اتوار، 27 جنوری، 2019

درندگی کا کلچر

پارلیمانی نظام کا مستقبل

عمران کے وسیم اور انضمام، حقیقت کیا ہے؟

محمد بلال غوری

ترازو


بالعموم سپاہی کے بارے میں کہا جاتا ہے کوئی شخص ایک بار سپاہی بن گیا تو پھر وہ زندگی بھر سپاہی رہتا ہے لیکن شاید یہ بات کھلاڑیوں پر بھی صادق آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہردلعزیز اسکپر کسی بھی موقع پر کرکٹ کا حوالہ دینا نہیں بھولتے۔ ان کی کوئی تقریر 92کے ورلڈ کپ اور کرکٹ کی اصطلاحات کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔ جب وہ اپوزیشن میں ہوا کرتے تھے تو بائونسر کروانے اور وکٹیں اُڑانے کی باتیں ہوتیں یہاں تک کہ انہوں نے ایک بال سے بیک وقت دو وکٹیں اڑانے کا دعویٰ بھی کیا۔ ان کا خیال ہے کہ اب فیلڈنگ کا مرحلہ تمام ہوا، اس لئے وہ جارحانہ بلے بازی کی باتیں کرتے ہیں۔ چند روز قبل قطر میں پاکستانیوں سے خطاب کرتے ہوئے اسکپر نے بتایا کہ جب ہم نے بیٹنگ شروع کی تو پاکستان 20رنز کے مجموعی اسکور پر 4وکٹیں گنوا چکا تھا لیکن اب فکر کی کوئی بات نہیں، میانداد اور عمران خان وکٹ پر موجود ہیں۔ جب انہوں نے میانداد کا حوالہ دیا تو مجھے 1987ء ورلڈ کپ کا پہلا سیمی فائنل یاد آگیا جو لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں آسٹریلیا اور پاکستان کے مابین کھیلا گیا۔
پاکستان نے 267رنز کے تعاقب میں اپنی اننگز شروع کی تو میچ پر گرفت بہت مضبوط تھی۔ جاوید میانداد اور عمران خان وکٹ پر موجود تھے اور فکر کی کوئی بات نہ تھی۔ جاوید میانداد 70رنز بناکرکلین بولڈ ہوئے تو عمران خان بھی 58رنز بنا کر کیچ آئوٹ ہو گئے۔ ایک موقع پر 45گیندوں پر محض 31رنز درکار تھے لیکن وکٹیں گرنے کے باعث پاکستان یہ میچ ہار گیا۔ شکست کے بعد اسکپر منہ بسور کر زمان پارک میں بیٹھ گئے اور اسپورٹس رپورٹرز کو بلا کر بتاتے رہے کہ یہ میچ پاکستان میاندادکی سلو بیٹنگ کی وجہ سے ہارا ہے۔ بہرحال اسکپر کو کھیل میں سیاست کے فن پر عبور حاصل تھا اس لئے بہت جلد میانداد کا پتا صاف کرنے میں کامیاب ہو گیا۔
جب عثمان بزدار کو وزیراعلیٰ پنجاب بنانے کی مخالفت ہوئی تو اسکپر نے کہا، میرا یہ انتخاب وسیم اکرم کی طرح درست ثابت ہوگا اور عثمان بزدار ایک دن وسیم اکرم پلس بنے گا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا وسیم اکرم واقعی عمران خان کا انتخاب تھا اور یہ موازنہ درست ہے؟ زندگی بھر اسپورٹس رپورٹنگ کرنے والے صحافی بتاتے ہیں کہ وسیم اکرم کبھی عمران خان کا انتخاب نہیں رہے۔ لاہور کے علاقے مزنگ کا رہائشی وسیم اکرم لاہور میں ’’کھبا‘‘ کے نام سے مشہور تھا اور لُدھیانہ جمخانہ کی طرف سے کھیلا کرتا تھا۔ چونکہ لُدھیانہ جمخانہ ان دنوں لاہور کرکٹ ایسوسی ایشن کی مقامی سیاست میں اپوزیشن کیمپ کا حصہ تھا اس لئے اسے چانس نہ دیا گیا۔ لیجنڈری خان محمد جو پاکستان کی پہلی ٹیسٹ ٹیم کا حصہ تھے، انہیں بلا کر لاہور قذافی اسٹیڈیم میں ٹیلنٹ ہنٹ کیمپ لگایا گیا۔ خان محمد نے کہا کہ ’’کھبے‘‘ کو دو سال کی کرکٹ مل گئی تو یہ اڑا کر رکھ دے گا۔ ان دنوں نیوزی لینڈ کی ٹیم پاکستان آ رہی تھی، اسکپر نے کھیلنے سے انکار کر دیا۔
کرکٹ بورڈ نے میانداد کی منت سماجت کی، میانداد نے اس شرط پر ٹیم کی کپتانی کرنے پر آمادگی ظاہر کی کہ نیوزی لینڈ ریٹرن ٹور بھی انہی کی کپتانی میں بھیجا جائے گا۔ نیوزی لینڈ کی ٹیم آئی تو 3روزہ پریکٹس میچ میں وسیم اکرم کو پریزیڈنٹ الیون کی جانب سے کھلایا گیا تو اس نے شاندار بائولنگ کی اور 7وکٹیں لے اُڑا۔ لیکن وسیم اکرم کو قومی ٹیم میں چانس نہ دیا گیا اور پھر جب میانداد کی کپتانی میں ریٹرن ٹور نیوزی لینڈ گیا تو وسیم اکرم کو موقع دیا گیا، یوں وسیم اکرم کو کسی حد تک جاوید میانداد کا انتخاب کہا جا سکتا ہے یا پھر اس دریافت کا سہرا لیجنڈری خان محمد کو جاتا ہے۔
کرکٹ سے شناسائی رکھنے والے جانتے ہیں کہ اسکپر کی نظر انتخاب دو کھلاڑیوں پر ٹھہری اور وہ دونوں کامیاب اننگز نہ کھیل سکے۔ منصور اختر ایک نجی بینک کی طرف سے کھیلا کرتے تھے اور فرسٹ کلاس کرکٹ کے بہترین بلے باز تھے۔ انہوں نے فرسٹ کلاس کرکٹ میں 561رنز کی شراکت کا ورلڈ ریکارڈ بھی بنایا۔ اسکپر نے منصور اختر کو نہ صرف ٹیم میں جگہ دی بلکہ اوپننگ بلے باز کے طور پر کھلایا لیکن یہ تجربہ ناکام ہو گیا اور منصور اختر عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ نہ کر سکے تو اسکپر نے جم کر دفاع کیا اور بتایا کہ یہ ڈومیسٹک کا بہترین بلے باز ہے، ایک دن انٹرنیشنل کرکٹ میں بھی بلے بازی کے جوہر دکھائے گا۔ اسکپر نے شدید مخالفت کے باوجود منصور اختر کو 41ون ڈے میچ کھلائے اور وہ 35اننگز میں 17.4کی اوسط سے صرف 593اسکور بنا سکے اور سب سے زیادہ اسکور 47رہا۔ اسکپر لوگوں کی تنقید کو خاطر میں لانے کے روادار نہیں مگر جب کوچ اور سلیکشن کمیٹی نے فیصلہ کرلیا تو پھر ہار ماننا پڑی۔ اسی طرح لیفٹ آرم لیگ اسپنر ندیم غوری جنہوں نے بطور امپائر خاصا نام کمایا، وہ بھی اسکپر کا غلط انتخاب ثابت ہوئے۔ 1990ء میں آسٹریلیا کے خلاف سیریز کے دوران اسکپر نے روایتی انداز میں سوچھے سمجھے بغیر ندیم غوری کو بلایا اور پوچھا:آسٹریلیا کے خلاف کھیلو گے؟ اس نے کہا:ہاں! کیوں نہیں۔ اسکپر نے کہا:تو پھر آ جائو۔ ندیم غوری ٹیسٹ میچ میں کوئی وکٹ نہ لے سکے۔ بعد ازاں 6ون ڈے میچوں میں بھی موقع دیا گیا لیکن عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ نہ دکھا سکے۔
اسکپر اب سیاسی اننگز کو کرکٹ کے انداز میں کھیل رہے ہیں تو ان کی مرضی لیکن کرکٹ اصطلاحات کا حوالہ دیتے ہوئے موازنہ تو درست کیا کریں۔ حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے اپنی سیاسی اننگز کا آغاز بغیر کسی وکٹ کے نقصان پر کیا تھا اور بہت کم اسکور پر ان کی وکٹیں گر چکی ہیں حالانکہ اس سے قبل انہیں خیبر پختونخوا میں نیٹ پریکٹس کا بھی بھرپور موقع دیا گیا تھا۔ جہاں تک پنجاب میں عثمان بزدار اور خیبر پختونخوا میں محمود خان کے انتخاب کا تعلق ہے، ان کا موازنہ وسیم اکرم اور انضمام سے کرنا درست نہ ہوگا کیونکہ یہ دونوں کھلاڑی کبھی اسکپر کا انتخاب نہیں رہے۔ ہاں! البتہ ان دونوں کو منصور اختر اور ندیم غوری سے تشبیہ دی جا سکتی ہے۔ اگر کوئی اس واہمے میں مبتلا ہے کہ اسکپر کو غلطی کا احساس ہو گیا ہے، اس لئے انتخاب پر نظر ثانی متوقع ہے تو وہ اپنا مغالطہ دور کر لیں، اسکپر کسی قسم کی مخالفت یا تنقید کو خاطر میں نہیں لاتا، البتہ ڈریسنگ روم میں بیٹھے وہ کوچ جنہوں نے اسے اسکپر بنایا، کی طرف سے فیصلہ ہو جائے تو سرتابی نہیں کی جا سکتی۔ اور بظاہر یوں لگتا ہے کہ ان کی طرف سے فیصلہ ہوچکا ہے۔

ہے نا مزے کی بات!

ارشاد بھٹی


ہے نا مزے کی بات، اسلام آباد کے ایک معروف ہوٹل کی جگہ فلیٹ، شاپنگ مال، درجنوں بے ضابطگیاں، عدالت کا فیصلہ خلاف، پھر بھی نوٹسز، سب کو سنا گیا اور آخرکاربڑی عدالت نے تینوں ٹاورز ’ریگولرائز‘ کر دیئے، چک شہزاد کے غیر قانونی فارم ہاوسز، نوٹسز بھیجے گئے، سب مالکان کو بلایا گیا، آخرکار تمام فارم ہاؤسز قانونی ہوئے، ہلکے پھلکے جرمانے، وہ بھی قسطوں میں مگر خیبر سے کراچی تک غریبوں کی دکانیں، گھر گرا دیئے گئے، نوٹس، شنوائی نہ کوئی متبادل بندوبست، ہزاروں لوگ بے گھر، کاروبار بھی گیا، ہے نا مزے کی بات۔ ایک اور کیس میں سابق میئر کراچی نعمت اللہ کی 2010ء کی پٹیشن کا سُنا جانا، بات جام صادق علی پارک کی ہونا، پتا چلنا پارک تجاوزات کی نذر ہو چکا، معاملہ آگے بڑھنا، کراچی ماسٹر پلان کے سوا ستیاناس کی الف لیلہ داستانوں کا سامنے آ جانا، ایم کیو ایم، پیپلز پارٹی کا مبینہ طور پر یوں نوٹ چھپانا کہ 5سو غیر قانونی عمارتیں بنوا دینا، پارکوں، کھیل کے میدانوں، اسپتالوں، قبرستانوں تک کا بک جانا، رہائشی پلاٹوں پر شادی ہال، شاپنگ سنٹرز، پلازے بن جانا،عدالت کا یہ کہنا ’’شہر کو لاوارث، جنگل، گٹر بنا دیا، شہر نہیں سنبھال سکتے تو کسی کو دیدو، کام نہیں کرنا تو عہدوں سے کیوں چمٹے بیٹھے، آپ کے تو چپراسی کروڑ پتی ہو چکے، کراچی کو اس حال میں دیکھ کر شرم نہیں آتی، سب مال بنا رہے، مال باہر جا رہا، کراچی خالی دعاؤں سے ٹھیک نہیں ہوگا، صرف دعاؤں سے سب ٹھیک ہو جاتا تو آج عراق، شام، یمن، افغانستان کا یہ حال نہ ہوتا‘‘۔
جسٹس امیر ہانی مسلم کی واٹر کمیشن رپورٹ پڑھ لیں، رونا آ جائے، لگے کراچی یتیم کا مال، اس سے پہلے چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ کہہ چکے ’’لاڑکانہ کے فنڈز بھی کھا گئے، ایک گھر تو ڈائن بھی چھوڑ دے‘‘۔ ثاقب نثار نے کئی بار کہا ’’جس دن لانچوں میں پیسہ دبئی جانا بند ہو جائے گا، سندھ کے حالات بہتر ہو جائیں گے‘‘، پھر 26دنوں میں 40بچے علاج کی سہولتیں نہ ہونے پر صرف ایک مٹھی اسپتال میں مر گئے، مائیں سیشن جج کو دکھ سناتے سناتے رو پڑیں۔ یہ سندھ، جہاں کے بلاول کو خوبصورت تقریروں سے فرصت نہیں، یہ سندھ، جہاں کے زرداری صاحب سے مبینہ کرپشن، کمیشن، منی لانڈرنگ، لوٹ مارکا پوچھ لو تو اٹھارہویں ترمیم، سندھ کی خود مختاری خطرے میں پڑ جائے، یہ سندھ، جہاں عام انسان جنگلوں، گٹروں میں رہ رہا جبکہ زرداری صاحب اینڈ کمپنی کی موجاں ای موجاں، یہ سندھ، جہاں کروڑوں محرومیوں، بے بسیوں کی نذر جبکہ ایک بڑے گروپ کے مزے، یہ سندھ، جہاں اگر کسی کی سو فیصد ضروریات پوری ہو رہیں تو وہ لیڈروں کے کتے۔
ہے نا مزے کی بات! 29اگست 2018ء کو چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال وزیراعظم سے ملنے جائیں تو ہاتھ ملاتے عمران خان بات یہاں سے شروع کریں ’’جاوید اقبال صاحب صرف 6ماہ میں جو عزت آپ نے کمائی، وہ بلاشبہ قابلِ تحسین، حکومت آپ کے ساتھ کھڑی، بلاامتیاز احتساب کریں، حکومتی عہدیداروں سے بھی NOرعایت‘‘، ملاقات کے اختتامی لمحات میں چیئرمین نیب کہیں ’’نیب کے فنڈز رکے ہوئے، وہ دلوا دیں‘‘ وزیراعظم ہفتے دس دن کے اندر فنڈز دینے کا وعدہ کریں اور پھر 4ماہ گزر جائیں بلکہ 17جنوری 2019ء کو وفاقی کابینہ میں ایجنڈا آئٹم آئے کہ نیب نے 75کروڑ مانگے، عمران خان برہم، وزراء بھڑک اُٹھیں ’’نیب نے کیا کیا، جو اسے پیسے دیں، پلی بارگین کی رقمیں کہاں گئیں، پہلے نیب کا آڈٹ کیا جائے‘‘ یوں نماز بخشوانے گئے تھے، روزے گلے پڑ گئے، دوسروں کا حساب کرنے والے نیب کا اپنا حساب ہونے لگا، یہ کیوں؟ یہ اس لئے کہ نیب زلفی بخاری سے پرویز خٹک تک، علیم خان سے محمود خان تک، پرنسپل سیکرٹری اعظم خان سے بابر اعوان تک حکومتی پیاروں کو بلانے، سوال کرنے کی جرأت کر بیٹھا، سوچوں صرف ایک سال میں 590ریفرنسز دائر کرنے والے نیب کی اس سے بہتر کارکردگی اور کیا کہ پی پی، ن لیگ سمیت تمام اپوزیشن مخالفت کر رہی اور حکومت بھی تنگ۔
ہے نا مزے کی بات! جیسے 6ماہ ضائع کرنے کے بعد سوچا جا رہا کہ کیوں نہ عثمان بزدار، محمود خان کی جگہ نئے وزرائے اعلیٰ لائے جائیں، ویسے ہی سانحہ ساہیوال کے بعد سوچا جا رہا کیوں نہ پنجاب میں پولیس اصلاحات کر لی جائیں، تاریخ تو یہی بتائے کہ ہر اپوزیشن کی خواہش پولیس اصلاحات ہوں اور ہر حکومت کی کوشش کہ ایسا نہ ہی ہو تو بہتر، لیکن پچھلوں سے تو پولیس اصلاحات کی توقع و امید تھی نہ انہیں اصلاحات Suitکریں، کیونکہ پی پی، ن لیگ دونوں کی سیاست تھانے، کچہری، پٹواری کے بل بوتے پر، پولیس ان کی ذاتی محافظ بھی،ووٹ لینے، مخالفین کو دبانے کا آلہ بھی، پنجاب میں 10سال 3ہزار اہلکار تو ہاؤس آف شریفس کی حفاظت کرتے رہے جبکہ سندھ میں پولیس زرداری، اومنی گروپ کی شوگر ملوں کو گنا پہنچانے میں لگی ہوئی، لہٰذا اصلاحات کی پہلے اور اب بھی امید عمران خان سے ہی، یہ علیحدہ بات کہ پولیس اصلاحات کے سرخیل، فلم تبدیلی کے پوسٹر بوائے ناصر درانی گئے تو کپتان نے مڑ کر خبر نہ لی، ہے نا مزے کی بات! سندھ میں 2002ء سے 2011ء تک پولیس آرڈر چلتا رہا، پھر جمہوریت آئی اور 1861ء کا پولیس ایکٹ آگیا، گلگت بلتستان، آزاد کشمیر میں بھی 1861ء والا پولیس ایکٹ، بلوچستان میں بھی 2002ء سے 2011ء تک پولیس آرڈر چلا، پھر 1861ء پولیس ایکٹ، بلوچستان میں تو صورتحال ایسی مضحکہ خیز کہ ان کے پولیس ایکٹ میں ایک شق یہ بھی ’’ہاتھیوں کی موومنٹ کو ریگولیٹ کیا جائے گا‘‘، بلوچستان کے بقراطوں کو یہ توفیق بھی نہ ہوئی کہ ہاتھیوں کی جگہ آج کا کوئی جانور ہی ڈال دیتے، یہ بھی دیکھئے کہ فیض آباد یعنی راولپنڈی میں 2002ء کا پولیس آرڈر، فیض آباد سے دو کلومیٹر آگے اسلام آباد میں 1861ء کا پولیس آرڈر جبکہ اسلام آباد سے چند کلومیٹر آگے ترنول پھاٹک کی دوسری طرف کے پی میں 2016ء پولیس کا آرڈر۔
ہے نا مزے کی بات! حکومت فرما رہی آپریشن ساہیوال درست مگر خلیل فیملی کا مرنا غلط، جی بالکل، آپریشن درست، آپریشن میں مرنیوالے غلط، یعنی 5سی ٹی ڈی اہلکاروں پر ایف آئی آر ہو چکی، سی ٹی ڈی سربراہ سمیت دو ایڈیشنل آئی جی عہدوں سے ہٹا دیئے گئے، دو تین افسر برطرف، پھر بھی آپریشن درست، ہے نا مزے کی بات، 6مہینے ہونے کو آئے، قومی و صوبائی اسمبلیوں میں روزانہ احتجاج، واک آوٹ، لڑائیاں، زبان درازیاں لیکن ایک واک آوٹ، احتجاج، لڑائی، زبان درازی، مہنگائی، بیروزگاری مطلب عوامی مسائل پر نہیں، سب کا سب کچھ اپنے لئے، اپنوں کیلئے، ہے نا مزے کی بات، آج کل پی پی کا مقدمہ ن لیگ لڑ رہی، ن لیگ کے مسائل پی پی والے حل کر رہے، مطلب بھٹو کے کام ضیاء کر رہا اور ضیاء کے کام بھٹو نمٹا رہا، ہے نا مزے کی بات، ملک کا وزیراعظم کھلاڑی، کرکٹ رینگ رہی، ہاکی کا بھٹہ بیٹھا ہوا، اسکواش کا کوئی پرسانِ حال نہیں، ٹیبل ٹینس، بیڈ منٹن، ٹینس، والی بال سب کھیل زوال پذیر اور کھلاڑی وزیراعظم کو فکر نہ فاقہ، ہے نا مزے کی بات! 22جنوری 2016ء کو عمران خان نے کہا ’’ٹیکس ایمنسٹی ایمانداری پر ٹیکس، یہ کالا دھن سفید کرنے کا اجازت نامہ، ٹیکس چوروں کی مدد، اقتدار میں آکر ایمنسٹی اسکیم ختم کر دوں گا‘‘ اور پھر اقتدار میں آکر ابھی دو دن پہلے 25جنوری 2019ء کو عمران خان صاحب بولے ’’ٹیکس ایمنسٹی لینے والوں کو ہراساں نہ کیا جائے‘‘، ہے نا یہ مزے کی باتیں، ویسے تو ایسی مزے کی باتیں، جمہوری مزے مطلب جمہوری چٹکلے اور بھی، مگر آج اتنا ہی۔

حکومتوں کا زوال ۔۔

ڈاکٹر عبدالقدیر خان

سحر ہونے تک






حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو علم کا خزینہ تصور کیا جاتا ہے۔ آپ کے اقوالِ زرّیں ہر موضوع اور ہر صورتحال کیلئے موجود ہیں۔ آپؓ نے فرمایا تھا ’’اقتدار کفر کے ساتھ قائم رہ سکتا ہے مگر ظلم کے ساتھ قائم نہیں رہ سکتا‘‘۔ ’’الحکم بیقی مع الکفر ولا بیقی مع الظلم‘‘۔
ابھی جو ساہیوال کا دردناک واقعہ پیش آیا ہے اور اس سے پیشتر ماڈل ٹائون کا قتل عام، اس سے پیشتر بلوچستان میں بیگناہ وسط ایشیا کے باشندوں کا قتل عام، ایسے واقعات ہیں کہ ظالم لوگ اللہ تعالیٰ کی گرفت اور عتاب سے بچ نہیں سکیں گے۔ماڈل ٹائون کا حساب لیا گیا مگر براہ حجت کچھ مہلت دیدی گئی تھی۔ آج ذمہ داروں کی حالت زار دیکھ کر اللہ رب العزّت سے توبہ استغفار کیا جاتا ہے۔ ساہیوال کا واقعہ بھی اُسی طرح ظلم و قتل و غارت گری کا جیتا جاگتا نمونہ ہے اور یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ یہ ظلم کرنے والے اللہ کے عتاب سے محفوظ رہ سکیں۔
مجھے اس واقعہ سے بھوپال کا ایک واقعہ یاد آیا۔ ہمارے پڑوس میں صوبیدار (ر) حیدر پاشا رہتے تھے، یہ جاگیردار تھے اور انکے بارے میں مشہور تھا کہ یہ اپنے گائوں والوں پر بہت ظلم کرتے ہیں اور ان کی زمینیں بزور قوت ہتھیا لیتے ہیں۔ انکا بیٹا کاظم پاشا بھی کچھ کم نہ تھا۔ ایک روز حیدر پاشا کسی گائوں والے کو اُلٹا لٹکا کر زدو کوب کر رہے تھے کہ ایک رحمدل مسلمان ملازم سے یہ دیکھا نہ گیا، اسکے ہاتھ میں نیزہ تھا۔ دیہاتی وہاں جنگلی جانوروں سے حفاظت کیلئے نیزے رکھتے تھے۔ اس شخص نے نیزہ اُٹھایا اور حیدر پاشا کی کمر میں اس زور سے مارا کہ وہ اس کے سینہ سے نکل گیا اور وہ وہیں تڑپ تڑپ کر مر گیا۔ کاظم پاشا نے اسکے خاندان پر بہت ظلم ڈھائے۔ ایک روز کاظم پاشا کا بیٹا اسکوٹر پر جا رہا تھا کہ ایک شخص نے قریب آکر اسکے سر میں گولی مار دی اور وہ وہیں مر گیا۔ گویا کاظم پاشا نے باپ اور بیٹے کے قتل کا صدمہ اُٹھایا اور اپنے غلط کاموں کی سزا بھگتی۔
تاریخ ایسے ہزاروں واقعات سے بھری پڑی ہے۔ خود ہمارے اپنے ملک میں ظلم کرنے والے جاگیرداروں اور وڈیروں کا انجام دیکھ لیجئے۔ انسان اگر پھر بھی سبق حاصل نہ کرے تو اس سے بدقسمت و بدبخت کون ہو سکتا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے ظلم و زیادتی کرنیوالوں (یعنی اس کی نافرمانی کرنیوالوں) کو سختی سے انتباہ کیا ہے کہ ان کیلئے سخت عذاب اور جہنم ہے۔ مثلاً (1)سورۃ آل عمران، آیت 32میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’اور اگر وہ اللہ کی نافرمانی کرینگے تو سمجھ رکھیں کہ اللہ کافروں سے ذرا بھی محبت نہیں رکھتا‘‘۔ (2)سورۃ النساء، آیت 14میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’اور جو کوئی اللہ اور اسکے رسول کی نافرمانی کریگا اور اسکے احکامات کی حدود سے باہر نکل جائیگا، اللہ اُسے دوزخ کی آگ میں داخل کر دیگا۔ اس میں وہ ہمیشہ پڑا رہیگا اور اُسے ذلّت دینے والا عذاب ملے گا‘‘۔ (4)سورۃ الفتح، آیت 16میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’اور اگر تم روگردانی کرو گے جیسا کہ اس سے پہلے تم روگردانی کر چکے ہو تو اللہ تمھیں دردناک عذاب کی سزا دے گا‘‘۔ (4)سورۃ الجن، آیت 23میں اللہ تعالیٰ انتباہ کرتا ہے ’’اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا تو یقیناً ایسے لوگوں کیلئے دوزخ کی آگ ہے، جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے رہیں گے‘‘۔ (5)سورۃ التوبہ، آیت 72میں اللہ تعالیٰ سخت انتباہ کرتا ہے ’’اگر یہ منافق لوگ روگردانی کریں گے تو اللہ انہیں دنیا اور آخرت میں دردناک سزا دے گا اور ان کا روئے زمین پر نہ کوئی دوست و یار ہو گا اور نہ ہی مددگار‘‘۔ (6)سورۃ النساء، آیت 94 میں اللہ رب العزّت فرماتا ہے کہ ’’تم تو دنیا کی زندگی کا سر و سامان چاہتے ہو، سو یقین رکھو کہ اللہ کے ہاں بہت انعامات ہیں‘‘۔ (7)سورۃ الانعام میں فرمانِ الٰہی ہے کہ ’’اور دنیا کی زندگی کچھ نہیں بجز کھیل کے اور تماشے کے اور یقیناً آخرت کا گھر پرہیزگاروں کیلئے بہت بہتر ہے تو کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے‘‘۔ (8)سورۃ الانفال، آیت 28میں رب العزّت فرماتا ہے ’’اور خوب جان لو کہ تمہارے اموال اور تمہاری اولاد سراسر آزمائش کی چیزیں ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے ہاں بڑا اجر ہے‘‘۔ (9)سورۃ آل عمران، آیت 10میں فرمانِ الٰہی ہے کہ ’’بلاشبہ جن لوگوں نے کفر کیا (گناہ کئے) ان کو ان کے اموال اور ان کی اولاد اللہ کے مقابلہ میں ہرگز کام نہ آئینگے اور یہ لوگ دوزخ کی آگ کا ایندھن ہیں‘‘۔ (10)سورۃ الرعد، آیت 26میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’اور کافروں (گنہگاروں) کیلئے تباہی ہے سخت عذاب کی وجہ سے جو دنیا کی زندگی کو آخرت کے مقابلے میں پسند کرتے ہیں‘‘۔
دیکھئے! کلام مجید میں سخت انتباہ کیا گیا ہے کہ منافق، مشرک اور وہ مسلمان جنھوں نے بلاکسی جائز وجوہ کے کسی مسلمان کو قتل کیا ان کی ہرگز بخشش نہیں ہوگی اور وہ ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں جلتے رہیں گے۔
ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے یہاں عام تقاریر میں، وعظوں میں، خطبوں میں زیادہ تر دنیاوی باتوں میں وقت لگا دیتے ہیں اور لوگوں کو یہ نہیں بتلاتے کہ وہ جو یہ قتل بلا جواز کرتے ہیں اس کیلئے ان کو نہایت سخت درد دینے والا عذاب جہنم ملے گا۔ اگر قاتلوں کو یہ بات سمجھا دی جائے تو وہ بے گناہ لوگوں کو قتل کرنے سے پہلے کئی بار سوچیں گے کہ اسکا انجام ان کیلئے بہت ہی دردناک مستقل عذاب ہو گا۔ وہ دوزخ میں جلتے رہیں گے اور اللہ تعالیٰ ان کی کھال بار بار بدلتا رہیگا کہ وہ اپنے گناہوں کا خمیازہ بھگتیں۔ اور انسان کے بدن میں اس کی کھال سب سے زیادہ حساس ہوتی ہے، آپ کی انگلی کبھی ماچس کی تیلی سے جل گئی ہو تو آپ کو اسکا احساس ہوگا۔پچھلے دنوں (23 جنوری) کو وزیر خزانہ جناب اسد عمر نے ایک اور منی بجٹ پیش کر دیا۔ عوام اور تاجروں کے ملے جلے تاثرات سامنے آ رہے ہیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ پچھلی حکومت میں اکثر لوگ تجربہ کار مگر بے ایمان تھے اور جان بوجھ کر کرپشن میں مبتلا رہتے تھے۔ اس حکومت میں لوگ ناتجربہ کار ہیں اور جو کچھ وہ سمجھتے ہیں یا کوئی اُن سے کچھ کہہ دیتا ہے اس پر عمل شروع کر دیتے ہیں۔ نئے بجٹ میں کافی اچھی باتیں ہیں اور اُمید ہے کہ اس سے معیشت کو سہارا ملے گا۔بہت پہلے میں نے امریکی پروفیسروں (MIT)کی تحریر کردہ کتاب ’’Why Nations Fail‘‘ پر تبصرہ کیا تھا، اس کتاب یا تحقیق کا لب لباب یہ تھا کہ حکمران خود کم ہی ماہر ہوتے ہیں لیکن وہ اگر سمجھداری سے کام لیں تو کامیاب ہو سکتے ہیں۔ ہماری تاریخ میں حضرت عمرؓ، حضرت عمرؒ بن عبدالعزیز، خلیفہ ہارون الرشید وغیرہ بہت کامیاب حکمراں گزرے ہیں، اُن کی کامیابی کا راز اُن کی مردم شناسی اور اچھی ٹیم کا چنائو تھا۔ ہر شخص ہر کام میں ماہر نہیں ہوتا۔ مگر سمجھدار حکمراں اچھے، تجربہ کار، مخلص اور ایماندار رفقائے کار کا چنائو کرتے ہیں اور کامیاب رہتے ہیں۔ موجودہ حکومت کو چاہئے کہ خود ساختہ، خودکار ماہرین کے بجائے تجربہ کار بزنس مینوں کو اپنے ساتھ ملائیں اور معاشی پالیسیاں بنائیں۔ جناب ایس ایم مُنیر، جناب عارف حبیب، جناب زبیر طفیل، سردار یٰسین ملک وغیرہ کی ٹیم سے مشورہ لیں تو یقیناً معیشت بہت جلد اُڑان بھر لے گی۔ نیچے کا کام آپ کمشنروں سے لیں، ان پر ذمہ داریاں ڈالیں اور ان سے نظامِ مملکت میں مدد لیں۔ اسکولوں، کالجوں، ہیلتھ ڈسپینسریوں وغیرہ کو یہ لوگ فوراً فعال کر سکتے ہیں۔ امریکی پروفیسروں نے یہی بتایا تھا کہ اچھے آدمی اچھی جگہ لگائیں، کامیابی آپ کے قدم چومے گی۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ کے بارے میں لوگوں کے تحفظات ہیں، وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ چوہدری سرور اور علیم خان کو حکمرانی دینے کا یہ واحد طریقہ کار تھا۔ بہرحال عوام اب بھی چاہتے ہیں کہ حکومت کامیاب رہے اور ملک ترقی کرے اور عوام کے معاشی حالات تبدیل ہو جائیں۔