسطینی خود بخود مر جاتے ہیں، جبکہ اسرائیلی زخمی ہونے پر “brutally” کا لفظ شامل ہو جاتا ہے۔
مغربی میڈیا نے ہمیشہ فلسطینی مزاحمت کو دہشت گردی کے لیبل سے پیش کیا، خواہ وہ مزاحمت ایک پتھر ہو یا ایک آواز۔ حماس یا دیگر تنظیموں کو "Militants" یا "Islamist Extremists" کہا جاتا ہے۔ جبکہ اسرائیلی فوج کے لیے ہمیشہ "Israel Defense Forces" یعنی دفاعی فوج کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے — حالانکہ دفاع سے زیادہ یہ "جارحیت" کی علامت بن چکی ہے۔
بی بی سی، سی این این اور فاکس نیوز کی پالیسی
بی بی سی: نسبتاً "غیر جانب دار" سمجھی جاتی ہے، لیکن فلسطین کے حوالے سے اس کی زبان اکثر غیر متوازن ہوتی ہے۔
بی بی سی ہمیشہ "Clashes" یا "Violence between Israelis and Palestinians" جیسے مبہم الفاظ استعمال کرتی ہے — حالانکہ حقیقت میں یہ یک طرفہ ظلم ہوتا ہے۔
سی این این:
امریکہ کی نمائندہ نیوز ایجنسی — اور امریکہ اسرائیل کا سب سے بڑا حمایتی۔سی این این نے متعدد بار فلسطینی مزاحمت کو "Hamas-led terrorism" کہا، جبکہ اسرائیلی بمباری کو "response to rocket fire" کے تحت ہضم کیا۔
فاکس نیوز:انتہائی دائیں بازو کی صیہونی نواز میڈیا، جو اسرائیل کو “ایک روشن جمہوریت” اور فلسطینیوں کو “شدت پسند اسلامی گروہ” کہنے میں پیش پیش ہے۔
تصویر کا فریب: جب اسرائیل غزہ پر بمباری کرتا ہے اور سیکڑوں بچے جاں بحق ہوتے ہیں، تو مغربی میڈیا ان تصویروں کو یا تو دکھاتا ہی نہیں، یا صرف یہ لکھ کر گزارا کرتا ہے:
"Palestinian casualties reported amid escalating conflict"
لیکن جب اسرائیل پر راکٹ گرتا ہے، تو متاثرہ گھر، روتے ہوئے یہودی بچے، اور زیر زمین پناہ گاہیں ہیڈ لائن بن جاتی ہیں۔
صیہونیت کے میڈیا نیٹ ورک: پیچھے کون ہے؟
دنیا کے بڑے میڈیا ہاؤسز کے پیچھے موجود افراد اور سرمایہ کاروں میں صیہونی حمایت یافتہ شخصیات شامل ہیں:
Rupert Murdoch (فاکس نیوز): کھلا صیہونی حمایتی
Jeff Zucker (سابق صدر سی این این): اسرائیل نواز موقف رکھتے ہیں
New York Times کا ادارتی عملہ اور کئی سینئر صحافی یہودی پس منظر سے تعلق رکھتے ہیں
اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ ہر یہودی صحافی بددیانت ہے، لیکن ادارتی پالیسی اکثر صیہونیت کے حق میں ہوتی ہے۔
فلسطینی صحافیوں کی جدوجہد: اسرائیل نے درجنوں فلسطینی صحافیوں کو شہید یا گرفتار کیا۔ معروف رپورٹر شیرین ابو عاقلہ کو اسرائیلی فوج نے گولی مار کر قتل کیا، اور مغربی میڈیا کئی روز اس قتل کو بھی "disputed death" کہتا رہا ۔ یہ واقعہ دنیا کے سامنے واضح ثبوت تھا کہ سچ صرف بولنے کا نہیں، سہنے کا نام بھی ہے
سوشل میڈیا: ایک نیا محاذ: جب روایتی میڈیا اسرائیل کا دفاع کرتا ہے، تو فلسطینی عوام نے سوشل میڈیا کو اپنا ہتھیار بنایا۔انسٹاگرام، ٹوئٹر (X)، فیس بک پر لاکھوں افراد نے فلسطینی مظالم کی تصاویر اور ویڈیوز شیئر کیں
مگر Meta اور دیگر پلیٹ فارمز نے بھی کئی بار "community guidelines" کے نام پر فلسطینی مواد ہٹا دیا
گویا یہ جنگ صرف ٹینکوں کی نہیں، الفاظ، تصاویر اور الگورتھم کی بھی ہے
صیہونیت اور مغربی میڈیا کا رشتہ صرف ہمدردی کا نہیں، بلکہ مفادات، پراپیگنڈہ، اور بیانیہ سازی کا رشتہ ہے۔ جب ایک ریاست ظلم کرے اور میڈیا اسے امن کہے، تو سمجھ لیجیے کہ سچ کا محاصرہ کر لیا گیا ہے ۔

خطرناک گٹھ جوڑ




دنیا بھر کی سیاست، معیشت، ابلاغ، حتیٰ کہ سائنسی و فکری حلقوں میں ایک طاقتور، منظم اور بااثر گروہ کی موجودگی کئی دہائیوں سے موضوع بحث ہے — یہ گروہ ہے صیہونی لابی۔ اس کا نیٹ ورک اتنا مضبوط اور منظم ہے کہ یہ نہ صرف مشرق وسطیٰ کی سیاست بلکہ اقوامِ متحدہ، امریکی کانگریس، یورپی یونین اور عالمی میڈیا پر بھی گہرے اثرات ڈال رہا ہے۔
صیہونیت صرف ایک یہودی نظریہ نہیں، بلکہ ایک سیاسی منصوبہ تھا جس کا آغاز انیسویں صدی کے اواخر میں "تھیوڈور ہرزل" نے کیا۔ اس کا مقصد دنیا بھر کے یہودیوں کو جمع کر کے فلسطین کی سرزمین پر ایک علیحدہ قومی ریاست قائم کرنا تھا۔ یہ تحریک مذہب سے زیادہ قوم پرستی پر مبنی تھی۔ 1948 میں اسرائیل کے قیام کے بعد، صیہونی تحریک نے اپنے ایجنڈے کو عالمی سطح پر پھیلانے کے لیے لابیئنگ اور خفیہ تعلقات کے جال کو استعمال کیا۔
امریکہ میں صیہونی لابی کی سب سے نمایاں تنظیم AIPAC (American Israel Public Affairs
ہے، جو امریکی سیاست پر اثر انداز ہونے کے لیے اربوں ڈالر خرچ کرتی ہے۔ ہر امریکی صدارتی انتخاب میں یہ لابی فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہے۔ بہت سے امریکی سینیٹرز اور کانگریس مین اسرائیل کی حمایت کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتے۔
ریاستہائے متحدہ کی خارجہ پالیسی میں فلسطین مخالف فیصلے، ایران کے خلاف پابندیاں، شام میں مداخلت، اور حزب اللہ و حماس کو دہشت گرد قرار دینا — یہ سب صیہونی اثرات کی جھلکیاں ہیں۔
یورپی ممالک، خاص طور پر برطانیہ، فرانس، اور جرمنی میں صیہونی لابی مضبوط بنیاد رکھتی ہے۔ ہولوکاسٹ کے احساس جرم کو بطور ہتھیار استعمال کر کے ان حکومتوں کو اسرائیل کی غیر مشروط حمایت پر مجبور کیا جاتا ہے۔ میڈیا، اکیڈمیا، اور مالیاتی اداروں میں صیہونیوں کی موجودگی اس اثر کو مزید گہرا کرتی ہے۔
صیہونی لابی کا سب سے مؤثر ہتھیار عالمی میڈیا ہے۔ CNN، BBC، Fox News، New York Times، Washington Post
اور دیگر بڑے ادارے فلسطینی بیانیے کو دبانے اور اسرائیلی مظالم کو چھپانے میں پیش پیش رہتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر فلسطینیوں کی آواز کو دبانا، اکاؤنٹس بند کرنا، اور پوسٹس ڈیلیٹ کرنا معمول بن چکا ہے۔
جب بھی غزہ پر بمباری ہوتی ہے، تو اسے "دفاعی کارروائی" کہہ کر پیش کیا جاتا ہے، اور جب فلسطینی مزاحمت کرتے ہیں، تو اسے "دہشت گردی" کہا جاتا ہے۔ یہی صیہونی پروپیگنڈہ ہے جو دنیا کو حقیقت سے دور رکھتا ہے۔
بینکاری، وال اسٹریٹ، اور عالمی مالیاتی ادارے جیسے IMF اور World Bank
پر صیہونی اثرات کوئی راز نہیں۔ مشہور صیہونی بینکار خاندان، جیسے
Rothschilds
، کئی صدیوں سے یورپ اور امریکہ کی معیشت پر اثر انداز رہے ہیں۔ اسرائیل کو ہر سال اربوں ڈالر کی امداد صرف اسی مالیاتی دباؤ کی بدولت ملتی ہے۔
اقوام متحدہ میں اسرائیل کے خلاف متعدد قراردادیں منظور ہوئیں، مگر عملی اقدامات شاذ و نادر ہی دیکھنے میں آتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکہ جیسے ویٹو پاور رکھنے والے ممالک اسرائیل کے محافظ کے طور پر کھڑے ہوتے ہیں۔ یہی صیہونی لابی کا کمال ہے کہ وہ انسانی حقوق کی تنظیموں کو بھی مخصوص دائرے میں محدود رکھتی ہے۔
صیہونی لابی صرف ایک قوم یا ریاست کی بقا کی جنگ نہیں لڑ رہی، بلکہ ایک ایسے عالمی نظام کی تشکیل چاہتی ہے جو صرف اسرائیلی مفادات کے گرد گھومے۔ یہ لابی آزادی اظہار، انسانی حقوق، اور جمہوریت جیسے نعروں کو اپنے ایجنڈے کے لیے استعمال کرتی ہے۔

وہ جو چیخ نہ سکے، مر گئے




عنوان: غزہ میں بھوک، پیاس اور دوا کی کمی سے مرتے بچے اور انسانیت کا سویا ہوا ضمیر

دنیا کی جدید ترین ٹیکنالوجی، انسان کے چاند اور مریخ پر پہنچنے کے دعوے، اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر، اور عالمی عدالتِ انصاف کے موجود ہونے کے باوجود اگر کہیں بچے بھوک، پیاس اور دوا کی کمی سے مر رہے ہوں، تو یہ پوری انسانیت کے لیے سوالیہ نشان ہے۔ غزہ، جہاں کے بچوں کے پیٹ میں نوالہ نہیں، زخموں پر مرہم نہیں اور پیاس بجھانے کے لیے پانی تک نہیں، وہاں انسانی زندگی کی تذلیل نے انسانیت کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کے بجائے سلادیا ہے۔

غزہ پٹی کو اکثر "دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل" کہا جاتا ہے۔ ایک طرف اسرائیلی ناکہ بندی، دوسری طرف مصر کی سرحدی بندش، اور تیسری طرف خاموش عالمی برادری۔ یہاں کی آبادی کا 50 فیصد سے زیادہ حصہ بچے ہیں، جن کے لیے تعلیم، غذا، دوا اور صاف پانی جیسی بنیادی ضروریات خواب بن چکی ہیں۔

اقوامِ متحدہ کے ادارے UNICEF اور WHO
 کی رپورٹس کے مطابق
2024
 کے اختتام تک غزہ کے 95 فیصد پانی کے ذرائع آلودہ ہو چکے تھے۔
غذائی قلت کی وجہ سے ہر دوسرا بچہ جسمانی اور دماغی طور پر متاثر ہو رہا ہے۔
طبی سہولیات کی تباہی نے زچگی، بچوں کی ویکسینیشن اور عام بیماریوں کے علاج کو ناممکن بنا دیا ہے۔

بھوک، پیاس اور دوا کی قلت سے مرنے والے بچے نہ تو کسی جنگی محاذ پر ہیں، نہ انہوں نے کسی گناہ کا ارتکاب کیا ہے۔ ان کا جرم صرف یہ ہے کہ وہ فلسطینی ماں کے بطن سے پیدا ہوئے، ایک ایسی سرزمین پر جہاں زمین سے زیادہ قبرستان آباد ہو چکے ہیں۔ اسرائیلی افواج کی جانب سے اسپتالوں، ایمبولینسوں اور طبی مراکز کو نشانہ بنانا کسی حادثے کا نتیجہ نہیں، بلکہ ایک منظم نسل کشی کی کوشش ہے۔ خوراک کی ترسیل کو روکا گیا، فلاحی اداروں کے قافلوں پر حملے کیے گئے، اور بجلی و ایندھن کی بندش نے اسپتالوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔

غزہ میں دوا نہ ہونا صرف بیماریوں کا نہ علاج ہونا نہیں، بلکہ موت کی باقاعدہ اجازت ہے۔ نیو بارن یونٹ میں آکسیجن ختم ہو جائے تو وہ نومولود جو ماں کی آغوش میں کھیلنے سے پہلے دنیا کو الوداع کہہ دے، وہ انسانیت کے منہ پر طمانچہ ہے۔ کینسر، گردے کی بیماری، شوگر، ہارٹ اور دیگر لاعلاج مریض دم توڑ رہے ہیں، کیونکہ یا تو دوا نہیں، یا ڈاکٹر مار دیے گئے۔

جب ایک بچہ بھوک سے بلک بلک کر دم توڑتا ہے اور دنیا صرف سوشل میڈیا پر تصویریں شیئر کر کے جذباتی ہو کر خاموش ہو جاتی ہے، تو یہ ضمیر کی نیند کی دلیل ہے۔ اقوامِ متحدہ، عالمی عدالتِ انصاف، انسانی حقوق کی تنظیمیں اور اسلامی دنیا کی حکومتیں، سب کے سب صرف مذمتی بیانات سے آگے نہیں بڑھے۔ انسانیت کے علمبردار ممالک نے اس ظلم کے خلاف نہ تو کوئی ٹھوس اقدام اٹھایا اور نہ ہی اسرائیل پر کوئی پابندیاں لگائیں۔
"جو ظلم کو دیکھ کر خاموش رہے، وہ بھی ظالم کے جرم میں شریک ہوتا ہے۔"

غزہ کا یہ ظلم آنے والی نسلوں کے لیے انسانی تاریخ کا سیاہ ترین باب ہوگا۔ یہ وہ وقت ہے جب دنیا دو طبقوں میں بٹ گئی ہے: ایک وہ جو ظالم کے ساتھ ہے، اور دوسرا وہ جو مظلوم کا ساتھ دینے کی جرات نہیں رکھتا۔ تیسرا طبقہ، جو واقعی بیدار اور باعمل ہے، نہایت کمزور اور بےاثر بنا دیا گیا ہے۔

"وہ جو چیخ نہ سکے، مر گئے
ہم جو سن نہ سکے، زندہ ہیں؟"


اتوار، 27 جولائی، 2025

تابوتِ سکینہ



تابوتِ سکینہ
(Ark of the Covenant)
تینوں آسمانی مذاہب — یہودیت، عیسائیت، اور اسلام — میں ایک نہایت محترم اور پراسرار شے سمجھا جاتا ہے۔ یہ صرف ایک صندوق نہیں، بلکہ ایک روحانی علامت، مذہبی میراث، اور الٰہی طاقت کی نشانی تھا جسے بنی اسرائیل کی روایات کے مطابق ، انھوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کے جانشینوں کے دور میں خدا کے حکم سے محفوظ کیا تھا۔
لیکن تابوتِ سکینہ کہاں ہے؟ کیا یہ حقیقتاً موجود تھا؟ اگر تھا، تو اب کہاں غائب ہے؟ ان سوالات نے صدیوں سے محققین، مؤرخین، مہم جوؤں، اور مذہبی عقائد کے ماننے والوں کو متجسس رکھا ہے۔
تابوتِ سکینہ کیا تھا؟
تابوتِ سکینہ ایک مقدس لکڑی کا صندوق تھا جو تقریباً ساڑھے تین فٹ لمبا، ڈھائی فٹ چوڑا اور ڈھائی فٹ اونچا تھا، اور خالص سونے سے منقش تھا۔ تورات کے مطابق، اس میں درجِ ذیل مقدس اشیاء رکھی گئی تھیں
الواحِ موسوی (تختیاں جن پر دس احکام درج تھے) ، حضرت ہارونؑ کا عصا
منّ و سلویٰ کا نمونہ، کچھ دیگر مقدس یادگاریں
یہودی عقیدے کے مطابق، تابوت سکینہ میں خدا کی موجودگی کا عکس تھا، اور جب بنی اسرائیل کسی جنگ پر جاتے تو وہ اسے آگے لے کر چلتے، اور یہی ان کے لیے فتح کی علامت ہوتا۔
قرآنِ کریم میں تابوتِ سکینہ کا ذکر سورہ البقرہ، آیت 248 میں موجود ہے:
"اور ان کے نبی نے ان سے کہا: اس کی بادشاہی کی نشانی یہ ہے کہ تمہارے پاس تابوت آئے گا جس میں تمہارے رب کی طرف سے سکون و اطمینان اور کچھ باقی ماندہ چیزیں ہوں گی جو آلِ موسیٰ اور آلِ ہارون نے چھوڑیں، اور اسے فرشتے اٹھائے ہوں گے۔"
اس آیت کے مطابق، تابوت سکینہ صرف مادی صندوق نہیں بلکہ روحانی سکون اور ربانی تسکین کا مرکز بھی تھا، اور یہ حضرت طالوت علیہ السلام کی بادشاہی کی علامت بنا۔
تابوت سکینہ کا آخری مصدقہ تاریخی ذکر تقریباً 586 قبل مسیح میں آتا ہے، جب بابل کے بادشاہ نبوکدنضر نے یروشلم پر حملہ کیا اور ہیکلِ سلیمانی کو تباہ کر دیا۔ اس کے بعد یہ صندوق اچانک تاریخ سے غائب ہو گیا۔
مورخین کے مطابق، تابوت:
تباہ کر دیا گیا،
چھپا دیا گیا
فرشتوں کے ذریعے آسمان پر اٹھا لیا گیا
بحرِ مردار یا غاروں میں دفن کر دیا گیا
تاہم ان میں سے کوئی نظریہ قطعی ثبوت کے ساتھ ثابت نہیں ہو سکا۔
تابوت سکینہ کی تلاش: جدید کوششیں اور نظریات
تابوتِ سکینہ کو تلاش کرنے کی کوششیں آج بھی جاری ہیں، جن میں مذہبی علماء، آثارِ قدیمہ کے ماہرین، حتیٰ کہ خفیہ ایجنسیاں اور مغربی صیہونی تنظیمیں بھی شامل ہیں۔ چند مشہور نظریات درج ذیل ہیں:
ایتھوپیا کا دعویٰ:
ایتھوپیا کی ایک قدیم چرچ کا دعویٰ ہے کہ تابوت ان کے پاس ہے اور اسے "آکسوم" (Axum)
شہر میں انتہائی حفاظت سے رکھا گیا ہے، لیکن کسی کو دیکھنے کی اجازت نہیں۔
بحرِ مردار کے غار:
کچھ محققین کا خیال ہے کہ تابوت کو بنی اسرائیل کے کچھ نیک افراد نے بحرِ مردار
(Dead Sea)
کے قریبی غاروں میں چھپا دیا۔
یہودا کے پہاڑ:
کچھ اسرائیلی مؤرخین کا دعویٰ ہے کہ تابوت ہیکل کے نیچے تہہ خانوں میں دفن ہے، اور اسی بنیاد پر وہ مسجد اقصیٰ کے نیچے کھدائیاں کر رہے ہیں۔
آسمانی مقام:
اسلامی روایات میں بھی ایک رائے یہ ہے کہ تابوت کو فرشتے اٹھا لے گئے اور وہ قیامت سے پہلے واپس آئے گا۔
تابوتِ سکینہ اور جدید سیاست
تابوتِ سکینہ اب صرف ایک مذہبی یا تاریخی معاملہ نہیں رہا، بلکہ یہ صیہونی سیاست کا ایک کلیدی عنصر بن چکا ہے۔ بعض یہودی تنظیمیں تابوت کو مسجد اقصیٰ کے نیچے موجود مانتی ہیں، اور اسی بنیاد پر الاقصیٰ کو شہید کر کے ہیکلِ سلیمانی کی تعمیر کی کوشش کی جا رہی ہے۔
یہ ایک نہایت خطرناک تصور ہے کیونکہ مسجد اقصیٰ کا مقام مسلمانوں کے لیے مکہ اور مدینہ کے بعد تیسرا مقدس ترین مقام ہے، اور اس کے خلاف کوئی بھی کارروائی پوری امت مسلمہ کے جذبات کو بھڑکا سکتی ہے۔
تابوتِ سکینہ تاریخ، عقیدہ اور روحانیت کا ایک نادر امتزاج ہے۔ اس کی حقیقت کے بارے میں آج بھی مکمل یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا، لیکن اس پر عقیدے کی شدت اور سیاسی مقاصد کی آمیزش نے اسے ایک پرخطر بحث بنا دیا ہے۔

نیتن یاہو کے بارے میں پیشگوئیاں





 نیتن یاہو کے بارے میں یہودی، مسیحی اور سیاسی پیشگوئیاں

نیتن یاہو، اسرائیل کی سیاست کا سب سے نمایاں اور متنازع ترین کردار، صرف ایک سیاستدان نہیں بلکہ ایک خاص "صیہونی ایجنڈے" کی علامت بھی بن چکا ہے۔ بعض یہودی انتہاپسند، عیسائی ایوینجلسٹ اور سیاسی مبصرین اسے آخری زمانے کی پیشگوئیوں سے منسلک کرتے ہیں۔ یہ مضمون انہی دعووں کا تحقیقی جائزہ پیش کرتا ہے،
یہودی روایات میں نیتن یاہو کا مقام: یہودی عقائد میں "مشیح" (Messiah)
کے ظہور کی دو بڑی اقسام بیان کی گئی ہیں: i. مشیح بن یوسف (Mashiach ben Yosef): جس کے متعلق توراتی روایات میں ہے کہ وہ بنی اسرائیل کے دشمنوں کے خلاف جنگ کرے گا اور شہید ہوگا۔ اس کا ذکر تلمود میں آتا ہے:
"The Messiah son of Joseph will come first, fight the wars of the Lord, and die in battle"
بعض شدت پسند یہودی حلقے نیتن یاہو کو اسی مشیح بن یوسف کے طور پر دیکھتے ہیں جو ہیکل کی دوبارہ تعمیر اور دجالی دور کی راہ ہموار کرے گا۔
ii. یہودی تنظیم “Temple Institute” کا مؤقف: Temple Institute نے 2018 میں دعویٰ کیا کہ وہ ہیکلِ سلیمانی کی تعمیر کے لیے "تیار" ہیں، اور ان کے مطابق نیتن یاہو جیسے مضبوط لیڈر اس منصوبے کو عملی جامہ پہنا سکتے ہیں۔
عیسائی ایوینجلسٹ پیشگوئیاں: ایوینجلسٹ عیسائی عقیدہ رکھتے ہیں کہ
اسرائیل کی مضبوطی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی واپسی کی علامت ہے۔
تیسرا ہیکل (Third Temple)
کی تعمیر لازمی ہے۔
نیتن یاہو اس راہ کے "منتخب رہنما" ہیں۔
حوالہ:
پادری John Hagee ، جو "Christians United for Israel" کے بانی ہیں، نے کہا: "Netanyahu is fulfilling biblical prophecy — he is God's chosen defender of Israel before the Messiah comes again."
(Source: CUFI Annual Conference, 2019)
دیگر پیشگوئیاں:
ایوینجلسٹ مصنف Hal Lindsey نے اپنی کتاب The Late Great Planet Earth (1970)
میں دعویٰ کیا کہ: "The reestablishment of Israel and the leadership of bold men will lead to Armageddon."
یہ دعویٰ نیتن یاہو کی موجودگی سے جوڑا جا رہا ہے۔
نیتن یاہو اور “Greater Israel” کا نظریہ:
نیتن یاہو کے بیانات میں بارہا یہودا اور سامریہ (West Bank) کو اسرائیل کا ابدی حصہ قرار دیا گیا ہے۔
"We will never uproot another settlement. It is time to apply Israeli sovereignty."
(Netanyahu speech, Ma'ale Adumim, 2017)
Thomas Friedman (NYT columnist)
لکھتے ہیں:
“Netanyahu is not merely a political leader — he’s a messianic nationalist.”
(NYT, March 2019)
سیاسی مقاصد:
ایران کا مقابلہ
عرب ممالک سے تعلقات (Abraham Accords)
مسجد اقصیٰ پر قبضہ کی راہ ہموار کرنا
اسلامی نقطۂ نظر اور نیتن یاہو: اسلامی تعلیمات میں نیتن یاہو جیسے کرداروں کو باطل کے سپاہی اور دجال کے ایجنڈے کے کارندے کہا گیا ہے:
قرآن سے استدلال: "وَلَا يَزَالُونَ يُقَاتِلُونَكُمْ حَتّىٰ يَرُدُّوكُمْ عَن دِينِكُمْ إِنِ اسْتَطَاعُوا"
(البقرہ: 217)
"یہ لوگ تم سے ہمیشہ لڑتے رہیں گے تاکہ تمہیں تمہارے دین سے پھیر دیں اگر وہ ایسا کر سکیں۔"
علامہ اقبال کی پیشگوئی: "یہودی دماغ، عیسائی تلوار، اور ہنڈی زبان کا امتزاج دنیا کی سب سے خطرناک سازش ہے۔"
(اقبال نامہ، حصہ دوم)
5. نیتن یاہو کا مستقبل اور عالمی تباہی کا خطرہ: نیتن یاہو کے ادوارِ حکومت:
1996–1999, 2009–2021 , 2022 تا حال
بار بار اقتدار میں واپس آنا نیتن یاہو کی ذاتی تشہیر کرنے والے اس کو ما فوق الفطرت واقعہ قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں۔
اسرائیلی تجزیہ نگار Ben Caspit لکھتے ہیں:
"Netanyahu is addicted to power because he believes he has a divine mission."
(Book: The Netanyahu Years, 2017)
نیتن یاہو کی ذاتی تشہیر کرنے والے ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ :
نیتن یاہو محض ایک سیاسی شخصیت نہیں بلکہ یہودی پیشگوئیوں کا ممکنہ کردار، عیسائی ایوینجلسٹ عقائد کا مرکز ، صیہونی منصوبوں کا ترجمان ہے
جبکہ دنیا بھر کے لوگوں کا ماننا ہے کہ نیتن یاہو باطل نظام کا نمائندہ بن چکا ہے۔ دنیا بھر کے مذہبی علماء ، سیاسی پنڈت ، تاریخ دان اور حالات حاضرہ پر نظر رکھنے والے بتاتے ہیں کہ ایک طرف پروپیگنڈہ کی بھرمار ہے اور دوسری طرف مکافات عمل کی دنیا ہے ۔ فلسطین سے باہر پیدا ہونے والے ، اپنی اصلی شناخت کو چھپا کر نیتن یاہو کا نام استعمال کرنے والے ، معصوم بچوں کے قاتل ، مظلوموں کا پانی اور خوراک بند کرنے والے ، اور سر عام قانون کی دھجیاں آڑانے والے کا انجام دنیا کے سامنے آنے والے ہے ۔ چراغ سحر کی لو بجھنے سے پہلے زیادہ ہو جاتی ہے ۔ بیمار موت سے فوری پہلے تندرست ہو جاتا ہے ۔ اور ظالم انجام سے قبل ظلم کی انتہاوں کو چھونے کی کوشش کرتا ہے ۔ یہی تاریخ کا سبق ہے اور یہی دیوار بخت پر تحریر ہے ۔