بدھ، 30 جنوری، 2019

بھارت میں محصور پاکستانی خاتون

بھارت میں محصور پاکستانی خاتون کی عمران خان سے اپیل
بھارت میں محصور پاکستانی خاتون نے وزیر اعظم عمران خان سے اپیل کی ہےکہ ان کے مسئلے پر فوری عمل در آمد کراتے ہوئے ان کی وطن واپسی یقینی بنائیں۔
ضلع مظفر گڑھ سے تعلق رکھنے والی کبریٰ گیلانی مقبوضہ جموں و کشمیر کے رہائشی اپنے شوہر محمد الطاف سے علیحدگی کے بعد واپس وطن آنا چاہتی ہیں لیکن بھارتی وزارت داخلہ کی جانب سے انہیں کلیئرنس نہیں دی جارہی ۔
ضلع مظفر گڑھ کی تحصیل ڈومیل کی رہائشی کبریٰ کی مقبوضہ کشمیر میں محمد الطاف نامی شخص سے شادی ہوئی مگرآٹھ سال بعد بھی اولادنہ ہونے کے باعث دونوں میں تنازعات پیدا ہوئے اور دوریاں ہو گئیں جس کا نتیجہ طلاق نکلا۔ 
خاتون نے طلاق کے بعد بھارت میں پاکستانی سفارت خانہ سے رابطہ کیا اور تمام سفری دستاویزات فراہم کیے۔ دستاویزات مکمل ہونے کے باوجود بھارتی حکام نے کبری کو سرحد پارنہیں کرنے دی۔
کبریٰ کا کہناہے کہ بھارتی حکومت کی جانب سے کلیئرنس نہ ملنے کے باعث مجھ سمیت دو سو خواتین بھارت کے مختلف علاقوں میں پھنسی ہیں ۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ گزشتہ چند مہینوں میں مقبوضہ کشمیر میں تین خواتین نے تو اسی بے بسی میں خود کشی بھی کر لی۔
ان کا کہنا ہے کہ ان کی والدہ اور تین بہن بھائی بے چینی سے ان کی واپسی کی راہ تک رہے ہیں جبکہ ان کے انتظار میں ان کی والد اور ایک بہن دنیا سے رخصت ہو گئے۔

افغان باقی، کہسار باقی


حامد میر

قلم کمان


شاعر مشرق علامہ اقبالؒ نے اپنی شاعری کے مجموعے ’’پیامِ مشرق‘‘ کو افغانستان کے بادشاہ غازی امان اللہ خان کے نام معنون کیا تو ناقدین نے اقبالؒ پر ایک بادشاہ کی خوشامد کا الزام لگا دیا۔ یہ غازی امان اللہ کون تھا؟ یہ وہ شخص تھا جس نے 1919ءمیں اُس زمانے کی سپرپاور برطانیہ کو شکست دی اور افغانستان کو سلطنت برطانیہ کی شان و شوکت کا قبرستان بنا دیا۔ ایک دفعہ ڈاکٹر عبداللہ چغتائی نے علامہ اقبالؒ سے سوال کیا کہ آپ نے ’’پیامِ مشرق‘‘ کا انتساب امان اللہ خان کے نام کیوں کیا تو اُنہوں نے جواب میں کہا کہ میں اپنی اس کتاب کو کسی آزاد مسلمان کے نام کرنا چاہتا تھا اور اس ضمن میں امیر امان اللہ خان سے زیادہ موزوں کوئی دوسرا نہیں تھا۔ امان اللہ خان نے جن لوگوں کی مدد سے تاج برطانیہ کا غرور خاک میں ملایا تھا اُن میں مجددی سلسلے کے روحانی پیشوا ملا شوربازار نور المشائخ بھی شامل تھے۔ لیکن جب امان اللہ خان نے اقتدار سنبھالنے کے بعد افغانستان میں اصلاحات کا آغاز کیا تو ملا شور بازار اُن سے ناراض ہو گئے۔ 1929ء میں امان اللہ خان غیرملکی دورے پر تھے، اس دوران اُن کے خلاف بغاوت ہو گئی اور افغانستان خانہ جنگی کا شکار ہو گیا۔ امان اللہ خان کے ایک ساتھی نادر شاہ نے انگریزوں کی سازشوں کا مقابلہ کرنے کی ٹھانی۔ وہ فرانس میں افغانستان کا سفیر تھا۔ وہ پیرس سے لاہور آیا اور علامہ اقبالؒ سے ملاقات کی۔ اُس نے علامہ اقبالؒ کو بتایا کہ وہ سازشی عناصر کے خلاف مزاحمت کرے گا۔ علامہ اقبالؒ نے اُسے اپنی طرف سے دس ہزار روپے بطور امداد پیش کئے لیکن نادر شاہ نے شکریہ کے ساتھ یہ رقم واپس کر دی اور شمالی وزیرستان کے علاقے علی خیل روانہ ہو گیا۔ یہاںپر اُس نے وزیر اور محسود قبائل کے ساتھ مل کر ایک لشکر تشکیل دیا اور کابل پر حملہ کر دیا۔ علامہ اقبالؒ نے نادر شاہ کی مدد کے لئے ایک فنڈ بنایا اور کچھ ہی عرصے کے بعد نادر شاہ نے حبیب اللہ (بچہ سقہ) کو شکست دے کر کابل پر قبضہ کر لیا۔ کچھ سال کے بعد علامہ اقبالؒ نے نادر شاہ کی دعوت پر افغانستان کا دورہ کیا تو وہاں ملا شور بازار اور حاجی صاحب ترنگزئی کے ساتھ ملاقاتیں کیں۔ حاجی صاحب کا تعلق شب قدر کے علاقے سے تھا۔ اُنہوں نے 1919ء کی جنگ میں امان اللہ خان کا ساتھ دیا تھا،اب وہ برصغیر کو انگریزوں کی غلامی سے آزاد کرانا چاہتے تھے اور نادر شاہ کی مدد سے مزاحمت کی تیاری کر رہے تھے۔ یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ علامہ اقبالؒ نے امان اللہ خان اور نادر شاہ جیسے بادشاہوں کی عزت افزائی اُن کی حریت پسندی کی وجہ سے کی۔ اقبالؒ کو افغانوں سے بہت محبت تھی کیونکہ اُنہیں یقین تھا کہ افغان کبھی کسی کی غلامی قبول نہیں کرتے۔ اسی لئے اقبالؒ نے کہا
افغان باقی، کہسار باقی
الحکم للہ، الملک للہ
یعنی تاریخی عمل اور تاریخی جدل میں صرف افغان سرخرو ہوں گے۔ اقبالؒ کی شاعری میں ہمیں صرف کابل، غزنی اور قندھار کا ذکر نہیں ملتا بلکہ احمد شاہ ابدالی اور خوشحال خان خٹک کے ساتھ باقاعدہ اظہارِ محبت ملتا ہے۔ خوشحال خان خٹک ایک جنگجو شاعر تھے جنہوں نے مغل بادشاہ اورنگ زیب کے خلاف مزاحمت کی۔ اقبالؒ نے اورنگ زیب کے خلاف تلوار اٹھانے والے خوشحال خان خٹک کے بارے میں کہا
قبائل ہوں ملت کی وحدت میں گم
کہ ہو نام افغانیوں کا بلند
محبت مجھے اُن جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند
ستاروں پہ کمند ڈالنے والے جوانوں سے اقبالؒ کی محبت بلاجواز نہ تھی۔ اقبالؒ کی زندگی میں افغانوں نے سلطنت برطانیہ کو شکست دی اور ہماری زندگی میں افغانوں نے سوویت یونین کو شکست دی۔ یہ 1989ء تھا جب روسی فوج کا افغانستان سے انخلاء شروع ہوا اور اب 2019ء میں امریکی فوج افغانستان سے نکلنا چاہتی ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے لیکن برطانیہ اور روس کے بعد امریکہ کو بھی افغانستان میں شکست ہو چکی ہے۔ افغانستان ایک اور سپرپاور کی شان و شوکت کا قبرستان بن چکا ہے لیکن افغانستان کی پہچان صرف قبرستان نہیں ہونی چاہئے۔ اقبالؒ نے کہا تھا
آسیا یک پیکر آب و گِل است
ملت ِ افغاں در آں پیکر ِ دل است
از فساد او فسادِ آسیا
در کشاد او کشادِ آسیا
ایشیا ایک جسم ہے اور اس جسم میں دھڑکتے ہوئے دل کا نام افغان قوم ہے۔ اقبالؒ کہتے ہیں کہ افغانوں میں فساد کا مطلب ایشیا میں فساد ہے اور افغانوں کی ترقی کا مطلب ایشیا کی ترقی ہے۔ اقبالؒ نے افغانستان کو ایک سپرپاور کے قبرستان کے بجائے ایشیا کا دل قرار دیا اور یہ وہ پہچان ہے جسے حقیقت بنا کر ہم صرف افغانستان کو نہیں بلکہ پورے خطے کو امن کا گہوارہ بنا سکتے ہیں۔ اس وقت ہم سب کی پہلی ترجیح یہ ہونی چاہئے کہ افغانستان سے امریکی فوج کے انخلاء کے بعد وہاں خانہ جنگی شروع نہ ہو۔ 1989ء میں افغانستان سے روسی فوج کے انخلاء کے بعد جو خانہ جنگی شروع ہوئی اُسی نے تحریک طالبان کو جنم دیا تھا۔ ابتداء میں امریکہ نے طالبان کی مدد کی، بعد میں انہیں دہشت گرد قرار دے دیا۔ آج امریکہ انہی دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات کر کے اپنا تھوکا چاٹ رہا ہے۔ امریکہ کو افغانستان سے باعزت واپسی کا راستہ چاہئے۔ وہ چاہتا ہے کہ افغان طالبان اُن سب کے ساتھ مل کر پاور شیئرنگ کریں جو ماضی میں امریکہ کے ساتھ مل کر طالبان کو دہشت گرد قرار دیتے تھے۔ امریکہ اس مقصد کے لئے پاکستان، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ذریعے طالبان پر دبائو ڈال رہا ہے کہ وہ کابل انتظامیہ کے ساتھ بھی مذاکرات کریں۔ اس صورتحال کا ایران کو بہت فائدہ ہوا اور وہ افغان طالبان کے قریب ہو گیا ہے کیونکہ افغان طالبان اور ایران کو داعش کی صورت میں ایک مشترکہ دشمن کا سامنا ہے۔
صورتحال بہت نازک ہے۔ وزیر اعظم عمران خان بھی افغان طالبان کے ساتھ ملاقات کرنا چاہتے تھے لیکن افغان طالبان نے فی الحال اسلام آباد آنے کا ارادہ ملتوی کر دیا کیونکہ وہ اشرف غنی کو دور جدید کا بچہ سقہ سمجھتے ہیں اور جو بھی انہیں بچہ سقہ کے ساتھ مل بیٹھنے کا مشورہ دیتا ہے وہ اسے شکست خوردہ سپرپاور کا خوشامدی سمجھنے پر مجبور ہیں لیکن وہ یہ مت بھولیں کہ امریکی فوج کے انخلاء کے بعد افغانستان میں خانہ جنگی کا آغاز افغانوں کے لئے ایک نئی مصیبت بن سکتا ہے۔ یہ خانہ جنگی افغانستان میں فساد برپا کرے گی اور پاکستان اس سے محفوظ نہ رہ سکے گا اس لئے پاکستان کو امریکہ کا نہیں اپنا مفاد دیکھنا چاہئے۔ پاکستان کا مفاد یہ ہے کہ وہ غیرجانبدار رہے اور کسی فریق پر امریکہ کی مرضی مسلط کرنے کی کوشش نہ کرے۔ پاکستان کو صرف سہولت کار بننا ہے۔ سہولت کاری کے نام پر شکست خوردہ سپرپاور اور اس کی باقیات کو رسوائی سے بچانے کی کوشش پاکستان کو بھی رسوا کرے گی لہٰذا اس اہم تاریخی مرحلے پر ہمیں احتیاط کی ضرورت ہے۔ ہمیں علامہ اقبالؒ کی افغانوں سے محبت کا بھرم قائم رکھنا ہو گا۔

منگل، 29 جنوری، 2019

’’مکافاتِ عمل‘‘

’’مکافاتِ عمل‘‘
پاکستان کو بدعنوانی اور اس کے عادی سیاستدانوں سے بچانے کو بے چین تحریک انصاف کے بے شمار انقلابیوں کو جانے کیوں سمجھ نہیں آرہی کہ اگست 2018سے ان کی جماعت اقتدار میں ہے۔ کئی برسوں کی جدوجہد کے نتیجے میں عمران خان اب اس ملک کے وزیر اعظم ہیں۔ ان کے اس منصب پر فائز ہونے کی بنیادی وجہ یہ حقیقت ہے کہ موجودہ قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کو اکثریت حاصل ہے۔ وزیراعظم ہونے کی وجہ سے عمران خان قومی اسمبلی کے ’’قائد ایوان‘‘ ہیں۔ اس ایوان کا سپیکر بھی تحریک انصاف سے تعلق رکھتا ہے۔ آصف علی زرداری کی بطور رکنِ قومی اسمبلی نااہلی کو یقینی بنانے کے لئے اگر تحریک انصاف کے پاس ٹھوس شواہد موجود ہیں تو اس جماعت سے تعلق رکھنے والے چند اراکینِ اسمبلی کو یکسو ہو کر انہیں سپیکر اسد قیصر کے دفتربھیجنا چاہیے۔ ان شواہد کا جائزہ لینے کے بعد سپیکرکے پاس یہ اختیار موجود ہے کہ وہ انہیں الیکشن کمیشن کو مناسب کارروائی کے لئے بھجوا دے۔ شواہد تگڑے ہوئے تو الیکشن کمیشن کے پاس آصف علی زرداری کو نااہل قرار دینے کے سوا کوئی راستہ ہی نہیں بچے گا۔ اگرچہ یہ خدشہ بھی اپنی جگہ مبنی برحقیقت ہے کہ الیکشن کمیشن سے نااہل قرار پائے آصف علی زرداری ہائی کورٹ سے Stayوغیرہ حاصل کرسکتے ہیں۔ ان کی نااہلی کو حتمی قرار دینے میں دیر لگ سکتی ہے۔ کسی رکن اسمبلی کو قواعد وضوابط کے عین مطابق نااہل قرار دینے والا Processمگر شروع ہوجائے گا۔ اس Processپر اعتراض اٹھانے کی گنجائش موجود نہیں۔ سوال اٹھتا ہے کہ اس پراسس کو مضبوط تر اور قابل اعتماد بنانے کی کوشش کیوں نہیں ہورہی۔ کیوں اس امر کو بے چین ہوا جارہا ہے کہ پارلیمان اور دیگر فورمز کے ہوتے ہوئے سپریم کورٹ یا اسلام آباد ہائی کورٹ ازخود اختیارات استعمال کرتے ہوئے تحریک انصا ف کی استدعا پر آصف علی زرداری کو نااہل قرار دے کر قومی اسمبلی سے باہر نکال دے۔مسلمہ ضوابط و قواعد کے ذریعے بنائے ’’سسٹم‘‘ کو شاید تحریک انصاف کے انقلابی مضبوط تر اور قابل اعتماد بنانے میں یقین نہیں رکھتے۔ کرپشن سے نجات کے لئے Fast Trackراستے ڈھونڈنے میں مصروف ہیں۔ اس حقیقت کا احساس کئے بغیر کہ Fast Trackپارلیمان یا قواعد وضوابط کے تحت بنائے ’’سسٹم‘‘ کومضبوط نہیں بناتا۔ ’’دیگر اداروں‘‘ کو اس ملک کا نجات دہندہ بناتا ہے۔ ’’دوسروں‘‘ کو نجات دہندہ بناتے ہوئے یہ فراموش کردیا جاتا ہے کہ تحریک انصاف بذاتِ خود سیاسی نظام ہی کا حصہ ہے۔ وہ اسے مضبوط تر نہیں بنائے گی تو خود بھی کمزور ہوگی۔ مجھے آج بھی وہ دن اچھی طرح یاد ہیں جب میرے بہت ہی عزیز دوست خواجہ آصف، افتخار چودھری کی عدالت میں رینٹل پاور پراجیکٹس (RPPs)کے خلاف دہائی مچانے چلے گئے تھے۔ میں اپنے کالموں کے ذریعے فریاد کرتا رہا کہ قومی اسمبلی کے مؤثر ترین اور بہت ہی تجربہ کار رکن ہوتے ہوئے انہیں RPPsکے خلاف شوروغوغا ایوان تک محدود رکھنا چاہیے۔ انہوں نے میری فریاد نہ سنی۔ بالآخر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ہاتھوں خود بھی نااہل ہوگئے۔ سپریم کورٹ سے ریلیف ملا اور آج بھی قومی اسمبلی میں بیٹھے ہوئے ہیں۔شاید بہت کم لوگوں کو یاد رہا ہو کہ اعظم سواتی ایک زمانے میں اس کابینہ کے بھی رکن تھے جس کے سربراہ یوسف رضا گیلانی تھے۔ موصوف نے JUI-Fکے کوٹے سے وزارت حاصل کی تھی۔ اس کابینہ میں علامہ حامد سعید کاظمی وزارتِ مذہبی امور تھے۔ ان کی وزارت کے دوران ایک حج سکینڈل ہوا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وفاقی وزیر کی حیثیت میں اعظم سواتی اس سکینڈل کے بارے میں کابینہ میں دہائی مچاتے۔ یوسف رضا گیلانی ان کی داد فریاد کو نظراندز کرتے تو کابینہ سے استعفیٰ دے کر سکینڈل کے ذمہ داروں کو سزا دلوانے کے دوسرے راستے ڈھونڈتے۔ہماری سیاسی تاریخ کا بدترین لطیفہ مگر یہ ہوا کہ گیلانی کابینہ کا ایک رکن اپنے ہی کولیگ کے خلاف رپٹ لکھوانے سپریم کورٹ پہنچ گیا۔ افتخار چودھری صاحب اس رپٹ کی وجہ سے اس ملک کے حتمی سماج سدھار کی صورت ابھرنا شروع ہوگئے۔ حامد سعید کاظمی کی بہت ذلت ورسوائی ہوئی۔ بالآخر جیل بھی بھیج دئیے گئے۔کاظمی صاحب کو جیل بھجوا دینے کے بعد اعظم سواتی نے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرلی۔ چند ماہ قبل مگر ان کے ساتھ سپریم کورٹ میں جو کچھ ہوا اسے ’’مکافاتِ عمل‘‘ کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے۔ ’’مکافاتِ عمل‘‘ کی حقیقت تحریک انصاف کے انقلابیوں کو ہمیشہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے۔ Breaking Newsکی خواہش میں لیکن اسے فراموش کردیا جاتا ہے۔ میڈیا پر کچھ دیر کیلئے رونق تو لگ جاتی ہے۔ ایسی رونق سے مگر حتمی پیغام خلقِ خدا کو یہ ملتا ہے کہ ’’ہم ہو ئے تم ہوئے یامیر ہوئے‘‘ والے مصرعے کی طرح تمام سیاست دان بلااستثناء کسی نہ کسی نوعیت کی ’’دونمبری‘‘ کے چکر میں رہتے ہیں۔ناک کو سیدھا پکڑیں یا گردن کے پیچھے ہاتھ گھما کر ۔ٹھوس حقیقت یہی رہے گی کہ تحریک انصاف کے انقلابی اپنے کپتان سمیت بنیادی طورپر سیاست دان ہیں۔ اپنے دھندے کو ’’گندہ‘‘ ثابت کرتے ہوئے بالآخر روزافزوں مچائے شور سے وہ خود بھی محفوظ نہیں رہیں گے۔مجھے ہرگز خبر نہیں کہ آصف علی زرداری کو قومی اسمبلی کی رکنیت کے لئے نااہل قرار دینے والے جن شواہد کا ذکر تحریک انصاف والے کررہے ہیں ان کی صداقت اور قابل عمل ہونے کا معیار کیا ہے۔ نیویارک میں اگر ان کی ملکیت میں واقعتا ایک قیمتی فلیٹ موجود ہے اور کاغذاتِ نامزدگی داخل کرواتے ہوئے انہوں نے اس کا ذکر نہیں کیا تو نااہل ہونا ضروری ہے۔ میری پھکڑپن طبیعت تو بلکہ اس خواہش کا اظہار بھی کرے گی کہ ٹھوس شواہد ہونے کی صورت میں نااہلی کے علاوہ انہیں ’’بے وقوفی‘‘ جسے ضرورت سے زیادہ اعتماد بھی کہا جاتا ہے کی سزا بھی ملنی چاہیے۔اس سزا کو یقینی بنانے کے لئے مگر ایک واضح راستہ موجود ہے۔اسے اختیار کرنا ضروری ہے۔ عدالتوں کو اپنے سیاسی مخالفین سے نجات پانے کے لئے استعمال کرنے کی خواہش سیاست دانوں کو اجتماعی خودکشی کی جانب لے جاتی ہے۔
یوسف رضا گیلانی کو عدالت سے نااہل کروانے کے لئے پاکستان مسلم لیگ نون نے بہت جانفشانی دکھائی تھی۔ گیلانی والی نظیر Setہوگئی تو پانامہ دستاویزات کے منکشف ہونے کے بعد نواز شریف کے ساتھ مکافاتِ عمل ہی تو ہوا تھا۔ تحریک انصاف کے انقلابی اس عمل کو خود پر لاگو ہونے کے امکانات کو یقینی کیوں بنارہے ہیں؟آصف علی زرداری کو نااہل کروانے کے ٹھوس ثبوت ان کے پاس ہیں تو خدارا سپیکر اسد قیصر کے دفتر سے رجوع کریں۔ اس کے سوا جو بھی راستہ اختیار کریں گے وہ اجتماعی خودکشی کی طرف لے جائے گا۔ اس ایوان کو بے توقیر کرے گاجس کے ’’قائد‘‘ کوئی اور نہیں عمران خان صاحب ہیں۔

پھُونکنی سے یہ’’ چراغ ‘‘جلایا نہ جائے گا

حفیظ اللہ نیازی


’ ’دو چراغ ‘‘ ،ایک مرکز میں، دوسرا سب سے بڑے صوبے میں ، جل نہیں پا رہے۔ عمران خان نے جب سے سیاست میں قدم رنجہ فرمایا، چند رٹے رٹائے فقرے علم البیان کاحصہ بنے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول کہ ’’ کفر نظام پر تو معاشرے قائم رہ سکتے ہیں، ظلم زیادتی پر نہیں‘‘۔ مُبلغِ ریاستِ مدینہ پچھلے 23 سال سے یہ قول ہزاروں مرتبہ مبالغہ آمیزی کے ساتھ تقاریر کا حصہ بنا چکے ہیں۔ سانحہ ساہیوال ظلم اور زیادتی کی انوکھی ،انمٹ اور نہ بھولنے والی داستان ہے۔ واقعہ پرحکمران آج منافقانہ چپ سادھ چکے ہیں۔ حکومت وقت ذیشان کو دہشت گرد ثابت کرنے میں تن من لگا رہی ہے۔ نقیب اللہ محسود اور دوسرے دو ساتھیوں کو دہشت گرد ثابت کرنے میں کیا کیا جتن روا نہ رکھے۔ کئی ماہ سے لاپتہ دو افرادنقیب اللہ کے ساتھ قتل ہوئے،چند دن پہلے وہ بھی بے گناہ نکلے۔ پنجاب ایک لا وارث صوبہ ، دو افراد کے قتل پر کوئی رد عمل ہوا اور نہ ہی ذیشان اور خلیل فیملی کا بہیمانہ قتل اثرات مرتب کر پائے گا۔ نقیب اللہ کے قتل پر قبائلی علاقہ ہی کہ ارتعاش کی جکڑ میں، نہیں معلوم حالات کب تک کنٹرول میں رہیں گے؟
ذیشان اور خلیل فیملی کی آہ و بکا عرش بریں ضرور ہلائے گی کہ ربِ دوجہاںکی بے گناہ قتل پر وعید بڑی سخت ہے۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن پر عمران خان کی فصاحت وبلاغت عروج پر تھی۔ سانحے پر سیاست استوار کر نے کے در پے، وزارت عظمیٰ کا زینہ سمجھ بیٹھے تھے۔ قادر الکلامی میں رانا ثناء اللہ کو فوری گرفتار اور شہباز شریف کو مستعفی ہونے کا حکم صادر فرما یا۔ ’’ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ اوپر سے حکم کے بغیر پولیس تاک تاک کر سیدھی گولیاں چلائے‘‘۔ بلاشبہ اللہ حق ہے! ’’تب تک موت نہیں دیتا جب تک اندر باہر آشکار نہ کر دے‘‘ ،سانحہ ساہیوال پرآج کارکردگی محدب عدسہ کی زد میں۔ بمطابق پوسٹ مارٹم رپورٹ 7سالہ بچی،13سالہ اریبہ ،والدہ ،خلیل،ذیشان اور عمیر کو POINT BLANK گولیاں لگیں ۔ 7سالہ بچ جانے والی بچی کی ہتھیلی سے آر پار ہونے والی گولی بھی قریب سے ماری گئی۔ درندوں نے7سالہ بچی پر اتنا رحم کیا کہ جان سے مارنے کی بجائے ننھی ہتھیلی پر بندوق رکھ کر گولی آر پار کی۔ واقعے کے اگلے دن وزیر اعظم کی ٹویٹ خون کے آنسوؤں سے نم تھی، ’’ ابھی تک صدمے کی کیفیت میں ہوں‘‘۔ اہل وطن ! مجھے یہ پتہ چلانا ہے، آخری خبریں آنے تک وزیر اعظم صدمے سے نکل پائے ہیں یانہیں؟ JIT کا تو وجہ وجود ہی فقط راؤ انواروں کو بچانا اور معصوموں،بے گناہوں پر مدعاڈالنا ہے، یقیناً کامیاب رہے گی۔
واقعے کا مثبت پہلو اتنا کہ’’ روحانی‘‘ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نمایاں نااہل ہوکر سامنے، عمران خان کے کارناموں میں سرخاب کا پَرثابت ہوئے۔ بُزدار صاحب کی وزیر اعلیٰ تعیناتی پر سوالات کی بوچھاڑ میڈیا اور ٹاک شو کا موضوع ضرور،عمران خان سانحہ پر باز پرس کرنے کی بجائے وسیم اکرم پلس ڈھانچے کو بیڈ روم کی الماری میں سجانے چھپانے میں حسبِ توقع مستعد ہیں۔ سکہ بند تجزیہ نگاروں اور کُہنہ مشق سیاستدانوں نے بُزدار کی اُلٹی گنتی شروع کر رکھی ہے۔ میری حقیر رائے ، عثمان بزدار کہیں نہیں جا رہے،تاحدِ نگاہ وزیر اعلیٰ رہیں گے۔ عمران خان کی مردم شناسی، شعور اور وژن کا مظہر ہی تو بُزدار ہیں۔ جب نام سامنے آیا تو تحریک انصاف اور اتحادی، تمام ایم پی ا ے کا باجماعت کہنا جائز تھا ’’اگر بُزدار بن سکتا ہے تو میں کیوں نہیں؟‘‘۔ پہلے دن سے عمران خان بُزدار کی آگاہی پروموشن سیل میں مصروف ہیں۔ آج پارٹی تتر بتر،عمران خان کی کوششیں تیز،بُزدار صاحب کی حمایت میں آخری سانس تک ڈٹ چکے ہیں۔ آئن اسٹائن کا سنہری قول’’ احمق اور نالائق ایک تجربہ بار بار کرتا ہے اور ہر دفعہ فرق نتیجے کی توقع رکھتا ہے‘‘۔مُنا بھائی ڈٹے رہوکہ’’بزدار تو ڈوبے گا صنم تم کو بھی لے ڈوبے گا‘‘۔
نیم حکیم خطرہ ِجان، نیم مُلا خطرہ ایمان جبکہ نیم سیاستدان خطرہ ِ وطنی سا لمیت سلامتی و امان۔ بھلے وقتوں میں عمران خان اس بات پر مجھ سے متفق بھی اور فکر مند کہ’’کوچہ سیاست سے نابلد ہیں‘‘۔ پلاننگ اتنی کہ اگر کبھی’’داؤ‘‘ لگ گیا تو اہل ٹیم تیار کر کے شاید مداوہ ممکن رہے۔ بدقسمتی سے جب سے طاقت ور حلقوں میں آسرا ڈھونڈا، کامیابی یقینی، تو اہلیت کو غیر ضروری قرار دیا۔ میری بھی گارنٹی کہ مہربان اور قدردان جتنا مرضی زور لگا دیں، عمران خان کے تِلوں سے تیل نہیں نکلے گا۔ تکلیف اتنی کہ آج کی ارضی سیاست میںوطنِ عزیز کوعمران تجربہ اور ماڈل مہنگا پڑنا ہے۔
11ستمبر 2001 کو جب امریکہ پر قیامت بیتی تو سب سے زیادہ ہمارا خطہ بالخصوص ارضِ پاکستان متاثر ہوا۔ سانحہ 9/11 پر امریکی وزیر خارجہ کولن پا ول کی فون کال پر سات احکامات ملے۔کمانڈو صدرجنرل مشرف کی من و عن ’’ نکی جئی ہاں ‘‘ سے پاکستان پر جہاں ڈالروں کی بارش ہوئی وہاں دہشت گردی آماجگاہ بنی۔ آج پھر خطہ کی ارضی سیاست انگڑائیاں ،کروٹیں لینے کو۔ ڈالروں کی بارش بھی شروع ہوچکی۔ معاوضے میں اس دفعہ’’نکی جئی ہاں‘‘ کیا رنگ لاتی ہے؟ موضوع نہ تفصیل کا وقت ،عرض اتنی کہ ایسے مواقع پر پاکستان ہمیشہ سیاسی عدم استحکام کے گرداب میں تھا۔ آج پھر سیاسی افرا تفری عروج پر ہے۔ سلیکٹڈ وزیر اعظم کی پنجاب/ KP میں وزراء ِاعلیٰ کی سلیکشن تفکرات خدشات بڑھا چکی۔ جہاں عمران خان اپنی پھونکنی سے بُزدار لالٹین جلانے بھڑکانے میں اثرو رسوخ خرچ کر رہے ہیں وہاں عمران خان کو لانے والی طاقتیں اپنی پھونکنی کے پُر زور استعمال سے عمرانی چراغ کو جلا بخشنے میںکوشاں ہیں۔ شاہ محمود قریشی کا حالیہ بیان ملاحظہ فرمائیں ’’ جب میں طاقتور حلقوں کے بیان سنتا ہوں تو یہ بات طے ہوچکی ، انہوں نے ذہن بنا لیا ہے کہ نواز شریف اور زرداری نامنظور ‘‘۔سیاسی عدم استحکام بدرجہ اُتم موجود ماضی کی طرح رائے عامہ آج بھی بے توقیر و نامنظور ۔کیا وطنی تاریخ اپنے آپکو دہرانے کو؟ حالات نامساعد ضرور،بات حتمی کہ بُزدار کا کلہ مضبوط اوربقول شاہ محمو دقریشی طاقتور حلقوں کے پاس بھی چوائس نہیں چنانچہ عمرانی کلہ بھی مضبوط۔ بُزدار پر معاندانہ ہونے کی ضرورت نہ بار باراُلٹی گنتی کی ضرورت کہ یقین دلاتا ہوں بُزدار کہیں نہیں جا رہے۔ جلتا ہے یا بُھجتا ہے، بات حرفِ آخر، عمران خان کی پھونکنی سے یہ چراغ جلنے کا نہیں۔

دروازے پر دستک دیتی نئی تباہی


سلیم صافی

جرگہ


میرے منہ میں خاک لیکن اگر فریقین نے ہوش کے ناخن نہ لئے تو مجھے پورا پاکستان اور بالخصوص پختون سرزمین ایک بار پھر،ایک نئے اورخون ریز بحران کی طرف طرف تیزی سے بڑھتی نظرآرہی ہے۔ یہ بحران بنیادی طور پر گزشتہ بحران(وار آن ٹیرر) کا منطقی نتیجہ ہے لیکن بدقسمتی سے فریقین اسے جس طریقے سے ڈیل کررہے ہیں، اس کا نتیجہ گزشتہ بحران سے بھی زیادہ سنگین اثرات کی صورت میں نکلتا ہوا نظرآرہا ہے۔ بدقسمتی سے حالات ایسے بن گئے ہیں کہ اس تباہی کو اپنی طرف بڑھتا دیکھ کر بھی اس کی بعض جہتوں کو میں تحریر کرسکتا ہوں اور نہ تفصیل بیان کرسکتا ہوں۔ تاہم اشارتاًاتنا بتاسکتا ہوں کہ وار آن ٹیرر کے دو ہیروز یعنی سیکورٹی فورسز اور پختون عوام کو ایک دوسرے کے مدمقابل لانے کی سازش ہورہی ہے اور ایک بار پھر قبائلی علاقہ جات جو اب خیبر پختونخوا کا حصہ ہیں، اس کا مرکز ، منبع اور میدان بنتے نظرآرہے ہیں۔ نیت شاید ایک بھی فریق کی غلط نہیں ۔ شاید دونوں فریق پورے اخلاص کے ساتھ یہ سمجھ رہے ہیں کہ وہ ملک اور قوم کی بھلائی کے لئے سرگرم ہیں لیکن اگر مکالمہ نہ ہوا، ایک دوسرے کو نہ سمجھا گیا اورصرف اپنے اپنے فہم اور پس منظر کے ساتھ معاملے کو آگے بڑھایا گیا تو تباہی کا راستہ کوئی نہیں روک سکے گا۔
حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران پاکستانی سیکورٹی فورسز ، قوم اور بالخصوص پختون تاریخ کی بدترین آزمائش سے گزرے۔ ہر فرد، ہر ادارے اور ہر طبقے کی آزمائش اتنی سنگین تھی کہ اسے دوسرے کی آزمائش اور قربانی کا صحیح ادراک اور احساس ہی نہیں ہوسکا۔ مثلاً سیکورٹی اداروں کے لئے یہ شاید تاریخ کی طویل ترین اور مشکل ترین جنگ تھی۔ فوجیں جنگیں لڑتی ہیں لیکن دنیا کا کوئی فوجی چند ماہ سے زیادہ وقت کے لئے محاذ جنگ پر نہیں ہوتا تاہم یہاں لوگ کیپٹن سے جنرل کے عہدے تک پہنچے اور مسلسل کبھی ایک تو کبھی دوسرے محاذ پر لڑتے رہے ۔ موجودہ فوجی قیادت میں سے شاید ہی کوئی بندہ ایسا ہو کہ جس نے اپنے ساتھیوں کی لاشیں نہ اٹھائی ہوں۔ یہ تاریخ کی مشکل ترین جنگ اس لئے تھی کہ یہ اپنی سرزمین پر اپنے ہموطنوں سے لڑنی پڑی- کچھ کو دونوں سرحدوں پر پہرہ دینا پڑ رہا ہے تو کچھ کو ملک کے اندر اس طرف یا اس طرف سے مدد لینے والے اپنے ہموطن اور ہم کلمہ بھائیوں سے برسرپیکار رہنا پڑا۔ یہ جنگ ان لوگوں کے خلاف لڑی گئی کہ جو اپنی جنگ کے لئے اس مذہب کی آڑ لے رہےتھے جو خود ان سیکورٹی فورسز کا بھی مذہب ہے اور اس سے بھی بڑی مشکل یہ تھی کہ جس دشمن کے خلاف یہ جنگ لڑنی پڑی وہ ماضی میں اپنے اتحادی بھی رہ چکے تھے- اسی طرح وہ ایک ایسے دشمن سے لڑرہی تھیں اور اب بھی لڑرہی ہیں کہ جس کے ہمدرد اور سہولت کار ہمارے ہر علاقے، ہر طبقے اور ہر ادارے میں موجود تھے اور ہیں۔یوں یہ جنگ لڑنے والے جوان اور افسران جذباتی بھی ہیں اور بہت چارجڈ بھی۔ وہ بجا طور پر توقع کرتے ہیں کہ اس قوم کا ہر فرد ان کا اور ان کی آئندہ نسلوں کا احسان مند رہے اور اگر اس جنگ میں ان سے کسی غلطی یا تجاوز کا صدور ہوا بھی ہے تو اس سے درگزر کرکے اسے ہیرو اور محسن مانا جائے۔
عوام اور بالخصوص پختون بھی تاریخ کے مشکل ترین دور سے گزرے اور اب بھی گزررہے ہیں۔ ابتدا میں انہیں ریاست کی طرف سے کہا گیا کہ وہ پاکستان کی خاطران عسکریت پسندوں، جو پہلے مجاہدین اور پھر طالبان کہلائے، کو گلے سےلگالیں۔ چنانچہ انہوں نے اپنے گھربار اور چراگاہیں ان کے لئے کھول دیں۔ پھر ریاست کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے وہ طالبان ان پختونوںکے گلے پڑگئے- ان کے زعمااور لیڈر ان لوگوں کے ہاتھوں قتل ہوتے رہے۔ ان کی معیشت تباہ ہوئی۔ ان کی ثقافتی اقدار تک کو تبدیل کیا گیا۔ لمبے عرصے تک ریاست تماشہ دیکھتی ۔ پھر یہاں بڑی تعداد میں سیکورٹی فورسز کو بھیجا گیا جنہیں ان لوگوں نے پاکستان کی خاطر ہار پہنائے اور سرآنکھوں پر بٹھایا۔ ابتدا میں ان کو ان عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی کی اجازت نہیں تھی یا پھر ان میں اچھے بُرے کی تفریق کی جارہی تھی جس کی وجہ سے ان لوگوں کا ڈپریشن یوں بڑھتارہا کہ وہ دیکھتے کہ وہی عسکریت پسند یہاں حسب سابق سرگرم عمل ہیں لیکن ان کے خلاف کارروائی نہیں ہورہی جبکہ ان کو مارنے کے لئے امریکی ان کے علاقوں میں ڈرون حملے کررہے ہیں۔ پھر ایک وقت آیا کہ ریاست نے عسکریت پسندوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کا فیصلہ کیا اور بڑے پیمانے پر آپریشن کا آغاز کیا ۔چنانچہ ایک دن اچانک ان پختونوں کو گھروں سے نکلنے کا حکم ملا ۔ لاکھوں کی تعداد میں یہ لوگ گھربار ، کاروبار ، فصلیں اور باغات چھوڑ کر ہجرت پر مجبور ہوئے۔ وہ جب مہاجر بن گئے تو ان کے لئے ریاست کی طرف سے کوئی مناسب اور متبادل بندوبست نہیں تھا۔ کراچی سے لے کر پشاور تک وہ ذلیل اور خوار ہوتے رہے کیونکہ یہاں بھی انہیں اس شک کے ساتھ دیکھا جاتا رہا کہ وہ دہشت گرد یا دہشت گردوں کے معاون ہیں۔ کوئی سال مہاجر رہا ، کوئی پانچ سال اور کوئی آج بھی مہاجرہے۔ ان لوگوں کے ساتھ پولیس اور ریاست کی طرف سے کیا سلوک ہوتا رہا ، اس کی ایک زندہ مثال نقیب اللہ محسود ہے۔ آپریشنوں کے بعد جو لوگ واپس جارہے تھے تو ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ پاکستان کی خاطرہجرت کی قربانی دینے والے ان قبائلیوں کو ہار پہنائے جاتے لیکن ان بیچاروںکو ایک بار پھر عذاب سے گزرنا پڑا۔ ان کی واپسی کے لئے یہ شرط رکھی گئی کہ وہ پاکستان کے ساتھ وفاداری کا دوبارہ حلف اٹھائیں گے اور جان لیواا سکروٹنی سے گزرنے کے بعد وطن کارڈ کے ذریعے ہی کئی چیک پوسٹوں پر سے گزر کر اپنے علاقوں کو واپس جائیںگے۔ وہ اپنے علاقوں میں واپس پہنچے تو پتہ چلا کہ جنگ کے نتیجے میں سب کچھ تباہ ہوگیا ہے۔بدقسمتی سے سیاسی جماعتوں نے ان لوگوں کی ترجمانی کی اور نہ میڈیا نے ۔ چنانچہ خود ان کے اندر سے نوجوانوں کی ایک تحریک اٹھی اور پلک جھپکتے سارے متاثرین اس کے گرد جمع ہونے لگے- ان لوگوں کا پورا کیس بحیثیت مجموعی بالکل درست نظر آتا ہے لیکن بدقسمتی سے ان کے بیانیے میں غصہ بھی ہے اور بعض حوالوں سے تجاوز بھی نظر آتا ہےجبکہ ریاست کے پاس ان لوگوں سے متعلق کوئی جامع پالیسی نظر نہیں آتی بلکہ وہ فائرفائٹنگ کرتی نظرآتی ہے ۔
ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ دہشت گردی اور عسکریت پسندی کے یہ دونوں متاثرین اور ہیرو(سیکورٹی فورسز اور متاثرہ پختون) یک جان دو قالب ہوتے لیکن بدقسمتی سے ان کو ایک دوسرے کے مقابل لاکھڑا کرنےکی سازش ہورہی ہے- المیہ یہ ہے کہ دونوں متاثرہ فریق بہت جذباتی ہیں ۔ہرفریق کی قربانی اتنی زیادہ اور دکھ اتنا گہرا ہے کہ وہ دوسرے فریق کے دکھ اور مجبوریوں کا پوری طرح احساس نہیں کرسکتا جس کی وجہ سے ایک دوسرے پر قربان ہونے کی بجائے وہ ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہونے کو تیار ہے۔ بدقسمتی سے سیاسی جماعتیں یا تو تماشہ دیکھ رہی ہیں یا پھر اپنے اپنے مفاد کی خاطر ایک فریق یا دوسرے فریق کی ہاں میں ہاں ملارہی ہیں۔ یوں تو ہر سیاسی لیڈر کا فرض ہے لیکن میرے نزدیک اس معاملے میں سب سے زیادہ ذمہ داری اسفندیار ولی خان ، آفتاب شیرپائو اور نواب ایاز جوگیزئی جیسے لوگوں کی بنتی ہے۔ یہ ایسے لوگ ہیں جن پر دونوں فریق اعتماد کرسکتے ہیں۔ ان کو اور ان جیسے لوگوں کو چاہئے کہ وہ آگے بڑھیں اور فریقین میں مکالمہ کروا کے انہیں ایک دوسرے کی مجبوریوں کا احساس دلائیں اور مل بیٹھ کر ایسا راستہ نکالیں کہ جس کے نتیجے میں دونوں فریق ایک دوسرے کے زخموں کو مزید گہرا کرنے کی بجائے ان پر مرہم رکھنے کے قابل ہوسکیں۔