پیر، 28 جولائی، 2025

خطرناک گٹھ جوڑ




دنیا بھر کی سیاست، معیشت، ابلاغ، حتیٰ کہ سائنسی و فکری حلقوں میں ایک طاقتور، منظم اور بااثر گروہ کی موجودگی کئی دہائیوں سے موضوع بحث ہے — یہ گروہ ہے صیہونی لابی۔ اس کا نیٹ ورک اتنا مضبوط اور منظم ہے کہ یہ نہ صرف مشرق وسطیٰ کی سیاست بلکہ اقوامِ متحدہ، امریکی کانگریس، یورپی یونین اور عالمی میڈیا پر بھی گہرے اثرات ڈال رہا ہے۔
صیہونیت صرف ایک یہودی نظریہ نہیں، بلکہ ایک سیاسی منصوبہ تھا جس کا آغاز انیسویں صدی کے اواخر میں "تھیوڈور ہرزل" نے کیا۔ اس کا مقصد دنیا بھر کے یہودیوں کو جمع کر کے فلسطین کی سرزمین پر ایک علیحدہ قومی ریاست قائم کرنا تھا۔ یہ تحریک مذہب سے زیادہ قوم پرستی پر مبنی تھی۔ 1948 میں اسرائیل کے قیام کے بعد، صیہونی تحریک نے اپنے ایجنڈے کو عالمی سطح پر پھیلانے کے لیے لابیئنگ اور خفیہ تعلقات کے جال کو استعمال کیا۔
امریکہ میں صیہونی لابی کی سب سے نمایاں تنظیم AIPAC (American Israel Public Affairs
ہے، جو امریکی سیاست پر اثر انداز ہونے کے لیے اربوں ڈالر خرچ کرتی ہے۔ ہر امریکی صدارتی انتخاب میں یہ لابی فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہے۔ بہت سے امریکی سینیٹرز اور کانگریس مین اسرائیل کی حمایت کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتے۔
ریاستہائے متحدہ کی خارجہ پالیسی میں فلسطین مخالف فیصلے، ایران کے خلاف پابندیاں، شام میں مداخلت، اور حزب اللہ و حماس کو دہشت گرد قرار دینا — یہ سب صیہونی اثرات کی جھلکیاں ہیں۔
یورپی ممالک، خاص طور پر برطانیہ، فرانس، اور جرمنی میں صیہونی لابی مضبوط بنیاد رکھتی ہے۔ ہولوکاسٹ کے احساس جرم کو بطور ہتھیار استعمال کر کے ان حکومتوں کو اسرائیل کی غیر مشروط حمایت پر مجبور کیا جاتا ہے۔ میڈیا، اکیڈمیا، اور مالیاتی اداروں میں صیہونیوں کی موجودگی اس اثر کو مزید گہرا کرتی ہے۔
صیہونی لابی کا سب سے مؤثر ہتھیار عالمی میڈیا ہے۔ CNN، BBC، Fox News، New York Times، Washington Post
اور دیگر بڑے ادارے فلسطینی بیانیے کو دبانے اور اسرائیلی مظالم کو چھپانے میں پیش پیش رہتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر فلسطینیوں کی آواز کو دبانا، اکاؤنٹس بند کرنا، اور پوسٹس ڈیلیٹ کرنا معمول بن چکا ہے۔
جب بھی غزہ پر بمباری ہوتی ہے، تو اسے "دفاعی کارروائی" کہہ کر پیش کیا جاتا ہے، اور جب فلسطینی مزاحمت کرتے ہیں، تو اسے "دہشت گردی" کہا جاتا ہے۔ یہی صیہونی پروپیگنڈہ ہے جو دنیا کو حقیقت سے دور رکھتا ہے۔
بینکاری، وال اسٹریٹ، اور عالمی مالیاتی ادارے جیسے IMF اور World Bank
پر صیہونی اثرات کوئی راز نہیں۔ مشہور صیہونی بینکار خاندان، جیسے
Rothschilds
، کئی صدیوں سے یورپ اور امریکہ کی معیشت پر اثر انداز رہے ہیں۔ اسرائیل کو ہر سال اربوں ڈالر کی امداد صرف اسی مالیاتی دباؤ کی بدولت ملتی ہے۔
اقوام متحدہ میں اسرائیل کے خلاف متعدد قراردادیں منظور ہوئیں، مگر عملی اقدامات شاذ و نادر ہی دیکھنے میں آتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکہ جیسے ویٹو پاور رکھنے والے ممالک اسرائیل کے محافظ کے طور پر کھڑے ہوتے ہیں۔ یہی صیہونی لابی کا کمال ہے کہ وہ انسانی حقوق کی تنظیموں کو بھی مخصوص دائرے میں محدود رکھتی ہے۔
صیہونی لابی صرف ایک قوم یا ریاست کی بقا کی جنگ نہیں لڑ رہی، بلکہ ایک ایسے عالمی نظام کی تشکیل چاہتی ہے جو صرف اسرائیلی مفادات کے گرد گھومے۔ یہ لابی آزادی اظہار، انسانی حقوق، اور جمہوریت جیسے نعروں کو اپنے ایجنڈے کے لیے استعمال کرتی ہے۔

وہ جو چیخ نہ سکے، مر گئے




عنوان: غزہ میں بھوک، پیاس اور دوا کی کمی سے مرتے بچے اور انسانیت کا سویا ہوا ضمیر

دنیا کی جدید ترین ٹیکنالوجی، انسان کے چاند اور مریخ پر پہنچنے کے دعوے، اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر، اور عالمی عدالتِ انصاف کے موجود ہونے کے باوجود اگر کہیں بچے بھوک، پیاس اور دوا کی کمی سے مر رہے ہوں، تو یہ پوری انسانیت کے لیے سوالیہ نشان ہے۔ غزہ، جہاں کے بچوں کے پیٹ میں نوالہ نہیں، زخموں پر مرہم نہیں اور پیاس بجھانے کے لیے پانی تک نہیں، وہاں انسانی زندگی کی تذلیل نے انسانیت کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کے بجائے سلادیا ہے۔

غزہ پٹی کو اکثر "دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل" کہا جاتا ہے۔ ایک طرف اسرائیلی ناکہ بندی، دوسری طرف مصر کی سرحدی بندش، اور تیسری طرف خاموش عالمی برادری۔ یہاں کی آبادی کا 50 فیصد سے زیادہ حصہ بچے ہیں، جن کے لیے تعلیم، غذا، دوا اور صاف پانی جیسی بنیادی ضروریات خواب بن چکی ہیں۔

اقوامِ متحدہ کے ادارے UNICEF اور WHO
 کی رپورٹس کے مطابق
2024
 کے اختتام تک غزہ کے 95 فیصد پانی کے ذرائع آلودہ ہو چکے تھے۔
غذائی قلت کی وجہ سے ہر دوسرا بچہ جسمانی اور دماغی طور پر متاثر ہو رہا ہے۔
طبی سہولیات کی تباہی نے زچگی، بچوں کی ویکسینیشن اور عام بیماریوں کے علاج کو ناممکن بنا دیا ہے۔

بھوک، پیاس اور دوا کی قلت سے مرنے والے بچے نہ تو کسی جنگی محاذ پر ہیں، نہ انہوں نے کسی گناہ کا ارتکاب کیا ہے۔ ان کا جرم صرف یہ ہے کہ وہ فلسطینی ماں کے بطن سے پیدا ہوئے، ایک ایسی سرزمین پر جہاں زمین سے زیادہ قبرستان آباد ہو چکے ہیں۔ اسرائیلی افواج کی جانب سے اسپتالوں، ایمبولینسوں اور طبی مراکز کو نشانہ بنانا کسی حادثے کا نتیجہ نہیں، بلکہ ایک منظم نسل کشی کی کوشش ہے۔ خوراک کی ترسیل کو روکا گیا، فلاحی اداروں کے قافلوں پر حملے کیے گئے، اور بجلی و ایندھن کی بندش نے اسپتالوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔

غزہ میں دوا نہ ہونا صرف بیماریوں کا نہ علاج ہونا نہیں، بلکہ موت کی باقاعدہ اجازت ہے۔ نیو بارن یونٹ میں آکسیجن ختم ہو جائے تو وہ نومولود جو ماں کی آغوش میں کھیلنے سے پہلے دنیا کو الوداع کہہ دے، وہ انسانیت کے منہ پر طمانچہ ہے۔ کینسر، گردے کی بیماری، شوگر، ہارٹ اور دیگر لاعلاج مریض دم توڑ رہے ہیں، کیونکہ یا تو دوا نہیں، یا ڈاکٹر مار دیے گئے۔

جب ایک بچہ بھوک سے بلک بلک کر دم توڑتا ہے اور دنیا صرف سوشل میڈیا پر تصویریں شیئر کر کے جذباتی ہو کر خاموش ہو جاتی ہے، تو یہ ضمیر کی نیند کی دلیل ہے۔ اقوامِ متحدہ، عالمی عدالتِ انصاف، انسانی حقوق کی تنظیمیں اور اسلامی دنیا کی حکومتیں، سب کے سب صرف مذمتی بیانات سے آگے نہیں بڑھے۔ انسانیت کے علمبردار ممالک نے اس ظلم کے خلاف نہ تو کوئی ٹھوس اقدام اٹھایا اور نہ ہی اسرائیل پر کوئی پابندیاں لگائیں۔
"جو ظلم کو دیکھ کر خاموش رہے، وہ بھی ظالم کے جرم میں شریک ہوتا ہے۔"

غزہ کا یہ ظلم آنے والی نسلوں کے لیے انسانی تاریخ کا سیاہ ترین باب ہوگا۔ یہ وہ وقت ہے جب دنیا دو طبقوں میں بٹ گئی ہے: ایک وہ جو ظالم کے ساتھ ہے، اور دوسرا وہ جو مظلوم کا ساتھ دینے کی جرات نہیں رکھتا۔ تیسرا طبقہ، جو واقعی بیدار اور باعمل ہے، نہایت کمزور اور بےاثر بنا دیا گیا ہے۔

"وہ جو چیخ نہ سکے، مر گئے
ہم جو سن نہ سکے، زندہ ہیں؟"


اتوار، 27 جولائی، 2025

تابوتِ سکینہ



تابوتِ سکینہ
(Ark of the Covenant)
تینوں آسمانی مذاہب — یہودیت، عیسائیت، اور اسلام — میں ایک نہایت محترم اور پراسرار شے سمجھا جاتا ہے۔ یہ صرف ایک صندوق نہیں، بلکہ ایک روحانی علامت، مذہبی میراث، اور الٰہی طاقت کی نشانی تھا جسے بنی اسرائیل کی روایات کے مطابق ، انھوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کے جانشینوں کے دور میں خدا کے حکم سے محفوظ کیا تھا۔
لیکن تابوتِ سکینہ کہاں ہے؟ کیا یہ حقیقتاً موجود تھا؟ اگر تھا، تو اب کہاں غائب ہے؟ ان سوالات نے صدیوں سے محققین، مؤرخین، مہم جوؤں، اور مذہبی عقائد کے ماننے والوں کو متجسس رکھا ہے۔
تابوتِ سکینہ کیا تھا؟
تابوتِ سکینہ ایک مقدس لکڑی کا صندوق تھا جو تقریباً ساڑھے تین فٹ لمبا، ڈھائی فٹ چوڑا اور ڈھائی فٹ اونچا تھا، اور خالص سونے سے منقش تھا۔ تورات کے مطابق، اس میں درجِ ذیل مقدس اشیاء رکھی گئی تھیں
الواحِ موسوی (تختیاں جن پر دس احکام درج تھے) ، حضرت ہارونؑ کا عصا
منّ و سلویٰ کا نمونہ، کچھ دیگر مقدس یادگاریں
یہودی عقیدے کے مطابق، تابوت سکینہ میں خدا کی موجودگی کا عکس تھا، اور جب بنی اسرائیل کسی جنگ پر جاتے تو وہ اسے آگے لے کر چلتے، اور یہی ان کے لیے فتح کی علامت ہوتا۔
قرآنِ کریم میں تابوتِ سکینہ کا ذکر سورہ البقرہ، آیت 248 میں موجود ہے:
"اور ان کے نبی نے ان سے کہا: اس کی بادشاہی کی نشانی یہ ہے کہ تمہارے پاس تابوت آئے گا جس میں تمہارے رب کی طرف سے سکون و اطمینان اور کچھ باقی ماندہ چیزیں ہوں گی جو آلِ موسیٰ اور آلِ ہارون نے چھوڑیں، اور اسے فرشتے اٹھائے ہوں گے۔"
اس آیت کے مطابق، تابوت سکینہ صرف مادی صندوق نہیں بلکہ روحانی سکون اور ربانی تسکین کا مرکز بھی تھا، اور یہ حضرت طالوت علیہ السلام کی بادشاہی کی علامت بنا۔
تابوت سکینہ کا آخری مصدقہ تاریخی ذکر تقریباً 586 قبل مسیح میں آتا ہے، جب بابل کے بادشاہ نبوکدنضر نے یروشلم پر حملہ کیا اور ہیکلِ سلیمانی کو تباہ کر دیا۔ اس کے بعد یہ صندوق اچانک تاریخ سے غائب ہو گیا۔
مورخین کے مطابق، تابوت:
تباہ کر دیا گیا،
چھپا دیا گیا
فرشتوں کے ذریعے آسمان پر اٹھا لیا گیا
بحرِ مردار یا غاروں میں دفن کر دیا گیا
تاہم ان میں سے کوئی نظریہ قطعی ثبوت کے ساتھ ثابت نہیں ہو سکا۔
تابوت سکینہ کی تلاش: جدید کوششیں اور نظریات
تابوتِ سکینہ کو تلاش کرنے کی کوششیں آج بھی جاری ہیں، جن میں مذہبی علماء، آثارِ قدیمہ کے ماہرین، حتیٰ کہ خفیہ ایجنسیاں اور مغربی صیہونی تنظیمیں بھی شامل ہیں۔ چند مشہور نظریات درج ذیل ہیں:
ایتھوپیا کا دعویٰ:
ایتھوپیا کی ایک قدیم چرچ کا دعویٰ ہے کہ تابوت ان کے پاس ہے اور اسے "آکسوم" (Axum)
شہر میں انتہائی حفاظت سے رکھا گیا ہے، لیکن کسی کو دیکھنے کی اجازت نہیں۔
بحرِ مردار کے غار:
کچھ محققین کا خیال ہے کہ تابوت کو بنی اسرائیل کے کچھ نیک افراد نے بحرِ مردار
(Dead Sea)
کے قریبی غاروں میں چھپا دیا۔
یہودا کے پہاڑ:
کچھ اسرائیلی مؤرخین کا دعویٰ ہے کہ تابوت ہیکل کے نیچے تہہ خانوں میں دفن ہے، اور اسی بنیاد پر وہ مسجد اقصیٰ کے نیچے کھدائیاں کر رہے ہیں۔
آسمانی مقام:
اسلامی روایات میں بھی ایک رائے یہ ہے کہ تابوت کو فرشتے اٹھا لے گئے اور وہ قیامت سے پہلے واپس آئے گا۔
تابوتِ سکینہ اور جدید سیاست
تابوتِ سکینہ اب صرف ایک مذہبی یا تاریخی معاملہ نہیں رہا، بلکہ یہ صیہونی سیاست کا ایک کلیدی عنصر بن چکا ہے۔ بعض یہودی تنظیمیں تابوت کو مسجد اقصیٰ کے نیچے موجود مانتی ہیں، اور اسی بنیاد پر الاقصیٰ کو شہید کر کے ہیکلِ سلیمانی کی تعمیر کی کوشش کی جا رہی ہے۔
یہ ایک نہایت خطرناک تصور ہے کیونکہ مسجد اقصیٰ کا مقام مسلمانوں کے لیے مکہ اور مدینہ کے بعد تیسرا مقدس ترین مقام ہے، اور اس کے خلاف کوئی بھی کارروائی پوری امت مسلمہ کے جذبات کو بھڑکا سکتی ہے۔
تابوتِ سکینہ تاریخ، عقیدہ اور روحانیت کا ایک نادر امتزاج ہے۔ اس کی حقیقت کے بارے میں آج بھی مکمل یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا، لیکن اس پر عقیدے کی شدت اور سیاسی مقاصد کی آمیزش نے اسے ایک پرخطر بحث بنا دیا ہے۔

نیتن یاہو کے بارے میں پیشگوئیاں





 نیتن یاہو کے بارے میں یہودی، مسیحی اور سیاسی پیشگوئیاں

نیتن یاہو، اسرائیل کی سیاست کا سب سے نمایاں اور متنازع ترین کردار، صرف ایک سیاستدان نہیں بلکہ ایک خاص "صیہونی ایجنڈے" کی علامت بھی بن چکا ہے۔ بعض یہودی انتہاپسند، عیسائی ایوینجلسٹ اور سیاسی مبصرین اسے آخری زمانے کی پیشگوئیوں سے منسلک کرتے ہیں۔ یہ مضمون انہی دعووں کا تحقیقی جائزہ پیش کرتا ہے،
یہودی روایات میں نیتن یاہو کا مقام: یہودی عقائد میں "مشیح" (Messiah)
کے ظہور کی دو بڑی اقسام بیان کی گئی ہیں: i. مشیح بن یوسف (Mashiach ben Yosef): جس کے متعلق توراتی روایات میں ہے کہ وہ بنی اسرائیل کے دشمنوں کے خلاف جنگ کرے گا اور شہید ہوگا۔ اس کا ذکر تلمود میں آتا ہے:
"The Messiah son of Joseph will come first, fight the wars of the Lord, and die in battle"
بعض شدت پسند یہودی حلقے نیتن یاہو کو اسی مشیح بن یوسف کے طور پر دیکھتے ہیں جو ہیکل کی دوبارہ تعمیر اور دجالی دور کی راہ ہموار کرے گا۔
ii. یہودی تنظیم “Temple Institute” کا مؤقف: Temple Institute نے 2018 میں دعویٰ کیا کہ وہ ہیکلِ سلیمانی کی تعمیر کے لیے "تیار" ہیں، اور ان کے مطابق نیتن یاہو جیسے مضبوط لیڈر اس منصوبے کو عملی جامہ پہنا سکتے ہیں۔
عیسائی ایوینجلسٹ پیشگوئیاں: ایوینجلسٹ عیسائی عقیدہ رکھتے ہیں کہ
اسرائیل کی مضبوطی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی واپسی کی علامت ہے۔
تیسرا ہیکل (Third Temple)
کی تعمیر لازمی ہے۔
نیتن یاہو اس راہ کے "منتخب رہنما" ہیں۔
حوالہ:
پادری John Hagee ، جو "Christians United for Israel" کے بانی ہیں، نے کہا: "Netanyahu is fulfilling biblical prophecy — he is God's chosen defender of Israel before the Messiah comes again."
(Source: CUFI Annual Conference, 2019)
دیگر پیشگوئیاں:
ایوینجلسٹ مصنف Hal Lindsey نے اپنی کتاب The Late Great Planet Earth (1970)
میں دعویٰ کیا کہ: "The reestablishment of Israel and the leadership of bold men will lead to Armageddon."
یہ دعویٰ نیتن یاہو کی موجودگی سے جوڑا جا رہا ہے۔
نیتن یاہو اور “Greater Israel” کا نظریہ:
نیتن یاہو کے بیانات میں بارہا یہودا اور سامریہ (West Bank) کو اسرائیل کا ابدی حصہ قرار دیا گیا ہے۔
"We will never uproot another settlement. It is time to apply Israeli sovereignty."
(Netanyahu speech, Ma'ale Adumim, 2017)
Thomas Friedman (NYT columnist)
لکھتے ہیں:
“Netanyahu is not merely a political leader — he’s a messianic nationalist.”
(NYT, March 2019)
سیاسی مقاصد:
ایران کا مقابلہ
عرب ممالک سے تعلقات (Abraham Accords)
مسجد اقصیٰ پر قبضہ کی راہ ہموار کرنا
اسلامی نقطۂ نظر اور نیتن یاہو: اسلامی تعلیمات میں نیتن یاہو جیسے کرداروں کو باطل کے سپاہی اور دجال کے ایجنڈے کے کارندے کہا گیا ہے:
قرآن سے استدلال: "وَلَا يَزَالُونَ يُقَاتِلُونَكُمْ حَتّىٰ يَرُدُّوكُمْ عَن دِينِكُمْ إِنِ اسْتَطَاعُوا"
(البقرہ: 217)
"یہ لوگ تم سے ہمیشہ لڑتے رہیں گے تاکہ تمہیں تمہارے دین سے پھیر دیں اگر وہ ایسا کر سکیں۔"
علامہ اقبال کی پیشگوئی: "یہودی دماغ، عیسائی تلوار، اور ہنڈی زبان کا امتزاج دنیا کی سب سے خطرناک سازش ہے۔"
(اقبال نامہ، حصہ دوم)
5. نیتن یاہو کا مستقبل اور عالمی تباہی کا خطرہ: نیتن یاہو کے ادوارِ حکومت:
1996–1999, 2009–2021 , 2022 تا حال
بار بار اقتدار میں واپس آنا نیتن یاہو کی ذاتی تشہیر کرنے والے اس کو ما فوق الفطرت واقعہ قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں۔
اسرائیلی تجزیہ نگار Ben Caspit لکھتے ہیں:
"Netanyahu is addicted to power because he believes he has a divine mission."
(Book: The Netanyahu Years, 2017)
نیتن یاہو کی ذاتی تشہیر کرنے والے ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ :
نیتن یاہو محض ایک سیاسی شخصیت نہیں بلکہ یہودی پیشگوئیوں کا ممکنہ کردار، عیسائی ایوینجلسٹ عقائد کا مرکز ، صیہونی منصوبوں کا ترجمان ہے
جبکہ دنیا بھر کے لوگوں کا ماننا ہے کہ نیتن یاہو باطل نظام کا نمائندہ بن چکا ہے۔ دنیا بھر کے مذہبی علماء ، سیاسی پنڈت ، تاریخ دان اور حالات حاضرہ پر نظر رکھنے والے بتاتے ہیں کہ ایک طرف پروپیگنڈہ کی بھرمار ہے اور دوسری طرف مکافات عمل کی دنیا ہے ۔ فلسطین سے باہر پیدا ہونے والے ، اپنی اصلی شناخت کو چھپا کر نیتن یاہو کا نام استعمال کرنے والے ، معصوم بچوں کے قاتل ، مظلوموں کا پانی اور خوراک بند کرنے والے ، اور سر عام قانون کی دھجیاں آڑانے والے کا انجام دنیا کے سامنے آنے والے ہے ۔ چراغ سحر کی لو بجھنے سے پہلے زیادہ ہو جاتی ہے ۔ بیمار موت سے فوری پہلے تندرست ہو جاتا ہے ۔ اور ظالم انجام سے قبل ظلم کی انتہاوں کو چھونے کی کوشش کرتا ہے ۔ یہی تاریخ کا سبق ہے اور یہی دیوار بخت پر تحریر ہے ۔

اسرائیل کی تباہی کی پیشگوئیاں





اسرائیل کے قیام کے ساتھ ہی دنیا کے مختلف مذہبی، سیاسی اور فکری حلقوں میں اس کے انجام کے بارے میں بحث شروع ہو گئی۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا اسرائیل کا وجود دائمی ہے یا اس کے زوال اور تباہی کے متعلق کچھ پیشگوئیاں موجود ہیں؟ کیا مذہبی کتب، اسلامی احادیث، اور عالمی واقعات کی روشنی میں اسرائیل کے انجام کا کوئی خاکہ موجود ہے؟ اس تحقیقی مضمون میں ان تمام پہلوؤں کا غیر جانبدارانہ اور جامع جائزہ لیا گیا ہے۔
 اسلامی پیشگوئیاں اور احادیث
 قرآنِ کریم میں بنی اسرائیل کا انجام
سورۃ بنی اسرائیل (الاسراء) آیت 4-7:
"ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب میں خبردار کر دیا تھا کہ تم زمین میں دو بار فساد برپا کرو گے اور بہت بڑی سرکشی کرو گے۔"
علمائے تفسیر کے مطابق
پہلی مرتبہ فساد: حضرت داؤدؑ اور سلیمانؑ کے بعد، ان کی نافرمانیوں کی صورت میں۔
دوسری مرتبہ فساد: قیامت کے قریب، جب وہ فلسطین میں دوبارہ اکٹھے ہوں گے۔
قرآن ان دونوں فسادات کے بعد سزا اور تباہی کا ذکر کرتا ہے۔
 حدیثِ نبویﷺ: "یہودیوں کے خلاف آخری جنگ"
مشہور حدیث
"قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک مسلمان یہودیوں سے نہ لڑیں۔ مسلمان یہودی کو قتل کرے گا، یہاں تک کہ یہودی درخت یا پتھر کے پیچھے چھپے گا، اور وہ درخت یا پتھر کہے گا: اے مسلمان! اے عبداللہ! یہ یہودی میرے پیچھے چھپا ہے، آ کر اسے قتل کر."
— (صحیح مسلم: 2922)
یہ حدیث اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ یہود کا زوال ایک فیصلہ کن جنگ کے ذریعے ہوگا، اور مسلمان اس جنگ میں کامیاب ہوں گے۔ کئی مفسرین اس کو فلسطین میں آخری معرکے (ملحمہ) سے جوڑتے ہیں۔
 یہودی روایات میں اسرائیل کا زوال
یہودیوں کی اپنی کتابوں میں بھی اسرائیل کے زوال کے اشارے ملتے ہیں
تلمود اور زہوَر (Kabbalistic کتابیں) 
میں بیان ہے کہ
"اگر بنی اسرائیل خدا کے احکام سے روگردانی کریں گے، تو سرزمین انہیں قید و تباہی کا مزہ چکھائے گی۔"
کچھ یہودی علما، خاص طور پر نتورے کارتا
 (Neturei Karta)
 جیسے گروہ، اسرائیل کے قیام کو "الہی لعنت" قرار دیتے ہیں کیونکہ ان کے مطابق:
"بغیر مسیح
 (Messiah)
 کی آمد کے اسرائیل کا قیام خدا کی نافرمانی ہے۔"
 عیسائی پیشگوئیاں اور ایوانجیلیکل نظریہ
کچھ عیسائی فرقے، خاص طور پر
 Evangelicals
، مانتے ہیں کہ
اسرائیل کا قیام آخری زمانے کی ایک "علامت" ہے۔
وہ سمجھتے ہیں کہ اسرائیل کو قائم ہونا ہے تاکہ آخرکار دجال کا خروج ہو، اور پھر حضرت عیسیٰؑ واپس آ کر دجال کو شکست دیں۔
اس نظریے کے مطابق اسرائیل کی تباہی حضرت عیسیٰؑ کی آمد ثانی کے بعد ہو گی۔
 صیہونی منصوبہ اور خود اسرائیلی تشویش
صیہونی خود جانتے ہیں کہ اسرائیل کا قیام مصنوعی، غیر فطری اور مسلسل خطرات سے گھرا ہوا ہے۔
اسرائیلی ماہرین خود کہتے ہیں کہ
"اگر اسرائیل اگلی 50 سالوں تک عالمی طاقتوں کی مدد کے بغیر زندہ رہتا ہے، تو یہ ایک معجزہ ہو گا۔"
اسرائیلی دانشور یُوال نواح حراری 
(Yuval Noah Harari)
 کا قول
"اسرائیل کی بقا صرف طاقت پر ہے، جیسے ہی یہ طاقت کمزور ہو گی، وجود بھی خطرے میں ہو گا۔"
 عالمی جغرافیائی حقائق اور اسرائیل کی ناپائیداری
اسرائیل جغرافیائی لحاظ سے نہایت محدود، محصور اور دشمنوں سے گھرا ہوا ہے۔
اس کی داخلی آبادی میں مذہبی، لبرل، روسی، افریقی، اور عرب یہودیوں کے درمیان شدید اختلافات ہیں۔
فلسطینی مزاحمت، ایران، حزب اللہ، اور دیگر مزاحمتی تحریکیں اسرائیل کے وجود کو ہر وقت چیلنج کرتی ہیں۔
حالیہ عالمی رجحانات اور اسرائیل کا زوال
عالمی سطح پر اسرائیل کی مخالفت بڑھ رہی ہے 
(BDS Movement
یورپ میں احتجاج، اقوام متحدہ کی رپورٹس)۔
نوجوان یہودی بھی اسرائیل کی پالیسیوں سے متنفر ہو رہے ہیں۔
امریکی حمایت کمزور ہو رہی ہے، اور مستقبل میں اسرائیل کو تنہا کیے جانے کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔
نتیجہ: کیا اسرائیل کا زوال یقینی ہے؟
 اسلامی نکتہ نظر سے:
اسرائیل کا انجام تباہی ہے، جیسا کہ قرآن اور احادیث میں ذکر ہے۔
 یہودی مذہبی نکتہ نظر سے:
بغیر مسیح کے قیام کو لعنت سمجھا جاتا ہے، اور زوال کا اندیشہ موجود ہے۔
 عالمی سیاسی منظرنامے سے
اسرائیل ایک ناپائیدار ریاست ہے جو عسکری قوت اور بیرونی امداد پر قائم ہے — جیسے ہی یہ سہارے چھنے، زوال قریب ہو گا۔
مسلمانوں کو جذبات سے ہٹ کر علم، اتحاد، سفارت، میڈیا اور عسکری سطح پر بیداری لانا ہو گی۔ اسرائیل کا زوال دعاؤں اور انتظار سے نہیں، بلکہ دانائی اور حکمت پر مبنی جدوجہد سے ممکن ہے۔ کیونکہ اللہ کی سنت یہ ہے:
"إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّىٰ يُغَيِّرُوا مَا بِأَنفُسِهِمْ"
(الرعد: 11)