جمعہ، 25 جولائی، 2025

اپنے آپ سے محبت کرنا سیکھیں۔

اپنے آپ سے محبت کرنا سیکھیں۔
ہم ایک ایسے دور میں زندہ ہیں جہاں انسانی صحت کے لیے سب سے بڑا خطرہ نہ بھوک ہے، نہ بیماری — بلکہ مایوسی ہے۔ یہ مایوسی محض ذاتی کیفیت نہیں رہی، بلکہ ایک اجتماعی وائرس بن چکی ہے، جو ہماری سوچوں، رویوں، سوشل میڈیا اور یہاں تک کہ عبادات تک میں در آیا ہے۔ افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ اس بیماری کے پھیلاؤ میں سب سے بڑا کردار وہ لوگ ادا کر رہے ہیں جو خود کو فکری رہنما یا روحانی انسان سمجھتے ہیں۔
روحانی زندگی میں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو بظاہر زہد و تقویٰ کی علامت بنے بیٹھے ہوتے ہیں، مگر درحقیقت وہ اپنی زندگی سے بدظن ہو چکے ہوتے ہیں۔ نہ اچھا لباس پہنتے ہیں، نہ صحت مند کھانا کھاتے ہیں، نہ صفائی ستھرائی کا خیال رکھتے ہیں، اور نہ ہی اپنے چہرے پر زندگی کی کوئی رمق باقی رکھتے ہیں۔ ایسے لوگ نہ صرف خود اندر سے خالی ہو چکے ہوتے ہیں، بلکہ دوسروں کو بھی جینے کا حوصلہ چھین لیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں نا:
"مایوسی ایک ایسی آگ ہے جو صرف جلانے والے کو نہیں، آس پاس کے سب کو جلا دیتی ہے۔"
یہ لوگ نہ صرف حقیقی زندگی میں، بلکہ سوشل میڈیا پر بھی نظر آتے ہیں۔ ان کی وال پر جائیں تو ہر پوسٹ میں ایک ہی راگ ہوتا ہے:
دنیا تباہ ہو چکی ہے، مسلمان ناکام ہو چکے ہیں، سب کچھ برباد ہو چکا ہے، اگر فلاں یوں کر لیتا تو یوں ہو جاتا، اگر 57 ملک مل کر خلافت قائم کر لیں تو… اگر فلاں پارٹی اقتدار میں آ جائے تو انقلاب آ جائے… وغیرہ وغیرہ۔
یاد رکھیے!
"اگر" کے سہارے جینے والے ہمیشہ "کاش" کے دکھ میں مرتے ہیں۔
یہی وہ لوگ ہوتے ہیں جو خود کوئی عمل نہیں کرتے اور دوسروں کو بھی عمل سے روکتے ہیں۔ علامہ اقبال نے ایسے ہی لوگوں کو نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا:
"باقی نہیں ہے بندۂ حر مست"
یعنی وہ انسان جو جوشِ عمل کھو بیٹھا ہو، وہ حقیقتاً مردہ ہے، چاہے جسمانی طور پر زندہ ہو۔
ایسے میں سب سے پہلی ذمہ داری آپ کی اپنی ذات ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ زندگی میں بہتری آئے تو سب سے پہلے اپنے آپ سے محبت کرنا سیکھیں۔
صاف ستھرا لباس پہنیں، متوازن غذا کھائیں، جسم کی صفائی کا خاص خیال رکھیں، خوشبو لگائیں، خوش اخلاقی اپنائیں۔
یہ سب چیزیں نہ صرف ظاہری خوبصورتی میں اضافہ کرتی ہیں بلکہ باطنی سکون، خود اعتمادی اور روحانی تازگی کا باعث بھی بنتی ہیں۔
دوسری بات یہ کہ اپنے اردگرد ایسے لوگوں کو تلاش کریں جو زندگی کے پیامبر ہوں۔ وہ جو ہر وقت ماضی کے زخموں کو کریدنے کے بجائے حال کو سنوارنے اور مستقبل کو روشن کرنے کی بات کریں۔
سوشل میڈیا پر بھی صرف اُن صفحات اور افراد کو فالو کریں جو آپ کو آگے بڑھنے، مثبت سوچنے، اور جینے کا حوصلہ دیں۔
جو صرف ماضی کے جھگڑوں، فرقہ واریت، سیاسی نفرت یا عالمی سازشوں کی دہائی دیتے ہوں، ان سے ایسے دور ہو جائیں جیسے کوا غلیل سے بھاگتا ہے۔
ایک خوبصورت قول ہے:
"Man is known by the company he keeps"
اور اسی طرح یہ بھی سچ ہے کہ:
"زندگی اُن کے ساتھ بسر کریں جو آپ کو جینا سکھائیں، مرنے کا نہیں"
لہٰذا، فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے:
آپ زندگی کے سفیر بننا چاہتے ہیں یا مایوسی کے سوداگر؟
آپ وہ چراغ بننا چاہتے ہیں جو روشنی پھیلاتا ہے یا وہ سایہ جو ہر روشنی کو نگل جاتا ہے؟
یاد رکھیں،
جو وقت کی قدر نہیں کرتا، وقت اُسے مٹی میں ملا دیتا ہے۔
زندہ رہنے کا سلیقہ اپنائیے، اپنی ذات سے محبت کیجیے، اور دوسروں کو بھی جینے کا حوصلہ دیجیے۔


نیتن یاہو کی بربریت اور مغرب کی منافقت





 نیتن یاہو کی بربریت اور مغرب کی منافقت

غزہ کی گلیوں میں بھوک سے بلکتے بچے، ملبے تلے دبے لاشے، ماں کے رحم میں پلتی ہوئی زندگی تک کو دہشت گرد قرار دے کر مار دیے جانے والے مناظر، دنیا کے سامنے کسی فلمی منظر کی طرح بار بار پیش کیے جا رہے ہیں — مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ دنیا خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے۔

یہ صرف جنگ نہیں، یہ نسل کشی ہے۔ ایک ایسی منظم مہم، جسے نیتن یاہو جیسے ظالم سیاسی رہنما نے انسانیت کے خلاف آغاز کیا، اور امریکہ، جرمنی جیسے مہذب کہلانے والے ممالک نے اس کی سرپرستی کی۔

جس فلسطینی کا گھر چھینا گیا، جس کی مسجد شہید ہوئی، جس کی ماں، بہن، بیٹی کا جنازہ اس کے کندھوں پر اٹھا، وہ اگر آواز اٹھائے تو "دہشت گرد"۔ اور جو بندوق اٹھا کر اس کا سب کچھ چھینے، وہ مغرب کا "محافظ"؟

نیتن یاہو نے جس دیدہ دلیری سے غزہ پر بمباری کی، اسپتالوں، اسکولوں، پناہ گاہوں تک کو نہ بخشا، وہ کسی نفسیاتی بیماری نہیں بلکہ ایک نظریاتی ظلم کا عکاس ہے۔ ان کے نزدیک فلسطینی، انسان نہیں — صرف "دہشت گرد" ہیں، اور ان کا قتل "دفاع" کے زمرے میں آتا ہے۔

آج کا غزہ ایک کھلی جیل ہے۔ خوراک، پانی، بجلی، ادویات، سب کچھ بند۔ حاملہ خواتین بے علاج، معذور بچے بے آسرا، مگر اسرائیل کی جارحیت پر دنیا خاموش۔ اور یہ خاموشی کسی لاچاری کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک دانستہ خاموشی ہے — ایک مجرمانہ خاموشی۔

امریکہ ہر سال اربوں ڈالر کی فوجی امداد اسرائیل کو دیتا ہے۔ جرمنی اسرائیل کو ہتھیار فراہم کرتا ہے۔ اقوامِ متحدہ میں فلسطین کے حق میں آنے والی ہر قرارداد کو امریکہ ویٹو کرتا ہے۔ اور یہی وہ منافقت ہے جس نے انسانی حقوق کی علمبرداری کے دعوے کو محض ایک نعرہ بنا دیا ہے۔

دنیا میں انصاف کا پیمانہ بھی مذہب، نسل، اور مفاد کے تابع ہو چکا ہے۔ اگر ایک اسرائیلی فوجی مارا جائے تو پوری دنیا ہل جاتی ہے، مگر جب سیکڑوں فلسطینی بچے ایک دن میں دفن کیے جائیں تو عالمی میڈیا اسے "collateral damage"
 کہہ کر گزار دیتا ہے۔

اسلامی دنیا بھی اس ظلم پر ندامت کے سوا کچھ نہ کر سکی۔ بیان بازی، قراردادیں، اور "شدید مذمت" سے آگے نہ بڑھ سکی۔ کئی مسلم حکمران اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کر چکے ہیں، اور کچھ اس کے لیے راہ ہموار کر رہے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ اگر آج ہم نے اس ظلم کے خلاف آواز نہ اٹھائی، تو کل تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔ فلسطینی اپنے گھر، اپنی زمین، اپنے حق، اور اپنی عزت کے لیے لڑ رہے ہیں — اور اگر یہ جرم ہے، تو پھر انسانیت کا ہر اصول بے معنی ہو گیا۔

دنیا کو فیصلہ کرنا ہوگا: مظلوم کا ساتھ دینا ہے یا ظالم کی صف میں کھڑا ہونا ہے۔
خاموش رہنا اب جرم بن چکا ہے۔


جمعرات، 24 جولائی، 2025

کشمیر —پاکستان کی شاہ رگ




کشمیر — تین طرفہ تنازع اور عالمی امن کی آزمائش

کشمیر ایک بار پھر عالمی منظرنامے پر ابھر چکا ہے — ایک ایسا خطہ جو اب صرف پاکستان اور بھارت کا تنازعہ نہیں رہا، بلکہ چین کی شراکت اور عالمی طاقتوں کی مداخلت نے اسے کثیر الجہتی 
 بنا دیا ہے۔ مئی 2025 میں ہونے والی بھارت اور پاکستان کے درمیان مختصر مگر شدید جھڑپ نے اس حقیقت کو آشکار کر دیا ہے کہ جنوبی ایشیا کا امن محض دو ممالک کی مرضی سے مشروط نہیں رہا۔

پہلگام میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعے  کے بعد، بھارت نے  بغیر کسی ثبوت کے اس کا الزام پاکستان پر لگایا، اور سرحد پار کارروائیوں کا آغاز کیا۔ پاکستانی فوج نے جوابی کارروائی کی، اور چند دنوں میں دونوں جانب درجنوں فوجی اور سویلین جانیں ضائع ہو گئیں۔ عالمی برادری کی فوری مداخلت کے نتیجے میں عارضی جنگ بندی تو ہو گئی، مگر کشیدگی اب بھی فضا میں ہے۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ جو 2024 میں دوبارہ امریکہ کے صدر منتخب ہوئے، اس بار کشمیر کے مسئلے پر زیادہ واضح، متوازن اور امن پر مبنی موقف کے ساتھ سامنے آئے ہیں۔ ان کے مطابق:
“کشمیر اب صرف ایک سرحدی جھگڑا نہیں رہا، یہ دنیا کے دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان ایک خطرناک بارود کا ڈھیر ہے۔ میں دونوں فریقوں کو امن کی میز پر لانے کے لیے تیار ہوں۔”
ٹرمپ نے اقوامِ متحدہ کی زیرِ نگرانی امن مذاکرات کی تجویز بھی دی ہے اور چین، روس، یورپی یونین اور خلیجی ممالک سے کہا ہے کہ وہ اس عمل کو تقویت دیں۔

بھارت نے حسبِ روایت کشمیر کو داخلی معاملہ قرار دیتے ہوئے ٹرمپ کی پیشکش اور عالمی ثالثی کو مسترد کر دیا ہے۔ مگر اب حالات 2019 جیسے نہیں۔ دنیا اب دیکھ رہی ہے کہ:
بھارت جموں و کشمیر پر سخت کنٹرول رکھ کر بنیادی انسانی حقوق کو محدود کر رہا ہے۔
نئی دہلی کا رویہ نہ صرف پاکستان بلکہ چین کے ساتھ بھی کشیدگی کو بڑھا رہا ہے۔
سب سے اہم بات یہ کہ چین اب کشمیر تنازعے کا فعال فریق بن چکا ہے۔


لداخ اور اکسائی چن کے علاقوں میں چین کی فوجی موجودگی، اور چین-پاکستان اکنامک کاریڈور 
 کی کشمیر سے گزرنے والی راہداری نے چین کو عملاً ایک اسٹیک ہولڈر بنا دیا ہے۔ بھارت چاہے جتنا بھی انکار کرے، اب کشمیر پر چین کی جیو اسٹریٹیجک شمولیت ایک ناقابل تردید حقیقت ہے۔

چین نے ٹرمپ کی امن پیشکش کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ "کشمیر کا پرامن حل پورے ایشیا کے مفاد میں ہے"۔
پاکستان ٹرمپ کی ثالثی کی پیشکش کا حامی ہے، اور کئی بار اقوامِ متحدہ سے اپیل کر چکا ہے کہ کشمیر پر حقِ خود ارادیت کی قراردادوں پر عمل درآمد کرایا جائے۔

روس اور یورپی یونین نے بھی اس خطے میں امن کو عالمی استحکام سے جوڑتے ہوئے سفارتی مداخلت پر زور دیا ہے۔

گو کہ ٹرمپ کو اکثر ایک منفعت پسند سیاست دان سمجھا جاتا ہے، مگر کشمیر کے مسئلے پر ان کا حالیہ موقف ایک نئے چہرے کو ظاہر کرتا ہے — ایک ثالث، ایک مصلح۔ اگر وہ چین، روس، پاکستان اور یورپی یونین کو ساتھ لے کر بین الاقوامی امن کانفرنس منعقد کروا سکیں، تو نہ صرف کشمیر، بلکہ پورے جنوبی ایشیا میں ایک نئے سیاسی توازن کا آغاز ممکن ہے۔

بھارت کی انکاری پالیسی اب سفارتی تنہائی کا باعث بن رہی ہے۔ ایک طرف وہ کشمیر میں آزادی کی تحریک کو "دہشت گردی" قرار دیتا ہے، دوسری جانب چین کی فوجی پیش رفت، عالمی ثالثی کی اپیلیں اور مقامی کشمیریوں کے حقوق کا سوال اُس کے موقف کو غیرمتوازن بنا رہا ہے۔
اب وقت آ گیا ہے کہ بھارت حقیقت کا سامنا کرے:
کشمیر تین ممالک کے بیچ ایک تاریخی، جغرافیائی اور سیاسی حقیقت بن چکا ہے۔
عالمی برادری اب مزید خاموش تماشائی نہیں بن سکتی۔
اگر بھارت امن مذاکرات سے انکار کرتا رہا، تو کشمیر کا مسئلہ مزید بین الاقوامی رنگ اختیار کرے گا۔
کیا ٹرمپ واقعی امن کا دروازہ کھول سکتے ہیں؟ یا وہ بھی ماضی کی طرح صرف بیانات اور تصاویر تک محدود رہیں گے؟
فی الحال دنیا دیکھ رہی ہے، اور کشمیری انتظار کر رہے ہیں۔


منگل، 22 جولائی، 2025

بزدلی کی حکمتِ عملی





بزدلی کی حکمتِ عملی — موساد کے بیرونِ ملک خفیہ آپریشنز
 اسرائیل کی خفیہ ایجنسی "موساد" ایک ماہر اور طاقتور ادارہ تصور کی جاتی ہے، جس کے خفیہ آپریشنز کو مغربی میڈیا میں بہادری، ذہانت اور کامیابی کے استعارے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ موساد کے اکثر بیرونِ ملک کیے گئے آپریشنز  بزدلی، بدمعاشی اور عالمی قوانین کی صریح خلاف ورزی کا 
نمونہ ہیں۔

موساد کا سفارتی چہرہ
موساد نے دنیا کے مختلف ممالک میں درجنوں ایسے آپریشنز کیے ہیں جن میں اغواء، سیاسی مخالفین کا قتل، پاسپورٹس کی جعلسازی، خود ساختہ جھوٹے جواز اور غیر قانونی طریقوں سے شہریوں کو اٹھا کر اسرائیل لے جایا گیا۔ یہ تمام کارروائیاں اقوامِ متحدہ کے چارٹر اور انسانی حقوق کے بنیادی اصولوں کی کھلی خلاف ورزی ہیں۔
بیرونِ ملک اغواء کے مشہور واقعات
 ایڈولف آئخ مین کا اغواء (ارجنٹینا، 1960)
نازی جنگی مجرم ایڈولف آئخ مین کو موساد نے ارجنٹینا سے اغواء کر کے اسرائیل پہنچایا۔ اس کو پکڑنے کے لیے کسی قانونی یا سفارتی راستے کا انتخاب نہیں کیا گیا۔ اس کا اغواء، زبردستی منشیات دینا اور خفیہ پرواز کے ذریعے اسرائیل لانا ایک مثال بن گیا کہ موساد بین الاقوامی قوانین کو کیسے روندتا ہے۔

 مردخائی وانونو (اٹلی، 1986)
وانونو، اسرائیل کے نیوکلیئر راز فاش کرنے والا سابق سائنسدان، روم (اٹلی) میں ایک موساد ایجنٹ خاتون کے ذریعے پھنسا کر اغواء کیا گیا۔ اسے بے ہوش کر کے اسرائیل پہنچایا گیا جہاں اسے بغیر کسی کھلے ٹرائل کے قید کر دیا گیا۔

 فلسطینی مزاحمتی رہنما
موساد نے لبنان، تیونس، شام اور دیگر ممالک میں درجنوں فلسطینی سیاسی و عسکری رہنماؤں کو یا تو اغواء کیا یا قتل کر دیا۔ بعض اوقات ان افراد کا جرم صرف اسرائیلی پالیسیوں پر تنقید کرنا ہوتا تھا۔

 دبئی میں محمود المبحوح کا قتل (2010)
حماس کے رہنما محمود المبحوح کو دبئی کے ایک ہوٹل میں زہر دے کر قتل کیا گیا۔ موساد کے ایجنٹ جعلی آئرش، برطانوی اور آسٹریلوی پاسپورٹس استعمال کر کے داخل ہوئے اور واردات کے بعد فرار ہو گئے۔ یہ بین الاقوامی اعتماد اور سفارت کاری پر حملہ تھا۔

 ایرانی سائنسدانوں کا قتل
2010 
سے 2020 کے درمیان ایران کے متعدد نیوکلیئر سائنسدانوں کو مختلف طریقوں سے قتل کیا گیا — بم، ریموٹ کنٹرول ہتھیار، یا زہر۔ ان تمام کارروائیوں کے پیچھے موساد کا ہاتھ مانا جاتا ہے، اگرچہ اسرائیل نے کبھی تسلیم نہیں کیا۔

 امریکہ میں قتل کی منصوبہ بندی
2021
 میں امریکی خبر رساں ادارے 
Politico
 نے انکشاف کیا کہ اسرائیل نے ممکنہ طور پر ایرانی افراد کو امریکی سرزمین پر قتل کرنے کے منصوبے بنائے۔ یہ دعویٰ امریکہ جیسے قریبی اتحادی کے لیے نہ صرف شرمندگی کا باعث تھا بلکہ ثابت کرتا ہے کہ موساد کسی ملک کی خودمختاری کو خاطر میں نہیں لاتا۔

نفسیاتی جنگ، سائبر حملے، اور جعلی پرچار
موساد صرف جسمانی کارروائیوں تک محدود نہیں۔ 
Stuxnet
 جیسے سائبر وائرس کے ذریعے ایران کے نیوکلیئر سسٹم پر حملہ کیا گیا۔ اس کے علاوہ موساد آن لائن مہمات، کردار کشی، اور جھوٹی معلومات کے پھیلاؤ کے ذریعے اپنے ناقدین کو بدنام کرتا ہے۔ یہ وہ میدان ہے جہاں بزدلی ٹیکنالوجی کا لبادہ اوڑھ لیتی ہے۔

موساد —بزدلی کی علامت
دنیا کی کوئی بھی خفیہ ایجنسی اپنی ریاست کے دفاع کے لیے اقدامات کرتی ہے، مگر موساد کی کارکردگی دہشت گرد تنظیموں سے مشابہت رکھتی ہے۔ کسی کے بھی خلاف کارروائی کے لیے قانون، انصاف یا شفافیت کی کوئی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی — بس طاقت، سازش اور دھوکہ۔
موساد کی کارروائیاں  خوفزدہ ذہنیت کی عکاسی کرتی ہیں۔ وہ ذہنیت جو دشمن سے مکالمہ یا عدالت میں مقدمہ لڑنے کی بجائے پیچھے سے وار کرنا بہتر سمجھتی ہے۔

سازش کی راہ پر گامزن ملک
اسرائیلی حکومت موساد کی بزدلانہ حکمتِ عملی کی مکمل پشت پناہی کرتی ہے بین الاقوامی قوانین کا احترام کرنا تو دور کی بات ہے وہ قانون کو جوتے کی نوک پر رکھتی ہے اور دنیا کو سازشوں، اغواء، قتل اور نفسیاتی حملوں سے زیر کرنا چاہتی ہے جبکہ    انصاف، مکالمے اور سفارتی اخلاقیات سے اپنی بات منوانا اصل راہ ہے


اسرائیل ۔۔۔ الہامی پیشگوئی یا صیہونی منصوبہ؟




اسرائیل ۔۔۔ الہامی پیشگوئی  یا صیہونی منصوبہ؟


یہ سوال آج بھی مشرقِ وسطیٰ کی سیاست، مذہب اور عالمی ضمیر کو جھنجھوڑتا ہے: "کیا اسرائیل کا قیام کسی الہامی کتاب میں پیش گوئی کیا گیا تھا یا یہ صرف صیہونیت کا سیاسی منصوبہ ہے؟"
یہودی روایات، صیہونی بیانیہ اور اسلامی عقائد—تینوں اس سوال پر مختلف زاویہ نظر رکھتے ہیں، لیکن تاریخی شواہد اور دینی متون کا گہرا مطالعہ بتاتا ہے کہ حقیقت محض ایک مذہبی وعدے سے کہیں بڑھ کر ہے۔

تورات اور "سرزمین موعود" کا تصور
یہودیوں کی مذہبی کتاب "تورات" میں حضرت ابراہیم علیہ السلام سے منسوب ایک وعدے کا ذکر آتا ہے:
"اس روز خداوند نے ابرام (ابراہیم) سے عہد باندھا، کہ تیری نسل کو میں یہ زمین دیتا ہوں، مصر کی ندی سے لے کر عظیم دریا فرات تک۔"
صیہونی تحریک نے انہی آیات کو بنیاد بنا کر دعویٰ کیا کہ فلسطین ان کا "مقدس حق" ہے۔ لیکن یہ دعویٰ کئی حوالوں سے سوالات کی زد میں ہے۔

 مذہب کے  پردے میں سیاسی تحریک
صیہونیت ایک جدید سیاسی تحریک ہے جو 19ویں صدی کے آخر میں تھیوڈور ہرزل کی قیادت میں ابھری۔ ہرزل بذاتِ خود سیکولر یہودی تھا اور اس کا مقصد یہودیوں کے لیے ایک محفوظ قومی ریاست قائم کرنا تھا، نہ کہ کسی الہامی وعدے کو پورا کرنا۔
اس تحریک نے مذہب کو صرف ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا تاکہ یہ تاثر دیا جا سکے کہ اسرائیل کا قیام خدا کی مرضی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ خود کئی یہودی مذہبی گروہ — جیسے نیٹری کارتا — آج بھی اسرائیل کے قیام کو مذہبی طور پر ناجائز سمجھتے ہیں۔

قرآن کا موقف
قرآن میں بنی اسرائیل کے تذکرے موجود ہیں، لیکن ان کے لیے "دائمی حق" کا کوئی تصور نہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"اور ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب میں بتا دیا تھا کہ تم دو بار زمین میں فساد کرو گے..."
(سورہ بنی اسرائیل: 4)
ایک اور آیت میں فرمایا گیا:
"اے میری قوم! اس مقدس زمین میں داخل ہو جاؤ جو اللہ نے تمہارے لیے لکھی ہے..."
(سورہ المائدہ: 21)
علمائے اسلام کے مطابق، یہاں "لکھی ہے" کا مطلب مخصوص وقت اور شرط کے تحت ہے، دائمی قبضے کا جواز نہیں۔ اسلام میں زمین کا حق نسل یا نسل پرستی پر نہیں بلکہ تقویٰ، عدل اور فرمانبرداری پر منحصر ہے۔

  ایک سامراجی منصوبہ
1917
 میں بالفور اعلامیہ کے ذریعے برطانوی سامراج نے یہودیوں کو فلسطین میں "قومی گھر" کا وعدہ کیا۔
1948
 میں برطانیہ کے انخلا اور اقوامِ متحدہ کی منظوری سے اسرائیل کا قیام عمل میں آیا—جبکہ وہاں پہلے ہی لاکھوں فلسطینی آباد تھے۔
یہ قیام طاقت، سازش، اور مغربی حمایت کی پیداوار تھا، نہ کہ کسی الہامی پیشگوئی کا ظہور۔

 مذہب یا مفاد پرستی؟
کئی یہودی علماء اس بات پر زور دیتے ہیں کہ
خدا کی دی ہوئی زمین صرف نیک قوم کا حق ہے۔
موجودہ اسرائیل کا کردار توراتی تعلیمات کے منافی ہے۔
قتل و غارت، نسلی امتیاز اور قبضہ گیری "سرزمین موعود" کی علامت نہیں ہو سکتیں۔
لہٰذا، اسرائیل کو "خدا کا وعدہ" قرار دینا ایک سیاسی پراپیگنڈہ ہے جو مذہبی حوالوں کو چن چن کر توڑ مروڑ کر پیش کرتا ہے۔

اسرائیل کا قیام
مذہبی تعلیمات کی اصل روح کے خلاف ہے؛
عالمی انصاف اور انسانی حقوق کے منہ پر طمانچہ ہے؛
اور ایک ایسی تحریک کا نتیجہ ہے جس نے مذہب کو سیاسی مفادات کی چادر اوڑھا دی۔
مذہب کی اصل روح عدل، تقویٰ اور انسان دوستی ہے—نہ کہ زمین پر قبضہ، قتل و غارت، یا کسی قوم کی بے دخلی۔
ایسا "الہامی وعدہ" جو مظلوموں کے آنسوؤں پر قائم ہو، صرف وعدہ نہیں، ظلم کی ایک دستاویز ہے۔
"مذہب کو سیاست کی چھتری بنا کر اگر ظلم کیا جائے، تو نہ مذہب بچتا ہے، نہ انسانیت۔"