ہفتہ، 4 مارچ، 2023

جنات کی اقسام

 



جنات کا قرآن میں ذکر:

 

بات یہ ہے کہ چند انسان بعض جنات سے پناه طلب کیا کرتے تھے جس سے جنات اپنی سرکشی میں اور بڑھ گئے۔

سورة الجن، آيت:6

 

:ابن کثیر لکھتے ہیں

جنات کے زیادہ بہکنے کا سبب یہ ہوا کہ وہ دیکھتے تھے کہ انسان جب کبھی کسی جنگل یا ویرانے میں جاتے ہیں تو جنات کی پناہ طلب کیا کرتے ہیں، جیسے کہ جاہلیت کے زمانہ کے عرب کی عادت تھی کہ جب کبھی کسی پڑاؤ پر اترتے تو کہتے کہ اس جنگل کے بڑے جن کی پناہ میں ہم آتے ہیں اور سمجھتے تھے کہ ایسا کہہ لینے کے بعد تمام جنات کے شر سے ہم محفوظ ہو جاتے ہیں جس طرح شہر میں جاتے تو وہاں کے بڑے رئیس کی پناہ لے لیتے تاکہ شہر کے اور دشمن لوگ انہیں ایذاء نہ پہنچائیں۔

 

جنات ایسی مخلوق ہے جو آگ کے شعلوں سے پیدا کی گئی ہے۔ یہ مخلوق علم و ادراک، حق و باطل میں تمیز کرنے اور منطق واستدلال کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے

بالکل ایسے ہی جیسے انسانوں میں صاؒلح اوربد ہوتے ہی

جنوں کے درمیان بعض طاقتور ہوتے ہیں، جیسا کہ طاقتور لوگ انسانوں کے درمیان بھی ہوتے ہیں۔ انسان دوسروں کے کام آتے ہیں اور نرم دل ہوتے ہیں اسی طرح جنات میں بھی نرم دل اور سخت دل بھی ہوتے ہیں ۔ شیطنت جنات کی صفت نہیں بلکہ ایک جبلت ہے جو انسانوں میں اور جنات میں بھی ہوتی ہے ۔ گو بد بخت  عزازیل جن ہی ہے مگر اس کے عمل کی وجہ سے جنات کی بطور مخلوق مذمت نہیں کی گئی بلکہ جنات پیغمبروں کے مدد گار رہے ہیں ۔ قرآن شریف میں ہے : 
جو کچھ سلیمان چاہتے وه جنات تیار کردیتے مثلا قلعے اور مجسمے اور حوضوں کے برابر لگن اور چولہوں پر جمی ہوئی مضبوط دیگیں ، اے آل داؤد اس کے شکریہ میں نیک عمل کرو ، میرے بندوں میں سے شکرگزار بندے کم ہی ہوتے ہیں۔ (سورہ سنا، آیت 13)

جنات کئی قسم کے ہوتے ہیں ۔ علامہ سلیمان ندوی نے لکھا ہے

1۔ جواجنہ وہ جن ہوتے ہیں جو ویرانوں میں رہتے ہیں ۔ ان کے علاقے مین جانے والے مسافروں کو اپنی صورتین بدل بدل کر خوف زدہ کرتے ہیں ۔

2۔ ایسے جنات جو انسانوں کی آبادیوں مین رہتے ہیں ان کو عامر کہا جاتا ہے

3۔ جنات کی وہ شریر قسم جو بچوں کو ڈراتے ہیں ان کا نام روح ہے

  جنات کی انسان دشمن اور شریر قسم کو شیطان کہا جاتا ہے

5۔ شیطان سے بھی شریر اور قسم کو عفریت کہا جاتا ہے۔

عفریت کی قسم سے جنات تھے جو حضرت علی بن ابی طالب کے بھائی ظالب کو اتھا کر لے گئے تھا جو کبھی واپس آئے نہ ان کا کوئی سراغ ہی ملا۔۔

کتابوں میں درج ہے کہ انسان جنات کو مار بھی ڈالتے ہیں طہوی نامی ایک عامل نے بھوت کو مار ڈالا تھا ۔ موجودہ دور میں جنات کے عامل  جنوں کو انفرادی طور پر یا خاندانوں کی صورت میں جلا دینے کا دعوی کرتے ہیں ۔ مگر عاملوں کا یہ دعوی علمی طور پر ماہرین ماننے سے انکاری ہیں ۔ البتہ انسانوں کے مونث جنات جن کو سعلاۃ کہا جاتا ہے سے شادی کی مثالیں موجود ہیں ۔ ایک عرب عامل جس کا نام عمرو بن یربوع نے سعلاۃ سے شادی کا ذکر کتابوں میں ملتا ہے اور یہ بھی لکھا ہے کہ اس کی اولاد بھی ہوئی تھی ۔ ملکہ سبا بلقیس کے بارےمین بھی بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس کی ماں بھی سعلاہ تھی۔

 

 

 

 


اتوار، 26 فروری، 2023

فتنہ کیا ہے




مجھے اتنا معلوم ہے عمر کے والد سکول میں ٹیچر تھے والدہ میٹرک تک تعلیم یافتہ تھی مگر ان کا مطالعہ وسیع تھا۔ ان کے گھر میں دو الماریاں کتابوں سے بھری ہوئی تھیں۔ عمر کی والدہ نے وہ تمام کتابیں پڑہی ہوئی تھیں۔ عمر کالج کی لائبریری سے انھیں باقاعدگی نے کتابیں لا کر دیا کرتا تھا۔ اس خاتون سے میں نے بھی سلیقہ، قرینہ اور ادب سیکھا تھا۔ عمر کے والد ایک ایسی کتاب کے مصنف تھے جو ہمارے کالج کی لائبریری میں بھی موجود تھی۔ 

دسمبر 1976 میں ہم دونوں ہی سکالرشپ پر بیرون ملک گئے ماسٹر کرنے کے بعد عمر پاکستان فارن سروسز میں چلا گیا۔ عملی زندگی میں بھی ہم دونوں قریب رہے جب اس کی شادی ہوئی تو میں نے محسوس کیا وہ مذہب کی شفاف جھیل میں غوطہ زن ہو چکا ہے۔ ماتھے پر عبادت گذاری عیاں تھی تو چہرے پر سنت رسول نے اس کی شخصیت کو با رعب بنا دیا تھا۔ عمر کا علمی وژن وسیع تھا میرا خیال ہے ملکوں ملکوں کی سیاحت نے اس کے علم میں اضافہ کرکے ذہن کو کھول دیا تھا۔ یورپ میں اس کی تعیناتی کے دوران مسلمان اسے مذہبی محفلوں میں بلاتے اور اس کے علم و اقوال کو سن کر اپنے مذہبی عقائد کو مضبوط کرتے۔ 

عمر کی زوجہ  فرح،  جب شادی ہوئی ایک سکول میں  اے لیول کی ٹیچر تھی۔ پہلے بچے کی پیدائش کے بعد اس نے ملازمت ترک کر دی تھی۔ مذہبی رجحان کی اس خاتون نے اپنے دونو ں بیٹوں کو حفظ کرایا تھا۔ اس وقت ایک بیٹا پی ایچ ڈی کرنے کے بعد بیرون ملک ایک یونیورسٹی میں پروفیسر ہے تو دوسرا بیٹا پی ایچ ڈی کر کے اپنا  آ ٹی ٹی کا کاروبار کر کے خوشحالی کی زندگی گذار رہا ہے۔

میں اور عمر  دونوں ہی ریٹائر زندگی گذار رہے ہیں۔ ایک ہی شہر میں رہتے ہی نہیں بلکہ ہر وقت رابطے میں رہتے ہیں۔ میرا خیال تھا میں عمر کو اندر سے جانتا ہوں مگر فرح جو کچھ بتا رہی تھی میرے لیے حیرت تھی۔ اس کی بیوی بتا رہی تھی۔ وہ ملحد ہو گیا ہے۔ قرآن کے کتاب الہی ہونے سے انکار کرتا ہے۔اور آخرت کوانسانی ذہنی اختراح کہتا ہے۔ 

اسلام آباد سے لاہور کا سفر چار گھنٹوں کا ہے۔ ہم جان بوجھ کر سات گھنٹے میں پہنچے۔پہلی رات کی صبح ہوئی تومیں عمر کے نظریات کی تبدیلی کے محرکات سمجھنے لگا تھا۔ بڑا محرک ٹوءئٹر پر برپا  ہونے والی سپیسسز

 تھیں (Spaces)۔ 

جب میں گھر عمر کو اس کے گھر اتار کر اپنے گھر واپس آ یا۔ میری بیوی، جو مسکراہٹ سے میرا استقبال کیا کرتی تھی۔ اس نے فکر مندی سے پہلا سوال یہ کیا   (کیا بات ہے آپ پریشان کیوں ہیں)۔ میں واقعی پریشان تھا۔ یہ پریشانی عمر کے بارے میں نہ تھی بلکہ اپنے تین تعلیم یافتہ بیٹوں کے بارے میں تھی۔ بیٹی بارے پریشان نہیں تھا کہ وہ ایک مضبوط کردار کے مسلمان کی زوجہ تھی۔ پھر ذہن کے کونے میں دھماکا سا ہوا۔ عمر بھی تو مضبوط کردار کا مسلمان تھا۔

عمر کے ساتھ کیے ایک ہفتے کے سفر کو آج مدت ہو چکی ۔ میں اور میری بیوی خوفزدہ ہیں۔ ہم اپنے حلقہ احباب میں کئی لوگوں سے مشورہ کر چکے ہیں مگر ہم دونوں، میاں بیوی، کی پریشانی کم نہیں ہو رہی  بلکہ روز بروز بڑھ رہی ہے۔ کیا ہم خود اور ہماری اولاد  (خاتمۃبالایمان) کی  سعادت پا سکیں گے۔ اگر عمر جیسے شخص کے اعتقاد  بدل سکتے ہیں تو ہمارا کیا بنے گا۔۔۔۔ 

کل میرے پوتے کی سالگرہ تھی۔ میرا سارا خاندان موجود تھا۔ کیک کاٹنے کے بعد یہ مسٗلہ بچوں کی ماں نے ان کے سامنے رکھا۔ میرا سب سے چھوٹا بیٹا جو سٹین فورٹ سے سائبر سیکورٹی کی ڈگری لے چکا ہے۔ ہنس دیا  اور ماں سے پوچھا۔ خوفزدہ آپ ہیں یا ابو! 

وہ خوف کے مقام ابتداء  تک پہنچ چکا تھا۔ خوفزدہ خود ہی گویا ہو ا  

(اگر انسان  زندگی کی عصر کے وقت، اپنی تربیت، اعتقاد، علم و سیاحت کے ہوتے ہوئے دین ہی  بارے میں اپنے نظریات تبدیل کر لے تو فکر مند ہونا قدرتی عمل ہے۔ اور اس کا سبب وہ ٹیکنالوجی ہے جس کے ہم سب مداح اور  benefiercies

  ہیں۔ میں اپنی ذات اور اپنے پیاروں کے خاتمۃبالایمان بارے خوف زدہ ہوں)

 ابو آپ کا خوف بجا ہے۔مصنوعی ذہانت کی کیمیاٗء سے کشید کردہ ایسی پروڈکٹس فرد کے موبائل فون پر دستیاب ہیں۔ جو رنجیدہ کو مخمور و سرشارکرنے کے علاوہ روح کو زخمی کرنے، اعتقاد کے نیچے سے مصلی کھینچ لینے، بیکار وجود کو عظمت و جلالت کی کرسی پر بیٹھا محسوس کرانے جیسا احساس پیدا کر سکتی ہے۔

میں نے کہا  مگر میں تو ان اعتقادی نظریات بارے فکر مند ہوں جو تمھارے انکل عمر پر سترکے پیٹے میں حملہ آور ہوئے  ہیں؟

ابو بات یہ ہے کہ کچھ حقیقت ہوتی ہے جس کو اساس بنا کر اس پر تغیر کی دیوار بنائی جاتی ہے اور پھر اپنے مطلب کا لنٹل ڈالا جاتا ہے۔ہمارے گھر کی لائبریری  میں  Andrew Wheatcraft کی کتاب پڑی ہے جس میں اس نے لکھا ہے  (اسلام صحرا کی مانند تھا) پھر ریت کے ان ذروں کو عمل نے متحد کیا۔ علماء  و مبلغین نے قرآن کی چتھری  تلے بنیادی کردار ادا کیا۔ مگر اس وقت اتحاد کی تسبیع کا دھاگہ ٹوٹ چکا ہے۔ متبرک  چھتری کا کپڑا پھٹ چکا ہے،  تنقیدی دھوپ اور ذہن بدلتی ژالہ باری کو روکنا ممکن نہیں ہے۔اسلام جذبات کی بجائے دلیل کی تبلیغ کرتاہے۔ مگر آج کل جذبات غالب ہیں اور دلیل تلاش کرنے والے، دلیل پیش کرنے والے موجود ہیں مگر صاحبان دلیل بزرگوں  نے خود ہی جذباتی  نوجوانوں کو سامنے کیا ہوا ہے۔ دلیل جس تعلیم یافتہ طبقے کے پاس ہے اس کے لباس اور شکل پر تنقید کی جاتی ہے۔ اس کے علم کے ماخذ کو نحس کہا جاتا ہے۔ یہی سبب ہے ان کی بات محدود طبقے تک پہنچتی ہے۔ دوسری طرف ٹوئٹر پر چند افراد  space  برپا کرتے ہیں۔ مگر ان کی پشت پر ادارے ہوتے ہیں۔ جب ایک فرد ان کے نرغے میں آتا ہے تو اس کا حشر وہی ہوتا ہے۔ جو آپ کے دوست کا ہوا ہے۔ 

کیا ہم بے بس ہو چکے ہیں۔میں نے سوال کیا 

آپ کے سوال کا جواب دینا اس وقت ممکن نہیں ہے کیونکہ ایک طرف ہم دفاعی حصار میں ہیں دوسری طرف جارہانہ پیش رفت میں خود ہمارے ہی کیمپ کے لوگ ہم سے مزاحم ہیں۔ مگر ایک بات میں یقین سے کہہ سکتا ہوں آخری کامیابی علم دلیل ہی کو ہونی ہے نہ کہ جذباتی مزاحمت کی۔ یہ انسانیت کی تاریخ ہے اور تاریخ اپنے آپ کو دھراتی ہے۔ 

اس بات کا کیا مطلب ہے کہ ہمارے ہی کیمپ کے لوگ ہم سے مزاحم ہیں کیا وہ مسلمان ہیں ؟  میں نے پوچھا 

ابو وہ ہم سے بہتر مسلمان ہیں۔ با عمل ہیں۔ وہ حقیقتوں کو ایسے دیکھ سکتے ہیں جیسے میں اس چمچ کو دیکھ رہا ہوں۔ مگر وہ دیکھنا نہیں چاہتے کیونکہ جس تشویش میں آپ مبتلا ہیں اس کی تپش  میں تو محسوس کرتا ہوں مگر ابھی تک یہ تپش وہاں تک نہیں پہنچی جہاں تک پہنچنی چاہیے تھی۔ 

 میں نے بیٹے کو ڈی ٹریک ہوتے دیکھا تو کہا  عمر کے بارے میں، میں ہی نہیں اس کی بیگم بھی فکر مند ہے۔فرح کا کہنا ہے  جب نزلہ کے جراثیم گھر میں گھس آئیں تو سب کی صحت خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ اس کو اصل تشویش اپنے بیٹوں کے بارے میں ہے۔

میرے لیے انکشاف تھا جب بیٹے نے کہا  شانی (عمر کا بیٹا)  فرضی نام سے اس سپیس کا حصہ ہے جو اس کے والد صاحب کو کھا گئی ہے۔ جب اس کے والد پہلی دفعہ اس سپیس میں بولے تھے۔ اسی دن ہی سے شانی باقاعدگی سے اس سپیش بارے مجھ سے بات کرتا رہا ہے۔ میں نے خوو بھی کئی بار انکل کو بولتے سنا ہے۔ مگر ہمار کنسرن عمر انکل نہیں ہیں۔ ہماری اصل تشویش وہ سوچ ہے جو ہمارے معاشرے میں تیزی سے پھیل رہی ہے۔ ہم نے ایک بار ارادہ کیا تھا۔ وہ تمام اکاونٹ بند کر ا دیں جو ایک مخصو ص جگہ سے اوپریٹ ہوتے ہیں مگر یہ اسلام کی اس بنیادی تعلیم کے خلاف ہے جس میں اللہ تعالی بنی آدم کے سامنے خیر اور شر کو بیان فرما کر بنی آدم کو چوائس کا موقع دیتا ہے۔ اس چوائس کو جو لوگ چنتے ہیں وہ عام لوگ نہیں ہوتے۔ ان کو گمراہ نہیں کہا جا سکتا۔ لوگ مذہب میں داخل ہوتے ہیں چھوڑ جاتے ہیں، کبھی کبھی پلٹ بھی آتے ہیں۔ یہ لوگ دلیل کو ماننے والے لوگ ہوتے ہیں۔ ان لوگوں کا وژن عام لوگوں سے بلند ہوتا ہے۔ یہ بہتر سے بہترین کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ شانی کا خیال ہے کہ اس کے والد پلٹ ائیں گے

میں نے پوچھا 

تمھار کیا خیال ہے عمر کے بارے میں کیا وہ لوٹے گا۔

میں نہیں جانتا  وہ لوٹیں گے یا نہیں مگر مدار کی گردش سے جب کوئی سیارہ نکل جائے تو وہ مدار میں واپس نہیں آیا کرتا۔۔۔۔

میرے گھر کے اندر اپنے بچوں سے اس بات چیت کو ساڑے تین سال گذر چکے ہیں۔ عمر اس دار فانی سے کوچ کر چکا ہے۔ اس کی وفات کے بعد فرح نے اپنے گھر کے ماحول میں اپنے ذہن کے مطابق تبدیلیاں کی۔ اس نے بتایا ہر ہفتے محفل کرانے کا مقصد صرف یہ ہے کہ نوجوانوں کو سوال کرنے کا موقع دیا جائے۔ ہر شخص ہر قسم کا سوال پوچھ سکتا ہے۔ اور میرے بیٹے ان سوالوں کا جواب دیتے ہیں۔ اور مجھے خوشی ہے سب سے تلخ اور بے ہودہ سوال خود میرے پوتے اور پوتیاں پوچھتے ہیں۔ اس عمر کے سوال عمر کے ساتھ ساتھ بڑے ہوتے جاتے ہیں اور جب سوال بوڑہے ہو جاتے ہیں۔۔۔  فرح کی آواز بوجھل ہورہی تھی ۔۔ میرے تصور میں مگر وہ سیارہ تھا جو مدار سے نکل جاتا ہے۔



ہفتہ، 7 جنوری، 2023

شادی کس سے کی جائے


 


شادی کس سے کی جائے 
یہ ایسا سوال ہے جس کا جواب کم لوگ ہی دے پاتے ہیں۔ہر نوجوان مرد خوبصورت ، نیک سیرت ، تعلیم یافتہ ، اچھے خاندان کی لڑکی سے شادی کرنا چاہتاہے

اور ہر نوجوان لڑکی کا اصرار ہے ، کہ اسے خوبصورت ، تعلیم یافتہ او ر معاشی طور پر مضبوط شریک حیا ت ملے۔

کیا تعلیم یافتہ ہونا ہی خوبی ہے
تعلیم ایسی نعمت ہے جو انسان کی شخصیت کو بدل کر رکھ دیتی ہے ۔ تعلیم کو پیغمبروں کی میراث بتایا جاتا ہے ۔ اس دنیا کی سب سے زیادہ عالی شان ہستی نے علم کی تعریف میں خالق کاہنات کو علیم بتایا ۔ علم ایک زیور ہے اور زیور خواتین پر ہی جچتا ہے ، اور جس خاندان یا گھرانے میں کسی تعلیم یافتہ عورت کا وجود ہو جائے ، وہ گھرانہ ایک نسل بعد ہی ممتاز ہو جاتا ہے ۔ کسی نے علم کے حصول کے لیے طویل سفر کرنے کی ہدائت کی اور کسی نے تعلیم یافتہ ماں کو معاشرے کی کامیابی قرار دیا، موجودہ دور میں دنیا میں ایسے معاشرے بطور مثال موجود ہیں جنھوں نے تعلیم کے بل بوتے پر ایک نسل کی طوالت میں اپنے معاشرے کو با عزت بنا دیا
جی ہاں ۔ ہم سفر کے چناؤ میں تعلیم کو ضرور اہمیت دیں ، اس سلسلے میں میرا مشورہ یہ ہے کہ آپ کا ہم سفر آپ سے زیادہ تعلیم رکھتا ہو تویہ ایک بہت بڑی کامیابی ہو گی ، خاص طور پر مرد حضرات اگر اس حقیقت کا ادراک کر لیں تو ان کا گھرانہ بہت جلد ترقی و کامیابی سے ہم کنار ہو سکتا ہے۔یہ سوچ کہ بیوی کا خاوند سے کم تعلیم یافتہ ہونا لازمی ہے ایک منفی سوچ ہے ، جو گھریلو اور خاندانی ترقی میں کوئی مثبت کردار ادا نہیں کرتی،
بچہ، جس گھرانے میں انکھ کھولتاہے ، جس معاشرت میں پل کر جوان ہوتا ہے، جن بزرگوں سے متاثر ہوتا ہے، یہ سارے عوامل نوجوان کے اعتقادات بن چکے ہوتے ہیں۔تعلیم ایسے نوجوان کے خیالات کی تطہیر میں مدد گار ضرور ہوتی ہے ۔
علموں بس کریں او یار
پنجابی زبان کے ایک بالغ الذہن شاعر ، اپنے اعتقادات کے عظیم مبلغ اور علم کے بڑے داعی نے درج بالا کلمات علم کی مذمت میں نہیں کہے بلکہ ان تعلیم یافتہ لوگوں کی مذمت کے لیے کہے ہیں جن کا
ْ تعلیم نے کچھ بھی نہ بگاڑا ْ
گو ایسے افراد کم ہی ہوتے ہیں جو اپنے علم کے نور کی روشنی میں چلنے کے منکر ہوں مگر ان کے وجود سے انکار ممکن نہیں ہے ۔ اس لائن میں سب سے پہلا نام ابلیس کا ہے جس کے علم نے اسے سوائے تکبر کے کچھ نہ دیا ۔ ہمارے معاشرتی زندگی میں ہم اپنے ارد گرد ایسے لوگوں کو کھلی آنکھ سے دیکھ سکتے ہیں جن کی مثال
ْ کتاب بردار گدہا ہے ْ
ہم سفر کے چناؤ سے قبل اس بات کی چھان پھٹک کر لینی چاہیے کہ اپ کا ساتھی کتاب بردار ہی نہ ہو ۔ اس کے جانچتنے کے طریقے ہیں مثال کے طور پر جو تعلیم یافتہ مرد ، محنت سے جی چرانے والا ہو ، رشتوں کی اہمیت سے منکر ہو ، تکبر کا شکار ہو ، ملازمت اس لیے نہ کرتا ہو کہ اس کے معیار کی نہیں ہے ۔۔۔ عورت ، اپنے جسم ، گھر بار کی صفائی، رویوں کی ترتیب ، رشتوں کی پہچان ، اپنے فرائض سے بے خبر ہو تو ایسے تعلیم یافتہ لوگ بے ضرر نہیں ہوتے گو آٹے میں نمک کا وجود لازمی ہے مگر اس کی زیادتی کھانے کے عمل ہی کو بد مزہ بنا دیتی ہے اور کھانے کو بد مزہ کرنے والا عنصر ایک ہوتا ہے مگر باورچی کی طویل محنت کا بیڑا غرق ہو جاتا ہے

 

جمعہ، 6 جنوری، 2023

نصیحت کیا ہے؟





سال دو ہزار سولہ میں دنیا بھر کے اخبارات میں جاپان میں بننے والی مصنوعات پر ایک بحث جاری تھی۔  اس بحث کا سبب جاپانی کی ایک گاڑیاں بنانے والی کمپنی  ٹویوٹا  کا یہ اعلان تھا کہ وہ دنیا بھر سے  چودہ لاکھ تیس ہزار گاڑیاں واپس منگوا رہی ہے اور خود کمپنی نے بتایا کہ ان گاڑیوں مین نصب ائر بیگ کمتر معیار کے ہیں۔
جنگ کے بعد جب جاپان نے عالمی مارکیٹ میں اپنی مصنوعات  فروخت کے لیے پیش کیں تو یورپ اور امریکہ میں ان مصنوعات کے متعلق عام آدمی کا تصور یہ تھا کہ جاپانی مصنوعات ناقابل اعتبار کھلونے ہیں۔ بلکہ یورپ میں اچھے سٹور جاپانی مصنوعات اپنی دوکانوں میں رکھ نا  اپنی دوکان کی توہین خیال کرتے تھے۔ 
انیس سو پینتالیس تک پوری دنیا کی سڑکوں پر امریکی گاڑیوں کا راج تھا۔ جنرل موٹرز کے دفتر پر لگا جھنڈا ایک گھمنڈ کے ساتھ لہراتا تھا۔ پھر یورپ میدان میں اترا۔اور تیس سالوں میں دنیا کے ایک سو چالیس ممالک میں سولہ ملین ووکس ویگن سڑکوں پر دوڑا دیں ۔ ٹویوٹا موجود تھی مگر غیر معروف تھی۔
انیس سو چون میں جاپان کی بڑی مصنوعات بنانے والی ایک سو چالیس کمپنیوں کے چیف ایگزیکٹو اور تین سو سے زائد مینیجرز نے جاپان کے سائنسدانوں کی یونین کے ساتھ مل کر ایک سیمنیار منعقد کیا۔ جو دو ہفتے سے زائد عرصہ تک چلا۔ اس سیمینار میں مصنوعات کے معیار کو بہتر کرنے پر غور کیا گیا اور کچھ فیصلے کیے گئے۔ان فیصلوں میں پہلا فیصلہ یہ اعتراف تھا کہ ان کی مصنوعات کا معیار ناقص ہے۔ اعتراف ایسا عمل ہے جو آگے بڑہنے کی راہ کھولتا ہے۔ ایسے اعتراف کی ہر تہذیب و تمدن،  معاشرہ اور مذہب حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ اعتراف میں فرد ہو کہ کمپنی، معاشرہ ہو کہ ملک اپنی غلط ہونے کو تسلیم کرتا ہے۔ اسلامی معاشروں میں اس عمل کو توبہ کہا جاتا ہے۔ جاپانیوں نے توبہ کی اور ہر کمپنی اور ادارے میں معیاریا  کوالٹی کنٹرول کے شعبے قائم کیے۔ اور اس شعبوں کے معیار کو بہتر کرتے رہنے کا انتظام کیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ چاند پر جانے والے 
 Apollo 11
 میں الیکٹرونکس سرکٹ کا پچھتر فیصد حصہ جاپان نے تیار کیا تھا۔  اپالو  کی چاند پر لینڈنگ کے دوران اس کے جسم سے ایک چھوٹا سا پرزہ ٹوٹ کر چاند کی سطح پر گر گیا تو ناسا کے مرکز میں سوال اٹھا کہ بلین ڈالر ز کے پرجیکٹ کو اس پرزے کی علیحدگی کے بعد سٹارٹ کرنا ممکن ہی نہیں رہا۔ چاند کی سطح پر موجود دو  اور چاند کے مدار میں چکر لگاتے تیسرے خلاباز کی زندگی پر سوال اٹھنا شروع ہوئے تو مرکز میں موجود جاپانی مطمن رہے انھیں معلوم تھا۔ اس پرزے کے گر کر علیحدہ ہو جانے کے باوجود اپالو کو دوبارہ سٹارٹ کر لیا جائے گا اور ایسا ہی ہوا۔ اپالو  کے کامیاب مشن نے جاپان کی الیکٹرانک سرکٹ والی مصنوعات کو دنیا بھر میں ایسی مقبولیت ملی کہ الیکٹرنک  سرکٹ  اور معیا ر جاپان کے نام کے ساتھ نتھی ہو گئے۔ 
جاپانیوں کی کامیابی کی کہانی ہر شعبے میں ایسی ہی رہی۔ انھوں نے معیار کی جانچ کو کنٹرول کرنے والے شعبے کی زبردست نگہداشت کی اور دنیا نے دیکھا جنرل موٹرز کے ہیڈ کوارٹر پر جاپان کا جھنڈا لہرا دیا گیا۔ یہ وہی جاپان تھا جو جنگ کے دوران اپنے دو شہروں کو ایٹم بم کی موت سلا چکا تھا۔ فوج ہار چکی تھی۔ عوام مایوس تھی۔ شکست کا معاہدہ ان کے گلے کا ہار بن چکا تھا۔ مگر انھوں نے اپنی تمام ناکامیوں کا اعتراف کیا۔ اور نئی نسل کو تعلیم دی۔ تعلیم کا معیار اتنا بلد کر دیا کہ پرائمری سکول میں ہی جاپانی بچہ زندگی گذارنے کا اخلاق سیکھ لیتا ہے۔  ایک امریکی
William Ouchi 
 کے مطابق جاپانیوں نے اپنے بچوں کی تعلیم کا معیاربہتر کرنے کے لیے پرائمری سکول کے استاد کا وظیفہ اور معاشرتی اعزازیونیورسٹی کے پروفیسروں والا کر دیا تھا۔ یوں جاپان کا اعلی ترین دماغ بچوں کا استاد بن گیا۔ جب تعلیم میں معیار آیا تو سوچ بھی معیاری ہو گئی۔ معیاری سوچ ہی معیاری مصنوعات پیدا کرتی ہے۔  پست ذہن اعلی اخلاقی کا مظاہرہ کر سکتا ہے نہ معیاری مصنوعات پیدا کر سکتا ہے۔ آج جاپان  اعلی کوالٹی کی اونچی سیڑہی پر براجمان ہو چکا ہے  تو اس کا سبب معاشرے کے اعلی اخلاق ہیں۔  اخلاق تعلیم سے پیدا ہوتے ہیں۔  معیاری تعلیم صرف اعلی دماغ دے سکتا ہے ۔ جاپان میں تعلیم میں معیار بلند کرنے والا شعبہ آج بھی متحرک ہے اور ہو لمحہ معیار کو برقار رکھنے میں نہیں بہتر بنانے کے لیے کوشاں ہے۔
اللہ تعالی کی دنیا وسیع ہے۔ ہر فرد،  قوم اور معاشرے کے اپنے تجربات ہوتے ہیں۔ کچھ افراد اور معاشرے پڑھ کر سبق حاصل کرتے ہیں۔ کچھ دیکھ کر نصیحت پکڑتے ہیں۔ کچھ اپنے ہی تجربات سے سبق پاتے ہیں۔ مگر وہ معاشرہ بد بخت ہو جاتا ہے۔ جو اعتراف نہیں کرتا اور توبہ سے تائب رہتا ہے۔ اللہ تعالی کے فرمان کا مفہوم ہے کہ انسان کے لیے اتنی ہی کامیابی ہے جتنی وہ کوشش کرے گا۔


 

پیر، 2 جنوری، 2023

عجیب موت




رہنے کو سدا دہر میں آتا نہیں کوئی

تم جیسے گئے ایسے بھی جاتا نہیں کوئی

کیفی اعظمی

اس کے جنازے میں پورا شہر ہی امڈ ۤآیا تھا ۔ علاقے میں اس کی شہرت تھی ۔ ہر چھوٹا    بڑا اس سے واقف تھا ۔ بلکہ بعض اوقات چھوٹے بچوں کے اصرار پر ان کے والدیناس سے بچوں کی ملاقات کرانے بھی لے آتے ۔ وہ بچوں ان کے والدین کی پانی سے تواضح کرتا۔  ملاقات کرنے کے لیے آنے والوں کو ہی نہیں بلکہ ہر شناسا و ناشناسا کو بھی پانی پلایا کرتا تھا ۔ لوگ بھی پیاسے ہوں یا نہ ہوں اس سے پانی ضرور پیا کرتے تھے ۔ یوں لگتا تھا اس کی زندگی کا مقصد ہی لوگوں کو پانی پلانا تھا ۔ یہ کام اس نے اپنے مرنے کے بعد شروع کیا تھا ۔  

جی آپ نے صیح پڑھا کہ یہ کام اس نے موت کے بعد شروع کیا تھا ۔ مرنے سے پہلے تو اس نے پانی کا گلاس تو بہت بڑا ہوتا ہے پانی کا قطرہ تک کسی کو پینے کے لیے نہیں دیا تھا ۔ اس کو اس بات کا احساس بھی مرنے کے بعد ہوا تھا ۔ یہ حقیقت بھی مرنے کے بعد فرشتوں نے اسے بتائی تھی کہ اس نے زندگی میں ایک بار کسی مہمان کو دودھ کا گلاس پلایا تھا ۔ حالانکہ اسے یاد ہی نہیں تھا کہ اس نے کسی کو دودھ کا گلاس پلایا ہو مگر جب فرشتوں نے اسے یاد کرایا تو اسے وہ اجبنی یاد آ گیا جو اس کے ڈنگروں والے باڑے کے پاس سے گذر رہا تھا ۔ اور بچھی ہوئی چارپائی اور حقہ دیکھ کر اس کے پاس بیٹھ گیا تھا۔ اس وقت وہ اپنی گائے کا دودھ دوھ رہا تھا ۔ اس نے پتہ نہیں کیا سوچ کر اس پردیسی کو دودھ کا پیالہ پیش کیا ۔ اجنبی سے حقہ سے منہ ہٹایا ۔ دودھ کا پیالیہ لیا ۔ اور ایک ہی سانس میں پی کر ہاتھوں سے مونچھوں پر لگے دودھ کو صاف کیا ۔ پیالہ چارپائی پر رکھا اور چل دیا۔ 

اس کی زندگی بھی گوجرخان کی ڈھوک حیات علی میں دوسرے لوگوں ہی کی طرح تھی ۔ صبح اٹھتے ہی کھیتی باڑی میں مصروف ہو جاتا ۔ اس کے بعد ڈنگروں کےپٹھوں کا انتظام کرتا ۔ شام کو دودھ دینے والے جانوروں کا دودھ دوہتھا ۔ اس کی زندگی رواں دواں تھی ۔ صحت بھی ٹھیک تھی مگر اچانک فوت ہو گیا ۔ گھر میں ماتم کہرام برپا کر دیتا ہے ۔ حیات علی کے گھر میں بھی کہرام برپا تھا ۔ جو سنتا اس بے وقت موت پر حیران ہوتا مگر موت سے مفر کسے ہے ۔ حقیقت کو قبول کرنا پڑتا ہے ۔اس کی موت کی حقیقت کو بھی تسلیم کر لیا گیا ۔ دور پار کے رشتے داروں کو فوتیدگی کی اطلاع دے دے گئ۔ قبر تیار کر لی گئی ۔ جب اس کا جنازہ اٹھایا گیا تو حیات علی اٹھ بیٹھا۔ عزاداروں نے چارپائی نیچے رکھ دی ۔ حیات علی نے بتایاوہ واقعی مر گیا تھا ۔ اور فرشتے اسے لے کر ایک لمبے ویران صحرا سے گذر کر ایک ایسے میدان میں لے کر گئے جہاں مرے ہوئے لوگوں کا رش تھا ۔ حیات علی کو بمعہ  اس کے کاغذات کے کو لے جانے والوں نے  اس میدان میں موجود ایک منشی کے سامنے پیش کیا ۔ اس نے کاغزات دیکھ کر حیات علی کو لے جانے والوں کو ڈانٹا کہ تم غلط آدمی کو اتھا لائے ہو ۔ جلدی سے واپس جاو اور مانکیالہ والے حیات علی کو لے کر آو۔ ڈھوک حیات علی والوں نے یہ سنتے ہی چالیس کلومیٹر دور مانکیالا کی طرف بندے دوڑائے انھوں نے واپس آ کر تصدیق کی کہ جب حیات علی ذندہ ہوا اسی وقت مانکیالہ والے حیات علی کا انتقال ہوگیا تھا۔ 

اصل کہانی مگر مانکیالہ والے حیات علی کی وفات کے بعد شروع ہوئی ۔ ہوا یہ کہ حیات علی کو جب مرنے کےبعد ایک بیابان صحرا سے گذارا جا رہا تھا تو اسے پیاس کی شدت نے پانی مانگنے پر مجبور کر دیا مگر اس کے دونوں نامانوس ساتھیوں میں سے ایک نے کہا تم نے تو پوری زندگی میں کسی کو پانی پلایا ہی نہیں اس لیے تمھیں پانی نہیں دیا جا سکتا۔ حیات علی کی عتش کی زیادتی پر دوسرے ساتھی نے کہیں جھانک کر دیکھا اور پہلے ساتھی کو بتایا کہ اس نے ایک راہ گیر کو دودھ کا گلاس پلایا تھا ۔ لہذا اسے دودھ کا ایک گلاس پیش کر دیا گیا ۔ 

   دوبارہ جی اٹھنے کے بعد حیات علی نے اپنی ڈھوک میں کنواں کھدوایا ۔ 

سارا دن اس کنویں کی منڈھیر پر بیٹھا رہتا اور ہر آنے جانے والے واقف و نا وقف کو پانی پلاتا ۔ اسی عمل کے دوران اس کی موت آگئی علاقے بھر کے لوگ اسے جانتے تھے ۔ اکثر نے اس کے ہاتھ سے پانی پیا ہوا تھا ۔ اس کی موت علاقے میں بڑی موت تھی سارا علاقہ جنازہ پڑہنے امڈ ۤایا تھا ۔

یہ کہانی ہمیں بیرون ملک مقیم ایک گوجرخانی نے سنائی تھی ۔ ہم نے گوجر خان جاکر اس محلے میں لوگوں سے معلومات حاصل کی ۔ کئی نوجوان اس کہانی سے نا آشنا تھے ۔ اکثر بزرگوں نے مگر اس کہانی کی تصدیق کی ۔ ذاتی طور پر اس کہانی کی صحت پر یقین ہو جانے کے باوجود اسے لکھنے پر دل مائل نہ ہوا۔  پھر گوجرخان کی معروف صوفی شخصیت جناب پروفیسر احمد رفیق اختر نے اس کی تصدیق کی تو ہم بھی اس کو ضبط تحریر میں لانے پر جرات کر لی ۔