جمعہ، 6 جنوری، 2023
نصیحت کیا ہے؟
پیر، 2 جنوری، 2023
عجیب موت
اس کے جنازے میں پورا شہر ہی امڈ ۤآیا تھا ۔ علاقے میں اس کی شہرت تھی ۔ ہر چھوٹا بڑا اس سے واقف تھا ۔ بلکہ بعض اوقات چھوٹے بچوں کے اصرار پر ان کے والدیناس سے بچوں کی ملاقات کرانے بھی لے آتے ۔ وہ بچوں ان کے والدین کی پانی سے تواضح کرتا۔ ملاقات کرنے کے لیے آنے والوں کو ہی نہیں بلکہ ہر شناسا و ناشناسا کو بھی پانی پلایا کرتا تھا ۔ لوگ بھی پیاسے ہوں یا نہ ہوں اس سے پانی ضرور پیا کرتے تھے ۔ یوں لگتا تھا اس کی زندگی کا مقصد ہی لوگوں کو پانی پلانا تھا ۔ یہ کام اس نے اپنے مرنے کے بعد شروع کیا تھا ۔
جی آپ نے صیح پڑھا کہ یہ کام اس نے موت کے بعد شروع کیا تھا ۔ مرنے سے پہلے تو اس نے پانی کا گلاس تو بہت بڑا ہوتا ہے پانی کا قطرہ تک کسی کو پینے کے لیے نہیں دیا تھا ۔ اس کو اس بات کا احساس بھی مرنے کے بعد ہوا تھا ۔ یہ حقیقت بھی مرنے کے بعد فرشتوں نے اسے بتائی تھی کہ اس نے زندگی میں ایک بار کسی مہمان کو دودھ کا گلاس پلایا تھا ۔ حالانکہ اسے یاد ہی نہیں تھا کہ اس نے کسی کو دودھ کا گلاس پلایا ہو مگر جب فرشتوں نے اسے یاد کرایا تو اسے وہ اجبنی یاد آ گیا جو اس کے ڈنگروں والے باڑے کے پاس سے گذر رہا تھا ۔ اور بچھی ہوئی چارپائی اور حقہ دیکھ کر اس کے پاس بیٹھ گیا تھا۔ اس وقت وہ اپنی گائے کا دودھ دوھ رہا تھا ۔ اس نے پتہ نہیں کیا سوچ کر اس پردیسی کو دودھ کا پیالہ پیش کیا ۔ اجنبی سے حقہ سے منہ ہٹایا ۔ دودھ کا پیالیہ لیا ۔ اور ایک ہی سانس میں پی کر ہاتھوں سے مونچھوں پر لگے دودھ کو صاف کیا ۔ پیالہ چارپائی پر رکھا اور چل دیا۔
حیات علی کی زندگی بھی گوجرخان کی ڈھوک حیات علی میں دوسرے لوگوں ہی کی طرح تھی ۔ صبح اٹھتے ہی کھیتی باڑی میں مصروف ہو جاتا ۔ اس کے بعد ڈنگروں کےپٹھوں کا انتظام کرتا ۔ شام کو دودھ دینے والے جانوروں کا دودھ دوہتا ۔ اس کی زندگی رواں دواں تھی ۔ صحت بھی ٹھیک تھی مگر اچانک فوت ہو گیا ۔ گھر میں ماتم کہرام برپا کر دیتا ہے ۔ حیات علی کے گھر میں بھی کہرام برپا تھا ۔ جو سنتا اس بے وقت موت پر حیران ہوتا مگر موت سے مفر کسے ہے ۔ حقیقت کو قبول کرنا پڑتا ہے ۔اس کی موت کی حقیقت کو بھی تسلیم کر لیا گیا ۔ دور پار کے رشتے داروں کو فوتیدگی کی اطلاع دے دے گئ۔ قبر تیار کر لی گئی ۔ جب اس کا جنازہ اٹھایا گیا تو حیات علی اٹھ بیٹھا۔ عزاداروں نے چارپائی نیچے رکھ دی ۔ حیات علی نے بتایاوہ واقعی مر گیا تھا ۔ اور فرشتے اسے لے کر ایک لمبے ویران صحرا سے گذر کر ایک ایسے میدان میں لے کر گئے جہاں مرے ہوئے لوگوں کا رش تھا ۔ حیات علی کو بمعہ اس کے کاغذات کے کو لے جانے والوں نے اس میدان میں موجود ایک منشی کے سامنے پیش کیا ۔ اس نے کاغزات دیکھ کر حیات علی کو لے جانے والوں کو ڈانٹا کہ تم غلط آدمی کو اتھا لائے ہو ۔ جلدی سے واپس جاو اور مانکیالہ والے حیات علی کو لے کر آو۔ ڈھوک حیات علی والوں نے یہ سنتے ہی چالیس کلومیٹر دور مانکیالا کی طرف بندے دوڑائے انھوں نے واپس آ کر تصدیق کی کہ جب حیات علی ذندہ ہوا اسی وقت مانکیالہ والے حیات علی کا انتقال ہوگیا تھا۔
اصل کہانی مگر مانکیالہ والے حیات علی کی وفات کے بعد شروع ہوئی ۔ ہوا یہ کہ حیات علی کو جب مرنے کےبعد ایک بیابان صحرا سے گذارا جا رہا تھا تو اسے پیاس کی شدت نے پانی مانگنے پر مجبور کر دیا مگر اس کے دونوں نامانوس ساتھیوں میں سے ایک نے کہا تم نے تو پوری زندگی میں کسی کو پانی پلایا ہی نہیں اس لیے تمھیں پانی نہیں دیا جا سکتا۔ حیات علی کی عتش کی زیادتی پر دوسرے ساتھی نے کہیں جھانک کر دیکھا اور پہلے ساتھی کو بتایا کہ اس نے ایک راہ گیر کو دودھ کا گلاس پلایا تھا ۔ لہذا اسے دودھ کا ایک گلاس پیش کر دیا گیا ۔
دوبارہ جی اٹھنے کے بعد حیات علی نے اپنی ڈھوک میں کنواں کھدوایا ۔
سارا دن اس کنویں کی منڈھیر پر بیٹھا رہتا اور ہر آنے جانے والے واقف و نا وقف کو پانی پلاتا ۔ اسی عمل کے دوران اس کی موت آگئی علاقے بھر کے لوگ اسے جانتے تھے ۔ اکثر نے اس کے ہاتھ سے پانی پیا ہوا تھا ۔ اس کی موت علاقے میں بڑی موت تھی سارا علاقہ جنازہ پڑہنے امڈ ۤایا تھا ۔
یہ کہانی ہمیں بیرون ملک مقیم ایک گوجرخانی نے سنائی تھی ۔ ہم نے گوجر خان جاکر اس محلے میں لوگوں سے معلومات حاصل کی ۔ کئی نوجوان اس کہانی سے نا آشنا تھے ۔ اکثر بزرگوں نے مگر اس کہانی کی تصدیق کی ۔ ذاتی طور پر اس کہانی کی صحت پر یقین ہو جانے کے باوجود اسے لکھنے پر دل مائل نہ ہوا۔ پھر گوجرخان کی معروف صوفی شخصیت جناب پروفیسر احمد رفیق اختر نے اس کی تصدیق کی تو ہم بھی اس کو ضبط تحریر میں لانے پر جرات کر لی ۔
جمعہ، 30 دسمبر، 2022
معجزے کا انتظار
علم دو قسم کا ہوتا ہے۔ ایک وہ جو کسی واسطہ سے حاصل ہوتاہے۔ جیسے سکول اور یونیورسٹی یا استاد کے واسطے سے۔ علم کی دوسری قسم وہ ہے جو بغیر کسی واسطے سے حاصل ہوتا ہے۔
بلا واسطہ حاصل ہونے والے علم میں بیمار ہونے کا احساس، رنج و شادمانی کا احساس یا جسم کے اندر ہونے والی تبدیلوں کا احساس اور جانوروں میں تیرنے اور اڑنے کا علم شامل ہے۔ انسان کے نو مولود کو دودھ پینے کا علم بلا واسطہ ہی حاصل ہوتاہے۔ اس کو فطرت اور جبلت کہا جائے تو بھی یہ علم ہی کے زمرے میں آتے ہیں۔
بلا واسطہ حاصل ہونے والے علم کو ہمارے مذہبی اساتذہ کو تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں۔
۱۔ عقل
۲۔ وجدان
۳۔ غیبی عطا
غیر مذہبی اساتذہ علم کا خیال ہے کہ بلا واسطہ حاصل ہونے ہونے والے کا منبع
۱۔ حواس خمسہ
۲۔ جبلت اور
۳۔ معلوم علم و تجربہ ہے۔ انسان کو معلوم ہے کہ بھیڑیا خونخوار جانور ہے یا خوبصورت نظر آنے والا سانپ موذی ہے تو یہ بات انسان نے اپنے تجربے سے منکشف کی ہے۔ نو مولود کا خوراک کا منبع دریافت کر لینا جبلت ہے۔ کالے اور سفید کا ادراک حواس خمسہ سے حاصل ہوتا ہے۔
ہمارا تجربہ ہے کہ بخار کی حالت میں ذائقہ دھوکہ دے جاتا ہے۔ حرکت میں نظر دھوکہ کھا جاتی ہے۔ حواس خمسہ حالات و ماحول کی تبدیلی سے مشابہت اور مماثلت سے دھوکا کھاتے ہیں۔
عقل جب دنگ رہ جائے تو ہم اس کو اپنے وجدان سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور بات پھر بھی سمجھ نہ آئے تو مذہبی اساتذہ اسے غیبی عطا قرار دیتے ہیں۔
عقل سے اونچی سیڑھی کو وجدان کہا جائے تو اس کا سفر عدم سے وجود کی طرف ہوتا ہے۔
ایلس ہووے Alias Howe (1819 - 1867)کی سلائی مشین کی ایجاد کی کہانی میں خواب والا واقعہ اگر سچ ہے تو یہ وجدان ہی تھا جو عدم سے وجود میں آیا تھا۔
اس سے اوپر کی سیڑہی پر غیبی علم کا مقام ہے۔ ہر وہ علم جو بلا واسطہ حاصل ہو، عقل کو تسلیم کرنے میں تامل ہو مگر اس سے انکار نہ کیا جا سکے۔ غیبی
علم کہلاتا ہے۔ ملکہ صبا کے قصہ میں بلقیس کے تخت کا سلیمان کے دربار میں آ جانا علم غیب ہے۔ اس مضمون میں ہم علم غائب پر ہی بحث کرینگے۔ ایسے واقعات کو معجزہ بھی کہا جاتا ہے۔ موسی علیہ السلام کے عصا کا سانپ بن جانا معجزہ تھا اور قیامت تک معجزہ ہی رہے گا مگر بلقیس کے تخت کا سلیمان کے دربار میں حاضر کر دینا معجزہ نہیں تھا۔اس کا سبب یہ ہے کہ ایک عفریت (جن کی ایک قسم) نے اس تخت کو لادینے کی پیشکش کی تھی جو رد ہو گئی تھی مگر یہ بتایا گیا کہ سلیمان کی کابینہ کے ایک ممبر آصف بن برخیا کے پاس علم تھا۔ جس عمل کا تعلق علم سے ہو وہ معجزہ نہیں ہوتی۔بلکہ کتاب میں اس قصہ کو بیان کر کے انسان کو ایک راہ دکھائی گئی ہے کہ علم کی یہ بھی راہ ہے جس کو کھوجنا ابھی باقی ہے۔ کمپیوٹر کی ایجاد نے انسان کو اس قابل کر دیا ہے کہ نصف صدی میں اس نے صدیوں کا علمی و تحقیقی سفر طے کر لیا ہے۔ مادے کو توانائی میں تبدیل کرنے پر بحث کا ڈول ڈال دیا گیا ہے۔ ہو سکتا ہے اسی صدی میں انسان علم کی اس معراج تک پہنچ جائے جہاں مادے کو توانانی اور واپس توانائی کو مادے میں تبدیل کرکے عمل غیب کو علم شہود میں تبدیل کر دے۔
ہفتہ، 24 دسمبر، 2022
موتی اور قیراظ
میزان اور پیمانے ہر معاشرے میں مقدس ہوتے ہیں۔ ان کی حفاظت کی تلقین بے شک آسمانوں سے نازل ہوتی رہی ہے مگر یہ پیمانے خود انسان بناتا ہے۔ ناقص میزان میں پیمانہ کلو ہو یا قیراط، بے اطمینانی ہی پیداہوتی ہے۔
ان کو پہنانے جائین گے سونے کے کنگن اور موتی اور وہاں ان کی پوشاک ریشم ہے" (الحج:23)
سونا موتی اور ریشم خوشحالی کی علامات ہیں۔ خوشحال ہو کر انسان دو میں سے ایک قسم کا رویہ اپنا لیتا ہے۔ پہلی قسم کے لوگ اپنی انکساری کے معترف ہو کر شکرگذاری میں اضافہ کرلیتے ہیں۔اس حالت کی ترجمانی حضرت ابو حریرہ ؓ کی روائت میں بخاری شریف میں ذکر ہوئی ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے فرمان کا مفہوم یہ ہے کہ نبی اللہ حضرت ایوب علیہ السلام برہنہ ہو کر نہا رہے تھے کہ ان پر سونے کی ٹڈیاں گرنا شروع ہو گئیں۔ ایوب نے انھیں کپڑے میں اکٹھا کرنا شروع کر دیا تو ان کے رب عزوجل نے آواز دی اے ایوب کیا میں نے تجھے اس چیز سے جو دیکھ رہے ہو بے نیاز نہیں کر دیا؟ عرض کیا ہاں کیوں نہیں، اور تیری عزت کی قسم تیری برکتوں سے مجھے استغنا ء نہیں ہے۔
غربت اور قناعت دو مختلف چیزیں ہیں۔ صبر او ر محرومی میں واضح فرق ہے۔ ہوس اور استغناء کا اکٹھ ممکن ہی نہیں ہے۔ خواہش ہر دل میں پیدا ہوتی ہے۔ ان کی پیدائش پر قدغن نہیں لگائی جا سکتی۔ البتہ ان پر مٹی ڈالنے کو تعلیمات کی تاویلات سے جوڑا جاتا ہے۔
میرا ایک دوست ہے جس کی رہائش گیٹیڈ کمیونٹی کی ایک کالونی میں ہے۔ آرام دہ گھر ہے۔ برآمدے کے سامنے کئی گاڑیاں بمعہ ڈرائیور ہر لمحہ خدمت بجا آاوری کے لیے مستعد ہیں۔ دفتر اچھے علاقے میں ہے۔ چلتے کاروبار میں سے اس نے سیکڑوں ایکڑ زمین خریدی ہوئی ہے۔ اس کے گھر میں ہم بچپن کے دوست اکثر اکٹھے ہو کر اس کی مہمان نوازی سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اس کے گھر سے واپسی پر ہر بار ہمارا موضوع سخن اس کی دولت ہوتی ہے۔ اکثر دوست میری اس توضٰیح سے اتفاق نہیں کرتے کہ جب ہم ڈاکٹر اور انجینئر بننے کو کامیابی کا یقین بنائے ہوئے تھے۔ اس وقت اس نے کمپیوٹر سیکھنے کا ڈول ڈالا ہوا تھا۔ جب ہم ٹی وی خریدنے کو دنیا کی سب سے بڑی عیاشی گردانتے تھے۔ اس نے وقت وہ کمپیٹوٹر خریدنے کے خواب دیکھا کرتا تھا۔ ایک بار اس کی گاڑی میں سفر کرتے ہوئے اسی کے ڈرائیور نے بتایا "وہ ولی اللہ ہے" ۔ گھریلو ملازم کی شہادت بہت وزنی ہوتی ہے۔ اس شہادت کے بعد میں نے تنقیدی عینک پہن کر اس کو دیکھنا شروع کیامگر سالوں بعد بھی قابل بیان قابل گرفت عمل نہ ڈہونڈ پایا تو اعتراف کرنا پڑا کہ ذاتی انکساری کا معترف ہو کر شکر ادا کرنا ایسا عمل ہے جس کے باعث اسے ہر ماہ ڈالر میں چیک وصول ہوتا ہے۔
میرے دوستوں میں سے ایک بے کاروباری کساد بازاری کا ایسا شکار ہواکہ ایک باراس نے مجھ سے مالی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے اپنی "دعاوں کی نا مقبولیت" کا گلہ کیا تو اچانک میرے منہ سے نکلا کام بدل لو شائد تمھارے حالات بدل جائیں۔ اگلے ہفتے وہ مجھ سے ملنے آیا تو اس کے پاس رکشہ تھا۔ میں نے پوچھا رکشہ چلاتے شرم نہیں آتی اس نے مجھے ایسے دیکھا کہ میری نظرشرمندگی سے نیچی ہو گی۔ آج وہ اچھے علاقے میں رینٹ اے کار کا دفتر کھولے بیٹھا ہے۔ وہ اپنی دینی، معاشرتی اور اخلاقی ذمہ داری پوری کرنے کے ساتھ ساتھ احسان کی رسم بھی پوری کر رہا ہے۔ آخری بار عمرہ کر کے آیا تو اس کا کہنا تھا "اللہ بندے کی ہر دعا قبول کرتا ہے" تو مجھے سالوں قبل اس کا گلہ یاد آیا کہ دعا قبول نہیں ہوتی "بس انسان کو دعا مانگنے کا سلیقہ آنا چاہئے"۔
سلیقہ وژن سے آتا ہے اور وژن علم کے ساتھ ساتھ میل جول، بات چیت، سفر اور معاملات سے حاصل ہوتا ہے۔
دوسری قسم میں وہ لوگ شامل پوتے ہیں جو نصیحت والی کتابیں پڑہتے ہیں۔ الفاظ کا من پسند مطلب نکالتے ہیں۔ تقابلی علم کو ناقص گردانتے ہیں۔ یہ اعمال انھیں کام چور بنا دیتے ہیں۔ اور وہ قسمت، رازق کی تقسیم، نصیب اور اللہ کا لکھا جیسے مضبوظ قلعوں میں پناہ گزین ہو جاتے ہیں۔ خالق کائنات کا حکم ہے "اور اللہ چاہتا تو تمھیں ایک ہی امت کرتا لیکن اللہ گمراہ کرتا ہے جسے چاہے اور راہ دیتا ہے جسے چاہے۔ اور ضرور تم سے تمھارے کام پوچھے جائیں گے " (النحل:93)۔ سونا، موتی اور ریشم اگر جنت میں نعمت ہیں تو دنیا میں بھی نعمت ہی کہلائیں گے۔
میزان اور پیمانے ہر معاشرے میں مقدس ہوتے ہیں۔ ان کی حفاظت کی تلقین بے شک آسمانوں سے نازل ہوتی رہی ہے مگر یہ پیمانے خود انسان بناتا ہے۔ ناقص میزان میں پیمانہ کلو ہو یا قیراط، بے اطمینانی ہی پیداہوتی ہے۔
جمعرات، 22 دسمبر، 2022
رحم اور نرم دل
پاکستان کی سپریم کورٹ میں توہین عدالت کے ایک مقدمے کی سماعت کے دوران بنچ کے ایک ممبر جج نے ملزم (عمران خان) بارے کہا کہ ہو سکتا ہے ہمارا حکم ان تک پہنچا ہی نہ ہو۔ یہ رحم ہے مگر جب خطبہ جمعہ کے دوران ایک پھٹے لباس والا پردیسی مسجد میں آکر بیٹھنے لگے اور اسے کہا جائے کھڑے ہو کر دو رکعت ادا کر لو اور خطبہ بھی روک دیا جائے تو تمام نمازیوں کی نظرین لامحالہ اس کھڑے ہو کر دو رکعت ادا کرنے والے پر ہی ہوں گی۔ نمازکے خاتمے پر کئی افراداسے لباس لا کر پیش کریں تو واعظ کا عمل نرم دلی اور لباس لا کر دینے والوں کا عمل رحم دلی ہے۔ نرم دلی کا تعلق احسان سے ہے۔ جبکہ رحم کا تعلق انصاف سے ہے۔
اللہ تعالی بہترین منصف ہے۔ بہترین اس لیے کہ وہ انصاف کرتے وقت رحم کو اپنے دائیں ہاتھ میں رکھتا ہے۔ اپنے لخت جگر کو ماں ڈانٹتی اور سزا بھی دیتی ہے مگرسزا پر مامتا غالب رہتی ہے۔ اللہ تعالی جب اپنے ہی بندے کی سرکشی پر اس کا محاسبہ کرتا ہے تو اسے پکر کر جہنم (جیل) میں نہیں ڈال دیتا۔ انصاف کے لیے جو عدالت سجاتا ہے اس کا آخری فیصلہ خود کرتا ہے۔ گواہوں کو سنتا ہے۔ کہہ مکرنیوں کو تسلیم کرتا ہے۔
قاضی یحیی بن اکثم بن قطن المزروی ((775-857 جو اپنے وقت کے نامی گرامی چیف جسٹس تھے۔کے بارے میں کئی کتب میں درج ہے کہ ان کی موت کے بعد ان کی بخشش کا معاملہ الجھ گیا تو انھوں نے اللہ تعالی سے عرض کیا کہ میں نے زندگی میں عبد الرزاق بن حسام سے سنا تھا اور انھوں نے معمر بن راشد سے، انھوں نے ابن شہاب زہری، انھوں نے انس بن مالک، انھوں نے آپ کے نبی سے اور انھوں نے جبریل سے سنا کہ آپ کا حکم ہے کہ میرا وہ بندہ جسے اسلام میں بڑھاپا آجائے اسے عذاب دیتے ہوئے مجھے حیا آتی ہے۔ میں دنیا میں اسی سال گذار کر آیا ہوں۔ اللہ نے کرم کیا اور مجھے جنت میں لے جانے کی حکم صادر فرما دیا۔۔
حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ ایک بدو نے پوچھا یا رسول اللہ قیامت کے دن مخلوق کا حساب کون لے گا اسے بتایا گیا کہ اللہ تعالی تو بدو نے قسم کھا کرکہا پھر تو ہم نجات پا گئے۔
دنیا بھر میں عدالتیں ملزم کو شک کا فائدہ دیتی ہیں۔چھوٹے منصف (مجسٹریٹ) بعض اوقات کسی نوجوان گناہ گار کو معاف کر کے اسے سدھرنے کا موقع دیتا ہے۔ سیشن جج ثبوت مہیا ہو جانے پر قاتل کی سزا اتنے بھاری دل سے لکھتا ہے کہ اس کا قلم ہی ٹوٹ جاتا ہے۔ ایک ریٹائرڈ جج نے ایک بار مجھے بتایا تھا مجرم اپنے خلاف اتنے قوی ثبوت چھوڑ جائے کہ جج پھانسی چڑھانے پر ایسے مجبور کر دیا جائے کہ وہ انصاف سے جڑا رحم والا عنصر بھی لاگو نہ کر سکے تو جج قلم نہیں توڑے گا تو کیا اپنا سر پھوڑے گا۔بے شک اللہ تعالی رحم کرنے والا ہے مگر اس صفت کونرم دلی سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا۔