جمعہ، 25 جنوری، 2019
تبدیلی میں تبدیلی کا امکان
سلیم صافی
بائیس جنوری کو ’’یہ کمپنی نہیں چلے گی‘‘ کے زیرعنوان اپنے کالم میں استاد محترم سہیل وڑائچ نے جو لطیفہ تحریر کیا ، وہ مجھے محترم محمد علی درانی نے تھوڑی سی ترمیم کے ساتھ ایک اور پیرائے میں سنایا تھا۔ کہتے ہیں کہ ایک نابینا سردار جی کو کم عمری سے شراب پینے کی عادت ہوگئی تھی۔ نابینائوں کی باقی حس چونکہ تیز ہوتی ہیں اس لئے وہ یہ کمال حاصل کرگیا تھاکہ شراب کا گھونٹ پیتے ہی بتا دیتا کہ یہ شراب کی کونسی قسم ہے اور کس کمپنی کی تیار کردہ ہے۔ ایک دن ان کے دوستوں کو شرارت سوجھی۔ انہوں نے کئی کمپنیوں کی شراب ایک بوتل میں ملا دی۔ اس میں پھر کولڈ ڈرنکس وغیرہ کی ملاوٹ بھی کردی۔ دوستوں نے نابینا شرابی کے سامنے اس کوکٹیل کی بوتل رکھی اور چیلنج دیا کہ اگر اس شراب کو بنانے والی کمپنی کا نام انہوں نے بتادیا تو بڑا انعام حاصل کرلیں گے۔ نابینا شرابی اسے پی پی کر سوچتا رہا لیکن کسی نتیجے تک پہنچنے کی بجائے کنفیوژ ہوتا رہا۔ ظاہر ہے اس میں سب کمپنیوں کا مال ملایا گیا تھا۔ آخر میں کہنے لگا کہ لگتا ہے کہ یہ نئی کمپنی مارکیٹ میں آئی ہے لیکن اس کا نام جو بھی ہے چلنے والی نہیں ۔ دیکھا جائے تو پی ٹی آئی بھی اسی طرح کی کوکٹیل ہے اور اس کی حکومت بھی۔ پارٹی دیکھیں تو اسد قیصر کا پس منظر کچھ اور ہے تو پرویز خٹک کا کچھ اور ۔ شاہ
محمودقریشی کے مقاصد کچھ اور ہیں تو جہانگیر ترین کے کچھ اور ۔ فواد چوہدری حد درجہ لبرل اور لیفٹسٹ ہیں تو مولانا نورالحق قادری پکے مذہبی ۔ اعظم سواتی ایک انتہا ہے تو علی محمد خان دوسری انتہا ۔ اسد عمر کا سیاسی اور فکری قبلہ کچھ اور ہے تو ندیم افضل چن کا کچھ اور۔ انیل مسرت کسی اور وجہ سے طاقتور ہیں جبکہ زلفی بخاری اور علی زیدی کسی اور وجہ سے ۔ بزدار کے پیچھے ایک خاتون کا ہاتھ ہے جبکہ محمود خان کے پیچھے ایک لاڈلے کا ۔ غرض ایک زبردست کوکٹیل ہے جو پی ٹی آئی کی صورت میں ہمارے سامنے ہے ۔ پھر اگر حکومت دیکھی جائے تو جیسے شراب کی مختلف قسموں کے کوکٹیل کے ساتھ اس میں مختلف کولڈ ڈرنکس بھی ڈال دی گئی ہوں ۔ ایک طرف اس میں اختر مینگل صاحب کی جماعت کی کولڈ ڈرنک شامل ہے ۔ دوسری طرف اس میں مسلم لیگ (ق) اور ایم کیو ایم کا ہر موسم میں اور ہر جگہ دستیاب شربت ملایاگیا ہے ۔ شیخ رشید احمد کی وہسکی اس کے علاوہ ہے ۔ اخترمینگل کی جماعت کی کولڈ ڈرنک تو پھر بھی کسی حد تک خالص ہے لیکن مسلم لیگ(ق) اور ایم کیوایم کی کولڈ ڈرنکس تو پہلے سے مارکیٹ میں بہت بدنام ہیں ۔ چنانچہ لگتا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت کی یہ نئی کوکٹیل مارکیٹ میں بری طرح فلاپ ہونے جارہی ہے ۔ یہ کوکٹیل چونکہ بڑی محنت سے قوم کے وسیع تر مفاد میں تیار کرکے مارکیٹ میں لائی گئی تھی ، اس لئے ہماری دعا تھی کہ یہ چل سکے لیکن لگتا ہے کہ کوئی دعا اثر کررہی ہے اور نہ دوا اور شاید یہی وجہ ہے کہ میاں شہباز شریف اتفاق فیکٹری کے اپنے سابقہ اور آزمودہ مشروب کی مارکیٹ میں دوبارہ اہمیت پیدا ہونے کے بارے میں بہت پرامید ہوگئے ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی کے مارکیٹنگ منیجرز پریشان ہیں۔ پی ٹی آئی کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ یہ پروپیگنڈے کے زور سے بنی ہے ، پروپیگنڈے کے زور سے چلتی رہی اور پروپیگنڈے کے زور سے اقتدار میں آئی ہے ۔ اس کے رہنمائوں کی تربیت صرف اور صرف پروپیگنڈے کے فن میں ہوئی ہے اور اقتدار میں آکر بھی وہ پروپیگنڈے کو ہی ہر مسئلے کا حل سمجھتے ہیں ۔ پی ٹی آئی میں آگے بڑھنے کا واحد پیمانہ بھی یہی پروپیگنڈا رہا ہے ۔ وہاں نہ حیثیت کو دیکھا جاتا تھا، نہ ماضی کو اور نہ صلاحیت کو ۔ جو لوگ ٹی وی پر آکر ، زبان چلاکر عمران خان صاحب اور پی ٹی آئی کی زیادہ تعریفیں کرسکتے تھے اور مخالفین کو زیادہ سے زیادہ لتاڑسکتے تھے ، انہیں پارٹی میں پوزیشن بھی ملتی، انتخابات کے لئے ٹکٹ بھی ملتے اور پارٹی قیادت کی قربت بھی حاصل ہوتی ۔ چنانچہ پارٹی میں اسی کام کے لئے مقابلہ زوروں پر رہتا اور پارٹی عہدیداروں نے صرف اس کام کی تربیت پائی ہے ۔ ہر پارٹی لیڈر نے اپنی اپنی سوشل میڈیا ٹیم رکھی ہوئی تھی اورمیڈیا ہی کو وہ اپنا بنیادی ہتھیار سمجھتے رہے ۔ سیاہ کو سفید اور سچ کو جھوٹ ثابت کرنے کے فن میں جو کمال پی ٹی آئی کے لوگوں نے حاصل کیا ہے ، پاکستان کی دوسری جماعتیں اس کا تصور بھی نہیں کرسکتیں ۔ چنانچہ اقتدار ملنے کے بعد بھی ساری توجہ اسی بات پر ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں معیشت جیسا اہم سبجیکٹ تنہا ایک بندے کے حوالے کیا گیا ہے ، وہاں میڈیا اور پروپیگنڈے کے لئے ایک درجن سے زیادہ لوگ رکھے گئے ہیں ۔ وفاقی وزیر اطلاعات فوادچوہدری، فیصل جاوید ، افتخاردرانی، نعیم الحق ،یوسف بیگ مرزا ، طاہر اے خان ، ارشد خان اور اسی طرح کئی نابغے اسی کام پر لگے ہوئے ہیں۔ خود عمران خان صاحب بھی میڈیا اداروں اور اینکرز کو ڈیل کررہے ہیں ۔ ۔ کسی اور محکمے کا اجلاس ہو یا نہ ہو لیکن روزانہ دن کا آغاز میڈیا منیجروں کے اجلاس سے ہوتا ہے ، جس میں ناکامی کو کامیابی ، دن کو رات اور سیاہ کو سفید ثابت کرنے کے لئے منصوبہ بندی کی جاتی ہے ۔ وفاقی سطح پر وزرا، مشیروں اور وزارتوں سے محروم رہنے والوں کے کئی گروپ بن گئے ہیں ۔ پارٹی میں شامل کرائے گئے روایتی سیاستدان وزارتوں سے محرومی پر مایوس ہیں۔ پارٹی کے تجربہ کار لوگ سیاسی نابالغوں کو اہم وزارتیں دینے پر برہم ہیں ۔ پارٹی رہنما اور ایم این ایز فریاد کررہے ہیں کہ وزیراعظم کو تین چار افراد نے اپنے گھیرے میں لے رکھا ہے ۔ شکایت کرتے ہیں کہ انہیں وزیراعظم کے سیکرٹری تک رسائی نہیں لیکن دوسری طرف بابر اعوان، اعظم خان ، یوسف بیگ مرزا اور فیصل جاوید وغیرہ ان کے اور ملک کے مستقبل کے فیصلے کررہے ہوتے ہیں ۔ ان میں سے ایک نے اپنے بھائی کو وزیراعظم کا اے ڈی سی بھی لگوادیا ہے جبکہ باقیوں نے مختلف جگہوں پر اپنے بندے فٹ کردئیے ہیں ۔ میڈیا پر صرف وہی چند لوگ دفاع کررہے ہیں جو وزیراعظم کی نظروں میں آکر سرکاری عہدے لینے کے متمنی ہیں ۔ جن لوگوں کو اہم عہدے اور وزارتیں مل گئی ہیں ، وہ ان کو انجوائے کرنے یا پھر اپنے پائوں جمانے میں مگن ہیں اور حکومت کا دفاع کرنے ٹی وی پر نہیں آتے ۔ پنجاب اور عثمان بزدار کا تو بہت تذکرہ ہورہا ہے لیکن بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں حالات وہاں سے بھی زیادہ خراب ہیں تاہم بوجوہ میڈیا میں جگہ نہیں پارہے ہیں ۔ بلوچستان میں تو وزیراعلیٰ کے خلاف مضبوط گروپ بن گیا ہے ۔ بزدار صاحب کے مقابلے میں اگر علیم خان ، چوہدری پرویز الٰہی اور گورنر چوہدری سرور زیادہ طاقتور ہیں تو محمود خان کے مقابلے میں پرویز خٹک،ارباب شہزاد، شاہرام ترکئی ، عاطف خان اور گورنر شاہ فرمان زیادہ طاقتور ہیں ۔ پختونخوا میں تو باقاعدہ وزیراعظم نے نوٹیفکیشن کے ذریعے وزیراعلیٰ کے بعض اختیارات گورنر کو دے دئیے ہیں ۔ بزدار صاحب تو پھر بھی مضبوط ہیں کہ ان کی سفارش وزیراعظم ہائوس میں بیٹھی ہے لیکن محمود خان کی سفارش ایک لاڈلے نے کی ہے،جو کسی بھی وقت واپس ہوسکتی ہے ۔ چنانچہ یہ رائے عام ہوگئی ہے کہ کچھ بھی ہو لیکن پی ٹی آئی کی حکومت کا مشروب مارکیٹ میں زیادہ دیر چلنے والا نہیں۔ یہ بات یقینی نظر آتی ہے کہ بزدار صاحب مارچ میں اور محمود خان جون میں وزیراعلیٰ نہیں رہیں گے۔ جہاں تک وزیراعظم کا تعلق ہے تو ان کے بارے میں سردست یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ پانچ سال پورے نہیں کریں گے۔ البتہ تبدیلی کب آئے، یہ ایک دو ماہ تک واضح ہوجائے گا۔
چیف جسٹس پاکستان نثار کے دور کا تجزیہ
تحریر: بابر ستار
ہمارے کلچر میں گزر جانے والے شخص کے بارے میں کوئی رائے قائم کرنا برا سمجھا جاتا ہے۔ ہم ان کے لیے صرف بخشش کی دعا کرتے ہیں۔ کسی کے چلے جانے کے بعد اس کے کارناموں کو نظر انداز کر دینا بھی غلط ہے۔ لیکن ریٹائرڈ چیف جسٹس ثاقب نثار کی تعریف میں کچھ لکھنا کوئی ذاتی معاملہ نہیں ہے۔ جس شخص نے بغیر دباؤ کے ہمارے ملک کے معاملات پر حکومت کی ہو، تو سبق لینے کے لیے اس کے رویے اور اعمال پر نظر ڈالنا ضروری ہے۔ ایک تقویت پسند وفادار شہری کے طور پر ہم میں سے ہر ایک کے لیے ان کے کارناموں کے کچھ اثرات واقع ہوئے ہیں جن سے واقفیت لازمی ہے۔
اہم سوالات جو پوچھے جانے کے قابل ہیں یہ ہیں: کیا ان کا سو موٹو اختیارات کا استعمال آئینی تھا (اور اس کے نتائج سود مند تھے؟) کیا انہوں نے عدلیہ کی آزادی کی مدد کی یا اسے مجروح کیا؟ کیا انہوں نے عدلیہ کی بطور غیر جانب دار ثالث کی تصویر پیش کی؟ کیا انہوں نے آئین کی اختیارات کی درجہ بندی کی سکیم کو تقویت دی یا اسے کمزور کیا؟ کیا وہ توجہ پانے میں زیادہ دلچسپی رکھتے تھے یہ نرم رویہ اپنانے کی وجہ سے جانے جاتے تھے؟ کیا ان کا رویہ ایک جج کے عہدہ کے مطابق تھا؟ کیا ان کی بحیثیت مجموعی کارکردگی سے وہ ایک ایسا ملک چھوڑ کر گئے جو پہلے سے بہتر اور زیادہ مستحکم ہو؟
سپیریئر کورٹ جج کے طور پر اٹھارہ سال کے کام کرنے کے بعد جسٹس نثار کو ایک قانون فہم اور سنجیدہ ذہنیت کے حامل شخصیت کے طور پرجانا جاتا تھا اور ان سے توقع کی جاتی تھی کہ وہ قانون کے مطابق انصاف کی فراہمی یقینی بنائیں گے۔ جسٹس افتخار چوہدری کی طرف سے اختیارات کے غلط استعمال پر ثاقب نثار کی ناراضگی کسی سے ڈھکی چھپی نہ تھی۔ جب جسٹس نثار نے کرسی سنبھالی تو توقع تھی کہ وہ عدالتی اصلاحات لائیں گے، اپنے ہاؤس کو ٹھیک کریں گے، عدالتی مہم جوئی کو کنٹرول کے لیے مناسب اقدامات کریں گے اور ملک کی سب سے اعلی عدالت میں سنجیدگی کا ماحول پیدا کریں گے۔ لیکن چیف جسٹس بننے کے 10 ماہ کے اندر ہی وہ اپنی سمت کھو بیٹھے۔
چیف جسٹس نثار نے عوامی سطح پر وعدہ کیا تھا کہ آرٹیکل 184 (3) کی حدود اور سکوپ کو اپنی نگرانی میں تعین کریں گے۔ وہ اپنی بات پر پورے نہ اترے بلکہ 184 (3) کا لگا تار استعمال کرتے رہے۔ جس طرح سے انہوں نے اس اختیار کا استعمال کیا اور اپنی عدالت کو چلایا اس سے قانون کی حکمرانی اور مردوں کی حکمرانی کے بیچ کا فرق ختم ہو نے لگا۔ وہ ایک بادشاہ کے دربار کا منظر پیش کرنے لگے۔ انہوں نے اپنی مرضی سے انصاف فراہم کرنے کی روش اپنائی۔
اس کی کیا اہمیت ہے؟ امریکی سپریم کورٹ کے جسٹس الیٹو ایک حالیہ کیس میں تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ”ایک جج کسی خاص کیس میں کسی ترجیحی بنیاد پر نتیجہ نہیں نکال سکتا۔ جج کا واحد فرض قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانا ہے۔” ”ہم ایک آئین کے تابع ہیں، لیکن آئین وہ ہے جو جج کہتے ہیں،” چارلز ہیوز نے مزاح کرتے ہوئے کہا تھا۔ لیکن قانونی متن اور عدالتی کارناموں کو اس نقطہ نظر سے دیکھنے کے عمل کو ایک جاہلیت سمجھا جاتا ہے۔ کسی لفظ کا مطلب کسی خاص نقطہ نظر سے ہٹ کر نہیں نکالا جا سکتا، کم از کم کسی سادہ سی بات کا حلیہ بگاڑ کر تو بالکل بھی نہیں۔
چیف جسٹس پاکستان نثار نے مصطفی امپیکس میں کہا کہ وفاقی حکومت کا مطلب کابینہ ہے اور یہ کہ وزیر اعظم کے پاس حکومت کے نام پر اکیلے ہی کارروائی کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ یہ بیانیہ اختیار کر کے انہوں نے یہ تعین کر دیا کہ سپریم کورٹ سے مراد بھی پوری عدالت ہے نہ کہ صرف چیف جسٹس۔ پھر بھی انہوں نے 184 (3) کا استعمال صرف چیف جسٹس کے اختیارات کے اندر شامل کر کے کیا۔ جب ایک کارروائی کے دوران جسٹس فائز عیسی نے سوال کیا کہ 184 (3) کو کیسے استعمال کیا جائے تو چیف جسٹس پاکستان نے اچانک اس بینچ کو توڑ کر نیا بینچ ترتیب دے دیا (جسٹس فائز عیسی کا اختلافی نوٹ اور حال ہی میں سامنے آنے والا جسٹس منصور علی شاہ کا نوٹ جس میں انہوں نے اس عمل کو عدالتی آزادی کا غلط استعمال قرار دیا ریکارڈ پر موجود ہے۔)
صرف یہ موقع نہیں ہے جب چیف جسٹس پاکستان نثار نے 184 (3) کو استعمال کرتے ہوئے عدلیہ کی آزادی کو مجروح کیا ہو۔ ان کے دور میں آئینی طور پر خودمختار اعلی عدالتوں کو ماتحت عدالتوں کی طرح ٹریٹ کیا گیا اور ان کے ساتھ ہتک آمیز رویہ اختیار کیا گیا۔ انہوں نے کیسز کا از خود نوٹس لیا اور ان کا فیصلہ کیا جب کہ اصل معاملات ابھی ہائی کورٹس کے سامنے زیر التوا پڑے تھے۔ انہوں نے ہائی کورٹ کے بینچ خود بنائے جو کہ صرف ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کا دائرہ اختیار تھا۔ ہم نے انہیں سیشن کے دوران کورٹ کا معائنہ کرتے اور ایک ڈسٹرکٹ کورٹ جج کو بے عزت کرتے دیکھا جب کہ یہ اختیار صرف ہائی کورٹ کے پاس ہوتا ہے نہ کہ سپریم کورٹ کے پاس۔
چیف جسٹس نثار کی ایکٹوازم سے عدلیہ کو جو نقصان پہنچا (عوام کا عدالتوں پر سے اعتماد ختم ہونا، قانون کی حکمرانی سے بد دلی، ملک میں سیاسی، معاشی اور قانونی عدم استحکم پیدا کرنا وغیرہ ) اس کے اثرات کافی عرصۃ تک ہمارا پیچھا کرتے رہیں گے۔ چیف جسٹس پاکستان افتخار چوہدری کی ایکٹوازم سے ہونے والے نقصانات اس کے مقابلے میں پھیکے پڑ گئے ہیں۔ مشرف کے ججوں کو نظر بند کرنے اور گھر بھیجنے کے بعد جب افتخار چوہدری بحال ہوئے اور انہوں نے جو اپنی کارکردگی کے ذریعے عدلیہ کو ایک اعلی مقام دلوایا۔ اب اگر اختیارات کی تقسیم میں تیسری طاقت تھی تو وہ عدلیہ تھی۔
ان کے دور میں مشرف کو غاصب قرار دیا گیا، عدالت میں لاپتہ افراد کو سٹریچر پر ڈال کر پیش کیا گیا، اصغر خان کیس پر فیصلہ ہوا اور جرنیلوں کو سیاسی انجینئرنگ پر احتساب کے عمل سے گزارا گیا۔ اس سے لگتا تھا کہ عدلیہ کا اسٹیبلشمنٹ کے لیے کام کرنا اب ماضی بن چکا ہے۔ چیف جسٹس ثاقب نثار کےدور میں یہ تاثر محو ہو گیا۔ مسنگ پرسنز کے معاملے میں کوئی پیش رفت نہ ہوئی۔ ایک طرف بڑے بڑوں کی پگڑیاں اچھالی گئیں تو دوسری طرف راؤ انوار کو خاص عزت افزائی سے نوازا گیا۔ اصغر خان کیس دفن ہونے سے بمشکل بچ سکا۔
سیاسی کیسز کی ٹائمنگ جن کے گہرے سیاسی اثرات دیکھنے کو ملے، ججز کے عدالت میں ریمارکس اور اس کے ذریعے میڈیا ٹرائل بہت اہمیت کے حامل رہے (جیسے کہ نئے منتخب شدہ سینیٹرز کی غیر ملکی قومیتوں کا سوموٹو اور سینیٹ انتخابات سے پہلے حلف لینے کے احکامات)۔ چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار کے دور میں ہم نے 184 (3) کے تحت آرٹیکل 62/63 کو ایک خطرے کے طور پر دیکھا اور دھمکی آمیز رویہ نے آرٹیکل 58 (2) (بی) کی ناخوشگوار یادیں تازہ کر دیں۔
اگر چیف جسٹس افتخار چوہدری نے سٹیل ملز کی نجکاری ختم کر کے معاشی عدم استحکام پیدا کیا تو جسٹس ثاقب نثار نے اس ایکٹوازم کو اگلے لیول تک پہنچا دیا۔ اگر چیف جسٹس پاکستان افتخار چوہدری نے عدالتی نظر ثانی کے نام پر معائدوں کی روح پر اثر انداز ہونےکی کوشش کی جیسا کہ ریکو ڈک کیس)، تو چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار نے اپنے ہیی ماضی کے فیصلوں کو ڈی گریڈ کرتے ہوئے ججوں کو اپنی چائس کا پالیسی بنانے پر وارننگ دی اور خود اپنی مرضی کی پالیسیوں پر کاربند رہے۔
پھر انہیں خیال آیا کہ وہ اپنے اختیارات استعمال کر کے ڈیم بنانے کی جدو جہد کریں۔ یہ فیصلہ کر کے انہوں نے نہ صرف حکومت کے دائرہ کار میں دخل دیا بلکہ انہوں اپنے عدالتی اختیارات کو استعمال کر کے جرمانے بھی بٹورنے شروع کیے اور حکم دیا کہ وہ جرمانے ڈیم فنڈ میں جمع کیے جائیں گے۔ انہوں نے ڈیم کی افادیت کے بارے میں تنقیدی رائے رکھنے والوں کے لیے غداری کے قانون کے ذریعے کارروائی کرنے کی دھمکی دی۔ انہوں نے سب کو یہ بتا دیا کہ اگر ان کی نظر میں عزت دار بننا ہے تو ڈیم فنڈ میں حصہ ڈالنا ضروری ہو گا۔
ان کے دور میں، عدالتی ماہرین کی کمی کی وجہ سے کیا ہو سکتا ہے اور عدلیہ کے دائرہ کار میں کیا آتا ہے اور کیا نہیں آتا کے بارے میں سوالات بے معنی ہو کر رہ گئے۔ انہوں نے ایگزیکٹو کو حکم دیا کہ وہ ان کی مرضی کے مطابق پالیسیاں بنائے اور قانو ن سازی کے ذریعے ان کی من مانی سفارشات کو قانونی شکل دے۔ (اس میں ایسے فیصلے بھی شامل تھے کہ کونسے ٹیکس لگائے جائیں اور ان کی وصولی کیسے کی جائے۔ ) جس طرح کا رویہ سیمنٹ، ڈیری اور مشروبات کی صنعتوں کے ساتھ اپنایا گیا، اور پرائیویٹ ہسپتالوں اور سکولوں سے جو سلوک کیا گیا اس کے بعد ان تمام شعبوں میں جو لوگ اب بھی سرمایہ کاری کر رہے ہیں انہیں خراج تحسین پیش کیا جانا چاہیے۔
چیف جسٹس پاکستان نثار کی عدالت میں داخل ہونے والا ہر شخص اپنی گارنٹی پر ہی داخل ہو سکتا تھا۔ ہماری اعلی ترین عدالت میں اس طرح کی بد دیانتی دیکھ کر شرمندگی محسوس ہوتی تھی۔ بد تمیزی اور بد تہذیبی کی کوئی حد نہ تھی۔ اپنا نقطہ بیان کرنے والے کی تضحیک کی جاتی تھی اور بڑے بڑے بیوروکریٹس کی ٹانگیں کانپتی تھیں اور وہ دعا کرتے تھے کہ ان کی عزت بچی رہے اور ذلت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ سینئر وکلا ایسے کیس لینے سے گریزاں تھے جن کی سماعت کرنے والے ججز میں ثاقب نثار موجود ہوں۔ یہ نئے معمول کے حالات تھے۔
ایک بات جب ہو چکی اسے واپس کیا جا سکتا ہے؟ چیف جسٹس افتخار چوہدری نے 184 (3) کے غلط استعمال کی بنیاد رکھی۔ جب ایسا ہو چکا تو اگلے چیف جسٹس ثاقب نثار سے یہی توقع تھی کہ وہ اس غلط استعمال کو اگلی سطح تک لے جائیں گے۔ ثاقب نثار نے ایک شتر بے مہار کی طرح کا رویہ اپنائے رکھا۔ ایسا رویہ اختیار کرنے سے سب سے زیادہ خطرہ قانون کی حکمرانی کو تھا جسے اپنے ذاتی مقاصد اور شہرت کی خاطر قربان کر دیا گیا۔ اور مزید افسوسناک یہ حقیقت تھی کہ اس پر کسی طرف سے رد عمل کا مظاہرہ نہیں کیا گیا۔ نہ سول سوسائٹی کی طرف سے، نہ کورٹ بار کی طرف سے اور نہ میڈیا اور سیاسی جماعتوں کی طرف سے کوئی رد عمل آ سکا۔
آئیں چیف جسٹس پاکستان نثار کو الوداع کہتے ہوئے ان کے جانشین چیف جسٹس پاکستان کے وہ الفاظ دہراتے ہیں جو انہوں نے خلیل جبران کا حوالہ دیتے ہوئے ذکر کیے تھے: “قابل رحم ہے وہ قوم جو زبردستی اور دھونس کا رویہ اپنانے والے کو اپنا ہیرو مانتی ہے۔ ”
حضور جان کی امان ملے گی؟
تحریر: خورشید ندیم
حادثہ سنگین تھا، اس کا ردِ عمل بھی سنگین ہوا۔ ایسے المیوں پر دل و دماغ کو سنبھالنا مشکل ہوتا ہے۔ غم و غصے کا رخ اگر اربابِ اختیار کی طرف ہے تو یہ بھی قابلِ فہم ہے۔ میں اس المیے کو ایک سماجی قدر کی روشنی میں دیکھ رہا ہوں۔
انسانی جان کی حرمت، ہمارے معاشرے میں ختم ہو چکی۔ ہمارے نظامِ اقدار کی اساس اب تکریمِ آدم نہیں ہے۔ ہم اپنے مذہبی، سماجی اور سیاسی بیانیوں میں، جس چیز کو سب سے بے وقعت سمجھتے ہیں، وہ انسانی جان ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ مذہب، سماج اور سیاست، ہمارے لیے بعض ایسے نصب العین متعین کرتے ہیں، جن کے لیے انسانی جان کو قربان کرنا ہمارے لیے باعثِ سعادت و غیرت ہونا چاہیے۔ ہم موت کو گلیمرائز کرتے اور انسانی جان کو دیگر آدرشوں کے مقابلے میں کم قیمت سمجھتے ہیں۔
مذہب کو دیکھیے۔ یوںمعلوم ہوتا ہے کہ ایک اچھے مسلمان کی نشانی یہ ہے کہ وہ ہمہ وقت شمشیر بدست ہو، جان دے رہا ہو اور جان لے رہا ہو۔ موت اس کے لیے ایک ایسی خواہش بنا دی جاتی ہے، وہ جس کی تلاش میں رہتا ہے۔ اس سوچ کے مطابق ہیرو وہی ہیں جو میدانِ کار زار میں کام آتے یا کشتوں کے پشتے لگاتے رہیں۔ تاریخ کے باب میں ہماری تفہیم یہ ہے کہ جنگوں کی داستان کے سوا کچھ نہیں۔ اللہ نے اپنے آخری رسولﷺ کو اسوۂ کامل بنا کر اور اس شان کے ساتھ بھیجا کہ آپؐ کی چادرِ رحمت عالمین کو اپنے سائے میں لے لیتی ہے۔ ہم نے انہیں صرف ایک سپہ سالار کے روپ میں پیش کیا۔ سیرت جب لکھی جانے لگی تو اسے ”مغازی‘‘ کا نام دیا۔ اس کا مطلب ہے ”جنگیں‘‘۔
”جنگ‘‘ سماجی زندگی کا سب سے غیر مطلوب اور کم اہم پہلو ہے۔ سماج اصلاً امن اور اسبابِ حیات کی فراہمی کا نام ہے۔ سیدنا ابراہیمؑ نے مکہ کی بنیاد رکھی تو اسے شہرِ امن بنانے کی دعا کی۔ رسالت مآبﷺ نے جو جہاد کیا، وہ قرآن مجید کے مطابق ”فتنہ‘‘ یعنی مذہبی جبر کے خلاف تھا۔ جہاد کا دوسرا پہلو وہ ہے جو قانونِ اتمامِ حجت سے متعلق ہے۔ گویا آپؐ نے انسانی جان و مال کی حرمت کو بطور قدر مستحکم کیا۔ قرآن مجید اور اللہ کے آخری رسولﷺ نے انسانی جان کے بارے میں جو اسلوب اختیار کیا، اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اسلام انسانی جان کو کیا اہمیت دیتا ہے۔ قرآن مجید نے ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا۔ رسالت مآبﷺ نے جان کی حرمت کو بیت اللہ کی حرمت سے بڑھ کر بتایا۔
ہمارے ہاں جان کی حرمت پسِ منظر میں چلی گئی۔ دین کے رائج تصورات میں جہاد کا پہلو نمایاں ہوا تو موت کو گلیمرائزکیا گیا۔ ”عافیت‘‘ جس کے لیے رسول اللہﷺ نے ہمیشہ دعا کی، پر اصرار باقی نہیں رہا۔ دین جان دینے اور جان لینے کا نام بن کر رہ گیا۔ رسالت مآبﷺ کے وہ ارشادات اور قرآن مجید کی وہ آیات، جن کا تعلق جنگ کے واقعات سے تھا، انہیں عمومی انسانی معاشرتی رویہ بنا کر پیش کیا گیا اور یہ تاثر دیا کہ مسلم معاشرہ وہ ہوتا ہے جس میں ہر کوئی شمشیر بکف پھرتا ہے۔
سماج کی طرف آئیے تو ہمارے سماجی نظامِ اقدار میں بعض دیگر اقدار کی ایسی تفہیم رائج ہے کہ انسانی جان ان کے سامنے بے معنی ہو گئی ہے۔ مثال کے طور پر غیرت کا تصور۔ بہن اپنی مرضی سے شادی کر لے تو بھائی کے لیے اس کی جان، اس کے تصورِ غیرت کے مقابلے میں بے معنی ہو جاتی ہے۔ وہ اس غیرت کی حفاظت کے لیے بہن کی جان لینے اور خود پھانسی چڑھ جانے پر آمادہ ہو جاتا ہے۔ غیرت کا یہی تصور کبھی زمین سے بھی وابستہ ہو جاتا ہے۔ زمین کے نام پر جان لینے اور جان دینے کے واقعات بہت عام ہیں۔
سیاست میں بھی ہم جان دینے کو کمال سمجھتے ہیں۔ سیاسی مقاصد کے لیے مر جانے والے بھی شہید شمار ہوتے ہیں۔ ملک کی خدمت کے بے شمار پہلو ہیں۔ لیکن ملک کے لیے جان دینا آج بھی سب سے بڑا کارنامہ شمار ہوتا ہے۔ اس دور میں، جب جنگ کا اسلوب بدل چکا، آج جنگی خدمت، جان سے زیادہ مال سے متعلق ہو چکی۔ آج کسی کو دشمن کے ٹینک کے سامنے اپنے جسم سے بم باندھ کر لیٹنے کی ضرورت نہیں۔ ایک بغیر پائلٹ ڈرون پوری بستی اجاڑنے پر قادر ہے۔ اب جنگ کے تناظر میں بھی جان کی نوعیت تبدیل ہو چکی۔ ڈرون کی تخلیق خود انسانی جان کی حرمت کا نتیجہ ہے؛ تاہم اس میں سفاکیت یہ ہے کہ انسان وہی شمار ہوتا ہے جو ترقی یافتہ یا ایک طاقت ور ریاست کا شہری ہے۔
یہ ہے وہ نظامِ اقدار جس میں پاکستان میں امن کے قیام کے ذمہ دار ادارے کام کرتے ہیں۔ جب ہمارے تصورِ حیات میں انسانی جان کی کوئی قیمت نہیں تو پھر ان اہل کاروں کی نظر میں بھی ان کی کوئی حرمت نہیں۔ ان کے لیے انسانی غیرت اور جان‘ دونوں بے معنی ہیں۔ تھانے میں ایک معزز شہری کو رسوا کرنا ہو یا کسی قانونی ضابطے کے بغیر اس کی جان لینی ہو، ان کے لیے غیر اہم باتیں ہیں۔ یہی نہیں، وہ سرعام لوگوں کو رسوا کرنے سے بھی نہیں چوکتے۔
ایک دوسرا پہلو بھی قابل غور ہے۔ ہمارے تصورِ حکومت میں شہری نہیں، ریاست اہم ہے۔ اس کی تخلیق میں یہ خیال پنہاں ہے کہ یہ شہری ہے جس کو ریاست کے لیے قربانی دینی ہے، ریاست کو کوئی قربانی نہیں دینی۔ پاکستان جب تک سکیورٹی سٹیٹ رہے گا، شہری کے جان و مال قربان ہوتے رہیں گے۔ جب تک پاکستان فلاحی مملکت نہیں بنتا، شہری اسی طرح قربان ہوتا رہے گا۔ اس میں شبہ نہیں کہ ریاست کو ضرورت پڑے تو شہری کو جان دینی چاہیے لیکن اس کو بطور واقعہ قبول کرنے میں اور بطور تصورِ حیات قبول کرنے میں فرق ہے۔
ساہیوال میں جو حادثہ ہوا، وہ دراصل اسی ذہن (mindset) کا حاصل ہے۔ دہشت گردی اس وقت ریاست کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ اس کو ختم کرتے ہوئے اگر چند شہری بھی کام آ جائیں تو یہ کوئی مہنگا سودا نہیں۔ اداروں کو کہیں پر یہ تربیت نہیں دی گئی کہ دہشت گردی کے خاتمے کا مقصد اس ملک کے شہریوں کو ایک پرامن ماحول فراہم کرنا ہے۔ یہ ادارے دراصل عوام کے دل سے دہشت گردی کا خوف ختم کرنے کے لیے ہیں۔ چونکہ وہ اس سے واقف نہیں ہیں، اس لیے انہوں نے اپنے طرزِ عمل سے شہریوں کو خوف میں مبتلا کر دیا ہے۔
آج ناگزیر ہو چکا کہ ریاست کے تصور کی تشکیل نو ہو۔ پاکستان جب تک فلاحی ریاست نہیں بنتا، عوام ریاست کے لیے قربانی دیتے رہیں گے۔ جب پاکستان ایک ویلفیئر سٹیٹ ہو گا تو پھر ریاستی اہل کاروں کی تربیت اسی نہج پر ہو گی کہ ان کا مقصد عوام کے جان و مال کا تحفظ ہے۔ وہ اگر کسی دہشت گرد کو پکڑیں گے تو اس بات کا لحاظ رکھیں گے کہ انہیں عوام کو کسی خوف و ہراس میں مبتلا نہیں کرنا۔ ان کا کام عوام کا تحفظ ہے۔
آج سکیورٹی کے ادارے عوام کے لیے خوف و ہراس کی علامت بن چکے۔ اس تاثر کو بدلنا لازم ہے۔ یہ پہلا واقعہ ہے نہ آخری، اگر ہماری ریاست نے اپنے اندازِ نظر کو تبدیل نہیں کیا۔ ساہیوال کے المیے میں وزیر اعظم، وزیرِ اعلیٰ یا کسی ریاستی ادارے کے سربراہ کا کوئی ہاتھ نہیں، لیکن اگر ریاست کا ذہن نہ بدلا تو پھر وہ ذمہ داروں کی فہرست میں شامل ہو سکتے ہیں۔
بابا ڈیم ...
اس ملک کا المیہ یہ ہے کہ یہاں ایسے سیاستدانوں کی بہتات ہے جنہیں اپنے تجربے کی بنیاد پر ایمان کی حد تک یقین ہے کہ تمام لوگوں کو ہمیشہ کیلئے بیوقوف بنایا جا سکتا ہے۔ (امریکی مصنف اور کالم نگار، فرینکلن پی ایڈمز)
وطنِ عزیز میں بے وقوف بنانے کے مشغلے پر محض سیاستدانوں کی اجارہ داری نہیں بلکہ جج ہوں یا جرنیل حسب توفیق سب مسیحا اور نجات دہندہ بن کر قوم سے شغل لگانے اور دل لگی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ البرٹ ہوبرڈ نے زمینی حقائق کا اِدراک کرتے ہوئے کہا تھا، ہر شخص روزانہ کم از کم پانچ منٹ کیلئے بے وقوف بنتا ہے مگر عقلمندی یہ ہے کہ بیوقوفی کا دورانیہ بڑھنے نہ پائے۔ ہمارا قومی المیہ مگر یہ ہے کہ بیوقوفی کا دورانیہ بتدریج بڑھتا ہی چلا گیا کیونکہ بقول آئن اسٹائن، عقل و دانش محدود ہو سکتی ہے مگر بے وقوفی اور حماقت کی کوئی حد نہیں ہوتی۔ مثال کے طور پر ہمارے ہاں حکومتوں نے کئی بار عوام کے سامنے جھولی پھیلانے کی شعبدہ بازی کی اور لوگوں نے ہر بار ایسی مہمات میں نہ صرف بڑھ چڑھ کر حصہ لیا بلکہ کتے کے منہ میں ہاتھی دانت اُگنے کی امید بھی لگا لی۔ 1965ء کی جنگ میں بھارت نے لاہور سیالکوٹ سیکٹر سے بین الاقوامی سرحد عبور کی تو فیلڈ مارشل ایوب خان نے ٹینکوں کی خریداری کیلئے عوام سے تعاون کی اپیل کی۔ لوگوں نے ’’ٹیڈی پیسہ ٹینک مہم‘‘ میں قومی جوش و جذبے سے حصہ لیا۔ 17دن بعد اقوام متحدہ کے ذریعے جنگ بندی کا راستہ تلاش کیا گیا اور ٹیڈی پیسہ دینے والوں کا جذبہ معاہدۂ تاشقند کے ذریعے سرد کر دیا گیا۔
یادش بخیر! قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو نے بھی گھاس کھا کر ایٹم بم بنانے کے بعد دورِ اقتدار کے آخری برس لوگوں کو اپنی مدد آپ کے تحت ترقی کرنے کا خواب دکھایا، ریڈیو پاکستان اور پی ٹی وی کے ذریعے اپیل کی گئی کہ روزانہ ایک روپیہ وزیراعظم کے ترقیاتی فنڈ میں جمع کروائیں تو ملک ترقی و خوشحالی کی منازل طے کر سکتا ہے لیکن آج تک لوگ روٹی، کپڑا، مکان کی بنیادی ضروریات سے محروم ہیں۔ مردِ مومن مردِ حق، جنرل ضیاء الحق تشریف لائے تو انہوں نے تعلیمی انقلاب کے پیش نظر عوام سے چندہ مانگنے کے بجائے زبردستی رقم وصول کرنے کیلئے اقراء سرچارج لگا دیا۔ یکم جولائی 1985ء سے 30جون 1994ء تک اس مد میں 65ارب روپے کا ’’بھتہ‘‘ وصول کیا گیا لیکن ان پیسوں سے کونسی آکسفورڈ اور کیمرج یونیورسٹی بنی؟ اگر آپ کو معلوم ہو تو ضرور میرے علم میں اضافہ کیجئے گا۔ میاں نواز شریف کی ’’قرض اتارو، ملک سنوارو‘‘ مہم کسے یاد نہیں۔ 2672ارب روپے کے ملکی و غیر ملکی قرضے اتارنے کیلئے کشکول پھیلایا گیا تو سالہا سال کی تگ و دو کے بعد چندہ، قرض حسنہ اور ٹرم ڈیپازٹ شامل کرکے مجموعی طور پر 2ارب 80کروڑ روپے جمع ہوئے۔ ایک ارب 70کروڑ روپے داخلی قرضوں کی مد میں ادا کر دیئے گئے جبکہ باقی ماندہ ایک ارب 10کروڑ روپے اب بھی اکائونٹس میں موجود ہیں۔ 2017ء میں اسٹیٹ بینک نے کمرشل بینکوں کو یہ رقوم واپس کرنے کیلئے کلیم جمع کرنے اور ادائیگی کرنے کیلئے ایک سرکلر بھی جاری کیا لیکن کوئی پیشرفت نہ ہو سکی۔ پھر جنرل پرویز مشرف کے دور میں 2005ء کے زلزلہ زدگان کیلئے صدارتی ریلیف فنڈ تو کل کا قصہ ہے۔ تب بھی سرکاری دبائو پر سرکاری ملازمین کی تین دن کی تنخواہیں اینٹھ لی گئیں، زور و شور سے چلائی گئی مہم کے نتیجے میں بلاناغہ اہم شخصیات کی جانب سے عطیات دیئے جانے کا اعلان ہوتا رہا مگر زلزلہ متاثرین کی آباد کاری کا مسئلہ تب تک حل نہ ہوا جب تک غیر ملکی امداد کا چھابہ نہ آ گیا۔
محولا بالا تجربات کے باوجود سابقہ چیف جسٹس، جسٹس ثاقب نثار نے دیامیر بھاشا اور مہمند ڈیم کی تعمیر کیلئے اپنی نگرانی میں فنڈ قائم کیا تو لوگ ایک بار پھر جھانسے میں آگئے۔ میں نے گزشتہ برس 26جولائی کو لکھے گئے کالم میں واضح حساب کتاب کی روشنی میں یہ بتانے کی کوشش کی کہ چندہ جمع کر کے ڈیم بنانا کسی دیوانے اور مجذوب کا خواب ہی ہو سکتا ہے کیونکہ حقیقت میں ایسا ممکن نہیں۔ میں نے لکھا ’’مہمند ڈیم کو چھوڑیں، فی الحال صرف دیامیر بھاشا ڈیم کی بات کرتے ہیں۔ اس منصوبے کی لاگت 1450ارب روپے ہے۔ صرف پانی ذخیرہ کرنے یعنی ڈیم بنانے کیلئے 650ارب روپے درکار ہیں جبکہ باقی ماندہ رقم بجلی پیدا کرنے کیلئے ٹربائن لگانے اور اس سے متعلقہ دیگر انفرااسٹرکچر کیلئے درکار ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے 2018ء میں اس منصوبے کی منظوری دی تو زمین کی خریداری اور متاثرین کی آباد کاری کیلئے 101ارب روپے مختص کئے گئے۔ اس میں سے 72ارب روپے جاری کر دیئے گئے جس سے زمین کے حصول کا 85فیصد کام مکمل کر لیا گیا ہے۔ فی الوقت تو ڈیم بنانے کیلئے کھولے گئے اکائونٹ میں اوسطاً یومیہ ایک کروڑ 60لاکھ روپے آ رہے ہیں جو کچھ عرصہ بعد بتدریج کم ہونا شروع ہو جائیں گے لیکن فرض کریں عطیات دینے کا یہ جذبہ ماند ہونے کے بجائے بڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔ اگر روزانہ 2کروڑ روپے آئیں تو 1450ارب روپے جمع ہونے میں کتنا عرصہ درکار ہو گا؟ 199سال۔ اچھا چلیں! ایک اور پہلو سے نہایت مثبت اور قابلِ عمل انداز میں اس کارِ خیر کا جائزہ لیتے ہیں، یہ منصوبہ خیراتی انداز میں مکمل نہیں کیا جا سکتا تو کیا ہوا؟ حکومت سے تعاون کرنے کیلئے آٹے میں نمک کی حد تک تو فنڈز جمع کر کے دیئے جا سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر ڈیم کیلئے زمین کے حصول اور متاثرین کی آباد کاری کیلئے جو 101ارب روپے درکار ہیں، وہ عطیات کی صورت میں جمع کر لئے جائیں۔ لیکن یہ آٹے میں نمک برابر رقم اکٹھی کرنے میں بھی 5050دن یعنی تقریباً 13سال لگ جائیں گے اور تب تک یہ منصوبہ تاخیر کا شکار ہوا تو لاگت بھی کئی گنا بڑھ چکی ہو گی‘‘۔
بہرحال ڈیم فنڈ کیلئے 6ماہ کے دوران ٹی وی چینلز اور اخبارات نے 13ارب روپے کے مفت اشتہارات چلائے اور اس کے بدلے میں صرف 9ارب روپے جمع ہو سکے۔ جس روز جسٹس ثاقب نثار چیف جسٹس کے طور پر سبکدوش ہو رہے تھے، ڈیم فنڈ اکائونٹ میں 9ارب 28کروڑ موجود تھے اور اب 9ارب 42کروڑ موجود ہیں یعنی 7دن میں محض 13کروڑ کا اضافہ ہوا۔ اب جبکہ نئے چیف جسٹس برملا کہہ چکے ہیں کہ وہ مقدمات کے فیصلوں میں غیر ضروری تاخیر کے خلاف ڈیم بنانا چاہتے ہیں، جو ان کے فرائض میں شامل ہے تو کیوں نہ اس ڈیم فنڈ کو ختم کردیا جائے تاکہ ہم جیسے بلڈی ڈیم فول خوابوں کی دنیا سے نکل آئیں اور ڈیم بنانے کیلئے کوئی حقیقی تدبیر کی جا سکے۔
سبسکرائب کریں در:
اشاعتیں (Atom)