ہفتہ، 3 جون، 2023

ٹکر کے لوگ




 


ٹکر کے لوگ سے مضبوط اعصاب اور پختہ نظریات کا سیاسی کارکن ذہن میں آتا ہے۔کارکن اور پختہ کارکن کی مثال کچی اینٹ اور پکی اینٹ جیسی ہوتی ہے۔ اینٹ مٹی سے بنتی ہے مگر جب اسے بھٹے میں پکا کر نکالا جاتا ہے تو وہ اس قدر مضبوط ہو چکی ہوتی ہے کہ اسے ریلوے کے پل میں چن دیا جائے تو مال گاڑی کا وزن برداشت کرتی اور سو سال تک برداشت کرتی رہتی ہے۔مٹی ہی نہیں قیمتی دھات کو بھی کندن بنانے کے لیے آگ کی بھٹی میں جھونکا جاتا ہے۔ سیاسی کارکن  جب  اپنے نظریات کی مٹی گوندھ کر  اپنے  Concepts Clear کر لیتا ہے تو وہ سیاسی میدان میں اترتا ہے۔ سیاسی میدان میں زندہ باد کے نعرے ، جذباتی تقریریں، جلسے اور جلوس ہوتے  ہیں،  تصویریں اور ویڈیو کلپ بنتے ہیں جو اخباروں کی زینت بنتے ہیں۔ ٹی وی کی سکرینوں پر چلتے ہیں اور سوشل میڈیا کو رونق بخشتے ہیں۔ اس صاف ستھری چمکیلی اور نظروں کو خیرہ کرنے والی دنیا کا پس منظر مگر تاریک، ظالم اور روح فرسا ہوتا ہے۔ دراصل کچی اینٹ کو قیمتی بننے کے لیے بھٹے کے جہنم سے گذرنا ہوتا ہے۔ 

انسان کا  اپنے جسم،  روح، احساسات، رشتوں، دوستیوں اور جذبات سمیت  دہکتی آگ  میں کود جانا اور آگ کی تپش کو لگاتار برداشت کرنے رہنا ایسا عمل ہے جو خالہ کے گھر میں بیٹھ کر آلو کے پراٹھے کھانے کے بالکل ہی الٹ ہے۔

آپ کو ایک کارکن کے سیاسی   سفر کی کتاب  کا صرف دیباچہ دکھاتا ہوں کتاب کے مندرجات کا اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں۔

سردیوں کی یخ بستہ رات دو بچے ایک اذیت خانے کا دروازہ کھولا جاتا ہے۔ برف کی سل والی ٹرالی کو دھکیل کر کمرے میں لایا گیا۔  خون رستے زخموں سے چور جوان کو اٹھا کر اس سل کر لٹا کر روشنی گل کر کے کمرہ بند کر دیا گیا۔جسم کے ساتھ ساتھ روح بھی ٹھٹھر گئی اور نظریات تو منجمد ہی ہوگئے۔اگلی صبح مگر وہ روتا  ہے نہ اپنے نظریات سے توبہ کرتا ہے نہ ہی اپنے لیڈر سے لاتعلقی کا اطہار کرتا ہے۔

 یہ جوان کسی دشمن ملک کا جاسوس یا کسی دہشت گرد تنظیم کا کارکن نہیں بلکہ ایک سیاسی جماعت کا کارکن ہے۔ اس کارکن کے ہاتھوں کی انگلیوں سے پلاس سے کھینچ کر ناخن نکالنے کا واقعہ بیان کر دینا مشکل نہیں ہے مگر جب ناخن ماس سے جدا ہوتے ہیں تو اس کرب کا تصور تو کیا جا سکتا ہے مگر محسوس نہیں کیا جا سکتا۔ درد کو وہی محسوس کر سکتا ہے جو سہہ رہا ہوتا ہے۔ (جس تن لاگے سو تن جانے اور نہ جانیں لوگ)




نوشہرہ کے اختیار ولی خان نام کی اس اینٹ کو جب ایجنسیوں کی بھٹی میں پکایا جا رہا تھا تواس کے خاندان پر کیا گذر رہی تھی جسے معلوم ہی نہیں تھا کہ ان کا پیارا ہے کہاں۔دنیا کا مشکل ترین کام اولاد کوکرب میں دیکھنا ہے۔ اس ماں کا تصور کریں جو اپنے جوان بیٹے کی پشت پر اذیت کے نیلے اور سیاہ نشان دیکھ کر تڑپ جاتی ہے اور اس پل صراط پر چلتے فیصلے کو داد دیں جب یہ پختون خون سیاست کو خیرباد کہنے کی بجائے اپنے عزم کو مزید پختہ کر تا ہے۔ اپنوں کی نصیحتوں اور ہمدردوں کے مشورے کو رد کرنا کیمرے کے سامنے بیٹھ کر وی لاگ کرلینے جیسا عمل ہر گز نہیں ہے۔اور تنگ و تاریک اور غلاظت  سے اٹے  سیل میں بیڑیاں پہن کر رات گذارکر صبح عزم و ہمت دکھانے پر ہی ثابت ہوتا ہے کہ جوان کا حوصلہ ٹوٹا نہیں ہے۔

اذیت برداشت کر کے کرب سہہ کر مخالفین کے طعنے سن کر اپنے پیاروں کی ہمدردی کو نظر انداز کر کے اور گھر والوں کی نم آلود آانکھوں اور سر پر پھیرے جانے والے دست شفقت سے حوصلہ کشید کرنا ہوتا ہے۔ اور اس حوصلے کو عملی حقیقت میں ڈھالنا ہوتا ہے۔

 اس حوصلے کی حقیقت جاننے کے لیے   (میں اپنا فیصلہ اللہ پر چھوڑتا ہوں)   جیسا ایک جملہ ہی کافی ہوتا ہے۔ اس جملے میں ذاتی اذیتوں اور محرومیوں کو دفن کر دیاگیا ہے۔ بدلہ لینے کی بجائے اللہ کے انصاف کا نام لیا گیا ہے اور اپنے ارادے و عمل سے پیچھے نہ ہٹنے کا عندیہ دیا گیا ہے۔ اس عزم کی پختگی کو محسوس تو کریں کہ زندگی کا ساتھی بستر مرگ پر ہو مگر اپنے ساتھیوں اور کارکنوں کو حوصلہ دینے بیٹی سمیت جیل جانے کے ارادے کو عملی جامہ پہنا دے۔

 نواز شریف نے اپنے عمل سے اپنے کارکنوں کو یہ سبق دیا دھوپ یا بارش کارکنوں کے لیے چتھری بنے رہو تاکہ کارکن محفوظ رہے۔نواز شریف کے سیاسی جذبے سے ضیاء پانے والے اختیار ولی خان اپنے ساتھیوں اور کارکنوں کے لیے ڈھال بن کر دکھایا ہے ۔ وہ  میدان عمل میں  ساتھیوں  کی رہنمائی کرتا ہے۔ اور افرادی  قوت کو مجمع کر کے رکھنا  اور ان کے جذبات کو لا قانونیت میں ڈھلنے نہ دینے کا سلیقہ بھی جانتا ہے۔ مخالفین پر دھاک ضرور بٹھا تا ہے مگر ان سے ڈائیلاگ کر کے اپنا رستہ نکالتا ہے اور دوسروں کو رستہ دینے کا ہنر بھی جانتا ہے۔

میرٹ اور عمل کا پاسبان ضرور ہے مگر خوشامد سے نا آشنا ہے۔  نواز شریف کے سیاسی نظریے کا پاسبان بن جانے کے بعد اس کو  حلقے اور علاقے کے نوجوان  اور مکینوں  کی زبردست حمائت حاصل ہے۔ مستقل مزاجی، سیاسی نظریات میں پختگی اس کے مزاج کا حصہ ہے تو حلقے میں موجو د  قبیلوں اور خاندانوں کی روایات کا علم بھی بلند لیے ہوئے ہے۔ 





کوئی تبصرے نہیں: